Tag: مجاہد آزادی

  • احمد خان کھرل: انگریز افسر کی مدد سے انکار کرنے والا مجاہدِ آزادی

    احمد خان کھرل: انگریز افسر کی مدد سے انکار کرنے والا مجاہدِ آزادی

    1857ء میں‌ آج ہی کے روز انگریز اور سکھ سپاہیوں پر مشتمل فوجی دستوں نے احمد خان کھرل اور ان کے ساتھیوں کو چاروں طرف سے گھیر لیا۔ احمد خان کھرل اس وقت نماز کی ادائیگی میں مشغول تھے جب سپاہی ان تک پہنچے اور حالتِ‌ نماز میں انھیں گولیاں مار دی گئیں۔ احمد خان کھرل کو مجاہدِ آزادی اور شہید کہا جاتا ہے۔

    احمد خان اور ان کے ساتھی انگریزوں سے کئی دن سے بھڑے ہوئے تھے اور گشکوریاں کے نزدیک نورے دی ڈل کے مقام پر شہید کر دیے گئے۔ مشہور ہے کہ میرٹھ اور دلّی میں مقامی سپاہیوں کی انگریزوں کے خلاف جاری بغاوت کو کچلنے کے لیے گوگیرہ میں تعینات اُس وقت کے ایڈیشنل اسٹنٹ کمشنر لیوپولڈ فٹز جیرالڈ برکلے نے جب قبائلی سرداروں سے گھوڑے اور جوان طلب کیے تو رائے احمد خان کھرل نے جواب دیا کہ ’ہم اپنا گھوڑا، عورت اور زمین کسی کے حوالے نہیں کرتے۔‘ انگریز افسر نے اس جواب کو قبائلی سردار کی جانب سے بغاوت تصوّر کیا اور لڑائی کا آغاز ہوا۔

    بغاوت سے متعلق انگریز انتظامیہ کی رپورٹوں پر مبنی دستاویزات سے ظاہر ہے کہ یہ بغاوت کمالیہ، پنڈی شیخ موسیٰ، سید والا، ہڑپہ، چیچہ وطنی، تلمبہ، سرائے سدھو، شور کوٹ، جملیرہ اور پاک پتن کے علاقوں تک پھیل گئی تھی اور انگریزوں کو جھنگ، لیہ، گوجرانوالا اور لاہور سے کئی بار کمک ملنے کے باوجود مزاحمت اس وقت تک ختم نہیں ہوئی جب تک رائے احمد خان کھرل کو قتل نہ کر دیا گیا۔

    رائے احمد خان کھرل کا سنہ پیدائش 1776ء بتایا جاتا ہے۔ وہ رائے نتھو خاں کی اولاد تھے۔ احمد خان کھرل جنگِ آزادی کے دوران، نیلی بار کے علاقے میں انگریز راج کے خلاف گوگیرہ بغاوت کی قیادت کررہے تھے۔ رائے احمد خاں کھرل کا تعلق گاؤں جھامرہ سے تھا اور یہ علاقہ اب ضلع فیصل آباد میں شامل ہے۔

    1857ء کی جنگِ آزادی جسے غدر کا نام دیا گیا، کے دوران جب دلّی میں قتل و غارت ہوئی اور انگریز اس بغاوت کو کسی حد تک کچلنے میں کام یاب ہوگئے تو اس نے پنجاب میں زور پکڑا۔ ہر جگہ انگریزوں کو بغاوت کا شور سنائی دے رہا تھا اور انگریز افسروں پر اسے کچلنے کے لیے دباؤ تھا۔ اس بغاوت کو مقامی سرداروں کی مدد اور ان سے کمک حاصل کیے بغیر ختم کرنا ممکن نہیں تھا لیکن رائے کھرل کے جواب پر برکلے کو شدید مایوسی ہوئی۔ اس نے کھرل اور دیگر قبائل کے لوگوں کی پکڑ دھکڑ اور قید کے علاوہ مجاہدوں کو پھانسی دینے کا فیصلہ کیا جس پر احمد خان کھرل نے برادریوں کو اکٹھا کر کے انگریزوں سے لڑائی کا آغاز کردیا۔ ایک رات انھوں نے گوگیرہ کی جیل پر دھاوا بول دیا اور اپنے ساتھیوں کو قید سے آزاد کروانے میں کام یاب ہوگئے۔ کہتے ہیں کہ اس لڑائی میں تین سو سے زائد انگریز فوج کے سپاہی بھی مارے گئے۔ اس کا بدلہ لینے کے لیے برکلے نے احمد خان کھرل کے قریبی رشتہ داروں کو گرفتار کرلیا اور گھر کی بہو بیٹیوں کو بھی حراست میں لیا جس کے بعد رائے احمد خان کھرل گرفتاری دینے پر مجبور ہوگئے، مگر فتیانہ، جاٹوں اور وٹوؤں کی بڑھتی ہوئی سخت مزاحمت کے خطرے کے پیشِ نظر احمد خان کو گوگیرہ بنگلہ کے علاقے تک نقل و حمل محدود رکھنے کا حکم دے کر چھوڑ دیا گیا۔ مگر احمد خان کھرل انگریزوں کے خلاف لڑائی کے لیے نکل آئے اور کئی روزہ لڑائی کے بعد 21 ستمبر 1857ء کو وہ انگریزوں کے ہاتھ لگ گئے اور برکلے کے حکم پر گولی مار دی گئی۔

    دریائے راوی پار کر کے دائیں ہاتھ کی طرف راستے پر تقریباََ پانچ کلومیٹر کی مسافت طے کی جائے تو پناہ دا کُھوہ سے کچھ آگے احمد خان کھرل کا مقبرہ موجود ہے۔

    تاریخ کی کتب میں لکھا ہے کہ انگریز افسر برکلے نے احمد خان کا سَر قلم کروا کر نیزے پر رکھا اور اپنے ساتھ لے گیا۔ مقامی منتظم ایلفنسٹن نے رپورٹ کیا کہ ’اس مہم میں ہمیں شدید نقصان ہوا لیکن باغیوں کی ناقابل تلافی تباہی پر اس کا انجام ہوا۔ احمد خان تحریک کے مرکزی اکسانے والے تھے۔ پچھلی بغاوتوں میں کام یابی کے حوالے سے بھی شہرت رکھتے تھے، اور راوی کے قبائل پر ان کا اثر و رسوخ بے حد تھا۔‘

    انگریز افسر برکلے احمد خان کی شہادت کو اپنی بڑی فتح سمجھا تھا اور اس نے خیال کیا کہ اب مزاحمت ختم ہو جائے گی۔ لیکن فتیانوں نے اسے یہ دن دیکھنے نہ دیا اور ایک مقام پر حملہ کر کے برکلے کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ اس کا سَر بھی تن سے جدا کر دیا گیا۔ یہ انگریز افسر بنگلہ گوگیرہ سے بخشو جندراکا جاتی سڑک پر واقع ایک قبرستان میں دفن ہے۔

  • مولوی احمد اللہ شاہ کا تذکرہ جو ‘ڈنکا شاہ’ مشہور تھے

    مولوی احمد اللہ شاہ کا تذکرہ جو ‘ڈنکا شاہ’ مشہور تھے

    ڈنکا شاہ ناکام غدر کے بعد ایک سال ہی زندہ رہ سکے۔ آخری سانس تک انگریزوں سے انتہائی جواں مردی کے ساتھ اور منظّم طریقے سے لڑنے والے اس باغی سردار کو شاہجہاں پور کی پوائياں ریاست کے راجہ نے دھوکہ دے کر قتل کروا دیا تھا۔

    مؤرخین بتاتے ہیں‌ کہ احمد اللہ شاہ نے انگریزوں کے خلاف کبھی اسلام کا نام لے کر لوگوں کو جمع نہیں کیا بلکہ ان کے گروہ میں ہر ہندوستانی مادرِ وطن کی آزادی کی جدوجہد کے لیے شامل ہوا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ احمد اللہ شاہ کو گنگا جمنی تہذیب کی علامت کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ 5 جون 1858ء کو تحریکِ‌ آزادیٔ ہند کے اس سپاہ سالار کو شہید کر دیا گیا تھا۔

    ہندوستانی مؤرخ رام شنکر ترپاٹھی ایک دل چسپ واقعہ بیان کرتے ہیں: ‘احمد اللہ شاہ ایک سپاہ سالار تھے۔ وہ ہاتھی پر ہودے میں بیٹھ کر مسافت طے کرتے تھے۔ ان آگے ایک ہاتھی چلتا تھا، جس پر ڈنکا بجایا جاتا تھا اور اسی نسبت سے لوگ انھیں ڈنکا شاہ پکارنے لگے۔’ انھیں مولوی احمد اللہ شاہ بھی کہا جاتا تھا جنھوں نے لکھنؤ، شاہجہان پور، بریلی اور اودھ کے دیگر علاقوں میں باغیوں کی قیادت کی اور انگریزوں کی فوج کو کئی محاذوں پر شکست دی۔ ترپاٹھی کے مطابق ان کی فوج میں ہندو اور مسلمان دونوں مذاہب کے پیروکار سپاہی اور سردار شامل تھے۔

    مولوی احمد اللہ شاہ کا سنہ پیدائش 1787 اور شہر مدراس (موجودہ چنئی) بتایا جاتا ہے۔ وہ ایک باعمل مسلمان تھے جنھوں نے ہندوستان پر انگریزوں کے قبضے کو کبھی قبول نہ کیا اور ایسٹ انڈیا کمپنی کی فوج کو شکست دینے کے لیے میدان میں اترے۔ انگریزوں کے خلاف احمد اللہ شاہ کی اپنے لشکر کی منظّم قیادت اور ان کی بہادری کے چرچے ہندوستان بھر میں‌ عام تھے۔ وہ فیض آباد میں مذہبی اتحاد کا مظہر بھی تھے۔ جنگِ آزادیٔ ہند کے دوران ان کا ساتھ دینے والوں میں کئی شاہی شخصیات جیسے نانا صاحب اور خان بہادر خان روہیلہ بھی شامل تھے۔ خاص طور پر لکھنؤ اور اودھ کے خطّے میں ہونے والی تمام جنگوں میں باغی گروہوں کی قیادت احمد اللہ شاہ نے کی۔ اکثر لوگ مولوی احمد اللہ شاہ کے نام کے ساتھ فیض آبادی بھی لکھتے ہیں۔

    انگریز سرکار نے ڈنکا شاہ کو پکڑنے کے لیے چاندی کے پچاس ہزار سکّوں کا اعلان کیا تھا، لیکن وہ انھیں زندہ گرفتار نہیں کرسکے۔ راجہ جگن ناتھ سنگھ نے مولوی احمد اللہ شاہ کو قتل کرنے کے بعد ان کا سَر قلم کر کے مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا تھا۔ انگریز سرکار نے اعلان شدہ انعام اسے دیا تھا۔

    احمد اللہ شاہ نے فیض آباد کی مسجد سرائے کو اپنا ہیڈ کوارٹر بنایا تھا۔ ایک وقت ایسا بھی آیا جب انھوں نے فیض آباد اور اودھ کے ایک بڑے حصّے کو انگریزوں سے آزاد کرا لیا تھا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کے خلاف جنگ میں انھیں ایک بہترین جنرل کے طور پر دیکھا گیا۔ گو کہ وہ باقاعدہ تربیت یافتہ فوجی نہیں تھے، لیکن انھوں نے کانپور سے لکھنؤ اور دہلی سے بریلی اور شاہجہاں پور تک انگریزوں کے خلاف جنگ بہادری سے لڑی۔

    پوائیاں کے راجہ نے مولوی احمد اللہ شاہ کو دھوکہ دے کر اپنی مدد کے لیے بلایا اور قتل کروا دیا۔ مولوی احمد اللہ کے سَر اور جسم کو شاہجہاں پور میں مختلف مقامات پر دفن کیا گیا تھا۔

  • رائے احمد خاں کھرل: ایک بہادر سپاہی اور مجاہدِ آزادی

    رائے احمد خاں کھرل: ایک بہادر سپاہی اور مجاہدِ آزادی

    1857ء میں‌ آج ہی کے دن گشکوریاں کے نزدیک نورے دی ڈل کے مقام پر انگریزوں اور سکّھوں کے فوجی دستوں نے احمد خان پر حملہ کردیا۔ یہ مجاہدِ آزادی نماز کی ادائیگی میں مشغول تھے جب انھیں گولی کا نشانہ بنایا گیا۔ احمد خان اور ان کے ساتھی دشمن سے محاذ پر کئی دن سے بھڑے ہوئے تھے اور آخر کار لڑتے ہوئے شہید ہوگئے۔

    رائے احمد خاں کھرل کا سن پیدائش 1776ء ہے جو جنگِ آزادی کے دوران، نیلی بار کے علاقے میں برطانوی راج کے خلاف باغیوں (گو گیرہ بغاوت) کے سالار تھے۔ انھوں نے اور ان کے ساتھیوں نے برصغیر پر انگریزوں کا قبضہ اور ان کا راج کبھی تسلیم نہیں کیا تھا اور شروع ہی سے اس کے خلاف لڑتے رہے۔

    رائے احمد خاں کھرل کا تعلق گاؤں جھامرہ سے تھا جو اب ضلع فیصل آباد میں واقع ہے۔ وہ رائے نتھو خاں کے گھر پیدا ہوئے۔

    1857ء کی جنگِ آزادی کے دوران جب دلّی میں قتل و غارت کی گئی اور انگریزوں نے اس بغاوت کو کسی حد تک دبا دیا، تو یہ آگ پنجاب میں بھڑک اُٹھی۔ جگہ جگہ بغاوت کی آواز سنائی دے رہی تھی اور جب انگریز سرکار کی جانب سے برکلے نامی گورے نے اسسٹنٹ کمشنر کی حیثیت سے علاقے کے سرداروں کو طلب کرکے باغیوں سے نمٹنے کے لیے گھوڑے اور جوان مانگے تو احمد خان نے جواب دیا…”صاحب، یہاں کوئی بھی اپنا گھوڑا، عورت اور زمین نہیں چھوڑتا۔”

    اس کے بعد برکلے نے کھرلوں اور دیگر کی پکڑ دھکڑ اور جیلوں میں قید کا ہی سلسلہ نہیں کچھ مجاہدوں کو پھانسی بھی دے دی جس پر احمد خان کھرل نے برادریوں کو اکٹھا کر کے انگریزوں سے لڑائی کے لیے تیاری کر لی اور رات کی تاریکی میں گوگیرہ جیل پر حملہ کرکے تمام قیدیوں کو چھڑا لیا۔ اس لڑائی میں تین سو سے زائد انگریز سپاہی مارے گئے۔

    انگریز افسر برکلے نے انتقامی کارروائی کرتے ہوئے احمد خان کے قریبی رشتہ داروں اور بہو بیٹیوں کو حراست میں لے لیا تھا جس کے بعد رائے احمد خان کھرل نے مجبوراً گرفتاری دی، مگر فتیانہ، جاٹوں اور وٹوؤں کی بڑھتی ہوئی مزاحمتی کارروائیوں کے پیش نظر احمد خان کی نقل و حرکت کو گوگیرہ بنگلہ کے علاقے تک محدود کرکے چھوڑ دیا گیا۔ اس کے بعد احمد خان نے ایک موقع پر انگریزوں کے خلاف بھرپور لڑائی کا فیصلہ کیا جس کی اطلاع انگریز افسر کو بھی ہوگئی اور جھڑپوں کا سلسلہ شروع ہوا تو انگریز فوج نے جھامرے پر چڑھائی کردی، لیکن رائے احمد خان کھرل گرفتار نہ ہو سکا۔ انھوں نے گاﺅں کے بچوں اور عورتوں کو گرفتار کر کے گوگیرہ جیل میں بند کر دیا۔

    تب 21 ستمبر 1857ء کو ایک بڑا معرکہ ہوا اور ایک جگہ سردار کی موجودگی کی مخبری پر برکلے بھی موجود تھا۔ سب نے رائے احمد خان کھرل کو نماز کی نیّت باندھتے دیکھا اور اس کے بعد برکلے کے حکم پر گولی چلا دی گئی۔ احمد خان کے ساتھ ان کا بھتیجا مراد کھرل اور سردار سارنگ بھی شہید ہوگئے۔

    برکلے اسے اپنی فتح سمجھا تھا اور خیال کیا کہ احمد خان کے بعد اسے روکنے والا کوئی نہیں۔ اس کا واپسی کا سفر شروع ہوا تو ایک مقام پر فتیانوں نے حملہ کرکے برکلے کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا اور اپنے سردار کا بدلہ لے لیا۔