Tag: مجتبی حسین

  • ’’بانی صاحب بہرحال بانی صاحب ہیں!‘‘

    ’’بانی صاحب بہرحال بانی صاحب ہیں!‘‘

    راجیندر منچندا بانی کو اردو ادب میں‌ جدید لب و لہجے والے ایسے شاعر کے طور پر یاد کیا جاتا ہے جس نے غزل کو توانا فکر سے مالا مال کیا۔

    ان کا نام راجیندر منچندا تھا اور بانی تخلّص۔ وہ 1932ء کو ملتان میں‌ پیدا ہوئے۔ بانیؔ کا خاندان تقسیمِ ہند کے بعد بھارت ہجرت کر گیا۔ وہیں 1981 میں‌ بانی کی زندگی کا سفر تمام ہوا۔ ان کے تین شعری مجموعے منظرِ عام پر آئے جن کے نام‌ حرفِ معتبر، حسابِ رنگ اور شفقِ شجر ہیں۔ یہاں ہم بانی سے متعلق اردو کے معروف مزاح نگار مجتبیٰ حسین کے شخصی خاکے سے چند اقتباسات پیش کررہے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:

    بانی کو میں نے جس طرح اور جس حد تک دیکھا، پایا اور سنا ہے وہ سب کچھ اس خاکے میں ہے۔ ایک بانی وہ جو بانی ہے، دوسرا بانی وہ جو منچندا ہے۔

    نومبر 1972 میں جب میں دہلی آیا تو اس وقت تک میں نے ڈرتے ڈرتے بانی کا تھوڑا بہت کلام پڑھ لیا تھا۔ اور آج سربزم اس راز کا افشا کرتا چلوں کہ مجھے ان کا کلام بے حد پسند آیا تھا۔ دل میں اندیشہ تھا۔ کہ بانی سے کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی موڑ پر ضرور ملاقات ہوگی۔ لہٰذا سوچا کہ ان کا مزید کلام پڑھ لینا چاہیے۔ اگر وہ اپنی شاعری کے بارے میں کبھی کوئی سوال پوچھ بیٹھیں، اور میں معقول سا جواب نہ دے سکوں تو سبکی ہوگی یوں بھی دور اندیش آدمی خطرہ کو پہلے ہی بھانپ لیتا ہے، میں بانی کے کچھ شعر یاد کر کے اور ان کے کلام کے بارے میں اپنی رائے پر مبنی چند جملے تراش کر دلّی میں بلا خوف و خطر گھومتا رہا کہ بانی اب جہاں چاہیں ملیں وہ مجھے یوں غفلت میں نہ پائیں گے۔ مگر ایک دن کسی نے بتایا کہ بانی ان دنوں موت اور زیست کی کشمکش میں مبتلا ہیں اور اسپتال میں زیر علاج ہیں۔ پھر بہت عرصہ بعد ماولنکر ہال میں ریڈیو کے ایک مشاعرہ میں انہیں جناب ’’دم گفتگو صد سخن معتبر راز‘‘ نے میرا تعارف بانی سے کرایا۔ بانی انہی دنوں اسپتال سے چھوٹ کر آئے تھے۔ نقاہت کے باوجود بڑی گرم جوشی سے ملے پھر شکایت کی ’’بھئی ہم ہسپتال میں مہینوں تک موت سے لڑتے رہے مگر تم نے خبر تک نہ لی حالانکہ تمہیں دلّی آئے ہوئے تو کئی مہینے بیت گئے۔‘‘

    بانی شکایت کرتے رہے اور میں نظر جھکائے بانی کے کلام کے بارے میں ان جملوں کو یاد کرنے کی ناکام کوشش کرتا رہا جو میں نے کبھی حفظ کر رکھے تھے۔ خدا دشمن کو بھی کمزور حافظہ نہ دے۔ پھر بانی سے کافی ہاؤس، ادبی جلسوں اور مخصوص بیٹھکوں میں ملاقاتیں ہونے لگیں۔ بانی کو میں نے ہر دم ایک سیدھے سادے اور معصوم آدمی مگر ایک سرکش اور چوکس شاعر کے روپ میں پایا۔ ایسا شاعر جس کے سامنے ہر دم اس کی شاعری رہتی ہے۔ بانی کی شاعری مال عرب ہے جو ہمیشہ پیش عرب رہتا ہے۔

    مجھے یاد ہے کہ ایک دن میں اپنے ایک حیدر آبادی دوست کے ہمراہ کافی ہاؤس گیا تو دیکھا کہ بانی دوستوں میں گھرے بیٹھے ہیں۔ مسئلہ کچھ یوں زیر بحث تھا کہ بانی فلاں مشاعرہ میں کیوں نہیں گئے۔ بحث پہلے سے جاری تھی اور جب ہم ٹیبل پر پہنچے تو بانی دوستوں سے یوں مخاطب تھے۔ ’’بھئی بانی صاحب کو تم جانتے ہی ہو۔ وہ کیوں اس طرح کے مشاعروں میں جانے لگیں۔ بانی صاحب کو لوگوں نے سمجھ کیا رکھا ہے۔ بانی صاحب کا اپنا ایک الگ مقام ہے۔ بانی صاحب بہرحال بانی صاحب ہیں۔‘‘ غرض وہ بڑی دیر تک بانی صاحب ہی کی باتیں کرتے رہے۔ پھر وہ ٹیبل سے اٹھ کر چلے گئے۔ جب وہ چلے گئے تو میرے حیدرآبادی دوست نے کہا ’’یار بانی تو دہلی میں ہی رہتے ہیں۔ ان سے ملنے کی بڑی تمنا ہے۔ بڑا اشتیاق ہے۔ پھر ابھی جو صاحب اٹھ کر گئے ہیں۔ انھوں نے تو اس آتش شوق کو اور بھی بھڑکا دیا ہے۔ یار ہماری ان سے ملاقات تو کرا دو۔‘‘ محفل میں زور دار قہقہے بلند ہوئے اور میں نے اپنے دوست کو بتلایا۔ ’’میاں یہ جو صاحب ابھی تمہاری آتش شوق کو بھڑکا رہے تھے وہ اصل میں بانی صاحب ہی تھے۔ بانی صاحب کے راستہ میں خود بانی صاحب حائل ہیں۔ اب یہ تمہاری بدقسمتی ہے کہ ان سے ملاقات نہ ہو سکی۔‘‘

    اور میرا دوست حیران اور پھٹی پھٹی نگاہوں سے ہمارے قہقہوں کو دیکھتا رہ گیا۔ میں یہ بات مذاق میں نہیں بلکہ بڑی سنجیدگی کے ساتھ کہنا چاہتا ہوں کہ احتشام حسین مرحوم سے لے کر باقر مہدی اور شمس الّرحمن فاروقی تک سب ناقد بانی کے سچے قدردان ہیں۔ موخرالذکر دوناقدوں کی قدردانی کا میں چشم دید گواہ بھی ہوں۔

    ڈاکٹر نارنگؔ کے گھر پر ایک محفل میں جب بانی سے کلام سنانے کی فرمائش کی گئی تو شمس الّرحمن فاروقی نے کہا تھا۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے، بانی اپنے رتبہ کے اعتبار سے آخر میں کلام سنائیں گے۔ پہلے میں سنائے دیتا ہوں۔‘‘

  • اردو کی خدمت اور دادا

    اردو کی خدمت اور دادا

    اردو ادب میں مشاہیر کا تذکرہ، علمی و ادبی خدمات اور کارناموں کے ساتھ ساتھ اُن کی زندگی کے مختلف گوشے، اُن کی باتیں، یادیں اور مختلف واقعات ہمیں‌ کتابوں میں‌ پڑھنے کو ملتے ہیں جن میں‌ خاص طور پر سوانح عمریاں اور شخصی خاکوں‌ پر مبنی کتابیں شامل ہیں۔ یہ ایک ایسی ہی دل چسپ اور پُر لطف تحریر ہے، جو اردو کے معروف مزاح نگار مجتبیٰ‌ حسین کے قلم سے نکلی ہے اور ان کے ممدوح ہیں شاہد علی خاں۔

    شاہد علی‌ خاں بھارت میں ماہنامہ "کتاب نما” کے مدیر اور مکتبہ جامعہ دہلی کے جنرل منیجر کی حیثیت سے علمی و ادبی حلقوں میں معروف ہوئے۔ مجتبیٰ حسین اپنے مضمون میں‌ شاہد علی خاں کے بارے میں لکھتے ہیں، "کچھ لوگ ہوتے ہیں جو انعام حاصل کرنے کو ہی اہم کام سمجھتے ہیں اور کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو کام کو ہی سب سے بڑا انعام سمجھتے ہیں۔ شاہد علی خاں کا شمار مؤخر الذّکر لوگوں میں ہوتا ہے۔ ایک زمانہ تھا جب وہ سنتے تو سب کی تھے لیکن کام اپنا ہی کئے جاتے تھے۔ لیکن ادھر جب سے ان کی سماعت کسی قدر متاثر ہوئی ہے تب سے وہ کام میں کچھ زیادہ ہی ڈوبتے چلے جارہے ہیں۔ اب وہ یا تو کہنے والے کی بات کو سنی ان سنی کردیتے ہیں یا پھر بالکل ہی نہیں سنتے، ہر دم کام میں لگے رہتے ہیں۔ اگر آپ سلام کے بعد ان کی خیریت پوچھیں تو جواب ملے گا:

    ” جی ہاں! اس بار’کتاب نما‘ کی پوسٹنگ میں تین دنوں کی تاخیر ہوگئی۔”

    آپ پوچھیں گے”اس بار رمضان میں کتنے روزے رکھے؟”

    تو جواب ملے گا "ذرا مکتبہ جامعہ کی اسٹاک چیکنگ (Stock cheking) ہو جانے دیجئے پھر بتاؤں گا۔”

    غرض ان سے تبادلۂ خیال کے نتیجے میں فریقین کی طرف سے ادا ہونے والے جملوں کو اگر آپ ہو بہو کاغذ پر منتقل کر دیں تو بخدا کسی کام یاب نثری نظم کا لطف آجائے۔

    گرمی ہو یا سردی، آندھی ہو یا طوفان، کام کا دن ہو یا چھٹی کا دن، ان کی خدمات ہمیشہ جاری و ساری رہتی ہیں۔ میز پر مضامین کا انبار لگا ہوا ہے، خطوط کے پلندے بندھے ہوئے ہیں، کتابوں کے پروفس رکھے ہوئے ہیں، جا بجا کاغذات کا ڈھیر ہے۔ ان کے کام کرنے کی میز کو اگر کوئی دیکھ لے تو اسے اندازہ ہو گا کہ انتشار میں تنظیم، بکھراؤ میں ٹھہراؤ پیدا کرنے کا نام ہی اردو کی خدمت ہے۔ یہ اور بات ہے کہ ایسے انتشار میں اردو کی خدمت کرنا کوئی معمولی کام نہیں ہے۔

    شاہد علی خاں سے لگ بھگ تیس برس پہلے ممبئی میں پہلی ملاقات ہوئی تھی جب وہ مکتبہ جامعہ کی ممبئی برانچ میں منیجر تھے۔ وہاں بھی ان کا وہی حال تھا، وہی بے ترتیبی میں ایک ترتیب اور وہی بکھراؤ میں ایک رچاؤ۔ وہ اسی کو اردو تہذیب بھی کہتے ہیں۔ اردو میں ایسی بے لوث خدمت کرنے والے اب کم ہی پائے جاتے ہیں۔ ان کی خوبی یہ ہے کہ اردو کے سارے ادیبوں سے تعلق رکھنے کے باوجود ان کا تعلق ادیبوں کے کسی گروہ سے نہیں ہے۔ "کتاب نما” اور "پیامِ تعلیم” کے مدیر کی حیثیت سے بھی ان کی کوششیں یہ ہوتی ہیں کہ اردو کے سارے گروہوں کی نمائندگی ان کے رسالوں میں تو ہو لیکن ان کے رسالے کسی گروہ کے ترجمان نہ بن جائیں۔ اس مقصد کے لئے ہر ماہ وہ ایک ” مہمان مدیر” کو پکڑ کر لاتے ہیں۔ (اردو صحافت میں ‘مہمان مدیر’ کی ایجاد کا سہرا بھی شاہد علی خاں کے سر جاتا ہے۔)

    شاہد علی خاں بچّوں کے مقبول ماہنامہ "پیامِ تعلیم” کے مدیر بھی ہیں اور اردو میں بچّوں کے ادب کو فروغ دینے کے معاملے میں ہر دم سنجیدہ رہتے ہیں۔ انہیں اس بات کا احساس ہے کہ ہم جیسوں کی بچکانہ تحریروں کے لئے تو "کتاب نما” کے صفحے موجود ہیں لیکن "پیامِ تعلیم” میں ایسی تحریریں چھپنی چاہییں، جن سے واقعی بچّوں کی تربیت ہوسکے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ "کتاب نما” کے مقابلے میں "پیامِ تعلیم” کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔

    بچّوں سے شاہد علی خاں کی محبّت اندازہ ہمیں اس وقت ہوا جب چھ سات مہینے پہلے مکتبہ جامعہ کے رکشاران نعمت کا چار سالہ بیٹا اپنے باپ کے پاس کچھ عرصہ رہنے کے لئے بہار کے کسی گاؤں سے دہلی آیا۔ وہ بہار کی کسی مقامی بولی میں بات چیت کرتا تھا لیکن شاہد علی خاں نے اسے اردو اور اردو تہذیب سے واقف کرانے کا بیڑہ اٹھایا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ تین چار مہینوں میں وہ اردو تہذیب سے اتنا واقف ہوگیا کہ اس نے شاہد علی خاں کو اپنا دادا بنا لیا اور ان کے ملنے والوں کو حسبِ عمر چچا، تایا، انکل وغیرہ بنانے لگا۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ مکتبہ جامعہ کا ایک اہم کردار بن گیا اور مکتبہ جامعہ میں اس کی اہمیت خود شاہد علی خاں سے بھی کہیں زیادہ بڑھ گئی۔

    وہ اکثر شاہد علی خاں کی گود میں بیٹھا رہتا اور نت نئی فرمائشیں کرنے کے علاوہ وہ دل چسپ باتیں بھی کرتا جاتا۔ رات کو بھی وہ ان ہی کے پاس سو جاتا تھا۔ ایک دن وہ ہمیں مکتبہ جامعہ کے گیٹ پر مل گیا تو اس نے حسبِ معمول بہ آوازِ بلند ہمیں سلام کیا۔ (شاہد علی خاں کی وجہ سے اسے ہر ایک سے بہ آواز بلند بات کرنے کی عادت ہوگئی تھی) پھر مخصوص انداز میں ہماری خیریت پوچھنے لگا۔ ہم نے پوچھا:

    "شمشیر علی ! تمہارے دادا اس وقت کیا کر رہے ہیں؟”

    بولا:”وہی ہاتھ میں قلم لے کر کاغذوں کے پلندوں کے ساتھ کھیل رہے ہیں۔”

    ہم نے اسے ٹوکا کہ میاں شمشیر کوئی تم سے ایسا سوال کرے تو تمہیں اس طرح جواب نہیں دینا چاہیے بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ: "دادا اس وقت اردو کی خدمت کر رہے ہیں۔” اس کے بعد جب بھی وہ ہمیں ملتا اور ہم اس سے یہ سوال کرتے تو وہ فوراً جواب دیتا:” دادا! اردو کی خدمت کر رہے ہیں۔”

    ایک دن ہم مکتبہ گئے تو پھر وہ ہمیں صحن میں مل گیا۔ ہم نے پوچھا:” تمہارے دادا کیا کر رہے ہیں؟”

    روتے ہوئے بولا: وہ اردو کی خدمت نہیں کر رہے ہیں کیوں کہ انہیں کل سے بہت تیز بخار ہے، آپ لوگ خود اردو کی خدمت کیوں نہیں کرتے، میرے دادا سے کیوں خدمت کرواتے ہیں؟”

    اس کی بات کو سن کر ہم ہنسنے لگے تو غصے سے بولا:” میرے دادا کی طبیعت خراب ہے اور آپ ہنس رہے ہیں، میں آئندہ سے دادا کو کبھی اردو کی خدمت نہیں کرنے دوں گا۔”

    (ماخوذ از کتاب: شاہد علی خاں: ایک فرد – ایک ادارہ.)

  • "ہم وزیرِ اعظم کی دوڑ میں شامل نہیں…”

    "ہم وزیرِ اعظم کی دوڑ میں شامل نہیں…”

    ہمارا ذاتی خیال یہ ہے کہ جمہوریت میں عوام پر جو دو وقت کٹھن گزرتے ہیں ان کی صحیح عکاسی کرنے کے لئے مضطر خیرآبادی کے مصرع کی ترتیب میں ذرا سی تبدیلی کی ضرورت ہے۔

    مصرع اس طرح لکھا جانا چاہیے۔

    اِک ترے جانے سے پہلے

    اِک ترے آنے کے بعد

    اگر آپ مصرع کی الٹی ترتیب کو بغور پڑھیں تو عوام اور عاشق کے کٹھن وقت کے کرب کی مدد سے حکومتوں اور معشوق کی آمدورفت کے صحیح پس منظر سے کماحقہ لطف اٹھایا جاسکتا ہے۔ ہمارے ایک اور دوست تھے۔ بے حد جذباتی مگر رکھ رکھاؤ والے۔ اس ملک کے تیسرے عام انتخابات میں پہلی بار اپنے ووٹ کا استعمال کرنے کے لئے جب وہ اپنے گھر سے چلے تو کچھ اس شان سے کہ نئی شیروانی اور نئے جوتے پہن رکھے تھے۔ حد تو یہ ہے کہ زیر جامہ اور رومال بھی نیا تھا۔ آنکھوں میں سرمہ اور کان میں عطر کا پھاہا بھی رکھ چھوڑا تھا۔ یوں لگتا تھا جیسے عید کی نماز پڑھنے کے لیے جا رہے ہوں۔ یا سہرے کے بغیر خود اپنے ’عقد ثانی‘ میں شرکت کی غرض سے جا رہے ہوں۔ جمہوریت کا نیا نیا تجربہ تھا۔ اور ان دنوں عوام میں جوش و خروش بھی بہت پایا جاتا تھا۔ چنانچہ بعض جوشیلے رائے دہندے ایک ہی پولنگ بوتھ پر دس دس بوگس ووٹ ڈال کر آتے تھے۔ آج جب ہم جمہوریت سے اپنے پچاس سالہ شخصی تعلق پر نظر ڈالتے ہیں تو احساس ہوتا ہے کہ ہمارے حقیر اور ادنیٰ سے ووٹ نے جواہر لال نہرو، لال بہادر شاستری اندرا گاندھی، راجیو گاندھی کے علاوہ وی پی سنگھ اور من موہن سنگھ جیسی ہستیوں کو اس ملک کی وزارت عظمی کی کرسی تک پہنچانے میں مدد کی۔ ان پچاس برسوں تک تو معاملہ ٹھیک ٹھاک چلتا رہا۔ لیکن بعد میں سیاست دانوں کا سماجی اخلاقی اور علمی معیار رفتہ رفتہ گرتا چلا گیا۔

    ہمارے ایک دوست پارلیمنٹ کے رکن ہیں، دہلی میں رہتے ہیں اور انہوں نے ہم پر یہ پابندی عائد کر رکھی ہے کہ ہم کسی محفل میں ان کا تعارف رکن پارلیمنٹ کی حیثیت سے نہ کرائیں۔ کہتے ہیں لاج سی آتی ہے اور آنکھیں شرم سے جھک جاتی ہیں۔ اب پارلیمنٹ میں پڑھے لکھے ارکان کی تعداد کم ہوتی جا رہی ہے۔ غیر سماجی عناصر اور جرائم پیشہ افراد کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ بعض تو ایسے بھی ہیں جو جیلوں میں بند ہیں۔ تقریباً تین دہائیوں تک اس ملک کی سیاست میں ہماری دل چسپی برقرار رہی۔ لیکن جب پہلی مرتبہ مسز اندرا گاندھی انتخابات میں ہار گئیں تو ہم نے اس بات کا اتنا گہرا اثر قبول کیا کہ دو دنوں تک گھر سے باہر نہیں نکلے۔ بلکہ پریس کلب تک نہیں گئے۔ تب ہمیں احساس ہوا کہ ہم اپنا ووٹ، ووٹ بینک میں رکھنے کے عادی ہو گئے ہیں۔ لہٰذا ہم نے بڑی ہوشیاری سے اپنا ووٹ، ووٹ بینک سے نکالا اور اب اسے حسبِ موقع اور حسبِ ضرورت استعمال کرتے ہیں۔ یوں بھی بینکنگ سے ہمارا کوئی خاص سروکار نہیں ہے۔ لوگوں نے ہمیں بہت کم کسی بینک میں دیکھا ہو گا۔ جب ہم بینکوں میں اپنا پیسہ تک رکھنے کے قابل نہیں ہیں تو اپنے اکلوتے ووٹ کو کسی ووٹ بینک میں کیوں رکھیں۔

    ہمارے ایک اور دوست ہیں جو مسز اندرا گاندھی کی ہار سے اتنے دل برداشتہ ہوئے کہ جمہوریت سے ہی دست بردار ہو گئے۔ اب نہ تو وہ ووٹ دینے جاتے ہیں نہ کسی انتخابی جلسے کو سنتے ہیں۔ ہم شخصی طور پر جمہوری عمل سے اس قدر بد دل ہونے کے قائل نہیں ہیں۔ وہ صبح کبھی نہ کبھی تو آئے گی ہی جب ہمارے ووٹ کی حکمرانی پھر سے قائم ہو جائے گی۔ پچھلی دو دہائیوں کا ہمارا تجربہ کہتا ہے کہ مستقبل قریب میں اس ملک میں کسی ایک پارٹی کی حکمرانی قائم ہونے کے کوئی آثار نہیں ہیں۔ لہذا اب ’مخلوط حکومتوں‘ کا بول بالا ہے۔ مخلوط حکومت بے پیندے کے لوٹوں یا تھالی کی بینگنوں کی مدد سے بنائی جاتی ہے۔ مخلوط حکومت سرکار چلانے کے کرتب تو دکھا سکتی ہے لیکن کوئی کارنامہ انجام نہیں دے سکتی۔ پہلے سیاست دان اس ملک کو اور ملک کے شہریوں کو آپس میں جوڑنے کی بات کرتے تھے۔ مگر اب جوڑ توڑ ہی نہیں بلکہ توڑ توڑ کا چلن عام ہو گیا ہے۔ پہلے کوئی ایک سیاسی پارٹی شہریوں کو لوٹتی تھی مگر اب کئی لٹیرے مل کر پہلے عوام کے ووٹوں کو اور بعد میں ان کے نوٹوں کو لوٹنے میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ اس افراتفری کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ اب ہر کس و نا کس اپنے آپ کو اس ملک کا وزیر اعظم بننے کا اہل سمجھنے لگا ہے۔ جس لیڈر کو اس کی تعلیمی لیاقت کی بنیاد پر ایل ڈی سی کو نوکری نہیں مل سکتی اب وہ بھی وزیر اعظم بننے کے خواب دیکھنے لگا ہے۔

    جمہوریت کا یہی تو فائدہ ہے۔ تاہم ہم اپنے طور پر بہ رضا و رغبت یہ اعلان کر دینا چاہتے ہیں کہ ہم وزیر اعظم کی دوڑ میں شامل نہیں ہیں۔ اگر کوئی صاحب یا پارٹی ہمیں وزیر اعظم بنانے کا ارادہ رکھتی ہے تو وہ ہمارے بھروسے بالکل نہ رہیں۔

    (مجتبیٰ‌ حسین ہندوستان کے ممتاز مزاح نگار، انشا پرداز، خاکہ نویس اور کالم نگار تھے جن کی یہ مزاحیہ تحریر بھارت میں سیاست اور انتخابات سے متعلق ہے)

  • دیمک کا اردو شاعروں پر طنز

    دیمک کا اردو شاعروں پر طنز

    دیمک پودوں اور لکڑی میں پایا جانے والا ایک کیڑا ہے جس کی کئی اقسام ہیں۔ یہ جس لکڑی کو لگ جائے اسے ختم کر کے چھوڑتی ہے۔

    یہاں ہم اردو کے مشہور مزاح نگار مجتبی حسین کے مضمون سے ایک پارہ نقل کررہے ہیں جو آپ کی دل چسپی کا باعث بنے گا۔ یہ ان کے مضمون دیمکوں کی ملکہ سے ایک ملاقات سے ماخوذ ہے۔ مصنّف ایک لائبریری میں جاتے ہیں جہاں اردو کے شاعر کے دیوان میں انھیں دیمک نظر آتی ہے۔ اس سے ہونے والی بات چیت کچھ یوں‌ ہے۔

    "میں(مصنّف) نے کہا، ’’اب جب کہ تم نے خاصے اردو ادب کو چاٹ لیا ہے تو یہ بتاؤ یہ تمہیں کیسے لگتا ہے؟‘‘

    بولی، ’’شروع شروع میں یہ میرے پلے نہیں پڑا تھا۔ بڑا ریاض کیا۔ متقدمین کے دیوان چاٹے۔ مشکل یہ ہوئی کہ میں نے سب سے پہلے ’دیوانِ غالب‘ پر ہاتھ صاف کرنے کی کوشش کی۔ خاک سمجھ میں نہ آیا۔ لہٰذا مولوی اسماعیل میرٹھی کی آسان اور زود ہضم نظمیں پہلے نوشِ جان لیں۔ پھر وہ کیا کہتے ہیں آپ کے مفلر والے شاعر، وہی جو پانی پت میں رہتے تھے مگر وہاں کی جنگوں میں شریک نہیں تھے۔ ارے اپنے وہی مولانا حالی۔ ان کی نصیحت آمیز شاعری پڑھی۔ شاعری کم کرتے تھے نصیحت زیادہ کرتے تھے۔ وہ تو اچھا ہوا کہ تم لوگوں نے ان کی نصیحتوں پرعمل نہیں کیا۔ اگر کیا ہوتا تو آج تمہارے گلے میں بھی روایات کا ایک بوسیدہ سا مفلر ہوتا۔ اب تو خیر سے سارا ہی اردو ادب میری مٹھی میں ہے۔ سب کو چاٹ چکی ہوں۔

    ایک بارغلطی سے جوش ملیح آبادی کی ایک رباعی چاٹ لی طبیعت میں ایسا بھونچال آیا کہ سارا وجود آپے سے باہر ہونے لگا۔ اس کے اثر کو زائل کرنے کے لئے چار و ناچار، جاں نثار اختر کی گھر آنگن والی شاعری چاٹنی پڑی۔

    ویسے تو میں نے دنیا کی کم و بیش ساری زبانوں کی کتابیں چاٹ لی ہیں لیکن اردو شاعروں میں ہی یہ وصف دیکھا ہے کہ اپنے معشوق کو کبھی چین سے بیٹھنے نہیں دیتے۔ کوئی معشوق کے گیسو سنوارنا چاہتا ہے تو کوئی انہیں بکھیر دینا چاہتا ہے۔ کوئی وصل کا طالب ہے تو کوئی ہجر کی لذتوں میں سرشار رہنا چاہتا ہے۔ کوئی معشوق کو کوٹھے پر بلانے کا قائل ہے تو کوئی اس کا دیدار بھی یوں کرنا چاہتا ہے جیسے چوری کر رہا ہو۔ تم لوگ آخر معشوق سے چاہتے کیا ہو۔ اسے ہزار طرح پریشان کیوں کرتے ہو۔ اردو شاعری میں معشوق خود شاعر سے کہیں زیادہ مصروف نظر آتا ہے۔ یہ بات کسی اور زبان کے معشوق میں نظر نہیں آئی۔ اردو شاعروں کا عشق بھی عجیب و غریب ہے۔ عشق کرنا ہو تو سیدھے سیدھے عشق کرو بھائی۔

    کس نے کہا ہے تم سے کہ معشوق کی یاد آئے تو آسمان کی طرف دیکھ کر تارے گنتے رہو۔ اس کی یاد نے زور مارا تو اپنا گریبان پھاڑنے کے لئے بیٹھ جاؤ۔ معلوم ہے کپڑا کتنا مہنگا ہوگیا ہے۔ سیدھے سیدھے معشوق کے پاس جاتے کیوں نہیں۔ اپنے دل کا مدعا بیان کیوں نہیں کرتے۔ عاشق، بزدل اور ڈرپوک تو ایسے ہی چونچلے کر کے اپنے دل کو بہلاتا رہتا ہے۔‘‘

  • الف سے الہ آباد اور امرود

    الف سے الہ آباد اور امرود

    ہم جس شہر میں بھی جاتے ہیں اگر وہاں ذرا سی بھی فرصت میسر آ جائے تو اس شہر میں بیٹھ کر خود اسی شہر کے بارے میں ضرور کچھ نہ کچھ لکھتے ہیں۔ پچیس برس پہلے جب ہمیں پہلی بار الہ آباد جانے کا موقع ملا تو ایک صبح گنگا، جمنا اور سرسوتی کے سنگم پر جانے سے پہلے ہم نے حسبِ عادت الہ آباد کے بارے میں کچھ لکھا تھا۔

    پچھلے دنوں ہم پرانے کاغذات کو الٹ پلٹ رہے تھے تو ان میں سے یہ بھولی بسری تحریر بھی نکل آئی جسے تبدیلیٔ ذائقہ کے طور پر ہم اپنے قارئین کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں۔

    الف سے الہ آباد، الف سے اکبر، الف سے امرود، الف سے آنند بھون… اور بھی بہت سی چیزیں ہیں جو الف سے شروع ہو کر الہ آباد پر ختم ہو جاتی ہیں۔ جیسے اعجاز حسین، امرناتھ جھا، احتشام حسین، امیتابھ بچن اور اوپندر ناتھ اشک۔

    اب تو خیر سے الہ آباد میں الف سے شروع ہونے والی چیزوں کی بہتات ہو گئی ہے لیکن ایک زمانہ تھا جب اکبر الہ آبادی کو بھی یہ شکایت لاحق ہو گئی تھی…

    اب الہ آباد میں ساماں نہیں بہبود کے
    واں دھرا کیا ہے بجز اکبر کے اور امرود کے

    ذرا ان دنوں کے بارے میں سوچیے جب الہ آباد میں خود اکبر الہ آبادی بھی نہیں ہوا کرتے تھے اور الہ آباد کو سارے ملک میں شہرت دلانے کی ذمہ داری بیچارے امرودوں کے کندھوں پر تھی (اگر امرود کے کندھے ہوتے ہوں تو)۔ ان دنوں الہ آباد بھی امرود جتنا ہی ہو گا، بلکہ بعضے امرود تو الہ آباد سے بھی بڑے ہوں گے۔

    شہروں کے بسنے کی کوئی نہ کوئی وجہ ہوتی ہے اور الہ آباد کے بسنے کے بارے میں قیاس کیا جاتا ہے کہ لوگ یہاں پہلے امرود کھانے کے ارادہ سے ہی آئے اور اتنے دنوں تک امرود کھاتے رہے کہ ان کے بال بچّے پیدا ہو گئے۔ یہاں بچّے اس لئے پیدا ہو گئے کہ آدمی چوبیسوں گھنٹے تھوڑا ہی امرود کھا سکتا ہے۔ اسے دوسرے ضروری کام بھی تو کرنے پڑتے ہیں اور بال بچّے پیدا کرنا تو ہم ہندوستانیوں کا سب سے زیادہ ضروری کام ہے۔

    یہ بات ہم وثوق کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے اکبر الہ آبادی کا کلام ضرور پڑھا ہے لیکن یہ بات یقین کے ساتھ نہیں کہہ سکتے کہ زندگی میں ہم نے کبھی الہ آباد کے امرود کھائے بھی ہیں یا نہیں۔ پٹنہ جاتے ہوئے اس شہر سے ہم کئی بار گزرے ہیں اور ہر بار الہ آباد کے ریلوے اسٹیشن سے امرود خریدے ہیں لیکن بعد میں لوگوں نے بتایا کہ یہ امرود الہ آباد کے نہیں تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ کسی بھی شہر کا ریلوے اسٹیشن اس شہر کا حصہ نہیں ہوتا۔ وہ تو خود ایک بھاگتا ہوا شہر ہوتا ہے۔

    یوں بھی ریلوے اسٹیشن اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں شہر کے گھٹیا مال کو بیچنے کا نہایت اعلی انتظام ہوتا ہے۔ الہ آباد کے امرود کھانے ہوں تو ریلوے اسٹیشن سے اتر کر سیدھے امرود کے کسی باغ میں چلے جاؤ۔ پھر کسی اچھے سے پیڑ پر لگے ہوئے کسی اچھے امرود کو تاک کر پتھر کی مدد سے گراؤ اور اس سے پہلے کے باغ کا مالی تمہیں پکڑنے کے لئے آئے، امرود سمیت وہاں سے فرار ہو جاؤ۔ الہ آباد کے اصلی امرودوں کو کھانے کا یہی طریقہ ہے۔ کسی بھی پھل کے ذائقہ میں جب تک مالی کا ڈر شامل نہ ہو تب تک مزہ نہیں آتا۔ ہمارے بچپن کا مشاہدہ تو یہی کہتا ہے۔

    ایک بار ہم نے الہ آباد کے ریلوے اسٹیشن پر امرود بیچنے والے سے پوچھا، ’’میاں! کیا یہ امرود الہ آباد کے ہی ہیں؟‘‘

    بولا ’’جی نہیں، فیض آباد کے ہیں۔‘‘

    ’’پھر الہ آباد کے امرود کہاں ملیں گے؟‘‘ ہم نے پوچھا۔

    بولا ’’الہ آباد کے سوائے ہر جگہ مل جائیں گے۔ ویسے آپ کہاں سے آ رہے ہیں؟‘‘

    ہم نے کہا ’’دہلی سے آ رہے ہیں۔‘‘

    بولا ’’الہ آباد سے روزانہ ڈھیروں امرود دہلی جاتے ہیں۔ آپ کو وہیں مل جائیں گے۔ یوں بھی الہ آباد کی ہر اچھی چیز دہلی جا کر ہی پنپتی ہے۔ چاہے وہ امرود ہوں یا آنند بھون کے باسی۔‘‘

    ہم مایوس ہو کر ٹرین کے کمپارٹمنٹ میں واپس آ گئے تو ساتھی مسافر نے کہا، ’’یہ کیا آپ الہ آباد کے امرودوں کے چکر میں پڑ گئے۔‘‘ ہم نے کہا، ’’بس ذرا چکھ کے دیکھنا چاہتے تھے کہ ان کا ذائقہ کیسا ہوتا ہے۔‘‘

    مسافر بولا ’’بالکل ملیح آباد کے آموں جیسا ہوتا ہے۔‘‘ اس پر دوسرے مسافر نے مداخلت کرتے ہوئے کہا، ’’جی نہیں! ان کا ذائقہ تو ناگپور کے سنگتروں جیسا ہوتا ہے۔‘‘ تب تیسرا مسافر بیچ میں کچھ بولنا ہی چاہتا تھا کہ ہم نے اسے ٹوکتے ہوئے کہا، ’’آپ ان کے ذائقہ کے بارے میں کچھ نہ بولیں۔ میں جانتا ہوں کہ آپ کیا کہنے والے ہیں۔ آپ کہیں گے کہ الہ آباد کے امرودوں میں آگرہ کے پیٹھے کا ذائقہ ہوتا ہے۔ غنیمت ہے کہ کسی نے یہ نہیں کہا کہ الہ آباد کے امرود کھاؤ تو یوں لگتا ہے جیسے آپ دلّی کی نہاری کھا رہے ہوں۔‘‘

    ایک بزرگ بیچ میں بول پڑے ’’میاں سچ تو یہ ہے کہ تم میں سے کسی نے بھی آج تک الہ آباد کے امرود نہیں کھائے ہیں۔ اگر کھائے ہوتے تو یوں بہکی بہکی باتیں نہ کرتے۔ تم لوگ تو صرف اپنے سفر کو آسان بنانے کے لئے اپنے پسندیدہ ذائقوں کو امرودوں کے ذائقہ میں ملاتے چلے جا رہے ہو۔ یوں بھی الہ آباد وہ شہر ہے جہاں تین دریاؤں کا ملاپ ہوتا ہے۔ اب اگر تم بھی الہ آباد کے امرودوں کی مدد سے کئی ذائقوں کا سنگم بنا رہے ہو تو کوئی غلط بات بھی نہیں ہے۔‘‘

    ہم نے کہا، ’’اب میل ملاپ اور سنگم وغیرہ تو صرف دریاؤں میں ہی پایا جاتا ہے ورنہ انسانوں میں تو یہ چیز ختم ہوتی جا رہی ہے۔‘‘

    بزرگ بولے ’اور الہ آباد اس بھولی بسری گنگا جمنی تہذیب کا مرکز رہ چکا ہے۔ فراقؔ زندگی بھر اپنے نام کے ساتھ گورکھپور کا دم چھلہ لگاتے رہے لیکن رہے الہ آباد ہی میں۔ حیدرآباد میں ایک سڑک ہے جس کا نام ’’جگر مراد آبادی روڈ‘‘ ہے (شاید اب بھی ہو) جو لوگ اردو شاعری سے واقف نہیں ہیں وہ حیرت کرتے ہیں کہ حیدرآباد میں مراد آباد کی روڈ کہاں سے آ گئی۔ مراد آباد والے اسے یہاں سے اٹھا کر کیوں نہیں لے جاتے۔ کیا مراد آباد میں سڑکوں کی اتنی فراوانی ہے کہ وہاں کی سڑکیں دوسرے شہروں کو دی جانے لگی ہیں۔

    شہر صرف سڑکوں اور عمارتوں سے نہیں بنتا۔ اس شہر میں بسنے والوں کے رہن سہن کے انداز اور رنگ ڈھنگ سے بنتا ہے اور اچھا شہر وہی ہوتا ہے جو باہر سے جتنا آباد نظر آتا ہے اس سے کہیں زیادہ وہاں کے بسنے والوں کے دلوں کے اندر بھی آباد نظر آئے اور حقیقت تو یہ ہے کہ لوگوں کے دلوں میں بسنے والا شہر باہر بسے ہوئے شہر سے کہیں زیادہ بڑا اور با رونق ہوتا ہے۔ پھر الہ آباد ایک ایسا شہر ہے جو کسی زمانہ میں آزادی کی تحریک کا مرکز رہا ہے۔ ایک زمانہ میں تو یہ سارے دیش کے باسیوں کے دلوں میں آباد رہا کرتا تھا، الہ آباد پہلے سوچتا تھا اور سارا دیش بعد میں اس پر عمل کرتا تھا۔ آپ اسے صرف امرودوں کے حوالے سے ہی کیوں جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔‘‘

    ہم جیسوں کے ساتھ مشکل یہ ہے کہ ہم دماغ سے نہیں بلکہ پیٹ سے سوچتے ہیں۔ چنانچہ اس بات چیت کے بعد ہم نے امرود (صرف الہ آباد کے) کھانے سے توبہ کر لی۔ اب اکبر الہ آبادی اور فراق گورکھپوری کی شاعری کو پڑھ کر اور امیتابھ بچن کی فلموں کو دیکھ کر امرودوں کا مزہ لوٹتے ہیں لیکن جی چاہتا ہے کہ اے کاش الہ آباد کا گنگا جمنی سنگم کبھی ہمارے معاشرہ کو پھر سے سیراب کر دے۔

    (بھارت سے تعلق رکھنے والے اردو کے معروف مزاح نگار مجتبیٰ حسین کے قلم سے)