Tag: مجروح سلطان پوری

  • جنوں صفات مجروح جن کے فلمی گیت آج بھی مقبول ہیں

    جنوں صفات مجروح جن کے فلمی گیت آج بھی مقبول ہیں

    ترقی پسند ادب کے زمانے میں جب نظم کے مقابلے میں صنفِ غزل کو کمتر خیال کیا جارہا تھا اور اس کے خلاف مہم بھی شروع کردی گئی تھی، تب مجروح سلطان پوری نے غزل لکھی اور اس کی آبرو کو سلامت رکھا۔ آج عمدہ غزل گو اور فلمی گیت نگار مجروح سلطان پوری کی برسی ہے۔

    برصغیر پاک و ہند میں جن شعراء کو بطور نغمہ نگار زیادہ شہرت اور پذیرائی ملی، مجروح سلطان پوری ان میں سے ایک ہیں۔ وہ بھارت کے متوطن تھے اور غزل کے ساتھ انھوں نے نظم اور گیت نگاری میں‌ بڑا نام پایا۔ مجروح سلطان پوری کی غزلیں اور نظمیں زباں زدِ عام ہوئیں جب کہ فلمی نغمات نے مجروح کو لازوال شہرت سے ہمکنار کیا۔ مجروح سلطان پوری 50 اور 60 کی دہائی میں بھارتی فلمی صنعت میں بحیثیت نغمہ نگار چھائے رہے اور کوئی ان کی جگہ نہیں لے سکا۔

    رفعت سروش کو مجروح کی رفاقت نصیب ہوئی تھی جو ان کی وفات پر اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں‌:” ذہن ماضی کے نہاں خانوں میں جاتا ہے، اور مجھے یاد آرہے ہیں بہت سے ایسے لمحے جو مجروح کی ہم نفسی اور رفاقت میں گزرے۔ اوائل 1945ء کی کوئی شام۔ اردو بازار (دہلی) مولانا سمیع اللہ کے کتب خانہ عزیزیہ کے باہر رکھی ہوئی لکڑی کی وہ بنچیں جن پر ہندوستان کے سیکڑوں علماء، شعراء، دانشور، فقیر اور تو نگر بیٹھے ہوں گے۔ میں اپنی قیام گاہ واقع گلی خان خاناں اردو بازار سے نکلا اور حسبِ معمول ٹہلتا ٹہلتا کتب خانہ عزیزیہ پہنچا۔ یہاں مولانا کی باغ و بہار شخصیت ہر شخص کا استقبال کرتی تھی۔ ایک بنچ پر ایک خوش شکل اور خوش لباس، شیروانی میں ملبوس نوجوان کو بیٹھے دیکھا۔ مولانا نے تعارف کرایا یہ ہیں مجروح سلطان پوری۔

    اس زمانے کے ابھرتے ہوئے اور مترنم غزل گو شعرا کو جگر مراد آبادی کی سرپرستی حاصل تھی۔ چاہے شکیل ہوں، راز مراد آبادی ہوں یا خمار بارہ بنکوی اور مجروح سلطانپوری۔ یا بعد میں شمیم جے پوری۔ جگر صاحب اپنے ساتھ نوجوان شعراء کو لے جاتے تھے اور انھیں نمایاں ہونے کا موقع مل جاتا تھا۔ مجروح کی بمبئی میں آمد کے سلسلے میں سید سجاد ظہیر ( بنے بھائی) نے اپنی خود نوشت روشنائی میں لکھا ہے کہ مجروح سلطان پوری جگر صاحب کے ساتھ لگے لگے بمبئی آئے، ترقی پسندوں سے ملے اور پھر ترقی پسند مصنّفین کے لیڈروں میں شامل ہوگئے۔

    مجروح نے کئی ماہ کی جیل کاٹی۔ اس زمانے میں ان کی پریشانیاں بہت بڑھ گئی تھیں۔ یہاں تک ہوا کہ انھوں نے اپنی بیگم کو بطور امداد کچھ روپے بھیجنے کے لیے اپنے کچھ دوستوں کے ناموں کی لسٹ بھیجی جس میں راقم الحروف کا نام بھی شامل تھا۔ ایک دو ماہ بعد راجندر سنگھ بیدی نے مجروح کی مدد کی اور جب تک وہ جیل میں رہے ان کے اخراجات اپنے ذمے لے لیے۔ غرض مجروح سلطان پوری آہستہ آہستہ انجمن ترقی پسند مصنّفین سے عملی طور پر دور ہوتے چلے گئے۔ اور خود انجمن بھی کم فعال رہ گئی تھی۔”

    1919ء میں نظام آباد ضلع سلطان پور میں پیدا ہونے والے مجروح کا اصل نام اسرار حسین خان تھا۔ ان کے والد محکمۂ پولیس میں ملازم تھے۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد مجروح نے حکمت کا پیشہ اختیار کیا اور ساتھ ساتھ شاعری بھی کرتے رہے۔ بعد میں انھوں نے حکمت کو خیرباد کہہ کر شاعری پر توجہ دی

    خلیق انجم نے مجروح کے شخصی خاکے میں ایک جگہ لکھا ہے: مجروح بہت ذہین طالب علم تھے اور طالبِ علمی ہی کے زمانے میں طبّ پر انہوں نے ایسی قدرت حاصل کر لی تھی کہ جھوائی ٹولے کے بڑے طبیب حکیم عبدالمعید جب کسی علاج کے سلسلے میں باہر تشریف لے جاتے تو مجروح کو اپنی کرسی پر بٹھا کر جاتے۔ 1938ء میں کالج سے سند حاصل کرنے کے بعد مجروح فیض آباد کے قصبہ ٹانڈہ چلے گئے اور وہاں انہوں نے اپنا مطب قائم کر لیا۔ مجروح نے خود مجھے مسکراتے ہوئے بتایا تھا کہ ٹانڈہ میں ایک بہت خوب صورت لڑکی سے ان کو عشق ہو گیا تھا۔ جس کا بعض لوگوں کو علم ہو گیا۔ اس لیے لڑکی کی رسوائی کے ڈر سے وہ مانڈہ چھوڑ کر سلطان پور آ گئے۔ ایک گفتگو کے دوران مجروح نے دماغ پر زور دے کر بتایا تھا کہ انہوں نے 1935ء یا 1936ء میں شاعری شروع کی تھی۔”

    بعد میں مجروح جگر مراد آبادی کے توسط سے مشہور ہدایت کار اے آر کاردار سے ملے اور اے آر کاردار نے ان سے فلمی گیت لکھنے کو کہا۔ لیکن اس وقت مجروح نے انکار کر دیا۔ وہ اسے معیاری اور ارفع کام نہیں سمجھتے تھے۔ جگر مراد آبادی نے انھیں سمجھایا اور پھر کاردار کے ساتھ مجروح موسیقار نوشاد کے پاس پہنچے جنھوں نے اس نوجوان شاعر کا ٹیسٹ لیا۔ مشہور ہے کہ نوشاد نے شاعر مجروح کو ایک طرز دی اور کہا کہ وہ اس پر کچھ لکھ دیں۔ مجروح نے ’جب اس نے گیسو بکھیرے، بادل آیا جھوم کے‘‘لکھ کر دیا جس کے بعد انھیں فلم ’’شاہ جہاں‘‘ کے نغمات لکھنے کے لیے کہا گیا۔ مجروح موسیقی کا بھی شوق رکھتے تھے اور سیکھنا چاہتے تھے لیکن والد کو یہ ناپسند تھا اور اس لیے ان کا یہ شوق پورا نہ ہوسکا۔

    فلم شاہ جہاں 1946ء میں ریلیز ہوئی اور اس فلم کے نغمات نے ہر طرف دھوم مچا دی۔ اس فلم کے ایک گیت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جب گلوکار کے ایل سہگل نے یہ گیت ’جب دل ہی ٹوٹ گیا، اب جی کر کیا کریں گے‘ سنا تو کہا کہ میری ارتھی اٹھانے کے موقع پر اس گیت کو گایا جائے۔ شاہ جہاں کے بعد مجروح کو فلم ’’مہندی، انداز، اور آرزو‘‘ ملی اور ان کے تحریر کردہ گیتوں نے مقبولیت حاصل کی۔ ان کام یابیوں کے بعد فلم نگری میں مجروح سلطان پوری کی خوب شہرت ہوئی۔

    مجروح ان شعرا میں سے تھے جو بائیں بازو کے نظریات رکھتے تھے۔ وہ انجمن ترقی پسند مصنفین کے سرگرم رکن بھی بن گئے تھے۔ 1949ء میں مجروح کو حکومت کے خلاف نظمیں لکھنے پر گرفتار کر لیا گیا۔ ان کے ساتھ مشہور اداکار بلراج ساہنی کو بھی جیل بھیج دیا گیا۔مجروح سے کہا گیا کہ وہ معافی مانگیں۔ لیکن انکار پر مجروح کو دو سال قید کی سزا سنا دی گئی۔ اس دوران ان کے کنبے نے شدید مالی مشکلات کا سامنا کیا۔

    فلم ساز اور ہدایت کار ناصر حسین کی فلموں کے لیے مجروح کے لکھے ہوئے نغمات کی مقبولیت آج بھی برقرار ہے۔ مجروح کا 60 سالہ فلمی کیریئر ان کی شہرت کے ساتھ کئی ایوارڈ اور فلمی دنیا میں زبردست پذیرائی سے بھرا ہوا ہے۔ 1965ء میں فلم ’دوستی‘ کا نغمہ ’’چاہوں گا میں تجھے سانجھ سویرے‘‘ لکھنے پر مجروح سلطان پوری کو فلم فیئر ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔1993ء میں دادا صاحب پھالکے ایوارڈ دیا گیا۔ ناصر حسین کی فلموں کے لیے مجروح نے جو گیت لکھے ان میں سے زیادہ تر گیت مقبول ہوئے اور فلمیں کام یاب ثابت ہوئیں۔

    مجروح کی شاعری کے آغاز کے بارے میں مجروح کے لڑکپن کے دوست نے رسالہ "چراغ” (بمبئی) میں لکھا ہے: "مجروح کی طبیعت کو شاعری سے لگاؤ اور کافی مناسبت تھی۔ سلطان پور میں ہی پہلی غزل کہی اور وہیں کے ایک آل انڈیا مشاعرے میں سنائی۔ اس مشاعرے میں مولانا آسی الدنی شریک تھے۔ مجروح نے اپنی ایک غزل مولانا کی خدمت بغرضِ اصلاح روانہ کی۔ مولانا نے مجروح کے خیالات کو باقی رکھنے اور کسی صحیح مشورے کے بجائے ان کے اشعار ہی سرے سے کاٹ دیے اور اپنے اشعار لکھ دیے۔ مجروح نے مولانا کو لکھا کہ مقصدِ اصلاح یہ ہے کہ اگر قواعد با زبان یا بحر کی کوئی لغزش ہو تو مجھے آپ اس طرف متوجہ کریں، یہ نہیں کہ اپنے اشعار کا اضافہ کر دیں۔ مولانا نے جواب دیا کہ اس قسم کی اصلاح کے لیے میرے پاس وقت نہیں، چناںچہ یہ سلسلہ بند ہو گیا۔”

    اس کے بعد مجروح نے اپنا کلام کسی استاد کو نہیں دکھایا اور خود محنت کر کے فنِ شاعری اور زبان و بیان پر وہ قدرت حاصل کی جو ان کے معاصرین میں بہت کم لوگوں کو نصیب تھی۔

    بھارت کے اس مشہور فلمی شاعر کے جن گیتوں نے مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم کیے، ان میں چھوڑ دو آنچل زمانہ کیا کہے گا، چاہوں گا میں تجھے سانجھ سویرے، بابو جی دھیرے چلنا، چلو سجنا جہاں تک گھٹا چلے و دیگر شامل ہیں۔

    مجروح سلطان پوری کا یہ زباں زدِ عام شعر آپ نے بھی سنا ہوگا۔

    میں اکیلا ہی چلا تھا جانبِ منزل مگر
    لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا

    24 مئی 2004ء کو مجروح سلطان پوری اس دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔ ان کے یہ اشعار بھی بہت مشہور ہوئے:

    جلا کے مشعلِ جاں ہم جنوں صفات چلے
    جو گھر کو آگ لگائے ہمارے ساتھ چلے
    ستونِ دار پہ رکھتے چلو سَروں کے چراغ
    جہاں تلک یہ ستم کی سیاہ رات چلے

  • اردو غزل کی آبرو مجروح سلطان پوری

    اردو غزل کی آبرو مجروح سلطان پوری

    ہندوستان کے ممتاز ترقّی پسند غزل گو شاعر، اور مقبول فلمی نغمات کے خالق مجروح سلطان پوری 24 مئی 2000ء کو اس دنیا سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگئے تھے۔

    رفعت سروش کو مجروح کی رفاقت نصیب ہوئی تھی جو ان کی وفات پر اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں‌، ذہن ماضی کے نہاں خانوں میں جاتا ہے، اور مجھے یاد آرہے ہیں بہت سے ایسے لمحے جو مجروح کی ہم نفسی اور رفاقت میں گزرے۔ اوائل 1945ء کی کوئی شام۔ اردو بازار (دہلی) مولانا سمیع اللہ کے کتب خانہ عزیزیہ کے باہر رکھی ہوئی لکڑی کی وہ بنچیں جن پر ہندوستان کے سیکڑوں علماء، شعراء، دانشور، فقیر اور تو نگر بیٹھے ہوں گے۔ میں اپنی قیام گاہ واقع گلی خان خاناں اردو بازار سے نکلا اور حسبِ معمول ٹہلتا ٹہلتا کتب خانہ عزیزیہ پہنچا۔ یہاں مولانا کی باغ و بہار شخصیت ہر شخص کا استقبال کرتی تھی۔ ایک بنچ پر ایک خوش شکل اور خوش لباس، شیروانی میں ملبوس نوجوان کو بیٹھے دیکھا۔ مولانا نے تعارف کرایا یہ ہیں مجروح سلطان پوری۔

    اس زمانے کے ابھرتے ہوئے اور مترنم غزل گو شعرا کو جگر مراد آبادی کی سرپرستی حاصل تھی۔ چاہے شکیل ہوں، راز مراد آبادی ہوں یا خمار بارہ بنکوی اور مجروح سلطانپوری۔ یا بعد میں شمیم جے پوری۔ جگر صاحب اپنے ساتھ نوجوان شعراء کو لے جاتے تھے اور انھیں نمایاں ہونے کا موقع مل جاتا تھا۔ مجروح کی بمبئی میں آمد کے سلسلے میں سید سجاد ظہیر ( بنے بھائی) نے اپنی خود نوشت روشنائی میں لکھا ہے کہ مجروح سلطان پوری جگر صاحب کے ساتھ لگے لگے بمبئی آئے، ترقی پسندوں سے ملے اور پھر ترقی پسند مصنّفین کے لیڈروں میں شامل ہوگئے۔

    مجروح نے کئی ماہ کی جیل کاٹی۔ اس زمانے میں ان کی پریشانیاں بہت بڑھ گئی تھیں۔ یہاں تک ہوا کہ انھوں نے اپنی بیگم کو بطور امداد کچھ روپے بھیجنے کے لیے اپنے کچھ دوستوں کے ناموں کی لسٹ بھیجی جس میں راقم الحروف کا نام بھی شامل تھا۔ ایک دو ماہ بعد راجندر سنگھ بیدی نے مجروح کی مدد کی اور جب تک وہ جیل میں رہے ان کے اخراجات اپنے ذمے لے لیے۔ غرض مجروح سلطان پوری آہستہ آہستہ انجمن ترقی پسند مصنّفین سے عملی طور پر دور ہوتے چلے گئے۔ اور خود انجمن بھی کم فعال رہ گئی تھی۔

    مجروح سلطان پوری اُن خوش نصیب شعراء میں سے ہیں جنھوں نے کم سے کم کہا، اور زیادہ سے زیادہ شہرت حاصل کی۔ جب فلمی دنیا کے رنگ ڈھنگ بدلنے لگے تو اس چیختی چنگھاڑتی دنیا میں” طوطئ مجروح” کی ضرورت کم ہونے لگی اور انھوں نے پھر ادبی دنیا کی طرف سبقت کی۔ وہ واپس آئے اپنی ایک نظم "قلم گوید کے” ساتھ مگراب زمانہ بہت آگے نکل چکا تھا۔ مجروح نے اپنے پرانے سرمایۂ غزل میں بہت کم اضافہ کیا اور ان کی شہرت کا ضامن دراصل ان کا نوجوانی کا کلام ہی ہے۔ بہرحال چند سال پیشتر انھیں غالب ایوارڈ اور پھر اردو کا سب سے بڑا انعام "اقبال سمان” بھی پیش کیا گیا اور وہ آخر دم تک شہرت کی بلند ترین چوٹیوں پر متمکن رہے۔ ان کی اس شہرت میں سیاسی جوڑ توڑ اور کتر بیونت کا کوئی دخل نہیں۔ وہ ایک کھرے انسان اور کھرے شاعر تھے۔ کینہ پروری، بغض و حسد، غیبت اور اس طرح کی دوسری خباثتوں سے ان کا ذہن پاک تھا۔ وہ اپنے کام سے کام رکھتے تھے۔ انھوں نے طویل عمر پائی اور آخر وقت تک کام کرتے رہے۔

    رفعت سروش کے قلم سے نکلی یادوں کا سلسلہ یہاں تھامتے ہوئے اب ہم اس شاعر کے کلام کی خصوصیات اور اُس انفرادیت کی بات کرتے ہیں جس نے مجروح سلطان پوری کو نام و مقام دیا۔ وہ بیسویں صدی کے چوتھے اور پانچویں عشرے میں غزل کی کلاسیکی روایت میں سیاسی رمزیت پیدا کرنے والے ایسے شاعر تھے جس نے ثابت کیا کہ صنفِ غزل میں اپنے تغزّل کو قربان کیے بغیر بھی ہر طرح کے مضامین، جذبات و احساسات اور تصورات کو مؤثر اور دل نشیں پیرائے میں بیان کیا جاسکتا ہے۔ مجروح کا دور ادب میں‌ ترقی پسندی کے عروج کا تھا اور وہ وقت تھا جب نظم کے مقابلہ میں غزل کو کم تَر درجہ دیا جاتا تھا۔ اس ماحول میں مجروح نے غزل کی آبرو کو سلامت رکھا۔ انھوں نے اس صنفِ‌ سخن کو اس کی تمام نزاکت، حسن اور بانکپن کے ساتھ برتا اور اسے تازگی عطا کی۔ وہ اس دور کے ایسے شاعر تھے جس نے اپنا مجموعۂ کلام بھی ’’غزل‘‘ کے نام سے شایع کروایا۔

    مجروح سلطان پوری 1919ء میں اتّر پردیش کے ضلع سلطان پور میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام اسرار حسن خان تھا۔ ان کے والد پولیس میں ملازم تھے اور مجروح اُن کی اکلوتی اولاد تھے جنھیں تحریکِ خلافت کے زیرِ اثر انگریزی تعلیم نہیں دلائی گئی اور مدرسہ میں داخل کروائے گئے۔ وہاں انھوں نے اردو کے علاوہ عربی اور فارسی پڑھی۔ لیکن مدرسہ کے سخت ماحول نے انھیں وہاں سے نکلنے پر مجبور کردیا۔ مجروح نے 1933ء میں لکھنؤ کے طبّیہ کالج میں داخلہ لیا اور حکمت کی سند حاصل کی۔ وہ معاش کی خاطر ٹانڈہ میں مطب قائم کر کے بیٹھے لیکن کام یاب نہیں ہوئے۔ اسی زمانہ میں ان کو ایک لڑکی سے عشق ہو گیا اور جب یہ دل لگی اور دل داری راز نہ رہی تو مجروح رسوائی کے ڈر سے ٹانڈہ چھوڑ کر واپس سلطان پور آئے گئے۔ کالج میں تعلیم کے دوران وہ موسیقی میں دل چسپی لینے لگے تھے اور میوزک کالج میں داخلہ بھی لے لیا تھا، لیکن والد کو خبر ہوئی تو انھوں نے اس سے روک دیا۔ یوں مجروح موسیقی کا شوق پورا نہیں کرسکے۔ 1935 ء میں مجروح سلطان پوری نے شاعری شروع کی۔ پہلی مرتبہ سلطان پور کے ایک مشاعرہ میں انھوں نے غزل پر داد سمیٹی۔ مجروح ان شعراء میں سے تھے جن کا ترنم غضب کا تھا۔ مشاعروں میں شرکت اور اپنے ترنم کی وجہ سے شہرت پانے والے مجروح کو بعد میں جگر مراد آبادی اور پروفیسر رشید احمد صدیقی جیسی ہستیوں کی صحبت نصیب ہوئی اور مجروح کی فکر اور ان کے فن کو نکھارنے میں‌ ان کا بڑا ہاتھ رہا۔

    مجروح سلطان پوری نے فلمی دنیا کے لیے کئی گیت لکھے جو بہت مقبول ہوئے اور انھیں‌ فلم انڈسٹری میں کام ملتا رہا۔ مجروح لگ بھگ پچاس سال فلمی دنیا سے جڑے رہے اور 300 سے زائد فلموں کے لیے گیت لکھے۔

    جگن ناتھ آزاد کہتے ہیں‌ کہ مجروح کی شاعری خیال اور جذبہ کے امتزاج کا اک نگار خانہ ہے جس میں زندگی کے کئی رنگ جھلکتے ہیں۔ انسان کی عظمت پر مجروح کا اٹل یقین زندگی کی ٹھوس حقیقتوں پر مبنی ہے۔ روایت کا احترام اور روایت میں توسیع مجروح کے کلام کی خصوصیت ہے۔ اس میں پیکر تراشی کے نقوش جا بجا اضافہ کرتے چلے جاتے ہیں۔ مشفق خواجہ کے الفاظ ہیں‌ کہ جدید اردو غزل کی تاریخ میں مجروح سلطان پوری کی حیثیت ایک رجحان ساز غزل گو کی ہے۔ انھوں نے غزل کے کلاسیکی مزاج کو برقرار رکھتے ہوئے اسے جس طرح اپنے عہد کے مسائل کا آئینہ دار بنایا وہ کچھ انہی کا حصّہ ہے۔ پرانی اور نئی غزل کے درمیان امتیاز کرنے کے لیے اگر کسی ایک مجموعۂ غزل کی نشان دہی کی جائے تو وہ مجروح سلطان پوری کا مجموعۂ کلام "غزل” ہو گا۔

    اردو کے اس ممتاز شاعر اور معروف گیت نگار کے کئی اشعار آج بھی باذوق لوگوں کو یاد ہوں گے۔ ان کا زبان زدِ عام شعر ہے:

    میں اکیلا ہی چلا تھا جانبِ منزل مگر
    لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا

    مجروح کی غزل کے چند شعر دیکھیے

    شب انتظار کی کشمکش میں نہ پوچھ کیسے سحر ہوئی
    کبھی اک چراغ جلا دیا، کبھی اک چراغ بجھا دیا

    جفا کے ذکر پہ تم کیوں سنبھل کے بیٹھ گئے
    تمہاری بات نہیں، بات ہے زمانے کی

    جلا کے مشعلِ جاں ہم جنوں صفات چلے
    جو گھر کو آگ لگائے ہمارے ساتھ چلے
    ستونِ دار پہ رکھتے چلو سَروں کے چراغ
    جہاں تلک یہ ستم کی سیاہ رات چلے

    ممبئی میں وفات پانے والے مجروح سلطان پوری کو دادا صاحب پھالکے ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔

  • مجروح کی پٹائی

    مجروح کی پٹائی

    اردو کے ممتاز غزل گو شاعر مجروح سلطان پوری نے کئی فلمی گیت بھی لکھے جو آج بھی مقبول ہیں۔ ان کی غزل کا یہ شعر زباں زدِ عام ہے۔

    میں اکیلا ہی چلا تھا جانبِ منزل مگر
    لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا

    جگن ناتھ آزاد کے الفاظ میں مجروح کی شاعری خیال اور جذبہ کے امتزاج کا اک نگار خانہ ہے جس میں زندگی کے کئی رنگ جھلکتے ہیں۔ انسان کی عظمت پر مجروح کا اٹل یقین زندگی کی ٹھوس حقیقتوں پر مبنی ہے۔ روایت کا احترام اور روایت میں توسیع مجروح کے کلام کی خصوصیت ہے۔ اس میں پیکر تراشی کے نقوش جا بجا اضافہ کرتے چلے جاتے ہیں۔

    اسی طرح مشفق خواجہ کا کہنا ہے کہ جدید اردو غزل کی تاریخ میں مجروح سلطان پوری کی حیثیت اک رجحان ساز غزل گو کی ہے۔ انھوں نے غزل کے کلاسیکی مزاج کو برقرار رکھتے ہوئے اسے جس طرح اپنے عہد کے مسائل کا آئینہ دار بنایا وہ کچھ انہی کا حصہ ہے۔ پرانی اور نئی غزل کے درمیان امتیاز کرنے کے لیے اگر کسی ایک مجموعۂ غزل کی نشان دہی کی جائے تو وہ مجروح سلطان پوری کا مجموعۂ کلام "غزل” ہو گا۔

    خلیق انجم نے اردو کے اس ممتاز غزل گو شاعر کا جو شخصی خاکہ لکھا تھا، یہاں ہم اس سے چند اقتباسات پیش کررہے ہیں۔ ملاحظہ کیجیے۔

    مجروح کا پورا نام اسرار حسن خاں تھا۔ چوں کہ مجروح انجمن ترقّی اردو مہاراشٹر کے صدر تھے اس لیے میں جب بھی جاتا تو اکثر ان کی خدمت میں حاضر ہوتا۔

    ایک دفعہ کوئی واقعہ بیان کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ میری رگوں میں راجپوتی خون ہے، اسی لیے بہت جلد غصہ آ جاتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ مجروح نسلاً راجپوت تھے۔

    مجروح کے والد محمد حسن خاں صاحب پولیس میں ملازم تھے۔ مجروح اپنے والدین کی اکیلی اولاد تھے، اس لیے خاصے لاڈ پیار سے پالے گئے۔ ان کے والد کی مالی حالت بہت اچھی نہیں تو بری بھی نہیں تھی۔ ان کے والد نے انگریز دشمنی میں طے کیا کہ وہ اپنے بیٹے کو انگریزی نہیں پڑھائیں گے چنانچہ ان کو ایک مقامی مکتب میں داخل کر دیا گیا۔ جہاں انہوں نے عربی، فارسی اور اردو پڑھی۔ درس نظامی کے مکمل ہونے میں صرف دو سال رہ گئے تھے کہ ایک ایسا واقعہ رونما ہوا جس کی وجہ سے مجروح نے تعلیم ترک کر دی۔

    ہوا یہ کہ مجروح نے کسی لڑکے سے مذاق کیا۔ اس لڑکے نے مولوی صاحب سے شکایت کر دی۔ بات بہت معمولی تھی لیکن مولوی صاحب نے کچھ پوچھے گچھے بغیر بید اٹھا کر مجروح کی پٹائی شروع کر دی۔ پہلے تو مجروح برداشت کرتے رہے، جب پٹائی حد سے بڑھ گئی تو انہوں نے ایک ہاتھ سے بید پکڑی اور دوسرے ہاتھ سے مولوی صاحب کی گردن۔

    ظاہر ہے کہ اس حرکت کے بعد وہ اسکول میں کیسے رہ سکتے تھے۔ انہیں نکال دیا گیا یا شاید وہ خود مدرسہ چھوڑ کر آ گئے۔ کچھ عرصے بیکار رہے اور پھر 1933ء میں لکھنؤ کے طبیہ کالج میں داخلہ لے لیا۔

    مجروح بہت ذہین طالب علم تھے اور طالبِ علمی ہی کے زمانے میں طبّ پر انہوں نے ایسی قدرت حاصل کر لی تھی کہ جھوائی ٹولے کے بڑے طبیب حکیم عبدالمعید جب کسی علاج کے سلسلے میں باہر تشریف لے جاتے تو مجروح کو اپنی کرسی پر بٹھا کر جاتے۔ 1938ء میں کالج سے سند حاصل کرنے کے بعد مجروح فیض آباد کے قصبہ ٹانڈہ چلے گئے اور وہاں انہوں نے اپنا مطب قائم کر لیا۔ مجروح نے خود مجھے مسکراتے ہوئے بتایا تھا کہ ٹانڈہ میں ایک بہت خوب صورت لڑکی سے ان کو عشق ہو گیا تھا۔ جس کا بعض لوگوں کو علم ہو گیا۔ اس لیے لڑکی کی رسوائی کے ڈر سے وہ مانڈہ چھوڑ کر سلطان پور آ گئے۔

    ایک گفتگو کے دوران مجروح نے دماغ پر زور دے کر بتایا تھا کہ انہوں نے 1935ء یا 1936ء میں شاعری شروع کی تھی۔ مجروح کی شاعری کے آغاز کے بارے میں مجروح کے لڑکپن کے دوست نے رسالہ "چراغ” (بمبئی) میں لکھا ہے:

    "مجروح کی طبیعت کو شاعری سے لگاؤ اور کافی مناسبت تھی۔ سلطان پور میں ہی پہلی غزل کہی اور وہیں کے ایک آل انڈیا مشاعرے میں سنائی۔ اس مشاعرے میں مولانا آسی الدنی شریک تھے۔ مجروح نے اپنی ایک غزل مولانا کی خدمت بغرضِ اصلاح روانہ کی۔ مولانا نے مجروح کے خیالات کو باقی رکھنے اور کسی صحیح مشورے کے بجائے ان کے اشعار ہی سرے سے کاٹ دیے اور اپنے اشعار لکھ دیے۔ مجروح نے مولانا کو لکھا کہ مقصدِ اصلاح یہ ہے کہ اگر قواعد با زبان یا بحر کی کوئی لغزش ہو تو مجھے آپ اس طرف متوجہ کریں، یہ نہیں کہ اپنے اشعار کا اضافہ کر دیں۔ مولانا نے جواب دیا کہ اس قسم کی اصلاح کے لیے میرے پاس وقت نہیں، چناںچہ یہ سلسلہ بند ہو گیا۔”

    اس کے بعد مجروح نے اپنا کلام کسی استاد کو نہیں دکھایا اور خود محنت کر کے فنِ شاعری اور زبان و بیان پر وہ قدرت حاصل کی جو ان کے معاصرین میں بہت کم لوگوں کو نصیب تھی۔

  • نام وَر ترقّی پسند غزل گو شاعر مجروح سلطان پوری کا یومِ وفات

    نام وَر ترقّی پسند غزل گو شاعر مجروح سلطان پوری کا یومِ وفات

    مجروح سلطان پوری کا شمار اردو کے ممتاز ترقّی پسند غزل گو شعرا میں ہوتا ہے جو 24 مئی 2000ء کو ممبئی میں‌ وفات پاگئے تھے۔

    مجروح سلطان پوری کا تعلق بھارت سے تھا۔ وہ 1919ء میں اتّر پردیش کے ضلع سلطان پور میں پیدا ہوئے تھے۔ خاندانی نام اسرار حسن خان تھا اور مجروح تخلّص۔ وہ اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھے۔ والد محکمہ پولیس میں‌ ملازم تھے۔ اس زمانے میں تحریکِ خلافت زوروں پر تھی۔ وہ انگریزوں اور ان کی زبان سے نفرت کا دور تھا۔ والد نے انھیں‌ بھی کسی اسکول میں بھیجنے اور انگریزی کی تعلیم دینے کے بجائے ایک مدرسہ میں داخل کروا دیا جہاں مجروح نے اردو کے علاوہ عربی اور فارسی پڑھی۔ تاہم مدرسے کے ماحول میں خود کو نہ ڈھال سکے اور تعلیم ادھوری چھوڑ دی۔ 1933ء میں لکھنؤ کے ایک کالج سے حکمت میں سند حاصل کی اور مطب کرلیا، لیکن یہ تجربہ ناکام رہا۔ اسی زمانے میں مجروح موسیقی میں دل چسپی لینے لگے تھے اور پھر 1935 ء میں شاعری شروع کردی۔ مشاعروں میں ان کا ترنم بھی مشہور تھا۔

    مجروح کو جگر مراد آبادی اور پروفیسر رشید احمد صدیقی کی رفاقت نصیب ہوئی۔ اس وقت کے دیگر شعرا نے بھی ان کی حوصلہ افزائی کی، جگر صاحب انھیں اپنے ساتھ مشاعروں میں لے جانے لگے تھے جہاں‌ اپنے کلام کی بدولت مجروح سلطان پوری نے اپنی منفرد پہچان بنائی، ممبئی کے ایک مشاعرے میں ایک نام وَر فلم ڈائریکٹر نے ان کا کلام سنا تو فلموں کے لیے گیت لکھنے پر آمادہ کر لیا اور ان کا یہ سفر نہایت کام یاب رہا۔

    مجروح نے کئی برس ہندوستان کی فلم نگری کے لیے گیت تحریر کیے جو بہت مقبول ہوئے۔ 1965ء میں انھیں فلم دوستی کے سپر ہت گیت "چاہوں گا میں تجھے سانجھ سویرے” پر بہترین نغمہ نگار کا فلم فیئر ایوارڈ دیا گیا۔ 1993ء میں بھارت کی فلم انڈسٹری کا سب سے بڑا "دادا صاحب پھالکے ایوارڈ” بھی ان کے نام ہوا۔

    جگن ناتھ آزاد کے مطابق مجروح کی شاعری خیال اور جذبہ کے امتزاج کا اک نگار خانہ ہے جس میں زندگی کے کئی رنگ جھلکتے ہیں۔ انسان کی عظمت پر مجروح کا اٹل یقین زندگی کی ٹھوس حقیقتوں پر مبنی ہے۔ روایت کا احترام اور روایت میں توسیع مجروح کے کلام کی خصوصیت ہے۔

    ان کا کلام ہر خاص و عام میں مقبول تھا، مجروح کے کئی اشعار کو ضرب المثل کا درجہ حاصل ہے اور تقریر سے تحریر تک یہ اشعار موضوع کا حصّہ ہوتے ہیں۔ ان کے چند مشہور شعر ملاحظہ کیجیے۔

    میں اکیلا ہی چلا تھا جانبِ منزل مگر
    لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا

    جلا کے مشعلِ جاں ہم جنوں صفات چلے
    جو گھر کو آگ لگائے ہمارے ساتھ چلے

    جفا کے ذکر پہ تم کیوں سنبھل کے بیٹھ گئے
    تمہاری بات نہیں بات ہے زمانے کی

    ستونِ دار پہ رکھتے چلو سَروں کے چراغ
    جہاں تلک یہ ستم کی سیاہ رات چلے