Tag: مجسمہ ساز

  • پاکستان کے نام وَر مصوّر اور مجسمہ ساز آذر زوبی کی برسی

    پاکستان کے نام وَر مصوّر اور مجسمہ ساز آذر زوبی کی برسی

    آذر زوبی پاکستان کے نام وَر مصوّر اور مجسمہ ساز تھے جن کا آج یومِ وفات ہے۔وہ یکم ستمبر 2001ء کو کراچی میں وفات پاگئے تھے۔

    ان کا اصل نام عنایت اللہ تھا۔ وہ 28 اگست 1922ء کو قصور میں پیدا ہوئے۔ 1943ء میں میو اسکول آف آرٹ لاہور سے مصوّری کی تعلیم مکمل کی اور اسکالر شپ پر اٹلی سے فنِ مصوّری کی مزید تعلیم حاصل کرنے چلے گئے۔ 1950ء سے 1953ء تک اٹلی میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد 1954ء میں وطن لوٹے اور پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ فائن آرٹس میں اپنے فن پاروں کی پہلی سولو نمائش کی۔ بعد ازاں کراچی منتقل ہوگئے۔

    آذر زوبی نے کراچی میں‌ 1956ء میں شعور کے نام سے ایک ادبی جریدہ بھی جاری کیا۔ انھوں نے آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے اسکول آف آرٹس میں تدریس کے فرائض انجام دیے اور اس اسکول کے پرنسپل رہے۔ 1968ء میں آذر زوبی نے اسکول آف ڈیکور کے نام سے مصوری، مجسمہ سازی اور درون خانہ آرائش کی تربیت کا ایک ادارہ قائم کیا۔

    انھیں 1980ء میں حکومتِ پاکستان نے صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا تھا۔ آذر زوبی کراچی میں ڈیفنس سوسائٹی کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہوئے۔

  • سعودی سنگ تراش کا سنگ مرمر پر مکمل قرآن پاک تراشنے کا حیران کن کارنامہ

    سعودی سنگ تراش کا سنگ مرمر پر مکمل قرآن پاک تراشنے کا حیران کن کارنامہ

    تبوک: ایک سعودی شہری نے سنگ مرمر پر پورا قرآن پاک تحریر کر دیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق ایک سعودی مجسمہ ساز حسبان بن احمد العنیزی نے 8 سال لگا کر قرآن مجید کے الفاظ سنگ مرمر کی 30 سلوں پر تراش دیے، ان کو امید ہے کہ ان کا یہ کارنامہ گنیز ورلڈ ریکارڈز میں درج کر دیا جائے گا۔

    تبوک کے رہائشی حسبان بن احمد العنیزی نے قرآن کریم سے اپنی عقیدت کا اظہار ایک سنگ تراش کی حیثیت سے مختلف انداز سے کیا، انھوں نے سنگ مرمر کی تیس سلوں پر قرآن پاک کے 30 پارے عثمانی رسم الخط میں تراشے، ان کا یہ کام 8 برس میں مکمل ہوا۔

    حسبان العنیزی کا کہنا ہے کہ وہ اپنا یہ کام سعودی عرب کے نام سے گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں درج کرانے کے لیے کوشاں ہیں، انھوں نے بارہا گرینائٹ پتھروں اور تبوک کے سخت ٹیڑھے میڑھے پتھروں پر اپنے فن کا مظاہرہ کیا، وہ سعودی عرب میں بہت سارے میلوں، قومی تقریبات اور پروگرامز میں سنگ تراشی کے اپنے فن پاروں کی نمائش کر چکے ہیں۔

    سعودی سنگ تراش کا کہنا ہے کہ سعودی عرب میں سنگ تراشی کا ہنر بڑا پرانا ہے، مملکت نے اس کے احیا کے لیے قدیم ورثے کا محافظ ادارہ قائم کیا ہے، جس نے سنگ تراشی کے ہنر کو سعودی عرب کے ناقابل فراموش آرٹ کے طور پر تسلیم کیا ہے۔

    حسبان العنیزی نے بتایا کہ 20 برس قبل عربی رسم الخط میں انھیں سنگ تراشی کا شوق پیدا ہوا تھا، اور ان کی کوشش ہوتی ہے کہ سنگ تراشی کے خوب صورت ترین فن پارے دنیا کے سامنے لائیں۔ العنیزی نے مختلف ادوار میں معروف عربی رسم الخط میں پتھر تراش کر ’بسم اللہ‘ تحریر کیا ہے۔

    خیال رہے کہ مجسمہ سازی بنی نوع انسان کی بالکل ابتدائی زندگی کے تخلیقی پیشوں میں سے ایک پیشہ ہے۔

  • فرانس کے ایڈگر ڈیگا اور ’دی لٹل ڈانسر، ایجڈ فورٹین‘ کی کہانی

    فرانس کے ایڈگر ڈیگا اور ’دی لٹل ڈانسر، ایجڈ فورٹین‘ کی کہانی

    ایڈگر ڈیگا کو بچپن ہی سے ڈرائنگ کا شوق تھا۔ 18 سال کی عمر میں‌ اس نے اپنے گھر کے مخصوص کمرے کو ایک اسٹوڈیو کی شکل دے دی تھی۔ بعد کے برسوں میں ڈیگا نے ایک تاثر پسند مصور اور مجسمہ ساز کی حیثیت سے نام پیدا کیا اور پہچان بنائی۔

    ایڈگر ڈیگا نے فرانس کے عظیم شہر پیرس کے ایک باثروت گھرانے میں‌ آنکھ کھولی۔ اس کا سنِ پیدائش 1834ء تھا۔ ڈرائنگ اور آرٹ میں‌ اس کی دل چسپی عمر کے ساتھ ساتھ بڑھتی رہی اور اس نے پینٹنگ بنانے کا شوق اپنا لیا۔ ابتدائی زمانے میں اس نے تاریخی واقعات کی منظر کشی کی، لیکن جلد اس کا نظریہ اور رجحان مختلف ہو گیا۔ ڈیگا ایسے مصوّر کی حیثیت سے مشہور ہوا جس کا شمار امپریشن ازم کے بانیوں‌ میں‌ کیا جاتا ہے۔

    فرانس کے اس مصوّر نے پینٹنگ اور ڈرائنگ ہی نہیں‌ مجسمہ سازی میں بھی خاص مقام حاصل کیا۔ اس نے اپنی زندگی میں کُل 150 مجسمے تراشے تھے۔ ڈیگا نے مجسموں کی تیّاری میں موم، مٹّی اور چونے کا استعمال کیا تھا۔ اب ان میں سے اکثر مجسمے خراب اور برباد ہوچکے ہیں۔ تاہم ان کی نقل تانبے کے مجسموں کی صورت میں‌ محفوظ کرلی گئی اور فن پاروں کی اس نقل کی نمائشیں بھی منعقد کی جاچکی ہیں۔

    1917ء میں ڈیگا کا انتقال ہوگیا۔ وہ اپنی زندگی میں مصوّر کے طور پر نام و مقام بنا چکا تھا، لیکن دل چسپ بات یہ ہے کہ اس مشہور آرٹسٹ کے شاہ کار مجسموں کی اس وقت تک کوئی نمائش منعقد نہیں ہوئی تھی۔ اس کا صرف ایک ہی مجسمہ لوگوں کے سامنے آیا تھا جسے ’دی لٹل ڈانسر، ایجڈ فورٹین‘ کے نام سے شناخت کیا جاتا ہے۔

    اس کی پینٹنگ میں خاص طور پر محوِ‌ رقص لڑکیاں اور اجتماعی پرفارمنس کے مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں۔

  • لندن میں قائد اعظم کے مجسمے کی رونمائی

    لندن میں قائد اعظم کے مجسمے کی رونمائی

    لندن: برطانوی دارالحکومت لندن کے میئر صادق خان نے بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے کانسی کے مجسمے کی رونمائی کی۔

    مجسمے کی تقریب رونمائی لندن کے تاریخی برٹش میوزیم میں انجام پائی۔ قائد اعظم کا یہ مجسمہ اسکاٹش مجسمہ ساز فلپ جیکسن نے تیار کیا ہے۔

    سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ٹوئٹ کرتے ہوئے میئر لندن صادق خان نے اسے اپنے لیے ایک قابل فخر لمحہ قرار دیا۔

     

    تقریب رونمائی کے بعد مجسمے کو لنکز ان منتقل کردیا گیا جہاں سنہ 1896 میں قائد اعظم نے ایک عشائیے میں شرکت کی تھی۔

    تقریب میں برطانیہ میں پاکستانی ہائی کمشنر سید ابن عباس نے بھی شرکت کی جبکہ اس موقع پر پاکستان کی پہلی اوپرا گلوکارہ ہونے کا منفرد اعزاز رکھنے والی سائرہ پیٹر نے بھی اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • سندھ، گمنام مجسمہ سازکےفن پاروں کی سوشل میڈیا پردُھوم

    سندھ، گمنام مجسمہ سازکےفن پاروں کی سوشل میڈیا پردُھوم

    ٹنڈو الہ یار : سندھ کے پسماندہ علاقے سے تعلق رکھنے والے غریب مزدور فقیرو عرف فقیرا نے اپنے تخلیق کیے گئے مجسموں سے سوشل میڈیا میں بے پناہ شہرت حاصل کر لی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سندھ کے شہر ٹنڈوالہ یار کے نواحی علاقے رہائشی فقیرو عرف فقیرا مجسمہ سازی کے ہنر سے قدرتی طور پر مالا مال ہے اس کی انگلیوں نے وہ وہ فن پارے تراشے کہ چھوٹے سے علاقہ سے دھوم سوشل میڈیا کے ذریعے پوری دنیا میں پھیل گئی اور آرٹ سے دلچسپی رکھنے والے ہر شخص کو اپنے حصار میں لے لیا۔

    art-1

    فقیرو ایک غریب اقلیتی گھرانے سے تعلق رکھتا ہے جو صدیوں سے سندھ کی دھرتی پر آباد ہیں، فنون لطیفہ کے قدرتی صلاحیتوں سے مالا مال فقیرو عرف فقیرا تکلیقی طور پر کتنا فیاض اور غنی ہے اس کا اندازہ اسے کے مجگمے دیکھنے والے ہر شخص کو بہ خوبی ہو جاتا ہے۔

    artt-postt

    تنہائی پسند فقیرو کو شہرت کے حصول کا کوئی شوق نہیں وہ اپنے فن کا اظہار اپنی روح کی تسکین کے لیے کرتے ہیں اور اپنے شوق کو شہرت یا پیسے کے حصول کا ذریعہ بنانا نہیں چاہتے۔

    art-2

    فقیرو عرف فقیرا کو سندھ کی دھرتی کی ثقافت، تہذیب اور تمدن سے خاص لگاؤ ہے جس کا اظہار وہ اپنے مجسموں کے ذریعے کرناچاہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ان کے فن پاروں میں سندھ کا رنگ نمایاں ہے۔

    اپنے کام میں مگن رہنے والے اس مجسمہ ساز کو اپنے فن کی اہمیت اور افادیت کا اظہار اس وقت ہوا جب سوشل میڈیا پر ان کے فن پارے شیئر کیے گئے اور دیکھتے ہی دیکھتے پوری دنیا سے داد و تحسین کے پیغامات ملنے لگے۔

    art-4

    سماجی رابطوں کے ذرائع اور ان کے استعمال سے بابلغ سادہ لوح فقیرو اپنے مجمسموں کی مقبولیت دیکھ کر حیرانگی کے عالم میں اپنے رب کا شکر ادا کرتا ہے جس نے اتنی عزت دی اس کا کہنا ہے کہ میرے وہم و گماں میں بھی نہیں تھا کہ ایک میرا کام یوں لوگوں تک پہنچ جائے گا۔

    art-3
    صرف ایک فقیرو ہی نہیں سندھ کی زرخیز دھرتی نے کئی گوہر نایاب جنم دیے جن کی شہرت دنیا کے کونے کونے میں پہینچی اور عالمی سطح پر پاکستان کی نیک نامی کا باعث بنے ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومتی سطح ایسے ٹیلنٹ کو سراہا کو جائے تا کہ پاکستان کا روشن اور مذہبی رواداری سے پر نور چہرہ دنیا کی زینت بنے۔

  • روز شام کے وقت غائب ہوجانے والے مجسمے

    روز شام کے وقت غائب ہوجانے والے مجسمے

    آپ کسی نئی جگہ جاتے ہوئے وہاں موجود چیزوں یا مقامات کو یاد کرلیتے ہوں گے تاکہ دوبارہ وہاں جائیں تو مطلوبہ مقام ڈھونڈنے میں آسانی ہو، لیکن اگر ایسا ہو کہ آپ صبح کے وقت کہیں جائیں اور وہاں موجود کچھ مجسموں کو بطور نشانی یاد رکھیں، لیکن اگر شام میں جائیں تو آپ کو مجسمے وہاں مل ہی نہ سکیں کیونکہ وہ غائب ہوچکے ہوں؟

    یہ بات کافی حیرت انگیز لگتی ہے کہ مضبوطی سے نصب مجسمے اپنی جگہ سے کیسے غائب ہوسکتے ہیں، لیکن یہ ایک حقیقت ہے اور آرٹ اور تعمیرات کا یہ منفرد نمونہ لندن میں موجود ہے۔

    t6

    برطانوی مجسمہ ساز جیسن ٹیلر نے ان حیرت انگیز مجسموں کو بنایا ہے جو دریائے ٹیمز کے کنارے موجود ہیں۔ یہ دن کے صرف دو حصوں میں مکمل طور پر نظر آتے ہیں جب دریا کی لہریں نیچی ہوتی ہیں۔

    t3

    t8

    t7

    شام میں جب دریا کی لہریں اونچی ہوجاتی ہیں اور پانی کنارے تک آجاتا ہے تب یہ مجسمے پانی میں ڈوب جاتے ہیں اور ذرا سے ہی دکھائی دیتے ہیں۔

    t5

    اس کے تخلیق کار کا کہنا ہے کہ ان مجسموں کے ذریعہ وہ دنیا کی توجہ موسمیاتی تبدیلیوں یعنی کلائمٹ چینج کی طرف دلانا چاہتا ہے کہ کس طرح ان کے باعث سمندروں کی سطح اونچی ہوجائے گی اور ہم ڈوبنے کے قریب پہنچ جائیں گے۔

    t2

    یہ مجسمے 4 گھوڑوں کے ہیں جن پر دو صنعت کار اور دو بچے براجمان ہیں۔ گھوڑوں کے منہ آئل پمپس جیسے ہیں جو دنیا میں تیل کے لیے جاری کھینچا تانی کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ یہ مجسمے ہمیں ایک لمحے کے لیے یہ بھی سوچنے پر مجبور کرتے ہیں کہ ہمیں اپنی آئندہ نسل کے لیے ماحولیاتی طور پرایک بہتر دنیا چھوڑ کر جانی چاہیئے۔