Tag: مجید امجد

  • منیر نیازی: وہ شاعر جس کے تخیل نے طلسم خانۂ حیرت تشکیل دیا

    منیر نیازی کی شاعری ایک طلسم خانۂ حیرت ہے۔ ان کے اشعار سے ایک خواب ناک ماحول جنم لیتا ہے جس میں‌ داخل ہونے والا گم ہو کر رہ جاتا ہے۔ ان کے طرزِ بیان اور اسلوب نے اردو شاعری پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ آج منیر نیازی کی برسی ہے۔

    منیر نیازی کو اپنے عہد کا بڑا شاعر کہا جاتا ہے جس نے کسی کلاسیکی روایت کا تعاقب نہیں کیا اور کسی دبستان کا اثر بھی قبول نہیں کیا بلکہ ایک نئے دبستان کی طرح ڈالی جس کی تقلید کرنا بھی مشکل نظر آتا ہے۔

    بانو قدسیہ نے کہا تھا، میں منیر نیازی کو صرف بڑا شاعر تصوّر نہیں کرتی، وہ پورا ’’اسکول آف تھاٹ‘‘ ہے جہاں ہیولے، پرچھائیں، دیواریں، اُن کے سامنے آتے جاتے موسم، اور ان میں سرسرانے والی ہوائیں، کھلے دریچے، بند دروازے، اداس گلیاں، گلیوں میں منتظر نگاہیں، اتنا بہت کچھ منیر نیازی کی شاعری میں بولتا، گونجتا اور چپ سادھ لیتا ہے کہ انسان ان کی شاعری میں گم ہو کر رہ جاتا ہے۔ منیر کی شاعری حیرت کی شاعری ہے، پڑھنے والا اونگھ ہی نہیں سکتا۔

    بیسویں صدی کی آخری نصف دہائی میں منیر نیازی کو ان کی اردو اور پنجابی شاعری کی وجہ سے جو پذیرائی اور مقبولیت ملی، وہ بہت کم شعرا کو نصیب ہوتی ہے۔ ان کی شاعری انجانے اور اچھوتے احساس کے ساتھ ان رویّوں کی عکاسی کرتی ہے جن سے منیر اور ان کے عہد کے ہر انسان کا واسطہ پڑتا ہے۔ منیر نیازی کے کلام کا قاری معانی کی کئی پرتیں اتارتا اور امکانات کی سطحوں کو کریدتا ہوا اس میں گم ہوتا چلا جاتا ہے۔

    منیر نیازی نے 19 اپریل 1928ء کو ہوشیار پور کے ایک قصبہ میں آنکھ کھولی۔ وہ پشتون گھرانے میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد محمد فتح خان محکمۂ انہار میں ملازم تھے جو منیر نیازی کی زندگی کے پہلے برس ہی میں انتقال کرگئے تھے۔ منیر نیازی کی والدہ کو کتابیں پڑھنے کا شوق تھا اور ان ہی سے ادبی مذاق منیر نیازی میں منتقل ہوا۔ منیر نے ابتدائی تعلیم منٹگمری (موجودہ ساہیوال) میں حاصل کی اور یہیں سے میٹرک کا امتحان پاس کر کے نیوی میں بطور سیلر ملازم ہو گئے۔ لیکن یہ نوکری ان کے مزاج کے برعکس تھی۔ ملازمت کے دنوں میں بمبئی کے ساحلوں پر اکیلے بیٹھ کر ادبی رسائل پڑھتے تھے جس کا نتیجہ نیوی کی ملازمت سے استعفیٰ کی صورت سامنے آیا۔ انھوں نے لاہور کے دیال سنگھ کالج سے بی۔ اے کیا اور اس زمانہ میں کچھ انگریزی نظمیں بھی لکھیں۔ تعلیم مکمل ہوئی تھی کہ ملک کا بٹوارہ ہو گیا اور ان کا سارا خاندان پاکستان چلا آیا۔ یہاں انھوں نے ایک اشاعتی ادارہ قائم کیا، لیکن یہ اور دوسرے چھوٹے موٹے کاروبار میں ناکام ہونے کے بعد منیر نیازی لاہور چلے گئے۔ وہاں مجید امجد کے ساتھ ایک پرچہ ’’سات رنگ‘‘ جاری کیا اور اسی زمانے میں مختلف اخبارات اور ریڈیو کے لیے بھی کام کیا۔ 1960ء کی دہائی میں منیر نیازی نے فلموں کے لیے گانے بھی لکھے جو بہت مشہور ہوئے۔ فلم ’’شہید‘‘ کے لیے نسیم بانو کی آواز میں ان کا کلام ’’اس بے وفا کا شہر ہے اور ہم ہیں دوستو‘‘ بہت پسند کیا گیا، اور نور جہاں کی آواز میں ’’جا اپنی حسرتوں پر آنسو بہا کے سو جا‘‘ ایک مقبول نغمہ ثابت ہوا۔ اسی طرح 1976 میں ’’خریدار‘‘ کا گیت ’’زندہ رہیں تو کیا ہے جو مر جائیں ہم تو کیا‘‘ ناہید اختر کی آواز میں آج بھی مقبول ہے۔

    منیر نیازی کے بارے میں‌ کہا جاتا ہے کہ انا پرست تھے اور کسی شاعر کو خاطر میں نہیں لاتے تھے۔ قدیم شعراء میں بس میرؔ، غالبؔ اور سراج اورنگ آبادی ان کے پسندیدہ تھے۔ اسی طرح منیر نیازی نے شاعری کی اصناف، غزل اور نظم میں بھی معیار کو بلند رکھا ہے۔ لیکن گیت اور کچھ نثری نظمیں بھی لکھیں۔ منیر نیازی خود پسند ہی نہیں، بلا کے مے نوش بھی تھے اور آخری عمر میں ان کو سانس کی بیماری ہو گئی تھی۔ وہ 26 دسمبر 2006ء کو بیماری کے سبب وفات پاگئے تھے۔

    حکومتِ پاکستان نے اردو اور پنجابی زبان کے اس مقبول شاعر کو ’’ستارۂ امتیاز‘‘ اور ’’پرائڈ آف پرفارمنس‘‘ سے نوازا تھا۔

    ان کی زندگی میں تنہائی اور آوارگی کے ساتھ رومانس کا بڑا دخل رہا اور وہ خود کہتے تھے کہ زندگی میں‌ درجنوں عشق کیے ہیں۔ وہ ساری عمر شاعری کرتے رہے اور بے فکری کو اپنی طبیعت کا خاصہ بنائے رکھا۔ اپنے ہم عصروں میں نمایاں ہونے والے منیر نیازی لاہور میں حلقۂ اربابِ ذوق کے رکن بنے اور سیکرٹری بھی رہے، لیکن کسی مخصوص گروہ اور ادبی تنظیموں سے کوئی وابستگی اور تعلق نہ رکھا۔ وہ اپنی دھن میں‌ رہنے والے انسان تھے جس کے مزاج نے اسے سب الگ رکھا۔

    مجید امجد وہ شاعر تھے جن کے ساتھ رہ کر منیر نیازی کا تخلیقی جوہر کھلنے لگا۔ وہ ایک ساتھ بہت سا وقت گزراتے اور شعر و ادب پر بات کرتے، اور اپنی شاعری ایک دوسرے کو سناتے۔ بقول منیر نیازی دونوں روز ایک نئی نظم لکھ کر لاتے تھے اور ایک دوسرے کو سناتے۔ منیر نیازی کی تخلیقات فنون، اوراق، سویرا، ادب لطیف، معاصر اور شب خون وغیرہ میں شائع ہوتی تھیں۔

    منیر نیازی کی شخصیت بھی سحر انگیز تھی۔ وہ ہر محفل میں مرکزِ نگاہ ہوتے۔ ان کے ایک ہم عصر رحیم گل نے ان کی ظاہری شخصیت کا خاکہ ان الفاظ میں کھینچا ہے۔

    ‘ربع صدی قبل میں ایک نوجوان سے ملا تھا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے سیاہ و سرخ قمیض میں اس کا چہرہ اور زیادہ سرخ نظر آتا تھا۔ اس کے سیاہ بال بانکپن سے اس کی پیشانی پر لہرا رہے تھے نیلگوں بھوری سی دو بڑی شفاف آنکھیں اس کے چہرے پر یوں جھلملا رہی تھیں جیسے سرخ ماربل میں سے دو چشمے ابل پڑے ہوں۔ ستواں ناک مگر نتھنے کچھ زیادہ کشادہ غالباً یہی وجہ تھی کہ اس کی قوتِ شامہ بہت تیز تھی اور وہ فطری طور پر بُوئے گل اور مانس بو کی مکروہات اور خصوصیات پا لیتا تھا۔ پہلی ملاقات میں منیر مجھے اچھا لگا۔’

    منیر نیازی کے چند مشہور اشعار ملاحظہ کیجیے۔

    یہ کیسا نشہ ہے میں کس عجب خمار میں ہوں
    تو آ کے جا بھی چکا ہے، میں انتظار میں ہوں

    غم کی بارش نے بھی تیرے نقش کو دھویا نہیں
    تو نے مجھ کو کھو دیا میں نے تجھے کھویا نہیں

    آواز دے کے دیکھ لو شاید وہ مل ہی جائے
    ورنہ یہ عمر بھر کا سفر رائیگاں تو ہے

    مدت کے بعد آج اسے دیکھ کر منیرؔ
    اک بار دل تو دھڑکا مگر پھر سنبھل گیا

    اک اور دریا کا سامنا تھا منیرؔ مجھ کو
    میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا

    اردو میں منیر نیازی کے 13 اور پنجابی کے تین مجموعے شائع ہوئے جن میں اس بے وفا کا شہر، تیز ہوا اور تنہا پھول، جنگل میں دھنک، دشمنوں کے درمیان شام، سفید دن کی ہوا، سیاہ شب کا سمندر، چھ رنگین دروازے، پہلی بات ہی آخری تھی، ایک دعا جو میں بھول گیا تھا، محبت اب نہیں ہوگی، ایک تسلسل اور دیگر شامل ہیں۔

    انھوں اپنے دور کے اہلِ قلم اور بالخصوص نقادوں سے ایک محفل میں یہ شکوہ اپنے مخصوص انداز میں کیا تھا کہ ’ایک زمانے میں نقّادوں نے مجھے اپنی بے توجہی سے مارا اور اب اس عمر میں آ کر توجہ سے مار رہے ہیں۔‘

  • مجید امجد کی نظم منٹو اور سعادت حسن منٹو!

    مجید امجد کی نظم منٹو اور سعادت حسن منٹو!

    مجید امجد کا شمار اردو کے اہم نظم گو شعرا میں ہوتا ہے۔ ان کی نظمیں اپنے موضوعات ہی کی وجہ سے منفرد نہیں بلکہ ان کا تخیل اور تخلیقی جوہر ان کی شاعری کا حسن ہیں اور انھیں‌ اپنے عہد کے دیگر شعرا میں نمایاں کرتے ہیں۔

    متنوع موضوعات اور لب و لہجے کی انفرادیت کے ساتھ مجید امجد کی بعض نظمیں آج بھی ہمیں‌ اپنی گرفت میں‌ لے لیتی ہیں۔ ان کی شاعری کے متعدد مجموعے شایع ہوئے جن میں شب رفتہ، شب رفتہ کے بعد، چراغ طاق جہاں وغیرہ شامل ہیں۔ 11 مئی کو مجید امجد کی برسی منائی جاتی ہے جب کہ مشہور افسانہ نگار سعادت حسن منٹو کا یومِ پیدائش بھی آج ہی ہے۔

    مجید امجد نے ایک نظم "منٹو”‌ کہی تھی جو اس دن کی مناسبت سے آپ کے ذوق کی نذر ہے۔

    "منٹو”
    میں نے اس کو دیکھا ہے
    اجلی اجلی سڑکوں پر، اک گرد بھری حیرانی میں
    پھیلتی بھیڑ کے اوندھے اوندھے کٹوروں کی طغیانی میں
    جب وہ خالی بوتل پھینک کے کہتا ہے
    ”دنیا! تیرا حسن، یہی بد صورتی ہے”
    دنیا اس کو گھورتی ہے
    شور سلاسل بن کر گونجنے لگتا ہے
    انگاروں بھری آنکھوں میں یہ تند سوال
    کون ہے یہ جس نے اپنی بہکی بہکی سانسوں کا جال
    بام زماں پر پھینکا ہے
    کون ہے جو بل کھاتے ضمیروں کے پر پیچ دھندلکوں میں
    روحوں کے عفریت کدوں کے زہر اندوز محلکوں میں
    لے آیا ہے یوں بن پوچھے اپنے آپ
    عینک کے برفیلے شیشوں سے چھنتی نظروں کی چاپ
    کون ہے یہ گستاخ
    تاخ تڑاخ!

  • میں آرڈر دے کے بنوایا گیا ہوں!

    میں آرڈر دے کے بنوایا گیا ہوں!

    مجید لاہوری کے مزاحیہ اشعار محض سخن برائے گفتن نہیں بلکہ ہنسی ہنسی میں وہ زخم کریدنے، سماجی ناہمواریوں اور معاشرتی مسائل پر نشتر برسانے کا فن جانتے تھے۔ ان کے چند منتخب اشعار جو آج کے جدید معاشرے کی بھی عکاسی کرتے ہیں‌ ملاحظہ ہوں۔

    میدانِ سیاست سے زورِ خطابت تک دھوکے اور فریب سے خود کو مسیحا بتانے والوں‌ کے پیچھے چلنے والے عوام سے وہ ایسے مخاطب ہوتے ہیں۔

    اے قوم بنا دے تُو مجھ کو بھی ذرا لیڈر
    کیا اور کروں آخر جب کام نہیں ملتا
    گدھوں پہ لاد کے ہم بوجھ ذمے داری کا
    یہ کہہ رہے ہیں کوئی آدمی نہیں ملتا

    حضرتِ انسان کی کم عقلی، کج فہمی کا عالم یہ ہے کہ اس نے دنیا میں‌ اپنے ہی جیسے انسانوں‌ کو گویا پالن ہار اور ان داتا بنا رکھا ہے۔ مجید لاہوری کا یہ شعر دیکھیے۔

    فرعون و ہامان و قارون سارے
    سبھی مفلسوں کے بنائے ہوئے ہیں

    وہ ہمارے جمہوری نظام اور سیاسی ابتری پر طنز کرتے ہوئے کہتے ہیں۔

    بناتے تھے مجھے کب لوگ ممبر
    میں آرڈر دے کے بنوایا گیا ہوں

    اور یہ دو شعر کیسے نمکین ہیں جس میں‌ اردو زبان کی بے وقعتی پر انھوں‌ نے اہلِ علم کو خبردار کیا ہے اور اردو بولنے والوں‌ کو گویا جگانے کی کوشش کی ہے۔

    کھا کے امریکا کا گھی پھر نوجواں ہو جائے گا
    مولوی گل شیر، بھولو پہلواں ہو جائے گا
    غیر ٹھکرائیں گے،اپنے بھی نہیں اپنائیں گے
    اے مرے دل تو بھی کیا اردو زباں ہو جائے گا

    اس شعر میں‌ مجید لاہوری نے سیاسی نظام پر ظریفانہ چوٹ کی ہے

    ہم نے بی اے کیا، کلرک ہوئے
    جو مڈل پاس تھے، وزیر ہوئے