Tag: محسن بھوپالی

  • محسن بھوپالی:‌ اردو شاعری کا ایک بڑا نام

    محسن بھوپالی:‌ اردو شاعری کا ایک بڑا نام

    اردو ادب میں محسن بھوپالی کا نام ایسے شاعر کے طور پر ہمیشہ زندہ رہے گا جس نے خود کو رائج اصنافِ سخن میں طبع آزمائی تک محدود نہیں رکھا بلکہ اپنے تخلیقی جوہر اور کمالِ‌ فن سے کوچۂ سخن کو نکھارا اور اسے ایک نئی صنف ’’نظمانے‘‘ سے آراستہ کیا۔ آج اردو زبان کے ممتاز شاعر محسن بھوپالی کی برسی ہے۔

    محسن بھوپالی نے اردو زبان میں غزل جیسی معتبر اور مقبول صنفِ سخن میں اپنے جذبات اور احساسات کو نہایت خوب صورتی سے بیان کیا اور ہر خاص و عام میں مقبول ہوئے۔ انھوں نے اپنی شاعری سے عام قارئین کی توجہ حاصل کی اور ہم عصر شعرا سے بھی داد پائی۔ اردو ادب کے نقّادوں نے بھی محسن بھوپالی کے فنِ‌ شاعری کو سراہا ہے۔ محسن بھوپالی 17 جنوری 2007ء کو انتقال کرگئے تھے۔

    محسنؔ بھوپالی کا اصل نام عبدالرّحمٰن تھا۔ انھوں نے 1932ء میں بھوپال کے قریب واقع ہوشنگ آباد کے ایک قصبے سہاگپور میں آنکھ کھولی۔ 1947ء میں ان کا خاندان پاکستان آگیا اور لاڑکانہ میں سکونت اختیار کی۔ محسن بھوپالی نے این ای ڈی انجینئرنگ کالج کراچی سے سول انجینئرنگ میں ڈپلومہ کورس کے بعد 1952ء میں محکمۂ تعمیرات حکومتِ سندھ میں ملازمت اختیار کر لی۔ ان کی ملازمت کا سلسلہ 1993ء تک جاری رہا۔ اسی عرصے میں انھوں نے جامعہ کراچی سے اردو میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔

    زمانۂ طالبِ علمی کے بعد نوکری کا آغاز ہوا، تب بھی محسن بھوپالی ادبی سرگرمیوں میں حصّہ لیتے رہے۔ ان کی شاعری بھی مختلف اخبارات، ادبی رسائل کی زینت بنتی رہی جس نے انھیں باذوق حلقوں میں‌ متعارف کروایا۔ مقامی سطح پر منعقدہ مشاعروں میں شرکت اور علمی و ادبی حلقوں میں پہچان بنانے والے محسن بھوپالی کو کراچی اور ملک کے دوسرے شہروں سے بھی مشاعرہ پڑھنے کی دعوت ملنے لگی اور ان کا کلام ہم عصر شعراء اور باذوق سامعین نے بہت پسند کیا۔ بطور شاعر جلد ہی ملک گیر شہرت حاصل کرنے والے محسن بھوپالی نے شعر گوئی کا آغاز 1948ء میں کیا تھا۔

    محسن بھوپالی کے مجموعہ ہائے کلام شکستِ شب، جستہ جستہ، نظمانے، ماجرا، گردِ مسافت کے عنوان سے شایع ہوئے۔ ان کی دیگر کتابوں میں قومی یک جہتی میں ادب کا کردار، حیرتوں کی سرزمین، مجموعۂ سخن، موضوعاتی نظمیں، منظر پتلی میں، روشنی تو دیے کے اندر ہے، جاپان کے چار عظیم شاعر، شہر آشوب کراچی اور نقدِ سخن شامل ہیں۔

    یہ منفرد اعزاز بھی محسنؔ بھوپالی کو حاصل تھا کہ 1961ء میں ان کے اوّلین شعری مجموعے کی تقریب رونمائی حیدرآباد سندھ میں منعقد ہوئی جس کی صدارت زیڈ اے بخاری نے کی تھی اور کہا جاتا ہے کہ یہ کسی کتاب کی پہلی باقاعدہ تقریبِ رونمائی تھی جس کے دعوت نامے بھی تقسیم کیے گئے تھے۔

    کئی مشہور اور زباں زدِ عام اشعار کے خالق محسنؔ بھوپالی کا یہ قطعہ بھی ان کی پہچان بنا۔

    تلقینِ صبر و ضبط وہ فرما رہے ہیں آج
    راہِ وفا میں خود جو کبھی معتبر نہ تھے
    نیرنگیٔ سیاستِ دوراں تو دیکھیے
    منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے

    محسن بھوپالی کا یہ شعر ملاحظہ کیجیے۔

    غلط تھے وعدے مگر میں یقین رکھتا تھا
    وہ شخص لہجہ بہت دل نشین رکھتا تھا

    پاکستان کی معروف گلوکارہ گلبہار بانو کی آواز میں‌ محسن بھوپالی کی ایک غزل آج بھی بہت ذوق و شوق سے سنی جاتی ہے جس کا مطلع ہے۔

    چاہت میں کیا دنیا داری، عشق میں کیسی مجبوری
    لوگوں کا کیا، سمجھانے دو، ان کی اپنی مجبوری

    اردو میں ’’نظمانہ‘‘ وہ صنفِ سخن ہے جس کے موجد محسنؔ بھوپالی نے افسانہ نگاری بھی کی تھی۔ انھوں نے آزاد نظم کی ہیئت میں ایک تجربہ کیا اور اپنی ایجاد کو تخلیقی وفور کے ساتھ وجود بخشا جو اخبارات اور رسائل و جرائد میں ’’نظمانے‘‘ کے طور پر شایع ہوئے اور باذوق قارئین نے انھیں پسند کیا۔ ’’نظمانے‘‘ کو ہم افسانے کی منظوم اور مختصر شکل کہہ سکتے ہیں۔

    محسن بھوپالی کی شاعری ان کی فکر و دانش اور وسیع مطالعہ کے ساتھ معاشرے کے مختلف طبقات پر ان کی گہری نظر اور قوّتِ مشاہدہ کا عکس ہے۔

    انھوں نے معاشرتی موضوعات کے ساتھ سیاسی حالات کو بھی اپنی شاعری کا موضوع بنایا جس کی مثال ان کا یہ قطعہ بھی ہے۔

    جاہل کو اگر جہل کا انعام دیا جائے
    اس حادثۂ وقت کو کیا نام دیا جائے
    مے خانے کی توہین ہے، رندوں کی ہتک ہے
    کم ظرف کے ہاتھوں میں اگر جام دیا جائے

    محسن بھوپالی نے جاپانی ادب کو اردو کے قالب میں ڈھالا اور ہائیکو میں بھی طبع آزمائی کی۔ انھیں ایک ایسے شاعر کے طور پر یاد رکھا جائے گا جس کا اسلوب منفرد اور کلام شستہ و رواں ہے۔ محسن بھوپالی کی شاعری انسانی جذبات و احساست کے ساتھ اُن مسائل کا احاطہ بھی کرتی ہے جس سے عام آدمی کی طرح ایک شاعر بھی متأثر ہوتا ہے۔

    محسن بھوپالی کراچی کے علاقے پاپوش نگر کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • محسن بھوپالی: اردو کے مقبول شاعر اور ’’نظمانے‘‘ کے موجد

    محسن بھوپالی اردو کے اُن شعراء میں سے تھے جنھوں نے خود کو رائج اصنافِ سخن میں طبع آزمائی تک محدود نہیں رکھا بلکہ ان کے تخلیقی جوہر اور کمالِ‌ فن نے کوچۂ سخن کی رونق میں ’’نظمانے‘‘ کی صورت خوب صورت اضافہ بھی کیا۔ آج محسن بھوپالی کی برسی ہے۔

    اردو کے اس مقبول شاعر نے غزل جیسی معتبر اور معروفِ عام صنفِ سخن کو اپنی فکر اور ندرتِ خیال کے ساتھ اس طرح سجایا کہ ہم عصر شعرا سے بھی داد پائی اور نقّادوں نے بھی ان کے فن کو سراہا۔ محسنؔ بھوپالی کی شاعری نے علمی و ادبی حلقوں کی پذیرائی اور ہر سطح پر باذوق قارئین سے قبولیت کی سند پائی۔ 17 جنوری 2007ء کو محسن بھوپالی نے اس دارِ فانی کو ہمیشہ کے لیے چھوڑ دیا۔

    محسنؔ بھوپالی کا اصل نام عبدالرّحمٰن تھا۔ انھوں نے 1932ء میں بھوپال کے قریب واقع ہوشنگ آباد کے ایک قصبے سہاگپور میں آنکھ کھولی۔ 1947ء میں ان کا خاندان پاکستان آگیا اور لاڑکانہ میں سکونت اختیار کی۔ محسن بھوپالی نے این ای ڈی انجینئرنگ کالج کراچی سے سول انجینئرنگ میں ڈپلومہ کورس کے بعد 1952ء میں محکمۂ تعمیرات حکومتِ سندھ میں ملازمت اختیار کر لی۔ ان کی ملازمت کا سلسلہ 1993ء تک جاری رہا۔ اسی عرصے میں انھوں نے جامعہ کراچی سے اردو میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔

    ملازمت اور حصولِ تعلیم کے دوران محسن بھوپالی کا ادب اور شاعری سے تعلق مضبوط تر ہوتا رہا اور ان کی شاعری مختلف اخبارات، ادبی رسائل کی زینت بنتی رہیں۔ انھیں علمی و ادبی حلقوں میں پہچان ملی تو کراچی اور ملک بھر میں منعقدہ مشاعروں میں شرکت کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا اور وہ عوام میں بطور شاعر مشہور ہوگئے۔ محسن بھوپالی نے شعر گوئی کا آغاز 1948ء میں کیا تھا۔

    محسن بھوپالی کے مجموعہ ہائے کلام شکستِ شب، جستہ جستہ، نظمانے، ماجرا، گردِ مسافت کے عنوان سے شایع ہوئے۔ ان کی دیگر کتابوں میں قومی یک جہتی میں ادب کا کردار، حیرتوں کی سرزمین، مجموعۂ سخن، موضوعاتی نظمیں، منظر پتلی میں، روشنی تو دیے کے اندر ہے، جاپان کے چار عظیم شاعر، شہر آشوب کراچی اور نقدِ سخن شامل ہیں۔

    یہ منفرد اعزاز بھی محسنؔ بھوپالی کو حاصل تھا کہ 1961ء میں ان کے اوّلین شعری مجموعے کی تقریب رونمائی حیدرآباد سندھ میں منعقد ہوئی جس کی صدارت زیڈ اے بخاری نے کی تھی اور یہ کسی کتاب کی پہلی باقاعدہ تقریبِ رونمائی تھی جس کے دعوت نامے بھی تقسیم کیے گئے تھے۔

    کئی مشہور اور زباں زدِ عام اشعار کے خالق محسنؔ بھوپالی کا یہ قطعہ بھی ان کی پہچان بنا۔

    تلقینِ صبر و ضبط وہ فرما رہے ہیں آج
    راہِ وفا میں خود جو کبھی معتبر نہ تھے
    نیرنگیٔ سیاستِ دوراں تو دیکھیے
    منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے

    محسن بھوپالی کا یہ شعر ملاحظہ کیجیے۔

    غلط تھے وعدے مگر میں یقین رکھتا تھا
    وہ شخص لہجہ بہت دل نشین رکھتا تھا

    پاکستان کی معروف گلوکارہ گلبہار بانو کی آواز میں‌ محسن بھوپالی کی ایک غزل آج بھی بہت ذوق و شوق سے سنی جاتی ہے جس کا مطلع ہے۔

    چاہت میں کیا دنیا داری، عشق میں کیسی مجبوری
    لوگوں کا کیا، سمجھانے دو، ان کی اپنی مجبوری

    اردو میں ’’نظمانہ‘‘ وہ صنفِ سخن ہے جس کے موجد محسنؔ بھوپالی نے افسانہ نگاری بھی کی تھی۔ انھوں نے آزاد نظم کی ہیئت میں ایک تجربہ کیا اور اپنی ایجاد کو تخلیقی وفور کے ساتھ وجود بخشا جو اخبارات اور رسائل و جرائد میں ’’نظمانے‘‘ کے طور پر شایع ہوئے اور باذوق قارئین نے انھیں پسند کیا۔ ’’نظمانے‘‘ کو ہم افسانے کی منظوم اور مختصر شکل کہہ سکتے ہیں۔

    محسن بھوپالی کی شاعری ان کی فکر و دانش اور وسیع مطالعہ کے ساتھ معاشرے کے مختلف طبقات پر ان کی گہری نظر اور قوّتِ مشاہدہ کا عکس ہے۔

    انھوں نے معاشرتی موضوعات کے ساتھ سیاسی حالات کو بھی اپنی شاعری کا موضوع بنایا جس کی مثال ان کا یہ قطعہ بھی ہے۔

    جاہل کو اگر جہل کا انعام دیا جائے
    اس حادثۂ وقت کو کیا نام دیا جائے
    مے خانے کی توہین ہے، رندوں کی ہتک ہے
    کم ظرف کے ہاتھوں میں اگر جام دیا جائے

    محسن بھوپالی نے جاپانی ادب کو اردو کے قالب میں ڈھالا اور ہائیکو میں بھی طبع آزمائی کی۔ انھیں ایک ایسے شاعر کے طور پر یاد رکھا جائے گا جس کا اسلوب منفرد اور کلام شستہ و رواں ہے۔ محسن بھوپالی کی شاعری انسانی جذبات و احساست کے ساتھ اُن مسائل کا احاطہ بھی کرتی ہے جس سے عام آدمی کی طرح ایک شاعر بھی متأثر ہوتا ہے۔

    کراچی میں وفات پانے والے محسن بھوپالی پاپوش نگر کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • اردو زبان کے مقبول شاعر محسن بھوپالی کی برسی

    اردو زبان کے مقبول شاعر محسن بھوپالی کی برسی

    محسن بھوپالی نے اردو میں‌ رائج اصنافِ سخن کو ندرتِ خیال کے ساتھ اپنے اسلوب ہی سے نہیں سجایا بلکہ اسے ایک نئی صنف نظمانے بھی دی جسے ان کے ہم عصر شعرا اور نقّادوں نے بھی سراہا۔ وہ اردو کے مقبول شاعر تھے۔

    آج محسن بھوپالی کا یومِ وفات ہے۔ وہ 17 جنوری 2007ء کو دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔

    محسن بھوپالی کا اصل نام عبدالرّحمٰن تھا۔ وہ 1932ء میں بھوپال کے قریب ضلع ہوشنگ آباد کے قصبے سہاگپور میں پیدا ہوئے تھے۔ 1947ء میں ان کا خاندان پاکستان آگیا اور لاڑکانہ میں سکونت اختیار کی۔ محسن بھوپالی نے این ای ڈی انجینئرنگ کالج کراچی سے سول انجینئرنگ میں ڈپلومہ کورس کے بعد 1952ء میں محکمۂ تعمیرات حکومتِ سندھ میں ملازمت اختیار کرلی۔ اس ادارے سے ان کی یہ وابستگی 1993ء تک جاری رہی۔ اسی عرصے میں انھوں نے جامعہ کراچی سے اردو میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔

    تعلیم کے ساتھ ان کا ادب اور شاعری سے تعلق مضبوط تر ہوتا رہا اور ان کا کلام مختلف ادبی جریدوں اور اخبارات میں‌ شایع ہونے لگا۔ کراچی اور ملک بھر میں منعقدہ مشاعروں میں محسن بھوپالی نے شرکت کی اور اپنے کلام پر خوب داد پائی۔ انھوں نے شعر گوئی کا آغاز 1948ء میں کیا تھا۔

    محسن بھوپالی کی جو کتابیں اشاعت پذیر ہوئیں ان میں شکستِ شب، جستہ جستہ، نظمانے، ماجرا، گردِ مسافت، قومی یک جہتی میں ادب کا کردار، حیرتوں کی سرزمین، مجموعۂ سخن، موضوعاتی نظمیں، منظر پتلی میں، روشنی تو دیے کے اندر ہے، جاپان کے چار عظیم شاعر، شہر آشوب کراچی اور نقدِ سخن شامل ہیں۔

    محسن بھوپالی کو یہ منفرد اعزاز بھی حاصل تھا کہ 1961ء میں ان کے اولین شعری مجموعے کی تقریب رونمائی حیدرآباد سندھ میں منعقد ہوئی جس کی صدارت زیڈ اے بخاری نے انجام دی۔ کہا جاتا ہے کہ یہ کسی کتاب کی پہلی باقاعدہ تقریب رونمائی تھی جس کے کارڈ بھی تقسیم کیے گئے تھے۔

    محسن بھوپالی کا یہ قطعہ ان کی پہچان بن گیا تھا۔

    تلقین صبر و ضبط وہ فرما رہے ہیں آج
    راہِ وفا میں خود جو کبھی معتبر نہ تھے
    نیرنگیٔ سیاستِ دوراں تو دیکھیے
    منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے

    ان کا یہ شعر بھی بہت مشہور ہوا۔

    غلط تھے وعدے مگر میں یقین رکھتا تھا
    وہ شخص لہجہ بہت دل نشین رکھتا تھا

    گلبہار بانو کی آواز میں‌ محسن بھوپالی کی ایک غزل آج بھی بہت ذوق و شوق سے سنی جاتی ہے جس کا مطلع ہے۔

    چاہت میں کیا دنیا داری، عشق میں کیسی مجبوری
    لوگوں کا کیا، سمجھانے دو، ان کی اپنی مجبوری

    اردو کے اس مقبول شاعر کو کراچی میں پاپوش نگر کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • لوگوں کا کیا سمجھانے دو…..

    لوگوں کا کیا سمجھانے دو…..

    محسن بھوپالی کا شمار اردو کے مقبول شعرا میں ہوتا ہے۔ ان کے متعدد اشعار کو ضربُ المثل کا درجہ حاصل ہے۔ یہاں ہم محسن بھوپالی کی ایک غزل آپ کے ذوقِ مطالعہ کی نذر کررہے ہیں، جسے پاکستان کی معروف گلوکارہ گلبہار بانو نے گایا اور یہ غزل بہت مشہور ہوئی۔

    چاہت میں کیا دنیا داری، عشق میں کیسی مجبوری
    لوگوں کا کیا سمجھانے دو ان کی اپنی مجبوری

    میں نے دل کی بات رکھی اور تُو نے دنیا والوں کی
    میری عرض بھی مجبوری تھی ان کا حکم بھی مجبوری

    روک سکو تو پہلی بارش کی بوندوں کو تم روکو
    کچّی مٹی تو مہکے گی ہے، مٹّی کی مجبوری

    ذات کدے میں پہروں باتیں اور ملیں تو مہر بلب
    جبرِ وقت نے بخشی ہم کو اب کے کیسی مجبوری

    جب تک ہنستا گاتا موسم اپنا ہے سب اپنے ہیں
    وقت پڑے تو یاد آ جاتی ہے مصنوعی مجبوری

    مدت گزری اک وعدے پر آج بھی قائم ہیں محسنؔ
    ہم نے ساری عمر نباہی اپنی پہلی مجبوری

  • نام وَر شاعر، نظمانے کے موجد محسن بھوپالی کی برسی

    نام وَر شاعر، نظمانے کے موجد محسن بھوپالی کی برسی

    معروف شاعر محسن بھوپالی 17 جنوری 2007ء کو دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔ آج ان کی برسی ہے۔ ان کا اصل نام عبدالرّحمٰن تھا جن کا خاندان تقسیمِ ہند کے بعد بھوپال سے ہجرت کرکے پاکستان کے شہر لاڑکانہ میں سکونت پذیر ہوا۔

    29 ستمبر 1932ء میں پیدا ہونے والے محسن بھوپالی نے کراچی کے این ای ڈی انجینئرنگ کالج سے سول انجینئرنگ میں ڈپلوما کورس کے بعد حکومتِ‌ سندھ کے محکمہ تعمیرات میں‌ ملازمت حاصل کی۔ اسی دوران جامعہ کراچی سے اردو میں ایم اے کیا۔

    محسن بھوپالی نے 1948ء میں شاعری کا آغاز کیا۔ وہ اپنے ہم عصر شعرا میں اپنی فکر اور شعری اسلوب کے سبب پہچان بناتے چلے گئے۔ انھوں نے اردو ادب کو اپنی تخلیقات کے علاوہ ایک صنفِ سخن نظمانے بھی دی۔ ان کے شعری مجموعوں میں‌ شکستِ شب، جستہ جستہ، نظمانے، ماجرا، گردِ مسافت شامل ہیں‌جب کہ قومی یک جہتی میں ادب کا کردار، حیرتوں کی سرزمین، جاپان کے چار عظیم شاعر بھی ان کی تصانیف ہیں۔

    محسن بھوپالی کے اوّلین شعری مجموعے کی تقریبِ رونمائی حیدرآباد سندھ میں منعقد ہوئی جس کی صدارت زیڈ اے بخاری نے انجام دی۔ محسن بھوپالی اردو کے ایک مقبول شاعر تھے جن کے کئی قطعات اور اشعار ضرب المثل کا درجہ رکھتے ہیں۔

    ان کا یہ شعر آج بھی تحریر سے تقریر تک خیالاتِ پریشاں کو سمیٹنے اور حالاتِ سیاست پر تبصرہ کرنے کے لیے لکھا اور پڑھا جاتا ہے۔

    نیرنگیٔ سیاستِ دوراں تو دیکھیے
    منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے

    محسن بھوپالی کراچی میں پاپوش نگر کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • معروف شاعر محسن بھوپالی کو ہم سے بچھڑے بارہ برس بیت گئے

    معروف شاعر محسن بھوپالی کو ہم سے بچھڑے بارہ برس بیت گئے

    آج اردو ادب کو لافانی اشعار دینے والے معروف شاعر محسن بھوپالی کی 12ویں برسی ہے‘ انہوں نے اردو شاعری کو نئی جہت عطا کی اورزندگی بھر مزاحمت کا استعارہ بنے رہے۔

    محسن بھوپالی کا اصل نام عبدالرحمن تھا اور وہ بھوپال کے قریب ضلع ہوشنگ آباد کے قصبے سہاگ پور میں 29 ستمبر 1932ء کو پیدا ہوئے۔ قیام پاکستان کے بعد ان کا خاندان نقل مکانی کرکے لاڑکانہ منتقل ہوگیا اور پھر کچھ عرصے کے بعد حیدرآباد میں رہائش اختیار کی۔ آخر میں وہ کراچی منتقل ہوگئے۔

    این ای ڈی انجینئرنگ کالج کراچی سے سول انجینئرنگ میں ڈپلومہ کورس کرنے کے بعد وہ 1952ء میں محکمہ تعمیرات حکومت سندھ سے وابستہ ہوئے۔ اس ادارے سے ان کی یہ وابستگی 1993ء تک جاری رہی۔ اسی دوران انہوں نے جامعہ کراچی سے اردو میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔

    محسن بھوپالی کی شعر گوئی کا آغاز 1948ء سے ہوا۔ ان کی وجہ شہرت شاعری ہی رہی۔ ان کی شاعری کا پہلا مجموعہ “شکست شب” 1961ء میں منظر عام پر آیا۔ ان کی جو کتابیں اشاعت پذیر ہوئیں ان میں شکست شب، جستہ جستہ، نظمانے، ماجرا، گرد مسافت، قومی یک جہتی میں ادب کا کردار، حیرتوں کی سرزمین، مجموعہ سخن، موضوعاتی نظمیں، منظر پتلی میں، روشنی تو دیے کے اندر ہے، جاپان کے چار عظیم شاعر، شہر آشوب کراچی اور نقد سخن شامل ہیں۔

    محسن بھوپالی کویہ منفرد اعزاز بھی حاصل تھا کہ 1961ء میں ان کے اولین شعری مجموعے کی تقریب رونمائی حیدرآباد سندھ میں منعقد ہوئی جس کی صدارت زیڈ اے بخاری نے انجام دی۔ کہا جاتا ہے کہ یہ کسی کتاب کی پہلی باقاعدہ تقریب رونمائی تھی جس کے کارڈ بھی تقسیم کئے گئے تھے۔ وہ ایک نئی صنف سخن نظمانے کے بھی موجد تھے۔

    محسن بھوپالی اردو کے ایک مقبول شاعر تھے ۔ ان کی زندگی میں ہی ان کے کئی قطعات اور اشعار ضرب المثل کا درجہ حاصل کرگئے تھے خصوصاً ان کا یہ قطعہ توان کی پہچان بن گیا تھا اور ہر مشاعرے میں ان سے اس کے پڑھے جانے کی فرمائش ہوتی تھی۔

    تلقین اعتماد وہ فرما رہے ہیں آج
    راہ وفا میں خود جو کبھی معتبر نہ تھے
    نیرنگیٔ سیاستِ دوراں تو دیکھیے
    منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے

    معروف محقق عقیل عباس جعفری کی کتاب ’پاکستان کے سیاسی وڈیرے‘ کی تقریب پزیرائی کے موقع پر انہوں نے خصوصی نظمانہ تحریر کیا اور 9 جنوری 1994 کو اس تقریب میں پڑھا ۔

    اپنے ملک پہ اک مدت سے قائم ہے
    گنتی کے ان سرداروں
    ……..اورجاگیروں کے پانے والوں
    کی نسلوں کا راج
    آزادی سے بڑھ کر جن کو پیارا تھا
    انگریزوں کا تاج!
    سوچ رہا ہوں…….. شائد اب کے
    قسمت دے دے مظلوموں کا ساتھ
    استحصالی ٹولے سے…. پائے قوم نجات
    صبح ہوئی تو گونج رہا تھا’
    بے ھنگم نعروں کا شور
    اپنے خواب کی ہم نے کی…….. من مانی تعبیر
    پھر ہے اپنے قبضے میں……. ملت کی تقدیر
    پاکستان کا مطلب کیا؟…. …موروثی جاگیر

    محسن بھوپالی کی شاعری میں ادب اور معاشرے کے گہرے مطالعے کا عکس نظر آتا ہے۔ انہوں نے جاپانی ادب کا اردو میں ترجمہ کیا اور ہائیکو میں بھی طبع آزمائی کی۔

    اگر یہی ہے شاعری تو شاعری حرام ہے
    خرد بھی زیر دام ہے ، جنوں بھی زیر دام ہے
    ہوس کا نام عشق ہے، طلب خودی کا نام ہے

    ان کی شاعری کے موضوعات معاشرتی اور سیاسی حالات ہوتے تھے۔ ان کے ایک قطعے کو بھی خوب شہرت حاصل ہوئی۔

    جاہل کو اگر جہل کا انعام دیا جائے
    اس حادثہ وقت کو کیا نام دیا جائے
    مے خانے کی توہین ہے رندوں کی ہتک ہے
    کم ظرف کے ہاتھوں میں اگر جام دیا جائے
    ہم مصلحت وقت کے قائل نہیں یارو
    الزام جو دینا ہو، سر عام دیا جائے

    سنہ 1988 میں ان کے گلے کے سرطان کا کامیاب آپریشن کیا گیا، اس کے بعد انہیں بولنے میں دشواری ہوتی تھی مگر اس کے باوجود بھی انہوں نے زندگی کے معمولات جاری رکھے اور مشاعروں میں شرکت کرتے اور شعر پڑھتے رہے۔

    اردو ادب کو ایک لافانی ذخیرہ فراہم کرنے والے محسن بھوپالی 17جنوری 2007ء کو دنیا سے رخصت ہوئے اور کراچی میں پاپوش نگر کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • کلیات محسن بھوپالی کا اجرا، ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی خصوصی شرکت

    کلیات محسن بھوپالی کا اجرا، ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی خصوصی شرکت

    کراچی: نامور پاکستانی شاعر محسن بھوپالی کے کلیات کا اجرا کردیا گیا، تقریب میں محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے بطور مہمان خصوصی شرکت کی۔

    تفصیلات کے مطابق آرٹس کونسل کراچی میں کلیاتِ محسن بھوپالی کی تقریب اجرا کے حوالے سے تقریب منعقد ہوئی ، جس کی  صدارت پروفیسر سحر انصاری نے کی جبکہ دیگر معززین میں ڈاکٹر پیر زادہ قاسم، اردو لغت بورڈ کے سربراہ عقیل عباس جعفری اور شاہانہ جاوید سمیت دیگر شامل تھے۔

    معززین گرامی نے محسن بھوپالی کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کتاب کی اہمیت اور افادیت کے حوالے سے شرکا کو آگاہ کیا جبکہ مہمان خصوصی ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے بھی اظہار خیال کیا۔

    اس موقع پر ڈاکٹر عبد القدیر خان نے اردو کی اہمیت کو اجاگر کرنے میں دیگر قومیتوں کی خدمات پر روشنی ڈالی۔ محسن پاکستان کا کہنا تھا شہر قائد میں بسنے والے تمام ہی اکائیوں کے لوگ شائستہ لہجے میں اردو بولتے تھے۔

    انہوں نے بتایا کہ میں کئی ایسے سندھی رہنماؤں کو جانتا ہوں جو بہت اچھے طریقے سے اردو میں بول چال کرتے تھے علاوہ ازیں لیاری کے مکینوں پر بھی محسن پاکستان نے تبصرہ کیا۔

    ایٹمی سائنسدان نے اپنے بچن کا واقعہ سنایا کہ وہ ایک بار بس میں سفر کررہے تھے جس کا ڈرائیور اور کنڈیکٹر مکرانی (بلوچ) تھے، گاڑی اپنی مخصوص رفتار سے منزل کی جانب رواں دواں تھیں کہ اچانک ڈرائیور نے بریک مار دیا۔

    اُن کا کہنا تھا کہ ’گاڑی کو بریک لگنے کے بعد جب میں نیچے اترا تو دیکھا بس کے آگے ایک بلی کا بچہ ہے جسے کنڈیکٹر نے گود میں اٹھا کر اپنے مخصوص انداز میں کہا یہ باغ نہیں سڑک ہے اور پھر اُسے فٹ پاتھ پر رکھ دیا‘۔

    ڈاکٹر عبد القدیر خان کا مزید کہنا تھا کہ لیاری میں ایسے بھی لوگ بستے ہیں مگر آج انہیں گینگ وار کے نام کی شناخت دے دی گئی۔ اپنی تقریر کے آخر میں محسن پاکستان نے مدعو کرنے پر منتظمین کا شکریہ بھی ادا کیا۔

    محسن بھوپالی کون تھے؟

    محسن بھوپالی کی پیدائش 29 ستمبر 1932 کو بھارت کے علاقے بھوپال سے متصل ضلع ہوشنگ آباد کے قصبے سہاگپور میں ہوئی، آپ کا اصل نام عبد الرحمان جبکہ والد کا نام عبد الرزاق لاڑکانہ تھا۔

    آپ نے ابتدائی تعلیم بھوپال سے حاصل کی، قیام پاکستان کے بعد آپ کا خاندان نقل مکانی کرکے لاڑکانہ منتقل ہو ا اور پھر آپ کے اہل خانہ نے کچھ عرصے کے بعد حیدرآباد میں رہائش اختیار کی۔

    لاڑکانہ منتقلی کے بعد آپ نے 1951 میں ہائی اسکول لاڑکانہ سے میٹرک اور 1954 میں گورنمنٹ کالج سے انٹرمیڈیٹ پاس کیا، بعد ازاں 1957 میں این ای ڈی سے تین سالہ ڈپلومہ کی ڈگری حاصل کی اور پھر 1974 میں کراچی یونیورسٹی سے بی اے کی سند حاصل کی۔

    آپ نے سندھی زبان کا محکمہ جاتی امتحان پاس کیا بعد ازاں 1979 میں جامعہ کراچی سے ایم اے اردو اور 1987 میں اردو کالج سے صحافت میں ماسٹرز کیا۔

    آپ کو حکومت سندھ کے محکمہ تعمیرات میں 12 جون 1952 کو ملازمت ملی بعد ازاں آپ ترقی کی منازل طے کرتے رہے اور جب 1993 میں ریٹائر ہوئے تو آپ کے پاس ایگزیکٹو انجینئر کا عہدہ تھا۔

    محسن بھوپالی کو شاعری کی وجہ سے شہرت ملی، آپ نے اپنی زندگی میں 10 تصانیف لکھی، آپ کی شاعری کا پہلا مجموعہ ’شکست شب‘ 1961 میں منظر عام پر آیا بعد ازاں دیگر کتابیں بھی آئیں مگر ’گرد مصافت اور پھر ’جستہ جستہ‘، ’نظمانے اور ماجرہ قابل ذکر رہیں۔

    محسن بھوپالی 17 جنوری 2007 کو کراچی میں نمونیا کی بیماری سے لڑتے ہوئے دنیا سے کوچ کر گئے تھے۔ آپ کی شاعری میں ادب اور معاشرے کے گہرے مطالعے کا عکس آج بھی نظر آتا ہے۔

    بھوپالی کے شعری موضوعات معاشرتی اور سیاسی حالات ہوتے تھے البتہ آپ کے ایک قطعے کو بھی خوب شہرت حاصل ہوئی۔

    جاہل کو اگر جہل کا انعام دیا جائے

    اس حادثہ وقت کو کیا نام دیا جائے

    مے خانے کی توہین ہے رندوں کی ہتک ہے

    کم ظرف کے ہاتھوں میں اگر جام دیا جائے

    ہم مصلحت وقت کے قائل نہیں یارو

    الزام جو دینا ہو، سر عام دیا جائے

    آپ گلے کے سرطان جیسے موذی مرض میں مبتلا ہوئے جس کا 1988 میں کامیاب آپریشن ہوا مگر اس کے بعد آپ کو بولنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑتا تھا اس کے باوجود آپ نے معمولاتِ زندگی جاری رکھے اور مشاعروں میں شرکت کر کے اپنے اشعار ادبی لوگوں کی خدمت میں پیش کیے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔