ہفتے میں 4 دن کام کرنے کا تصور آج کل دنیا بھر میں مقبولیت حاصل کر رہا ہے۔ یہ ایک جدید طرزِ عمل ہے جس کا مقصد ملازمین کی پیداواری صلاحیت کو بڑھانا، ذہنی صحت کو بہتر بنانا اور کام و زندگی کے توازن کو فروغ دینا ہے۔
اسی طرح دنیا بھر میں بھی ملازمت کے اوقات کار تیزی سے بدلتے جارہے ہیں اور کئی ترقی یافتہ ممالک نے ہفتے میں 4 دن کام اور 3 دن آرام کا اصول اپنایا ہے جس سے نہ صرف ملازم کو بلکہ مالک کو بھی فائدہ حاصل ہوتا ہے۔
اس نظام میں ملازمین ہفتے میں صرف چار دن کام کرتے ہیں، جبکہ تنخواہ اور دیگر مراعات وہی رہتی ہیں جو پانچ دن والے ہفتے میں ہوتی ہیں۔ اس کے پیچھے بنیادی خیال یہ ہے کہ کم وقت میں زیادہ موثر کام کیا جا سکے تاکہ ملازمین کو زیادہ آرام ملے، دنیا بھر کی کئی کمپنیاں اس ماڈل کو آزما رہی ہیں اور اس کے مثبت نتائج سامنے آ رہے ہیں، حال ہی میں اسی پر ایک تحقیق کی گئی۔
تحقیق آسٹریلیا، کینیڈا، نیوزی لینڈ، برطانیہ، آئرلینڈ اور امریکا میں موجود 141 اداروں میں کی گئی، جنہوں نے 6 ماہ کے لیے چار دن ورک ویک کا تجربہ کیا اس تحقیق میں تقریباً 2,900 ملازمین کا مشاہدہ کیا گیا، اور ان کا موازنہ ایسے 12 اداروں کے 290 ملازمین سے کیا گیا جنہوں نے روایتی پانچ دن کا ورک ویک برقرار رکھا۔
تحقیق کے مطابق چار دن کام کرنے والے ملازمین نے اوسطاً ہفتہ وار پانچ گھنٹے کم کام کیا، جن ملازمین کی ہفتہ وار اوقات کار میں آٹھ یا اس سے زیادہ گھنٹے کی کمی ہوئی، انہوں نے ذہنی تھکن میں واضح کمی اور ذہنی و جذباتی سکون میں نمایاں اضافہ کے بارے میں بتایا۔
تحقیقی جریدے نیچر ہیومن بیہیویئر میں شائع ہونے والی اس رپورٹ کے مطابق جن کمپنیوں نے اپنے ملازمین کی تنخواہ میں کمی کئے بغیر ہفتے میں صرف چار دن دفتر میں کام کرنے کو کہا تو وہاں ملازمین نے کم ذہنی دباؤ، اطمینان سے کام کرنے اور مجموعی طور پر ذہنی و جسمانی صحت میں بہتری کے بارے میں آگاہ کیا۔
محققین نے جریدے میں اس بات پر بھی زور دیا کہ اس حوالے سے مزید تحقیق کی ضرورت ہے تاکہ 4 دن کام کی افادیت کو وسیع پیمانے پر جانچا جا سکے، کہ واقعی یہ اصول ہر قسم کے اداروں اور ملازمین کے لیے فائدہ مند ہے یا نہیں، یہ تعارف اس بات کی جانب اشارہ کرتا ہے کہ ہفتے میں 4 دن کام کرنے کا نظام مستقبل کے کام کے ڈھانچے کو تبدیل کر سکتا ہے۔