Tag: محمدی بیگم

  • عورتوں میں تعلیم، سیاست اور سماج کا شعور اجاگر کرنے والی محمدی بیگم

    عورتوں میں تعلیم، سیاست اور سماج کا شعور اجاگر کرنے والی محمدی بیگم

    ہندوستان میں برطانوی دور میں عورتوں کا پہلا اردو ہفت روزہ ‘تہذیبِ نسواں’ جاری ہوا تو محمدی بیگم اس کی مدیر بنیں۔ وہ ایک روشن خیال گھرانے کی فرد تھیں۔ محمدی بیگم نے ہندوستانی خواتین میں تعلیم کی اہمیت کے ساتھ سیاسی و سماجی شعور اجاگر کرنے کے لیے کوششیں کیں اور پہچان بنائی۔

    محمدی بیگم دہلی کے سید احمد شفیع کی صاحب زادی تھیں جو اکسٹرا اسٹیٹ کمشنر تھے۔ اگرچہ تقسیمِ‌ ہند سے قبل اس دور میں ہندوستانی مسلمان لڑکیوں کا گھروں سے باہر نکلنا آسان نہ تھا اور ان کی تعلیم کو اہمیت نہیں‌ دی جاتی تھی لیکن کمشنر صاحب نے محمدی بیگم کی تعلیم و تربیت کا خوب انتظام کیا۔ محمدی بیگم عمدہ عادات، اعلیٰ دماغ اور قوی حافظہ کی مالک تھیں۔ انھوں نے نہایت کم عمری میں لکھنے پڑھنے، سینے پرونے اور کھانے پکانے میں مہارت حاصل کر لی تھی۔ ان کی شادی 19 برس کی عمر میں ہوئی اور ان کے خاوند مولوی سید ممتازعلی بھی تعلیمِ نسواں کے زبردست حامی تھے۔ وہ ایک قابل علمی و ادبی شخصیت تھے اور انگریز دور میں انھیں شمسُ العلما کا خطاب بھی ملا تھا۔ محمدی بیگم ان کی دوسری زوجہ تھیں۔ شادی کے بعد محمدی بیگم نے گھر کا سارا انتظام اور ہر ذمہ داری کو خندہ پیشانی سے نبھایا۔ جب مولوی ممتاز علی نے عورتوں میں حقوق کی بیداری کی تحریک چلانے کا ارادہ کیا تو اس مشن میں محمدی بیگم نے ان کا بھرپور ساتھ دیا۔

    اجل نے مہلت کم دی، شاید بہت ہی کم کہ محمدی بیگم صرف 30 برس زندہ رہ سکیں۔ 2 نومبر 1908ء میں شملہ میں مقیم محمدی بیگم وفات پاگئیں۔ اس جواں مرگ نے خاندان اور ان کے رفقاء و احباب کو شدید صدمہ پہنچایا مگر قدرت کا لکھا قبول کرنا ہی تھا۔ محمدی بیگم نے مختصر عمر میں‌ اپنی فکر و نظریے اور قلم کی طاقت سے بڑا نام کمایا۔ یہاں ایک قابلِ ذکر بات ہے کہ محمدی بیگم مشہور ناول نگار امتیاز علی تاج کی والدہ تھیں۔ امتیاز علی تاج کو ان کے ڈراما انار کلی کی وجہ سے ملک گیر شہرت حاصل ہوئی۔

    1898ء میں تہذیبِ نسواں جاری ہوا تھا اور ہندوستانی ماؤں کی تربیت اور ان میں مختلف معاملات پر آگاہی پھیلانے کے لیے ایک ماہ وار رسالہ مشیرِ مادر 1904 میں منظرِ عام پر آیا تھا۔ اس میں سماجی و عائلی امور، بچوں کی تربیت و پرورش میں مددگار مضامین شامل کیے جاتے تھے۔ تاہم اس وقت محمدی بیگم کی تہذیبِ نسواں کے حوالے سے مصروفیات بہت زیادہ تھیں‌اور ان کے لیے اس ماہ نامہ کو دیکھنا ممکن نہ تھا، اس لیے جلد ہی یہ سلسلہ ختم ہوگیا۔ محمدی بیگم نے اس کی اہمیت کو دیکھتے ہوئے تہذیبِ نسواں میں ہی ماؤں‌ کی راہ نمائی کے لیے ایک گوشہ مخصوص کر دیا تھا۔

    محمدی بیگم نے اُس دور میں جب خواتین پر مختلف معاشرتی پابندیاں تھیں، خود کو عورتوں کی اصلاح اور انھیں عملی زندگی میں مفید کردار ادا کرنے کے لیے تیار کرنے کا وہ کام کیا جس کی مثال کم ہی ملتی ہے۔ انھوں‌ نے انجمنِ خاتونانِ ہمدرد قائم کرکے اس پلیٹ فارم سے عورتوں کو باعمل بنانے اور فلاح و بہبود کے لیے آمادہ کرنے کی کوشش کی۔ انجمنِ تہذیبِ نسواں بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی۔

    محمدی بیگم نے تصنیف و تالیف کے حوالے سے جو کام کیا وہ آدابِ ملاقات، نعمت خانہ، رفیقِ عروس، سگھڑ بیٹی، خانہ داری، شریف بیٹی کے عنوانات سے شایع ہوا۔

  • محمدی بیگم: ایک مصلح اور مثالی خاتون

    محمدی بیگم: ایک مصلح اور مثالی خاتون

    محمدی بیگم مصنفہ اور ہندوستان میں خواتین کے پہلے اردو ہفت روزہ ‘تہذیب نسواں’ کی مدیر تھیں۔ وہ عورتوں کی تعلیم اور ان میں‌ سیاسی و سماجی بیداری کے اوّلین علم برداروں میں شامل ہیں۔

    وہ دہلی کے سید احمد شفیع کی صاحب زادی تھیں جو اکسٹرا اسٹیٹ کمشنر تھے۔ ان کا گھرانا روشن خیال تھا اور اس انتہائی قدامت پسند دور میں بھی والدین نے ذہین بیٹی کو تعلیم و تہذیب کے زیور سے آراستہ کیا۔ محمدی بیگم عمدہ عادات، اعلیٰ دماغ اور قوی حافظہ کی مالک تھیں۔ نہایت کم عمری میں لکھنے پڑھنے، سینے پرونے اور کھانے پکانے میں مہارت حاصل کر لی تھی۔ ان کی شادی 19 برس کی عمر میں مولوی سید ممتازعلی سے ہوئی جو تعلیم نسواں کے زبردست حامی تھے۔ ان کو شمس العلما کا خطاب بھی ملا تھا۔ محمدی بیگم سے ان کی یہ دوسری شادی تھی۔ انھوں نے گھر کا سارا انتظام اور ذمہ داری سنبھالی اور جب مولوی ممتاز علی نے عورتوں میں بیداری کی تحریک چلانے کا ارادہ کیا تو اس مشن میں بھی اپنے شوہر سے کسی طرح پیچھے نہ رہیں۔

    اجل نے مہلت کم دی۔ شاید بہت ہی کم۔ سیدہ محمدی بیگم زندگی کی فقط تیس بہاریں ہی دیکھ سکیں، مگر اپنی فکر، اپنے نظریے اور تخیل سے اردو زبان اور ادب کو یوں مرصع و آراستہ کیا کہ اس کی نظیر کم ہی ملتی ہے۔

    یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ محمدی بیگم مشہور ناول نگار امتیاز علی تاج کی والدہ تھیں۔ امتیاز علی تاج کو ان کے ڈراما انار کلی کی وجہ سے خاص طور پر یاد کیا جاتا ہے۔

    شوہر کے ساتھ مل کر محمدی بیگم نے عورتوں کے رسالے کی ادارت سنبھالی۔ 1898ء میں تہذیبِ نسواں جاری ہوا جب کہ خاص طور پر ماؤں کی تربیت اور آگاہی کے لیے ماہ وار رسالہ مشیرِ مادر بھی 1904 میں منظرِ عام پر آیا۔ یہ سماجی و گھریلو امور، بچوں کی تربیت و پرورش میں مددگار مضامین پر مشتمل رسالہ تھا۔ تاہم محمدی بیگم کی تہذیبِ نسواں کے حوالے سے مصروفیات آڑے آگئیں اور یہ ماہ نامہ بند کر دیا گیا۔ تاہم انھوں نے بچوں کی نگہداشت اور تعلیم و تربیت کے لیے تہذیبِ نسواں میں ہی ایک گوشہ مخصوص کر دیا۔

    محمدی بیگم نے اُس دور میں جب خواتین پر مختلف معاشرتی پابندیاں تھیں، خود کو عورتوں کی اصلاح اور ان کو عملی زندگی کے لیے تیار کرنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ اس سلسلہ میں انجمنِ خاتونانِ ہمدرد کا قیام عمل میں لائیں اور اس پلیٹ فارم سے عورتوں کو باعمل بنانے اور فلاح و بہبود کے لیے آمادہ کرنے کی کوشش کرتی رہیں۔ انجمنِ تہذیبِ نسواں بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی۔

    ان کی چند تصانیف آدابِ ملاقات، نعمت خانہ، رفیقِ عروس، سگھڑ بیٹی، خانہ داری، شریف بیٹی کے عنوان سے شایع ہوئیں۔

    محمدی بیگم نے شملہ میں 2 نومبر 1908 کو ہمیشہ کے لیے آنکھیں موند لی تھیں۔

  • ’انار کلی‘ کے خالق امتیاز علی تاج کا تذکرہ

    ’انار کلی‘ کے خالق امتیاز علی تاج کا تذکرہ

    امتیاز علی تاج کی شخصیت بڑی متنوع تھی۔ ’انار کلی‘ ان کا شاہ کار ڈرامہ تھا۔ انہوں نے مختلف میدانوں میں اپنی ذہانت اور تخلیقی شعور کا اظہار کیا اور ریڈیو فیچر، فلمیں، مکالمہ نویسی کے ساتھ جو ڈرامے لکھے ان میں سب سے زیادہ شہرت ’انار کلی‘ کو ملی تھی۔

    یہ وہ اردو ڈرامہ ہے جس پر بے شمار فلمیں بنیں، اسے نصابی کتب میں‌ شامل کیا گیا اور جامعات میں‌ اس پر تحقیقی مقالے لکھے گئے۔ اردو ادب کے نام وَر نقّادوں نے اسے نقد و نظر کے لیے موضوع بنایا۔ یہ ڈراما شہزادہ سلیم (جہانگیر) اور انار کلی کے فرضی معاشقے پر مبنی تھا۔

    امتیاز علی تاج کو ایک قاتل نے ہمیشہ کے لیے ہم سے چھین لیا تھا۔ 19 اپریل 1970ء کو دَم توڑنے والے امتیاز تاج پر دو چاقو برداروں نے رات کو اس وقت حملہ کیا جب گہری نیند میں‌ تھے۔ ان کی شریکِ حیات بھی ان کے ساتھ سو رہی تھیں۔ چاقو کے وار سے زخمی ہونے والے امتیاز علی تاج چند گھنٹے زندگی اور موت سے لڑتے رہے اور پھر ہمیشہ کے لیے آنکھیں‌ موند لیں۔ ان کے قتل کی وجہ معلوم نہیں کی جاسکی اور قاتل بھی گرفتار نہیں‌ ہوسکے۔

    انار کلی کے علاوہ چچا چھکن امتیاز تقاج کا تخلیق کردہ وہ کردار ہے جس سے صرف اردو دنیا نہیں بلکہ دیگر زبانوں کے ادیب اور باذوق قارئین بھی واقف ہیں۔ امتیاز علی تاج کو علم و ادب کا شوق ورثے میں ملا تھا۔ ان کی والدہ محمدی بیگم مشہور رسائل کی مدید اور مضمون نگار تھیں جب کہ شریکِ حیات کا نام حجاب امتیاز علی تھا جو اپنے وقت کی نام ور افسانہ نگار اور برصغیر کی پہلی خاتون پائلٹ تھیں۔ ان کے دادا سید ذوالفقار علی سینٹ اسٹیفنز کالج دہلی کے فیض یافتہ اور امام بخش صہبائی کے شاگرد تھے۔ اسی طرح والد ممتاز علی اپنے وقت کی قابل ترین علمی و دینی ہستیوں کے قریبی دوست اور ہم مکتب رہے تھے۔

    اردو کے اس مشہور ڈرامہ نویس نے 13 اکتوبر 1900ء میں‌ جنم لیا اور گورنمنٹ کالج لاہور سے بی اے آنرز کیا کے بعد ایم اے انگریزی کے لیے داخلہ لیا مگر امتحان نہ دے سکے۔ وہ اپنے کالج میں ثقافتی اور ادبی سرگرمیوں میں حصّہ لیتے اور ڈرامہ اور شاعری سے خاص دل چسپی رکھنے کے سبب طلبا میں نمایاں تھے۔ خود بھی غزلیں اور نظمیں کہتے تھے۔ امتیاز تاج نے افسانہ نگاری ے ساتھ کئی عمدہ تراجم بھی کیے۔ انہوں نے آسکر وائلڈ، گولڈ اسمتھ و دیگر کی کہانیوں کے ترجمے کیے جو بہت پسند کیے گئے۔ امتیاز علی تاج نے ادبی اور سوانحی نوعیت کے مضامین بھی لکھے۔ گاندھی جی کی سوانح پر مبنی ان کی کتاب ’بھارت سپوت‘ کے علاوہ محمد حسین آزاد، حفیظ جالندھری اور شوکت تھانوی پر ان کے مضامین بہت اہمیت کے حامل ہیں۔

    امتیاز تاج کا شمار مستند صحافیوں میں‌ بھی ہوتا ہے۔ انہوں نے اپنا صحافتی سفر ’’تہذیب نسواں‘‘ سے شروع کیا تھا اور پھر ’کہکشاں‘ کے نام سے ایک ماہنامہ رسالہ شائع کیا جس نے مختصر عرصہ میں اپنی پہچان بنا لی۔ امتیاز علی تاج نے بعد میں ایک فلم کمپنی ’تاج پروڈکشن لمیٹیڈ‘ کے نام سے بھی بنائی۔

  • سید ممتاز علی: ہندوستان میں تعلیم و حقوقِ نسواں کے اوّلین علم بردار

    سید ممتاز علی: ہندوستان میں تعلیم و حقوقِ نسواں کے اوّلین علم بردار

    ہندوستان میں عورتوں کی تعلیم کے اوّلین علم برداروں میں ایک نام سیّد ممتاز علی کا تھا جو مشہور ہفتہ وار اخبار تہذیبِ نسواں کے بانی تھے۔ علمی و ادبی میدان میں‌ خدمات پر متحدہ ہندوستان کی حکومت نے انھیں شمسُ العلما کا خطاب دیا تھا۔

    تہذیبِ نسواں ہندوستان کے مسلم گھرانوں اور اردو داں طبقے میں‌ خاصا مقبول تھا۔ اس اخبار نے جہاں‌ ہندوستانی عورتوں کو بیدار مغز اور باشعور بنانے میں کردار ادا کیا، وہیں اس پرچے کی وجہ سے اعلیٰ تعلیم یافتہ ہی نہیں معمولی پڑھی لکھی عورتوں میں بھی تصنیف و تالیف کا شوق پیدا ہوا۔ اخبار کی ادارت محمدی بیگم کے ذمّہ تھی جو سیّد ممتاز علی کی زوجہ تھیں۔

    سیّد ممتاز علی 15 جون 1935ء کو وفات پاگئے تھے۔ اردو زبان کے اس معروف مصنّف اور مترجم نے متعدد علمی و ادبی مضامین تحریر کیے۔ سیّد ممتاز علی رفاہِ عام پریس کے مالک تھے اور انھیں ناشر کی حیثیت سے بھی جانا جاتا ہے۔

    سیّد ممتاز علی 1860ء میں متحدہ ہندوستان کے شہر راولپنڈی میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے قرآن، حدیث اور فقہ کی تعلیم حاصل کی اور انگریزی کی تعلیم بھی پائی۔ 1876ء میں لاہور چلے گئے جہاں‌ تا دمِ مرگ قیام رہا۔

    1884ء میں انھوں نے پنجاب میں عدالتی مترجم کی حیثیت سے ملازمت اختیار کی اور 1891ء تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ 1898ء کو لاہور میں چھاپا خانہ قائم کیا اور نہایت بلند پایہ کتابیں شایع کیں۔ اسی برس تہذیبِ نسواں بازار میں آیا تھا جو 1949ء تک جاری رہا۔ سیّد ممتاز علی نے 1909ء میں بچّوں کا جریدہ پھول بھی جاری کیا تھا اور یہ تقسیمِ ہند کے بعد بھی شایع ہوتا رہا۔

    مولوی سیّد ممتاز علی علم و ادب میں ممتاز اور مسلمانانِ ہند کے خیر خواہ اور مصلح سرسیّد احمد خان کے رفیق بھی تھے۔ ہر کام میں‌ ان سے صلاح و مشورہ کرتے اور ان کی طرح ہندوستانیوں‌ کے لیے جدید علوم اور تعلیم و تربیت کا حصول لازمی خیال کرتے تھے۔
    اِن کے اخبار تہذیبِ نسواں کا پہلا شمارہ یکم جولائی 1898ء کو منظر عام پر آیا تھا۔ اس اخبار کا نام تہذیبُ الاخلاق سے مشابہ تھا جو سر سیّد احمد خان نے تجویز کیا تھا۔

    1934ء میں شمس العلما کا خطاب پانے والے سیّد ممتاز علی کے مطبع خانے سے جو تصانیف شایع ہوئیں، ان میں حقوقِ نسواں (1898ء)، مولوی مرزا سلطان احمد خاں کے متفرق مضامین کا مجموعہ ریاضُ الاخلاق (1900ء) اور سراجُ الاخلاق، تفصیلُ البیان، شیخ حسن (1930ء) اور دیگر شامل ہیں۔

    مولوی سیّد ممتاز علی کی جواں سال زوجہ محمدی بیگم 1908ء میں انتقال کرگئی تھیں۔ ان کی وفات کے بعد صاحب زادی وحیدہ بیگم نے اس اخبار کی ادارت سنبھالی، لیکن قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ وحیدہ بیگم 1917ء میں خالقِ حقیقی سے جا ملیں۔ کچھ عرصے کے لیے مولوی ممتاز علی کی بہو نے اخبار کی ادارت کی اور پھر اس اخبار کو مولوی ممتاز کے صاحب زادے اور اردو کے نام وَر ادیب امتیاز علی تاج نے سنبھالا۔ وہ اس کے آخری مدیر تھے۔

  • محمدی بیگم: مسلمان مدبر اور مصنّفہ، خواتین کے لیے مشعلِ راہ

    محمدی بیگم: مسلمان مدبر اور مصنّفہ، خواتین کے لیے مشعلِ راہ

    اجل نے مہلت کم دی۔ شاید بہت ہی کم۔ سیدہ محمدی بیگم زندگی کی فقط تیس بہاریں ہی دیکھ سکیں، مگر  اپنی فکر،  اپنے نظریے اور تخیل سے اردو  زبان اور ادب کو  یوں مرصع و آراستہ کرگئیں کہ اس کی نظیر کم ہی ملتی ہے۔ اس تحریر سے نئی نسل کو  ایک نہایت قابل و  باصلاحیت مدیر، لکھاری اور خصوصاً عصرِ حاضر کی خواتین کے لیے ایک مدبر و مصلح کی زندگی اور خدمات کے بارے میں جاننے کا موقع ملے گا۔

     آئیے، محمدی بیگم کی زندگی  کے اوراق الٹتے ہیں۔

    دہلی کے نواحی قصبے شاہ پور  میں 1879ء  آنکھ کھولی۔ والد سید احمد شفیع اسٹنٹ کمشنر  تھے۔ والد باذوق اور  روشن خیال تھے۔ انھوں نے اپنی بیٹی کو بنیادی تعلیم کے ساتھ جدید تقاضوں کے مطابق تربیت اور تہذیب سے آراستہ کیا۔

    محمدی بیگم کا حافظہ قوی تھا۔ اُن کا شمار ذہین بچوں میں ہوتا تھا، کم عمری میں لکھنے پڑھنے کے ساتھ، امورِ خانہ داری سیکھے۔  کم عمری ہی میں کتب بینی کا شوق اور علم و ادب سے دل چسپی پیدا ہو گئی تھی اور یہی سلسلہ آگے چل کر  ہفتہ وار مجلّہ تہذیبِ نسواں، ماہ نامہ مشیرِ مادر جیسے رسائل اور دیگر تصانیف تک پھیل گیا۔

    محمدی بیگم 19 برس کی تھیں جب اُن کی شادی سید ممتاز علی سے ہوئی جو خود بھی ایک مصنف، مترجم اور ناشر تھے۔ ان کی پہلی زوجہ کا انتقال ہو چکا تھا۔ محمدی بیگم کو ایک عورت ہونے کے ناتے نہ صرف گھر کی ذمہ داریاں نبھانا تھیں بلکہ انہیں اپنے شوہر اور اُن کے بچوں کی نگہداشت کے ساتھ تربیت بھی کرنا تھی جو انہوں نے بہت اچھے انداز سے کی اور خود کو ایک بہترین شریکِ حیات کے ساتھ اچھی ماں ثابت کیا۔

    یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ محمدی بیگم مشہور ناول نگار امتیاز علی تاج کی والدہ تھیں۔ امتیاز علی تاج کو ان کے ڈراما انار کلی کی وجہ سے خاص طو ر پر یاد کیا جاتاہے۔

    سید ممتاز علی ایک روشن خیال اور بیدار مغز انسان تھے۔ انھوں نے محمدی بیگم کی قابلیت اور  صلاحیتوں کو دیکھ کر مسلم عورتوں میں بیداری کی تحریک چلانے کا فیصلہ کیا۔ محمدی بیگم نے اپنے رفیقِ حیات کا بھرپور ساتھ دیا اور یوں تہذیبِ نسواں اور خواتین میں بیداری سے متعلق انجمن کی بنیاد پڑی۔

    شادی کے بعد خاوند نے محمدی بیگم کی ضرروی تعلیم کا بند و بست کیا، انھوں نے گھر پر انگریزی، ہندی اور  ریاضی سیکھی جب کہ شوہر نے انھیں عربی اور فارسی کی تعلیم دی جس کے  بعد محمدی بیگم نے عورتوں کے لیے رسالے کی ادارت سنبھالی۔  1898ء میں تہذیبِ نسواں جاری ہوا جب کہ خاص طور پر ماؤں کی تربیت اور آگاہی کے لیے ماہ وار رسالہ مشیرِ مادر  بھی 1904 میں منظرِ عام پر آیا۔

    یہ سماجی و گھریلو امور، بچوں کی تربیت و پرورش میں مددگار مضامین پر مشتمل رسالہ تھا۔ تاہم محمدی بیگم کی تہذیبِ نسواں کے حوالے سے مصروفیات آڑے آگئیں اور یہ ماہ نامہ بند کر دیا گیا ۔تاہم انھوں نے بچوں کی نگہداشت اور تعلیم و تربیت کے لیے تہذیبِ نسواں میں ہی ایک گوشہ مخصوص کر دیا۔

    محمدی بیگم نے اُس دور میں جب خواتین پر مختلف معاشرتی پابندیاں تھیں، خود کو عورتوں کی اصلاح اور ان کو عملی زندگی کے لیے تیار کرنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ اس سلسلہ میں انجمنِ خاتونانِ ہمدرد کا قیام عمل میں لائیں اور اس پلیٹ فارم سے عورتوں کو باعمل بنانے اور فلاح و بہبود کے لیے آمادہ کرنے کی کوشش کرتی رہیں۔ انجمنِ تہذیبِ نسواں بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی۔

    ان کی چند تصانیف کے عنوانات سے ظاہر ہے کہ محمدی بیگم کی تحریروں کا محور عورت اور ان مضامین کا مقصد زندگی اور رشتوں کے ساتھ عملی زندگی سے آگاہی دینا تھا۔  آدابِ ملاقات، نعمت خانہ، رفیقِ عروس، سگھڑ بیٹی، خانہ داری، شریف بیٹی۔ ہندوستان میں خواتین کی اخلاقی تربیت اور کردار سازی کے لیے دن رات محنت اور لگن سے کام کرنے والی محمدی بیگم نے شملہ میں 2 نومبر 1908 کو ہمیشہ کے لیے آنکھیں موند لیں۔


    تحریر: عارف عزیز