Tag: محمد بن سلمان کی خبریں

  • ریاض: سعودی عرب نے پہلے نیوکلیئرمنصوبے کا سنگِ بنیاد رکھ دیا

    ریاض: سعودی عرب نے پہلے نیوکلیئرمنصوبے کا سنگِ بنیاد رکھ دیا

    ریاض : سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے ملک کے پہلے جوہری ریسرچ ری ایکٹر سمیت سات اہم منصوبوں کا سنگِ بنیاد رکھ دیا ، سعودی عرب 2032 تک نیوکلیئر پلانٹ سے 17 گیگا واٹ پیدا کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق جوہری ری ایکٹر کا سنگِ بنیاد رکھنے کی تقریب گزشتہ روز عبدالعزیز سٹی برائے سائنس اور ٹیکنالوجی ( کے اے سی ایس ٹی) میں منعقد ہوئی ۔اس موقع پر سعودی ولی عہد نے سات انتہائی اہم منصوبوں کا بھی افتتاح کیا ہے۔ یہ منصوبے قابلِ تجدید توانائی ، پانی صاف کرنے ، جینیٹک ادویہ اور طیارہ سازی کی صنعت سے متعلق ہیں۔

    شاہ عبدالعزیز سٹی کے ہیڈ کوارٹرز میں آمد پر سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کا اس کے بورڈ چیئرمین ، توانائی ، صنعت اور قدرتی وسائل کے وزیر انجنیئر خالد بن عبدالعزیز الفالح اور اس ٹیکنالوجی شہر کے صدر ترکی بن سعود بن محمد نے شہزادے کا استقبال کیا۔

    جوہری ری ایکٹرطب کے میدان میں مستقبل کی جانب پیش رفت کرتے ہوئے شہزادہ محمد بن سلمان نے سعودی عرب کی سنٹرل لیبارٹری برائے انسانی جینوم کا بھی افتتاح کیا۔اس میں سعودی معاشرے کی جینٹکس کے تمام ریکارڈ کا تفصیلی نقشہ مرتب کیا جائے گا اور اس نقشے سے موروثی بیماریوں کے اسباب کا پتا چلانے میں مدد ملے گی۔

    سعودی ولی عہد نے خفجی میں شمسی توانائی سے چلنے والے پانی کو صاف بنانے کے اسٹیشن کا افتتاح کیا ہے۔اس میں یومیہ 60 ہزار مکعب میٹر پانی کو صاف بنانے کی گنجائش ہوگی۔اسٹیشن میں سولر پینل اور سیلوں کے لیے دو پیداواری لائنیں نصب کی جارہی ہیں اور سولر پینلوں کے معیار کی جانچ کے لیے عیینہ میں ایک لیبارٹری قائم کی جائے گی۔ ان سولر پینلوں کی آئی ایس او 9001 کے معیارات کے مطابق جانچ کے لیے الگ سے ایک لیبارٹری ہوگی۔

    اس موقع پر انہوں نے بدر پروگرام کے تحت انکیو بیٹرز اور ایکسلیٹرز کا بھی افتتاح کیا ہے۔ان میں ایک ایک الدمام شہر ، القصیم ، المدینہ المنورہ اور ابھا میں واقع ہو گا۔اس کے علاوہ شہزادہ محمد بن سلمان نےینبع شہر میں شمسی توانائی سے چلنے والے پانی صاف کرنے کے ایک منصوبے کا سنگِ بنیاد رکھا ہے۔اس پلانٹ پر روزانہ 5200 مکعب میٹر پانی صاف کرنے کی گنجائش ہوگی۔پانی صاف کرنے کی جدید ٹیکنالوجی کے اطلاق کا یہ پہلا صنعتی منصوبہ ہے۔

    جوہری ری ایکٹر

    شہزادہ محمد بن سلمان کو شاہ عبدالعزیز سٹی میں آمد کے فوری بعد سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں تحقیق وترقی سے متعلق اس شہر کے مختلف منصوبوں اور ان میں سرمایہ کاری کے امکانات کے حوالے سے تفصیلی پریزینٹیشن دی گئی۔اس کے بعد انھوں نے ہوابازی اور راڈار کے منصوبوں میں ہونے والی تازہ پیش رفت کے آئینہ دار بعض منصوبوں کو ملاحظہ کیا۔انھوں نے مرکزِ ایجادات برائے انڈسٹری 4 کی اسمارٹ فیکٹری میں کمپیوٹر ٹیکنالوجی ، سسٹمز ، آٹو میشن ،روبوٹس اور انٹرنیٹ میں ہونے والی پیش رفت کا جائزہ لیا۔

    انھیں سعودی عرب کے خلائی تحقیق کے منصوبوں بہ شمول ’سعودی سیٹ 5 اے ‘ اور ’سعود ی سیٹ 5 بی‘ کے بارے میں بھی آگاہ کیا گیا۔اس کے علاوہ انھیں محفوظ نیشنل ٹیکٹیکل کمیونیکشنز سسٹمز ، انٹرنیٹ نیشنل ایکس چینج اور تعلیمی اداروں کے لیے تیز رفتار نیٹ ورک ، کاربن فائبر پروڈکشن کی لیبارٹری ،جدید میٹریل کے منصوبوں اور کم آبی وسائل کے حامل علاقوں کے لیے پانی اور توانائی کے منصوبوں کے بارے میں بتایا گیا۔

    یاد رہے کہ ولی عہد محمد بن سلمان کا ویژن 2030 سعودی عرب کو ایک ایسی ہائی ٹیک ریاست میں تبدیل کرنے کا عزم ہے جس کے تحت سعودی عرب تیل کی پیدا وار پر انحصار ختم کرتے ہوئے جدید معاشی ذرائع پر انحصار کرے گا۔ محمد بن سلمان کا یہ آئیڈیا انہیں سعودی نوجوانوں میں بے پناہ مقبول کررہا ہے اور جمال خاشقجی اور سعودی شہزادوں کی حراست جیسے واقعات کے باوجود انہیں تاحال اپنے عوام کی حمایت حاصل ہے۔

  • سعودی عرب نے شہزادہ خالد بن طلال کو رہا کردیا

    سعودی عرب نے شہزادہ خالد بن طلال کو رہا کردیا

    ریاض: سعودی عرب نے کرپشن کے خلاف مہم پر تنقید کرنے کے الزام میں گرفتار شہزادہ خالد بن طلال کو بالاخر رہا کردیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سعودی حکام نےشہزادہ خالد بند طلال کو 11 ماہ قبل اس وقت حراست میں لیا تھا جب انہوں نے کرپشن کے الزام میں کی جانے والی سیکڑوں گرفتاریوں پر تنقید کی تھی۔

    شہزادہ خالد بن طلال کے قریبی رشتہ داروں کی جانب سے سوشل میڈیا پر ایسی تصاویر شیئر کی گئی ہیں جن سے آشکار ہورہا ہے کہ وہ اب سعودی حکام کی جانب سے قید میں نہیں ہیں۔

    خالد بن طلال اس وقت کے سعودی حکمران شاہ سلمان کے بھتیجے ہیں ۔ ان کے ہمراہ ان کے بھائی شہزادہ الولید بن طلال کو بھی کرپشن کے خلاف جاری مہم میں درجنوں شہزادوں اور دیگر اہم شخصیات کے ہمراہ حراست میں لیا گیا تھا۔

    یاد رہے کہ ان دنوں سعودی قیادت بالخصوص شہزادہ محمد بن سلمان پر سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے سبب انتہائی شدید دباؤ ہے۔ تجزیہ نگاروں کا کہناہے کہ قیادت اس مسئلے کے حل کے لیے شاہی خاندان سے اپنے لیے حمایت حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہے۔

    یاد رہے کہ ماضی میں تجزیہ کاروں کا خیال تھا کہ شہزادوں اور کاروباری افراد کی گرفتاری کرپشن سے زیادہ طاقت کو اپنے ہاتھوں میں مرکوز رکھنے کےلیے کی گئی ہے۔

    رواں سال جنوری کے آخر میں سعودی پراسیکیوٹر جنرل آفس نے اعلان کیا تھا کہ اہم شخصیات کی گرفتاری اور ان سے ہونے والی سیٹلمنٹ کے نتیجے میں 100 ارب امریکی ڈالر سے زائد کی رقم خزانے میں شامل کی گئی ہے۔ گرفتار شدگان کو زیادہ تر ریاست کے بڑے ہوٹلوں میں رکھا گیا تھا، خالد بن طلال رٹز کارلٹن ہوٹل میں قید تھے۔

  • سعودی ولی عہد کے معاونِ خصوصی نے’جمال خاشقجی‘ کو قتل کیا، ترک اخبار کا دعویٰ

    سعودی ولی عہد کے معاونِ خصوصی نے’جمال خاشقجی‘ کو قتل کیا، ترک اخبار کا دعویٰ

    انقرہ: ترک میڈیا کا کہنا ہے کہ سعودی صحافی جمال خاشقجی کو گلا گھونٹ کر قتل کیا گیا ، بعد ازاں لاش کے ٹکڑے کر کے اسے پانچ بریف کیسوں میں چھپا کر نامعلوم مقام پر منتقل کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق صباح نامی ترک اخبار کا دعویٰ ہے کہ ’حکومتی حکام نے انکشاف کیا ہے کہ صحافی جمال خاشقجی کو استنبول کے سعودی قونصل خانے میں گلا گھونٹ کر قتل کیا گیا تھا اور بعد ازاں لاش کے ٹکڑے کر کے 5 بریف کیسوں میں رکھا گیا تھا۔ یہ بریف کیس سعودی حکام اپنے ہمراہ سعودی عرب سے لائے تھے۔

    اخبار کی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ حکام نے مزید بتایا کہ یکم اکتوبر کی رات ریاض سے استنبول پہنچنے والے 15 سعودی حکام میں سے مہر مرتب، صلاح اور طہار الحربی نے صحافی کے قتل میں کلیدی کردار ادا کیا اور انہی سعودی حکام نے صحافی کو قتل کر کے لاش کے ٹکڑے کیے تھے۔

    یاد رہے کہ مہر مرتب سعوی ولی عہد محمد بن سلمان کے معاون خصوصی ہیں جب کہ صلاح سعودی سائنٹیفک کونسل برائے فرانزک کے سربراہ ہیں اور سعودی آرمی میں کرنل کے عہدے پر فائز ہیں۔ یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ صحافی کے قتل میں مبینہ طور پر ملوث تیسری اہم شخصیت طہار الحربی کو شاہی محل پر حملے میں ولی عہد کی حفاظت کرنے پر حال ہی میں لیفٹیننٹ سے سعودی شاہی محافظ کے عہدے پر ترقی دی گئی تھی۔

    قبل ازیں ترک صدر نے واشنگٹن پوسٹ میں اپنے کالم میں لکھا تھا کہ صحافی کے قتل کا حکم سعودی اعلیٰ قیادت نے دیا تھا، ترک صدر کے مشیر یاسین اکتے نے دعویٰ کیا تھا کہ سعودی صحافی خاشقجی کی لاش کے ٹکڑے کر کے تیزاب میں تحلیل کردیے گئے۔

    واضح رہے کہ سعودی حکومت نے صحافی کے سعودی قونصل خانے میں قتل کی تصدیق کی ہے اور 18 سعودی شہریوں کو حراست میں لینے اور انٹیلی جنس کے 4 افسران کو معطل کرنے جیسے اقدامات بھی کیے ہیں لیکن ترکی اور دنیا بھر کی جانب سے بار بار مطالبے کے باوجود صحافی کی لاش سے متعلق تاحال کوئی معلومات فراہم نہیں کیں۔