Tag: محمد بن قاسم

  • پیار کا پہاڑ

    پیار کا پہاڑ

    قدیم دور میں سندھ کا شہر اروڑ یا الور کئی راجاؤں کا پایۂ تخت رہا ہے۔

    اروڑ، سکھر میں‌ روہڑی سے چند میل کی مسافت پر جنوب مشرق میں ایک پہاڑی پر واقع ہے۔ اروڑ پر چندر ونسی راجاؤں کی 450ء سے 642ء تک حکم رانی رہی جن کو تاریخ میں‌ رائے گھرانہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ تاریخ کے اوراق یہ بھی بتاتے ہیں کہ چندر ونسی گھرانے نے 1100 قبلِ مسیح میں اس شہر پر حکومت کی تھی۔ جب سکندر نے اپنی فوجوں کا رخ ہندوستان کی جانب موڑا اس وقت یہاں کا موسیکانوس کی حکومت قائم تھی جب کہ رائے سہاسی کے زمانے میں نمروز ایرانی نے حملہ کیا تھا۔ قدیم دور کی تاریخ اور تہذیب و ثقافت میں‌ دل چسپی رکھنے والے بالخصوص تاریخ کے طالبِ علم بخوبی جانتے ہیں کہ ایک زمانے میں اروڑ بڑی بندرگاہ بھی رہا ہے۔ اس شہر اور بندرگاہ کا ذکر ہمیں‌ چچ نامہ کے علاوہ تحفتُہ الکرام جیسی اہم اور مسنتد کتب میں‌ بھی ملتا ہے۔

    اسی اروڑ میں‌ ’’پیار کا پہاڑ‘‘ بھی موجود ہے۔ اس قدیم مقام سے ایک پہاڑی سلسلہ تاریخی شہر کوٹ ڈیجی سے ہوتا ہوا نارو کے صحرا تک جا پہنچتا ہے جس میں یہ چھوٹا سا پہاڑ اپنی خوب صورتی کی وجہ سے نمایاں ہے۔ زمین کی سطح سے تین سو فٹ اونچا پیار کا پہاڑ اپنی بنیادوں کے ساتھ دو ایکڑ رقبے پر پھیلا ہوا ہے۔ اس پہاڑ کے آمنے سامنے دو دراڑیں ہیں، جنھوں نے پہاڑ کو چار حصّوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ ان میں سے تین حصّے آج صحیح حالت میں موجود ہیں، لیکن چوتھا حصّہ خاصی حد تک منہدم ہوچکا ہے۔

    اس کی چوٹی پر سفید رنگ کی ایک گنبد نما عمارت ہے، جس کے اطراف چار محرابی دروازے بھی ہیں۔

    اسے ’’پیار کا پہاڑ‘‘ کیوں کہا جاتا ہے؟ اس حوالے سے مقامی لوگوں میں چند باتیں مشہور ہیں جب کہ عاشق مزاج لوگ یہاں‌ اپنی محبّت کی آزمائش اور محبوب سے وعدے نبھانے اور ساتھ دینے کی قسمیں اٹھانے کے لیے اس پہاڑ کی چوٹی پر جاتے ہیں۔ عاشق اپنے محبوب کو یہ باور کراتے ہیں کہ اگر وہ اس پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ جائیں‌ تو پھر محبوب کو بھی پاسکتے ہیں، کچھ عاشق اپنے محبوب کو یہ باور کروانا چاہتے ہیں کہ اگر وہ نہ ملا تو اسی پہاڑ کی چوٹی سے اپنی جان دے دیں‌ گے۔ چند سال پہلے تک اس پہاڑ پر چڑھ کر متعدد لوگوں‌ نے خودکشی بھی کی ہے۔ مقامی لوگوں‌ میں‌ مشہور ہے کہ یہ پہاڑ عاشقوں کے لیے ایک امتحان اور قربان گاہ ہے۔

    کہا جاتا ہے کہ 712ء میں اروڑ فتح کرنے کے بعد محمد بن قاسم نے یہاں اسلامی یادگار کے طور پر سفید رنگ کا ایک گنبد تعمیر کروایا تھا، جو کچی اینٹوں اور مٹی سے بنایا گیا تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہوائوں اور بارشوں کے باعث یہ یادگار تقریباً زبوں حالی کا شکار ہو گئی تھی۔ لیکن مقامی لوگ اسے بچانے کے لیے اپنے طور پر کوششیں کرتے رہے۔ یہ زیادہ پرانی بات نہیں‌ لیکن بیس سال قبل خمیسو فقیر نامی ایک مقامی شخص نے اس یادگار کی مرمت کروائی تھی۔ اس عمارت میں سیمنٹ اور پتھروں کا استعمال کیا گیا، اور اسی لیے اب یہ قدرتی آفات اور حوادث کا مقابلہ کرنے کے قابل ہے۔ ہر سال سندھ کی فتح کے دن کی یاد تازہ کرنے کے لیے 10 رمضان المبارک کو اس عمارت میں نہ صرف مقامی لوگ روزہ افطار کرتے ہیں، بلکہ اس دن کو شایانِ شان طریقے سے مناتے ہیں۔

    ’’پیار کا پہاڑ‘‘ گویا ایک قدرتی مینار ہے جس کی چوٹی پر چڑھ کر سکھر، روہڑی اور دریائے سندھ کے کنارے پر موجود تاریخی مقامات کا نظارہ کیا جاسکتا ہے۔ اس پہاڑ کی چوٹی پر پہنچنے کے لیے مقامی باشندوں نے اپنی مدد آپ کے تحت سادہ سی سیڑھیاں بنائی ہیں، جس کی مدد سے اوپر جانا قدرے آسان ہوگیا ہے۔

    ’’پیار کے پہاڑ‘‘ کے دامن سے ایک خوب صورت ندی بھی گزرتی ہے، جسے ’’کونرڑے جی ندی‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ ندی بارش کے موسم میں پانی سے لبالب بھر جاتی ہے اور دل کش نظارہ پیش کرتی ہے۔

    کچھ روایات میں آیا ہے کہ محمد بن قاسم اور راجا داہر کے درمیان آخری معرکہ اسی پہاڑ کے دامن میں ہوا تھا۔ پہاڑ کے چاروں طرف ان سپہ سالاروں اور بزرگوں‌ کے مزارات ہیں جن کے بارے میں‌ قیاس یہی ہے کہ وہ محمد بن قاسم کے ساتھ آئے تھے۔

    یہاں جن بزرگوں کے مزارات ہیں‌ ان میں سید چھتن شاہ، سید نور شاہ جب کہ پہاڑ کے شمال مشرق میں درگاہ عارف فقیر بھٹی بھی ہے جن کے بارے میں‌ کہا جاتا ہے کہ وہ اروڑ کے بہت بڑے صوفی بزرگ اور دینی عالم تھے۔ اسی طرح ’’شاہ اوٹھے پیر‘‘کا مزار بھی پیار کے پہاڑ کے مشرق میں موجود ہے۔ آپ کے مزار کے عقب میں تھوڑی سی اونچائی پر نامور درویش محمد قاسمانی کا مزار بھی واقع ہے۔

    پیار کے پہاڑ کے دامن میں سندھ کے کئی قدیم قبائل آباد ہیں، جن میں خاص طور پر سروہی، بُرڑا، کٹبر، ماڑیچا، بھیل، ہندو، میرانی اور شیخ اکثریت میں ہیں۔

    اس پہاڑ کو دیکھنے کے لیے دور دور سے سیّاح آتے ہیں‌ اور چھٹیوں اور تہواروں پر خصوصاً قریبی اضلاع سے بڑی تعداد میں لوگ یہاں آکر وقت گزارتے ہیں اور ’’پیار کا پہاڑ‘‘ آباد ہوجاتا ہے۔

  • سندھ کا پیر پٹھو: محمد بن قاسم سے منسوب ٹاور کی داستان کیا ہے؟

    سندھ کا پیر پٹھو: محمد بن قاسم سے منسوب ٹاور کی داستان کیا ہے؟

    وادیاں، بستیاں اور شہر زندگی کا نشان ہوتے ہیں، یہاں کبھی زندگی اپنے عروج پر ہوتی ہے، ہر چڑھتا دن، ہر نئی صبح ایک نئے باب کا آغاز ہوتا ہے جب ان بستیوں میں بسنے والے لوگوں کی زندگی ان کے لیے کچھ نیا لے کر آتی ہے۔

    لیکن وقت بے رحم ہوتا ہے، وہ ایسی چال چلتا ہے کہ کبھی ویران صحرا آباد ہوجاتے ہیں اور ایسے آباد ہوتے ہیں کہ انہیں دیکھ کر یقین کرنا مشکل ہوتا ہے کہ یہ کبھی صحرا تھا، اور کبھی ایسا وار کرتا ہے، کہ ہنستے بستے شہروں اور وادیوں میں میلوں تک خاموشی اور ویرانی بس جاتی ہے۔

    پیر پٹھو کی وادی بھی ایسی ہی ہے جو اب میلوں تک پھیلا ہوا ایک شہر خاموش لگتی ہے۔

    صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی سے 119 کلو میٹر کے فاصلے پر مکلی سے جنوب کی طرف پیر پٹھو کی وادی موجود ہے، 120 ایکڑ پر محیط اس وادی میں جابجا مقبرے، مساجد اور قبرستان موجود ہیں۔

    کہا جاتا ہے کہ یہ وادی دراصل وہ دیبل ہے جہاں عرب کمانڈر محمد بن قاسم نے اپنا پڑاؤ ڈالا تھا۔ بعض مقامات پر اس جگہ کو، اور ان بزرگ کو جن کے نام پر یہ وادی ہے، پیر پٹھو دیبلی بھی لکھا گیا ہے۔

    وادی میں جابجا مقبرے، مساجد اور قبرستان موجود ہیں

    اس وادی میں موجود ایک واچ ٹاور، ایک قدیم مسجد اور دو درگاہیں اہم تاریخی حیثیت رکھتی ہیں۔

    ’محمد بن قاسم‘ ٹاور

    پیر پٹھو میں لائٹ ہاؤس کی طرز کا ایک طویل مینار موجود ہے جو محمد بن قاسم سے منسوب ہے، محکمہ سیاحت و ثقافت سندھ کی جانب سے بحالی کے عمل کے بعد اب یہ ٹاور سفید رنگ میں دکھائی دیتا ہے۔

    ٹاور کی واحد لکڑی کی بالکونی سے پوری وادی کا نظارہ کیا جاسکتا ہے۔

    محمد بن قاسم سے منسوب ٹاور

    مقامی افراد کا ماننا ہے کہ 712 عیسوی میں محمد بن قاسم نے جس دیبل بندر گاہ نامی مقام پر پڑاؤ ڈالا تھا، وہ یہی جگہ ہے، تاہم مؤرخین اور تاریخ کے طالب علموں کا خیال ہے کہ یہاں پر کھدائی اور قدیم آثار کی دریافت کے بعد ہی اس حوالے سے مستند طور پر کچھ کہا جاسکتا ہے۔

    یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ وادی دریائے سندھ کے کنارے پر موجود تھی، کبھی دریائے سندھ یہاں سے گزرتا تھا تاہم کچھ عرصے بعد دریا نے یہاں سے اپنا راستہ بدل لیا، مقامی افراد کے مطابق جس نوعیت کا یہ ٹاور ہے ایسا عموماً بندر گاہوں پر ہی تعمیر کیا جاتا ہے۔

    ٹاور کی بالکونی

    ایک اور رائے یہ بھی ہے کہ یہ ٹاور اور مسجد محمد بن قاسم کی آمد سے کئی سو سال پہلے تعمیر کیے گئے تھے۔

    دو محرابوں والی مسجد

    ٹاور کے سامنے ایک قدیم مسجد بھی موجود ہے، تاریخی حوالوں کے مطابق یہ مسجد سموں حکمران جام تماچی کی دی گئی رقم اور ہدایت پر تعمیر ہوئی جو چودہویں صدی میں حکمران رہے۔

    دو محرابوں والی مسجد

    تاہم اسے محمد بن قاسم کی تعمیر شدہ مسجد بھی کہا جاتا ہے، اس مسجد کے بارے میں ایک اور روایت ہے جس کا ذکر آگے چل کر آئے گا۔

    صوبہ سندھ کے محکمہ سیاحت و ثقافت کے آرکیالوجیکل انجینیئر سرفراز نواز کا کہنا ہے کہ اس مسجد کو دو محرابوں والی مسجد کہا جاتا ہے۔

    مسجد کا اندرونی حصہ

    شیخ پیر پٹھو اور جمیل شاہ داتاری

    پیر پٹھو کی وادی ان دو بزرگان شیخ پیر پٹھو اور جمیل شاہ داتاری کی وجہ سے مشہور ہے، سندھ کی تاریخ سے متعلق کتابوں میں پیر پٹھو کا نام حسن بن راجپار بتایا گیا ہے، ان کی وفات سنہ 1248 عیسوی میں ہوئی۔

    جمیل شاہ داتاری جوناگڑھ سے آئے تھے اور پیر پٹھو کی وادی میں ہی وفات پائی، ان کے سخی مزاج کی وجہ سے انہیں سخی داتار (دینے والا) کے نام سے پکارا گیا۔

    درگاہ جمیل شاہ داتاری کے نگران سید شاہ خالد داتاری ان دونوں بزرگوں سے متعلق ایک روایت سناتے ہیں۔

    درگاہ جمیل شاہ داتار ۔ تصویر: ابو بکر شیخ

    کسی زمانے میں اس وادی میں ایک بڑا جادوگر یا سامی رہا کرتا تھا۔ یہ جادوگر ہر جمعے کے روز (موجودہ) پیر پٹھو کی پہاڑی پر ایک میلہ سجایا کرتا تھا جس میں تمام گاؤں والے شرکت کرتے۔

    میلے کے دوران جادوگر کسی ایک شخص کو پکڑتا اور اس کا خون پی جاتا، ہر جمعے کو گاؤں کے کسی نہ کسی شخص کا قتل معمول بن چکا تھا۔

    گاؤں والے جادوگر سے نہایت دہشت زدہ تھے، وہ جانتے تھے میلے میں جانا ان میں سے کسی نہ کسی کی موت ثابت ہوگا لیکن جیسے ہی جمعے کا روز آتا، سب کے سب ایک تنویمی حالت میں میلے کی طرف چل پڑتے، جادوگر نے ان پر سحر طاری کر رکھا تھا۔

    اس وقت شیخ پیر پٹھو سب سے الگ تھلگ عبادت میں مشغول رہتے۔

    گاؤں والے کئی بار ان کے پاس حاضر ہوئے اور ان سے فریاد کی کہ وہ انہیں جادوگر سے نجات دلائیں اور ظلم کا یہ سلسلہ ختم ہو، لیکن پیر پٹھو اس شیطان صفت جادوگر کے آگے بے بس تھے۔

    وادی میں بے شمار مقبرے موجود ہیں ۔ تصویر: ابو بکر شیخ

    جب جادوگر کے ظلم و ستم کا سلسلہ دراز ہوگیا اور گاؤں والوں کی آہ و بکا بڑھتی گئی تو پیر پٹھو اس وقت کے صوفی بزرگان دین حضرت بہاؤ الدین زکریا اور حضرت لعل شہباز قلندر کے پاس حاضر ہوئے اور انہیں ساری صورتحال سے آگاہ کیا۔

    حضرت بہاؤ الدین زکریا نے انہیں جمیل شاہ داتاری کے بارے میں بتایا جو جونا گڑھ کے ویرانوں میں عبادت میں مصروف تھے۔ شیخ پیر پٹھو کسی طرح وہاں پہنچے اور جمیل شاہ داتاری کو ٹھٹھہ لے کر آئے۔

    سخی داتار نے جادوگر کا مقابلہ کیا اور اسے شکست دی۔

    شاہ خالد داتاری بتاتے ہیں کہ بعض روایات کے مطابق جادوگر اس کے بعد مسلمان ہو کر سخی داتار کا مرید ہو رہا، لیکن بعض روایات میں یہ بھی ہے کہ سخی داتار نے جادوگر کو ایک پتھر میں تبدیل کردیا اور اسے تھر پارکر کے لق و دق ریگستان کی طرف پھینک دیا۔

    پیر پٹھو کی وادی اہم تاریخی حیثیت کی حامل ہے

    بعد ازاں مقامی افراد نے شر اور ظلم سے حفاظت کے لیے اس مقام پر مسجد تعمیر کی جس کا نام دو محرابوں والی مسجد ہے۔

    شاہ خالد داتاری کہتے ہیں، اب بھی کسی پر جادو ٹونا کیا گیا ہو، کسی کی کوئی منت ہو، تو وہ یہاں آتا ہے، پریشانی کا حل تو اللہ ہی نکالتا ہے، لیکن ان ولیوں کے صدقے میں لوگوں کی مرادیں بر آتی ہیں۔

    ان دونوں بزرگان کی درگاہوں پر ہر مذہب کے ماننے والے عقیدت مندوں کا تانتا بندھا رہتا ہے جو اپنی منتیں اور مرادیں لیے یہاں آتے ہیں۔


    اس مضمون کی تیاری کے لیے مندرجہ ذیل کتابوں سے مدد لی گئی:

    مکلی نامہ ۔ میر علی شیر قانع
    قدیم سندھ ۔ بھیرو مل مہرچند آڈوانی

  • فاضل خان کوٹ کا نوحہ جس میں محمد بن قاسم کی فوج نے قیام کیا

    فاضل خان کوٹ کا نوحہ جس میں محمد بن قاسم کی فوج نے قیام کیا

    سنجر چانگ گوٹھ کے قریب فاضل خان کوٹ کے آثار وادیٔ مہران کی قدیم تہذیب کے گواہ ہیں جو ماہرین اور تاریخِ تہذیبِ عالم میں دل چسپی رکھنے والوں کو اپنی جانب متوجہ کرتے ہیں اندازہ ہے کہ یہ تقریباً تین ہزار سال قدیم قلعہ ہے، جسے غالباً کلہوڑا حکم رانوں نے سندھ پر اپنی حکومت قائم کرنے کے بعد یہ نام دیا ہوگا۔

    فاضل خان کوٹ کم و بیش 20 ایکڑ پر مشتمل ہے اور اس کے وسیع و عریض رقبے میں ایک چھوٹا سا شہر بھی شامل تھا۔ یہاں‌ اس شہر کے آثار سے مکانات کی تعمیر، گلیوں، گزر گاہوں کے علاوہ فراہمی و نکاسی آب کے بہترین نظام کا پتا چلتا ہے۔ ماہرین کے مطابق یہاں حمام، عبادت گاہیں اور ضروریاتِ زندگی کی تمام سہولتیں موجود تھیں۔ خیال ہے کہ اس شہر کے لوگ خوش حال تھے۔

    اس قلعے کی آبادی ہزاروں نفوس پر مشتمل تھی جو مختلف پیشوں سے وابستہ رہے ہوں گے۔ مؤرخین کے مطابق جس مقام پر یہ قلعہ تعمیر کیا گیا ہے، اسے ’’وہولہ‘‘ کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ قلعے اور ایسے شہر ہمیشہ دفاعی و تجارتی نقطۂ نظر سے بنائے اور بسائے جاتے تھے اور یقیناً اپنے دور میں‌ یہ بھی ایک اہمیت کی حامل جگہ رہی ہو گی۔

    مؤرخین نے لکھا ہے کہ فاضل خان شہر کا بازار سکھر اور دیبل تک مشہور تھا۔ کہتے ہیں ملتان کی تسخیر کے ارادے سے نکلنے والا محمد بن قاسم کا لشکر جب فاضل کوٹ پہنچا تو اسے بغیر مزاحمت کے یہاں کی چابیاں سونپ دی گئیں اور قلعہ دار نے افواج کو لڑائی اور انسانی جانوں کے ضیاع سے بچا لیا۔ اس قلعہ دار کا نام تاریخی کتب میں بُوہل درج ہے جسے محمد بن قاسم کی فوج نے قلعے کی محافظت دوبارہ سونپ دی اور اس کا منصب برقرار رکھا۔ ملتان روانگی سے قبل چند ماہ فوج نے شہر میں قیام کیا تھا۔

    اس کے سات سو سال بعد کلہوڑا خاندان کی سندھ پر حکومت قائم ہوئی تو ایک شہزادے فاضل خان کلہوڑا نے اس قلعے کو دوبارہ مرمت اور تعمیر کروایا اور یہ اسی کے نام سے موسوم ہے۔

    تاریخ کی کتب میں‌ لکھا ہے کہ کوٹ فاضل خان 1857ء کی جنگِ آزادی میں انگریزوں کے ہاتھوں‌ ہندوستان کے حرّیت پسندوں کا مقتل بنا۔ بعدازاں فرنگیوں نے اس مقام کو جیل خانہ بنا دیا اورقلعے میں کچھ عرصہ توپ خانہ بھی رکھا گیا۔ آج اس قلعے کے آثار بھی مٹنے کو ہیں اور یہ انتہائی مخدوش حالت میں ہے جسے لوک ورثہ قرار دے کر محفوظ کرنے کی ضرورت ہے۔

  • تاریخی ناول نگار نسیم حجازی کی برسی

    تاریخی ناول نگار نسیم حجازی کی برسی

    مشہور ناول نگار نسیم حجازی 2 مارچ 1996ء کو اس دارِ فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔ اردو زبان میں تاریخی واقعات اور عالمِ اسلام کے نام وَر حکم رانوں، سپہ سالاروں اور مشہور جنگجو کرداروں پر مبنی ان کے ناول ہر خاص و عام میں بے انتہا مقبول ہوئے۔ نسیم حجازی کے ناولوں کو ڈرامائی تشکیل کے بعد ٹیلی ویژن پر بھی پیش کیا گیا اور یہ بھی اپنے وقت کے مقبول ڈرامے ثابت ہوئے۔

    نسیم حجازی 19 مئی 1914ء کو ضلع گورداسپور میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا اصل نام محمد شریف تھا۔ انھوں نے اپنی عملی زندگی کا آغاز صحافت سے کیا اور متعدد ہفت روزہ اور روزناموں سے وابستہ رہے۔

    نسیم حجازی نے قلم کو ہندوستان کی آزادی اور اس دور کی برائیوں کے خلاف جہاد کے لیے استعمال کیا اور بلوچستان اور شمالی سندھ میں ان کی تحریروں نے تحریکِ پاکستان کو مہمیز دی۔ نسیم حجازی کی وجہِ شہرت ان کی تاریخی ناول نگاری ہے جن میں انسان اور دیوتا، محمد بن قاسم، آخری چٹان، شاہین، خاک اور خون، یوسف بن تاشقین، آخری معرکہ، معظم علی، اور تلوار ٹوٹ گئی، قیصر و کسریٰ، قافلہ حجاز اور اندھیری رات کے مسافر وہ ناول تھے جنھوں نے قارئین کی بڑی تعداد کو ان کا مداح بنادیا۔

    نسیم حجازی نے طنز و مزاح کے حوالے سے پورس کے ہاتھی، ثقافت کی تلاش اور سو سال بعد نامی کتابیں بھی تحریر کیں۔ ان کا ایک سفر نامہ پاکستان سے دیارِ حرم تک بھی شایع ہوا۔ اردو کے اس عظیم ناول نگار کی تصانیف کا کئی زبانوں میں ترجمہ ہوا جب کہ آخری چٹان اور شاہین ان کے مقبول ترین ناولوں پر مبنی ڈرامے ہیں۔ خاک اور خون نسیم حجازی کا وہ ناول ہے جس پر فلم بنائی گئی۔

    راولپنڈی میں وفات پانے والے نسیم حجازی اسلام آباد کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔