Tag: محمد حسن عسکری

  • "میاں! اسٹیشن واپس چلو…”

    "میاں! اسٹیشن واپس چلو…”

    اردو کے ممتاز نقاد، بہترین مترجم اور افسانہ نگار محمد حسن عسکری کی سادگی، اپنے شہر سے ان کی الفت اور تہذیب و ثقافت سے لگاؤ کا یہ قصّہ دل چسپ بھی ہے اور ایک بڑے آدمی کی شخصیت کا وہ پہلو ہمارے سامنے لاتا ہے، جس سے عام طور پر قاری واقف نہیں ہوتے۔ محمد حسن عسکری اپنی غیر معمولی تنقیدی تحریروں کے لیے اردو ادب میں شہرت رکھتے ہیں۔

    حسن عسکری کے درویش صفت اور سیدھے سادے انسان ہونے کا احوال سنانے والے بھی اردو ادب کا ایک بڑا نام ہیں۔ اور وہ ہیں ڈاکٹر عبادت بریلوی جنھیں اردو کا صفِ اوّل کا نقّاد مانا جاتا ہے۔ انھوں نے اپنے مقدمہ میں اس کا تذکرہ یوں کیا ہے کہ جن دنوں عسکری صاحب کو روزگار کی شدید ضرورت تھی اور بریلوی صاحب نے کچھ کوشش کر کے انھیں اعظم گڑھ کے شبلی کالج میں انگریزی زبان کے لیکچرر کے طور پر ایک اسامی کے لیے روانہ کیا۔ لیکن عجیب بات یہ ہوئی کہ روانگی کے بعد تیسرے روز ہی حسن عسکری صاحب سے عربک کالج، دہلی میں ان کا آمنا سامنا ہوگیا۔ ڈاکٹر عبادت بریلوی اس واقعے کو یوں بیان کرتے ہیں:

    ”عسکری صاحب کہنے لگے: صاحب! آپ نے مجھے کہاں بھیج دیا تھا۔ میں اعظم گڑھ تک نہ پہنچ سکا۔ درمیان سے واپس آ گیا۔“ میں نے کہا وہ کیسے؟

    کہنے لگے: میں اعظم گڑھ کے اسٹیشن پر اترا۔ ویران سا اسٹیشن تھا۔ باہر نکل کر میں نے ایک تانگے والے سے کہا کہ میاں! شبلی کالج پہنچا دو۔ وہ تیار ہو گیا۔ میں اس کے تانگے میں سامان رکھ کر بیٹھ گیا۔ اجاڑ سی سڑک پر تانگہ چلنے لگا۔

    کچھ دور اور آگے گیا تو سڑک کچھ اور بھی ویران نظر آنے لگی۔ اس سڑک پر تو بجلی کے کھمبے تک نہیں تھے۔ میونسپلٹی لالٹین لگی تھیں، گاؤں کا سا ماحول معلوم ہوتا تھا۔ لوگ عجیب سے پوربی لہجے میں اردو بول رہے تھے۔ اس ماحول کو دیکھ کر میری طبیعت گھبرا گئی اور اختلاج سا ہونے لگا۔ چناں چہ میں نے یہ فیصلہ کیا کہ میں اس ویران جگہ میں نہیں رہ سکوں گا۔ اس لیے میں نے تانگے والے سے کہا میاں! اسٹیشن واپس چلو، میں شبلی کالج نہیں جاؤں گا۔ میں اس شہر میں رہنے کے لیے تیار نہیں۔

  • ہمارے ہاں مزاح کیوں نہیں؟

    ہمارے ہاں مزاح کیوں نہیں؟

    اس سوال پر زیادہ توجہ صرف نہیں کی گئی ہے۔ بہر حال کبھی کبھی لوگوں کے دل میں یہ خیال ضرور پیدا ہوتا ہے کہ اردو کے جدید ادب میں مزاح کیوں نہیں ہے؟ یعنی خالص مزاح، ورنہ ویسے تو افسانوی ادب کا بیشتر حصّہ طنز پر مشتمل ہے اور طنزیہ نظموں کے علاوہ بہت سی اور نظموں میں بھی طنزیہ عناصر آ جاتے ہیں۔

    ادب میں مزاح کی کمی ایسا مسئلہ نہیں جو صرف اردو ادب تک ہی محدود ہو۔ اس کا تعلق بیسویں صدی کے ہر ادب سے ہے بلکہ صنعتی دور کے ادب سے ہے۔ یوں ہونے کو تو مغرب میں مزاحیہ ادب کی تھوڑی بہت تخلیق ہو رہی ہے اور طنز و تضحیک سے لے کر FANTASY تک ہر چیز موجود ہے۔ اگر خالص ادبی حثییت رکھنے والی چیزیں ختم بھی ہو جائیں تو بھی جب تک MUSIC HALL زندہ سلامت ہیں، مغربی تہذیب سے مزاح غائب نہیں ہو سکتا بلکہ اگر کاڈویل کی بات مانیں تو میوزک ہال کی تخلیقات کو پرولتاری آرٹ کہنا پڑے گا، لیکن ان سب باتوں کے باوجود خود مغرب میں چوسر، رابیلے، سروانیٹنراور شیکسپئر کی قسم کا عظیم المرتبت مزاحیہ ادب پیدا نہیں ہو رہا ہے۔ ہاں البتہ جوئس کی کتابوں کے بہت سے حصّے مستثنیٰ کے طور پر پیش کئے جا سکتے ہیں، مگر ان مزاحیہ اور طربیہ حصوں کے پہلو بہ پہلو جوئس کے یہاں حزن بھی بلا کا موجود ہے۔ بہرحال جوئس سے قطع نظر عمومی حیثیت سے ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہوں گے کہ بیسویں صدی وہ زمانہ ہی نہیں جہاں طربیہ روح پھلے پھولے۔

    ہمارے دور کا انسان ایک بڑی مصیبت میں مبتلا ہے۔ وہ مستقبل کو نہیں بھول سکتا۔ چنانچہ وہ اپنے آپ کو حال کے لمحے میں بھی اس طرح جذب نہیں کر سکتا جس طرح صنعتی دور سے پہلے کا انسان کر سکتا تھا۔ اور پھر مستقبل بھی ایسا کہ جو ہمیشہ خوفناک نہ سہی، مگر اتنا بے شکل ہے کہ دل میں تردد پیدا کر دیتا ہے۔ بیسویں صدی کا انسان اس یقین کے ساتھ نہیں ہنس سکتا کہ کل بھی وہ اسی طرح ہنس سکے گا۔ پہلے آدمی کے لئے حیات بعد ممات کا عقیدہ ایک بہت بڑا سہارا تھا، اس کے ساتھ یہ عقیدہ بھی کہ ایسی طاقت موجود ہے جس کی رضا کے مطابق ہر بات ہوتی ہے۔ یہ طاقت انسان سے بلند تر ہونے کے باوجود بہت سی باتوں میں انسان سے مشابہ تھی۔

    یہ طاقت غضب ناک سہی مگر رحیم و کریم تھی۔ کم سے کم انسان کو تھوڑا بہت یہ ضرور معلوم تھا کہ یہ طاقت کن باتوں سے خوش ہوتی ہے اور کن باتوں سے ناراض۔ ان تصورات پر سے اعتقاد اٹھ جانے کے بعد کوشش کی گئی ہے کہ ان کی جانشینی چند معاشیاتی یا عمرانی نظریوں کے سپرد کی جائے، مگر یہ نظریے ابھی تک عوام کے شعور میں جذباتی تجربوں کا درجہ حاصل نہیں کر سکے ہیں۔ چنانچہ اب ان کے پاس اپنی دنیا کو سمجھنے کا کوئی ایسا ذریعہ نہیں رہا جو انہیں مطمئن کر سکے۔ ہر نیا واقعہ اتفاق یا حادثے کی حیثیت رکھتا ہے اور عوام کی ذہنی حالت کچھ حیرانی اور سراسیمگی کی زیادہ ہے۔ چنانچہ اس زمانے میں اگر کوئی مزاح نگار پیدا بھی ہو جائے تو اسے ایسی پبلک نہیں ملے گی جو ہنسنے کے لئے تیار ہو۔ چیٹرٹن کے اندر بڑا مزاح نگار بننے کی کچھ صلاحیت موجود تھی، لیکن ماحول کا جبر دیکھئے، ساری عمر وہ ہنسنے کی ضرورت پر وعظ کہتا رہا، مگر خود نہیں ہنس سکا (یعنی کسی بڑی مزاحیہ تخلیق کی شکل میں)

    ایک اور وقت ہمارے زمانے کے مزاح نگار کو پیش آتی ہے۔ وہ پورے یقین کے ساتھ یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس چیز پر ہنسا جا سکتا ہے اور اس چیز پر نہیں۔ ماحول اتنی تیزی سے بدل رہا ہے کہ کسی چیز کو غور سے دیکھنے کی مہلت ہی نہیں ملتی۔ جو چیز آج طربیہ ہے کل وہ حزنیہ بن جاتی ہے۔ ان کے اس طرح گڈمڈ ہو جانے کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہر چیز یا تو ہولناک نظر آنے لگی ہے یا مضحکہ خیز۔ لیکن جب ہر چیز مضحکہ خیز ہو گئی تو اس کے یہ معنیٰ ہوں گے کہ آپ کسی چیز پر بھی ہنس نہیں سکتے۔ سوچئے کہ آپ ALICE IN WONDERLAND والی دنیا میں پہنچ جائیں تو آپ کے دماغ کی کیا حالت ہوگی؟

    ہنسی کے لئے تضاد اور تقابل کا وجود لازمی ہے۔ تضاد کے بغیر چیزوں کی معنویت غائب ہونے لگتی ہے۔ جب ساری چیزیں ایک سی بے معنی ہوگئیں تو ہنسی کی گنجائش کہاں رہی؟ ہمارے زمانے میں کوئی STANDARD OF FORMALITY ہی باقی نہیں رہتا ہے، حالانکہ مزاح کے لئے یہ چیز بنیادی طور پر ضروری ہے۔ غیر معمولی باتیں اتنی عام ہوگئی ہیں کہ ہم انہیں روزمرّہ کی چیزیں سمجھ کر قبول کرنے لگے ہیں۔ ممکن ہے کہ یہ سب باتیں ہمارے اندر رنج و غم بلکہ وحشت اور دیوانگی تک پیدا کرتی ہوں۔ لیکن جب تک ہم انہیں معمول سے ہٹتی ہوئی باتیں نہ سمجھیں ہم ان پر ہنس نہیں سکتے۔

    کچھ ہماری دنیا میں نظریہ بازی کا شوق بھی بہت بڑھ گیا ہے اور واقعی ہمارے زمانے کے واقعات ہیں بھی بہت اہم۔ ساری انسانیت کا مستقبل بلکہ انسانیت کی زندگی تک ان کے رجحانات پر منحصر ہے۔ چنانچہ ہر چیز ایک مسئلہ بن گئی ہے اور ایسا مسئلہ کہ جس سے لطف لینے کا وقت بالکل نہیں ہے بلکہ جسے جلدی سے جلدی سمجھنا ہے اور کوئی حل تلاش کرنا ہے۔ ہر چیز اتنی سنجیدہ ہو گئی ہے کہ بے پروائی سے اس پر ہنستے ہوئے ڈر لگتا ہے۔ ہاں جب ہم کسی چیز کا حل نہیں تلاش کر سکتے تو شکست، مایوسی اور جھنجھلاہٹ کی وجہ سے ایک زہر خند ضرور ہمارے ہونٹوں تک آ جاتا ہے۔ چنانچہ بیسویں صدی کے ادب میں اذیت پرستانہ طنز کی بڑی فراوانی ہے۔

    اور بہت سی چیزوں کی طرح اس بحرانی دور میں ادب اور ادیب بھی بڑی غیر ضروری اور بے کار سی چیزیں معلوم ہونے لگے ہیں۔ یہاں تک کہ ادیب کو بھی شدت سے یہ احساس ہوگیا ہے کہ سماج اب اس کی ضرورت نہیں سمجھتی، یا اسے سامانِ تعیش میں گنا جاتا ہے جس کا بوجھ اب سماج نہیں اٹھا سکتی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ چند ادیب سماج سے بے نیاز ہونے کی کوشش کرنے لگے۔ لیکن ہر آدمی میں تو اتنا بل بوتا نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ ادیبوں کے ایک بہت بڑے طبقے نے سماج پر اپنی اہمیت واضح کرنے اور اپنا کھویا ہوا وقار پا لینے کی کوشش کی ہے۔ وہ سماج کو یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ ہم بھی ذمہ دار آدمی ہیں، ہم بھی نظریے بنا سکتے ہیں، ہمارے پاس بھی مسائل کے حل موجود ہیں، ہمارا بھی مقصد ایک ہے۔ ادیب اس بات سے بہت ڈرتے ہیں کہ کہیں انہیں غیر ذمہ دار یا غیرسنجیدہ نہ سمجھ لیا جائے، لہٰذا وہ کوشش کر کر کے اپنے چہرے پر شکنیں ڈالتے ہیں، خود اپنے آپ کو زبردستی یقین دلانا چاہتے ہیں کہ ہم بڑے سنجیدہ اور ذمہ دار آدمی ہیں، حالانکہ زندگی سے لطف لینا خود ایک بڑ ی ذمہ داری ہے۔ اس طرح یہ ادیب اپنے اندر ہنسی کا گلا خود دبائے رکھتے ہیں۔

    یہ ایسی باتیں تھیں جو صرف ہندوستان ہی میں نہیں بلکہ ساری دنیا میں مزاحیہ ادب کی تخلیق کو روک رہی ہیں۔ لیکن اردو کے نئے ادب میں مزاح کی کمی کے علاوہ ایک اور بھی سبب ہے۔ اردو کے ادیبوں کا سرمایہ بس لے دے کے ادیب بننے کی خواہش ہے۔ ان کی جڑیں نہ تو ادب میں مضبوط ہیں نہ زندگی میں۔ جس زندگی نے انہیں پیدا کیا ہے اس سے نہ تو انہیں واقفیت ہے نہ اس سے محبت۔ یوں حب الوطنی کا اظہار اور چیز ہے، لیکن جس طرح ہم سرشار اور نذیر احمد کے متعلق کہہ سکتے ہیں کہ وہ اپنے ماحول میں ڈوبے ہوئے تھے اور اپنی دنیا سے محبت کرتے تھے، اس طرح کے جملے ہم نئے ادیبوں کے متعلق استعمال نہیں کرسکتے۔ عصمت چغتائی اس بات سے بہت حد تک مستثنی ہیں۔ ذاتی خواہشات کے میدان کو چھوڑ کر اردو کے اکثر و بیشتر نئے ادیبوں کو زندگی سے کچھ یوں ہی سا علاقہ ہے۔ غریبوں سے ہمدری کے تمام اعلانوں کے باوجود زندگی سے ناواقف ہیں۔

    میرا مطلب ذہنی علم سے نہیں بلکہ اعصابی ادراک سے ہے۔ اگر میرا یہ الزام کچھ غیرمتوازن معلوم ہوتا تو امتحان بھی کچھ مشکل نہیں۔ اردو کے سارے نئے ادب میں سے صرف ایک افسانہ ایسا نکال کر دکھا دیجیے جس میں ہندوستان کی زندگی اور ہندوستان کی روح اپنی پوری شدت کے ساتھ نظر آتی ہو۔ ایک ایسا افسانہ جسے پڑھ کر کوئی غیر ملکی آدمی یہ کہہ سکے کہ ہاں، اس افسانے میں ہندوستان سما گیا ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ میں صرف PICK PAPERS جیسی چیز سے مطمئن ہوں گا۔ یہاں تو اسکاٹ کے THE TWO DROVERS کے مقابلے کا افسانہ ملنا مشکل ہے۔

    اردو کے ادیبوں کی دوسری کمزوری یہ ہے کہ انہیں اپنی زبان ہی نہیں آتی۔ ہمارے ادیبوں نے عوام کو بولتے ہوئے نہیں سنا، ان کے افسانوں میں زندہ زبان اور زندہ انسانوں کا لب و لہجہ نہیں ملتا۔ ایسی صورت میں مزاح کی تخلیق ممکن ہی نہیں۔ ادب کی اور اصناف کی بہ نسبت مزاح کہیں زیادہ سماجی چیز ہے۔ جب تک مزاح دوسروں کے اندر آواز بازگشت پیدا نہیں کرتا، کامیاب ہو ہی نہیں سکتا۔ اور یہ آواز بازگشت اس وقت تک پیدا نہیں ہوتی جب تک زبان پر قدرت حاصل نہ ہو۔ لوگوں کو رلانے کے لئے اتنے فن کی ضرورت نہیں جتنی ہنسانے کے لئے ہے۔ ہمارے لکھنے والوں کو ایک طرف تو اردو نہیں آتی، دوسری طرف زیادہ تعداد ایسے ادیبوں کی ہے جنہیں صرف اتنی انگریزی آتی ہے کہ عبارت کا مفہوم سمجھ لیں۔ جب وہ کسی انگریزی مصنف سے اثر پذیر ہوتے ہیں تو وہ اس اثر کا تجزیہ نہیں کر سکتے۔ لہٰذا موٹی موٹی باتوں کی نقل تو وہ خیر بری بھلی کر لیتے ہیں مگر اصلی چیز ان کی گرفت میں نہیں آتی۔

    بہرحال اور جتنی رکاوٹیں ہیں وہ دور بھی ہو جائیں تب بھی اردو میں مزاحیہ ادب کا مستقبل کچھ زیادہ تابناک نہیں بن سکتا، جب تک کہ اردو کے ادیب اردو سیکھنے کی کوشش نہ کریں۔

    (اردو کے ممتاز نقاد، مترجم اور افسانہ نگار محمد حسن عسکری کی ایک فکرانگیز تحریر)

  • ‘اس تکلف میں کیوں پڑیں؟’

    ‘اس تکلف میں کیوں پڑیں؟’

    روزمرّہ، محاورہ اور کہاوتیں کسی انسان کے مشاہدات اور زندگی کے تجربات کی وہ شکل ہوتی ہے جو عام بول چال میں‌ جگہ پا کر اس کا حُسن بڑھاتے ہیں۔ ان محاوروں اور ضربُ الامثال میں ہم تہذیب و تمدن کے رجحانات، کسی سماج کے قدیم عقائد اور رسم و رواج کی تصویریں دیکھ سکتے ہیں۔

    اردو ادب میں نثر اور نظم کی اصناف بھی رنگا رنگ محاوروں سے مزیّن ہے اور اسی لیے زبان و ادب کی تفہیم کے لیے محاورہ سے واقفیت ضروری ہے۔ مگر آج عام آدمی تو کیا اہلِ علم بھی بامحاورہ زبان بولنے اور لکھنے سے دور ہوچکے ہیں۔ اس حوالے سے محمد حسن عسکری کے مضمون ’محاوروں کا مسئلہ‘ سے یہ اقتباس ملاحظہ کیجیے۔

    "بعض لوگوں کی رائے یہ ہے کہ محاوروں کے استعمال کی ضرورت ہی کیا ہے۔ اگر سیدھے سادھے لفظوں سے کام چل جائے تو اس تکلف میں کیوں پڑیں؟

    دو چار لوگ ایسے بھی ہیں جو چاہتے ہیں کہ محاورے استعمال ہوں اور اس کی صورت وہ یہ بتاتے ہیں کہ پرانا ادب پڑھا جائے۔ اگر اس طرح سے محاوروں کا استعمال سیکھا جا سکتا ہے تو پھر وہ لغت والا نسخہ ہی کیا بُرا ہے؟ خیر اپنی اپنی رائے تو اس معاملے میں سبھی دے لیتے ہیں۔ کوئی محاوروں کو قبول کرتا ہے، کوئی رد۔ لیکن جو بات پوچھنے کی ہے وہ کوئی نہیں پوچھتا۔

    اصل سوال تو یہ ہے کہ محاورے کب استعمال ہوتے ہیں اور کیوں؟ اور محاوروں میں ہوتا کیا ہے؟ وہ ہمیں پسند کیوں آتے ہیں؟ ان سے بیان میں اضافہ کیا ہوتا ہے؟

    خالص نظریاتی بحث تو مجھے آتی نہیں۔ ایک آدھ محاورے کو الٹ پلٹ کر دیکھتا ہوں کہ اس کے کیا معنی نکلتے ہیں۔ سرشار نے کہیں لکھا ہے، ’’چراغ میں بتی پڑی اور اس نیک بخت نے چادر تانی۔‘‘ اس اچھے خاصے طویل جملے کا سیدھا سادا مطلب یہ ہے کہ وہ لڑکی شام ہی سے سو جاتی ہے، تو جو بات کم لفظوں میں ادا ہو جائے اسے زیادہ لفظوں میں کیوں کہا جائے؟ اس سے فائدہ؟

    فائدہ یہ ہے کہ جملے کا اصل مطلب وہ نہیں جو میں نے بیان کیا ہے بلکہ اس سے کہیں زیاد ہ ہے۔ ’’شام ہونا‘‘ تو فطرت کا عمل ہے۔ ’’چراغ میں بتی پڑنا‘‘ انسانوں کی دنیا کاعمل ہے جو ایک فطری عمل کے ساتھ وقوع پذیر ہوتا ہے اور یہ عمل خاصا ہنگامہ خیز ہے۔ جن لوگوں نے وہ زمانہ دیکھا ہے، جب سرسوں کے تیل کے چراغ جلتے تھے، انہیں یاد ہوگا کہ چراغ میں بتی پڑنے کے بعد کتنی چل پوں مچتی تھی۔ اندھیرا ہو چلا، ادھر بتی کے لئے روئی ڈھونڈی جا رہی ہے۔ روئی مل گئی تو جلدی میں بتی ٹھیک طرح نہیں بٹی جا رہی۔ کبھی بہت موٹی ہوگئی، کبھی بہت پتلی۔ دوسری طرف بچّے بڑی بہن کے ہاتھ سے روئی چھین رہے ہیں۔ یہی وقت کھانا پکنے کا ہے۔ توے پر روٹی نظر نہیں آ رہی، روٹی پکانے والی الگ چلّا رہی ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔

    ’’چراغ میں بتی پڑنے‘‘ کے معنیٰ محض یہ نہیں کہ شام ہو گئی۔ اس فقرے کے ساتھ اجتماعی زندگی کا ایک پورا منظر سامنے آتا ہے اس محاورے میں فطرت کی زندگی اور انسانی زندگی گھل مل کر ایک ہو گئی ہے۔ بلکہ شام کے اندھیرے اور سناٹے پر انسانوں کی زندگی کی ہماہمی غالب آگئی ہے۔

    سرشار نے یہ نہیں کہا کہ سورج غروب ہوتے ہی سو جانا صحت کے لئے مضر ہے۔ انہیں تو اس پر تعجب ہوا کہ ایسے وقت جب گھر کے چھوٹے بڑے سب ایک جگہ جمع ہوں اور اتنی چہل پہل ہو رہی ہو، ایک آدمی سب سے منہ موڑ کر الگ جا لیٹے۔ انہیں اعتراض یہ ہے کہ سونے والی نے اجتماعی زندگی سے بے تعلقی کیسے برتی؟ پھر ’’چادر تاننا‘‘ بھی سو جانے سے مختلف چیز ہے۔ اس میں ایک اکتاہٹ کا احساس ہے۔ یعنی آدمی زندگی کی سرگرمیوں سے تھک جانے کے بعد ایک شعوری فعل کے ذریعے اپنے آپ کو دوسروں سے الگ کر کے چادر کے نیچے پناہ لیتا ہے۔ سرشار نے محض ایک واقعہ نہیں بیان کیا بلکہ عام انسانوں کے طرزِعمل کا تقاضا دکھایا ہے۔ اس انفرادی فعل کے پیچھے سے اجتماعی زندگی جھانک رہی ہے۔ محاوروں کے ذریعے پس منظر اور پیش منظر ایک دوسرے میں پیوست ہو گئے ہیں۔”

  • اردو تنقید کو مغربی دانش سے روشناس کرانے والے محمد حسن عسکری کا تذکرہ

    اردو تنقید نگاری میں محمد حسن عسکری صاحب کی حیثیت ایک معمار کی ہے جن کی تحریریں غیرمعمولی اور منفرد ہیں۔ افسانہ نگاری اور تراجم کے علاوہ وہ اسلامی ادب کی نظریہ سازی میں بھی مشغول رہے۔ یہ ان کی زندگی کے آخری برسوں کی بات ہے۔ آج اردو زبان کے صفِ‌ اوّل کے اس نقّاد کی برسی ہے۔

    اردو زبان و ادب نے محمد حسن عسکری کی فکر اور تنقید کی بدولت کئی محاذ سَر کیے جس نے ان کے ہم عصروں کو بھی متأثر کیا۔ ان کا شمار ایسے بلند پایہ نقّادوں‌ میں ہوتا ہے جنھوں نے جدید مغربی رجحانات کو اردو داں طبقے میں متعارف کرایا اور ادب کا دامن وسیع کیا۔

    محمد حسن عسکری انگریزی ادب کے استاد بھی تھے۔ وہ درویش صفت اور سادہ زندگی بسر کرنے کے عادی تھے جس سے متعلق ایک واقعہ ممتاز ادیب اور نقّاد سجاد باقر رضوی کی زبانی پڑھیے:

    ’’عسکری صاحب کو کئی بار کالج کی پرنسپلی کی پیش کش ہوئی، مگر وہ ہمیشہ انکار کر دیتے۔ کوئی بیس برس پہلے کی بات ہے، پرنسپل صاحب چھٹّی پر گئے تو انہیں بہ جبر و اکراہ چند دنوں کے لیے پرنسپل کا کام کرنا پڑا۔ لوگوں نے دیکھا کہ وہ پرنسپل کی کرسی پر نہیں بیٹھتے۔ ساتھ کے صوفے پر بیٹھ کر کاغذات نمٹاتے ہیں۔

    ایک صاحب سے نہ رہا گیا، پوچھا: ”عسکری صاحب! آپ کرسی پر کیوں نہیں بیٹھتے؟“

    یار پھسلتی ہے۔“ عسکری صاحب نے کرسی کی مختصر مگر جامع تعریف کی۔‘‘

    محمد حسن عسکری 18 جنوری 1978ء کو وفات پاگئے تھے۔ وہ قیامِ پاکستان کے بعد ہجرت کر کے لاہور آئے تھے اور کچھ عرصہ لاہور میں گزارنے کے بعد کراچی منتقل ہوگئے۔ یہاں ایک مقامی کالج میں انگریزی ادب کے استاد مقرر ہوئے اور تدریس کا یہ سلسلہ تاعمر جاری رہا۔ انھوں نے تدریس کے ساتھ اردو اور انگریزی زبان میں کئی مضامین سپردِ قلم کیے جو تنقید کے میدان میں اردو کا بڑا سرمایہ ہیں۔

    ان کا تعلق الٰہ آباد سے تھا جہاں وہ 5 نومبر 1919ء کو پیدا ہوئے۔ 1942ء میں الٰہ آباد یونیورسٹی سے انگریزی ادب میں ایم اے کی سند لی۔ یہاں حسن عسکری صاحب کو فراق گورکھپوری اور پروفیسر کرّار حسین جیسے بلند پایہ تخلیق کاروں اور اساتذہ سے استفادہ کرنے کا موقع ملا جس نے حسن عسکری کی فکری راہ نمائی کی اور ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو مزید نکھرنے کا موقع ملا۔

    بطور ادبی تخلیق کار انھوں نے ماہ نامہ ساقی دہلی سے اپنا سفر شروع کیا تھا۔ اس رسالے میں عسکری صاحب کی پہلی تحریر دراصل انگریزی زبان سے ترجمہ کی گئی تھی۔ یہ 1939ء کی بات ہے۔ اس کے بعد کرشن چندر اور عظیم بیگ چغتائی پر انھوں نے اپنے دو طویل مضامین شایع کروائے۔ 1943ء میں انھوں نے بعنوان جھلکیاں کالم لکھنے کا آغاز کردیا۔

    محمد حسن عسکری نے ادبی تنقید لکھنے کے ساتھ افسانہ نگاری بھی کی۔ ان کے افسانوں کا پہلا مجموعہ ’’جزیرے‘‘ 1943ء میں شائع ہوا تھا۔ 1946ء میں دوسرا مجموعہ ’’قیامت ہم رکاب آئے نہ آئے‘‘ شایع ہوا جب کہ تنقیدی مضامین ’’انسان اور آدمی‘‘ اور ’’ستارہ اور بادبان‘‘ کے نام سے شایع ہوئے۔ ان کی دیگر کتب میں ’’جھلکیاں‘‘، ’’وقت کی راگنی‘‘ اور ’’جدیدیت اور مغربی گمراہیوں کی تاریخ کا خاکہ‘‘ شامل ہیں۔

    انگریزی زبان و ادب پر محمد حسن عسکری کی گہری نظر تھی اور ان کا مطالعہ بھی خوب تھا جس نے انھیں تنقید کے میدان میں خوب فائدہ پہنچایا۔ انھوں نے کئی عالمی شہرت یافتہ ادیبوں کی تخلیقات انگریزی زبان میں پڑھی تھیں اور ان کا اردو ترجمہ بھی کیا تھا جو زبان و بیان پر ان کی گرفت کا ثبوت ہیں۔ فرانسیسی ادب کا گہرا مطالعہ کرنے کے بعد انھوں نے اپنے مضامین میں فرانسیسی ادبیات سے استفادہ کرنے پر بھی اصرار کیا۔

    ’’وقت کی راگنی‘‘ ان کی وہ کتاب تھی جس نے بتایا کہ محمد حسن عسکری بنیادی طور پر شعریات کے احاطے میں داخل ہو کر نئے نکات پر بحث کرنا چاہتے ہیں۔ ان کی کتاب کے کئی مضامین ہمیں مغربی ادب کی طرف بھی متوجہ کرتے ہیں‌ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ غیرملکی ادیبوں کے اسلوب اور ان کی رمزیات پر محمد حسن عسکری کی گہری نظر تھی۔ ان مضامین میں ’’جنگِ عظیم دوم کے بعد برطانوی ادب‘‘، ’’جوئیس کا طرزِ تحریر‘‘، ’’فرانس کے ادبی حلقوں کی دو بحثیں‘‘، ’’یورپ کے چند ذہنی رجحانات‘‘ وغیرہ شامل ہیں۔

    محمد حسن عسکری زندگی کے آخری برسوں میں اسلامی شعور اور اس کے زیرِ اثر مباحث اور فکر کا اظہار کرنے لگے تھے اور اپنی تحریروں میں انھوں نے جدیدیت اور مغربی گمراہیوں کی تاریخ پر روشنی ڈالی ہے وہ یہ بتانا چاہتے تھے کہ کئی مغربی تصورات نے دین کے سلسلے میں بہت سی کئی گمراہیاں پیدا کی ہیں۔

    اردو کے اس نام وَر نقاد کو دارالعلوم کورنگی، کراچی کے احاطہ میں موجود شہرِ خموشاں میں لحد نصیب ہوئی۔

  • محمد حسن عسکری: اردو تنقید کے معمار کا تذکرہ

    محمد حسن عسکری: اردو تنقید کے معمار کا تذکرہ

    محمد حسن عسکری کو اردو تنقید کے معماروں میں شمار کیا جاتا ہے۔ وہ نقّاد، مترجم اور افسانہ نگار تھے جن کا کام نہایت وقیع اور مستند ہے۔ ان کے نگارشات کے پس منظر میں اردو تنقید نے کئی محاذ سر کیے اور نئی دنیا بسائی۔

    18 جنوری 1978ء کو اردو تنقید نگاری کا یہ آفتاب ہمیشہ کے لیے ڈوب گیا۔ ان کی غیرمعمولی تحریریں اور تنقیدی مضامین اردو زبان و ادب کا بیش قیمت سرمایہ ہیں۔

    محمد حسن عسکری قیامِ پاکستان کے بعد ہجرت کر کے لاہور آئے تھے، کچھ عرصے بعد وہ کراچی منتقل ہوگئے اور ایک مقامی کالج میں انگریزی ادب کے شعبے سے وابستگی اختیار کرلی، وہ تمام عمر تدریس کے ساتھ تخلیقی کاموں اور ادبی سرگرمیوں میں مصروف رہے۔

    محمد حسن عسکری 5 نومبر 1919ء کو الٰہ آباد میں پیدا ہوئے تھے۔ 1942ء میں الٰہ آباد یونیورسٹی سے انگریزی ادب میں ایم اے کی سند لی۔ یہاں انھیں فراق گورکھپوری اور پروفیسر کرار حسین جیسے اساتذہ سے مستفید ہونے کا موقع ملا۔

    بطور ادبی تخلیق کار انھوں نے ماہ نامہ ساقی دہلی سے اپنا سفر شروع کیا تھا۔ اس رسالے میں عسکری صاحب کی پہلی تحریر انگریزی سے ایک ترجمہ تھا جو 1939ء میں شائع ہوا۔ اس کے بعد کرشن چندر اور عظیم بیگ چغتائی پر ان کے دو طویل مضامین شایع ہوئے۔ 1943ء میں انھوں نے یہ کالم لکھنے کا آغاز کیا جس کا عنوان جھلکیاں تھا۔

    انھوں نے تنقید کے ساتھ افسانہ نگاری بھی کی۔ ان کے افسانوں کا پہلا مجموعہ ’’جزیرے‘‘ 1943ء میں شائع ہوا تھا۔ 1946ء میں دوسرا مجموعہ ’’قیامت ہم رکاب آئے نہ آئے‘‘ شایع ہوا جب کہ تنقیدی مضامین ’’انسان اور آدمی‘‘ اور ’’ستارہ اور بادبان‘‘ کے نام سے شایع ہوئے۔ ان کی دیگر کتب میں ’’جھلکیاں‘‘، ’’وقت کی راگنی‘‘ اور ’’جدیدیت اور مغربی گمراہیوں کی تاریخ کا خاکہ‘‘ شامل ہیں۔

    بحیثیت نقّاد اردو ادب کے علاوہ عالمی افسانوی ادب پر ان کی گہری نظر تھی۔ انھوں نے فرانسیسی ادب سے اردو تراجم کیے جو ان کی زبان و بیان پر گرفت کا ثبوت ہیں۔

    وہ کراچی میں دارالعلوم کورنگی میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • پرنسپل کی کرسی اور عسکری صاحب

    پرنسپل کی کرسی اور عسکری صاحب

    اردو زبان و ادب میں محمد حسن عسکری کا نام ایک ایسے تخلیق کار کے طور پر لیا جاتا ہے جن کی تنقیدی فکر نے ان کے ہم عصروں کو متاثر بھی کیا اور انھوں نے اپنی نگارشات میں‌ جدید مغربی رجحانات کو اردو داں طبقے میں متعارف کرایا۔

    محمد حسن عسکری نام ور نقّاد، افسانہ نگار، مترجم اور انگریزی ادب کے استاد تھے جن سے متعلق ممتاز ادیب اور نقّاد سجاد باقر رضوی نے ایک جگہ لکھا ہے:

    ’’عسکری صاحب کو کئی بار کالج کی پرنسپلی کی پیش کش ہوئی، مگر وہ ہمیشہ انکار کر دیتے۔

    کوئی بیس برس پہلے کی بات ہے، پرنسپل صاحب چھٹّی پر گئے تو انہیں بہ جبر و اکراہ چند دنوں کے لیے پرنسپل کا کام کرنا پڑا۔

    لوگوں نے دیکھا کہ وہ پرنسپل کی کرسی پر نہیں بیٹھتے۔ ساتھ کے صوفے پر بیٹھ کر کاغذات نمٹاتے ہیں۔

    ایک صاحب سے نہ رہا گیا، پوچھا: ”عسکری صاحب! آپ کرسی پر کیوں نہیں بیٹھتے؟“

    یار پھسلتی ہے۔“ عسکری صاحب نے کرسی کی مختصر مگر جامع تعریف کی۔‘‘

  • نام وَر نقّاد اور افسانہ نگار محمد حسن عسکری کی وفات

    نام وَر نقّاد اور افسانہ نگار محمد حسن عسکری کی وفات

    18 جنوری 1978ء اردو کے نام ور نقّاد محمد حسن عسکری کا یومِ وفات ہے۔ قیامِ پاکستان کے بعد ہجرت کرکے لاہور آئے اور کچھ عرصے بعد کراچی میں سکونت اختیار کرلی جہاں ایک مقامی کالج میں انگریزی ادب کے شعبے سے وابستہ ہوگئے اور کراچی میں علمی و ادبی کاموں اور سرگرمیوں میں مصروف رہے۔

    محمد حسن عسکری 5 نومبر 1919ء کو الٰہ آباد میں پیدا ہوئے۔ 1942ء میں الٰہ آباد یونیورسٹی سے انگریزی ادب میں ایم اے کیا جہاں انھوں نے فراق گورکھپوری اور پروفیسر کرار حسین جیسے اساتذہ سے استفادہ کیا۔

    محمد حسن عسکری نے بطور ادیب ماہ نامہ ساقی دہلی سے اپنا سفر شروع کیا تھا۔ اس رسالے میں عسکری صاحب کی پہلی تحریر انگریزی سے ایک ترجمہ تھا جو 1939ء میں شائع ہوا۔ اس کے بعد کرشن چندر اور عظیم بیگ چغتائی پر ان کے دو طویل مضامین شایع ہوئے۔ 1943ء میں انھوں نے یہ کالم لکھنے کا آغاز کیا جس کا عنوان جھلکیاں تھا۔

    ان کا شمار اردو کے اہم افسانہ نگاروں میں بھی کیا جاتا ہے۔ ان کے افسانوں کا پہلا مجموعہ ’’جزیرے‘‘ 1943ء میں شائع ہوا تھا۔ 1946ء میں دوسرا مجموعہ ’’قیامت ہم رکاب آئے نہ آئے‘‘ شایع ہوا جب کہ تنقیدی مضامین ’’انسان اور آدمی‘‘ اور ’’ستارہ اور بادبان‘‘ کے نام سے شایع ہوئے۔ ان کی دیگر کتب میں ’’جھلکیاں‘‘ ، ’’وقت کی راگنی‘‘ اور ’’جدیدیت اور مغربی گمراہیوں کی تاریخ کا خاکہ‘‘ شامل ہیں۔

    بحیثیت نقّاد اردو ادب کے علاوہ عالمی افسانوی ادب پر ان کی گہری نظر تھی۔ انھوں نے فرانسیسی ادب سے اردو تراجم کیے جو ان کی زبان و بیان پر گرفت کا ثبوت ہیں۔ ایّامِ زیست کے اواخر میں انھوں نے مفتی محمد شفیع‌ صاحب کی قرآن مجید کی تفسیر کا انگریزی میں ترجمہ شروع کیا جس کی ایک جلد ہی مکمل ہوسکی۔

    محمد حسن عسکری کراچی میں دارالعلوم کورنگی میں آسودۂ خاک ہیں۔