Tag: محمد حسین آزاد

  • محمد حسین آزاد کا تذکرہ جنھیں اردو ادب میں آبِ حیات نے جاودانی عطا کی

    محمد حسین آزاد کا تذکرہ جنھیں اردو ادب میں آبِ حیات نے جاودانی عطا کی

    کیسے کیسے گوہرِ نایاب مٹی ہوگئے اور کیا نابغۂ روزگار شخصیات تھیں جو رزقِ خاک ہوئیں۔ وہ ادیب و شاعر جن کے فن کی عظمت کا تذکرہ اور قلم کی رفعت کا شہرہ کبھی ہر طرف ہوتا تھا، آج بتدریج ان کا نام ذہن سے اترتا جاتا ہے۔ یہ تذکرہ اردو کے صاحبِ طرز انشاء پرداز، بلند پایہ ادیب اور شاعر محمد حسین آزادؔ کا ہے جن کا آج یوم‌ِ وفات ہے۔ جب بھی اردو ادب کی تاریخ، اور اہلِ قلم کے فن و اسلوب کو موضوع بنایا جائے گا، اپنے زمانے کے اس بے مثل ادیب کا تذکرہ ضرور کیا جائے گا۔

    بلند پایہ اور صاحبِ طرز انشا پرداز، ناقد، محقق، شاعر اور صحافی محمد حسین آزادؔ کے فن اور ان کی شخصیت پر بات کرنے کو دفتر درکار ہے۔ ان کی ادبی تخلیقات اور اور زبان و ادب کے لیے خدمات کے کئی پہلو اور بہت سے گوشے تشنۂ تحقیق ہیں۔ جدید نثر کے معمار اور جدید نظم کی داغ بیل ڈالنے والے آزاد نے نیرنگِ خیال جیسی تصنیف کی شکل میں‌ اردو تنقید کو نقشِ اوّل عطا کیا۔ اپنے منفرد و بے مثل اسلوب کے ساتھ آزاد نے اس کتاب میں قدیم تذکروں کے مروجہ انداز سے انحراف کیا ہے۔ اسے نثر کا اعلیٰ نمونہ سمجھا جاتا ہے۔ آگے ہم آبِ‌ حیات و دیگر کتابوں کا تذکرہ کریں گے، لیکن پہلے ان کے حالاتِ زیست پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔

    محمد حسین آزاد جنگ آزادی میں بغاوت کے بعد شہادت پانے والے پہلے ہندوستانی صحافی مولوی محمد باقر کے اکلوتے فرزند تھے۔ مولوی باقر اردو کے پہلے اخبار ‘دہلی اردو اخبار’ کے مالک اور ایڈیٹر تھے اور انگریز سامراج کے خلاف مضامین لکھتے اور شایع کرتے تھے۔ 1857 میں جنگ آزادی کی ناکامی کے بعد جھوٹے الزام میں مولوی باقر کو گرفتار کر کے موت کے گھاٹ اتار دیا۔ محمد باقر تھا ظاہر ہے علمی و ادبی شخصیت تھے استاد ذوق کے دوست تھے۔ اور یوں آزادؔ کو ابتدائی تعلیم و تربیت کے لیے ذوق جیسے شاعر کی صحبت کے سایٔہ عاطفت نصیب ہوا۔ انہی سے موصوف نے شعر گوئی اور فنِ عروض سیکھا۔ عربی اور فارسی اپنے والد سے سیکھی تھی اور بعد میں دہلی کالج میں داخلہ لیا۔ شاعری کا شوق تو بچپن ہی میں ہوگیا تھا اور ذوقؔ کے ساتھ بڑے بڑے مشاعروں میں جاتے جہاں استاد شعراء کو سنتے تھے۔ والد کی شہادت کے بعد انھیں گھر بار چھوڑنا اور دہلی سے لکھنؤ فرار ہونا پڑا۔ املاک ضبط کر لی گئی۔ اور لکھنؤ میں رشتے داروں کے پاس رہنا پڑا۔ 1864ء میں ٹھوکریں کھانے کے بعد تلاش روزگار میں لاہور کا رخ کیا۔ ایک پوسٹ آفس میں عارضی ملازمت بھی کی۔ محکمہ تعلیم میں نوکری بھی کی اور انگریزوں کو اردو بھی پڑھائی۔ برطانوی دور کی حکومتِ پنجاب نے ان سے اردو کی درسی نصابی کتابیں بھی لکھوائیں۔ آزاد پر جب قسمت مہربان ہوئی تو گورنمنٹ کالج لاہور میں عربی فارسی پڑھانے کی ذمہ داری مل گئی۔ معاشی حالات بہتر ہوئے تو آزاد کی ادبی تخلیقی صلاحیتوں کو ابھرنے کا موقع ملا اور حالی کے ساتھ آزاد کا بھی جدید نظم کے موجدوں‌ میں‌ شمار ہوا۔ انھوں نے ایران، بخارا اور کابل کا سفر بھی کیا۔

    آزادؔ کو ان کے تعلیمی و تصنیفی اور سرکاری کارناموں کی وجہ سے بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ آغا محمد باقر لکھتے ہیں کہ: ‘‘۱۸۸۷ء میں مولانا آزاد ؔ کو ملکہ وکٹوریا کی جوبلی کے موقعہ پرتعلیمی اور ادبی خدمات کے صلے میں شمس العلماء کا خطاب ملا۔’’

    اردو ادب کو اپنی تخلیقات سے مالا مال کرنے والے محمد حسین آزاد کی شاہ کار اور یادگار تصانیف کا مختصر تعارف باذوق قارئین خاص طور پر ادب کے طلبہ کی دل چسپی کا باعث بنے گا۔

    آغاز کرتے ہیں قصصِ ہند سے جو تین حصّوں پر مشتمل ہے۔ اس تصنیف میں پہلا حصہ ماسٹر پیارے لال آشوب کی کوششوں کا نتیجہ ہے۔ اس کا تیسرا حصہ کرنل ہالرائیڈ کے ایما پر سر رشتۂ تعلیم پنجاب کے اراکین نے ترتیب دیا اور قصصِ ہند کا دوسرا حصہ محمد حسین آزادؔ کا پہلا ادبی اور علمی کارنامہ ہے۔ اس کے بعد ایک عرصہ تک آزادؔ نے کسی مستقل تصنیف کی طرف توجہ نہیں کی۔ عتیق اﷲ لکھتے ہیں کہ: ’’قصصِ ہند میں کسی خاص عہد یا ہندوستان کی مکمل و مبسوط تاریخ کو موضوع نہیں بنایا گیا ہے بلکہ محض ان چیدہ چیدہ تاریخی شخصیات ہی پر خاص توجہ کی گئی ہے۔ جو مختلف وجہ سے توجہ طلب رہی ہیں۔آزاد نے انہیں بڑی بے تکلف اور حکائی زبان میں اد اکرنے کی سعی کی ہے۔ آزاد نے بڑی حد تک معروضیت کا بھی خیال رکھا ہے ۔ ‘‘

    قصصِ ہند میں محمود غزنوی، شہاب الدین غوری، علاء الدّین، ہمایوں، اکبر، نور جہاں، شاہ جہاں، اورنگ زیب، شیوا جی وغیرہ وغیرہ کے کچھ حالات و واقعات کا ذکر ہے۔ اس میں آزاد نے ہندوستان کے کچھ مشہور قصوں کہانیوں کو عام فہم زبان میں بیان کیا ہے۔

    اب چلتے ہیں آبِ حیات کی طرف جسے مولانا محمد حسین آزادؔ کی شاہکار اور بہترین تصنیف شمار کیا گیا۔ اس میں مشہور شعراء کے حالات مع نمونۂ کلام اور مصنّف دل چسپ انداز میں تنقید کی جھلک دیکھنے کو ملتی ہے۔ اس سے قبل اس قسم کا تذکرہ کسی نے نہیں لکھا تھا۔ آب حیات کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کے ذریعے آزاد نے ایک جدید طرز کی تذکرہ نگاری کا آغاز کیا۔ گنجینۂ معلومات ہونے کے علاوہ اس کتاب کی خوبی اس کی بے مثال طرزِ عبارت ہے کہ جس کی نقل کی سب کوشش کرتے آئے ہیں۔

    آزادؔ نے اس کتاب کو پانچ ادوار میں تقسیم کیا ہے۔ شاعر کے واقعاتِ حیات اور ان کی سرگزشت قلم بند کرنے میں آزاد کے پر لطف اوردل چسپ اسلوب بیان اور ان کی محاکاتی صلاحیتوں نے اسے بڑا دل پذیر بنا دیا ہے۔ ڈاکٹر محمد صادق لکھتے ہیں کہ ’’آب حیات محض اردو شاعری کی تاریخ ہی نہیں بلکہ ایک توانا، متحرک اور زندگی سے لبریز دستاویز ہے جو عہد ماضی کو از سر نو زندہ کرکے ہماری آنکھوں کے سامنے لا کھڑا کرتی ہے۔‘‘

    ناقدین کا کہنا ہے کہ آبِ حیات کے اسلوب میں جو نزاکت اور سادگی موجود ہے وہ بہت کم انشا پردازوں سے صادر ہوئی اور اگرچہ اس میں کئی تذکرے غلط واقعات کے ساتھ ہیں اور یہ ثابت ہوچکا ہے، مگر اس کتاب کی ادبی اہمیت میں کوئی فرق نہیں آیا۔

    اسی طرح دربارِ اکبری کو ایک عالیشان تصنیف کہا جاتا ہے جس میں آزاد ؔ نے بادشاہ اکبر کے عہد اور ان کے اراکینِ سلطنت کا حال درج کیا ہے۔ اس کتاب میں آزاد ؔ نے عہد اکبری کا نقشہ اس طرح کھینچا ہے کہ تمام مناظر جیتی جاگتی تصاویر کی طرح آنکھوں کے سامنے آجاتے ہیں۔ اس کتاب کا ترجمہ انگریزی زبان میں بھی ہو چکا ہے۔

    اور بات کی جائے نیرنگِ خیال جو کہ محمد حسین آزادؔ کے تمثیلی مضامین کا مجموعہ ہے تو اس کا اسلوب اور طرز بیان نہایت دل نشیں ہے۔ یہ۱۸۸۰ء میں دو حصّوں میں شائع ہوا۔ ان مضامین میں آزادؔ نے تمثیل نگاری سے کام لیا ہے۔ یہ مضامین ہلکی پھلکی اور شگفتہ مضمون نگاری کا عمدہ نمونہ ہیں۔ ان میں آزاد ؔ نے انگریزی ادب سے بھر پور استفادہ کیا ہے۔

    ان کے علاوہ سخندانِِ فارس آزاد کے مختلف مقالات کا مجموعہ ہے جو فارسی زبان و ادب سے متعلق ہیں۔ فارسی ادب کے تعلق سے یہ کتاب بہت ہی دل چسپ ہے جس کے دو حصّے ہیں۔ ایک کتاب نگارستانِ فارس بھی ہے جو ایران اور ہندوستان کے فارسی شعراء کا ایک مختصر تذکرہ ہے۔

    آزاد نے نہ صرف اردو نثر کو نیا انداز دیا بلکہ اردو نظم کو بھی ایک نئی شکل و صورت عطا کی تھی۔ انھوں نے تذکرہ نگاری میں منفرد اور اچھوتا انداز اپنایا اور نئی تنقید کی شمع روشن کی۔ محمد حسین آزادؔ 5 مئی 1830ء کو دہلی میں پیدا ہوئے تھے۔ جب چار برس کے تھے تو والدہ کا انتقال ہو گیا اور پھر والد کی شہادت ہوئی۔ بعد میں‌ لاہور میں انھیں دو بڑے صدمات مزید سہنا پڑے اور وہ مخبوط الحواس ہوگئے۔ ان کی زندگی کے آخری کئی برس جنون اور دیوانگی کی حالت میں گزرے۔ اس کی وجہ اہلیہ اور بیٹی کی ناگہانی موت کا صدمہ تھا اور 22 جنوری 1910ء کو لاہور ہی میں انتقال کر گئے۔ ان کا مزار داتا گنج کے قریب ہے۔

  • سچ کی روشنی آنکھوں کے لیے مضر!

    سچ کی روشنی آنکھوں کے لیے مضر!

    عہدِ قدیم کے مؤرخ لکھتے ہیں کہ اگلے زمانہ میں فارس کے شرفا اپنے بچوں کے لئے تین باتوں کی تعلیم میں بڑی کوشش کرتے تھے۔ شہ سواری، تیراندازی اور راست بازی۔

    شہ سواری اور تیراندازی تو بے شک سہل آ جاتی ہوگی، مگر کیا اچھی بات ہوتی کہ اگر ہمیں معلوم ہو جاتا کہ راست بازی کن کن طریقوں سے سکھاتے تھے اور وہ کون سی سپر تھی کہ جب دروغ دیو زاد آکر ان کے دلوں پر شیشہ جادو مارتا تھا، تو یہ اس چوٹ سے اس کی اوٹ میں بچ جاتے تھے۔

    اس میں شک نہیں کہ دنیا بری جگہ ہے۔ چند روزہ عمر میں بہت سی باتیں پیش آتی ہیں، جو اس مشت خاک کو اس دیو آتش زاد کی اطاعت کے لئے مجبور کرتی ہیں۔ انسان سے اکثر ایسا جرم ہو جاتا ہے کہ اگر قبولے تو مرنا پڑتا ہے، ناچار مکرنا پڑتا ہے۔ کبھی آبلہ فریبی کر کے جاہلوں کو پھنساتا ہے، جب لقمہ رزق کا پاتا ہے۔ اس کے علاوہ بہت مزے دنیا کے ہیں کہ مکر و دغا ان کی چاٹ لگاتی ہے، اور جزوی جزوی خطائیں ہو جاتی ہیں جن سے مکرتے ہی بن آتی ہے۔ غرض بہت کم انسان ہوں گے جن میں یہ حوصلہ و استقلال ہو کہ راستی کے راستے میں ہر دم ثابت قدم ہی رہیں۔

    یہ بھی یاد رہے کہ انسان کے سچ بولنے کے لئے سننے والے بھی ضرور ہیں، کیوں کہ خوشامد جس کی دکان میں آج موتی برس رہے ہیں اس سے زیادہ جھوٹ کیا ہوگا اور کون ایسا ہے جو اس قید کا زنجیری نہیں۔ ڈرپوک بیچارا ڈر کا مارا خوشامد کرتا ہے۔ تابع دار امید کا بھوکا آقا کو خوش کرکے پیٹ بھرتا ہے۔ دوست محبت کا بندہ ہے۔ اپنے دوست کے دل میں اسی سے گھر کرتا ہے۔ ایسے بھی ہیں کہ نہ غلام ہیں، نہ ڈرپوک ہیں۔ انہیں باتوں باتوں میں خوش کر دینے ہی کا شوق ہے۔ اسی طرح جب جلسوں میں نمودیے گدھوں کے دعوے بل ڈاگ کی آواز سے کئی میدان آگے نکل جاتے ہیں، تو ان میں وہ لوگ بھی ہوتے ہیں جنہیں کچھ امید، کچھ ڈر، کچھ مروت سے، غرض چار ناچار کبھی ان کے ساتھ ساتھ، کبھی پیچھے پیچھے دوڑنا پڑتا ہے۔

    سچ کا عجب حال ہے کہ اتنا تو اچھا ہے، مگر پھر بھی لوگ اسے ہر وقت اچھا نہیں سمجھتے، چنانچہ جب کسی شے پر دل آتا ہے اور سچ اس کے برخلاف ہوتا ہے تو اس وقت سچ سے زیادہ کوئی برا نہیں معلوم ہوتا۔ اصل یہ ہے کہ حضرت انسان کو حقیقت اور واقعیت سے کچھ غرض نہیں۔ جس چیز کو جی نہیں چاہتا، اس کا جاننا بھی نہیں چاہتے۔ جو بات پسند نہیں آتی اس کا ذکر بھی نہیں سنتے، اس کان سنتے ہیں، اس کان سے نکال دیتے ہیں۔ حکیموں نے جھوٹ سے متنفر ہونے کی بہت سی تدبیریں نکالی ہیں اور جس طرح بچوں کو کڑوی دوا مٹھائی میں ملا کر کھلاتے ہیں، اسی طرح انواع و اقسام کے رنگوں میں اس کی نصیحتیں کیں ہیں تاکہ لوگ اسے ہنستے کھیلتے چھوڑ دیں۔

    واضح ہوکہ ملکہ صداقت زمانی، سلطان آسمانی کی بیٹی تھی جو کہ ملکہ دانش خاتون کے پیٹ سے پیدا ہوئی تھی۔ جب ملکہ موصوفہ نے ہوش سنبھالا تو اوّل تعلیم و تربیت کے سپرد ہوئی۔ جب انہوں نے اس کی پرورش میں اپنا حق ادا کر لیا تو باپ کے دربار میں سلام کو حاضر ہوئی۔ اسے نیکی اور نیک ذاتی کے ساتھ خوبیوں اور محبوبیوں کے زیور سے آراستہ دیکھ کر سب نے صدق دل سے تعریف کی۔ عزتِ دوام کا تاجِ مرصع سر پر رکھا گیا اور حکم ہوا کہ جاؤ اولادِ آدم میں اپنا نور پھیلاؤ۔ عالم سفلی میں دروغ دیو زاد ایک سفلہ نابکار تھا کہ حمقِ تیرہ دماغ اس کا باپ تھا اور ہوسِ ہوا پرست اس کی ماں تھی۔ اگرچہ اسے دربار میں آنے کی اجازت نہ تھی، مگر جب کسی تفریح کی صحبت میں تمسخر اور ظرافت کے بھانڈ آیا کرتے تھے تو ان کی سنگت میں وہ بھی آ جاتا تھا۔

    اتفاقاً اس دن وہ بھی آیا ہوا تھا اور بادشاہ کو ایسا خوش کیا تھا کہ اسے ملبوسِ خاص کا خلعت مل گیا تھا۔ یہ منافق دل میں سلطانِ آسمانی سے سخت عداوت رکھتا تھا۔ ملکہ کی قدر و منزلت دیکھ کر اسے حسد کی آگ نے بھڑکایا۔ چنانچہ وہاں سے چپ چپاتے نکلا اور ملکہ کے عمل میں خلل ڈالنے کو ساتھ ساتھ روانہ ہوا۔ جب یہ دو دعوے دار نئے ملک اور نئی رعیت کے تسخیر کرنے کو اٹھے تو چونکہ بزرگانِ آسمانی کو ان کی دشمنی کی بنیاد ابتدا سے معلوم تھی، سب کی آنکھیں ادھر لگ گئیں کہ دیکھیں ان کی لڑائی کا انجام کیا ہو؟

    سچ کے زور و قوت کو کون نہیں جانتا۔ چنانچہ ملکہ صداقت کو بھی حقیقت کے دعوے تھے۔ اٹھی اور اپنے زور میں بھری ہوئی تھی؛ اسی واسطے بلند اٹھی۔ اکیلی آئی اور کسی کی مدد ساتھ نہ لائی۔ ہاں آگے آگے فتح و اقبال نور کا غبار اڑاتے آتے تھے اور پیچھے پیچھے ادراک پری پرواز تھا۔ مگر صاف معلوم ہوتا تھا کہ تابع ہے، شریک نہیں۔ ملکہ کی شان شاہانہ تھی، اور دبدبہ خسروانہ تھا۔ اگرچہ آہستہ آہستہ آتی تھی، مگر استقلال کا رکاب پکڑے تھا۔ اور جو قدم اٹھتا تھا، دس قدم آگے پڑتا نظر آتا تھا۔ ساتھ اس کے جب ایک دفعہ جم جاتا تھا، تو انسان کیا فرشتہ سے بھی نہ ہٹ سکتا تھا۔

    دروغ دیو زاد بہروپ بدلنے میں طاق تھا، ملکہ کی ہر بات کی نقل کرتا تھا اور نئے نئے سوانگ بھرتا تو وضع اس کی گھبرائی ہوئی معلوم ہوتی تھی۔ دنیا کی ہوا و ہوس، ہزاروں رسالے اور پلٹنیں اس کے ساتھ لیے تھیں اور چوں کہ یہ ان کی مدد کا محتاج تھا، اسی لالچ کا مارا کمزور تابع داروں کی طرح ان کے حکم اٹھاتا تھا۔ ساری حرکتیں اس کی بے معنی تھیں اور کام بھی الٹ پلٹ، بے اوسان تھے۔ کیونکہ استقلال ادھر نہ تھا۔ اپنی شعبدہ بازی اور نیرنگ سازی سے فتح یاب تو جلد ہو جاتا تھا، مگر تھم نہ سکتا تھا، ہوا و ہوس اس کے یارِ وفادار تھے اور اگر کچھ تھے تو وہی سنبھالتے رہتے تھے۔

    کبھی کبھی ایسا بھی ہو جاتا تھا کہ دونوں کا آمنا سامنا ہو کر سخت لڑائی آ پڑتی تھی۔ اس وقت دروغ دیو زاد اپنی دھوم دھام بڑھانے کے لئے سر پر بادل کا دھواں دھار پگڑ لپیٹ لیتا تھا۔ لاف و گزاف کو حکم دیتا کہ شیخی اور نمود کے ساتھ آگے جاکر غل مچانا شروع کر دو۔ ساتھ ہی دغا کو اشارہ کر دیتا تھا کہ گھات لگا کر بیٹھ جاؤ۔ دائیں ہاتھ میں طراری کی تلوار، بائیں ہاتھ میں بے حیائی کی ڈھال ہوتی تھی۔ غلط نما تیروں کا ترکش آویزاں ہوتا تھا۔ ہوا و ہوس دائیں بائیں دوڑتے پھرتے تھے۔ دل کی ہٹ دھرمی، بات کی پچ، پیچھے سے زور لگاتے تھے۔ غرض کبھی مقابلہ کرتا تھا تو ان زوروں کے بھروسے پر کرتا تھا اور باوجود اس کے کہ ہمیشہ یہی چاہتا تھا کہ دور دور سے لڑائی ہو۔ میدان میں آتے ہی تیروں کی بوچھاڑ کر دیتا تھا، مگر وہ بھی بادِ ہوائی، اٹکل پچو، بے ٹھکانے ہوتے تھے۔ خود ایک جگہ پر نہ ٹھہرتا تھا۔ دم بدم جگہ بدلتا تھا کیونکہ حق کی کمان سے جب تیر نظر اس کی طرف سر ہوتا تھا تو جھٹ تاڑ جاتا تھا۔

    ملکہ کے ہاتھ میں اگرچہ باپ کی کڑک بجلی کی تلوار نہ تھی، مگر تو بھی چہرہ ہیبت ناک تھا اور رعب خداداد کا خود سر پر دھرا تھا۔ جب معرکہ مار کر ملکہ فتح یاب ہوتی تھی تو یہ شکست نصیب اپنے تیروں کا ترکش پھینک، بے حیائی کی ڈھال منہ پر لئے، ہوا و ہوس کی بھیڑ میں جاکر چھپ جاتا تھا۔ نشان لشکر گر پڑتا تھا اور لوگ پھریرا پکڑے زمین پر گھسیٹتے پھرتے تھے۔ ملکہ صداقت زمانی کبھی کبھی زخمی بھی ہوتی تھی۔ مگر سانچ کو آنچ نہیں، زخم جلد بھر جاتے تھے اور وہ جھوٹا نابکار جب زخم کھاتا تھا تو ایسے سڑتے تھے کہ اوروں میں بھی وبا پھیلا دیتے تھے۔ مگر ذرا انگور بندھے اور پھر میدان میں آن کودا۔

    دروغ دیو زاد نے تھوڑے ہی تجربہ میں معلوم کر لیا تھا کہ بڑائی اور دانائی کا پردہ اسی میں ہے کہ ایک جگہ نہ ٹھہروں۔ اس لئے دھوکہ بازی اور شبہ کاری کو حکم دیا کہ ہمارے چلنے پھرنے کے لئے ایک سڑک تیار کرو، مگراس طرح کے ایچ پیچ اور ہیر پھیر دے کر بناؤ کہ شاہراہ صداقت جو خط مستقیم میں ہے اس سے کہیں نہ ٹکرائے۔ چنانچہ جب اس نابکار پر کوئی حملہ کرتا تھا تو اسی رستہ سے جدھر چاہتا تھا، نکل جاتا تھا اور جدھر سے چاہتا تھا پھر آن موجود ہوتا تھا۔

    ان رستوں سے اس نے ساری دنیا پر حملے کرنا شروع کر دیے اور بادشاہت اپنی تمام عالم میں پھیلا کر دروغ شاہ دیو زاد کا لقب اختیار کیا۔ جہاں جہاں فتح پاتا تھا، ہوا و ہوس کو اپنا نائب چھوڑتا اور آپ فوراً کھسک جاتا۔ وہ اس فرماں روائی سے بہت خوش ہوتے تھے۔ اور جب ملکہ کا لشکر آتا تھا تو بڑی گھاتوں سے مقابلے کرتے تھے۔ جھوٹی قسموں کی ایک لمبی زنجیر بنائی تھی۔ سب اپنی کمریں اس سے جکڑ لیتے تھے کہ ہرگز ایک دوسرے کا ساتھ نہ چھوڑیں گے۔ مگر سچ کے سامنے جھوٹ کے پاؤں کہاں؟ لڑتے تھے اور متابعت کر کے ہٹتے تھے۔ پھر ادھر ملکہ نے منہ پھیرا، ادھر باغی ہو گئے۔ ملکہ جب آسمان سے نازل ہوئی تھی تو سمجھتی تھی کہ بنی آدم میرے آنے سے خو ش ہوں گے۔ جو بات سنیں گے اسے مانیں گے اور حکومت میری تمام عالم میں پھیل کر مستقل ہو جائے گی۔ مگر یہاں دیکھا کہ گزارہ بھی مشکل ہے۔ لوگ ہٹ دھرمی کے بندے ہیں اور ہوا و ہوس کے غلام ہیں اور اس میں بھی شک نہیں کہ ملکہ کی حکومت آگے بڑھتی تھی مگر بہت تھوڑی تھوڑی۔ اس پر بھی یہ دشواری تھی کہ ذرا اس طرف ہٹی اور پھر بدعملی ہو گئی کیونکہ ہوا و ہوس جھٹ بغاوت کا نقارہ بجا، دشمن کے زیرِ علم جا موجود ہوتے تھے۔

    ہر چند ملکہ صداقت زمانی ان باتوں سے کچھ دبتی نہ تھی کیوں کہ اس کا زور کسی کے بس کا نہ تھا، مگر جب بار بار ایسے پاجی کمینے کو اپنے مقابلہ پر دیکھتی تھی اور اس میں سوا مکر و فریب اور کمزوری و بے ہمتی کے اصالت اور شجاعت کا نام نہ پاتی تھی تو گھٹتی تھی اور دل میں پیچ و تاب کھاتی تھی۔

    جب سب طرح سے ناامید ہوئی تو غصہ ہوکر اپنے باپ سلطان آسمانی کو لکھا کہ آپ مجھے اپنے پاس بلا لیجئے۔ دنیا کے لوگ اس شیطان کے تابع ہوکر جن بلاؤں میں خوش ہیں ان ہی میں رہا کریں۔ اپنے کئے کی سزا آپ پالیں گے۔ سلطان آسمانی اگرچہ اس عرضی کو پڑھ کر بہت خفا ہوا مگر پھر بھی کوتاہ اندیشوں کے حال پر ترس کھایا اور سمجھا کہ اگر سچ کا قدم دنیا سے اٹھا توجہان اندھیر اور تمام عالم تہ و بالا ہو جائے گا۔ چنانچہ اس خیال سے اس کی عرض نا منظور کی۔ ساتھ اس کے یہ بھی گوارہ نہ ہوا کہ میرے جگر کا ٹکڑا جھوٹے بد اصلوں کے ہاتھوں یوں مصیبت میں گرفتار رہے۔ اسی وقت عالم بالا کے پاک نہادوں کو جمع کر کے ایک انجمن منعقد کی۔ اس میں دو امر تنقیح طلب قرار پائے۔

    (۱) کیا سبب ہے کہ ملکہ کی کارروائی اور فرماں فرمائی دنیا میں ہر دل عزیز نہیں۔
    (۲) کیا تدبیر ہے جس سے اس کے آئینِ حکومت کو جلد اہلِ عالم میں رسائی ہو اور اسے بھی ان تکلیفوں سے رہائی ہو۔

    کمیٹی میں یہ بات کھلی کہ درحقیقت ملکہ کی طبیعت میں ذرا سختی ہے اور کارروائی میں تلخی ہے۔ صدرِ انجمن نے اتفاق رائے کر کے اس قدر زیادہ کہا کہ ملکہ کے دماغ میں اپنی حقیت کے دعوؤں کا دھواں اس قدر بھرا ہوا ہے کہ وہ ہمیشہ ریل گاڑی کی طرح سیدھے خط میں چل کر کامیابی چاہتی ہیں، جس کا زور طبیعتوں کو سخت اور دھواں آنکھوں کو کڑوا معلوم ہوتا ہے۔ بعض اوقات لوگوں کو اس کی راستی سے نقصان اٹھانے پڑتے ہیں۔ کبھی ایسے فساد اٹھ کھڑے ہوتے ہیں جن کا سنبھالنا مشکل ہو جاتا ہے اور یہ زمانہ ایسا ہے کہ دور اندیشی اور صلاح وقت کے بغیر کام نہیں چلتا۔ پس اسے چاہئے کہ جس طرح ہو سکے اپنی سختی اور تلخی کی اصلاح کرے۔ جب تک یہ نہ ہوگا لوگ اس کی حکومت کو رغبت سے قبول نہ کریں گے کیوں دیو دروغ کی حکومت کا ڈھنگ بالکل اس کے خلاف ہے۔ اوّل تو اس میں فارغ البالی بہت ہے اور جو لوگ اس کی رعایا میں داخل ہوجاتے ہیں، انہیں سوا عیش و آرام کے دنیا کی کسی بات سے خبر نہیں ہوتی۔ دوسرے وہ خود بہروپیا ہے۔ جو صورت سب کو بھائے وہی روپ بھر لیتا ہے اور اوروں کی مرضی کا جامہ پہنے رہتا ہے۔

    غرض اہل انجمن نے صلاح کر کے ملکہ کی طرزِ لباس بدلنے کی تجویز کی۔ چنانچہ ایک ویسا ہی ڈھیلا ڈھالا جامہ تیار کیا جیسا کہ جھوٹ پہنتا تھا اور وہ پہن کر لوگوں کو جل دیا کرتا تھا۔ اس جامہ کا مصلحت زمانہ نام ہوا۔ چنانچہ اس خلعت کو زیبِ بدن کر کے ملکہ پھر ملک گیری کو اٹھی۔ جس ملک میں پہنچتی اور آگے کو راستہ مانگتی، ہوا و ہوس حاکم وہاں کے اسے دروغ دیو زاد سمجھ کر آتے اور شہر کی کنجیاں نذر گزرانتے۔ ادھر اس کا دخل ہوا ادھر ادراک آیا اور جھٹ وہ جامہ اتار لیا۔ جامہ کے اترتے ہی اس کی اصل روشنی اور ذاتی حسن و جمال پھر چمک کر نکل آیا۔ چنانچہ اب یہی وقت آ گیا ہے، یعنی جھوٹ اپنی سیاہی کو ایسا رنگ آمیزی کر کے پھیلاتا ہے کہ سچ کی روشنی کو لوگ اپنی آنکھوں کے لئے مضر سمجھنے لگے ہیں۔

    اگر سچ کہیں پہنچ کر اپنا نور پھیلانا چاہتا ہے تو پہلے جھوٹ سے کچھ زرق برق کے کپڑے مانگ تانگ کر لاتا ہے۔ جب تبدیل لباس کر کے وہاں جا پہنچتا ہے تو وہ لفافہ اتار کر پھینک دیتا ہے۔ پھر اپنا اصلی نور پھیلاتا ہے کہ جھوٹ کی قلعی کھل جاتی ہے۔

    (اردو کے صاحبِ طرز ادیب اور انشاء پرداز محمد حسین آزاد کی ایک نہایت متاثر کن تحریر)

  • گلشنِ امید کی بہار

    گلشنِ امید کی بہار

    امید ایک رفیقِ ہمدم ہے کہ ہرحال اور ہر زمانہ میں ہمارے دَم کے ساتھ رہتا ہے۔ دَم بہ دَم دلوں کو بڑھاتا ہے اور سینے کو پھیلاتا ہے۔ خیالات کو وسعت دیتا ہے۔ اور نئی نئی کامیابیوں کی ترغیبیں دیتا ہے، غرض ہمیشہ کسی نہ کسی خوش حالی کا باغ پیشِ نظر رکھتا ہے کہ یا اس سے کوئی کلفت رفع ہو یا کچھ فرحت زیادہ ہو۔

    خدائی کی نعمتیں اور ساری خوش نصیبی کی دولتیں حاصل ہو جائیں، پھر بھی یہ جادو نگار مصور ایک نہ ایک ایسی تصویر سامنے کھینچ دیتا ہے جسے دیکھ کر یہی خیال آتا ہے کہ بس یہ بات ہو جائے گی تو ساری ہوسیں پوری ہوجائیں گی اور پھر سب آرزوؤں سے جی سیر ہو جائے گا۔

    امید کا ہونا ہر حال میں ضروری ہے۔ مفلسی، بیماری، قید، مسافرت، بہت سے دنیا کے دکھ درد ہیں کہ امید نہ ہو تو ہر گز نہ جھیلے جائیں۔ آسا جیے، نراسا مرے۔

    یہ نعمت جو بظاہر ہر کس و ناکس میں عام ہو رہی ہے، وہ ضروری شے ہے کہ دنیا کی بہتر سے بہتر حالت بھی ہم کو اس صورت سے بے نیاز نہیں کر سکتی کیوں کہ حقیقت میں یہ مشغلہ زندگی کے بہلاوے ہیں۔ اگر ان کا سہارا ہمارا دل نہ بڑھاتا رہے تو ایک دَم گزارنا مشکل ہو جائے اور زندگی وہال معلوم ہونے لگے:

    ایک دم بھی ہم کو جینا ہجر میں تھا ناگوار
    پر اُمیدِ وصل پر برسوں گوارا ہو گیا

    اس میں شک نہیں کہ امید دھوکے بہت دیتی ہے اور اُن باتوں کی توقع پیدا کرتی ہے جو انسان کو حاصل نہیں ہوسکتیں۔ مگر وہ دھوکے اصلی نعمتوں سے سوا مزہ دیتے ہیں اور موہوم وعدے قسمت کی لکھی ہوئی دولتوں سے گراں بہا اور خوش نما معلوم ہوتے ہیں۔ اگر کسی معاملہ میں ناکام بھی کرتی ہے تو اُسے ناکامی نہیں کہتی، بلکہ قسمت کی دیر کہہ کر ایک اس سے بھی اعلیٰ یقین سامنے حاضر کر دیتی ہے۔

    (صاحبِ اسلوب نثر نگار، شاعر اور مؤرخ و تذکرہ نگار محمد حسین آزاد کے مضمون سے اقتباس)

  • ’’گِلِ گُل‘‘ کیا ہے اور کس کام آتی ہے؟ جانیے

    ’’گِلِ گُل‘‘ کیا ہے اور کس کام آتی ہے؟ جانیے

    شیراز کو دیکھنے کا ارمان تھا۔ ایک عمر کے بعد خدا نے پورا کیا۔

    اللہ اللہ! خواجہ حافظ اور شیخ سعدی کا پیارا وطن جس پر وہ لوگ تعریفوں اور دعاؤں کے پھول چڑھائیں۔ اس کو دیکھنے کا ارمان کیوں نہ ہو، میں نے دیکھا اور تعجب کے ساتھ دیکھا، کیوں کہ جس شیراز پر نورانی بزرگوں نے نور برسائے تھے، اُس کی رونق و آبادی ان کے ساتھ ہی رحلت کر گئی۔

    اب بڑی بڑی وسیع اور بلند پرانی مسجدیں اور کہنہ مدرسے گرے پڑے کھڑے ہیں اور بنانے والوں کی ہمّتوں پر دلائل پیش کر رہے ہیں۔

    یہ اہلِ ایران میں عام دستور ہے کہ اشرافِ سفید پوش کے مکان کے ساتھ ایک مردانہ مکان ہوتا ہے۔ وہ حرم سرائے سے زیادہ آراستہ ہوتا ہے اور ضروریات کے سامان موجود ہوتے ہیں۔

    اکثر ہوتا ہے کہ موافق طبع دوست صبح ملاقات کو آیا۔ ظہر کی نماز پڑھ کر رخصت ہوا۔ یا رات کو رہا، صبح ناشتا کر کے رخصت ہوا۔

    شیراز کے لوگ اب تک لباس و اوضاع میں اپنے بزرگوں کی تصویر ہیں۔ علما اور ثقہ لوگ عمامہ باندھتے ہیں۔ عبا پہنتے ہیں۔ خاندانی تُرک کلاہ پوست برہ کی پہنتے ہیں۔ طہران کے اوضاعِ جدید ابھی تک وہاں لذیذ نہیں ہوئے۔

    شیراز میں چھوٹی چھوٹی ٹکیاں بکتی دیکھیں کہ ان سے لوگ سَر اور داڑھیاں دھوتے تھے۔ وہ ایک قسم کی مٹّی ہے جس کی کان شہر کے پاس ہے۔ اس میں خوش بُو کے اٹھانے کی قدرتی تاثیر ہے۔ اُسے پھولوں میں بسا کر صاف کرتے ہیں اور ٹکیاں بنا کر بیچتے ہیں۔ شہروں میں تحفہ لے جاتے ہیں۔ گِلِ گُل اس کا نام ہے۔ مجھے گلستان کا سبق یاد آیا۔

    گلِ خوشبوئے در حمام روزے

    جن دنوں ہم نے پڑھا تھا تو خدا جانے کیا سمجھے تھے۔ پھر ایک خیالِ شاعرانہ سمجھتے رہے۔ اب معلوم ہوا کہ شیراز کا اصلی تحفہ ہے۔

    جاڑے کا موسمِ کوہ برف لیے سَر پر چلا آتا تھا۔ بڑھاپے نے خوف کے لحاف میں دبک کر کہا کہ شیراز تو دیکھ لیا۔ اب اصفہان کو دیکھو اور آگے بڑھو کہ تلاش کی منزل ابھی دور ہے۔

    شیراز کے دوست بہت روکتے اور رستہ کے جاڑے سے ڈراتے رہے، مگر جب کارواں چلا، مجھے اشتیاق نے اٹھا کر کجاوہ میں بٹھا دیا۔ چار چار، پانچ پانچ کوس پر شاہ عباسی سرائیں آباد، موجود تھیں جن کی پختگی اور وسعت قلعوں کو ٹکّر مارتی تھی۔ ان سراؤں میں مسافر اگر روپیہ رکھتا ہو تو خاطر خواہ سامان آسائش کا ملتا ہے، چار پانچ آنہ کو مرغ اور پیسے کے دو دو انڈے، ہر قسم کے تر و خشک میوے نہایت اعلیٰ اور نہایت ارزاں ملتے ہیں۔

    رستہ آبِ رواں سے سبزہ وار آبادیوں سے معمور تھا۔ جہاں منزل کرتا، گاؤں میں جا کر پوچھتا اور جو اہلِ علم ہوتا اُس سے ملاقات کرتا۔ چھوٹی سے چھوٹی آبادی میں بھی ایک دو عالم اور بعضے صاحبِ اجتہاد ہوتے تھے۔ ان کی حالت دیکھ کر تعجّب آتا تھا۔ مثلاً کھیت سے گائے کے لیے گھاس کندھے پر لیے آتے ہیں۔ یا نہر پر کپڑے دھو رہے ہیں۔ لڑکا گھر کی دیوار چُن رہا ہے۔ جب فارغ ہوئے تو اسے شرع لمعہ یا قوانین الاصول کا سبق پڑھانے لگے۔

    جب اُن سے پوچھتا کہ کسی شہر میں جا کر ترویج علم کیوں نہیں کرتے؟ کہ رواجِ کار بھی ہو تو کہتے کہ وہاں خلوت کا لطف نہیں رہتا، حضورِ قلب میں خلل آتا ہے، دنیا چند روز ہے۔ گزار دیں گے اور گزر جائیں گے۔ یہ علمی روشنی کل مملکتِ ایران میں عام ہے کہ شاہان سلف کی پھیلائی ہوئی ہے۔

    میں اُن سے کہتا تھا کہ ہماری تمہاری تو جس طرح گزری گزر گئی۔ لڑکوں کو طہران بھیجو اور دار الفنون پڑھواؤ کہ زمانہ کی ہوا پھر گئی ہے۔ اکثر ہنس دیتے اور میرے ساتھ ہم داستان ہو کر کہتے، انہی کو کہو کہ ان کا معاملہ ہے۔ بعضے بحثنے لگتے اور آخر اتفاق رائے کرتے۔

    میرے پاس کھانے پکانے کا سامان نہ تھا۔ وہیں بیٹھ کر کسی گھر سے روٹی مول لیتا۔ کہیں سے انڈے کہیں سے گھی۔ اشکنہ یعنی انڈوں کا قلیہ پکاتا۔ اس میں روٹی ڈبوتا، کھاتا اور شکرِ الٰہی بجا لاتا۔ اس میں بہت باتوں اور تحقیقات کے موقع ملتے تھے اور وہ لوگ ان کاموں میں میری مدد کرنی مہمان نوازی کا جزو سمجھتے تھے جو کہ حقیقت میں فرضِ مذہبی ہے۔

    (اردو زبان کے نام ور ادیب اور شاعر محمد حسین آزاد 1886ء میں سیرِ ایران کے بعد اپنے وطن (ہندوستان) لوٹے تو اس سفر کی روداد لکھی، یہ مختصر پارہ اسی تحریر سے نقل کیا گیا ہے)

  • اردوئے معلّیٰ کا ہیرو کون؟

    اردوئے معلّیٰ کا ہیرو کون؟

    ایک واقعۂ دلچسپ اہلِ ذوق کی ضیافتِ طبع کے لیے لکھتا ہوں۔ لاہور میں پہلی دفعہ جب ایجوکیشنل کانفرنس کا جلسہ ہوا تو پروفیسر آزاد (محمد حسین آزاد) زندہ تھے، گو دماغ کسی حد تک متاثر ہو چکا تھا۔

    نذیر احمد ملنے کے لیے گئے، حالی اور غالباً شبلی بھی ساتھ تھے، نذیر احمد کا لیکچر ہونے والا تھا جو چھپا ہوا ان کے ہاتھ میں تھا۔ آزاد رسالہ کی طرف متوجہ ہوئے تو نذیر احمد نے یہ کہہ کر آگے بڑھا دیا کہ ایک نظر دیکھ لیجیے، کانفرنس میں پیش کرنا ہے۔

    آزاد فوراً قلم سنبھال کر بیٹھ گئے اور کانٹ چھانٹ شروع کر دی۔ نذیر احمد، آزاد کی اس بے تکلفی سے اس قدر متاثر ہوئے کہ جوشِ محبت سے آنکھیں نم ہو گئیں۔ ان کو قدرتی طور پر یہ خیال آیا کہ ابھی ان کے دائرہ میں ایک شخص ایسا موجود ہے جو ایک ’’بوڑھے‘‘ بچہ کی مشقِ سخن پر نظر ثانی کر سکتا ہے۔

    حالیؔ بھی آزاد کی استادی کا لوہا مانتے تھے، ان کی مخلصانہ عقیدت کیشی کے لیے وہ تقریظ و تنقید دیکھیے جو آبِ حیات اور نیرنگِ خیال پر حالی نے لکھی ہے اور جس پر ضمناً یہ طے کردیا ہے کہ نیچرل شاعری دراصل آزاد کی صنعتِ فکر کا نقشِ اوّلین اور ان کی اوّلیات میں محسوب ہونے کے لائق ہے۔ حالیؔ لکھتے ہیں،

    ’’نظم و نثر میں بہت کچھ لکھا گیا اور لکھا جا رہا ہے۔ یعنی لٹریچر کے رقبہ کا طول و عرض بڑھ گیا ہے، لیکن اس کا ارتفاع جہاں تھا وہیں رہا۔ یعنی اخلاقی سطح بہت اونچی نہیں ہوئی لیکن آزاد کی پاکیزہ خیالی اور خوش بیانی نے یہ کمی پوری کر دی۔ ’نیرنگِ خیال‘ کی بہت کچھ داد دی ہے، کیوں کہ آزاد کے قلم نے پہلے پہل جذباتِ انسانی کی تجسیم و تشخیص کی اور معقولات کی تصویریں محسوسات کی شکلوں میں کھینچی ہیں اور خصائلِ انسانی کے فطری خواص ایسے مؤثر اور دل کش پیرایہ میں بیان کیے ہیں، جن سے اردو لٹریچر اب تک خالی تھا۔‘‘

    شبلی بھی آزاد کا ادب کرتے تھے، فرمایا کرتے تھے آزاد اردوئے معلیٰ کا ہیرو ہے، اس کو کسی اور سہارے کی ضرورت نہیں، وہ اصلی معنوں میں ایک زبردست انشا پرداز ہے۔

    (نام وَر انشا پرداز اور مضمون نگار مہدی افادی کی تحریر بعنوان ‘ملک میں تاریخ کا معلّمِ اوّل’ سے ایک پارہ)

  • پیر بخارا والا

    پیر بخارا والا

    میر حسن کے صاحبزادے، حُسنِ اخلاق اور اوصاف کی بزرگی میں بزرگوں کے فرزند رشید تھے، متانت، سلامت روی اور مسکینی ان کی سیادت کے لیے محضرِ شہادت دیتے تھے۔

    فیض آباد اور لکھنؤ میں تعلیم و تربیت پائی تھی۔ 16 برس کی عمر مشقِ سخن شروع کی اور خلق حسن کی مناسبت سے خلیقؔ تخلص اختیار کیا۔ ابتدا میں غزلیں بہت کہتے تھے اور والد بزرگوار سے اصلاح لیتے تھے۔

    جب شیخ مصحفیؔ لکھنؤ میں پہونچے تو میر حسنؔ ان دنوں بدر منیر لکھ رہے تھے، اور میر خلیق کی آمد کا یہ عالم کہ مارے غزلوں کے دم نہ لیتے تھے۔ شفیق باپ کو اپنے فکر سے فرصت نہ دیتے تھے۔ بیٹے کو ساتھ لے گئے، اپنی کم فرصتی کا حال بیان کیا اور اصلاح کے لیے شیخ موصوف کے سپرد کر دیا۔

    ہونہار جوان کی جوان طبیعت نے رنگ نکالا تھا کہ قدر دانی نے اس کا ہاتھ پکڑا اور نیشا پوری خاندان میں پندرہ روپیہ مہینے کا نوکر رکھوا دیا۔ انہی دنوں میں مرزا تقی ترقی (مرزا تقی ترقی خاندان مذکور میں ایک عالی ہمت امیر تھے اور سرکار اودھ میں جاگیردار تھے۔) نے چاہا کہ فیض آباد میں شعر و سخن کا چرچا ہو۔ مشاعرہ قائم کیا اور خواجہ حیدر علی آتش کو لکھنؤ سے بلایا، تجویز یہ تھی کہ انھیں وہیں رکھیں۔ پہلے ہی جلسہ میں جو میر خلیقؔ نے غزل پڑھی۔ اُس کا مطلع تھا۔

    رشکِ آئینہ ہے اس رشکِ قمر کا پہلو
    صاف ادھر سے نظر آتا ہے اُدھر کا پہلو

    آتش نے اپنی غزل پھاڑ ڈالی اور کہا کہ جب ایسا شخص یہاں موجود ہے تو میری کیا ضرورت ہے۔

    میر خلیقؔ، نازک خیالیوں میں ذہن لڑا رہے تھے کہ باپ کی موت نے شیشہ پر پتھر مارا، عیال کا بوجھ پہاڑ ہو کر سر پر گرا، جس نے آمد کے چشمے خاک ریز کر دیے، مگر ہمّت کی پیشانی پر ذرا بل نہ آیا۔

    اکثر فیض آباد میں رہتے تھے، لکھنؤ آتے تھے تو پیر بخارا میں ٹھہرا کرتے تھے۔ پُر گوئی کا یہ حال تھا کہ مثلاً ایک لڑکا آیا۔ اس نے کہا میر صاحب! آٹھوں کا میلہ ہے ہم جائیں گے ایک غزل کہہ دیجیے۔ اچھا بھئی کہہ دیں گے، میر صاحب! میلہ تو کل ہے، ہم کل جائیں گے ابھی کہہ دیجیے۔ اسی وقت غزل لکھ دی، اس نے کہا، یاد بھی کرا دیجیے۔ میر صاحب اسے یاد کروا رہے ہیں، اُن دنوں میں غزلیں بِکا کرتی تھیں۔ میاں مصحفیؔ تک اپنا کلام بیچتے تھے، یہ بھی غزلیں کہہ کر فروخت کرتے تھے۔

    ایک دن ایک خریدار آیا اور اپنا تخلص ڈلوا کر شیخ ناسخؔ کے پاس پہونچا کہ اصلاح دے دیجیے۔ شیخ صاحب نے غزل پڑھ کر اس کی طرف دیکھا اور بگڑ کر کہا، ابے تیرا منھ ہے جو یہ غزل کہے گا، ہم زبان پہچانتے ہیں۔ یہ وہی پیر بخارا والا ہے۔

    میر خلیقؔ صاحبِ دیوان تھے۔ مگر اُسے رواج نہیں دیا۔ نقد سخن اور سرمایہ مضامین جو بزرگوں سے ورثہ پہونچا تھا، اُسے زادِ آخرت میں صرف کیا اور ہمیشہ مرثیے کہتے رہے، اسی میں نام اور زمانہ کا کام چلتا رہا۔ آپ ہی کہتے تھے اور آپ ہی مجلسوں میں پڑھتے تھے۔ قدر دان آنکھوں سے لگا لگا کر لے جاتے تھے۔

    (محمد حُسین آزاد کی مشہور تصنیف آبِ حیات سے اقتباس)