Tag: محمد حمید شاہد

  • عشق اولڑا جی جنجال

    عشق اولڑا جی جنجال

    نانا جان بہت پہلے فوت ہو چکے تھے؛ میری یادداشت کا حصہ ہونے سے بہت پہلے۔ تاہم وہ امی جان کی یادداشت کا حصہ تھے اور وہ ان کے حوالے سے اپنے بچپن کے کئی واقعات سنا چکی تھیں۔ یہ سب واقعات تقسیم سے بہت پہلے کے برسوں کے ہوتے تھے۔ ان میں سے ایک واقعہ اس قحط کا بھی تھا جس کا ذکر میرے ایک افسانے ‘معزول نسل’ میں آ چکا ہے۔

    اس قحط میں سب گھر والے کڑوا باجرہ اور جوار کھانے کو مجبور تھے۔ تب گندم کہیں نہ ملتی تھی یا پھر اتنی مہنگی ملتی کہ خرید کر کھانے کے لیے وسائل دستیاب نہ تھی۔ ان دنوں لوگوں کے پاس پیسہ کم کم ہوتا تھا۔ سب کے حالات اتنے مخدوش ہو گئے تھے کہ یہ کم کم پیسہ بھی نہ رہا تھا۔

    نقد نہ ہونے کی صورت میں سدا رامیے کراڑ کی ہٹی سے کوئی بھی اناج، مرغیاں یا انڈے دے کر بدلے میں مطلوبہ جنس یا سوداسلف لیا جاتا تھا۔ کوئی اناج کہاں باقی بچا تھا؟ قحط نے کچھ ایسی مشکل کھڑی کر دی تھی کہ دو وقت کی روٹی کے لالے پڑے ہوئے تھے۔

    بس ایک کڑوا باجرا اور ایک دو ٹوپے جوار کے میسر تھے اور اسی اناج سے پیٹ کی آگ بجھائی جارہی تھی۔ امی جان کے مطابق وہ یا ان کی بہنیں جب کڑوے باجرے یا جوار کی روٹی کھانے سے انکار کر دیتی تھیں تو اکثر وہ اپنی آنکھوں پر ہاتھ یا چادر کا پلو رکھ کر باہر نکل جاتے تھے ۔ یقیناً تب وہ اپنے آنسو چھپا رہے ہوتے تھے۔

    یہ بات مرد کی شان کے خلاف تصور ہوتی کہ وہ روئے۔ چاہے تکلیف برداشت کی حد سے بڑھ جائے اور چاہے دُکھ کا پہاڑ کچل کر رکھ دے اُسے برداشت اور ضبط سے کام لینا ہوتا۔ہاں عورت رو سکتی تھی۔ دھاڑیں مار مار کر رو سکتی تھی۔ دلہنیں ڈولی میں بیٹھتے ہوئے روئیں یا مائیں بہنیں انہیں رخصت کرتے ہوئے، کوئی بچھڑ جائے تو بین کیے جائیں یا کوئی بچھڑا ملے اور خوشی سے بھل بھل آنسو بہنے لگیں، عورت پر کوئی قدغن نہیں تھی۔

    مرد کا چاہے ضبط سے کلیجہ پھٹا جا رہا ہو،اُس کی آنکھ گیلی نہیں ہونے چاہیے۔ پتلیاں ذرا سا بھیگتیں تو فوراً طعنہ آجاتا ’کیا تم کوئی عورت ہو؟’

    نانا جان کو یوں منھ آنکھیں ڈھانپے باہر نکلتے دیکھ کر نانی جان نے رندھائی ہوئی آواز میں کہا تھا؛ ’عورتوں کی طرح روتا ہے۔ ’امی جان جب یہ بتا رہی تھیں تو خود بھی اپنے باپ کی طرح چہرہ دوپٹے سے ڈھانپے ہوئے تھیں۔

    (حمید شاہد کی خود نوشت ’خوشبو کی دیوار کے پیچھے‘ سے اقتباس)

  • گانٹھ

    گانٹھ

    عَصبی ریشوں کے وسط میں کچھ اضافی گانٹھیں پڑ گئیں۔

    یا پھر پہلے سے پڑی گِرہیں ڈھیلی ہو گئی تھیں کہ اضمحلال اُس پر چڑھ دوڑا تھا۔ بدن ٹوٹنے اور دِل ڈوبنے کا مستقل احساس ایسا تھا کہ ٹلتا ہی نہ تھا۔

    کوئی بھی معالج جب خود ایسی کیفیت سے دوچار ہوتا ہے‘تو یہی مناسب خیال کرتا ہے کہ وہ سیکنڈ اوپینین لے لے۔ ڈاکٹر توصیف کو بھی اس کی ضرورت محسوس ہوئی تھی، مگر وہ اسے ٹالتا چلا گیا۔ یہاں تک کہ وہ خود سے مسلسل الجھنے اور لڑنے بِھڑنے لگا اور اُن لمحوں کو کوسنے لگا تھا جب وہ اس ملک سے اپنے شعبے میں اسپیشیلائزیشن کے لیے گیا تھا۔

    اِنہی لمحات میں وہ لمحات بھی خلط ملط ہو گئے تھے، جب اُسے ایک انوسٹی گیشن سینٹر سے نکال کر ڈی پورٹ کر دیا گیا تھا، اُس پر شبہ کیا گیا تھا، مگرکیوں؟؟ آخر کیوں؟؟؟….وہ جتنا سوچتا ‘اُتنا ہی اُلجھے جاتا۔
    ممکن ہے ایک ایشیائی ہونا اس کا سبب ہو۔ نہیں ‘شاید ایک پاکستانی ہونا۔ یا پھر ہو سکتا ہے مسلمان ہونا ہی شک کی بنیاد بن گیا ہو۔

    مگر؟….مگر؟ اور یہ ’مگر‘ ایسا تھا کہ اس کا سینہ جھنجھنانے لگا تھا۔ وہ اُٹھا اور آئینے میں اپنا چہرہ غور سے دیکھنے لگا۔ اُس کی صورت میں ایسے شک کے لیے کیا کوئی پرانی لکیر باقی رہ گئی تھی۔ پلک جھپکنے کے مختصر ترین وقفے میں طنز کا کوندا آئینے کی شفاف سطح سے پھسل کر معدوم ہو گیا۔

    اُس نے نگاہ سامنے جمائے رکھی۔ چہرے کی لکیروں ‘ابھاروں اور ڈھلوانوں پر تن جانے والے تناﺅ کا جالا پورے آئینے سے جھلک دینے لگا تھا۔ وہ گھبرا کر اُس تصویر کے سامنے جا کھڑا ہوا ‘جو اُس نے اِنٹر کا امتحان دے چُکنے کے بعد فراغت کے ایسے لمحات میں بنائی تھی جب مصوری کا جنوں اُس کے سَر میں سمایا ہوا تھا۔ یہ اُس کی اپنی تصویر تھی ‘جو ادھوری رِہ گئی تھی۔

    کچے پن کی چغلی کھانے والی اِس ادھوری تصویر میں کیا کشش ہو سکتی تھی کہ اسے ابھی تک سنبھال کر رکھا گیا تھا۔ اُس نے غور سے دیکھا۔ شاید ‘بل کہ یقیناً کوئی خوبی بھی ایسی نہ تھی کہ اُس تصویر کو یوں سنبھال کر رکھا جاتا۔ اُسے یاد آیا ‘جب وہ یہ تصویر بنا رہا تھا تو اُس نے اَپنے باپ سے کہا تھا؛ کاش کبھی وہ دُنیا کی حسین ترین تصویر بنا پائے۔ اُس کے باپ نے اُس کی سمت محبت سے دیکھ کر کہا تھا:
    ”تم بنا رہے ہو نا‘ اِس لیے میرے نزدیک تو یہی دُنیا کی خوب صورت ترین تصویر ہے“

    وہ ہنس دیا تھا ‘تصویر دیکھ کر اور وہ جملہ سن کر۔

    یہ جو اپنے اپنائیت میں فیصلے کرتے ہیں ‘اُن کی منطق محبت کے سوا اور کچھ نہیں ہو سکتی۔
    تصویر نامکمل رہ گئی کہ اُس کا دِل اُوب گیا تھا۔ تاہم اُس کے باپ کو اپنا کہا یاد رہا تھا۔ اس نے اِس ادھوری تصویر کو اس دیوار پر سجا دیا تھا۔ بہن نے اسے یوں رہنے دیا ہوگا کہ اُس کے مرحوم باپ نے یہاں اپنے ہاتھوں سے سجائی تھی۔

    یہ سوچ کر ذرا سا وہ مسکرایا اور وہاں سے ہٹنا چاہا کہ نظر آنکھوں پر ٹھہر گئی۔ واٹر کلر سے بنائی گئی اس تصویر میں اگرچہ دائیں آنکھ کے نیچے ہاتھ لرز جانے کے باعث براﺅن رنگ میں ڈوبا برش کچھ زیادہ ہی دَب کر بنانے والے کے اَناڑی ہونے کی چغلی کھا رہا تھا۔ مگر مدہم آبی رنگوں میں تیرتی معصومیت نے آنکھوں میں عجب طلسم بھر دیا تھا۔ ایسا کہ نظر ہٹانے کو جی نہ چاہتا تھا۔ تصویر ادھوری تھی۔ چہرے میں رنگ بھرتے بھرتے چھوڑ دیے گئے تھے۔ یہ اَدھورا پن اُس کے اندر اتر گیا۔ اُس کے اعصاب تن گئے اور وہ اُوندھے منھ بستر پر جا پڑا۔
    ”کیوں؟….آخر کیوں؟؟“

    ایک ہی تکرار سے اُس کا سینہ کناروں تک بھر گیا۔ اُس نے اَپنے جسم کو دو تین بار دائیں بائیں لڑھکا کر جھٹکے دیے۔ قدرے سانسوں کی آمدورفت میں سہولت محسوس ہوئی تو ایک بڑا سا ’ہونہہ‘ اُس کے ہونٹوں سے پھسل پڑا۔ یوں ‘جیسے اُس کے تیرتے ڈوبتے بدن کو کسی نے لمحہ بھر کے لیے تھام سا لیا ہو۔

    تھامنے والے ہاتھ گوگول کے تھے۔ گوگول کے نہیں ‘ اُس تصویر کے ‘جو گوگول کے ہاں پہلے مرحلے میں نامکمل رہ گئی تھی۔

    شیطانی آنکھوں والی اَدھوری تصویر۔ مگر یہ بھی وہ تصویر نہ تھی جس نے اُسے تھاما تھا کہ اس کا چہرہ تو معصومیت لیے ہوئے تھا۔ فرشتوں جیسا ملائم اور اُجلا۔

    یہ اِسی تصویر کا دوسرا مرحلہ تھا جب کہ وہ مکمل ہو گئی تھی۔
    تصور ایک جگہ ٹھہر گیا تو اُسے گوگول کے افسانے کا وہ پادری یاد آیا جس نے سب کا دھیان شیطانی تاثرات والی آنکھوں کی جانب موڑ دیا تھا۔ اُسے اُبکائی آنے لگی تو اُس نے اپنے دھیان سے اُس تصویر کو بھی کھرچ دیا ‘اور کالج کا وہ دور یاد کرنے لگا جب ترقی پسندی اُس کے خلیے خلیے سے خوش بُو بن کر ٹپکنے لگی تھی۔

    تب ایک نئی تصویر تھی جو بن رہی تھی۔
    ابھی یہ تصویر نامکمل تھی کہ اُس پر انسان دوستی اور روشن خیالی کے زاویوں سے کرنیں پڑنے لگیں۔ روشن خیالی کی للک میں سب کچھ روند کر آگے بڑھنے والوں کے ساتھ اُٹھنے بیٹھنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ جلد ہی مذہبی فرائض کی بجا آوری کو قیمتی وقت کے ناحق تلف کرنے کے مترادف سمجھنے لگا تھا۔ اُس کا خیال تھا؛ ان فرائض میں صرف ہونے والا وقت کسی بھی انسان کو تسکین پہنچا کر اَمر بنایا جایا سکتا تھا۔

    اس کے لیے مذہبی طرزِ احساس فقط رَجعت پسندی‘جہالت اور ذِہنی پس ماندگی کا شاخسانہ تھا۔ لہذا وہ مذہب اور اس کے متعلقات کو ایک لایعنی گورکھ دھندا یا پھر افیون قرار دیتا اور خود کو ہمیشہ اس سے دُور رکھا۔ اپنے شعبے سے کامل وابستگی نے اُسے عجب طرح کا دلی سکون عطا کیا تھا۔ اور وہ اس سے نہال تھا۔ یہی سبب ہے کہ وہ جس شہر میں نام ‘مَقام اور سکونِ قلب کا سرمایہ کما چکا تھا اور مسلسل کما رہا تھا اُسی کا مستقل باسی ہو گیا تھا۔ ایک پس ماندہ ملک کے بے وسیلہ ‘ غیر مہذب اور جاہل لوگوں کے بے ہنگم اور بے اصول معاشرے میں رہنے سے بدرجہا مناسب اُسے یہ لگا کہ وہ یہیں انسانیت کی خدمت میں جُتا رہے۔

    وہ اپنے آپ کو بھول بھال کر اِس خدمت میں مگن بھی رہا، مگر ایک روز یوں ہوا کہ وہ شہر دھماکوں سے گونج اُٹھا اور سب کچھ اُتھل پتھل ہو گیا۔

    جب وہ حادثے میں اعصابی جنگ ہارنے والوں کو زندگی کی طرف لا رہا تھا ‘اُسے سماجی خدمت جان کر‘کسی معاوضے اور صلے سے بے نیاز ہوکر‘ تو اُسے اس خلیج کی موجودگی کا احساس ہوگیا تھا جسے بہت سال پہلے پاٹنے کے لیے اس نے اپنے وجود سے وابستہ آخری نشانی ‘اپنے نام’ توصیف ‘کو بدل کر ’طاﺅژ‘ ہو جانا بہ خُوشی قبول کر لیا تھا۔

    اُنہی دِنوں ڈاکٹر طاﺅژ کی ملاقات کیتھرائن سے ہوئی تھی جو اپنے پہلے شوہر کے چھوڑ کر چلے جانے کے باعث شدید نفسیاتی دباﺅ سے گزر رہی تھی۔ اس نہایت روشن خیال اور سلجھی ہوئی خاتون نے ایک روز اُسے پروپوز کر دیا۔ وہ اپنے طور پر اس قدر مگن تھا کہ اس رشتے کو بھی اضافی سمجھتا رہا تھا۔ کچھ اچھی لڑکیاں اس کی زندگی میں آئی ضرور تھیں مگر اتنی دیر کے لیے ‘جتنی کہ دونوں میں سے کسی ایک کو ضرورت ہو سکتی تھی۔ لہذا جب ضرورت پوری ہورہی تھی تو شادی کے پاکھنڈ کا کیا جواز ہو سکتا تھا۔

    مگر عجب یہ ہوا کہ کیتھرائن کی پروپوزل کو اس نے بلاجواز قبول کر لیا تھا۔
    کسی کو چاہنے لگنا اور کسی سے دور ہو جانا عجب طرح کے فیصلے ہوتے ہیں۔ عین آغاز میں دلیلیں نہیں مانگتے‘ فیصلے مانگتے ہیں۔ فیصلہ ہو جائے تو سو طرح کی دلیلیں نہ جانے کہاں سے آ کر دَست بستہ سامنے آ کھڑی ہوتی ہیں۔

    فیصلہ ہوا تو شادی بھی ہو گئی۔ پھر اُن کے ہاں اوپر تلے دو بیٹے ہوئے۔ دونوں ہو بہو اپنی مام جیسے تھے۔ راجر اور ڈیوڈ۔ دونوں کے نام کیتھی نے رَکھے۔ کیتھرائن کو وہ پہلے روز ہی سے کیتھی کہنے لگا تھا کہ اُس کی صورت ہالی ووڈ کی دِلوں میں بس جانے والی اداکارہ کیتھرائن ہیپبرن سے بہت ملتی تھی اور سب اُس خوب صورت فن کارہ کو کیتھی کہتے تھے۔

    وہ مکمل طور پر اُس سوسائٹی کا حصہ ہو کر مطمئن ہو گیا تھا۔ اس قدر مطمئن کہ حادثے کے بعد بھی ناموافق ردِعمل کے باوصف وہ اس فریضے کو اِنسانیت کی خدمت کا تقاضا سمجھ کر ادا کرتا رہا۔ حتّٰی کہ خفیہ والوں نے اُسے دھر لیا۔

    کئی روز تک اُس سے پوچھا پاچھی ہوتی رہی۔ پھر وقفے پڑنے لگے۔ طویل وقفے۔ اِتنے طویل کہ اُسے یقین ہو چلا تھا کہ اُسے فالتو کاٹھ کباڑ جان کر اس سیل میں پھینک دینے کے بعد وہ سب بھول گئے تھے۔ نہ صرف اُسے اس سیل میں پھینکنے والے بھول چکے تھے‘ کیتھی‘راجراور ڈیوڈ کو بھی وہ یاد نہ رہا تھا۔ پھر یوں ہوا کہ وہ سب اچانک یوں آ گئے‘ جیسے بھولی ہوئی کوئی یاد آیا کرتی ہے۔

    پہلے اُسے یہ بتانے والے آئے کہ اگلے چار روز میں کسی بھی وقت اُسے اُس کے اپنے وطن کے لیے ڈی پورٹ کیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے اپنے لہجے کو قطعاً مہذب نہیں کیا تھا جیسا کہ امریکن اکثر کر لیا کرتے ہیں۔ اُس نے انگریزی کے اس مختصر مگر کھردرے جملے سے ’اَون کنٹری ‘کے الفاظ چن کر اُنہیں غرارہ کیے جانے سے ملتی جلتی آواز کے ساتھ دہرایا۔

    ایک تلخ سی لہر اس کے پورے وجود میں دوڑ گئی جس کے باعث اُس کے عصبی رِیشوں کی گانٹھوں کی تانت بڑھ گئی اور اسے پژمردگی رگیدنے لگی۔

    جب وہ پوری طرح نڈھال ہو چکا تو کیتھی‘راجراور ڈیوڈ آگئے۔ وہ آتے ہی اُسے ایک ٹک دیکھتی رہی۔ پھر اُسے یوں لگا جیسے وہ کچھ کہنا چاہتی تھی اور کَہہ نہیں پا رہی تھی۔ جب وہ کچھ کہے بغیر ایک فیصلہ کرکے چپ چاپ بیٹھ گئی تو سناٹا سارے میں گونجنے لگا۔ وہ بچوں کی طرف متوجہ ہوا۔ بچے کبھی اُس کے قریب نہیں رہے تھے۔ اُس کا خیال تھا ‘ایسا اس کی مصروفیات کے سبب تھا۔ تاہم اب جووہ منھ موڑے کھڑے تھے تو یوں کہ صدیوں کا فاصلہ پوری شدّت سے محسوس ہونے لگا تھا۔ صاف پتہ چل رہا تھا کہ وہ خود نہ آئے تھے ‘اُنہیں لایا گیا تھا۔ اُنہوں نے ایک لمحے کے لیے بھی اپنے اندر سے باہر چھلکتی اُکتاہٹ نہیں چھپائی تھی۔ اُنہیں دیکھتے ہی اُس نے افسوس کے ساتھ سوچا تھا؛ کاش کیتھی انہیں نہ لاتی۔

    اور جب ملاقات کا وقت ختم ہو گیا تو وہ اسی دُکھ کی شدّت کے ساتھ یہ بھی سوچ رہا تھا؛ کاش کیتھی کبھی نہ آتی۔ نہ دیکھنے کی خواہش کے ساتھ وہ جب آخری بار اُسے دیکھ رہی تھی تو وہ کیتھی کے یوں چلے آنے کا مدعا سمجھ چکا تھا۔

    اُن کا فیملی لائر کچھ پیپرز اگلے روز شام تک بنا لایا۔ وہ چاہتا تھا کہ ڈِی پورٹ ہونے سے پہلے پہلے وہ اُن پر دَست خط کر دے۔ اُس نے ساری بات توجہ سے سنی۔ شاید وہ دست خط کر ہی دیتا کہ اس پر ذہنی دَباﺅ کا شدید دورہ پڑا۔ اس قدر شدید کہ وہ لائر پر برس پڑا۔ جب وہ چلا گیا تو اُسے خیال آیا کہ سارے پیپرز چاک کر کے اُس کے منھ پر دے مارتا تو اُس کے اَندر کا اُبلتا غصہ کچھ مدھم پڑ سکتا تھا۔ اس نے اگلی ملاقات پر ایسا ہی کرنے کے لیے سارے پیپرز سنبھال کر رَکھ لیے۔ لیکن اس کے بعد اسے ملنے کوئی نہ آیا۔ یہاں تک کہ اسے ایئرپورٹ لے جایا گیا۔ جہاز میں سوار ہوتے ہوئے اس پر کھلا کہ ایک سو پچیس دوسرے پاکستانی بھی ڈی پورٹ کیے جارہے تھے۔

    دُنیا بھر کے میڈیا والے سب کی تصویریں اور ٹیلی رپورٹس بنارہے تھے۔ وہ سب مجرم ثابت نہیں ہوئے تھے، مگر اُنہیں امریکہ سے نکالا جا رہا تھا۔ یوں‘ کہ جیسے وہی مجرم تھے۔ ساری رپورٹس براہ راست چلائی گئیں۔ اخبارات کی زینت بنیں۔ ٹیلی ویژن کے مختلف چینلز انہیں کئی روز تک وقفے وقفے سے چلاتے رہے کہ یہ ساری کارروائی دہشت گردی کے خلاف عالمی سطح پر مہم جوئی کا حصہ تھی۔

    وہ یہ سارا تماشا نہ دیکھ سکا کہ اُسے ائیر پورٹ ہی سے سر کار نے حفاظت میں لے لیا تھا۔ ایک بار پھر بے ہودہ سوالات کا ناقابل برداشت سلسلہ شروع ہوا تو ختم ہونے ہی میں نہ آتا تھا۔ یہاں والے اُن سوالات میں زیادہ دِل چسپی رکھتے تھے جو دورانِ تفتیش وہاں پوچھے جاتے رہے تھے۔ اُس نے اُنہیں صاف صاف بتا دیا کہ انہیں علی شامی نامی ایک ایسے عربی النسل شخص میں دِل چسپی تھی جو اُس کے وہاں قیام کے آغاز کے عرصے میں جیمس بلڈنگ کے اُس فلیٹ میں رہتا تھا جس کا دروازہ عین اس کے فلیٹ کے سامنے تھا۔

    علی شامی بعد ازاں سکونت بدل گیا تھا۔ اُس کا طرزِ عمل اُسے کبھی گوارا نہ لگا تھا کہ اُس کے اندر عجب طرح کی تنگ نظری ہلکورے لیتی رہتی تھی۔ پھر یہ کہ وہ اکثر اس کے نام کے توصیف سے طاﺅژ ہو جانے پر شدید طنز کیا کرتا تھا۔ بقول اُس کے وہ ہوپ لیس کیس تھا۔ جب کہ اسے علی شامی کا یوں طنز کیے چلے جانا بہت کَھلتا تھا۔ لہذا ابھی وہ کہیں اور شفٹ نہیں ہوا تھا کہ وہ دونوں ممکنہ حد تک دُور ہو چکے تھے۔

    بعد میں رابطے کی ضرورت تھی نہ کوئی صورت نکلی۔ جب وہ اُسے تیز روشنیوں کے سامنے بٹھا کر مسلسل جگائے رکھنے پر بھی اِس سے زیادہ کچھ نہ اُگلوا پائے تو انہوں نے سوالات روک دیے تھے، مگر تذلیل کا سلسلہ ایسا تھا کہ رُکتا ہی نہیں تھا۔ تاہم اُدھر جو ختم ہوگیا تھا تو یہ اِدھر بھی آخر کار انجام کو پہنچا۔

    جب یہ تکلیف دِہ سلسلہ تمام ہوا اور اسے جانے کی اجازت مل گئی تو وہ خلوص نیت سے چاہنے لگا تھا کہ کاش یہ سلسلہ یونہی دراز ہوئے چلا جاتا۔ ذلیل ہوتے رہنے کی عجب خواہش اب معمول کی زندگی میں رکاوٹ بن رہی تھی۔ یہاں معمول کی زندگی تھی بھی کہاں؟ اس کے یتیم بھانجوں کا کہنا تھا کہ جب ہر طرف بھوک بے روز گاری اور جہالت ننگا ناچ رہی ہو تو وہاں جیو اور جینے دو کی تمنا سے دہشت اُگ ہی آیا کرتی ہے۔

    اَپنی بیوہ اکلوتی بہن کے ہاں پڑے پڑے اُسے ایک ماہ ہو گیا تو اس نے اَپنی بنائی ہوئی نامکمل تصویر کی آبی آنکھوں میں تیرتی معصومیت دیکھی جن پر گوگول کے افسانے کی تصویر کی شیطانی آنکھیں حاوی ہو گئیں تھیں۔ اس قدر حاوی کہ فرشتوں جیسا معصوم چہرہ کہیں تحلیل ہو چکا تھا۔ اُس نے ان دونوں تصویروں کا خیال جھٹک دیا تو ایک تیسری تصویر خود بخود اُس کے تصور میں اُبھرنے لگی۔ آسکر وائلڈ کے ڈورئن گرے کی وہ تصویر جو اس نے ایسے کمرے میں رَکھ دی تھی جو مقفل تھا۔ عجب تصویر تھی کہ ڈورئن کی ساری خباثتوں کو کشید کر کے خود مکروہ ہو رہی تھی، مگر ڈورئن کو ویسے ہی جواں اور خوب صورت رکھے ہوئے تھی جیسا کہ مصور ہال ورڈ نے تصویر بناتے ہوئے اُسے دیکھا تھا۔ اس تصویر کو سوچتے ہی ساری گرہیں کُھل گئیں۔

    اُس روز پہلی بار اُس نے اپنے بھانجوں کو غور سے دیکھا تھا جو ابھی ابھی نماز پڑھ کر پلٹے تھے۔ پھر وہ دِیر تک اُنہیں آنکھیں چوپٹ کیے خالی دِیدوں سے دیکھتا رہا۔ حتّٰی کہ اُس کی نظریں دُور خلا میں کٹی پتنگ کی طرح ڈولنے لگیں۔ اُس کی بہن نے اُس کے چہرے پر کم ہوتے تناﺅ کو غنیمت جانا اور اُس کے سر کے بالوں میں اُنگلیاں پھیرتے ہوئے وہ بات کہہ دینا چاہی جو پہلے روز ہی وہ کہہ دینا چاہتی تھی، مگر مناسب وقت تک اُسے ٹالنے پر مجبور ہوتی رہی تھی۔ اپنی آواز کو دھیما رکھتے ہوئے اور رُک رُک کر اُس نے پوچھا:
    ”توصیف بھائی ‘ایک بات کہوں؟“
    بہن کے ملائم لہجے نے اُس کے دِل میں گداز بھر دیا تھا۔ اُس نے بہن کو دیکھا ‘محبت کی عجب پھوار تھی کہ اُس کا چہرہ کِھلے گلاب کی طرح مہکنے لگا تھا۔ کہا:
    ”کہو’’……….اور اُس نے ایک ہی سانس میں کہہ دیا۔

    ”بھائی، اَب بھابی اور بچوں کو بھی یہاں بلا ہی لیں۔

    یہ سنتے ہی جیسے اُس کے اندر سب کچھ تلپٹ ہو گیا۔ وہ ایک بار پھر شدید دورے کی زَد پر تھا۔ اور اُسے یوں محسوس ہونے لگا کہ جیسے اُس کی ساری نسیں پھٹ جائیں گی۔ وہ اپنے آپ میں نہ رہا اور ایک گنوار کی طرح چیخ کر کہا:
    ”اُن ذلیلوں کو یہاں بلوا لوں؟ جارح قوم کی ذلیل کتیا کے ذلیل پِلوں کو؟“ پھر نہ جانے وہ کیا کیا ہذیان بکتا چلا گیا۔ حتیٰ کہ وہ نڈھال ہو کر اوندھا گر گیا۔

    آنے والے روز وہ کچھ بتائے بغیرکہیں نکل گیا۔ اُس کے ہاتھ میں وہی پیپرز تھے جو اُسے لائر کے منھ پر دے مارنا تھے۔ یہ پہلا روز تھا کہ وہ اپنی خواہش سے باہر نکلا تھا۔ جب وہ واپس پلٹا توبہت ہلکا پھلکا ہو چکا تھا۔ اُس کے پاس سوچنے اور کرنے کو کچھ نہ رہا تو آرٹسٹ ہال ورڈ کی بنائی ہوئی وہ تصویر دھیان میں آ گئی جو بہ ظاہر خوبصورت نظر آنے والے کی ساری خباثتیں چُوس کر خود مکروہ ہو گئی تھی۔ اس تصویر کا خیال آتے ہی اُسے اِردگرد کا سارا منظر حسین دِکھنے لگا ‘ مہکتا ہوا اور رنگ برساتا ہوا۔ اگلے روز وہ عین اُس وقت اُٹھا جس وقت اُس کے بھانجے اُٹھا کرتے تھے۔

    بہن اَپنے بھائی کے اندر اِس تبدیلی کو دیکھ کر خُوش ہو رہی تھی، مگر جب اُنہیں واپسی میں دیر ہونے لگی تو اُسے ہول آنے لگے۔ اِس ہولا جولی میں وہ مسجد کے بھی کئی پھیرے لگا آئی۔ وہ تینوں وہاں نہیں تھے۔ جب وہ پلٹے تو اُس کا کلیجہ پھٹنے کو تھا۔ مگر وہ اس سے بے نیاز اپنے بدنوں سے بے طرح پھوٹ بہنے والے مرغوب مشقت کے پسینے کو پونچھے جاتے تھے اور آپس میں مسلسل چہلیں کر رہے تھے۔

    یوں ہی اٹکھیلیاں کرتے کرتے وہ تینوں جب اس نامکمل تصویر تک پہنچے جس کی آنکھوں میں آبی معصومیت تیرتی تھی تو ڈاکٹر توصیف یہ دیکھ کر دَنگ رہ گیا تھا کہ وہ تو ایک مکمل تصویر تھی۔ بالکل ویسی ہی جس کے ساتھ آسکر کے کردار ڈورئن نے اپنی روح کا سودا کر لیا تھا۔ معاشرے کی ساری خباثتیں چوس لینے کا وصف رکھنے والی مکمل تصویر۔

    یہی وہ لمحہ تھا کہ اُس کے عصبی ریشوں کی ساری فالتو گانٹھیں کُھل گئیں اور جہا ں جہاں ان گرہوں کو ہونا چاہیے تھا سلیقے سے سج گئیں۔ ساری کسل مندی فاصلے پر ڈھیر پڑی تھی۔ اور وہ بھانجوں کے بازﺅوں پر مچلتی مچھلیوں پر ہاتھ پھیر رہا تھا جو تیرتی گانٹھوں جیسی لگ رہی تھیں۔


    محمد حمید شاہد کی یہ کہانی "نائن الیون” کے بعد پیدا ہونے والی صورتِ حال اور رویوں کی عکاس ہے

  • انور سجاد: اردو ادب کے باغ کی آخری بہار

    انور سجاد: اردو ادب کے باغ کی آخری بہار

    ہر شخص کو موت آ لے گی، سوائے آرٹسٹ کے۔

    آرٹسٹ اپنے آرٹ کے وسیلے زندہ رہتا ہے۔ آرٹ ہی آب حیات ہے، یہی صدیوں تک جینے کا نسخہ ہے۔ یہی باقی رکھتا ہے۔

    انور سجاد اپنی اساس میں ایک آرٹسٹ تھے، ایک مکمل آرٹسٹ۔ چاہے وہ فکشن لکھ رہے ہوں، یا ہاتھ میں برش ہو، یا رقص میں ان کے پاؤں تھرکتے ہوں، یا ان کی باکمال آواز  ہماری سماعتوں میں اترتی ہو، ہمیشہ ایک آرٹسٹ ہمارے روبرو ہوتا۔

    جدید افسانے کے اس سرخیل، اس باکمال فکشن نگار سے متعلق، اس دل پذیر شخص سے متعلق اردو کے چند اہم ادیبوں سے ہم نے خصوصی گفتگو کی، جو قارئین کی خدمت میں پیش کی جارہی ہے۔

    بین الاقوامی معیار کی اردونثر کاجہان تو اجڑ گیا: مستنصر حسین تارڑ

    اردو کے ہر دل عزیز  ادیب، ممتاز فکشن نگار اور سفر نامہ نویس، مستنصر حسین تارڑ نے ڈاکٹر انور سجاد کے انتقال پر کہا، انتظار حسین، عبداللہ حسین، یوسفی صاحب اور اب انور سجاد؛ بین الاقوامی معیار کی اردونثر کاجہان تو اجڑ گیا.

    انھوں نے کہا کہ انور سجاد ادب کے باغ کی (خوشیوں کا باغ کی) آخری بہار تھی، آخری خوش نوا، خوش آثار، خوش کمال آخری بلبل تھی جو، نغمہ سنج ہوتی  رخصت ہوگئی، اور باغ اجڑ کے رہ گیا۔

    تارڑ صاحب کے مطابق انور سجار، سریندر پرکاش اور بلراج من را کے ساتھ جدید افسانے کے بانیوں‌ میں شمار ہوتے ہیں، ان کے ہاں ایک خاص ردھم تھا، زبان پر بڑی گرفت تھی. انور سجاد نے جدید اردو افسانے پر دیرپا اثرات مرتب کیے، 90 فی صد جدید کہانی کار ان ہی کے انداز کی پیروی کرتے ہیں، البتہ ان کے ہاں وہ ردہم مفقود ہے.

    ان کے مطابق انور سجاد کی مثال اس ماڈرن آرٹسٹ کی تھی، جو کلاسیکی آرٹ پر بھی گرفت رکھتا ہے، جو تجریدی اسٹروک سے پہلے سیدھی لکیر کھینچا جانتا ہے، بعد والوں میں یہ فن کم  دکھائی دیا. اللہ  مرحوم کی مغفرت فرمائے اور سفرِ آخرت میں آسانیاں عطا فرمائے.

    وہ علامت نگاروں اور تجرید نگاروں میں‌ نئی تحریک کے بانی تھے: محمد حمید شاہد

    ممتاز نقاد اور فکشن نگار، محمد حمید شاہد کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر انور سجاد ان افراد میں‌ سے تھے، جنھوں نے اردو فکشن کا مزاج بدلا، انتظار حسین نے ماضی  میں اپنا تخلیقی جوہر ڈھونڈا، انور سجاد نے حال اور لمحہ موجود سے جڑ کر اپنا ادب تخلیق کیا، علامت نگاروں اور تجرید نگاروں میں‌ وہ نئی تحریک کے بانی تھے.

    انھوں نے کہا کہ انور سجاد نے اپنے معاصرین پر گہرے اثرات مرتب کیے. ان کا ناول ’’خوشیوں کا باغ‘‘ منفرد شے ہے، انھوں نے زندگی کو الگ انداز میں محسوس کیا، نظریاتی طور پر ترقی پسند تھے، البتہ فکشن میں‌اپنی راہ الگ بنائی. ڈرامے بھی خوب لکھے، صدا کاری کی رقص کیا، مصوری کی.

    فکری طرح پر بہت واضح تھے، بڑے انسان تھے، لکھنا ترک کر دیا، مگر اپنا کام کر گئے. لکھنایوں  چھوڑا کہ انھیں لگا کہ وہ خود کو دہرا رہے ہیں، ایک بار انتظار حسین سے بھی کہہ دیا کہ اب آپ بھی لکھنا چھوڑ دیں۔ المختصر انھوں نے ہر شعبے میں اپنی صلاحیتوں کو بھرپور انداز میں استعمال کیا.

    انور سجاد کے فکشن نے اردو پر گہرے اثرات مرتب کیے: رفاقت حیات

    معروف فکشن نگار رفاقت حیات کے مطابق منٹو کے بعد جن افراد نے فکشن میں‌نئی جہت متعارف کروانے کی کوشش کی، ان میں‌انتظار حسین اور انور سجاد کا نام اہم ہے. منٹو کا افسانہ ’’پھندے‘‘ ان کے سامنے ایک مثال تھا.

    انور سجاد منٹو کی حقیقت نگاری کے بجائے علامت کی طرف گئے، گو وہ کچھ جلدی چلے گئے، ابھی حقیقت نگاری میں بہت کام باقی تھا، مگر انھوں نے معیاری فکشن لکھا.

    ان کا سب سے اچھا کام ان کے افسانوں میں سامنے آیا. انتظار حسین اور انور سجاد نے آدمی کے اندر کی دنیا، ٹوٹ پھوٹ کو منظر کیا، خارج سے ہٹ کر اس کے باطن کی طرف متوجہ کیا. اس کا اثر یہ ہوا کہ حقیقت نگار  بھی اِس سمت متوجہ ہوئے، انھوں‌نے توازن قائم کیا.

    رفاقت حیات کے مطابق  آج ناول میں‌ جو تجربات ہورہے ہیں، زبان اور پلاٹ کے حوالے سے، ان کی ابتدائی مثالوں‌ میں ان کا ناول "خوشیوں کا باغ” اہم ہے. انور سجاد کے فکشن نے اردو پر گہرے اثرات مرتب کیے.

  • اردو مستقبل کی زبان ہے، مگر افسوس، یہ خبر ہماری حکومتوں تک نہیں پہنچی: محمد حمید شاہد

    اردو مستقبل کی زبان ہے، مگر افسوس، یہ خبر ہماری حکومتوں تک نہیں پہنچی: محمد حمید شاہد

    گو ادب کو فی زمانہ گھاٹے کا سودا اور کتاب کو بے وقعت گردانا جاتا ہے، البتہ بے قیمتی اور گرانی کے اس زمانے میں‌ بھی میدان ادب میں چند ایسی دل پذیر شخصیات سرگرم ہیں، جو ممتاز فرانسیسی ادیب والٹیر کے کردار "کاندید” کی طرح بلاچون و چرا کام میں‌ مصروف رہتی ہیں کہ ان کے نزدیک حالات کو قابل برداشت بنانے کا یہی اکلوتا طریقہ ہے.

    ایسا ہی ایک نام محمد حمید شاہد کا ہے. ان کا شمار پاکستان کے نمایاں فکشن نگار اور ناقدین میں‌ ہوتا ہے. 23 مارچ 1957 کو پنڈی میں‌ پیدا ہونے والے اس تخلیق کار نے بینکاری کا شعبہ اپنایا۔ ان کی متعدد کتب شایع ہوئیں، جنھیں ناقدین اور قارئین نے یکساں سراہا. 23 مارچ 2017 کو انھیں تمغہ امتیاز سے نوازا گیا.

    محمد حمید شاہد کے نزدیک ادب ہمیشہ احساس کی سطح سے معاملہ کرتا ہے، فکریا ت سے کم کم، بلکہ صرف وہاں، جہاں مجموعی طور پر انسانیت کے حق میں اُسے برتا جاسکتا ہو۔ یہی سبب ہے کہ ادب ہمیشہ طاقت ور کا ہتھیار بننے سے مجتنب رہا ہے۔ یہ بہ جا کہ کہانی ہو یا شعر وہ فرد کے جذبات کی تہذیب اور تشکیل میں یقینی کام کرتا ہے ۔ ادب اگرمختلف علاقوں، لسانی و نسلی گروہوں اور مختلف نظریات اور مذاہب سے متعلق لوگوں میں یکساں طور پر قابل قبول ہو جاتا ہے، تو اس کا سبب یہ ہے کہ یہ دعوے کی زمین سے بنیادیں نہیں اٹھاتا، احساس کی سطح سے معاملہ کرتا ہے.

    البتہ قوت کے مراکز نے ادب اور ادیب کو سماج کے حاشیے پردھکیل دیا ہے۔ ادیب اس صورت حال سے مطمئن کیوں کر ہو سکتا ہے، وہ اس صورت حال سے تشکیل پانے والی رائے عامہ کا نمائندہ نہیں، اس اسٹیٹس کو کے خلاف جدوجہد کرنے والا ہے۔ ایسے میں اپنے حق میں رائے عامہ ہموار کرنے والی قوتیں، ادیب کی اس رائے کو کیسے اہمیت دے سکتی ہیں جو اسٹیٹس کو پر ضرب لگانے والی ہے۔

    اس باصلاحیت قلم کار سے ہونے والا مکالمہ پیش خدمت ہے:


    سوال: کیا ادب پڑھنے والے کم ہوئے ہیں؟ کتاب کلچر متاثر ہوا ہے؟ موجودہ حالات میں ادب کیا گھاٹے کا سودا ہے؟

    محمد حمید شاہد: ادب پڑھنے والے ہر دور میں کم رہے ہیں، اس دور میں بھی کم ہیں۔ ادب اور شاعری کی کتاب کبھی فرنٹ شیلف پر نہیں رہی، تاہم تناسب کے اعتبار سے دیکھیں تو یہ محض ایک تاثر ہے کہ ادب پڑھنے والے، پہلے کے مقابلے میں کم ہو گئے ہیں۔ اس کے باوجود کہ کاغذ پر چھپی ہوئی کتاب کو پیچھے دھکیل کر ای کتاب نے بھی اپنی جگہ بنالی ہے، مگر پھر بھی سروے کرکے دیکھ لیں، کتاب چھاپنے کے کاروبار میں اضافہ ہوا ہے۔ یہ پہلے کے مقابلے تعداد میں زیادہ چھپ رہی ہے۔

    یہ دیکھا گیا ہے کہ کچھ شہروں میں قدیم بک اسٹورز بند ہوئے ہیں، مگر اس کاروبار میں نئے لوگ بھی آئے ہیں اور کتاب کی پسپائی کے تاثر کو زائل کیا ہے۔ یہ سمجھنا ہوگا کہ ہمارے ہاں سماجی پر سطح اس سے بڑی تبدیلی آگئی ہے، جو تبدیلی پہیے کی ایجاد سے آئی تھی، جس نے تبدیلی کے منظر نامے کو لائق توجہ بنائے رکھا ہے۔

    وہ نسل جسے جنریشن ایکس کہا جاتا ہے، اس نے دنیا کی سب سے بڑی اور بہت تیز رفتار تبدیلی کو بہ چشم سر دیکھا ہے۔ہماری آنکھوں کے سامنے ٹیلی وژن آیا اور اس کی صورت بدل گئی، بلیک اینڈ وہایٹ ٹی غائب ہو گیا۔ وی سی آر آیا اور غائب ہوا۔ ٹیپ ریکارڈر اور آڈیو کیسٹ کا چلن ہوا اور انجام کو پہنچا۔

    [bs-quote quote=”قوت کے مراکز نے ادب اور ادیب کو سماج کے حاشیے پردھکیل دیا ہے۔ ادیب اس صورت حال سے مطمئن کیوں کر ہو سکتا ہے، وہ اس صورت حال سے تشکیل پانے والی رائے عامہ کا نمائندہ نہیں، اس اسٹیٹس کو کے خلاف جدوجہد کرنے والا ہے۔ ” style=”style-2″ align=”left” author_name=”محمد حمید شاہد” author_avatar=”https://arynewsudweb.wpengine.com/wp-content/uploads/2018/05/60×60.jpg”][/bs-quote]

    ڈائل گھمانے والے ٹیلی فون سے سیل فون تک کا سفر، ڈرون ٹیکنالوجی، انٹرنیٹ، سوشل میڈیا، ایچ ڈی امیجز، فاصلے سمٹ گئے، آواز کے ساتھ تصویر سفر کرنے لگی، اخبارات اور جرائد انٹرنیٹ پر منتقل ہونا شروع ہو گئے، ای بینکنگ، ای آفس غرض اس ایکس جزیشن نے وہ کچھ بنتے اور مٹتے دیکھا ہے، جو نسل انسانی کی پوری تاریخ میں کسی نے نہ دیکھا تھا۔

    یہ سب کچھ سرمائے کی بڑھوتری کا سبب بھی بنا تو سامراج کیسے چپکے سے بیٹھ سکتا تھا، اس کے ہاں بھی نئے نئے حیلے آئے، پہلے جہاد پھر دہشت، یہ جنگ کے روپ تھے. اسلحے کے ڈھیر لگ گئے تھے، اس کے استعمال کے مواقع بنائے گئے ۔ پہلے یہ اکنامکس کا اصول ہوا کرتا تھا کہ طلب کے مطابق رسد ہو گئی، مگر اب یہ اصول بدل گیا۔ مصنوعی طلب پیدا کرنے کے طریقے ایجاد ہوئے۔اشیاء کی عمریں گھٹ گئیں۔ ڈسپوز ایبل کلچر وجود میں آگیا، وغیرہ وغیرہ۔

    اس سب کے مقابلے میں ادب تھا اور ادب ہے، اپنی دھج سے چلتا ہوا اور اپنے تخلیقی وقار سے آگے بڑھتا ہوا، کہہ لیجئے یہ گھاٹے کا سودا ہے مگر اس کا وقار اور اس کا سواد، اسی میں ہے۔

    سوال: آج کے نوجوانوں کو کن شعرا اور ادیبوں کو پڑھنا چاہیے؟

    محمد حمید شاہد: نوجوانوں کے پڑھنے کو بہت کچھ ہے۔ ہمارے ہاں شعر و ادب کی ایک پوری روایت موجود ہے۔ اتنا کچھ پڑھنے کو ہے کہ وہ اپنے اپنے مزاج کے مطابق اس میں سے انتخاب کر سکتے ہیں۔ میر و غالب سے لے کر اقبال تک اور راشد میرا جی، مجید امجد فیض و فراز سے لے کر آج کے شاعروں تک پھر فکشن کی ایک دنیا ہے پریم چند سے شروع ہو جائیں، بیدی، منٹو۔ عصمت چغتائی، قرۃ العین حیدر، غلام عباس، اشفاق احمد، انتظارحسین، منشایاد، اسد محمد خان سے آج کے فکشن لکھنے والوں تک، کہیں کسی کمی کا یا تشنگی کا احساس نہیں ہوگا۔

    ادب ہی سے آج کے نوجوان کی مزاج سازی ممکن ہوگی۔ ہماری یونیورسٹیوں میں سوشل سائنسز کے ڈسپلنز کچھ عرصے سے نظرانداز ہو رہے ہیں، ادھر توجہ دینا ہوگی۔ اردو زبان و ادب کی طرف یونیورسٹیوں کو آنا ہوگا اور یہیں سے ہم جان سکیں گے کہ ہمارے نوجوان کو کیا پڑھنا چاہیے اور کس طرح پڑھنا چاہیے۔

    سوال: اردو کا مستقبل آپ کیا دیکھ رہے ہیں، کیا رسم الخط کو خطرات لاحق ہیں؟

    محمد حمید شاہد: میں اردو زبان کے مستقبل کے حوالے سے بہت پرُامید ہوں۔ اچھا اس امید کے معاملے میں میں اکیلا نہیں ہوں، اس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہ اب کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کی زبان بھی بن چکی ہے۔ میں نے کاتبوں کو لیتھو پرنٹنگ کے لیے پیلے کاغذ پر کتابت کرتے دیکھا، پھر وہ بٹر پیپر پر لکھتے نظر آئے، کمپیوٹر آیا تو ان پیج کا چرچا ہوا، اب یونی کوڈ میں اردو لکھی جا رہی ہے تو ظاہر ہے اس باب میں خوب خوب سرمایہ کاری ہوئی ہے، تب ہی تو یہ منازل طے ہوئی ہیں۔

    یاد رہے، سرمایہ دار کسی ایسے پروجیکٹ میں سرمایہ کاری نہیں کرتا جہاں اس کے سرمائے کے ڈوبنے کا اندیشہ ہو۔ سو یوں ہے کہ اردو اپنے رسم الخط کے ساتھ آپ کے کمپیوٹر سے لے کر آپ کے سیل فون تک فراہم کر دی گئی ہے کہ یہ زبان مستقبل کی زبان ہے اور اس پر لگایا جانے والا سرمایہ بھی محفوظ ہے۔

    بس اگر خرابی ہے تو یہ ہے کہ یہ خبر ہماری حکومتوں تک نہیں پہنچی۔ اس باب میں حکمرانوں کی چال، جو پہلے بے ڈھنگی تھی، اب بھی بے ڈھنگی ہے۔ اسے اگر دفتری زبان بنالیا جاتا ہے، تو اس باب کے وہ خدشات بھی دور ہو جاتے ہیں، جن کا ذکر بالعموم ہوتا ہے، مگر یہاں تو عالم یہ ہے کہ اس ملک کی اعلی ترین عدالتیں اس باب میں فیصلہ سنا کر خود اپنے فیصلوں پر عمل کرنے کی بجائے انگریزی میں فیصلے لکھنا مناسب سمجھتی ہیں۔

    خیر ایسا کب تک ہوگا؟ یہ روش انہیں بدلنا ہی ہو گی۔ اب رہا مسئلہ رسم الحظ کا تو صاحب اسے کیوں بدلیں؟ رسم الحظ بدلنے کا مطالبہ کرنے والوں کو جاننا چاہیے کہ اس حرکت سے اردو کا حلقہ وسیع ہو گا نہ اسے لکھنا سہل ہو جائے گا۔

    میں سمجھتا ہوں کہ ایسا کرنے سے زبان سمجھنے والے سکٹر سمٹ جائیں گے، زبان کا معیار متاثر ہوگا اور بگڑی ہوئی زبان سے بھلا کون چمٹے رہنا پسند کرے گا؟ رسم الحظ کی تبدیلی زبان کے تحریری حسن اور تلفظ کو برباد کر کے رکھ دے گا۔ اس باب کی اگر کچھ مشکلات ہیں تو اس جانب توجہ دی جانی چاہیے ۔ انٹر نیٹ کی زبان بننے کے بعد بہت سے مسائل حل ہوگئے ہیں۔

    انٹرنیٹ پر ہی ایک زبان سے دوسری زبان میں ترجمے پر کام ہو رہا ہے، یوں اس رسم الخط میں لکھنے اور اسے سمجھنے کے باب میں مشکلات سے نبرد آزما ہونے کی صورتیں نکل رہی ہیں، اس جانب اداروں کو کام کرنا چاہیے۔ یونیورسٹیوں اور علمی، ادبی اداروں کوعلمی ادبی کتب کا سرمایہ اردو یونی کوڈ میں انٹر نیٹ پر فراہم کرنا چاہیے۔ رسم الخط بدلنے کی بابت سوچنے کی بہ جائے ہمارے کرنے کا یہی کام ہے، اسی سے ہماری زبان، اسے بولنے والے اور اس سے محبت کرنے والے ترقی کریں گے۔

    سوال: کیا ادیب کا کام فقط ادب تخلیق کرنا ہے یا ملک کے موجودہ حالات کے پیش نظر اسے اپنی ذمے داری کا دائرہ وسیع کرنا ہوگا؟

    محمد حمید شاہد: جب جب مجھ سے یہ سوال کیا گیا، مجھے فیض احمد فیض کاوہ جملہ یاد آیا جو انہوں نے "شاعر کی قدر” مشمولہ "میزان” میں لکھا تھا۔ یہی کہ "آرٹ کی قطعی اور واحد قدر محض جمالیاتی قدر ہے”. فیض صاحب نے یہ بھی لکھا تھا کہ "شاعر خواہ کچھ ہی کیوں نہ ہو اور اس کی قدریں کچھ ہی کیوں نہ ہوں، اگر اس کا کلام جمالیاتی نقطہ نظر سے کامیاب ہے، تو ہمیں اس پر حرف گیری کا حق حاصل نہیں۔”

    اب میں آپ کے سوال کی طرف آتا ہوں، "ذمے داری کا دائرہ وسیع کرنے” کے مطالبے کو پڑھتا ہوں، تو مجھے یوں لگتا ہے، جیسے یہ تاثر بن گیا ہے کہ ادیب سماج کا ذمہ دار فرد نہیں ہوتا، بس اسے لکھنے سے کام ہوتا ہے، نہیں صاحب ایسا نہیں ہے۔ ادیب کا لین دین سماج سے ہے اور اس باب میں وہ پوری طرح چوکس ہے اور یہیں سے وہ ادب کی جمالیات اخذ کرتا ہے، تاہم ادب محض سماج کا آئینہ نہیں ہے۔ یہ اسٹیٹس کو پر ضرب لگاتا ہے، مگر ایسا کسی طرف سے عائد کی گئی ذمہ داری کے سبب نہیں کرتا، ادب اپنی ترکیب میں ہوتا ہی ایسا ہے۔ وہ جو بیان نہیں کیا جاسکتا اسے بیانیے میں لے آنے والا ، موجود پر سوالات قائم کرنے والا اور آئندہ کی جانب احساس کی سمت موڑ دینے والا۔

    ادب اس باب میں کوئی دعویٰ نہیں کرتا کہ وہ سماج سدھار نے کا علم لے کر نکلا ہے کہ تخلیقی عمل کا منصب اپنے کام سے غافل ہو کر یوں ہانکا لگانا، نعرہ مارنا یا جلوس نکالنا نہیں ہے۔ اچھا یہ بھی جاننا چاہیے کہ معاشرے کی سطح پر اٹھنے والی ہنگامی لہریں ادب کا فوری مسئلہ نہیں ہوتیں۔ یہ بہت گہرائی میں بن چکے اس مزاج سے عبارت ہے، جو زمین، زبان، روایات اور عقائد سب مل کرمرتب کرتے ہیں۔

    ظاہر ہے یہ ایسا منصب ہے جو طاقت ور کی ڈکٹیٹ کرائی گئی تاریخ، سیاست دان کی چلائی ہوئی مہم، تنقید کی ترتیب دی گئی لسانی تراکیب اور میڈیا کے تشکیل دیے گئے ہنگامی بیانیہ، اخبار کے لیے لکھی گئی خبر اور کالم سے الگ دائرہ عمل ہے، اپنی تہذیب اور اپنے سماج سے بہت گہرائی میں اور بہت ذمہ داری سے جڑا ہوا۔

    [bs-quote quote=”ادب محض سماج کا آئینہ نہیں ہے۔ یہ اسٹیٹس کو پر ضرب لگاتا ہے، مگر ایسا کسی طرف سے عائد کی گئی ذمہ داری کے سبب نہیں کرتا، ادب اپنی ترکیب میں ہوتا ہی ایسا ہے۔ وہ جو بیان نہیں کیا جاسکتا اسے بیانیے میں لے آنے والا ، موجود پر سوالات قائم کرنے والا اور آئندہ کی جانب احساس کی سمت موڑ دینے والا” style=”style-2″ align=”right” author_name=”محمد حمید شاہد” author_avatar=”https://arynewsudweb.wpengine.com/wp-content/uploads/2018/05/60×60.jpg”][/bs-quote]

    سوال: آیندہ انتخابات کو آپ کس طرح دیکھ رہے ہیں؟

    محمد حمید شاہد: جب تک جمہوری عمل اپنی روح کے ساتھ بحال نہیں ہوتا، جمہوریت کے نام پر کٹھ پتلیوں کا یہ تماشایوں ہی چلتا رہے گا۔ اور یہ جمہوری عمل اس وقت صاف شفاف نہیں ہوسکتا، جب تک سیاست سے پریشر گروپس ختم نہیں ہو جاتے، جو ایسے ہی طاقت کا منبع سمجھے جانے والے اداروں کی ڈکٹیشن کو لے کر غیر جمہوری اقدامات کے حق میں فضا سازی کا فریضہ سر انجام دے رہے ہوتے ہیں۔

    یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان بننے میں مذہب کا بہت اہم کردار ہے۔ تسلیم کہ تحریک پاکستان کے پیچھے دو قومی نظریہ کام کر رہا تھا مگر یہ سمجھنا چاہیے کہ وہ تحریک جس کے پیچھے دوقومی نظر یہ کام کر رہا تھا، اس کا 14 اگست 1947 کو خوشگوار اور کامیاب انجام مسلمانوں کو ایک آزاد وطن پاکستان مل گیا تھا۔ اس کے بعد پاکستانی قوم کو اس فضا سے نکل جانا چاہیے تھا۔

    اب پاکستانی ایک قوم اسی صورت میں بن سکتے ہیں کہ یہاں وطن ایک اہم عنصر کے طور پر کام کرے گا۔ یہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے، ان ہی کی مرضی چلنی ہے کہ جمہوریت کا یہی تقاضا ہے، تو میں سمجھتا ہوں کہ یہاں ایسی جماعتوں کی کوئی گنجائش نہ تھی، جو مذہبی بنیادوں پر تعصبات کو ہوا دیتی ہیں، نہ ہی ایسی جماعتوں کی گنجائش ہے جو پاکستان کی مذہبی شناخت کو ہی ختم کرنا چاہتی ہیں۔

    موجودہ صورت حال میں جو شدت پسندی اور عدم رواداری ہے اس کی وجہ ایسی جماعتیں ہیں اور ان کے عسکری ونگز ہیں، جو خود اپنی مرضی سے مذہب اور تصور پاکستان کی تشریح کرتے اور زور زبردستی لوگوں کے ذہنوں پر مسلط کرنا چاہتے ہیں۔ پاکستانی سیاست میں فکری انتشاراور آپا دھاپی کی یہی وجوہات ہیں، جن پر قابو پانے کے لیے مسئلے کی بنیادوں کو سمجھنا ہوگا۔ مجھے یہاں آصف فرخی کا ایک افسانہ یاد آتا ہے "بن کے رہےگا!” جی یہ وہ نعرہ تھا، جو تحریک پاکستان میں لگایا گیا تھا۔ بن کے رہے گا پاکستان، اور افسانے میں بتایا گیا ہے کہ ابھی تک ہم اس نعرے کی باز گشت سن رہے ہیں، پاکستان بن گیا مگر بن ہی نہیں چکتا۔ تو صاحب، اس فضا سے نکلیں حقیقی جمہوری عمل کا آغاز کرنا ہوگا۔

    ہر ادارے کو اپنے دائرہ عمل کی طرف لوٹنا ہوگا۔ سیاسی جماعتوں کے اندر جمہوریت لانا ہو گی۔ فرقے، علاقے اور زبان کے تعصب کی بنیاد پر قائم جماعتوں کو سیاسی عمل سے الگ کرنا ہوگا، تب ہی کوئی تبدیلی ممکن ہوگی اور سیاسی استحکام آئے گا۔ موجودہ صورت حال میں ایک مخلوط اور غیر مستحکم حکومت بنے گی، جو اپنے فیصلے آزادی سے کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوگی.


    ایلف شفق، عشق اور چالیس اصول 


    دنیا میں سب سے زیادہ فروخت ہونے والے دس ناول