فلم کے لیے گلوکار محمد رفیع کی آواز میں گیت ریکارڈ کرنے کا ایک مطلب یہ بھی لیا جاتا تھا کہ وہ فلم اپنے گانوں کی وجہ سے ضرور ہِٹ ہوگی۔ ایسا نہیں ہے کہ محمد رفیع کو میوزک ڈائریکٹر کی جانب سے شدید اعتراض یا ڈانٹ نہیں سننا پڑی۔ انھوں نے اپنے کیریئر کا عروج بھی دیکھا اور پسِ پردہ گائیکی ان کے لیے چیلنج بھی ثابت ہوئی۔ مگر جب محمد رفیع کا انتقال ہوا تو وہ اپنے کیریئر کی بلندیوں پر تھے۔
بطور پس پردہ گلوکار شہرت کی بلندیوں کو چھونے والے محمد رفیع اپنے احباب میں ایک پُرسکون اور شائستہ انداز کے مالک اور منکسر مزاج مشہور تھے۔ موسیقار امر ہلدی پور سجاتا دیو کی کتاب میں درج یہ واقعہ اس کی ایک جھلک دکھایا ہے: ’1967-68 میں سی رام چندر رفیع صاحب کے ساتھ ایک گانا ریکارڈ کر رہے تھے۔ لیکن رفیع جی بار بار غلطیاں کر رہے تھے۔ ریکارڈنگ کئی بار کرنی پڑی۔ سی رام چندر ناراض ہو گئے اور بولے ’کیا ہو رہا ہے؟ کیا میں نے میوزک اسکول لیا ہے؟ وہ گانا یاد کر لو جو میں نے تمہیں دیا ہے۔‘
وہ کہتے ہیں ’رفیع جی نے معذرت خواہانہ انداز میں کہ: ’معذرت، یہ گانا میرے ذہن میں نہیں بیٹھ رہا، میں ابھی کرتا ہوں‘ انھوں نے اس وقت تک گایا جب تک کہ میوزک ڈائریکٹر مطمئن نہ ہو گئے۔ بعد میں وہ تمام فنکاروں کے پاس گئے اور معافی مانگی۔ اس عاجزی کی وجہ سے وہ سب کے پسندیدہ تھے۔‘
دوسری طرف نرم گفتار اور منسکر مزاج محمد رفیع بھی برہم یا ناراض ہوجاتے تھے لیکن بہت کم اور بہت مختلف انداز میں وہ اس کا اظہار کرتے تھے۔ سینیئر موسیقار اومی نے اپنی کتاب ‘محمد رفیع – اے گولڈن وائس’ میں لکھا ہے: ’ایک بار رفیع مجھ سے ناراض ہو گئے جو کہ بہت کم ہوتا تھا۔ 1973 میں فلم ’دھرم‘ کی قوالی ’راز کی بات کہہ دوں سے۔۔۔‘ کی ریکارڈنگ ہوئی تھی۔ میں دوبارہ ریکارڈ کرنا چاہتا تھا۔ رفیع صاحب قدرے غصے میں آگئے اور بولے کیا کہہ رہے ہو۔ رفیع صاحب سے ایسی بات سننا غیر معمولی تھا۔ میں نے بھی تھوڑا سختی سے کہا پیک اپ۔ رفیع صاحب بنا کوئی بات کہے چلے گئے۔‘
’اگلی صبح چھ بجے گھر کی گھنٹی بجی۔۔ رفیع صاحب سامنے تھے، انھوں نے پنجابی میں کہا ’کیا میں نے آپ کو ناراض کیا ہے؟ چلو کل والی قوالی سنتے ہیں۔‘
’میں امریکہ سے اسپیکر لایا تھا انھی پر سنتے ہیں‘ انھیں سننے کے بعد رفیع جی نے شائستگی سے پوچھا کہ کیا دوبارہ ریکارڈ کرنا ہے؟
’میں نے انھیں گلے لگایا اور کہا خان اپنے اسپیکر لے جاؤ (میں انھیں خان کہتا تھا)۔ پھر کہا یہ اسپیکر آپ کے لیے ہیں۔ رفیع جی کی فیس تین ہزار روپے تھی اور اسپیکر کی قیمت بیس ہزار روپے تھی۔ ایسے تھے رفیع صاحب‘۔
گلوکار محمد رفیع کو ہم سے بچھڑے ہوئے مدتیں گزر گئی ہیں، لیکن ان کے گائے ہوئے گیت آج بھی سنے جاتے ہیں اور ہر مرتبہ ایک لطف اور سرشاری محسوس ہوتی ہے۔ ان کا نام برصغیر پاک و ہند میں فلمی موسیقی کے اُفق پر ہمیشہ جگمگاتا رہے گا۔ وہ 31 جولائی 1980ء کو ممبئی میں انتقال کرگئے تھے۔
ہندوستانی فلم انڈسٹری کے لیے محمد رفیع کے گائے ہوئے گیتوں کی مقبولیت کو سرحد کی لکیر اور دوسری پابندیاں کبھی نہ روک پائیں۔ وہ ہر دو ملک کے عوام میں یکساں مقبول ہوئے اور انڈسٹری میں کوئی آج تک ان کی جگہ نہیں لے سکا۔ محمد رفیع کی آواز میں ایسا جادو تھا کہ سامع مسحور ہو جاتا۔ انھوں نے شوخ و چنچل، درد بھرے، رومانوی، اور کلاسیکی موسیقی کے ساتھ مغربی طرز کے گیت بھی بڑی مہارت کے ساتھ گائے۔ رفیع کے چند مقبول ترین گیتوں میں ’’بہارو پھول برساؤ میرا محبوب آیا ہے‘‘، ’’آ جا آ جا میں ہوں پیار تیرا‘‘ اور کئی سدا بہار گیت آج پرانی راہوں سے کوئی مجھے آواز نہ دے، چھلکائے جام آئیے آپ کی آنکھوں کے نام، یہ دنیا یہ محفل میرے کام کی نہیں، مجھے دنیا والو شرابی نہ سمجھو، میں پیتا نہیں ہوں، آجا تجھ کو پکاریں میرے گیت رے، چاہوں گا میں تجھے سانجھ سویرے، یہ ریشمی زلفیں یہ شربتی آنکھیں شامل ہیں۔
اپنے زمانہ کے اس عظیم اور مقبول ترین گلوکار نے 24 دسمبر 1924ء کو بھارتی پنجاب کی ریاست کوٹلہ سلطان سنگھ میں آنکھ کھولی۔ 1935-36ء میں ان کے والد لاہور منتقل ہوگئے اور بھاٹی گیٹ میں رہائش اختیار کی۔ والد گانے بجانے کے خلاف تھے مگر رفیع کو سر اور آواز اپنی جانب کھینچتی تھی۔ وہ والد کی غیر موجودگی میں گنگناتے اور چھپ کر گاتے۔ محمد رفیع کی عمر ابھی 13 سال تھی جب ایک کنسرٹ میں پہلی بار گیت گانے کا موقع مل گیا۔ سب نے ان کی بڑی تعریف کی۔ مگر قسمت کی دیوی 1941ء میں محمد رفیع پر مہربان ہوئی۔ انھوں نے مشہور موسیقار شیام سندر کی موسیقی میں فلم ’’گل بلوچ‘‘ کا گیت ’’سوہنیے نی ہیریے نی‘‘ گایا اور پھر ہندوستان کے موسیقار اعظم کہلانے والے نوشاد نے اپنی فلم ’’شاہ جہاں‘‘ میں گیت گانے کی دعوت دی۔ اس فلم کے لیے رفیع کی آواز میں ’’میرے سپنوں کی رانی‘‘ اور ’’روہی روہی‘‘ جیسے گیت ریکارڈ کیے گئے۔ اب ان کا پس پردہ گائیکی کا سفر آگے بڑھا اور اگلے سال ہدایت کار محبوب کی فلم ’’انمول گھڑی‘‘ اور ’’جگنو‘‘ کے گیت ریکارڈ کروائے۔ اس میں انھوں نے ملکہ ترنم نور جہاں کے ساتھ دوگانا گایا۔ ان میں ’’یہاں بدلہ وفا کا بے وفائی کے سوا کیا ہے‘‘ اس دور کا سپر ہٹ گیت تھا۔
رفیع کا شمار ان گلوکاروں میں ہوتا ہے جو راتوں رات شہرت کے ہفت آسمان طے کرنے میں کام یاب رہے۔ رفیع نے فلم کی دنیا کے ممتاز موسیقاروں اور گلوکاروں کے ساتھ کام کیا۔
محمد رفیع کو فلم فیئر ایوارڈ، نیشنل ایوارڈ سمیت کئی اعزازات سے نوازا گیا۔ وہ ان گلوکاروں میں سے تھے جن کی آواز پر اپنے دور کے ہر بڑے ہیرو اور سپر ہٹ فلمی جوڑیوں نے پرفارم کیا۔ فلمی دنیا کے ریکارڈ کے مطابق ان کے گیتوں کی تعداد 28 ہزار کے قریب ہے جن میں ہندی کے علاوہ دیگر زبانوں کے گیت بھی شامل ہیں۔