Tag: محمد رفیع

  • ‘پاکستان اور بھارت نے ہر چیز کو تقسیم کرلیا محمد رفیع کو تقسیم نہ کرسکے’

    ‘پاکستان اور بھارت نے ہر چیز کو تقسیم کرلیا محمد رفیع کو تقسیم نہ کرسکے’

    الگ الگ ملک بننے کے بعد پاکستان اور بھارت نے آپس میں بہت سی چیزیں تقسیم کیں مگر ایک چیز جسے تقسیم نہ کرسکے وہ گلوکار محمد رفیع تھے۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق پاکستان مسلم لیگ ن کے سینیٹر پرویز رشید نے برصغیر کے معروف گلوکار محمد رفیع کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور بھارت نے بہت سی چیزیں تقسیم کیں مگر وہ محمد رفیع کو تقسیم نہ کرسکے، دنوں ملکوں نے کہا کہ محمد رفیع ہمارا بھی ہے۔

    محمد رفیع: سماعتیں آج بھی ان کی آواز کی اسیر ہیں

    سینیٹر پرویز رشید نے کہا کہ ہم ہر بات پر جھگڑتے ہیں کچھ دن پہلے بھی ہمارا ان کا جھگڑا ہوا اور جنگ ہوئی لیکن جس بات پر ہم نہیں جھگڑے وہ محمد رفیع تھے۔

    برصغیر پاک و ہند کے مشہور و معروف ترین گلوکاروں میں سے ایک محمد رفیع کے حوالے سے پرویز رشید کا کہنا تھا کہ دونوں ملکوں نے مان لیا کہ یہ دونوں کے ہیں، یہ محمد رفیع صاحب کی خوبی تھی۔

    انھوں نے کہا کہ دلیپ کمار صاحب کو ٹریجڈی کنگ بنانے میں بھی محمد رفیع صاحب کو 50 فیصد حصہ تو ضرور تھا۔

    پرویز رشید نے کہا کہ ایک مشہور فلم دیدار تھی جس کا مشہور گانا تھا میری کہانی بھولنے والوں، وہ گانا اتنا پُراثر تھا اور خواتین پر اتنا اثر کرتا تھا کہ وہ صدمے میں اپنی چوڑیوں کو توڑ دیتی تھیں۔

  • محمد رفیع: سماعتیں آج بھی ان کی آواز کی اسیر ہیں

    محمد رفیع: سماعتیں آج بھی ان کی آواز کی اسیر ہیں

    فلم کے لیے گلوکار محمد رفیع کی آواز میں گیت ریکارڈ کرنے کا ایک مطلب یہ بھی لیا جاتا تھا کہ وہ فلم اپنے گانوں کی وجہ سے ضرور ہِٹ ہوگی۔ ایسا نہیں ہے کہ محمد رفیع کو میوزک ڈائریکٹر کی جانب سے شدید اعتراض یا ڈانٹ نہیں سننا پڑی۔ انھوں نے اپنے کیریئر کا عروج بھی دیکھا اور پسِ پردہ گائیکی ان کے لیے چیلنج بھی ثابت ہوئی۔ مگر جب محمد رفیع کا انتقال ہوا تو وہ اپنے کیریئر کی بلندیوں پر تھے۔

    بطور پس پردہ گلوکار شہرت کی بلندیوں کو چھونے والے محمد رفیع اپنے احباب میں ایک پُرسکون اور شائستہ انداز کے مالک اور منکسر مزاج مشہور تھے۔ موسیقار امر ہلدی پور سجاتا دیو کی کتاب میں درج یہ واقعہ اس کی ایک جھلک دکھایا ہے:‌ ’1967-68 میں سی رام چندر رفیع صاحب کے ساتھ ایک گانا ریکارڈ کر رہے تھے۔ لیکن رفیع جی بار بار غلطیاں کر رہے تھے۔ ریکارڈنگ کئی بار کرنی پڑی۔ سی رام چندر ناراض ہو گئے اور بولے ’کیا ہو رہا ہے؟ کیا میں نے میوزک اسکول لیا ہے؟ وہ گانا یاد کر لو جو میں نے تمہیں دیا ہے۔‘

    وہ کہتے ہیں ’رفیع جی نے معذرت خواہانہ انداز میں کہ: ’معذرت، یہ گانا میرے ذہن میں نہیں بیٹھ رہا، میں ابھی کرتا ہوں‘ انھوں نے اس وقت تک گایا جب تک کہ میوزک ڈائریکٹر مطمئن نہ ہو گئے۔ بعد میں وہ تمام فنکاروں کے پاس گئے اور معافی مانگی۔ اس عاجزی کی وجہ سے وہ سب کے پسندیدہ تھے۔‘

    دوسری طرف نرم گفتار اور منسکر مزاج محمد رفیع بھی برہم یا ناراض ہوجاتے تھے لیکن بہت کم اور بہت مختلف انداز میں وہ اس کا اظہار کرتے تھے۔ سینیئر موسیقار اومی نے اپنی کتاب ‘محمد رفیع – اے گولڈن وائس’ میں لکھا ہے: ’ایک بار رفیع مجھ سے ناراض ہو گئے جو کہ بہت کم ہوتا تھا۔ 1973 میں فلم ’دھرم‘ کی قوالی ’راز کی بات کہہ دوں سے۔۔۔‘ کی ریکارڈنگ ہوئی تھی۔ میں دوبارہ ریکارڈ کرنا چاہتا تھا۔ رفیع صاحب قدرے غصے میں آگئے اور بولے کیا کہہ رہے ہو۔ رفیع صاحب سے ایسی بات سننا غیر معمولی تھا۔ میں نے بھی تھوڑا سختی سے کہا پیک اپ۔ رفیع صاحب بنا کوئی بات کہے چلے گئے۔‘

    ’اگلی صبح چھ بجے گھر کی گھنٹی بجی۔۔ رفیع صاحب سامنے تھے، انھوں نے پنجابی میں کہا ’کیا میں نے آپ کو ناراض کیا ہے؟ چلو کل والی قوالی سنتے ہیں۔‘

    ’میں امریکہ سے اسپیکر لایا تھا انھی پر سنتے ہیں‘ انھیں سننے کے بعد رفیع جی نے شائستگی سے پوچھا کہ کیا دوبارہ ریکارڈ کرنا ہے؟

    ’میں نے انھیں گلے لگایا اور کہا خان اپنے اسپیکر لے جاؤ (میں انھیں خان کہتا تھا)۔ پھر کہا یہ اسپیکر آپ کے لیے ہیں۔ رفیع جی کی فیس تین ہزار روپے تھی اور اسپیکر کی قیمت بیس ہزار روپے تھی۔ ایسے تھے رفیع صاحب‘۔

    گلوکار محمد رفیع کو ہم سے بچھڑے ہوئے مدتیں گزر گئی ہیں، لیکن ان کے گائے ہوئے گیت آج بھی سنے جاتے ہیں اور ہر مرتبہ ایک لطف اور سرشاری محسوس ہوتی ہے۔ ان کا نام برصغیر پاک و ہند میں فلمی موسیقی کے اُفق پر ہمیشہ جگمگاتا رہے گا۔ وہ 31 جولائی 1980ء کو ممبئی میں انتقال کرگئے تھے۔

    ہندوستانی فلم انڈسٹری کے لیے محمد رفیع کے گائے ہوئے گیتوں کی مقبولیت کو سرحد کی لکیر اور دوسری پابندیاں کبھی نہ روک پائیں۔ وہ ہر دو ملک کے عوام میں یکساں مقبول ہوئے اور انڈسٹری میں کوئی آج تک ان کی جگہ نہیں لے سکا۔ محمد رفیع کی آواز میں ایسا جادو تھا کہ سامع مسحور ہو جاتا۔ انھوں نے شوخ و چنچل، درد بھرے، رومانوی، اور کلاسیکی موسیقی کے ساتھ مغربی طرز کے گیت بھی بڑی مہارت کے ساتھ گائے۔ رفیع کے چند مقبول ترین گیتوں میں ’’بہارو پھول برساؤ میرا محبوب آیا ہے‘‘، ’’آ جا آ جا میں ہوں پیار تیرا‘‘ اور کئی سدا بہار گیت آج پرانی راہوں سے کوئی مجھے آواز نہ دے، چھلکائے جام آئیے آپ کی آنکھوں کے نام، یہ دنیا یہ محفل میرے کام کی نہیں، مجھے دنیا والو شرابی نہ سمجھو، میں پیتا نہیں ہوں، آجا تجھ کو پکاریں میرے گیت رے، چاہوں گا میں تجھے سانجھ سویرے، یہ ریشمی زلفیں یہ شربتی آنکھیں شامل ہیں۔

    اپنے زمانہ کے اس عظیم اور مقبول ترین گلوکار نے 24 دسمبر 1924ء کو بھارتی پنجاب کی ریاست کوٹلہ سلطان سنگھ میں آنکھ کھولی۔ 1935-36ء میں ان کے والد لاہور منتقل ہوگئے اور بھاٹی گیٹ میں رہائش اختیار کی۔ والد گانے بجانے کے خلاف تھے مگر رفیع کو سر اور آواز اپنی جانب کھینچتی تھی۔ وہ والد کی غیر موجودگی میں گنگناتے اور چھپ کر گاتے۔ محمد رفیع کی عمر ابھی 13 سال تھی جب ایک کنسرٹ میں پہلی بار گیت گانے کا موقع مل گیا۔ سب نے ان کی بڑی تعریف کی۔ مگر قسمت کی دیوی 1941ء میں محمد رفیع پر مہربان ہوئی۔ انھوں نے مشہور موسیقار شیام سندر کی موسیقی میں فلم ’’گل بلوچ‘‘ کا گیت ’’سوہنیے نی ہیریے نی‘‘ گایا اور پھر ہندوستان کے موسیقار اعظم کہلانے والے نوشاد نے اپنی فلم ’’شاہ جہاں‘‘ میں گیت گانے کی دعوت دی۔ اس فلم کے لیے رفیع کی آواز میں ’’میرے سپنوں کی رانی‘‘ اور ’’روہی روہی‘‘ جیسے گیت ریکارڈ کیے گئے۔ اب ان کا پس پردہ گائیکی کا سفر آگے‌ بڑھا اور اگلے سال ہدایت کار محبوب کی فلم ’’انمول گھڑی‘‘ اور ’’جگنو‘‘ کے گیت ریکارڈ کروائے۔ اس میں انھوں نے ملکہ ترنم نور جہاں کے ساتھ دوگانا گایا۔ ان میں ’’یہاں بدلہ وفا کا بے وفائی کے سوا کیا ہے‘‘ اس دور کا سپر ہٹ گیت تھا۔

    رفیع کا شمار ان گلوکاروں میں ہوتا ہے جو راتوں رات شہرت کے ہفت آسمان طے کرنے میں کام یاب رہے۔ رفیع نے فلم کی دنیا کے ممتاز موسیقاروں اور گلوکاروں کے ساتھ کام کیا۔

    محمد رفیع کو فلم فیئر ایوارڈ، نیشنل ایوارڈ سمیت کئی اعزازات سے نوازا گیا۔ وہ ان گلوکاروں میں سے تھے جن کی آواز پر اپنے دور کے ہر بڑے ہیرو اور سپر ہٹ فلمی جوڑیوں نے پرفارم کیا۔ فلمی دنیا کے ریکارڈ کے مطابق ان کے گیتوں کی تعداد 28 ہزار کے قریب ہے جن میں ہندی کے علاوہ دیگر زبانوں کے گیت بھی شامل ہیں۔

  • نریندر مودی بھی محمد رفیع کی آواز کے گُن گانے لگے

    نریندر مودی بھی محمد رفیع کی آواز کے گُن گانے لگے

    نئی دہلی: بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی نے راج کپور، محمد رفیع، تپن سنہا اور اکینینی ناگیشور راؤ کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ ان شخصیات نے ہندوستانی سنیما کو عالمی سطح پر شناخت دلائی۔

    بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق من کی بات پروگرام کے دوران اظہار خیال کرتے ہوئے کہا بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا کہ سال 2024 میں ہم فلم انڈسٹری کی کئی عظیم شخصیات کی 100 ویں سالگرہ منا رہے ہیں۔ ان شخصیات نے ہندوستانی سنیما کو عالمی سطح پر پہچان دلائی۔

    بھارتی وزیر اعظم نے کہا کہ راج کپور جی نے فلموں کے ذریعے ہندوستان کی سافٹ پاور کو دنیا کے سامنے متعارف کرایا۔ رفیع صاحب کی آواز میں وہ جادو تھا جس نے ہر دل کو چھو لیا۔ ان کی آواز حیرت انگیز تھی۔

    اُنہوں نے کہا کہ عقیدت مندانہ گانے ہوں یا رومانوی گیت، یا درد بھرے گانے ہوں، انھوں نے اپنی آواز سے ہر طرح جذبات کو زندہ کیا۔

    بھارتی وزیر اعظم کا مزید کہنا تھا کہ ایک آرٹسٹ کی حیثیت سے ان کی عظمت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آج بھی نوجوان نسل اسی جوش و خروش سے ان کے گانے سنتی ہے،یہ لازوال فن کی پہچان ہے۔

    واضح رہے کہ موسیقی کی دنیا کے بے تاج بادشاہ محمد رفیع گائیکی کا ایسا ہنرلے کر پیدا ہوئے تھے، جو قدرت کسی کسی کو عطا کرتی ہے، سروں کے شہنشاہ محمد رفیع 24 دسمبر1924 کو امرتسر کے گاؤں کوٹلہ سلطان سنگھ میں پیدا ہوئے، انہوں نے لاہور ریڈیو سے پنجابی نغموں سے اپنے سفر کی ابتداء کی، موسیقی کا شوق انہیں ممبئی لے آیا اور پھر فلم انمول گھڑی کے گانے سے کیرئیر کا اغاز کیا۔

    انہوں نے گیتوں کے علاوہ غزل، قوالی اوربھجن گا کربھی لوگوں کومحظوظ کیا، ان کو کلاسیکی، شوخ اور چنچل ہر طرح کے گیت گانے میں مہارت تھی، محمد رفیع نے چالیس ہزار سے زائد گانے گائے۔

    محمد رفیع نے ہندی فلموں کے 4516، نان ہندی 112 اور 328 پرائیویٹ گانے ریکارڈ کرائے، ان کے مشہور گانوں میں چودھویں کا چاند ہو، یہ دنیا یہ محفل میرے کام کی نہیں، میرے محبوب تجھے، کیا ہوا تیرا وعدہ، بہارو پھول برساو?، کھلونا جان کرتم تو، میں نے پوچھا چاند سے، یہ دل تم بن لگتا نہیں، آج پرانی راہوں سے، لکھے جوخط، احسان تیرا ہوگا،یہ ریشمی زلفیں اوردل جو نہ کہہ سکا کے علاوہ دیگر شامل ہیں۔

    دلوں پر راج کرنے والے رفیع نے نہ صرف اردو اور ہندی بلکہ میراٹھی، گجراتی، بنگالی، بھوجپوری اور تامل کے علاوہ کئی زبانوں میں بھی ہزاروں گیت گائے۔

    محمد رفیع نے اپنے کیرئیر میں بطور پلے بیک سنگر متعد ایوارڈز حاصل کیے، جن میں نیشنل فلم ایوارڈ، 6 بارفلم فیئرایوارڈ اور حکومت انڈیا کا سرکاری اعزاز پدم شری شامل ہیں جو انہیں 1967ء میں دیا گیا جبکہ ان کے انتقال کے 20 برس بعد 2000ء میں انہیں بہترین سنگرآف میلینیم کا اعزاز سے نوازا گیا۔

    امیتابھ بچن نے محمد رفیع کو جہاز رکوا اتروایا دیا تھا، مگر کیوں؟

    محمدرفیع 31جولائی 1980ء کوجہان فانی سے کوچ کرگئے، ان کی گائیکی آج بھی برصغیر میں مقبول ہے، آج انہیں ہم سے بچھڑے ہوئے کئی سال ہوگئے مگر وہ اپنی آواز کے ذریعے آج بھی اپنے لاکھوں چاہنے والوں کے دلوں میں زندہ ہیں۔

  • امیتابھ بچن نے محمد رفیع کو جہاز رکوا اتروایا دیا تھا، مگر کیوں؟

    امیتابھ بچن نے محمد رفیع کو جہاز رکوا اتروایا دیا تھا، مگر کیوں؟

    برصغیر کے عظیم گلوکار اور موسیقی کی دنیا کے بے تاج بادشاہ محمد رفیع کو بالی وڈ کے بادشاہ امیتابھ بچن گلوکار کو جہاز سے نیچے اتروایا تھا۔

    بے شمار بہترین گانوں کے خالق محمد رفیع آج اس دنیا میں تو نہیں مگر ان کی یادیں آج بھی مشہور بھارتی اداکار امیتابھ بچن کے ساتھ ہیں۔

    لیجنڈری اداکار امیتابھ بچن کی  ایک پرانی کلپ شوشل میڈیا پر وائرل ہے جس میں وہ گلوکار رفیع کو ایک  بہت بڑے فنکار مانتے ہیں۔

     دورانِ انٹرویو اداکار امیتابھ بچن ان کی یادوں میں کھو گئے اور کہنے لگے کہ رفیع جی انتہائی شریف،پیار اور خیال رکھنے والے شخص تھے۔

    انہوں نے کہا کہ رفیع صاحب کیلئے یہ محبت و خلوص صرف میرے دل میں اس لیے ہے کہ ایک مرتبہ ہم ڈارجلنگ کے علاقے سلی گولی میں کنسرٹ کرنے گئے ، اس وقت ہمارے ساتھ رفیع جی بھی تھے۔

    برصغیر پاک و ہند کے عظیم گلوکار محمد رفیع کو گزرے39 برس بیت گئے

    ’’2  دن کے اس کنسرٹ کے دوسرے دن جب ہمیں معلوم ہوا کہ دوسرا گلوکار وقت پر پہنچ نہیں سکتا تو ہماری حالت خراب ہو گئی، رفیع صاحب بھی اپنے گھر واپس جانے کیلئے نکل چکے تھے‘‘۔

    اداکار نے کہا کہ اب ایسے میں ہم ائیرپورٹ کی جانب بھاگے اور کئی سو میل سفر کرنے کے بعد جب ائیر پورٹ پہنچے تو وہاں کے عملے کے آگے ہاتھ جوڑ کر کہا کہ ہمیں صرف چند منٹ کیلئے محمد رفیع سے ملنے دو ۔

     آخر کار ائیرپورٹ کے عملے کو ہماری حالت پر ترس آ ہی گیا، یوں ہمیں جہاز کے اندر تک بھیج دیا گیا۔

    لیجینڈ اداکار نے کہا کہ رفیع صاحب سکون سے جہاز میں اپنی نشست پر بیٹھے ہوئے ہیں، ہم انکی جانب بھاگے اور سارا ماجرا  سنا دیا،  تو انہوں نے بنا کوئی سوال جواب کیے اس بات کی حامی بھر لی۔

    وہ کون تھا جس نے کئی سال تک امیتابھ بچن کا بائیکاٹ کیا؟

    امیتابھ بچن نے بتایا کہ رفیع نے کہا دوسرے دن بھی میں ہی پرفارم کروں گا تاکہ آپ کا کنسرٹ خراب نہ ہو جبکہ معاہدے کے مطابق محمد رفیع صاحب کو صرف پہلے دن ہی پرفارم کرنا تھا۔

  • برصغیر پاک و ہند کے عظیم گلوکار محمد رفیع کو گزرے39 برس بیت گئے

    برصغیر پاک و ہند کے عظیم گلوکار محمد رفیع کو گزرے39 برس بیت گئے

    برصغیر پاک وہند کےعظیم گلوکار محمد رفیع کا 39 واں یوم وفات آج منایا جارہا ہے، رفیع کے گائے سینکڑوں گیت آج بھی بے انتہا مقبول ہیں، ان کی آواز سننے والوں پر سحر طاری کردیتی ہے۔

    موسیقی کی دنیا کے بے تاج بادشاہ محمد رفیع گائیکی کا ایسا ہنرلے کر پیدا ہوئے تھے، جو قدرت کسی کسی کو عطا کرتی ہے، سروں کے شہنشاہ محمد رفیع 24 دسمبر1924 کو امرتسر کے گاؤں کوٹلہ سلطان سنگھ میں پیدا ہوئے، انہوں نے لاہور ریڈیو سے پنجابی نغموں سے اپنے سفر کی ابتداء کی، موسیقی کا شوق انہیں ممبئی لے آیا اور پھر فلم انمول گھڑی کے گانے سے کیرئیر کا اغاز کیا۔

    انہوں نے گیتوں کے علاوہ غزل ، قوالی اوربھجن گا کربھی لوگوں کومحظوظ کیا، ان کو کلاسیکی ، شوخ اور چنچل ہر طرح کے گیت گانے میں مہارت تھی، محمد رفیع نے چالیس ہزار سے زائد گانے گائے۔

    محمد رفیع نے ہندی فلموں کے 4516، نان ہندی 112 اور 328 پرائیویٹ گانے ریکارڈ کرائے ، ان کے مشہور گانوں میں چودھویں کا چاند ہو، یہ دنیا یہ محفل میرے کام کی نہیں، میرے محبوب تجھے، کیا ہوا تیرا وعدہ ، بہارو پھول برساؤ، کھلونا جان کرتم تو، میں نے پوچھا چاند سے، یہ دل تم بن لگتا نہیں، آج پرانی راہوں سے ، لکھے جوخط ، احسان تیرا ہوگا ،یہ ریشمی زلفیں اوردل جو نہ کہہ سکا کے علاوہ دیگر شامل ہیں۔

    دلوں پر راج کرنے والے رفیع نے نہ صرف اردو اور ہندی بلکہ میراٹھی، گجراتی، بنگالی، بھوجپوری اور تامل کے علاوہ کئی زبانوں میں بھی ہزاروں گیت گائے۔

    محمد رفیع نے اپنے کیرئیر میں بطور پلے بیک سنگر متعد ایوارڈز حاصل کیے، جن میں نیشنل فلم ایوارڈ، 6 بارفلم فیئرایوارڈ اور حکومت انڈیا کا سرکاری اعزاز پدم شری شامل ہیں جو انہیں 1967ء میں دیا گیا جبکہ ان کے انتقال کے 20 برس بعد 2000ء میں انہیں بہترین سنگرآف میلینیم کا اعزاز سے نوازا گیا۔

    محمدرفیع 31جولائی 1980ء کوجہان فانی سے کوچ کرگئے، ان کی گائیکی آج بھی برصغیر میں مقبول ہے، آج انہیں ہم سے بچھڑے ہوئے کئی سال ہوگئے مگر وہ اپنی آواز کے ذریعے آج بھی اپنے لاکھوں چاہنے والوں کے دلوں میں زندہ ہیں۔