Tag: محمد زبیر کی تحریریں

  • زندگی میں آپ کی کام یابی کے کتنے فیصد امکانات ہیں؟

    زندگی میں آپ کی کام یابی کے کتنے فیصد امکانات ہیں؟

    مصنّف: محمد زبیر

    شاگرد نے گرو سے عرض کی، ”مجھے کام یابی کا راستہ دکھا دیں۔“ گرو نے سامنے اشارہ کیا،”یہاں سے سیدھے چلے جاؤ، یہی راستہ ہے۔“

    شاگرد نے اس راستے پر چلنا شروع کیا ہی تھا کہ زور دار بجلی کڑکی۔ شاگر تیزی سے پلٹا اور کہا،”یہ آپ مجھے کہاں بھیج رہے ہیں، یہاں تو بجلیاں کڑک رہی ہیں۔“

    گرو نے کہا،”یہی راستہ ہے۔“ شاگرد نے پھر چلنا شروع کیا، اب طوفانی ہوائیں چلنے لگیں۔شاگرد پھر پلٹا اور ناراضی سے کہا،”آپ تو سب جانتے ہیں، پھر مجھے درست راستہ کیوں نہیں دکھا رہے ہیں؟“

    گرو نے کہا، ”کام یابی بجلیوں، بارشوں اور طوفانوں کا سامنا کرنے کے بعد ہی ملتی ہے۔“

    یہ گرو کا تجزیہ تھا۔ پرانے زمانے میں اسی قسم کے جنرالائزڈ تجزیے ہوا کرتے تھے۔ یہ سائنس اور تحقیق کا زمانہ ہے۔ اب ہم سوال اٹھاتے ہیں کہ زور دار بجلی کی کڑک سے کیا مراد ہے، طوفانی ہواؤں کو کیا نام دیا جائے، بارشوں سے متاثرہ راستہ کسے کہتے ہیں اور ان کا مقابلہ کس طرح کیا جائے۔

    اگر آپ اپنی زندگی کام یابی اور کامرانی سے ہمکنار کرنا چاہتے ہیں تو پانچ سوالات کے جوابات پوری ایمان داری سے دیجیے۔ ہر سوال بیس نمبر کا ہے۔ آپ جس حد تک عمل کر رہے ہیں، اس حساب سے خود کو نمبر دیں۔

    مثال کے طور پر پوچھے گئے سوال پر اگر آپ سو فیصد عمل کرتے ہیں تو بیس میں بیس نمبر دیں، اگر پچاس فیصد کرتے ہیں تو دس نمبر دیں۔ یعنی جس تناسب سے یا جتنا آپ بہتر سمجھتے ہیں، نمبر دیں۔ یہ جوابات آپ کے علاوہ کوئی اور نہیں دیکھے گا، لہٰذا پوری دیانت داری سے دیں، اگر ایسا نہ کیا تو یہ تحریر آپ کے کسی کام کی نہیں۔ یہ جوابات آپ کو بتائیں گے کہ آپ کن طوفانوں، کن بجلیوں اور کن بارشوں سے بچ بچ کر نکل رہے ہیں۔ اور جوں ہی ان کا سامنا کریں گے، کام یابی کا تناسب بڑھنا شروع ہو جائے گا۔

    1۔ آپ کتنی دیر اور کیا مطالعہ کرتے ہیں؟

    آپ کی کام یابی کا خاصی حد تک دار و مدار اس بات پر ہے کہ آپ دن بھر میں کتنی دیر اور کیا مطالعہ کرتے ہیں۔ میرا جن کام یاب لوگوں سے ملنا جلنا ہوتا ہے ان میں وہ لوگ بھی ہیں جو مطالعہ کرتے ہیں اور وہ بھی جو بالکل مطالعہ نہیں کرتے۔ مطالعہ کرنے والوں کی گفتگو سے اعتماد جھلکتا ہے۔ میرے ایک دوست پاکستان کی بڑی ٹریننگ کمپنی کے سی ای او ہیں، کہتے ہیں، ”بعض اوقات مصروفیات کی وجہ سے مطالعہ کا وقت نہیں مل پاتا، اس دوران زندگی ادھوری اور کھوکھلی محسوس ہوتی ہے۔“ جو لوگ کتابیں پڑھتے ہیں، وہ زیادہ پرسکون اور مستقبل کی طرف سے زیادہ پریقین ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس جو افراد مطالعہ نہیں کرتے، وہ اس خوف کا شکار رہتے ہیں کہ اگر ٹیکنالوجی یا حالات تبدیل ہوگئے تو ان کا کیا بنے گا۔ اس کے ساتھ ہی مطالعہ نہ کرنے والے ایک مقام پر پہنچ کر رک جاتے ہیں جب کہ مطالعہ کرنے والے مختلف جہتوں میں ترقی کرتے چلے جاتے ہیں۔ یہی صورتِ حال کاروبار کرنے والوں کے ساتھ ہوتی ہے۔ ہمیں حیرت ہوتی ہے کہ بیرونِ ممالک میں کاروباری حضرات اپنی جڑیں تیزی کے ساتھ دیگر ممالک میں پھیلا دیتے ہیں جب کہ ہم شان دار مصنوعات رکھنے کے باوجود دوسری برانچ تک کھولنے سے ڈرتے ہیں۔

    وارن بفے دنیا کا سب سے بڑا سرمایہ کار مانا جاتا ہے۔ تقریباً ڈیڑھ سو ارب ڈالر کا مالک ہے۔دنیا کا مشہور اور پُر اثر ترین انسان، فیس بک کا بانی مارک زکربرگ بھی وارن بفے سے مشورے لیتا ہے۔ بفے سے جب اس کی کام یابی کا راز معلوم کیا گیا تو اس نے کتابوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، ”روزانہ پانچ سو صفحات پڑھو، علم اپنا اثر دکھانا شروع کر دے گا۔ اور تم میں سے ہر کوئی یہ کام کر سکتا ہے، لیکن میں ضمانت دے سکتا ہوں کہ تمہاری اکثریت ایسا نہیں کرے گی۔“

    بل گیٹس نوّے ارب ڈالر سے زیادہ کا مالک ہے، سال بھر میں پچاس سے زائد کتابیں پڑھتا ہے۔ یعنی ہر ہفتے ایک کتاب۔ وہ اپنی دولت پر اتنا فخر نہیں کرتا جتنا کتابیں پرھنے کی عادت پر کرتا ہے۔ یہ اس کی کام یابی کی بڑی وجہ ہے۔

    بل گیٹس کی طرح شاہ رخ خان بھی کتابیں پڑھتا اور کتابوں کے ساتھ تصاویر اپلوڈ کر کے اپنی ترجیحات بتاتا ہے۔

    آپ کتنا وقت کتابیں پڑھنے میں صرف کرتے ہیں اور کس قسم کی کتابیں پڑھتے ہیں؟

    اگر آپ اپنے شعبہ سے متعلق کتابیں نہیں پڑھ رہے ہیں تو اپنے شعبہ میں کام یابی کے امکانات وقت کے ساتھ محدود ہوتے چلے جائیں گے۔ آج آپ کو متعدد کمپنیز کے سی ای اوز نوجوان نظر آئیں گے، اور یہ تناسب بڑھتا جا رہا ہے۔ یہ وہ نوجوان ہیں جنہیں بچپن سے کتابیں پڑھنے کی عادت ڈالی گئی۔ کتابیں بھی وہ، جو ان کی پروفیشنل لائف میں کارآمد ثابت ہوں۔ فرض کریں آپ امیر ہونا چاہتے ہیں جب کہ کتابیں دنیا کی مذمت کے موضوع پر یا ترقی پسند ادب سے متعلق پڑھ رہے ہیں تو یہ مطالعہ آپ کو آپ کے شعبے میں ترقی نہیں دے گا۔

    ان تمام باتوں کو مدنظر رکھ کر اپنا جائزہ لیں اور سوچیں آپ خود کو بیس میں سے کتنے نمبر دیں گے۔

    2-آپ اپنی زندگی میں کتنے فیصد کام یاب ہیں؟

    فرض کریں ایک مداری کرتب دکھانے آئے۔ اس کے پاس چار گیندیں ہوں جنہیں وہ ایک ساتھ اچھالنے کا مظاہرہ کرے۔ اگر وہ چاروں گیندوں کو بیک وقت اچھال لے گا تو کام یاب مداری کہلائے گا۔ لوگ تالیاں بجائیں گے، انعام دیں گے۔ اگر کبھی ایک گیند گرے کبھی دوسری تو کوئی بھی اسے نہیں سراہے گا۔ یہی کچھ ہماری زندگی کے ساتھ بھی ہوتا ہے۔ ہماری زندگی عام طور پر ان چار چیزوں سے مل کر بنتی ہے:
    مذہب
    صحت (ذہنی اور جسمانی)
    عزیزواقارب
    پیشہ
    ان چاروں چیزوں میں توازن نہیں ہوگا تو ہماری زندگی ایک ناکام انسان کی زندگی ہوگی، دنیاوی اعتبار سے بھی اور اخروی اعتبار سے بھی۔ سوال کا جواب دینے سے پہلے اہم ترین بات سمجھ لیں۔ ہماری ناکامیوں، ہماری کام یابیوں، ہماری خوشیوں، ہمارے غموں، ہماری صحت، ہماری بیماریوں، ہمارے اچھے اور برے تعلقات کے ذمہ دار ہم خود ہیں۔ اگر آپ کی صحت اچھی نہیں ہے، لوگوں سے تعلقات اچھے نہیں ہیں، اخلاقی بیماریوں کا شکار ہیں، کاروبار یا پیشہ میں کام یاب نہیں ہیں تو اس کا کوئی اور ذمہ دار نہیں ہے۔ اگر یہ بات سمجھ میں نہیں آتی تو جان لیں، کام یابی نہیں مل سکتی۔ کہتے ہیں Be the winner or whiner یعنی یا تو شکوہ شکایت کر لیں یا کام یاب ہوجائیں۔ جتنا زیادہ شکوہ شکایت کریں گے، اپنی ناکامیوں کی وجہ کسی اور کو سمجھتے رہیں گے، حالات بد سے بدتر ہوتے چلے جائیں گے۔

    آج آپ اپنی زندگی میں کتنے فیصد کام یاب ہیں؟ اس سوال کے لیے بھی خود کو بیس میں سے نمبر دیں۔

    3۔ آپ کن لوگوں کے درمیان وقت گزارتے ہیں؟

    جم رون نے بہت خوب صورت بات کہی تھی کہ آپ ان پانچ لوگوں کا مجموعہ ہیں جن کے ساتھ بیشتر وقت گزارتے ہیں۔ یہاں بھی وہی بات کہی جائے گی کہ اگر آپ اچھی صحت چاہتے ہیں تو ان لوگوں کے ساتھ رہیں جن کی صحت اچھی ہے۔ اگر دولت مند بننا چاہتے ہیں تو ان لوگوں کے درمیان رہیں، ان سے تعلقات استوار کریں جو دولت مند ہیں۔ اگر اپنا اخلاق بہتر کرنا چاہتے ہیں تو ان لوگوں کے درمیان رہیں جن کے تعلقات دوسروں کے ساتھ بہتر ہیں۔ ہمارے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ اگر شریکِ حیات یا گھر والوں سے تعلقات خراب ہو جائیں تو اس شخص سے مشورہ مانگیں گے جس کے اپنے تعلقات خراب ہیں۔ وہ بتائے گا، ”میں کسی کی پروا نہیں کرتا، چاہے کسی کو برا لگے یا اچھا، میں منافقت نہیں کرتا۔ مجھ سے نہیں ہوتی یہ چاپلوسی۔“ وہ خود تو ناپسندیدہ انسان ہے، اس کے نقشِ قدم پر چل کر آپ بھی لوگوں کی نظروں میں حقیر ہو جائیں گے۔ اپنی بدزبانی اور اخلاقی کمتری کو جھوٹی انا سے چھپانا بڑے لوگوں کا کام نہیں ہے۔ اس لیے پہلے تو یہ سوچیں کہ زندگی کے کس شعبہ میں کام یاب ہونا چاہتے ہیں اور پھر سوچیں کہ کن لوگوں سے تعلقات استوار کرنے ہیں۔ ان سب باتوں سے پہلے اپنا تجزیہ کریں کہ اس وقت آپ کس مقام پر کھڑے ہیں۔

    جن دوستوں کے ساتھ آپ بیشتر وقت گزارتے ہیں وہ آپ کی کام یابی میں کتنا فیصد کردار ادا کر رہے ہیں۔ نمبر دیں۔

    4۔ کیا آپ نے اہداف لکھ رہے ہیں؟

    کیا آپ نے اپنے اہداف لکھ رکھے ہیں۔ یہاں اتنا سمجھ لیں کہ کوئی بھی بڑی کام یابی منزل کی واضح تصویر ذہن میں ترتیب دیے بغیر ممکن نہیں۔ آپ اپنے بچّے کو کس طرح کا انسان بنانا چاہتے ہیں، گھر کا ماحول کس طرح کا چاہتے ہیں، کس طرح کی ملازمت یا کاروبار کرنا چاہتے ہیں، یہ چیزیں جتنی زیادہ واضح ہوں گی، منزل پر پہنچنے کے امکانات اسی قدر بڑھ جائیں گے۔

    اب بتائیں کہ کیا آپ کو معلوم ہے کہ گول کس طرح سیٹ کرتے ہیں اور آپ اپنے گول سیٹ کر چکے ہیں؟

    5۔ آپ خرچ کرتے ہیں، بچت کرتے ہیں یا سرمایہ کاری کرتے ہیں؟

    ناکام ترین لوگ جو کماتے ہیں، سب خرچ کر دیتے ہیں۔ ان سے بہتر لوگ پیسہ بچا کر رکھتے ہیں۔ ان دونوں سے بہتر لوگ سرمایہ کاری کرتے ہیں۔ یہ کام یاب لوگ ہوتے ہیں۔ دنیا کا کوئی بھی امیر ترین انسان بچت کر کے امیر نہیں ہوا، سرمایہ کاری کر کے ہوا ہے۔ اگر آپ سرمایہ کاری کر رہے ہیں اور اس سرمایہ کاری کی بدولت آپ کے سرمائے میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے تو آپ کی کام یابی کے امکانات بڑھ رہے ہیں اور اگر ایسا نہیں ہے تو آپ خود سمجھ سکتے ہیں کہ آپ کا مستقبل کس حد تک محفوظ ہے۔

    جو لوگ متعلقہ مواد زیرِ مطالعہ رکھتے ہیں، اپنی کام یابی اور ناکامی کا ذمہ دار خود کو سمجھتے ہیں۔ ان دوستوں میں وقت گزارتے ہیں جو انہیں منزل کے قریب کر رہے ہوں، جن کے مقاصد بالکل واضح ہوتے ہیں اور جو سرمایہ کاری کرتے ہیں، زندگی میں بھرپور کام یابی حاصل کر لیتے ہیں۔

    اب آپ پانچوں سوالات کے حاصل کردہ نمبر لکھیں۔ دیکھیں کہ سو میں سے کتنے نمبر حاصل کیے ہیں۔ اگر جواب تسلی بخش ہیں تو آپ کو بہت بہت مبارک ہو۔ اگر ایسا نہیں ہے تو کوئی بات نہیں۔ زندگی ابھی ختم نہیں ہوئی ہے۔

    جب جاگو تب سویرا۔ جب احساس ہوگا، زندگی بدلنا شروع ہوجائے گی۔

    (محمد زبیر شکریہ، پرورش اور تربیت کے مصنّف، لائف کوچ اور نامور یوٹیوبر ہیں جن کی یہ تحریر مقصدِ حیات اور اس کا حصول کے عنوان سے ان کے مضامین کے ایک مجموعے میں شامل ہے)

  • شکر گزاری اور خوشی میں فرق

    شکر گزاری اور خوشی میں فرق

    خوشی کیا ہے؟

    اس موضوع پر ہزاروں برس سے گفتگو ہو رہی ہے اور ہر دور میں اس پر بہت کچھ لکھا گیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کتنے ہی لکھنے والے خوشی کے موضوع پر کئی کئی صفحات کے مضامین لکھنے اور کئی گھنٹے بات کرنے کے باوجود یہ بتانے میں ناکام ہوجاتے ہیں کہ خوشی کیا ہے۔

    وہ یہ تو بتاتے ہیں کہ خوش کیسے رہا جائے لیکن خوشی کی وضاحت نہیں کرتے۔ میں نے خوشی کے متعلق سیکڑوں کتابیں اور مضامین پڑھنے، بے شمار ویڈیوز دیکھنے اور درجنوں ماہرین سے بات کرنے کے بعد خوشی کی اتنی جامع تعریف جان لی ہے کہ میری زندگی، میرے سوچنے کا انداز بدل گیا ہے۔ ایک چھوٹا سا جملہ میرے ذہن میں اس طرح گردش کرتا ہے کہ روح تک سرشار ہوجاتی ہے۔

    میں چاہوں گا کہ یہ جملہ آپ کی سماعتوں میں بھی رچ بس جائے۔ اس کی گونج ہر وقت سنائی دیتی رہے۔ پوری کتاب پڑھنے اور ہر مشق کے دوران صرف یہ ایک جملہ آپ کا ذہن ذرخیز رکھے گا۔ وہ جملہ کیا ہے:

    Happiness is celebrating the blessings you have.

    موجودہ نعمتوں سے لطف اندوز ہونے کا نام خوشی ہے۔

    خوشی اور شکر گزاری میں واضح فرق ہے۔ شکر گزاری اس بات کا ادراک ہے کہ مجھے جو بھی نعمت ملی ہے اس پر میرا حق نہیں ہے بلکہ عطا ہے۔ جسے انگریزی میں کہتے ہیں کہ not feeling entitled یعنی جو کچھ ملا ہے وہ میرا حق نہیں تھا۔ جب کہ نعمتوں کا ادراک ہونے کے بعد ان سے لطف اندوز ہونے کا نام "خوشی” ہے۔ مثال کے طور پر آپ کے سامنے گرما گرم لذیز کھانا پیش کیا جائے، آپ شکر ادا کریں، لیکن بھرپور طریقے سے لطف اندوز ہونے کے بجائے اِدھر اُدھر کی باتیں کرتے ہوئے یا بے دھیانی میں کھا لیں۔ آپ نعمت ہونے کے باوجود خوش نہیں ہوسکیں گے۔

    یہی کچھ ہم اولاد کے معاملے میں کرتے ہیں۔ یہ مانتے ہیں کہ اولاد اللہ کا انمول تحفہ ہے لیکن ان کی معصوم باتوں، بے ضرر غلطیوں اور حیران کن سوالوں سے لطف اندوز ہونے کے بجائے یا تو نظر انداز کرتے ہیں یا غصہ۔ کسی حد تک ناشکری اور بہت حد تک ناخوشی۔ اور یہ عمل زندگی کے ہر معاملے میں ظاہر ہوتا ہے۔

    قوتِ سماعت اللہ نے دی ہے۔ اس بات کا ادراک شکر گزاری ہے لیکن جو کچھ سن رہے ہیں، رُک کر ان سے لطف اندوز ہونا خوشی ہے۔ اسی طرح زبان اللہ کی نعمت ہے، یہ ماننا شکر گزاری ہے لیکن کچھ بھی کھاتے یا پیتے ہوئے مکمل طور پر اس سے لطف اندوز ہونا خوشی ہے۔ آنکھیں اللہ کی حیرت انگیز نعمت ہیں، یہ احساس شکر گزاری ہے، لیکن ان آنکھوں سے بچوں کو بھاگتے، باتیں کرتے، کھیلتے دیکھ کر لطف اندوز ہونا یا دیگر نعمتوں کو سراہنا خوشی ہے۔

    شکر گزاری ایک درخت کی مانند ہے اور خوشی اس کا پھل ہے۔ ہم درخت کے سائے میں اطمینان محسوس کرتے ہیں، جس کے لیے شعوری احساس ضروری نہیں۔ لیکن اس درخت کے پھل سے لطف اندوز ہوئے بغیر آپ اس درخت سے مکمل یا حقیقی فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔

    خوشی، غم اور سوچ

    ہر انسان کی زندگی میں اچھے تجربات بھی ہوتے ہیں اور برے بھی۔ اگر حقیقت پسندی سے دیکھا جائے تو یہ تجربات اور واقعات اچھے یا برے نہیں ہوتے، نیوٹرل ہوتے ہیں۔ ہماری سوچ کا انداز انہیں مثبت یا منفی بناتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر ہمارے کسی عزیز کا انتقال ہوجائے تو ہم غم زدہ ہوجاتے ہیں، کئی کئی دن سوگ میں رہتے ہیں، جب بھی اپنے پیاروں کو یاد کرتے ہیں، دل بھر آتا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ کسی کے مرنے پر رونا ایک فطری بات ہے۔ اگر ہم یہ سمجھتے ہیں تو غلط سمجھتے ہیں۔ دنیا میں ایسے متعدد قبائل ہیں جہاں انتقال پر رونے کے بجائے جشن منایا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر راجستھان میں ستیا نامی خانہ بدوشوں کے ایک خاندان میں جب کوئی مرتا ہے تو خوشیاں منائی جاتی ہیں، نئے کپڑے پہنے جاتے ہیں، مٹھائیاں اور شراب تقسیم کی جاتی ہے، یہی نہیں خوب ناچ گانا بھی ہوتا ہے۔

    دنیا میں کچھ قبائل اس لیے بھی خوش ہوتے ہیں کہ مرنے والے کا ایک درجہ بلند ہوگیا اور وہ اپنے خالق سے مل گیا ہے۔ اسی طرح کچھ لوگ اس لیے خوش ہوتے ہیں کہ جو ہوتا ہے، اس میں اللہ کی مصلحت ہوتی ہے لہٰذا االلہ کی رضا میں راضی رہتے ہیں۔ اس طرح کی سوچ رکھنے والے کوئی بھی واقعہ یاد کر کے افسردہ اور پریشان ہونے کے بجائے، خوش ہوتے ہیں۔

    یہ معاملہ صرف موت تک ہی محدود نہیں، جہاں کچھ لوگ کاروبار میں نقصان ہونے کی صورت میں خودکشی کرلیتے ہیں تو کچھ ایک مرتبہ پھر جوش و جذبے کے ساتھ کھڑے ہوجاتے ہیں اور پہلے سے سے زیادہ کامیابیاں حاصل کرلیتے ہیں۔

    اسی طرح کچھ لوگ ایک یا چند ناکامیوں کے وجہ سے خود پر ناکامی کا لیبل لگا لیتے ہیں اور تمام عمر انہیں اپنی پہچان سمجھ کر ناکام زندگی گزارتے ہیں۔ اس کے برعکس بہت سے لوگ ہر ناکامی کے بعد ایک مرتبہ پھر نئے جوش و جذبے کے ساتھ کامیابی کی امید لے کر خوشی خوشی سفر شروع کر دیتے ہیں۔

    اس تمام گفتگوکا مقصد یہ ہے کہ کسی بھی واقعے پر افسردہ، پریشان، پُرامید یا خوش ہونے کا دارومدار اس بات پر ہوتا ہے کہ ہم کس طرح سوچنے کے عادی ہیں۔ اللہ پر بھروسہ رکھنے اور اپنے تمام مسائل میں درست طرزِ فکر رکھنے والے ہی مشکلات پر باآسانی قابو پاسکتے ہیں۔ ان لوگوں کی خاص بات یہ ہوتی ہے کہ ماضی کے واقعات یاد کر کے اپنا حال اور مستقبل خراب نہیں کرتے۔

    آج آپ ماضی کے وہ واقعات یاد کریں جو ہمیشہ ہی آپ کے لیے اذیت کا باعث بنتے رہے ہیں۔ ہر ہر واقعے کے لیے اللہ کا شکر ادا کیجیے کہ اگر یہ واقعات رونما نہ ہوتے تو آپ نہ تو انسانی کمزوریوں کو سمجھ پاتے اور نہ ہی اللہ سے تعلق مضبوط کر پاتے۔

    (محمد زبیر شکریہ، پرورش اور تربیت کے مصنف، لائف کوچ اور نامور یوٹیوبر ہیں)