Tag: محمد سلیم الرحمن

  • ایک شہنشاہ ایسا، جس کا انت نہ کوئی

    ایک شہنشاہ ایسا، جس کا انت نہ کوئی

    ایک روز شہنشاہ گھوڑے پر سوار شہر میں وارد ہوا تو وہاں ہر سڑک کے کنارے، دائیں بائیں، لوگوں کے ٹھٹ کے ٹھٹ لگے ہوئے تھے جو شہنشاہ کے دیدار کے آرزو مند تھے۔

    وہ اس کے گھوڑے کو بھی، جھلک بھر، دیکھنے کے تمنائی تھے۔ بہت سے لوگ بالکل ہی آگے گویا پہلی صف میں کھڑے تھے لیکن ان سے کہیں زیادہ لوگ دوسری، تیسری اور چوتھی صفوں میں ایستادہ تھے اور رہے وہ لوگ جو چوتھی صف کے پیچھے تھے، انھیں تو صف بستہ قرار دینا ہی خارج از بحث تھا۔

    چنانچہ یہ ہوا کہ ایک بہت بڑی تعداد میں لوگ، درشن کو، نہ صرف پنجوں کے بل کھڑے ہو گئے، نہیں بلکہ انہوں نے اپنی گردنیں بھی اچکائیں، اس قدر، بے تحاشہ اچکائیں کہ شہنشاہ ان کے پاس سے گزر کر اندھیرے میں غائب بھی ہو گیا اور ان کی گردنیں زندگی بھر کے لیے اسی طرح کھنچی کی کھنچی رہ گئیں۔

    لہٰذا اگر کبھی کسی لمبی گردن والے شخص سے ملنے کا اتفاق ہو تو ہمیں چاہیے کہ اسے نہ تو حقارت کی نظر سے دیکھیں، نہ حیران ہو کر گھوریں۔ وہ انھی لوگوں میں سے کسی کا پوتا پڑ پوتا ہے جن پر شہنشاہ کو دیکھنے کا انوکھا جنون سوار تھا جو بعد ازاں بالکل ہی ناپید ہو گیا اور جس کا محرم ہونا اب ممکن نہیں رہا۔

    (عالمی ادب سے انتخاب، مترجم محمد سلیم الرّحمٰن)

  • باصلاحیت ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا!

    باصلاحیت ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا!

    ایک نوجوان امریکی، جون کینیڈی ٹول نے A Confederacy of Dunces کے نام سے ناول لکھا۔ اس کا خیال تھا کہ وہ ایک بہت اچھا ناول لکھنے میں کام یاب ہو گیا ہے۔ اس نے چار پانچ بڑے ناشروں سے رجوع کیا۔ ہر جگہ اس کے ناول کو مسترد کر دیا گیا۔ بددل ہو کر اس نے خودکشی کر لی۔

    اس کی ماں کو بہت صدمہ پہنچا۔ اتفاق سے برس ہا برس بعد کسی محفل میں اس کی ملاقات معروف ادیب واکر پرسی سے ہوئی۔ ماں نے شکوہ کیا کہ ناشر بڑے ادب ناشناس اور بے لحاظ ہیں۔ میرے بیٹے نے بڑا اچھا ناول لکھا تھا۔ ہر جگہ اس کے ناول کو مسترد کر دیا گیا۔ ناکامی کی تاب نہ لا کر اس نے خودکشی کر لی۔

    واکر پرسی نے یہ سن کر، دل رکھنے کے لیے، کہا کہ مسودہ مجھے بھجوا دیں۔ میں پڑھ کر دیکھتا ہوں۔ جب واکر پرسی نے مسودہ پڑھا تو اسے اندازہ ہوا کہ بڑی عمدہ تحریر ہے۔ اس نے اپنے ناشر سے کہا کہ یہ ناول قابلِ اشاعت ہے۔ ناشر اپنے مدیروں کے مقابلے میں اپنے کام یاب مصنّفوں کی سفارش کو زیادہ معتبر سمجھتے ہیں۔ ناول شائع کر دیا گیا اور صرف شائع نہیں ہوا بلکہ امریکا کے سب سے اہم ادبی انعام پلٹزر پرائز کا مستحق بھی گردانا گیا۔ لیکن اس سے بیچارے مصنّف کو کیا ملا؟

    یہ کوئی واحد مثال نہیں۔ ادب اور فن کے میدان میں بڑے بڑے فن کاروں کے ساتھ یہی سلوک ہوا۔فان گوخ، جس کی تصویریں اب کروڑوں میں بکتی ہیں، مفلسی میں فوت ہوا۔ موتزارٹ کے پائے کا موسیقار مغرب میں کوئی کوئی ہو گا۔ وہ بھی مفلوک الحال مرا۔

    یہاں ایک لطیفہ یاد آیا۔ ڈورس لیسنگ نے ادب کا نوبیل انعام ملنے کے بعد اپنا نیا ناول کسی فرضی مصنّف کے نام سے اپنے ناشر کو بھجوا دیا۔ ناشر نے یا اس کے مدیروں نے بلا تامل اسے مسترد کر دیا۔

    ایملی ڈکنسن کا اب سربرآوردہ امریکی شاعروں میں شمار کیا جاتا ہے۔ زندگی میں اس کی کوئی قدر نہ ہوئی۔ شاید چھ یا سات نظمیں شائع ہوئیں۔ مدیر اس کی نظموں کو سمجھ ہی نہ سکے۔ سوچا کہ یہ تو مفہوم ٹھیک سے ادا کرنے پر بھی قادر نہیں۔ اوقات نگاری بھی بے ڈھنگی ہے۔ انہوں نے نظموں کو اپنی دانست میں ٹھیک کر کے مگر پوری طرح بگاڑ کر چھاپا۔ نظموں کی درگت بنتے دیکھ کر وہ چھپنے چھپانے سے تائب ہو گئی۔ ایک قصبے میں عزلت گزیں ہو کر پوری زندگی گزار دی۔

    وفات کے بعد اس کے جاننے والوں نے اس کی نظمیں، جن کی تعداد تقریباً اٹھارہ سو تھی، چھپوا دیں۔ ان کی بھی سمجھ میں نہ آیا کہ نظموں میں جو اندازِ بیان اختیار کیا گیا ہے اس کی معنویت کیا ہے۔ چنانچہ انہوں نے بھی، اپنی سمجھ کے مطابق، نظموں کو ٹھیک ٹھاک کر کے چھاپا۔ دوسرے لفظوں میں نظموں کی انفرادیت کو ملیا میٹ کر دیا۔ ایملی ڈکنسن کے صحیح ادبی مقام کا تعین کہیں بیسویں صدی میں جا کر ہوا۔ اپنے وقت سے پہلے پیدا ہونے کی سزا مل کر رہتی ہے۔

    قصہ مختصر یہ کہ باصلاحیت ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ عین ممکن ہے کہ آپ کو قدر دان ہی نصیب نہ ہوں۔ بعض ادیب اور شاعر اپنی زندگی میں مشہور ہو جاتے ہیں۔ بعد میں ان کا کوئی نام بھی نہیں لیتا۔ بعضوں کو جیتے جی کوئی داد نہیں ملتی۔ بعد میں ان کا بڑا چرچا ہوتا ہے۔

    یوں کہیے کہ فن ایک دریا ہے۔ بعض لوگ کسی نہ کسی طرح تیر کر دوسرے کنارے پر جا پہنچتے ہیں۔ وہاں ان کو خوش آمدید کہا جاتا ہے یا نظر انداز کر دیا جاتا ہے، کون جانے۔ اور جو ڈوب جاتے ہیں وہ بھی کہیں نہ کہیں پہنچ ہی جاتے ہوں گے۔

    (محمد سلیم الرحمٰن کی تحریر سے اقتباس)

  • فاکنر اور امریکی روح کی پنہاں کشمکش

    فاکنر اور امریکی روح کی پنہاں کشمکش

    فاکنر کا فن امریکی ادب کی ٹیڑھی کھیر ہے۔ فاکنر کو پڑھنا اور سمجھنا دونوں محنت طلب کام ہیں۔

    یہی وجہ ہے کہ 1946ء میں فاکنر کی ایک بھی کتاب ناشروں سے دست یاب نہ ہو سکتی تھی۔ اگر فرانسیسی اوّل اوّل اس کا جوہر نہ پہچانتے اور بعد ازاں اسے نوبل انعام نہ ملتا تو شاید آج بھی اس کی تصنیفات عام طور پر دست یاب نہ ہوتیں اور ہیرمین میلول کی طرح وہ بھی گمنامی کی زندگی بسر کرتا، حالاں کہ فاکنر ہیمنگوے سے کہیں زیادہ امریکی ہے اور اس کی اچھی تحریروں سے ریاست ہائے متحدہ امریکا کے جنوبی علاقے کی مٹی کی مہک صاف آتی ہے، لیکن اس کی مشکل پسندی اور اضطراب نے اسے مقبول نہ ہونے دیا۔ اُس کے بجائے ہیمنگوے امریکی ادب کا بین الاقوامی نمائندہ قرار پایا۔

    مندرجہ بالا سطور محمد سلیم الرّحمٰن کے مضمون سے نقل کی گئی ہیں جو انھوں نے امریکا کے نام وَر ادیب اور ناول نگار ولیم فاکنر پر لکھا تھا۔

    1897ء میں‌ پیدا ہونے والے ولیم فاکنر نے 1962ء میں‌ سانس لینے کی مشقت سے نجات پائی۔ اس نے قلم اور اپنے تخیل سے ادب نگری کو مالا مال کر دیا، اس کی ناول نگاری اور مختصر کہانیوں کے علاوہ شاعر اور مضمون نویس کے طور پر پہچان بنائی۔ اسے ادبی جینیئس کہا جاتا ہے جو بعد میں نوبیل انعام کا مستحق قرار پایا۔

    محمد سلیم الرحمٰن نے اپنے ایک مضمون میں اس امریکی تخلیق کار کے بارے میں لکھا:

    "فاکنر نے اپنے ناولوں اور افسانوں میں دراصل یہ دکھایا ہے کہ خانہ جنگی ابھی ختم نہیں ہوئی، اسی شد و مد سے جاری ہے۔ صرف پیکار کی سطحیں بدل گئی ہیں اور یہ کہ امریکی سرزمین پر کالوں کا وجود اور ان کے ساتھ بدسلوکیاں، جو مسیحی تعلیمات کے صریحاً منافی ہیں، پھانسوں کی طرح ہیں جو سفید فام باشندوں کے ضمیر میں کھٹکتی رہتی ہیں اور شاید ضمیر تو نام ہی ایسی چیز کا ہے جس میں کچھ نہ کچھ پھانس کی طرح کھٹکتا رہے۔

    فاکنر ان فن کاروں میں نہیں جو کسی نقطہ نظر کو زندگی پر مسلط کر دیتے ہیں۔ اس کا وژن تو ایک جہان ہے، جس میں جنگل اور دریا اور جانوروں کی صورت میں فطرت بھی موجود ہے، شکاری بھی ہیں۔ جانوروں کے بھی، کالوں کے بھی اور اپنے ضمیر کے شکار بھی، اور جہاں زندگی، ہومر کے پیر مردِ بحری کی طرح، شکلیں بدل کر سامنے آتی رہتی ہے، یہاں تک کہ اس کی بدلتی ہوئی شکلوں میں ہمیں اپنے سوالوں کے جوابوں کی جھلکیاں نظر آنے لگتی ہیں۔

    فاکنر کو پڑھے بغیر امریکی روح کی پنہاں کشمکش کے بارے میں رائے قائم کر لینا ایسا ہی ہے جیسے ساحل پر کھڑے ہو کر سمندر کی گہرائی کا اندازہ لگانا۔”