Tag: محمد طفیل

  • محمد طفیل: ’’نقوش‘‘ کی ادارت سے خاکہ نگاری تک

    محمد طفیل: ’’نقوش‘‘ کی ادارت سے خاکہ نگاری تک

    ایک زمانہ تھا جب اردو میں ادبی جرائد بڑی تعداد میں اشاعت کے ساتھ بہت اہمیت رکھتے تھے اور محمد طفیل اس دنیا کی ایک بلند قامت شخصیت تھے۔ ’’نقوش‘‘ محمد طفیل کی بحیثیت مدیر اوّلین شناخت بنا جو ایک مقبول ترین ادبی جریدہ تھا۔ بعد میں محمد طفیل ایک قلم کار اور خاکہ نگار کی حیثیت سے بھی پہچانے گئے۔ ان کے تحریر کردہ اداریے بھی بہت پسند کیے جاتے تھے۔ نقوش کے خاص نمبرز ادبی صحافت میں‌ محمد طفیل کا امتیاز اور ان کی محنت و لگن کی مثال ہیں۔

    5 جولائی 1986ء کو محمد طفیل یہ دنیا چھوڑ گئے تھے۔ انھوں نے ادبی پرچے کی اشاعت کو کسی ایک موضوع پر خصوصی نمبر کا نام دے کر اس طرح انفرادیت بخشی کہ اس کی مثال نہیں ملتی۔ 1951ء میں مدیر کی حیثیت سے نقوش کا اجراء کرنے والے محمد طفیل 1981ء تک ہر برس دو برس بعد خصوصی شمارہ سامنے لاتے رہے جو اردو ادب کی تاریخ کا حصّہ بن گئے۔ ادبی جریدہ نقوش کا اجراء محمد طفیل نے مارچ 1948ء میں کیا تھا، لیکن ادارت کی ذمہ داری بعد میں سنبھالی۔ وہ ایک کام یاب ادبی پرچے کے مالک اور مدیر ہی نہیں تھے بلکہ اردو زبان و ادب کو اپنی تحریروں سے بھی سجایا ہے۔ حکومتِ پاکستان نے محمد طفیل کو ستارۂ امتیاز عطا کیا تھا۔

    ممتاز فکشن نگار انتظار حسین لکھتے ہیں: "مدیر کی حثییت سے طفیل مرحوم کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے ایک ادبی رسالہ کو ادبی قارئین کے دائرے سے نکال کر ہر خاص و عام کی پسند کی چیز بنا دیا اور یہ یقیناً ادب کی بہت بڑی خدمت ہے۔”

    پروفیسر مرزا محمد منور نے محمد طفیل کے بارے میں لکھا: "محمد طفیل صاحب نے تن تنہا جتنی اردو کی خدمت کی ہے شاید ہی کسی فردِ واحد کے زیرِ انتظام کسی ادارے نے کی ہو۔”

    بحیثیت مدیر اداریہ نویسی سے محمد طفیل نے لکھنے کا سلسلہ شروع کیا اور اس عرصہ میں جہاں مشاہیر اور قارئین کے خطوط کے جوابات دیے وہیں ادبی تذکرے، یادیں اور مختلف موضوعات پر مضامین بھی لکھنے لگے۔ محمد طفیل کی علمی و ادبی شخصیات سے خط کتابت کا سلسلہ ایک عام بات تھی، لیکن اس میں مدیر کے نام آنے والے مشاہیر کے خطوط جو ایک طرف اپنے طرزِ نگارش کا شاہ کار تھے اور دوسری جانب ان کی بڑی علمی و ادبی اہمیت اور افادیت تھی، انھیں بھی یکجا کر کے کتابی شکل دے دی جس سے آج بھی ہمیں اپنے دور کے مشاہیر اور معروف اہلِ قلم کے خیالات اور حالات جاننے کا موقع ملتا ہے۔

    محمد طفیل نے 14 اگست 1923ء کو لاہور میں آنکھ کھولی۔ تعلیم و تربیت کے مراحل طے کرتے ہوئے انھوں نے مشہور خطّاط تاج الدین زرّیں رقم سے خوش نویسی سیکھی اور اس سے اندازہ ہوتا ہے انھیں شروع ہی سے علم و فنون سے شغف رہا تھا۔ 1944ء میں محمد طفیل نے ادارۂ فروغِ اردو کے نام سے ایک طباعتی ادارہ قائم کیا اور 1948ء میں ماہ نامہ نقوش کا اجرا کیا۔ یہ جریدہ لاہور سے شایع ہوتا تھا جس کے اوّلین مدیر احمد ندیم قاسمی تھے۔ نقوش ہر لحاظ سے معیاری اور معاصر جرائد میں ایک اہم جریدہ تھا۔ اس میں اپنے وقت کے بلند پایہ اور نام وَر شعرا اور نثّار کی تخلیقات شایع ہوتی تھیں اور نقوش کے قارئین ملک بھر میں موجود تھے۔

    مدیر کی حیثیت سے محمد طفیل نے نقوش کے کئی خاص نمبر شایع کیے۔ انھوں نے اس جریدہ کے غزل و افسانہ پر خصوصی شماروں کے علاوہ شخصیات نمبر، خطوط نمبر، آپ بیتی، طنز و مزاح نمبر شایع کیے۔ منٹو، میر، غالب، اقبال، انیس جیسی نابغۂ روزگار شخصیات اور ان کے فن کا احاطہ کرتے شمارے اور مختلف ادبی موضوعات پر خصوصی شمارے یادگار ثابت ہوئے۔ یہ سلسلہ پاک و ہند میں پسند کیا گیا جس کی نظیر اس سے پہلے نہیں‌ ملتی۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ محمد طفیل نے جب غالب نمبر کے لیے مرزا غالب ہی کے ہاتھ کا لکھا ہوا مسودہ اپنے جریدے نقوش کی زینت بنایا تو اردو دنیا میں تہلکہ مچ گیا اور بھارت میں‌ بھی یہ کہا گیا کہ اگر یہ مسودہ بھارت میں دریافت ہوا ہے تو پاکستان کیسے پہنچا اور کس طرح پاکستان کے ایک مدیر نے اسے شائع بھی کر دیا۔

    محمد طفیل کے شخصی خاکوں کے متعدد مجموعے بعنوان صاحب، جناب، آپ، محترم، مکرّم، معظّم، محبّی اور مخدومی شائع ہوئے۔ ان کی ایک خود نوشت بھی بعد از مرگ بعنوان ناچیز شایع کی گئی تھی۔ محمد طفیل لاہور میں میانی صاحب کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • ’’نقوش‘‘ کے مدیر محمد طفیل کا تذکرہ

    ’’نقوش‘‘ کے مدیر محمد طفیل کا تذکرہ

    ’’نقوش‘‘ محمد طفیل کی اوّلین شناخت ہے اور بعد میں وہ اردو ادب میں ایک خاکہ نگار کی حیثیت سے پہچانے گئے۔ تصنیف و تالیف، اداریہ نویسی اور معروف جریدہ نقوش کے خاص نمبر کا اجراء ادبی صحافت میں‌ محمد طفیل کا امتیاز ہیں۔ آج محمد طفیل کی برسی ہے۔

    ادبی جریدہ نقوش کا اجراء محمد طفیل نے مارچ 1948ء میں کیا اور بعد میں اس کی ادارت بھی سنبھالی۔ وہ ایک کام یاب ادبی پرچے کے مالک اور اس کے مدیر ہی نہیں تھے بلکہ وہ اردو زبان و ادب کی خدمت کرنے والوں میں سے ایک تھے جنھیں بطور مصنّف بھی اہلِ قلم اور باذوق قارئین نے پسند کیا۔ حکومتِ پاکستان نے محمد طفیل کو ستارۂ امتیاز عطا کیا تھا۔

    ممتاز فکشن نگار انتظار حسین لکھتے ہیں: "مدیر کی حثییت سے طفیل مرحوم کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے ایک ادبی رسالہ کو ادبی قارئین کے دائرے سے نکال کر ہر خاص و عام کی پسند کی چیز بنا دیا اور یہ یقیناً ادب کی بہت بڑی خدمت ہے۔”

    پروفیسر مرزا محمد منور نے محمد طفیل کے بارے میں لکھا: "محمد طفیل صاحب نے تن تنہا جتنی اردو کی خدمت کی ہے شاید ہی کسی فردِ واحد کے زیرِ انتظام کسی ادارے نے کی ہو۔”

    5 جولائی 1986ء کو محمد طفیل وفات پاگئے تھے۔ نقوش کی ادارت سنبھالنے کے بعد اداریہ نویسی سے محمد طفیل کی تحریروں کا سلسلہ شروع ہوا اور بعد کے برسوں‌ میں وہ ادبی تذکرے اور مضامین رقم کرنے لگے اور اسی سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے انھوں نے شخصی خاکے بھی لکھنا شروع کردیے۔ محمد طفیل کی علمی و ادبی شخصیات سے خط کتابت کا سلسلہ ایک عام بات تھی، لیکن اس میں مدیر کے نام آنے والے مشاہیر کے خطوط جو ایک طرف اپنے طرزِ نگارش کا شاہ کار تھے اور دوسری جانب ان کی بڑی علمی و ادبی اہمیت اور افادیت تھی، انھیں بھی یکجا کرکے کتابی شکل دے دی جس سے آج بھی ہمیں اپنے دور کے مشاہیر اور معروف اہلِ قلم کے خیالات اور حالات جاننے کا موقع ملتا ہے۔

    14 اگست 1923ء کو محمد طفیل نے لاہور میں آنکھ کھولی تھی۔ محمد طفیل نے مشہور و نام ور خطّاط تاج الدین زرّیں رقم سے خوش نویسی سیکھی جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ شروع ہی سے علم و فنون سے شغف رکھتے تھے۔ 1944ء میں محمد طفیل نے ادارۂ فروغِ اردو کے نام سے ایک طباعتی ادارہ قائم کیا اور 1948ء میں ماہ نامہ نقوش کا اجرا کیا۔ یہ جریدہ لاہور سے شایع ہوتا تھا جس کے اوّلین مدیر احمد ندیم قاسمی تھے، لیکن بعد میں یہ ذمہ داری خود محمد طفیل نے نبھائی۔ نقوش ہر لحاظ سے معیاری اور معاصر جرائد میں ایک مقبول جریدہ تھا۔ اس میں اپنے وقت کے بلند پایہ اور نام وَر شعرا اور نثّار کی تخلیقات شایع ہوتی تھیں اور نقوش کے قارئین ملک بھر میں موجود تھے۔

    مدیر کی حیثیت سے محمد طفیل نے نقوش کے کئی خاص نمبر شایع کیے۔ انھوں نے اس جریدہ کے غزل و افسانہ پر خصوصی شماروں کے علاوہ شخصیات نمبر، خطوط نمبر، آپ بیتی، طنز و مزاح نمبر شایع کیے۔ منٹو، میر، غالب، اقبال، انیس جیسی نابغۂ روزگار شخصیات اور ان کے فن کا احاطہ کرتے شمارے اور مختلف ادبی موضوعات پر خصوصی شمارے یادگار ثابت ہوئے۔ یہ سلسلہ پاک و ہند میں پسند کیا گیا جس کی نظیر اس سے پہلے نہیں‌ ملتی۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ محمد طفیل نے جب غالب نمبر کے لیے مرزا غالب ہی کے ہاتھ کا لکھا ہوا مسودہ اپنے جریدے نقوش کی زینت بنایا تو اردو دنیا میں تہلکہ مچ گیا اور بھارت میں‌ بھی یہ کہا گیا کہ اگر یہ مسودہ بھارت میں دریافت ہوا ہے تو پاکستان کیسے پہنچا اور کس طرح پاکستان کے ایک مدیر نے اسے شائع بھی کر دیا۔

    ان کے شخصی خاکوں کے متعدد مجموعے صاحب، جناب، آپ، محترم، مکرّم، معظّم، محبّی اور مخدومی کے نام سے شائع ہوئے۔ محمد طفیل کی ایک خود نوشت بھی بعد از مرگ بعنوان ناچیز شایع ہوئی تھی جب کہ نقوش نے بانی مدیر محمد طفیل پر خاص شمارہ جاری کیا تھا۔ محمد طفیل میانی صاحب کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • اگر، مگر اور لیکن…(منٹو کا ‘خط’)

    اگر، مگر اور لیکن…(منٹو کا ‘خط’)

    برادرم! السلام علیکم

    مجھے یہاں آئے ہوئے ساڑھے تین مہینے گزر چکے ہیں، لیکن میں تمہیں خیریت کا خط تک نہ لکھ سکا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ ماحول میرے لئے نیا تھا۔ بہرحال اس ماحول سے یقیناً بہتر ہے جس میں، مَیں نے 42 برس تک جھک ماری تھی۔

    وہاں جب تک رہا، سولی پر لٹکتا رہا۔ جب سے یہاں آیا ہوں، نہ صفیہ نے مجھ سے کوئی فرمائش کی ہے اور نہ ہی نگہت، نزہت اور نصرت میں سے کسی نے، ورنہ اکثر یہ ہوتا تھا:
    ابا فلاں چیز لا دو ، فلاں چیز لا دو۔

    تمہیں تو علم ہے کہ مجھے اپنی بچیوں سے بے انتہا محبت تھی۔ یہی وجہ ہے کہ جب ان کی فرمائش اپنی تنگدستی کی بنا پر پوری نہ کر پاتا تھا تو خون کے آنسو رویا کرتا تھا۔ حتی کہ بعض منحوس سال ایسے بھی آئے تھے کہ بچی کی سالگرہ تھی اور جیب میں پھوٹی کوڑی نہیں۔ ایسے ماحول میں، مَیں کب تک رہ سکتا تھا؟ قدرت تو مجھے ایسے انسان کش ماحول میں اور رکھنا چاہتی تھی۔ لیکن میں نے خود ایسے وسائل اختیار کر لئے تھے کہ آپ کے جہنم زار سے نکلنے میں کامیاب ہو گیا۔

    میں جب تک وہاں رہا، آپ لوگوں ہی کے غموں میں گھلتا رہا۔ نہ صرف گھلتا رہا بلکہ آہستہ آہستہ معدوم ہی ہو رہا تھا۔ میں بھی تمہارے دکھوں اور غموں کو اس لئے رقم کر آیا ہوں تاکہ آنے والی نسلیں تم سب کو مظلوم کی حیثیت سے یاد رکھ سکیں۔

    میں یہاں ہر وقت یہی دعا کیا کرتا ہوں کہ یہ زندگی میرے تمام ہمعصر افسانہ نگاروں کو جلد نصیب ہو۔ اس لیے کہ وہاں پر رہ کر میں نے جیسی ان کی زندگی بسر ہوتے دیکھی تھی، وہ تو مجھ سے بھی بدتر تھی۔ جب مجھی کو وہاں سے آنا پڑا تو نہ جانے وہ کیوں ٹکے ہوئے ہیں؟ آپ کے تمام لکھنے والوں سے تعلقات ہیں، جو لاہور میں موجود ہیں۔ ان سے زبانی کہہ دیں، جو لاہور سے باہر ہیں، انہیں بذریعہ خط مطلع کر دیں کہ وہ سب کے سب بیوی بچوں سمیت میرے پاس آ جائیں۔ میں نے یہاں تمام ابتدائی معاملات طے کر لئے ہیں۔ اس لئے کسی کو کوئی تکلیف نہ ہوگی۔

    زمانے نے نہ میری قدر کی اور نہ دوسرے اہلِ قلم کی۔ تمہیں علم ہے؟ اگر ہم لوگ تمہارے ہاں نہ ہوتے تو سوائے علم، ادب اور آرٹ کے، سب کچھ ہوتا۔ یہاں جو بھی پہنچ گیا ہے، مزے میں ہے۔ اکثر قلم کاروں سے ملاقات رہتی ہے۔ سب میری ہی طرح پھولے بیٹھے ہیں۔ بعض نے تو تمہارے نمائش آباد کی شان میں ایسی ایسی ہجویات سپردِ قلم کی ہیں کہ جب تک کلیجہ کو دونوں ہاتھوں سے نہ تھام لیا جائے سنی ہی نہیں جا سکتیں۔ اگر وہ چھپ گئیں تو تمہارے ہاں کے بعض سر پھرے سرِ بازار پٹیں گے۔ بہرحال ہجویات کا وہ مجموعہ جب بھی شائع ہوا ، تمہیں اس کا ایک نسخہ ضرور بھیجوں گا۔ نقوش میں اس کا تبصرہ کر دینا۔

    تمہارے ہاں کے ادیب اور تمہارے پڑوسی ملک کے ادیب اپنے اپنے نا خداؤں سے جو بڑی خوشگوار قسم کی امیدیں وابستہ کیے بیٹھے ہیں، وہ سراسر حماقت ہے۔ ان خوشگوار قسم کی امیدوں کے پیٹ میں تو صرف بہن خوش فہمی لمبی تانے سو رہی ہے۔ تمہارے ہاں کی سیاست تو بڑی دھڑن تختہ قسم کی ہے۔ آج کوئی وزیر ہے تو کل جیل میں ہے۔ اگر کوئی چند دن پہلے جیل میں تھا اور ساتھ ہی غدارِ وطن بھی، تو آناً فاناً وزیر ہو جاتا ہے۔ یہاں پر میرے احباب جب تمہارے ہاں کی سیاست کے بارے میں گفتگو کرتے ہیں تو یقین جاننا میں مارے شرم کے پانی پانی ہو جاتا ہوں۔

    تمہیں علم ہے کہ مجھ پر آپ کے ہاں پانچ مقدمے صرف فحاشی کے جرم میں چلے تھے۔ حالانکہ میں نے کوئی فحش تحریر نہیں لکھی تھی۔ اس ضمن میں مجھ پر کیا کیا ستم نہیں ڈھائے گئے تھے۔ کبھی وارنٹ نکلے، کبھی گرفتار ہوا، کبھی دوستوں سے ادھار مانگ کر جرمانہ ادا کیا۔ اس کے باوجود میں نے "انصاف زندہ باد” کا نعرہ لگایا تھا۔ اگر میں کچھ دن اور وہاں رہ جاتا تو بہت ممکن تھا، مجھ پر قتل، ڈاکہ زنی، اور زنا بالجبر کے جھوٹے مقدمے بنا دیے جاتے۔ جہاں ناکردہ گناہوں کی سزا ملتی ہو، وہاں کون مسخرہ رہے۔

    اگر حکومت کے عتاب سے بچ جائیں تو نقاد پیچھا نہیں چھوڑتے۔ تم تو جانتے ہی ہو کہ میں ساری عمر نقادوں سے دور بھاگا ہوں۔ یہ بھی صحیح ہے کہ بعض نقاد بھی مجھ سے دور بھاگتے ہیں۔ اصل میں یہ لوگ وہ ہیں جو بگڑے ہوئے افسانہ نویس اور بگڑے ہوئے شاعر ہوتے ہیں یہ لوگ جب تخلیق کی قوت سے محروم ہوتے ہیں، تو تنقید میں علامہ بن جاتے ہیں۔ مجھے ان سب سے خدا واسطے کا بیر رہا ہے۔ اس لئے کہ جب یہ قلم ہاتھ میں لے کر بیٹھتے ہیں تو اچھی بھلی چیز میں سو سو عیب نکالتے ہیں۔ لیکن ان حضرات کو اپنی تحریر کے عیوب کا کچھ پتہ نہیں ہوتا۔ خدا کے لئے مجھے ان بے تحاشا لکھے پڑھوں سے بچانا۔ ایسا نہ ہو کہ میرے موجود نہ ہونے کی وجہ سے وہ اپنے اپنے قلم کو تیز کر لیں اور میرے فن کی دوشیزگی کا جھٹکا کر دیں۔
    آج ادب جبھی ترقی کرے گا کہ جو نقاد کہے۔ اس کا الٹا کیا جائے، نقادوں کا منشا بھی یہی ہوتا ہے، لیکن اسے میرے سوا سمجھا کوئی نہیں ہے۔

    کاش مجھے یہاں کوئی نقاد مل جائے تاکہ میں اس سے تنقیدی بحث کر سکوں۔ تنقیدی بحث کرتے ہوئے اگر کسی نے ان تینوں لفظوں کا صحیح استعمال کر لیا تو سمجھ لیجئے بازی لے گیا۔ وہ تین الفاظ یہ ہیں: اگر، مگر اور لیکن۔

    جب تک نقاد تخلیق کی قوتوں سے مالا مال نہ ہوں گے۔ ان کی تحریروں میں نہ توازن پیدا ہوگا اور نہ واقعیت کے ساتھ خلوص۔ جب فن کار کے دل کے ساتھ نقاد کا بھی دل دھڑکے گا تو پھر جو کچھ لکھا جائے گا، اس پر ایمان لانا ہی پڑے گا۔

    یہاں شرابِ طہور عام ہے، پانی نہ پیجئے۔ شرابِ طہور نوش کر لیجئے۔ تمہارے ہاں تو بڑی تھرڈ کلاس قسم کی شراب ملتی تھی اور اس جگر پاش شراب کے لئے بھی مجھے کیا کیا جتن نہیں کرنے پڑتے تھے۔ بعض اوقات اس نامراد کے لئے ذلیل تک ہوا، دوستوں میں میری عزت نہ رہی۔ جدھر جاتا تھا، احباب منہ موڑ لیتے تھے۔ راستہ تک چھوڑ کر انجان بن جاتے تھے۔ اگر کسی سے مڈبھیڑ ہو جاتی تو وہ میرے منہ پر جھوٹی قسمیں کھا کھا کر کہتا تھا کہ میری جیب میں دھیلا تک نہیں ہے۔ حالانکہ میں جانتا تھا کہ اس کی جیب میں دھیلا چھوڑ اتنے روپے ہیں کہ وہ مجھے اس خانہ خراب کی کئی بوتلیں خرید کر دے سکتا ہے۔ میں نے شراب کو خانہ خراب اس لئے کہا ہے کہ اس کی بنا پر کئی بار خانہ میں خرابی پید اہوئی تھی۔

    ایک بڑی خطرناک مگر راز کی بات کہتا ہوں، اس کا ذکر کسی سے نہ کرنا، ورنہ پٹو گے، یہاں جتنی لڑکیاں ہیں وہ سب ہزاروں برس پرانی ہیں۔ لیکن ان کمبختوں کا جسم اور بانکپن تقدس توڑ ہے۔ اس مسئلہ پر تم سے بات کرنا قطعی حماقت ہے۔ اس لئے کہ تم اس مسئلے میں نرے چغد واقع ہوئے ہو۔ تمہاری چغدیت کا احترام کرنے کے باوجود میں یہ کہوں گا کہ ان سب میں ایسی پروقار کشش اور سپردگی سی پائی جاتی ہے کہ تمہارے ہاں کی لڑکیاں ان کے سامنے بالکل بکواس ہیں۔
    یہاں ایسے ایسے جمال آور لڑکے بھی ہیں کہ تمہارے ہاں کا کوئی شاعر اور ادیب دیکھ لے تو اس کمبخت کے بے ہوش ہونے کے قطعی امکانات موجود ہیں۔ بہت ممکن ہے کہ جانبر ہی نہ ہوسکے۔

    میں ساری عمر ادبی تخلیقات کے سلسلے میں اپنے ہم عصروں سے شرمندہ نہیں ہوا تھا۔ اس لئے بھی کہ میرے مقابلہ ہی کا کون تھا؟ لیکن یہاں آیا تو غالب نے بڑا پریشان کیا، بڑا پھبتی باز ہے۔ کہنے لگا: تُو تو میرا چور ہے۔ میرے شعروں سے تو نے اپنے افسانوں کے عنوان چنے۔ کتابوں کے نام تک جب نہ سوجھے تو میرے شعروں کو دھر رگڑا اور محسن کشی ایسی کی کہ میرے بارے میں جو فلمی کہانی لکھی، اس میں بجائے میری شکر گزاری کے اظہار کے میری کسی خوبی کا ذکر تک نہیں کیا۔ بلکہ الٹی میری کمزوریاں گنوا کے رکھ دیں کہ میں بڑا وہ تھا، عورت باز تھا، جوا کھیلتا تھا، اور اس کی پاداش میں جیل تک ہو گئی تھی۔ وغیرہ وغیرہ

    تمہیں علم ہے کہ میں تمام لکھنے والوں میں صرف غالب ہی کو تو مانتا تھا۔ جب اس نے بھی مجھ سے ایسی ایسی باتیں کیں تو میں نے دل میں کہا: لعنت ہو سعادت حسن منٹو تمہاری حقیقت نگاری پر۔ لیکن غالب ہے بڑا زندہ دل قسم کا انسان، میری اتنی زیادتی کے باوجود گاڑھی چھنتی ہے۔ ہم اکثر ایک ساتھ پیتے ہیں، اور پیتے ہی میں جب ہم حقیقت آشنا ہو جاتے ہیں اور ہماری انا بیدار ہوتی ہے تو غالب کہتا ہے: میں تم سے بڑا افسانہ نگار ہو سکتا تھا۔ لیکن میں نے اسے فضول چیز سمجھ کر ہاتھ ہی نہیں لگایا تھا۔

    اور میں اس سے کہتا ہوں: شعر کہنا کون سا کمال ہے مرزا صاحب، میری تو نثر کی ہر ہر سطر میں ایک شعر کیا پوری غزل کی غزل پنہاں ہوتی ہے۔

    بات دونوں کی غلط ہے، اس کا علم اسے بھی ہے اور مجھے بھی۔ لیکن ہم اپنی اپنی انا کا کیا کریں۔

    چچا سام کا دبدبہ تو تمہارے ہاں دن دونی رات چوگنی ترقی کر رہا ہے، مبارک ہو!

    بڑوں کی عزت ضرور کرنی چاہئے۔ لیکن سعادت مندی کے معنی یہ بالکل نہیں ہیں کہ تم اپنی ننھی سی جان بھی خطرے میں ڈال دو۔ میں نے یہ خبر بد بھی سنی ہے کہ اب تو تمہارے ہاں کا سارا کا سارا کام وہی کرتے ہیں۔ اور تم سب الوؤں کی طرح ہاتھ پر ہاتھ رکھے اندھیرے کے منتظر ہو۔ اتنی تن آسانی اچھی نہیں، ورنہ پچھتاؤ گے۔ حتی کہ تم لوگوں نے اپنی خودداری تک کو قفل لگا کے الماریوں میں رکھ دیا ہے۔

    مصیبت یہ ہے کہ میں یہاں سے چچا سام کے نام کوئی خط نہیں لکھ سکتا۔ ورنہ میں اس سے اپنی حدود میں رہنے کی درخواست ضرور کرتا۔ دعا کرو کہ وہ خود ہی میرے پاس جلد سے جلد آجائیں تاکہ تمہاری جان چھوٹے، میں تو ان سے نمٹ ہی لوں گا۔ فراڈ کو فراڈ ہی پچھاڑ سکتا ہے۔

    میں نے یہ بھی سنا ہے کہ جب سے یہاں آیا ہوں، تمہارے ہاں میرا بڑا سوگ منایا گیا۔ خدا کی قسم، یہ سنتے ہی میرا دل کباب ہو گیا۔ اس لئے کہ جب تک میں وہاں رہا، سب نے مل جل کر مجھے اپنے ہاں سے دور کرنا چاہا۔ جب یہاں کچھ دوسروں کی اور کچھ اپنی مرضی سے آ گیا ہوں۔ تو ریڈیو پر اس ناچیز کی گمشدگی کے اعلانات کیوں کیے جاتے ہیں۔ یہ وہی ریڈیو والے ہیں جو مجھے اپنے ہاں ناک تک صاف نہیں کرنے دیتے تھے۔ رسالے اور اخبارات بھی میرے روپوش ہونے پر خصوصی ماتم کیوں کر رہے ہیں؟ ان کا بھی میرے ساتھ یوسف کے بھائیوں جیسا سلوک تھا۔ ان حالات میں تمہیں اپنے اس منافقانہ رویہ پر شرم آنی چاہئے۔

    یہاں میرے کچھ قدر دان پیدا ہو گئے ہیں۔ اور پچھلے دنوں انہوں نے میرے ذمہ یہ کام کیا تھا کہ میں یہاں کے بارے میں اپنی سہ ماہی رپورٹ پیش کروں۔ یہ فریضہ میرے سپرد اس لئے ہوا تھا کہ ان کے خیال کے مطابق مجھ جیسا حقیقت نگار یہاں کوئی نہیں ہے۔ میں نے اپنی عادت کے مطابق سب کچھ لکھ دیا ہے۔ اس میں اپنے ایک دوست کی خوب ڈٹ کر مخالفت بھی کی ہے۔ اور اس کا جو معاشقہ اندر ہی اندر چل رہا تھا، اس کا بھی کچا چٹھا لکھ دیا ہے۔

    حتی کہ میں نے رپورٹ میں یہ بھی لکھ دیا ہے کہ یہاں جو داڑھی نہ منڈوانے کا دستور ہے وہ بعض نستعلیق قسم کی طبیعتوں پر گراں گزرتا ہے۔ اس لئے اس کی اجازت ہونی چاہئے کہ جس کا دل چاہے داڑھی رکھے جس کا دل نہ چاہے نہ رکھے۔

    اتنے بڑے حاکم کے سامنے اتنا کہہ دینا اور کسی قسم کی جھجک محسوس نہ کرنا، خالہ جی کا گھر نہ تھا، تمہارے ہاں ایسی کوئی کھری بات کہہ دیتا تو میری زبان گدی سے نکلوا دی جاتی۔

    اطلاعاً عرض ہے۔ یہاں میری کتاب "گنجے فرشتے” کافی پسند کی گئی ہے۔ ہو سکے تو میری بیوی بچّوں کا خیال رکھنا۔

    خاکسار
    سعادت حسن منٹو
    20/اپریل 1955ء

    (منٹو کی وفات کے تین ماہ بعد اردو کے مشہور جریدے نقوش کے منٹو نمبر میں محمد طفیل نے منٹو کا فرضی خط بنام مدیر نقوش شایع کیا تھا)

  • "من موہنی” جس کا جادو سارے ہندوستان پر چل گیا!

    "من موہنی” جس کا جادو سارے ہندوستان پر چل گیا!

    اردو کے صاحب طرزِ طرز ادیب، ماہرِ موسیقی، مترجم اور رسالہ ساقی کے مدیر شاہد احمد دہلوی اردو زبان کے ایک آشفتہ و فریفتہ اور ادب کے شیدائی تھے۔ دلّی کے یہ باکمال ہجرت کر کے پاکستان آگئے تھے۔ کئی مضامین اور شخصی خاکے ان کے دل آویز طرزِ‌ نگارش اور نثرِ لطیف کی یادگار ہیں۔

    یہ انہی شاہد احمد دہلوی کے ایک مکتوب سے ماخوذ پارہ ہے جو اردو زبان سے ان کی محبّت کی خوب صورت مثال تو ہے ہی، مگر اس کا پس منظر جاننا ضروری ہے۔ یہ ایک ہم عصر شخصیت سے زبان کے معاملہ پر شاہد احمد دہلوی کا اختلاف ہے جس میں ان کی تلخ و ترش باتوں پر اردو زبان کی مٹھاس غالب آگئی ہے۔ مشہور ادبی رسالہ ’’نقوش‘‘ کے مدیر محمد طفیل نے اپنے اداریہ میں اردو زبان کے ایک نہایت اہم مسئلے پر اظہارِ خیال کیا تھا۔ شاہد دہلوی نے اُس اداریہ کے جواب میں انھیں خط میں لکھا:

    جی ہاں، اردو بڑی اچھی اور بڑی پیاری زبان ہے اور بڑی نرالی زبان ہے۔ کیوں کہ اردو بولنے والے مردوں کی زبان اور ہے، اور عورتوں کی زبان اور بھی…. اپنی جگہ پر ترقی یافتہ ہے۔ اور اتنی وسیع کہ مولانا سید احمد، صاحب فرہنگ آصفیہ، عورتوں کے محاوروں کی ایک جامع لغات ’’لغات النساء‘‘ کے نام سے لکھ گئے ہیں۔

    دنیا کی شاید ہی کوئی ترقی یافتہ زبان ایسی ہو کہ اس میں مردوں اور عورتوں کی زبانیں الگ الگ ہوں۔ عورتوں کی زبان میں اگر شاعری دیکھنی ہو تو ریختیاں ملاحظہ فرمائیے۔ ان کے مضامین شاید ثقہ طبیعتوں پر ناگوار گزریں تو گزریں، زبان کا چٹخارہ یقیناً مزہ دے جائے گا۔

    دنیا کی دوسری بڑی زبانوں کی طرح اردو بھی مقامی بولیوں اور دوسری زبانوں کو اپنے اندر جذب کرتی چلی آ رہی ہے۔ اس کا تو خمیر ہی زبانوں اور بولیوں کے آمیز ے سے اٹھا ہے۔ چھوت چھات کی یہ نہ تو پہلے کبھی قائل تھی اور نہ اب ہے۔ زندہ زبانیں چھوت چھات کو نہیں مانتیں اور نہ اچھوت رہنا پسند کرتی ہیں۔ ان کا تال میل سب سے ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے اردو ہرجائی بھی ہے، حریص بھی ہے، جس کی جو چیز پسند آتی ہے لے کر اپنے اندر جذب کر لیتی ہے، کبھی پرائی چیز کو جوں کا تو رہنے دیتی ہے اور کبھی اس کی شکل ہی بدل ڈالتی ہے۔ یہ عادت بھی اس نے اپنی ترقی پذیر بہنوں سے سیکھی ہے۔ جبھی تو من موہنی بن گئی اور اس کا جادو سارے ہندوستان پر چل گیا تھا۔

    بھلا جس نے عوام میں جنم لیا ہو، سرکاروں، درباروں میں قدم رکھا ہو، بادشاہوں کی منہ چڑھی رہی ہو، اس کی بڑھوتری کیسے رک سکتی تھی؟ ککڑی کی بیل کی طرح بڑھتی ہی چلی گئی اور ہندوستان کی سرحدوں کو پھلانگ کر دوسرے براعظموں پر بھی چولائی کی طرح پھیلنے لگی۔ اب دنیا میں آپ جہاں چاہے چلے جائیں، اردو بولنے والے آپ کو مل ہی جائیں گے۔ اور صاحب، غضب کی ڈھیٹ زبان ہے، بڑی سخت جان، ہمسایہ ملک میں اردو کو نہ صرف اچھوت بنایا جارہا ہے، بلکہ اسے قتل کرنے کے سامان کیے جا رہے ہیں، مگر یہ ہے کہ ڈٹی ہوئی ہے اور برابر بڑھتی ہی جا رہی ہے۔ عجب بلا ہے کہ یونانی صنمیات کے ہائیڈرا کی طرح اگر اس کا سر قلم کیا جاتا ہے تو ایک کے بدلے دو سَر نکل آتے ہیں۔ اردو کسی کے مارے نہیں مر سکتی۔ یہ تو یونہی نئے نئے میدان مارتی چلی جائے گی۔”

  • محمد طفیل کا تذکرہ جن کی مساعی سے’’نقوش‘‘ ہر خاص و عام میں‌ مقبول ہوا

    محمد طفیل کا تذکرہ جن کی مساعی سے’’نقوش‘‘ ہر خاص و عام میں‌ مقبول ہوا

    ’’نقوش‘‘ وہ ادبی جریدہ تھا جس کا اجرا محمد طفیل نے مارچ 1948ء میں کیا اور کئی برس بعد اس کی ادارت بھی سنبھالی اور اس جریدے کے متعدد شاہکار نمبر نکالے۔‌ محمد طفیل ایک کام یاب رسالے کے مالک اور مدیر ہی نہیں تھے بلکہ انھوں نے مصنّف اور خاکہ نگار کی حیثیت سے بھی جہانِ ادب میں‌ پہچان بنائی۔ حکومتِ پاکستان نے محمد طفیل کو ستارۂ امتیاز عطا کیا تھا۔

    ممتاز فکشن نگار انتظار حسین لکھتے ہیں: "مدیر کی حثییت سے طفیل مرحوم کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے ایک ادبی رسالہ کو ادبی قارئین کے دائرے سے نکال کر ہر خاص و عام کی پسند کی چیز بنا دیا اور یہ یقیناً ادب کی بہت بڑی خدمت ہے۔”

    محمد طفیل کے بارے میں‌ پروفیسر مرزا محمد منور لکھتے ہیں: "محمد طفیل صاحب نے تن تنہا جتنی اردو کی خدمت کی ہے شاید ہی کسی فردِ واحد کے زیرِ انتظام کسی ادارے نے کی ہو۔”

    ’’نقوش‘‘ کے مدیر محمد طفیل 5 جولائی 1986ء کو وفات پاگئے تھے۔ اداریہ نویسی کرتے ہوئے محمد طفیل ادبی تذکرے، مضامین اور خاکہ نگاری کی طرف متوجہ ہوئے اور علمی و ادبی شخصیات سے ان کی خط کتابت کا سلسلہ بھی شروع ہوا جو بہت اہمیت کے حامل ہیں، یہ نامے اور جوابی مکتوب اردو ادب میں ایک تاریخ اور سند کی حیثیت رکھتے ہیں جن سے اپنے وقت کے بلند قامت اور نام وَر مصنّفین اور ادیبوں‌ کے خیالات اور حالات جاننے کا موقع ملتا ہے۔

    محمد طفیل 14 اگست 1923ء کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے استاد اور نام وَر خطّاط تاج الدین زرّیں رقم سے خوش نویسی کی تربیت حاصل کی۔ 1944ء میں محمد طفیل نے ادارۂ فروغِ اردو کے نام سے ایک طباعتی ادارہ قائم کیا اور 1948ء میں ماہ نامہ نقوش کا اجرا کیا۔ یہ جریدہ لاہور سے شایع ہوتا تھا جس کے اوّلین مدیر احمد ندیم قاسمی تھے جب کہ بعد میں یہ ذمہ داری خود محمد طفیل نے سنبھال لی۔

    ان کی ادارت میں نقوش کا کام یابی سے اشاعت کا سلسلہ جاری رہا اور یہ ہر لحاظ سے معیاری اور معاصر جرائد میں مقبول جریدہ ثابت ہوا۔ اس میں اپنے وقت کے بلند پایہ اور نام وَر شعرا اور نثّار کی تخلیقات شایع ہوتی تھیں اور ملک بھر میں‌ نقوش کے قارئین بڑی تعداد میں‌ موجود تھے۔

    نقوش کے تحت غزل و افسانہ پر خصوصی شماروں کے علاوہ شخصیات نمبر، خطوط نمبر، آپ بیتی، طنز و مزاح نمبر شایع ہوئے جب کہ منٹو، میر، غالب، اقبال، انیس جیسی نابغہ روزگار شخصیات کی تخلیقات اور تذکروں پر مبنی شمارے اور مختلف ادبی موضوعات پر خصوصی اجرا شامل ہیں۔ یہ سلسلہ پاک و ہند میں پسند کیا گیا اور اس کی نظیر اس سے پہلے نہیں‌ ملتی۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ محمد طفیل نے جب غالب نمبر کے لیے مرزا غالب ہی کے ہاتھ کا لکھا ہوا مسودہ اپنے جریدے نقوش کی زینت بنایا تو اردو دنیا میں تہلکہ مچ گیا اور بھارت میں‌ بھی یہ کہا گیا کہ اگر یہ مسودہ بھارت میں دریافت ہوا ہے تو پاکستان کیسے پہنچا اور کیسے پاکستان کے ایک مدیر نے اسے شائع بھی کر دیا۔

    محمد طفیل نے خاکہ نگاری کے متعدد مجموعے صاحب، جناب، آپ، محترم، مکرّم، معظّم، محبّی اور مخدومی کے نام سے شائع کروائے۔ ان کی خود نوشت بعد از مرگ ناچیز کے عنوان سے شایع ہوئی اور رسالہ نقوش نے محمد طفیل نمبر جاری کیا۔ محمد طفیل میانی صاحب کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • ‘نقوش’ کے مدیر اور شخصیت و خاکہ نگار محمد طفیل کی برسی

    ‘نقوش’ کے مدیر اور شخصیت و خاکہ نگار محمد طفیل کی برسی

    معروف ادیب اور مشہور ادبی جریدے ’’نقوش‘‘ کے مدیر محمد طفیل 5 جولائی 1986ء کو وفات پاگئے تھے۔ محمد طفیل خاکہ نگار بھی تھے۔ انھوں‌ نے شخصیت اور تذکرہ نویسی کے علاوہ علمی و ادبی شخصیات سے خط و کتابت کو بھی اہمیت دی اور یہ خطوط اردو ادب میں معتبر و مستند ہیں۔ بابائے اردو مولوی عبدالحق نے انھیں محمد نقوش کا خطاب دیا تھا۔

    محمد طفیل 14 اگست 1923ء کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے اپنے وقت کے استاد اور نام وَر خطّاط تاج الدین زرّیں رقم سے خوش نویسی کی تربیت حاصل کی تھی۔ 1944ء میں انھوں نے ادارۂ فروغِ اردو کے نام سے ایک طباعتی ادارہ قائم کیا اور 1948ء میں ایک ماہ نامہ نقوش کا اجرا کیا۔ لاہور سے شایع ہونے والے اس جریدے کے 18 شماروں کی اشاعت کے بعد محمد طفیل نے اس کی ادارت کی ذمہ داری خود سنبھال لی۔

    ان کی ادارت میں نقوش کام یابی سے طباعت اور اشاعت کے مراحل طے کرتے ہوئے ہر لحاظ سے معیاری اور ممتاز جریدہ ثابت ہوا جس میں اپنے وقت کے بلند پایہ اور نام ور شعرا اور نثّار کی تخلیقات شایع ہوئیں۔

    نقوش کے تحت غزل و افسانہ پر خصوصی شماروں کے علاوہ شخصیات نمبر، خطوط نمبر، آپ بیتی، طنز و مزاح نمبر شایع ہوئے جب کہ منٹو، میر، غالب، اقبال، انیس جیسی نابغہ روزگار شخصیات کی تخلیقات اور تذکروں پر مبنی شمارے اور مختلف ادبی موضوعات پر خصوصی اجرا شامل ہیں۔

    محمد طفیل خاکہ نگار بھی تھے، ان کے خاکوں‌ کے مجموعے صاحب، جناب، آپ، محترم، مکرّم، معظّم، محبّی اور مخدومی کے نام سے شائع ہوئے۔ ان کی خود نوشت بعد از وفات ناچیز کے عنوان سے نقوش کے محمد طفیل نمبر میں شایع کی گئی۔

    محمد طفیل کو حکومتِ پاکستان نے ستارۂ امتیاز عطا کیا تھا۔ وہ میانی صاحب لاہور میں آسودۂ خاک ہوئے۔