Tag: محمد عثمان جامعی

  • مزدوروں کا دن (افسانچہ)

    مزدوروں کا دن (افسانچہ)

    ڈور بیل کی کرخت آواز نے اسے گہری نیند سے جگا دیا۔

    آج وہ اپنے وسیع پُرتعیش فلیٹ میں اکیلا تھا۔ خراب موڈ کے ساتھ دروازہ کھولا۔ سامنے خاکروب کھڑا تھا۔

    "صاب! کچرا”

    "یار چھٹی کے دن تو سونے دیا کرو” ٹھوکر مار کر ڈسٹ بن دروازے سے باہر کرتے ہوئے اس نے برہمی سے کہا۔

    "آج کون سی چھٹی ہے سر؟”

    "آج مزدوروں کا دن ہے اسٹوپڈ”

    دروازہ دھڑ سے بند کر کے وہ ٹوٹی نیند سے جڑنے بیڈ پر آ گرا۔ اور خاکروب نے اپنے میل بھرے کھردرے ہاتھ کی انگشتِ شہادت اگلے فلیٹ کی ڈور بیل پر رکھ دی۔

    (معروف ادیب، ناول نگار اور شاعر محمد عثمان جامعی کے قلم سے)

  • باتوں کے بھوت…

    باتوں کے بھوت…

    نجانے وہ لوگ کہاں بستے ہیں جن کے بارے میں احمد فراز نے کہا تھا ؎

    کیا ایسے کم سخن سے کوئی گفت گو کرے
    جو مستقل سکوت سے دل کو لہو کرے

    ہمیں تو اپنے ارد گرد وہ لوگ ہی نظر آتے ہیں جنھیں سخن سے دل کو لہو اور سماعت کو لہولہان کرنے کا شوق ہے۔ ہمارے ہاں باتیں کرنا ایک باقاعدہ مشغلہ اور رواج ہے۔ لوگ ایک دوسرے کو ”گپ شپ“ اور ”کچہری کرنے“ کی دعوت دیتے ہیں اور یہ ”دعوتِ گفتگو“ گھنٹوں پر محیط ہوتی ہے۔

    ہمارے ہاں بات چیت کا آغاز ہی نہایت بے تکے پن سے کیا جاتا ہے، لہٰذا دوران گفتگو دانائی اور معقولیت کی توقع رکھنا فضول ہے۔ بات چیت کی ابتدا عموماً دو بھلے چنگے اور ہنستے مسکراتے افراد اس سوال سے کرتے ہیں:

    ”اور بھئی ٹھیک ٹھاک“ یا ”خیریت سے ہو۔“ اس کے بعد لایعنی سوالات اور بے معنی گفتگو کا سلسلہ دراز ہوتا چلا جاتا ہے۔

    مغرب میں دو اجنبیوں میں گفتگو کی شروعات عموماً موسم کے تذکرے سے ہوتی ہے۔ مگر ہمارے یہاں جب دو ناآشنا ملتے ہیں تو خالصتاً ذاتی نوعیت کے سوالوں سے بات شروع کی جاتی ہے۔ مثلاً اپنے کاروبار کے مالک اور خاصے متمول یا نو دلتیے، بھائی اچھن اور ایک فیکٹری میں ملازمت کرنے والے شبّو میاں پہلی بار ایک شادی کی تقریب میں ملے ہیں، جہاں وہ دونوں محض اس لیے ایک دوسرے سے گویا ہونے پر مجبور ہوگئے کہ کوئی تیسرا انھیں لفٹ نہیں کرا رہا۔

    بھائی اچھن (گاڑی کی چابی گھُماتے ہوئے): ”آپ کی کیا مصروفیات ہیں؟“

    شبو میاں: ”مصروفیات تو بڑے لوگوں کی ہوتی ہیں۔ ہم جیسے لوگ تو نوکری ہی میں مصروف رہ کر زندگی گزار دیتے ہیں۔“

    بھائی اچھن:”کہاں نوکری کرتے ہیں“

    شبو میاں: ”ایک فیکٹری میں۔“

    بھائی اچھن: ”فیکٹریوں میں تو تنخواہیں بہت کم ہیں۔ گزارہ ہو جاتا ہے؟“

    شبو میاں: ”بڑی مشکل سے“

    بھائی اچھن: ”تو اپنا کاروبار کیوں نہیں کر لیتے؟“

    اس سوال پر شبو میاں کے چہرے کا رنگ متغیر ہوجاتا ہے اور کئی مغلظات ان کے گلے تک آکر بہ مشکل واپس جاتی ہیں۔ وہ بھائی اچھن کے پاس سے اٹھنے کی کوشش کرتے ہیں، مگر بھائی اچھن اس شکار کو اتنی آسانی سے چھوڑنے والے نہیں۔ وہ شبو میاں کے سامنے مشوروں کا انبار لگادیتے ہیں، جن میں مختلف کاروبار کرنے کی تجاویز شامل ہیں۔

    میاں اچھن کی طرح کے کردار ہمارے یہاں عام ”دست یاب“ ہیں۔ یہ خواتین و حضرات کی وہ قسم ہے جسے دوسروں کو مشورے دینے کا جنون ہوتا ہے۔ یہ ہر وقت بے تاب رہتے ہیں کہ کسی طرح دوسروں کے مسائل جان لیں، تاکہ انھیں حل کرنے کے لیے کوئی نادر و نایاب مشورہ دیا جاسکے۔ بلکہ ان کی خواہش ہوتی ہے کہ لوگوں کو مسائل میں مبتلا دیکھیں اور ان مسائل کا حل تجویز کریں۔ اس مقصد کو بروئے کار لانے کے لیے یہ لوگ دوسروں کے دل و دماغ، یہاں تک کہ کپڑوں میں جھانکنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ اگر آپ کہیں ان کے سامنے کھانس دیے تو یہ ذراسی دیر میں آپ کے لیے لاتعداد حکیمی، ہومیوپیتھک اور ایلوپیتھک ادویات تجویز کر دیں گے۔ ادھر آپ نے ان کے روبرو اپنی مالی پریشانی کا تذکرہ کیا اور ادھر یہ کسی ماہر معاشیات کی طرح آپ کی معیشت سدھارنے کے فارمولے پیش کرنے لگے۔ ان خواتین و حضرات کے بارے میں ہم آج تک یہ طے نہیں کرسکے ہیں کہ یہ صرف باتوں کے لیے مشوروں کی پٹاری کھول دیتے ہیں یا مشورے دینے کے لیے گفت گو فرماتے ہیں!

    (شاعر، ناول نگار، سینئر صحافی اور مزاح نگار محمد عثمان جامعی کے قلم سے)

  • حکومت ”قومی گالی“ کا بھی تعین کر ہی دے!

    حکومت ”قومی گالی“ کا بھی تعین کر ہی دے!

    گرامر کی طرح گالی کے بھی کچھ قواعد و ضوابط ہیں۔

    اگرچہ یہ قواعد و ضوابط بعض ممالک کے دساتیر کی طرح غیر تحریری ہیں، مگر ان کا احترام کچھ ریاستوں کے تحریری آئین کے مندرجات سے زیادہ کیا جاتا ہے۔ اس طرح کئی ملکوں میں گالی آئین سے کہیں زیادہ معتبر حیثیت رکھتی ہے۔ جہاں تک پاکستان میں رائج قواعدِ دشنام کا تعلق ہے تو ہمارے یہاں تین قسم کی گالیاں مروج ہیں۔

    1- موٹی سی گالی
    2- چھوٹی سی گالی
    3- جھوٹی سی گالی

    اور ان گالیوں کی مزید کئی قسمیں ہیں۔ ویسے ہماری سمجھ میں نہیں یہ آتا کہ گالی کو خلافِ اخلاق اور بدتہذیبی کی علامت کیوں سمجھا جاتا ہے؟ آخر گالی میں ایسی کون سی بات ہے جسے اخلاقیات کے ضابطوں سے روگردانی قرار دیا جائے؟ ہمارے سوالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے ذرا مروجہ گالیوں کے عناصر ترکیبی پر غور کیجیے!………. آپ کو ان گالیوں میں فقط وہ لوازمات ملیں گے جن کے بغیر ہماری زندگی نامکمل ہے۔ مثلاً بنیادی انسانی رشتے، ضروری جسمانی اعضا اور ناگزیر افعال۔ ان لوازمات کو مناسب ترتیب دینے سے گالی وجود میں آجاتی ہے۔ ان عناصر کے ”ظہورِ ترتیب“ پر ناک بھوؤں چڑھانا اور انھیں اجزائے پریشاں کی صورت میں دیکھ اور سُن کر کوئی اعتراض نہ کرنا………آپ ہی بتائیے، یہ کہاں کا انصاف ہے؟

    ہم تو سمجھتے ہیں کہ تہذیب و ثقافت، رسم و رواج، علوم و فنون اور آثارِ قدیمہ کی طرح کسی قوم کی گالیاں بھی اس کی پہچان ہوا کرتی ہیں۔ کیا اچھا ہو کہ حکومتِ پاکستان ہمارا ”فلسفۂ مغلظات“ تسلیم کرتے ہوئے گالیوں کو بھی قومی ورثہ قرار دے دے۔ قومی پھول، قومی کھیل اور قومی جانور کی طرح ”قومی گالی“ کا بھی تعین کر دیا جائے۔ قومی گالی کے تعین کے سلسلے میں کراچی اور پنجاب کے درمیان چشمک ہوسکتی ہے۔ مشاعروں اور ادبی نشستوں کی طرح ملک بھی میں ”گالی بازی“ پر نشستیں منعقد ہوں، جن میں ”گالی باز“ یا دشنام طراز اپنی نئی نئی گالیاں پیش کرکے داد حاصل کریں۔ گالیوں پر تنقیدی نشستیں ہوں، جن میں نقاد گالیوں کے بارے میں اپنی آراء کا اظہار کریں اور تنقیدی نظریات کی روشنی میں یہ ثابت کریں کہ کون سی گالی سماج کی آئینہ دار ہو کر ترقی پسندی کے رجحان کا پتا دے رہی ہے، کس میں علامتی انداز اختیار کیا گیا ہے۔ کون سی گالی فطری ہے اور کون سی غیر فطری۔ کس دشنام طراز کی تخلیق شعور کی لہر کا نتیجہ ہے اور کس گالی باز کی کاوش منفرد لب و لہجہ رکھتی ہے۔ ہمارے خیال میں یہ اپنی نوعیت کی واحد تنقیدی نشستیں ہوں گی، جن میں نقّاد تنقید سے پہلے گالیاں سنیں گے!

    پاکستانی گالیوں کے عالمی سطح پر فروغ کے لیے ملک میں اور بیرون ملک پاکستانی گالیوں کی نمائشیں بھی منعقد کی جاسکتی ہیں۔ ان نمائشوں میں قدیم اردو شعرا کی ہجویات سے لے کر دورِ حاضر کے سیاست دانوں کی مغلظات تک پھیلے ہمارے عظیم ”دشنامی ورثے“ کو ”سُن“ کر غیرملکیوں کو اندازہ ہوجائے گا کہ ہم کوئی ”ایویں“ قوم نہیں بلکہ گالیوں کی ایک طویل روایت سے جڑے ہوئے ہیں۔

    اگر حکومت نے ہمارا پیش کردہ ”فلسفۂ مغلظات“ اپنا لیا اور اسے عملی شکل دے دی تو یقین مانیے ہماری کرخت گالیاں راتوں رات ہمارا وہ ”سوفٹ امیج“ بنا دیں گی، جس کے لیے حکومت ایک مدت سے کوشاں ہے۔

    (معروف مزاح نگار، شاعر اور صحافی محمد عثمان جامعی کی ایک شگفتہ تحریر، یہ مزاح پارے مصنّف کی کتاب "کہے بغیر” سے مقتبس ہیں)

  • راہ و رسمِ شہبازی!

    راہ و رسمِ شہبازی!

    گو پرواز کے لیے کسی اور پر انحصار راہ و رسمِ شہبازی کے خلاف ہے، مگر شہباز…. شریف ہو تو طیارے پر سفر کرتا ہے۔

    اب ظاہر ہے شہباز کی طرح طیارہ شکاری کی دسترس سے بچنے کے لیے پہاڑوں پر تو نہیں اُتر سکتا، وہ تو ہوائی اڈے ہی پر اُترے گا۔ ویسے ہمارے خیال میں طیاروں میں بھی تھوڑا بہت شعور ضرور ہوتا ہے۔ جب موسم خراب ہو اور بادِ تند مخالف چل رہی ہو تو انھیں لاکھ پانی پر چڑھایا جائے کہ میاں، ”یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اُڑانے کے لیے“ لیکن وہ ہل کے نہیں دیتے، بلکہ سُنا ہے بعض تو صاف صاف کہہ دیتے ہیں، ”کیا ہمیں شاہین سمجھا ہے؟“

    طیاروں کے مزاج آشنا حضرات کے مطابق ان میں شعور ہی نہیں بڑا گہرا سیاسی شعور بھی ہوتا ہے، جب ہی عوام اور سیاسی جماعتیں تو آمروں کو گوارا کر لیتی ہیں، مگر ان سے برداشت نہیں ہوتا اور یہ پھٹ پڑتے ہیں۔ اس سے ہمارا یہ مطلب قطعی نہیں کہ شہباز میں شعور کی کمی ہے۔ ہرگز نہیں، بل کہ ہمارے نزدیک شہباز…. شریف ہو تو زیادہ عقل مندی کا مظاہرہ کرتا ہے اور جھپٹنے کی بجائے اُلٹ پلٹ کر ہی لہو گرم کر لیتا ہے۔ یہ اس کی دانائی ہی تو ہے کہ قفس سے نکلنے کے راستے بنا لیتا ہے، یعنی؎ جہاں سے چاہیں گے رستہ وہیں سے نکلے گا۔

    اب یہ الگ بات ہے کہ یہ راستہ جانے کا تو ہو سکتا ہے، آنے کا نہیں۔ علامہ اقبال کے دور تک شہباز کا نشیمن صرف زاغوں کے تصرف ہی میں ہوا کرتا تھا، لیکن علامہ کی شاعری کے مطالعے نے دیگر چرند پرند میں بھی شوقِ تصرف جگا دیا۔ لہٰذا اب پرندے تو پرندے، مقدس گائے اور اللہ میاں کی گائے کے بھی چیونٹی کی طرح پر نکل آئے۔ وہ اڑیں اور دھپ کر کے نشیمن میں جا بیٹھیں۔ مقدس گائے کیوں کہ مرکَھنے بیل کی صفات رکھتی ہے، اسی لیے شہباز کو نشیمن اور شیر کو کچھار چھوڑنے پر مجبور کر دیتی ہے۔

    دوسری طرف اللہ میاں کی گائے چاہے جسامت کے اعتبار سے بیل نما ہو ”ذات بکری کی“ ہی ہوتی ہے۔ اس کا کام صرف اتنا ہوتا ہے کہ دیگر حیوانات کو مقدس گائے کی ناگزیریت کا احساس دِلانے کے لیے کہتی رہے ؎

    رب کا شکر ادا کر بھائی جس نے تیری گائے بنائی

    خیر ہم مقدس گائے نہیں شہباز کا تذکرہ کر رہے تھے۔ شہباز اپنی صفات کی وجہ سے جہاں علامہ اقبال کو پسند تھا، وہیں علامہ کی نسبت سے ہمیں اور ہماری طرح دیگر کروڑوں پاکستانیوں کو بھی بھاتا ہے، بس بعض حضرات کو اس کا اونچا اڑنا پسند نہیں۔ جہاں اس نے اونچا اڑنے کی کوشش کی، وہیں اسے، ”نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر“ کہہ کر پہاڑوں کی طرف روانہ کر دیا جاتا ہے۔ اصولاً تو قرب مکانی کی بناء پر اسے قبائلی علاقوں کے کوہساروں یا کارگل کی چوٹی پر بھیجاجانا چاہیے، مگر ان مقامات پر ہوا کے دباؤ یا مخالف ہواؤں کی وجہ سے جانے والے کی ہوا اُکھڑ جاتی ہے اور وہ جلد ہی واپس آجاتا ہے۔ لہٰذا شہباز کو دور دراز کے پہاڑوں پر بھیجا جاتا ہے۔ چوں کہ شاعر مشرق کے کلام سے اس پرندے کے مسلمان ہونے کا سراغ ملتا ہے، اس لیے سرزمین حجاز اس کی منزل قرار پاتی ہے۔ یوں مصوّرِ پاکستان کے ”مشورے“ کو حکم بنا کر اس کا اطلاق کر دیا جاتا ہے۔

    ویسے تو کبوتر باز سے پتنگ باز تک کوئی باز ہمیں برا نہیں لگتا، مگر شہباز سے ہمیں خاص انسیت ہے، لہٰذا نشیمن چھوٹنے کی وجوہات نظم کر رہے ہیں، تاکہ اگر شہباز کا کوئی مستقبل ہو تو اس میں کام آئیں ؎

    گر نہ جرنیل پہ جرنیل ہٹاتے جاتے
    ان سے اتنے تو مراسم تھے کہ آتے جاتے
    وہ جو سیلون سے آئے تھے تو ویلکم کرتے
    بھائی نادان تھا، تم ناچتے گاتے جاتے
    ان کی ”بھیا“ سے تھی پرخاش تو بھیا جانے
    تم ”میاں“ اپنی طرف سے تو نبھاتے جاتے
    جانے والوں کو کہاں روک سکا ہے کوئی
    سو چلے جاتے مگر کچھ تو بتاتے جاتے
    گر پَسر جاتے ایئرپورٹ پہ دل خوش ہوتا
    اس شرافت سے گئے! کچھ تو ستاتے جاتے

    (معروف مزاح نگار، شاعر اور ادیب محمد عثمان جامعی کی کتاب ‘ کہے بغیر’ سے انتخاب، اس شگفتہ پارے کا پس منظر مشرف دور اور ن لیگ کی قیادت کا بیرونِ ملک قیام ہے)

  • بابائے جمہوریت نواب زادہ نصر ﷲ خان عالمِ بالا میں

    بابائے جمہوریت نواب زادہ نصر ﷲ خان عالمِ بالا میں

    زمینداروں کے شرعی حقوق کے تحفظ کے لیے تنظیم سازی سے لے کر راہ نماﺅں کے اتحاد کی تشکیل تک طویل سیاسی سفر طے کر کے نواب زادہ نصر ﷲ خان اس دُنیا سے چلے گئے تھے، لیکن گذشتہ رات اچانک ہمارے خواب میں آگئے۔

    کیا دیکھتے ہیں کہ نواب زادہ نصر اﷲ خان اپنی مخصوص وضع قطع کے ساتھ حقّہ پیتے عالمِ بالا میں پہنچے اور ڈھونڈتے ڈھانڈتے پاکستانی زعماء کی محفل میں وارد ہوگئے۔ یہاں دیگر کے ساتھ ساتھ آپ کی ملاقات بانیٔ پاکستان اور مصوّرِ پاکستان سے بھی ہوئی، جنھوں نے اپنے تصور و تخلیق کردہ ملک کے بارے میں سوالات کرکے نواب زادہ کو اس مشکل میں ڈال دیا کہ حقائق بتا کر اپنے ان محسنوں کو خون کے آنسو رلائیں یا جھوٹ بولنے کی گستاخی کریں۔ بہرحال زیرک سیاست داں نے بیچ کا راستہ نکال لیا، یوں کہ کچھ بھی نہ کہا اور کہہ بھی گئے، یہ خواب منظر کی صورت نذرِ قارئین ہے۔

    ہم نے دیکھا کہ نواب زادہ نصر اﷲ خان جیسے ہی زعماء کی محفل کے قریب پہنچے، کئی حضرات استقبال کے لیے اُٹھ کھڑے ہوئے اور آوازیں بلند ہوئیں:

    حسین شہید سہروردی، مولانا مودودی، مفتی محمود: آئیے آئیے خوش آمدید بڑی دیر کی مہرباں آتے آتے؟

    جنرل ضیاءُ الحق! آگئے…

    قائدِ اعظمؒ: (علّامہ اقبال سے مخاطب ہو کر) ”کون صاحب ہیں؟“

    علامہ اقبالؒ: ترکی ٹوپی تو بتا رہی ہے کہ ہمارے زمانے کے ہیں اور یہ کہ ترک قطعاً نہیں ہیں… سہروردی کو بلا کر پوچھ لیجیے، وہ جانتے ہوں گے۔

    قائد: کیا سہروردی اب ویزے کے بغیر مجھ سے مل سکتے ہیں؟

    علّامہ اقبال: خوش قسمتی سے آپ دونوں عالمِ ارواح میں ہیں ورنہ یہ ممکن نہ تھا۔

    قائد: مسٹر سہروردی! ذرا یہاں تشریف لائیے (ان کے نزدیک آتے ہی قائد پوچھتے ہیں) کون ہیں یہ نووارد؟ تعارف تو کرائیے؟

    سہروردی: (نواب زادہ کو قائد سے متعارف کراتے ہیں) سر! یہ ہیں نواب زادہ نصر ﷲ خان، جو ووٹ کی طاقت سے بنائے گئے آپ کے پاکستان میں جمہوریت کے قیام کے لیے پچاس سال سے…(کہتے کہتے رک گئے پھر گویا ہوئے) بڑی جدوجہد کرتے رہے ہیں۔

    قائد: تو جمہوریت آئی؟

    نواب زادہ نصر ﷲ: جی… کئی مرتبہ۔

    قائد: کیا مطلب۔

    نواب زادہ: دراصل ہمارے یہاں خوب سے خوب تر کی تلاش میں جمہوریت بار بار نئے سرے سے لائی جاتی ہے، پھر کبھی سوئے دار اور کبھی کوئے یار روانہ کر دی جاتی ہے اور کچھ عرصے بعد سنوار کر پھر لے آیا جاتا ہے۔

    قائد: ان کوششوں کے نتیجے میں جمہوریت مستحکم ہوئی؟

    نواب زادہ: صرف مضبوط ہی نہیں بلکہ موٹی تازی، لحیم شحیم اور دیوہیکل ہوچکی ہے۔

    قائد: (تشویش ناک لہجے میں) اب تو نہیں جائے گی۔

    نواب زادہ: کیسے جائے گی، اس بھاری بھر کم جمہوریت کے لیے چلنا تو کجا اُٹھنا بیٹھنا محال ہے۔

    قائد: تو گویا جمہوریت کے لیے آپ کی جدوجہد کام یاب ہوگئی، یقیناً آپ اور قوم نے میرے دیے ہوئے اصولوں، ایمان، اتحاد اور تنظیم پر عمل کیا ہوگا۔

    نواب زادہ: جی ہاں، بالخصوص اتحاد پر، میری تو ساری عمر گزری ہی اتحاد کی سیاست میں۔

    قائد: اس سیاست کے مثبت نتائج نکلے؟

    نواب زادہ: بالکل! یہاں تک کہ جس حکم راں کے خلاف اتحاد بنایا کچھ عرصے بعد وہ خود میرے ساتھ نئے اتحاد میں شریک تھا۔

    قائد: اور ڈسپلن؟

    نواب زادہ: حضرت! ہماری قوم نے تو ڈسپلن کے زیرِ سایہ ہی زندگی گزاری ہے، ہم بڑے منظم انداز میں لیفٹ رائٹ اور نہایت سرعت کے ساتھ اباﺅٹ ٹرن کر لیتے ہیں۔

    قائد: اور ایمان کا کیا کیا؟

    نواب زادہ: بُرے وقتوں کے لیے بچا رکھا ہے، اس کے سہارے خراب حالات کا مقابلہ کرتے ہیں، پھر سنبھال کر رکھ دیتے ہیں۔

    علّامہ اقبال: یہ تو بتائیے کہ پاکستان کی سلطانیٔ جمہور میں بندے گنے جاتے ہیں یا انھیں تولا جاتا ہے۔

    نواب زادہ: چُنے جاتے ہیں… پھر گنتی پوری کر دی جاتی ہے۔ ویسے اس مرتبہ چُننے کے ساتھ ساتھ تولا بھی گیا ہے۔

    اقبال: نقشِ کُہن مٹے؟

    نواب زادہ: منٹو پارک اب اقبال پارک اور گاندھی گارڈن جناح گارڈن ہوگیا ہے۔

    اقبال: بھئی میں جمہوریت کے حوالے سے پوچھ رہا ہوں؟

    نواب زادہ: کیوں نہیں ہر حکم راں نے مٹائے۔ بعض نے تو اپنے پیش رو کو بھی نقشِ کہن سمجھ کر مٹا دیا۔

    قائد: فوج کا کیا حال ہے۔

    نواب زادہ: جو ماضی میں تھا۔

    قائد: ”ماضی میں جنرل گریسی نے میرا حکم نہیں مانا تھا، اب تو جنرلوں میں تبدیلی آگئی ہوگی۔

    نواب زادہ: الحمدُ للہ اب سارے مسلمان ہیں۔

    اقبال: کیا یہ جنرل شاہین صفت ہیں۔

    نواب زادہ: کسی حد تک، یعنی جھپٹتے تو ضرور ہیں مگر پھر پلٹتے نہیں۔

    قائد: جمہوریت کو کوئی خطرہ تو نہیں؟

    نواب زادہ: (چند لمحے توقف کے بعد رندھی ہوئی آواز میں) نہیں جناب جمہوریت بڑے مضبوط ہاتھوں میں ہے۔

    یہ سُن کر قائد اور اقبال کے چہرے خوشی سے تمتما اٹھے، نواب زادہ پُر نم آنکھیں جھکائے اُٹھ کر کسی طرف چل دیے اور ہمارا خواب ٹوٹ گیا۔

    (معروف ادیب اور شاعر محمد عثمان جامعی کے فکاہیہ مضامین کے مجموعے "کہے بغیر”‌ سے انتخاب)

  • باتوں‌ کے بھوت!

    باتوں‌ کے بھوت!

    نجانے وہ لوگ کہاں بستے ہیں جن کے بارے میں احمد فراز نے کہا تھا:
    کیا ایسے کم سخن سے کوئی گفت گو کرے
    جو مستقل سکوت سے دل کو لہو کرے
    ہمیں تو اپنے ارد گرد وہ لوگ ہی نظر آتے ہیں جنھیں سخن سے دل کو لہو اور سماعت کو لہولہان کرنے کا شوق ہے۔

    ہمارے ہاں باتیں کرنا ایک باقاعدہ مشغلہ اور رواج ہے۔ لوگ ایک دوسرے کو ”گپ شپ“ اور ”کچہری کرنے“ کی دعوت دیتے ہیں اور یہ ”دعوتِ گفت گو“ گھنٹوں پر محیط ہوتی ہے۔

    ہمارے ہاں بات چیت کا آغاز ہی نہایت بے تکے پن سے کیا جاتا ہے، لہٰذا دورانِ گفت گو دانائی اور معقولیت کی توقع رکھنا فضول ہے۔ بات چیت کی ابتدا عموماً دو بھلے چنگے اور ہنستے مسکراتے افراد اس سوال سے کرتے ہیں:

    ”اور بھئی ٹھیک ٹھاک۔“ یا ”خیریت سے ہو۔“

    اس کے بعد لایعنی سوالات اور بے معنی گفت گو کا سلسلہ دراز ہوتا چلا جاتا ہے۔

    مغرب میں دو اجنبیوں میں گفت گو کی شروعات عموماً موسم کے تذکرے سے ہوتی ہے۔ مگر ہمارے یہاں جب دو ناآشنا ملتے ہیں تو خالصتاً ذاتی نوعیت کے سوالوں سے بات شروع کی جاتی ہے۔ مثلاً اپنے کاروبار کے مالک اور خاصے متموّل یا نو دولتیے، بھائی اچھّن اور ایک فیکٹری میں ملازمت کرنے والے شبّو میاں پہلی بار ایک شادی کی تقریب میں ملے ہیں، جہاں وہ دونوں محض اس لیے ایک دوسرے سے گویا ہونے پر مجبور ہوگئے کہ کوئی تیسرا انھیں لفٹ نہیں کرا رہا۔

    بھائی اچھّن (گاڑی کی چابی گھُماتے ہوئے): ”آپ کی کیا مصروفیات ہیں؟“
    شبّو میاں: ”مصروفیات تو بڑے لوگوں کی ہوتی ہیں۔ ہم جیسے لوگ تو نوکری ہی میں مصروف رہ کر زندگی گزار دیتے ہیں۔“
    بھائی اچھّن:”کہاں نوکری کرتے ہیں۔“
    شبّو میاں: ”ایک فیکٹری میں۔“
    بھائی اچھّن: ”فیکٹریوں میں تو تنخواہیں بہت کم ہیں۔ گزارہ ہوجاتا ہے؟“
    شبّو میاں: ”بڑی مشکل سے۔“
    بھائی اچھّن: ”تو اپنا کاروبار کیوں نہیں کرلیتے؟“
    اس سوال پر شبّو میاں کے چہرے کا رنگ متغیر ہوجاتا ہے اور کئی مغلظات ان کے گلے تک آکر بہ مشکل واپس جاتی ہیں۔ وہ بھائی اچھّن کے پاس سے اٹھنے کی کوشش کرتے ہیں، مگر بھائی اچھّن اس شکار کو اتنی آسانی سے چھوڑنے والے نہیں۔ وہ شبّو میاں کے سامنے مشوروں کا انبار لگا دیتے ہیں، جن میں مختلف کاروبار کرنے کی تجاویز شامل ہیں۔

    میاں اچھّن کی طرح کے کردار ہمارے یہاں عام ”دست یاب “ ہیں۔ یہ خواتین و حضرات کی وہ قسم ہے جسے دوسروں کو مشورے دینے کا جنون ہوتا ہے۔

    یہ ہر وقت بیتاب رہتے ہیں کہ کسی طرح دوسروں کے مسائل جان لیں، تاکہ انھیں حل کرنے کے لیے کوئی نادرونایاب مشورہ دیا جاسکے، بلکہ ان کی خواہش ہوتی ہے کہ لوگوں کو مسائل میں مبتلا دیکھیں اور ان مسائل کا حل تجویز کریں۔ اس مقصد کو بروئے کار لانے کے لیے یہ لوگ دوسروں کے دل و دماغ، یہاں تک کہ کپڑوں میں جھانکنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔

    اگر آپ کہیں ان کے سامنے کھانس دیے تو یہ ذراسی دیر میں آپ کے لیے لاتعداد حکیمی، ہومیوپیتھک اور ایلوپیتھک ادویات تجویز کردیں گے۔ ادھر آپ نے ان کے رُو بَرو اپنی مالی پریشانی کا تذکرہ کیا اور ادھر یہ کسی ماہرِ معاشیات کی طرح آپ کی معیشت سدھارنے کے فارمولے پیش کرنے لگے۔ ان خواتین و حضرات کے بارے میں ہم آج تک یہ طے نہیں کرسکے ہیں کہ یہ صرف باتوں کے لیے مشوروں کی پٹاری کھول دیتے ہیں یا مشورے دینے کے لیے گفت گو فرماتے ہیں۔

    (معروف صحافی، ادیب اور شاعر عثمان جامعی کے طنز و مزاح پر مبنی کالموں‌ کے مجموعے "کہے بغیر” سے اقتباس)

  • مَردوں کا سچ…

    مَردوں کا سچ…

    جب یہ امر طے شدہ ہے کہ مرد عورتوں سے زیادہ جھوٹ بولتے ہیں، تو اسے تحقیق کے ذریعے ثابت اور بے چارے مردوں کو مزید رسوا کرنے کی کیا ضرورت تھی۔

    برطانیہ کے محققین کو نہ جانے کیا سوجھی کہ بیٹھے بٹھائے مردوں اور عورتوں کی دروغ گوئی کی پیمائش کر ڈالی اور سروے کے ذریعے مردوں کو زیادہ جھوٹا قرار دے دیا۔ دراصل سروے میں معصوم مردوں نے سچ سچ بتا دیا کہ وہ روزانہ کم از کم تین جھوٹ بولتے ہیں، یوں عورتوں سے بڑھ کر جھوٹے ٹھہرائے گئے۔

    محققین نے یہ تو جان لیا کہ مرد عورتوں سے زیادہ جھوٹ بولتے ہیں، مگر یہ سمجھنے کی کوشش نہیں کی کہ آخر وہ ایسا کرتے کیوں ہیں؟ ارے یہ جھوٹ ہی تو ہے جس کے سہارے مرد جی لیتے ہیں، ورنہ ہر مرد یہی دعا مانگتا نظر آئے ؎

    اب کے جنم موہے ”کاکا“ نہ کیجو

    جھوٹ مردوں کی مجبوری اور ان کی زندگی کے لیے ضروری ہے۔ خاص طور پر اس برادری کی مظلوم ترین ”نوع“ شوہروں کا دروغ گوئی کے بغیر گزارہ ہی نہیں۔ اب خدا لگتی کہیے، شادی کے دس پندرہ سال بعد،”میں کیسی لگ رہی ہوں“ کے ”اہلیانہ“ سوال کا جواب پوری سچائی کے ساتھ دیا جاسکتا ہے؟

    ایسے کتنے ہی سوال ہر روز شوہروں کے سامنے کھڑے کہہ رہے ہوتے ہیں، ”ہمت ہے تو سچ بول کے دکھا۔“ اسی طرح،”چَن کِتھاں گزاری ائی رات وے“ کا سیدھا سچا جواب ”چن“ کے دن رات کا چین چھین لے گا، چناں چہ اسے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا بھرپور مظاہرہ کرتے ہوئے کوئی کہانی گھڑنا پڑتی ہے۔

    ”کیا آپ نے شادی سے پہلی کسی سے محبت کی ہے“ کا شَک میں گُندھا بلکہ سَنا ہوا استفسار اس لیے نہیں ہوتا کہ شوہر پڑوس کی بانو، پچھلی گلی کی رانو، اَگلی گلی کی چَھپن چُھری، کالج کی حمیدہ، یونیورسٹی کی زبیدہ اور دفتر کی سعیدہ سے تعلق کے گُفتنی اور ناگُفتنی تذکرے چھیڑ دے اور اہلیہ برداشت کی پوری اہلیت کے ساتھ مزے لے لے کر سُنتی رہیں، بلکہ بیگم صاحبہ صرف یہ سُننا چاہتی ہیں کہ تم میری پہلی اور آخری محبت ہو، لہذا ”پہلی“ سے پہلے ”شادی کے بعد“ اور ”آخری“ سے قبل ”اب تک کی“ کے ٹکڑے دل ہی دل میں جوڑ کر حسبِ منشا جواب دے دیا جاتا ہے۔

    نصف بہتر کے ہاتھ کا بدترین کھانا بھی ”واہ واہ“ کر کے پیٹ میں انڈیلنا پڑتا ہے، ورنہ شوہر غریب کتنی ہی دیر کھا جانے والی نظروں کا سامنا کرتا رہے گا اور اس کے کان کھائے جاتے رہیں گے۔

    اب آپ ہی فیصلہ کیجیے مرد جھوٹے ہیں یا وہ لوگ ظالم ہیں جو مردانہ مجبوریوں کو جھوٹ کا مکروہ نام دیتے ہیں؟

    (محمد عثمان جامعی کی مزاحیہ تحریروں کے مجموعے ” کہے بغیر ” سے انتخاب)

  • ڈاکٹروں، نرسوں کا حوصلہ بڑھاتی ایک نظم

    ڈاکٹروں، نرسوں کا حوصلہ بڑھاتی ایک نظم

    "تمھارا شکریہ”

    (محمد عثمان جامعی )

    اے زندگی کے ساتھیو
    حیات کے سپاہیو!
    وبا سے لڑتے دوستو
    نجات کے سپاہیو!

    ہوا کی زد میں آئے، وہ
    دیے بچارہے ہو تم
    اندھیرا پھیلتا ہے اور
    چراغ لارہے ہو تم
    ہے بڑھتی آگ ہر طرف
    جسے بجھا رہے ہو تم

    ہتھیلی پر دھری ہے جاں
    ڈرے بنا، رواں دواں
    یہ جذبہ کتنا پاک ہے
    ہو جیسے صبح کی اذاں
    یہ ولولے، یہ حوصلے
    کبھی نہ ہوں گے رائیگاں

    صدا ہر ایک دل سے ہے اُٹھی
    تمھارا شکریہ
    سبھی لبوں پہ ورد ہے یہی
    تمھارا شکریہ
    پکارتی ہے یہ گلی گلی
    تمھارا شکریہ

    تمھیں سے تو ہے فخرِآدمی
    تمھارا شکریہ
    یہ کہہ رہی ہے آنکھ کی نمی
    تمھارا شکریہ

    (محمد عثمان جامعی نے اپنی نظم میں ڈاکٹروں، نرسوں، طبی عملے، رضا کاروں اور ہر اس شخص کا شکریہ ادا کیا ہے جو کرونا کے خلاف سرگرمِ عمل ہے۔ آج پولیس کے جوانوں کو بھی ہدایت کی گئی ہے کہ ڈیوٹی کے دوران اگر ڈاکٹرز یا پیرا میڈیکل اسٹاف کو دیکھیں تو انھیں سلیوٹ کریں)

  • عورتوں کی "مرضی اور من مانیوں” کی جھلکیاں!

    عورتوں کی "مرضی اور من مانیوں” کی جھلکیاں!

    دنیا تیزی بدل رہی ہے۔ حیران کُن ایجادات اور تسخیرِ کائنات کے راستے میں‌ انسان کا ہر قدم اس کے فہم و تدبّر، علم، قابلیت اور کمال کی دلیل اور روشن مثال ہے۔

    اسی فہم و تدبّر اور شعور نے انسان کو سکھایا کہ معاشروں میں‌ مرد کے "نصف” یعنی عورت کا کردار، گھروں اور سماج میں‌ بدلاؤ، ترقی اور خوش حالی کے سفر میں نہایت اہمیت رکھتا ہے جسے تسلیم کرتے ہوئے عورت کو بنیادی حقوق دینے کے ساتھ بااختیار بنانا ہو گا اور تب دنیا نے خواتین کا عالمی دن منانے کا فیصلہ کیا۔

    اس دن کو منانے کا مقصد یہ ہے کہ ریاستیں عورت کے بنیادی حقوق کے ضامن ہوں، معاشرے عورتوں‌ کو انفرادی طور پر باختیار، آزاد اور زیادہ محفوظ بنائیں اور اسے عزت اور وقار دیں‌ جو کہ اس کا بنیادی حق ہے۔

    پاکستان میں‌ بھی مختلف شعبہ ہائے حیات میں عورت پہلے کی نسبت زیادہ بااختیار، خود کفیل اور گھر سے سماج تک کسی حد تک فیصلہ کُن کردار کی حامل بھی ہے۔ عورتیں اپنے گھروں‌ میں بنیادی وظائف اور ذمہ داریوں‌ کو نبھانے کے ساتھ ساتھ معاشی میدان میں‌ مردوں کا ہاتھ بٹارہی ہیں اور ان کے اس کردار نے انفرادی اور اجتماعی ترقی کا راستہ ہموار کیا ہے۔

    پاکستان میں‌ گزشتہ سال "عورت مارچ” کا انعقاد کیا گیا تھا جس کے چند بینروں اور نعروں نے تنازع اور گرما گرم مباحث کو جنم دیا۔ انہی میں ایک نعرہ ‘‘میرا جسم میری مرضی’’ بھی تھا۔ آج اسی دن کی مناسبت سے ہم آپ کے سامنے محمد عثمان جامعی کی چند کہانیاں‌ رکھ رہے ہیں‌ جن میں آپ ایک پاکستانی عورت کی "مرضی” اور "من مانی” کی جھلکیاں‌ دیکھ سکتے ہیں۔

    یہ چند مختصر کہانیاں ہیں جو پاکستانی عورت کی ‘‘مرضی’’ اور ‘‘من مانی’’ کے جائز جذبے کی نہایت دل گداز اور حسین و جمیل تفہیم ہیں۔ یہ کہانیاں بتاتی ہیں کہ ایک عورت کی مرضی اور اختیار میں کیسے محبت کی چاشنی، آزادی کی مسرت شامل ہوسکتی ہے، وہ کس پیار بھرے زعم اور مان کے ساتھ، کس لطیف بھرم سے اپنا حق جتا سکتی ہے، من مانی کرسکتی ہے۔

    دیکھیے کہ عورت مختلف روپ میں ایک مرد کو اپنے مہکتے ہوئے بھروسے، چہکتے ہوئے زعم اور دمکتے ہوئے غرور سے کیسے اپنی مرضی اور اشارے کا پابند کرتی ہے۔

    آج مرد و زن سے متعلق ہر تنازع اور حقوق و فرائض کی ہر بحث سے دُور رہ کر ‘‘پاکستانی عورت’’ کا یہ اُجلا، خوش رنگ، حیا بار، بامقصد، تعمیری اور مثبت روپ دیکھیے۔

    بیٹی کی من مانی

    ”بابا! آج سے آپ سگریٹ نہیں پییں گے“
    بیٹی نے سگریٹ کا پیکٹ اٹھاکر کوڑے دان میں پھینک دیا۔
    باپ ”ارے ارے، کیا کر رہی ہے لڑکی“ کہتا رہ گیا۔ ماتھے پر ہاتھ مارا اور مسکرادیا۔

    بیوی کا اختیار

    ”بس بہت ہوگیا، اٹھیں اور جاکر بال کٹوائیں، کتنے بڑھ گئے ہیں، کلر ضرور لگوائیے گا ورنہ گھر میں نہیں گھسنے دوں گی“
    بیوی نے کرکٹ میچ دیکھنے میں مگن شوہر کے ہاتھ سے ریموٹ چھین کر ایک طرف اچھال دیا۔
    ”ابے یار میچ ختم ہونے والا ہے پھر چلا جاﺅں گا“
    ”بس بہت ہوگئی، اتنے دن سے یہی سُن رہی ہوں“
    شوہر کا احتجاج اور جھنجھلاہٹ کسی کام نہ آئی، اس کی چوڑی کلائی نازک انگلیوں کی گرفت میں آئی اور ہاتھ اس اعتماد سے کھینچا گیا کہ اسے اٹھنا ہی پڑا۔
    ”کلر لگواکر آئیے گا، ورنہ گھر میں نہیں گھسنے دوں گی“
    شوہر کو بڑے مان سے اس گھر میں داخل نہ ہونے دینے کی دھمکی دی گئی جس کے کاغذات پر اسی کا نام تھا۔
    دروازہ بند ہوتے ہی بیوی کے چہرے پر مسکراہٹ تھی ”شرافت کی زبان تو سمجھتے ہی نہیں“

    ماں کی مرضی

    ”تو بیٹھ، میں بس آ رہا ہوں“
    کال ختم ہوتے ہی نوجوان دروازے کی طرف لپکا۔
    ”کہاں چلے؟“
    دہاڑ نے اس کے قدم روک لیے۔
    ”امی بس ابھی آیا“
    جوان مردانہ آواز منمنائی۔
    ”کہیں جانے کی ضرورت نہیں، میں کھانا لگا رہی ہوں کھانا کھاﺅ۔“
    جلالی لہجے میں حکم دیا گیا۔
    ”امی بس پانچ منٹ“
    بھاری آواز کی منمناہٹ اور بڑھ گئی۔
    ”قدم گھر سے باہر نکال کر دیکھو، ٹانگیں توڑ دوں گی، روز باہر کے کھانے کھاکھا کر کیا حال بنالیا ہے اپنا۔“
    چھے فٹ قد اور بیس سال کا بیٹا جاتنا تھا کہ ٹانگیں توڑنا تو کجا ماں چپت بھی نہیں لگائے گی، مگر بڑبڑاتا ہوا دبک کر وہیں بیٹھ گیا جہاں سے اٹھا تھا۔

    بہن کی زور آوری

    ”امی میں میچ کھیلنے جا رہا ہوں“
    وہ جاگرز پہن کر انگلی میں بائیک کی چابی گھماتا ہوا بولا۔
    ”رکیں بھائی مجھے نبیلہ کے گھر چھوڑدیں“
    چھوٹی بہن جانے کہاں سے کودتی پھاندتی آئی اور بھائی کے سامنے کھڑی ہوگئی۔
    ”کیا پاگل ہوئی ہے، تیری دوست اُس طرف رہتی ہے مجھے ادھر جانا ہے“
    بھائی نے ایک ہاتھ سے مشرق دوسرے سے مغرب کی سمت اشارہ کیا۔
    ”اب جا کے دکھائیں“
    بہن نے پُھرتی سے بائیک کی چابی جھپٹ لی۔
    ”میچ شروع ہونے میں صرف دس منٹ رہ گئے ہیں، تیری دوست کے گھر صرف جانے میں پندرہ منٹ لگ جائیں گے، چابی دے شرافت سے“
    بھائی غرایا۔
    ”کیا حرکت ہے دو اسے چابی“
    ماں کی ڈانٹ تنازع نمٹانے آپہنچی۔
    ”ٹھیک ہے نہیں جاتی“
    بہن نے چابی بھائی کے ہاتھ پر پٹخی اور منہ پھلا کر چل دی۔
    ”اچھا چل مصیبت چھوڑ دیتا ہوں“
    بھائی کی مسکراتی آواز نے بہن کے قدم روک دیے، چہرہ کِھل اُٹھا اور وہ جھٹ جانے کی تیاری کرنے لگی۔

    (ان مختصر کہانیوں‌ کے خالق سینئر صحافی، معروف ادیب اور شاعر محمد عثمان جامعی ہیں)