Tag: محمد عثمان جامعی کی تحریریں

  • ”زباں فہمی“ عشق کی کارستانی

    ”زباں فہمی“ عشق کی کارستانی

    تحریر: محمد عثمان جامعی

    سہیل احمد صدیقی سے میرا تعلق سولہ سترہ سال پر محیط ہے، اس دوران میں نے جب بھی ان کو دیکھا تو یہ خیال آیا اے کمال افسوس ہے، تجھ پر کمال افسوس ہے۔ اردو، انگریزی، سندھی پر مکمل دسترس، فرنچ سے گہری شناسائی، فارسی اور عربی کے لسانی رموز سے واقف۔ تخلیق سے تحقیق تک علم وادب کے ہر میدان میں گام زن، تحریر ہی نہیں تقریر کے فن میں بھی طاق، مگر ان ساری صلاحیتوں اور اہلیتوں کے باوجود کبھی روزگار کے مسائل سے جھوجھتے، کبھی معاشی تنگی سے پریشان۔ لیکن زندگی کے جھمیلے ہوں، شکستوں کی تکان ہو، دل شکن بے قدری ہو یا پھن اٹھائے اور ڈنک مارتے رویے، کوئی رکاوٹ علم کے سفر میں ان کے آڑے نہ آسکی، مشکلات کی کوئی آندھی ان کی ہمت کا پرچم سرنگوں نہ کرسکی اور برف زاروں کی خنکی سمیٹی سرد مہری اور بے اعتنائی کا چلن ان کے سینے میں دہکتی لگن کی اگن بجھانے میں ناکام رہا۔

    دراصل یہ ان کا عشق ہے جو انھیں حالات کی زہرناکیوں سے بچائے اور اپنے رستے پر لگائے رکھتا ہے، ان کا عشق انھیں صحرا کی ریت میں گُم ہونے دیتا ہے نہ تیشہ دے کر کسی کوہسار کی طرف بھیجتا ہے، وہ تو ان سے اور بھی بڑی مشقت لے رہا ہے، طبیعتوں اور مزاجوں کی ریگ میں زبان کے پھول کھلانے اور پتھریلے دماغوں میں برگِ گُل سے بھی نازک لفظوں سے زبان کی آبیاری کی کَڑی مشقت، جو انھیں تھکاتی ہے نہ اکتاہٹ کا شکار کرتی ہے۔ یہ اردو کا عشق ہے، جس نے انھیں مار رکھا ہے، اور ”زباں فہمی“ کا سلسلہ اس عشق کا اظہار بھی ہے، مظہر بھی اور داستان بھی۔

    کتاب کا سرورق

    ’زباں فہمی“ کے زیرعنوان شایع ہونے والی تحریریں اردو کی بے وقعتی، بے قدری، اس سے تعصب کا ایک ایسا تقاضا تھیں جسے سہیل احمد صدیقی جیسا کوئی ذی علم اور زبان کے ہر رنگ اور سارے تیوروں سے واقف قلم کار ہی نبھا سکتا تھا، جنھوں نے صحافتی مضمون نگاری سے ادبی نثرپاروں تک اور ٹیلی ویژن اور ریڈیو کے اسکرپٹ لکھنے سے اشتہار نویسی تک زبان کے پھیکے، تیکھے، میٹھے، مرچیلے اور نکمین سارے ذائقے چکھے بھی ہیں اور چکھائے بھی ہیں۔

    سہیل احمد صدیقی

    یوں کہہ لیں کہ انھوں نے اردو نگری کے گھاٹ گھاٹ کا پانی پیا ہے۔ پیا ہی نہیں، مشکیزوں میں بھر بھر کر ساتھ لائے بھی ہیں اور اب اس پانی سے لفظوں کے آلودہ چہرے دھو کر ان کا اصل رنگ روپ سامنے لانے میں مصروف ہیں۔ ہمیں گمان نہیں یقین ہے کہ انھوں نے گھاٹ گھاٹ پھرتے ہوئے پنگھٹوں پر بھی اوک سے پانی پیا ہوگا، اس کے بغیر زباں دانی اور شاعری کا سفر کہاں مکمل ہوتا ہے، اور یہ ان دونوں راہوں کے مسافر ہیں۔ زبان کی ہر ادا سے شناسائی کے ساتھ اردو کے آب رواں میں اپنے اپنے رنگ گھول کر اسے رنگا رنگ کرنے والی زبانوں میں سے کسی پر عبور اور کسی سے اچھی خاصی یاد اللہ کے باعث سہیل احمد صدیقی کسی ماہر کھوجی کی طرح لفظوں کے نقش پا پر اُلٹے قدموں چلتے ہوئے اس کا ٹھور ٹھکانا ڈھونڈ نکالتے ہیں اور تجربہ کار صرّاف کے مانند محاوروں اور شعروں میں اصل اور کھوٹ کی کھوج لگا لیتے ہیں۔

    یہ تحقیقی کاوشیں اپنی جگہ اہم ہیں، مگر ”زباں فہمی“ کے خالق کی اصل خدمت اردو میں بگاڑ کی یلغار کا مقابلہ اور اسے انگریزی کی مسلسل پیش قدمی سے بچانے کے لیے جدوجہد ہے۔ یہ کام جتنا ناگزیر ہے، اتنا ہی کٹھن بھی، ایسا دشوار کہ اچھے اچھوں نے یہ بھاری صرف پتھر چوم کر چھوڑ دیا، کوئی اسے کارِ عبث سمجھتا ہے تو کوئی دیوار سے سر ٹکرانا قرار دیتا ہے۔ مگر سہیل احمد صدیقی اس جنگ کے باہمّت سالاروں شکیل عادل زادہ، احفاظ الرحمٰن اور اطہر ہاشمی کی روش اپنائے ہوئے مسلسل برسرِ پیکار ہیں۔ ذرا تصور تو کیجیے ان کی ہمّت اور حوصلے کا، یہ ایک ایسے معاشرے میں زبان کے خد و خال بگڑنے سے بچانے اور مسخ ہوجانے والے نقوش کی بحالی کے لیے دن رات ایک کیے ہوئے ہیں، جس معاشرے میں غلط اردو بولنا قابلِ فخر ہے، جہاں والدین بڑی شان سے بتاتے ہیں کہ ان کے بچے کی اردو خراب ہے، جہاں شادی کے دعوت نامے سے گھر کی دیوار پر لگی نام کی تختی تک ہر جگہ اردو میں عبارت لکھنا باعثِ شرم سمجھا جاتا ہے، اس بدقسمت زبان کے الفاظ قبروں کے کتبوں ہی پر نظر آتے اور یہ بتاتے ہیں کہ یہ قوم، یہ سماج اب اردو کو گورستان میں دیکھنے کا متمنی ہے۔

    سہیل احمد صدیقی ایک ایسی قوم میں زبان کی اصلاح کا بِیڑا اٹھائے ہوئے ہیں، زبان کا بیڑا غرق ہونا جس کے لیے ذرا برابر اہمیت نہیں رکھتا، وہ ایک ایسے ملک میں حرف و معنی کے احترام کے لیے آواز اٹھا رہے ہیں جس کے ٹی وی چینل، اخبارات اور ویب سائٹس روز کسی لفظ کسی محاورے کی عزت پامال کردیتے ہیں، وہ ایسے سماج میں صحیح اردو بولنے اور لکھنے کے لیے سرگرم ہیں جس کا ایک شاعر اور زبان کا مجتہد جون ایلیا اپنے بیٹے کے لیے فکرمند ہوکر کہتا ہے نجانے تم کتنی کم غلط اردو لکھی ہوگی۔ میرے ممدوح اس دیس میں اشعار میں سہواً تبدیلیوں اور شعروں کی غلط نسبت کو درست کرنے کے لیے جگر سوزی کر رہے ہیں، جس دیس کے ایک نہایت اعلی منصب دار، اتنے اعلٰی کے باقی اہل جاہ و منصب بس ان کے آلۂ کار، ایک تقریر میں فتنوں کا سر کچلنے کی دھن میں کسی اور کے شعر علامہ اقبال کے سر منڈھ دیتے ہیں، جس پر اقبال نے اپنی لحد میں تڑپ کر کہا ہوگا، ”تقریر جو ایسی ہو تو تقریر بھی فتنہ۔“ وہ اس زبان کی محبت کا فرض چکا رہے ہیں جس کے طفیل شہرت اور دولت کمانے والے کچھ اہلِ قلم کے دل بھی اس کی نفرت سے یوں بھرے ہیں کہ بغض کی یہ غلاظت جب ہونٹوں سے بہتی ہے تو یہ غلیظ ”بہاﺅ“ دیکھ کر ان کی شخصیت کا سارا تاثر ”راکھ“ ہوجاتا ہے۔ ایسے ماحول اور حالات میں یہ زبان کا فہم بانٹنے کے لیے کمربستہ ہیں تو یہ ان کے عشق ہی کی کارستانی ہے۔

    زباں فہمی کا سلسلہ زبان کی اصلاح اور اردو شناسی کا ذریعہ تو ہے ہی یہ سہیل احمد صدیقی کی پوری کی پوری شخصیت کا منی ایچرز پر مشتمل تصویر خانہ بھی ہے۔ اس میں ان کی شخصیت کے پہلو، افکار، ان کی نجی اور پیشہ ورانہ زندگی کے اتار چڑھاﺅ، ان کے علمی سروکار اور معلومات کی وسعت کی جھلکیاں جا بہ جا جلوے دکھاتی ہیں۔ جب یہ کسی لفظ کی اصل کا سراغ لانے نکلتے ہیں تو ان کے پیچھے پیچھے چلتے ہوئے ہم مذہب، تاریخ، ثقافت جغرافیے کے کتنے ہی حقائق سے گزرتے ہیں۔ کبھی لفظوں کا یہ تعاقب قاری کو نباتات کی دنیا میں لے جاتا ہے، کبھی رنگوں کی نیرنگی اس کے سامنے ہوتی ہے، کہیں تاریخ کا کوئی ورق کھل جاتا ہے، کہیں کسی مذہبی کتاب کا صفحہ الٹ جاتا ہے، پھل، سبزیاں، پکوان، شہر، شخصیات، صحافت کون سا موضوع ہے جس کے بارے میں مضامین کسی انکشاف کا دریچہ نہیں کھولتے۔ اپنے مطالعے اور معلومات سے ہمیں حیران کرتے سہیل احمد صدیقی کے بارے میں جب پتا چلتا ہے کہ زندگی کی آزمائشوں میں پڑنے سے پہلے وہ ذہنی آزمائش کے مقابلوں کے فاتح رہے ہیں، تو ساتھ ہی یہ عقدہ بھی کھل جاتا ہے کہ کیریئر اور دولت کے پیچھے بھاگتے نوجوانوں کے بیچ دھیرج سے علم کی راہوں پر چلتے لڑکے کو یہ چسکا کیسے پڑا۔

    زباں فہمی کا مطالعہ کرتے ہوئے ہم اردو کے بھید بھاﺅ اور اس کے دیگر زبانوں سے رشتے ناتوں پر صاحبِ کتاب کی گہری نظر سے فیض یاب ہونے کے ساتھ ان کے اسلوب کی رنگارنگی سے بھی لطف اٹھاتے ہیں، جو کبھی محققانہ بردباری اور بھاری پن لیے ہوتا ہے تو کہیں صحافتی ڈھنگ اختیار کرلیتا ہے، کہیں ان کے قلم سے نکلی سطور مؤرخ کے ڈھب پر بال کی کھال اتارنے پر تل جاتی ہیں تو کہیں ہمیں ایک مزاح نگار کی سی شگفتگی اور ہلکے پھلکے انداز سے واسطہ پڑتا ہے۔ اور جب جب وہ اپنی جیون کہانی کا کوئی ٹکڑا تحریر میں جماتے ہیں تو لفظوں میں کسی قصہ گو کی فن کاری بول اٹھتی ہے۔ یہ سارے بدلاﺅ اور سبھاﺅ موضوعات کے تابع اور ان کے تقاضوں کے مطابق ہوتے ہیں، جس سے پتا چلتا ہے کہ بہ طور قلم کار وہ اکہری شخصیت کے مالک نہیں بلکہ موضوع کے مطابق زبان کو برتنے کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں۔

    سہیل احمد صدیقی اور ان کے قدردانوں اور ان سے پیار کرنے والوں کو زباں فہمی (نقش اوّل) کی اشاعت پر مبارک باد دیتے ہوئے میں آرزومند اور دعا گو ہوں کہ سہیل صاحب زباں فہمی کی یہ قلمی اور علمی تحریک جاری رکھیں اور کتابوں کی صورت ان کی تحریریں نقش در نقش اردو کے علمی و ادبی ورثے کا حصہ بنتے رہیں۔

  • کراچی کا سفر نامہ (طنز و مزاح)

    کراچی کا سفر نامہ (طنز و مزاح)

    یوں تو ”ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے“ اور ہر تمنا پوری نہیں ہوتی لیکن یار لوگ تادم مرگ دل میں کوئی نہ کوئی آرزو پالے رکھتے ہیں اور اس کی تکمیل کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔

    بعض صاحبان اگر اپنی خواہشات من وعن پوری نہ کرسکیں تو بھی کسی نہ کسی طرح دل کا ارمان نکال ہی لیتے ہیں۔ مثلاً شاعر کہلانے کے آرزومند خواتین و حضرات ایک عرصے تک طبع آزمائی اور قافیہ پیمائی کے باوجود جب اپنے کلام کو باوزن کرنے سے بھی قاصر رہتے ہیں تو ”نثری نظمیں“ کہہ کر شاعر کہلانے کا ارمان پورا کرلیتے ہیں یا ڈاکٹر بننے کے خواہش مند اگر ایم بی بی ایس میں داخلے سے محروم رہ جائیں تو ہومیوپیتھ بن کر اپنے نام کے ساتھ ڈاکٹر لگا لیتے ہیں۔ ہمارا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔

    ہمیں آرزو تھی کہ ملکوں ملکوں سفر کریں اور سفرنامے لکھیں۔ اب آپ سے کیا پردہ، ہماری اس خواہش کے پیچھے سیاحت سے زیادہ ابن بطوطہ سے لے کر مستنصر حسین تارڑ تک تقریباً تمام سیاحوں کی رنگیں بیانیوں کا عمل دخل تھا۔ سوچا تھا کہ ابن بطوطہ کی طرح فی سفر ایک شادی نہ بھی کرسکے تو تارڑ صاحب کی طرح فی سیاحت ایک رومان تو کر ہی ڈالیں گے، لیکن مجبوری حالات نے ملکوں ملکوں گھومنا تو کجا پنڈی بھٹیاں اور رن پٹھانی کا سفر بھی نہیں کرنے دیا۔ لیکن ہم بھی ایک ڈھیٹ، تہیہ کرلیا کہ سفر کریں نہ کریں سفر نامہ ضرور لکھیں گے سو ”میں نے آسٹریلیا دیکھا“، ”ہٹلر کے دیس میں“ اور ”جہاں انگریز بستے ہیں“ کے زیر عنوان بالترتیب آسٹریلیا، جرمنی اور برطانیہ کے سفر نامے لکھ اور چھپوا ڈالے۔

    یہ سفر نامے کیا تھے معلومات کے خزانے تھے، ان میں ہم نے ایسے ایسے انکشافات کیے تھے کہ اگر یہ کسی اور ملک میں چھپتے تو ہاتھوں ہاتھ لیے جاتے اور ہمیں سیاح اور مصنف کے بہ جائے محقق کا درجہ عطا کردیا جاتا۔ مثلاً ”ہٹلر کے دیس میں“ میں ہم نے پہلی بار یہ انکشاف کیا کہ جرمنی کا نام جرمنی اس لیے پڑا کہ وہاں جرمن رہتے ہیں۔ آسٹریلیا کے بارے میں ہماری یہ تحقیق ملتِ بیضا کے لیے کتنی دل خوش کُن ہونا چاہیے تھی کہ یہ ملک ”آسٹر علی“ نامی ایک یورپی نژاد مسلمان نے دریافت کیا تھا اور اسی سے منسوب ہوا، بعد میں کچھ زیادہ ہی بگڑ کر یہ نام ”آسٹر علی“ سے آسٹریلیا ہوگیا، ویسے ہم تو یہ بھی ثابت کرسکتے تھے کہ آسٹریلیا جون ایلیا نے کسی آسٹر نامی انگریز کے اشتراک سے دریافت کیا تھا، اور اس ملک کا اصل نام ”آسٹر ایلیا“ تھا، لیکن (ہمارے یا آسٹریلیا کے) ایک بہی خواہ نے مسودہ دیکھ کر ہمیں سمجھایا کہ جون صاحب نے ”پیالۂ ناف“ کے سوا کچھ دریافت نہیں کیا اور یوں بھی وہ آسٹریلیا کے بہت بعد پیدا ہوئے تھے۔ اسی طرح ”جہاں انگریز بستے ہیں“ میں ہم پہلی مرتبہ یہ حقیقت سامنے لائے کہ برطانیہ، یو کے اور انگلینڈ، ان تینوں ملکوں میں بڑی ثقافتی ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ لیکن ایسی خرد افروز اور علم افزا تصانیف کا صلہ ناقدین نے ہمیں ”جاہل مطلق“ ٹھہراکر دیا۔ انھوں نے ہماری ذکر کردہ معلومات اور ہمارے کچھ فقروں کو جواز بنا کر ہم پر وہ لعن طعن کی کہ خدا کی پناہ۔ ہماری تصانیف کے جو فقرے طنزوتضحیک کا نشانہ بنے ان میں سے چند یہ ہیں:

    ”میں نیاگرا آبشار کے کنارے خاموش بیٹھا اس جھرنے کی صدا سن رہا ہوں جو آسٹریلیا کی تاریخ بیان کررہا ہے۔“(”میں نے آسٹریلیا دیکھا“ صفحہ 3)

    ”دوسری جنگ عظیم کے بعد جرمنی دوحصوں میں منقسم ہو گیا۔ ایک کا نام رکھا گیا مغربی جرمنی اور دوسرا مشرقی جرمنی کہلایا۔ ہمارے ہاں تو مشرقی پاکستان میں بنگالی بستے تھے، لیکن حیرت ہے کہ یہاں مغربی کی طرح مشرقی جرمنی میں بھی جرمن ہی آباد ہیں، ہمیں تلاش بسیار کے باوجود یہاں ایک بھی بنگالی نظر نہیں آیا۔ اس صورت حال سے اندازہ ہوا کہ ان کے ٹکا اور یحییٰ خان ہمارے والوں سے کہیں زیادہ سفاک تھے۔ یہ امکان بھی ہے کہ جرمنوں کے ساتھ رہتے رہتے مشرقی جرمنی کے بنگالی بھی جرمن ہوگئے ہوں۔ اس امکان نے ہمیں خوف زدہ کردیا اور ہم اپنا سفر مختصر کر کے اس ڈر سے پاکستان واپس آگئے کہ کہیں کچھ روز اور جرمنی میں رہ کر ہم بھی جرمن نہ ہوجائیں۔“ (”ہٹلر کے دیس میں“ صفحہ 608)

    ”برطانیہ میں جہاں دیکھو انگریز نظر آتے ہیں۔ یقیناً یہ انگلستان سے آکر یہاں بسے ہوں گے اور ایسے بسے کہ سارے ملک پر چھاگئے۔“

    اب آپ ہی بتائیے کہ ان تحریروں میں آخر ایسا کیا ہے جس سے ہماری جہالت یا لاعلمی ثابت ہوتی ہو؟ اس ضمن میں تنقید کرنے والوں سے ہم نے کہا کہ جہاں تک نیاگرا آبشار کا تعلق ہے تو ہم نے یہ کب لکھا کہ یہ جھرنا کینیڈا کے بہ جائے آسٹریلیا میں گرتا ہے۔ بات بس اتنی ہے کہ آسٹریلیا جانے سے پہلے ہم کینیڈا گئے تھے اور نیاگرا کے قریب بیٹھے آسٹریلیا کے خیالوں میں گم تھے۔ یہ منظر ہم نے ذرا شاعرانہ انداز میں بیان کردیا اور کینیڈا کا تذکرہ کرنا بھول گئے اور نقادوں نے اتنی سی بات کا بتنگڑ بنادیا۔ جب یہی وضاحت ہم نے ایک نقاد جناب ”اعتراض الدین معترض“ کے سامنے پیش کی تو فرمانے لگے:

    ”اچھا تو بتائیے کہ آخر نیاگرا آبشار کینیڈا کے بہ جائے آسٹریلیا کی تاریخ کیوں بیان کرنے لگا۔“

    ہم نے دل ہی دل میں انھیں ”احمق“، ”گاؤدی“ اور ”گھامڑ“ جیسے القابات سے نوازا اور گویا ہوئے ”حضرت! کینیڈا میں تو ہم بہ نفس نفیس موجود تھے، چناں چہ اس ملک کے ماضی و حال کے بارے میں سب کچھ جان سکتے تھے تو نیاگرا آبشار ہمیں کینیڈا کے بارے میں کیوں بتاتا؟ لہٰذا اس نے ہمیں اس ملک کی تاریخ سے آگاہ کیا جہاں ہم جانے والے تھے۔“

    اعتراض الدین صاحب منہ پھاڑے ہماری وضاحت وصراحت سنا کیے پھر جانے کیا بڑبڑاتے ہوئے چل دیے۔ اسی طرح جرمنی اور برطانیہ کے باب میں ہم نے جو کچھ لکھا وہ ہماری ذہانت اور سوچ کی گہرائی کا واضح ثبوت ہے، نہ کہ اسے ہماری ناواقفیت کی دلیل بنایا جائے۔

    بہرحال، ہمارے یہ تینوں سفرنامے ہم سے ناشر اور ناشر سے دکان دار تک کا سفر طے کر کے ہمارے پاس واپس آگئے اور اس کے بعد ہم نے بنا سفر کے سفرنامے لکھنے سے توبہ کرلی۔ لیکن سفرنامہ لکھنے کی خواہش سے دست بردار نہیں ہوئے، تاہم، اس تجربے نے ہمیں یہ ضرور باور کرادیا کہ جو دیکھو وہی لکھو۔ چناں چہ ہم نے فیصلہ کیا کہ کراچی کا سفر نامہ لکھیں گے ساتھ ہی یہ بھی طے کرلیا کہ یہ سفر نامہ کتاب کے بہ جائے مضمون کی صورت میں تحریر کریں گے، کیوں کہ ایک تو نہیں ہوتی اس میں محنت زیادہ اور دوسرے پیسے ڈوبنے کا خطرہ بھی نہیں ہوتا۔ تو ہمارا ”سفرنامۂ کراچی“ ملاحظہ کیجیے۔

    ہم نے اپنے سفر کا آغاز سہراب گوٹھ سے کیا۔ ہم واضح کر دیں کہ اس جگہ کا رستم و سہراب سے کوئی تعلق نہیں، البتہ یہاں سہراب سے کہیں زیادہ زورآور بستے ہیں اور جو کام ان سے ہورہے ہیں وہ رستم سے بھی نہ ہوں گے۔ نہ ہی یہ روایتی معنوں میں گوٹھ ہے۔ ایک سہراب گوٹھ کیا کراچی کے اکثر علاقے اسی طرح ”اسم بے مسمیٰ“ ہیں مثلاً گلستان جوہر اور گلشن اقبال میں کہیں دور دور تک گُلوں کا نام ونشان نہیں، گیدڑ کالونی میں گیدڑ ناپید اور دریا آباد میں دریا تو کجا کوئی تالاب تک نہیں۔ سہراب گوٹھ میں کبھی کوئی گوٹھ آباد ہوگا، مگر اب تو یہ علاقہ افغان مہاجرین کے دم سے غزنی یا جلال آباد دکھائی دیتا ہے۔ سہراب گوٹھ پر بسوں ٹرکوں ”وغیرہ“ کے اڈے ہیں اور امی ابو نے ہمیں ہر قسم کے اڈوں سے دور رہنے کی تاکید کر رکھی ہے، لہٰذا ہم نے اس علاقے میں زیادہ ٹھہرنا مناسب نہیں سمجھا۔

    اب ہم فیڈرل بی ایریا پہنچے۔ یہ علاقہ فیڈرل اس نسبت سے کہلاتا ہے کہ جب یہ آباد ہوا تو کراچی وفاقی دارالحکومت تھا۔ بعدازاں ”الحکومت“ اسلام آباد چلی گئی اور کراچی میں دار ہی دار رہ گئی، لیکن یہ علاقہ آج بھی فیڈرل کہلاتا ہے، بالکل اسی طرح جیسے ہمارے ملک کو ”اسلامی جمہوریہ پاکستان“ کہا جاتا ہے۔ کافی عرصے سے لوگ فیڈرل بی ایریا کو ”فیڈرل بھائی ایریا“ کہنے لگے ہیں۔ ہمیں اس نام کی دو وجوہ تسمیہ بتائی گئیں ایک تو یہ کہ اس علاقے میں الطاف بھائی کی قیام گاہ اور ان کی جماعت کا مرکز واقع ہے اور دوسری وجہ یہ ہے کہ اس بستی اور فیڈرل گورنمنٹ کے درمیان بڑی مدت بعد بھائی چارے کی فضا قایم ہوگئی ہے!

    فیڈرل بی ایریا کے بعد لیاقت آباد شروع ہوتا ہے۔ یہ کبھی لالو کھیت کہلاتا تھا، جہاں مختلف حکومتوں نے بے روزگاری اور افلاس کی فصل کاشت کی اور پھل کی صورت میں پتھر کھائے۔ شہید ملت لیاقت علی خان سے منسوب اس بستی میں ایک زمانے میں شہادت بلامطلوب ومقصود عام تھی۔ شہادتیں اس علاقے کے باسیوں کا مقدر بنیں اور مال غنیمت اور کشور کشائی دوسروں کے حصے میں آئی۔

    اب ہم ناظم آباد سمیت کئی بستیوں کو چھوڑتے ہوئے لیاری میں داخل ہوئے۔ یہ شہر کی قدیم ترین آبادیوں میں سے ایک ہے، چناں چہ ”اولڈ از گولڈ“ کے محاورے کے تحت اسے چمکتا دمکتا علاقہ ہونا چاہیے تھا، مگر یہ علاقہ غربت کی تاریکی میں ڈوبا ہوا ہے، جہاں واحد چمکتی چیز وہ ”سفید سفوٖف“ ہے جو ”ولن“ ہونے کے باوجود ہیروئن کہلاتا ہے۔

    لیاری کے بعد ہماری منزل ایم اے جناح روڈ تھی۔ یہ کبھی بندرگاہ کے حوالے سے بندر روڈ کہلاتی تھی، لیکن اب ریلیوں اور جلوسوں کی وجہ سے یہ سڑک اکثر بند رہتی ہے، لہٰذا لوگ اسے بند روڈ کہنے لگے ہیں۔ اس شاہ راہ پر واقع اہم ترین مقام مزار قائد ہے۔ حکومت نے مزارقائد کے گرد ایک خوب صورت باغ لگا دیا ہے۔ نوجوان جوڑوں کی کھیپ کی کھیپ ہر روز مزار قائد پر حاضری دینے آتی ہے اور باغ قائد اعظم میں بیٹھ کر ”یوں دی ہمیں آزادی کہ دنیا ہوئی حیران“ گاتی ہے۔ اس شاہ راہ پر آگے چلیں تو نشتر پارک آتا ہے۔ یہ دنیا کا واحد ”الاسٹک“ کا بنا ہوا پارک ہے، جس میں چند ہزار نفوس کی گنجایش ہے، لیکن سیاسی جلسوں کے دوران یہ پارک لاکھوں افراد کو اپنے اندر سمولیتا ہے۔ اپنی اس خصوصیت کی بنا پر نشتر پارک کو ”گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈز“ میں جگہ ملنی چاہیے، مگر مغربی دنیا کے مسلمانوں سے تعصب کے باعث یہ پارک اس اعزاز سے اب تک محروم ہے۔

    ایم اے جناح روڈ کی دھوئیں سے آلودہ فضا اور گاڑیوں کے شور نے ہماری طبیعت ایسی مکدر کی کہ شہر کی گنجان آباد غریب بستیوں کے سفر کا ارادہ ترک کرکے ہم ڈیفنس سوسائٹی اور کلفٹن کی جانب رواں ہوگئے۔ یہ آبادیاں درحقیقت دو سمندروں کے درمیان واقع جزائر ہیں، جن کے سامنے بحیرۂ عرب ٹھاٹھیں مار رہا ہے اور عقب میں غربت، بھوک بیماری، بے روزگاری اور دیگر لاتعداد مصائب کے بحر ظلمات کی لہریں ساحل امید پر سر پٹخ پٹخ کر ناکام ونامراد لوٹ رہی ہیں۔ وسیع وعریض محلات سے مزین ان علاقوں کو دیکھ کر لگتا ہے جیسے آپ کسی ایسے الف لیلوی شہر کی سیر کررہے ہوں، جس کے باسی کسی عذاب کا شکار ہوکر اپنے قصور خالی چھوڑ گئے ہیں۔ لیکن کسی کوٹھی کے اونچے دروازے سے زن سے نکلتی کوئی بیش قیمت گاڑی آپ کی یہ غلط فہمی دور کر دیتی ہے۔ ان بستیوں کے مکینوں کی اکثریت صرف شہریت اور پاسپورٹ کے اعتبار سے پاکستانی ہے ورنہ ان کے انداز واطوار، بول چال، چال ڈھال اور طرز رہایش و ذہنیت سب بدیسی ہے۔ دوسرے الفاظ میں یہ انگریز حکم رانوں کی نشانیاں اور امریکی تہذیب کا نشان ہیں۔ ان علاقوں میں ہم جیسے ”مڈل کلاسیے“ کا پاپیادہ سفر ہمیں مشکوک بناکر مشکل میں ڈال سکتا تھا، اس لیے ہم نے ان بستیوں کی مختصر سیاحت کے بعد اپنے گھر کی راہ لی۔

    آپ کے لیے ہمارا یہ مختصر سفر نامہ اس لحاظ سے خاصا بے زار کردینے والا اور مایوس کُن ہو گا کہ یہ وجود زن سے تہی ہے۔ مگر کیا کریں، مستنصر حسین تارڑ اور دیگر سیاحوں نے جن علاقوں کا سفر کیا وہاں خواتین و حضرات بسوں اور ٹرینوں میں ساتھ ساتھ براجمان ہوتے ہیں، چناں چہ اس بات کا پورا امکان ہوتا ہے کہ کوئی حسینہ ان سیاحوں کے کندھے پر سر رکھ کر سورہے اور زیب داستاں بن جائے، لیکن کراچی کی بسوں میں خواتین کے حصے میں سلاخیں لگا کر اسے مردوں کے لیے (ماسوائے کنڈیکٹر) ممنوعہ علاقہ قرار دے دیا گیا ہے، اس باعث کسی کم عمر حسینہ تو کجا کسی ادھیڑ عمر بدصورت بی بی کے قربت کی امید بھی ناپید ہوگئی ہے۔ لہٰذا مختلف بسوں میں دوران سفر ہمارے شانے پر کوئی نہ کوئی خان صاحب اپنی بھاری بھرکم ”سری“ رکھے خراٹے لیتے اور اپنے لعاب کا خزانہ ہماری دھلی دھلائی قمیص پر لٹاتے رہے۔ ہم نے ان مناظر کا تفصیلی تذکرہ محض اس لیے نہیں کیا کہ یہ مناظر زیب داستاں کے بہ جائے ”عیب داستاں“ بن جاتے۔

    (معروف طنز و مزاح نگار محمد عثمان جامعی کے فکاہیہ مضامین کے مجموعے "کہے بغیر” سے انتخاب)

  • ایک عمدہ فلم پاکستان میں ناکام کیوں ہو گئی؟

    ایک عمدہ فلم پاکستان میں ناکام کیوں ہو گئی؟

    پوچھا کسی نے، ”بھئی! یہ مغلِ اعظم جیسی عمدہ فلم پاکستان میں ناکام کیوں ہوگئی؟“

    ہمارا جواب تھا، ”بادشاہوں کی فلموں سے انھیں دل چسپی ہوگی جن کے لیے بادشاہت تاریخ کا حصہ ہوگئی ہے، ہم پاکستانیوں کو ”اکبرِاعظم اور نورتن“ کے نظارے کے لیے سنیما جانے کی کیا ضرورت؟“

    بہرحال ”مغلِ اعظم“ کی ناکامی سے قطع نظر اس فلم کی پاکستان میں نمائش سے پاک بھارت ”فلمی تعلقات“ کا ایک نیا دور شروع ہونے کا امکان پیدا ہوگیا ہے۔ یہاں فلمی تعلقات کی اصطلاح ہم نے بہت ہی محدود معنوں میں استعمال کی ہے ورنہ دونوں ممالک کے تعلقات ہمیشہ سے فلمی انداز ہی کے رہے ہیں اور وہ بھی ایکشن فلموں والے۔ کبھی کبھی ان تعلقات میں رومانوی فلموں کا رنگ آجاتا ہے اور کبھی تو لگتا ہے جیسے سفارتی اسکرین پر روایتی پنجابی فلم کا گانا چل رہا ہو جس میں ناچتی، اچھلتی کودتی اور چھلانگیں لگاتی ہیروئن ”کُل وقتی ناراض“ اور مغل بچوں کی طرح محبوب کو مار رکھنے کی خُو بُو والے ”جٹ“ ہیرو کو دراصل اتنی سی بات باور کروا رہی ہوتی ہے کہ اسے ”بڑے زور کی محبت لگی ہے“، ادھر ہیرو ”اصولوں پر کوئی سودے بازی نہیں ہوگی“ کی تصویر بنا اکڑا کھڑا ہوتا ہے، جیسے کہہ رہا ہو ”دل میرا اٹوٹ انگ ہے، یہ تو میں کسی حال میں نہیں دوں گا۔“

    بعض حضرات کا خیال ہے کہ ہیرو اس انتظار میں ہوتا ہے کہ اچھل کود کے نتیجے میں بھاری بھرکم ہیروئن کا وزن ذرا کم ہو تو محبت کا آغاز کیا جائے۔

    جن دنوں ہمارا ملک ”مسلم سوشل فلم“ بنا ہوا تھا، اس زمانے میں بھی یہاں بھارتی فلمیں دیکھنے کی مکمل آزادی تھی اور اب تو وطن عزیز کا منظر نامہ خاصا رنگین، بلکہ ”گلیمرائز“ ہوچکا ہے، لہٰذا قوی امید ہے کہ ہم پاکستانی بہت جلد بڑی اسکرین پر ”چھوٹے کپڑے“ دیکھ کر کمپیوٹر اور ٹی وی کی اسکرین سے زیادہ محظوظ ہوں گے۔ بھارتی فلموں کی پاکستان میں نمائش کے امکان کے ساتھ ایک اور اچھی بات یہ ہے کہ دونوں ملکوں کے اداکار اور اداکارائیں ایک دوسرے کے ملک میں آ…جا اور باہم گھل مِل رہے ہیں۔ دوستی بڑھانے کا یہ بہت اچھا موقع ہے، بشرطے کہ اداکار موقع سے فائدہ اٹھانا جانتے ہوں۔

    بہت سے حضرات کو پاکستان میں بھارتی فلموں کی نمائش پر سخت اعتراض ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ فلموں کی نمائش دوطرفہ بنیاد پر ہونی چاہیے۔ ہم نہ صرف اس مطالبے کی پرزور تائید کرتے ہیں، بلکہ ہمارا تو کہنا ہے کہ حکومت پاکستان، بھارت سرکار سے مطالبہ کرے کہ وہ اپنے ملک میں ”فلم بینی بالجبر“ کا قانون منظور کرواکے ہر بھارتی کو پاکستانی فلمیں دیکھنے کا پابند بنا دے۔

    ویسے ہمیں ذاتی طور پر بھارتی فلموں کی پاکستان میں نمائش سے زیادہ پاکستانی فلموں کی بھارت میں نمایش سے دل چسپی ہے۔ ہمارے خیال میں اگر ہماری پنجابی فلمیں دہلی، ممبئی اور کولکتہ وغیرہ کے سنیما گھروں میں چلنے لگیں تو بھارتیوں کے دل میں ”گنڈاسے“ کی ایسی دہشت بیٹھے گی کہ وہ کہہ اٹھیں گے ”بھگوان کے لیے کشمیر لے لو، مگر ہمیں اپنی فلمیں نہ دکھاؤ۔“

    ہم اس رائے کے تہِ دل سے حامی ہیں کہ دونوں ملک مشترکہ فلم سازی کریں، مگر ہمارا کہنا ہے کہ یہ مشترکہ فلمیں یک طرفہ کے بہ جائے ”مشترکہ ”ہی نظر آنی چاہییں۔ یعنی ان فلموں میں نہ صرف دونوں ملکوں کے اداکار ایک ساتھ کام کریں، بلکہ فلموں کے نام، کہانیاں اور مناظر بھی مشترکہ نوعیت کے ہوں، چوں کہ سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے، اس لیے ہم یہاں ایک مشترکہ فلم کا خاکہ تجویز کررہے ہیں۔ ہمارے خیال میں اس مجوزہ خاکے پر اور اس فارمولے کے تحت بننے والی فلم ہی مشترکہ کہلانے کی مستحق ہوگی۔

    ہماری تجویز کردہ فلم کا نام ہے ”جٹ تے مغل اعظم“ ہم یقینِ کامل کے ساتھ کہتے ہیں کہ اگر اس نام سے ”مغل اعظم“ کا ری میک بنایا جائے تو نہ صرف یہ فلم کام یاب ہوگی، بلکہ کئی ”کھڑکی توڑ ہفتے“ بھی مکمل کرے گی۔ اب جہاں تک کہانی کا تعلق ہے تو ہماری رائے میں کہانی کا آغاز لکھ کر اختتام کرداروں پر چھوڑ دیا جائے، ”جس دیے میں جان ہوگی وہ دیا رہ جائے گا۔“ رہے مکالمے، تو اصل مغل اعظم کے ہر مکالمے کے شروع اور آخر میں ”اوئے“ لگا کر انھیں مشترکہ بنایا جاسکتا ہے۔ یہ بات ہم بہ صد اصرار کہیں گے کہ برصغیر میں نہ سہی، فلم میں مرکزی کردار پاکستان ہی کو ملنا چاہیے۔ اگر سلطان راہی حیات ہوتے تو ہم ”شہزادہ سلیم“ کے کردار کے لیے انھی کا نام تجویز کرتے۔ ایسی صورت میں فلم کا اختتام یقینا کسی ایسے منظر پر ہوتا کہ ”اکبر اعظم“ دیوار میں ”چُنے“ ہوئے ”شیخو شیخو“ پکار رہے ہیں اور ”شیخو“ انارکلی کو گھوڑی پر بٹھائے گنڈاسا لہراتا ”ٹپاٹپ ٹپا ٹپ“ دوڑا چلا جارہا ہے۔

    ”شیخو“ کے کردار کے لیے ہمارے ذہن میں دوسرا نام محمد علی کا تھا۔ ایک زمانے میں ہمارے ہاں تاریخی فلمیں بناتے وقت صرف فلم ریلیز کرنے کی تاریخ کے بارے میں سوچ بچار کی جاتی تھی، باقی سارے امور طے شدہ ہوتے تھے۔ مثلاً یہی کہ مرکزی کردار محمد علی کو ادا کرنا ہے۔ وہ تو خیریت گزری کہ قائد اعظم پر فلم لولی وڈ کے کسی فلم ساز اور ہدایت کار نے نہیں بنائی، ورنہ یہ کردار بھی محمد علی کو ملتا اور ان کے جذباتی طرز بیان سے متاثر ہوکر ”انگریز“ دو تین مناظر کے بعد ہی پاکستان بنانے پر مجبور ہوجاتے اور پوری فلم صرف دس پندرہ منٹ میں نمٹ جاتی۔ اسی طرح ”جٹ تے مغل اعظم“ کی کہانی میں انارکلی کا انجام اس بات پر منحصر ہوتا کہ محمد علی اکبر بادشاہ کا کردار کرتے ہیں یا شہزادہ سلیم کا۔ خیر، نہ سلطان راہی رہے نہ محمد علی، لہٰذا اب تو جو ہیں انھی سے کام چلانا پڑے گا۔ ایسے میں بہتر ہوگا کہ انارکلی کا کردار صائمہ کو دے دیا جائے۔ ہم دعوے سے کہہ سکتے ہیں کہ ہماری یہ اداکارہ تمام بھارتی اداکاراؤں پر بھاری ہے، تاہم، ہمارے دعوے کی صداقت معلوم کرنے کے لیے آپ کو سنیما اسکرین کے بجائے ویٹ مشین سے رجوع کرنا ہوگا۔ اگر صائمہ نے انار کلی کا روپ دھارا تو اکبر اعظم کی کیا مجال کہ انارکلی کو دیوار میں چنوا سکیں۔ اوّل تو بادشاہ سلامت کی ہمت ہی نہیں ہوگی کہ مغلیہ سلطنت کی طرح ”وسیع و عریض“ اس انارکلی پر ”لشکر کشی“ کرسکیں۔ دوسرے ”ٹھیکے دار“ کا بھی یہی مشورہ ہوگا ”مہا بلی! دیوار اتنا بوجھ نہیں سہار سکے گی۔“ یوں فلم کا اختتام غم ناک ہونے کے بہ جائے خوش گوار ہوگا۔

    (معروف ادیب اور شاعر محمد عثمان جامعی کی ایک شگفتہ تحریر، وہ متعدد کتابوں کے مصنّف ہیں اور بطور طنز و مزاح نگار ادبی حلقوں میں‌ شہرت رکھتے ہیں)

  • شیر کا سفر نامہ

    شیر کا سفر نامہ

    سفر نامہ شروع کرنے سے قبل میں اپنا تعارف پیش کر دوں۔ میں کراچی کے ایک گھر میں پالا جانے والا شیر ہوں، ظاہر ہے میں کسی جنگل سے لاپتا ہو کر اس شہر میں آپہنچا، یوں میں تاریخ کا پہلا لاپتا ہوں جسے کراچی لایا گیا۔

    جب ہوش سنبھالا تو میں ایک بڑے سے بنگلے میں تھا۔ بہت دنوں تک تو پتا ہی نہ چلا کہ میں شیر ہوں۔ اڑوس پڑوس اور ارد گرد کے بنگلوں میں پَلے کُتے دیکھ کر میں سمجھتا تھا کہ میں بھی کسی اعلیٰ نسل کا کُتا ہوں۔ آئینے کا سامنا کر کے اور اپنی آواز سُن کر حیرت ہوتی کہ میں باقی کُتوں سے اتنا مختلف کیوں ہوں؟ لیکن پھر سوچتا کہ شاید میرے ماں باپ کُتوں کی اشرافیہ سے تعلق رکھتے تھے، اس لیے زیادہ کھانے کے سبب ان کا منہ بڑا ہوتا گیا اور دوسروں کو نیچا سمجھتے سمجھتے ان کی بھونک دہاڑ میں تبدیل ہوگئی۔ وہ تو اللہ بھلا کرے ”نیشنل جیوگرافک“ چینل کا جس کے طفیل اپنی آگاہی ہوئی۔

    میرا مالک کبھی کبھی مجھے اپنے پاس ڈرائنگ روم میں بٹھا لیتا اور دیوار پر نصب بڑی سی ٹی وی اسکرین پر پروگرام دیکھتا رہتا۔ ایک دن لگا ٹی وی اسکرین نہیں آئینہ دیکھ رہا ہوں۔ وہاں میرے ہم شکل ”کُتے“ جنگل میں دھاڑتے، بھاگتے دوڑتے اور ہرنوں، بھینسوں، زرافوں پر حملہ کرتے اور انھیں بھنبھوڑتے دکھائی دے رہے تھے۔ مالک کی نظر جب میرے چہرے پر پڑی تو میری آنکھوں میں حیرت اور جوش دیکھ کر وہ سہم سا گیا، اور فوراً چینل تبدیل کر کے ایک نیوز چینل لگا دیا اور ٹاک شو دیکھنے لگا۔ وہ شاید دھاڑتے اور ایک دوسرے پر جھپٹتے سیاست داں دکھا کر مجھے انسانوں سے ڈرانا اور یہ سمجھانا چاہتا تھا کہ ”کسی خوش فہمی میں نہ رہنا، ہم آدم زاد کسی بھی درندے سے زیادہ درندگی دکھا سکتے ہیں۔“ بعد میں گھر میں آنے جانے والی ایک بلّی نے مجھے بتایا،”میاں! تم شیر ہو شیر“ اسی نے مجھے شیروں کے بارے میں معلومات فراہم کیں۔

    اب آتے ہیں سفر نامے کی طرف۔ اپنے سفر نامے کی شروعات میں اس وضاحت سے کر دوں کہ میرا یہ سفر اتفاقیہ تھا، نہ میں ابن بطوطہ کی طرح کھوج لگانے نکلا تھا نہ بہت سے سیاحوں کی طرح عشق لڑانے۔ ہوا یوں کہ ایک دن سُن گُن ملی کہ میرا مالک مجھے کسی کے ہاتھ فروخت کرکے پنجاب بھیج رہا ہے۔ مجھے بہت دکھ ہوا، ایسا نہیں کہ میں فلم ”میں پنجاب نہیں جاﺅں گی“ سے متاثر تھا یا کراچی میں چائنا کٹنگ، واٹر ٹینکر، تجاوزات یا موبائل چھیننے کے دھندوں سے میرا کچھ لینا دینا ہے کہ میں کراچی چھوڑوں نہ کراچی والوں کو چھوڑوں، بس اتنی سی بات ہے کہ مجھے کراچی کی زندگی کی عادت ہوگئی تھی، اتنی کہ گوشت ملے نہ ملے، چائے نہ ملے تو بے تاب ہو جاتا، پھر میرا مالک گوشت کے بوٹوں کے ساتھ رائتہ، چٹنی، ہری مرچ رکھ دیتا تھا، بعض اوقات بریانی، نہاری اور بہاری کباب میرے سامنے سجا دیے جاتے، ایک دو بار تو مجھے بگھارے بیگن بھی کھانا پڑے۔ یہ سب کھانے کا میں ایسا شوقین ہوگیا تھا کہ ایک دو دن خالی کچا گوشت ملتا تو مالک کو دیکھ کر دل ہی دل اور آنکھوں ہی آنکھوں میں کہتا،”کیا بات ہے مامو! کنجوس ہوگئے ہو یا مہنگائی بڑھ گئی ہے؟“ غالباً ان کھانوں ہی کا اثر تھا کہ کبھی کبھی میں غرانے کی کوشش کرتا تو منہ سے اردو نکل جاتی۔

    میرے ساتھ اس بنگلے میں آباد طوطے کا کہنا تھا، ”یہ کراچی والا تمھیں بھی کھانے کے معاملے میں نخریلا بنا کر چھوڑے گا، مگر یاد رکھو کہیں اور گئے تو یہ سب لوازمات نہیں ملنے کے۔“ طوطے کی بات مجھے پریشان کیے دے رہی تھی۔ اپنا مسئلہ بلّی سے بیان کیا،”خالہ! دیکھو یہ ہو ریا ہے تمھارے بھانجے کے ساتھ۔“ خالہ بولیں،”بیٹا! پریشان کیوں ہوتا ہے، پنجاب میں تو ایک سے بڑھ کر ایک شیرِ پنجاب ہیں، وہاں تیری خوب جمے گی۔ ہوسکتا ہے تو کسی غیر حاضر شیر کی جگہ لے لے، کیوں کہ تو ہے بھی شریف۔“ پھر بڑے دکھ سے آنکھوں میں نمی لاکر بولیں،”میرے لعل! میری تیری کیا اوقات، کراچی سے تو دارالحکومت، اداروں کے صدر دفاتر شہر کے سیاسی قائدین، چلے گئے، کوئی روک نہ پایا۔ یوں سمجھ جو یہاں آیا ہے اسے جانا ہے۔“ ان کی بات سُن کر ڈھارس بندھی۔

    آخر وہ دن آہی گیا جب مجھے کراچی چھوڑ جانا تھا۔ جیسے ہی گاڑی میں بٹھایا گیا میرا دل بھر آیا، دماغ میں بھولے بسرے نغمے گونجنے لگے جیسے،”چھوڑ بابل کا گھر، موہے پی کے نگر آج جانا پڑا“،”کاہے بیاہی بدیس رے، لکھی بابل مورے۔“ گاڑی میں بیٹھ کر خیال آیا کاش جانے سے پہلے کراچی کو تھوڑا بہت دیکھ سکتا۔ شاید وہ قبولیت کی گھڑی تھی، کچھ دیر بعد گاڑی ایک جگہ رُکی تو مجھے کسی طرح باہر نکلنے کا موقع مل گیا۔

    سڑک پر قدم رکھتے ہی چاروں طرف دیکھا، ایک دیوار پر لکھا تھا،”دیکھو دیکھو کون آیا، شیر آیا شیر آیا۔“ پڑھ کر دل باغ باغ ہوگیا، لیکن بڑی حیرت بھی ہوئی کہ ابھی مجھے بنگلے سے باہر آئے چند منٹ ہی ہوئے ہیں کہ لوگوں کو پتا بھی چل گیا اور انھوں نے استقبالیہ نعرے بھی لکھ دیے! تحریر کو ذرا غور سے پڑھا تو میرا نہیں کسی اور کا ذکر تھا۔ بہ ہرحال یہ جان کر خوشی ہوئی کہ اس شہر کے باسی شیروں سے بہت محبت کرتے ہیں، اور وہ جب بھی آتا ہے اسے دیکھ کر نہال ہوجاتے ہیں۔ اس سے یہ اندازہ بھی ہوا کہ یہ جو بھی شیر ہے کم کم ہی آتا ہے۔

    کچھ آگے بڑھا تو کیا دیکھتا ہوں کہ لوگ خون تھوک رہے ہیں۔ سوچا یقیناً یہ کچا گوشت کھا کر خون اُگل رہے ہیں۔ بڑی بھوک لگی تھی، ایک خون تھوکتے صاحب کے قریب جاکر کہا،”بھیا! بھوکا ہوں، مجھے بھی کچھ کھانے کو دے دو۔“ بدتمیزی سے بولا،”ابے ہمارے اپنے کَنے کھانے کو نہیں تجھے کہاں سے کھلائیں، یہ لے گُٹکا کھا لے۔“ اس نے ایک چھوٹی سی پڑیا میری طرف بڑھا دی۔ میں نے کہا،”تمیز سے بات کرو، میں شیر ہوں، گوشت کھاتا ہوں۔“ کمینہ زور سے ہنسا اور کہنے لگا،”کس کا شیر ہے بھیّے، لندن والوں کا یا پاکستان والوں کا، جس کا بھی ہے وہ دور لد گیا، اب سارے شیر بکری ہوچکے ہیں، تو بھی بکری کی کھال پہن اور سبزی پر گزارہ کر۔“ میں نے سوچا دفع کرو کون اس جاہل کے منہ لگے، اور آگے بڑھ گیا۔

    سُنا تھا شیر سے سب ڈرتے ہیں، لیکن یہاں تو مجھ سے کوئی ذرا بھی خوف زدہ نہیں تھا۔ ابھی اس سوچ میں گُم تھا کہ ایک موٹرسائیکل پاس آکر رکی، جس پر دو لوگ بیٹھے تھے، آگے بیٹھنے والے نے ایک سخت سی چیز میری گردن پر ٹکائی اور کرخت لہجے میں بولا،”چل موبائل نکال۔“ میں نے اسے گھور کر دیکھا اور جواب دیا،”شیر موبائل نہیں رکھتے۔“ میری بات سُن کر پیچھے بیٹھا ہوا شخص اپنے ساتھی سے بولا،”کیوں ٹیم ضائع کر رہا ہے بھائی، اس کے پاس پہننے کو کپڑے نہیں موبائل کہاں ہوگا۔“ وہ تو چلے گئے مگر میں اس بے عزتی سے سلگ اُٹھا۔ اچانک پاس سے ”کھی کھی کھی“ کی آواز آئی۔ اس طرف نظر دوڑائی تو دیکھا ایک کُتا دانت نکالے کھڑا مجھے دیکھ کر ہنس رہا ہے۔ میں نے کہا،”شرم نہیں آتی، اپنے جانور بھائی کا مذاق اڑاتے ہو۔“ ہنسی روک کر بولا، ”اوہو، تو تم ہو وہ پالتو شیر جس کا تذکرہ ہر ٹی وی چینل پر ہورہا ہے۔ ”پالتو شیر“ ……اپنے نام کے ساتھ ”پالتو“ کا لفظ سُن کر مجھے بہت غصہ آیا۔ ”خبردار جو مجھے پالتو کہا“، ”چلو گھر کا شیر کہہ دیتا ہوں، بات تو وہی ہے۔“ کُتے نے پورے کُتے پن سے کہا۔ میں نے پوچھا،”ایک بات تو بتاﺅ، میں شیر ہوں، جنگل کا بادشاہ، سُنا تھا کہ میری بڑی ہیبت ہے، پھر اس شہر کے لوگ مجھ سے ڈر کیوں نہیں رہے؟“ کتے نے غور سے میری بات سُنی، پھر آرام سے بیٹھ گیا اور مجھے دیکھتے ہوئے گویا ہوا،”یہ شہر خود ایک خوف ناک جنگل ہے میرے بھائی، اور یہاں ایسے ایسے درندے ہیں جنھیں دیکھ کر شیروں کا پِتّا پانی ہوجائے۔ اس شہر کے لوگوں نے بڑے بڑے شیر دیکھے ہیں، جو آخر میں سرکس کے یا چڑیا گھر کے شیر ثابت ہوئے۔ اس لیے یہاں شیروں کا خوف رہا ہے نہ ان کی آبرو۔ اپنی خیریت چاہتے ہو تو جتنی جلد ہوسکے اس شہر سے نکل جاﺅ، ورنہ بچی کھچی عزت بھی گنوا بیٹھو گے۔“�

    یہ سننا تھا کہ میں جہاں تھا وہیں سکون سے بیٹھ گیا، پھر جانے کب آنے والے آئے اور مجھے اپنے ساتھ چڑیا گھر لے گئے۔ اب میں چڑیا گھر کے پنجرے میں بیٹھا سوچ رہا ہوں کہ اس ملک اور شہر میں کیا ہر پالتو شیر کا یہی انجام ہوتا ہے؟

    (معروف طنز و مزاح نگار محمد عثمان جامعی کی ایک تحریر)

  • حکومت ”قومی گالی“ کا بھی تعین کر ہی دے!

    حکومت ”قومی گالی“ کا بھی تعین کر ہی دے!

    گرامر کی طرح گالی کے بھی کچھ قواعد و ضوابط ہیں۔

    اگرچہ یہ قواعد و ضوابط بعض ممالک کے دساتیر کی طرح غیر تحریری ہیں، مگر ان کا احترام کچھ ریاستوں کے تحریری آئین کے مندرجات سے زیادہ کیا جاتا ہے۔ اس طرح کئی ملکوں میں گالی آئین سے کہیں زیادہ معتبر حیثیت رکھتی ہے۔ جہاں تک پاکستان میں رائج قواعدِ دشنام کا تعلق ہے تو ہمارے یہاں تین قسم کی گالیاں مروج ہیں۔

    1- موٹی سی گالی
    2- چھوٹی سی گالی
    3- جھوٹی سی گالی

    اور ان گالیوں کی مزید کئی قسمیں ہیں۔ ویسے ہماری سمجھ میں نہیں یہ آتا کہ گالی کو خلافِ اخلاق اور بدتہذیبی کی علامت کیوں سمجھا جاتا ہے؟ آخر گالی میں ایسی کون سی بات ہے جسے اخلاقیات کے ضابطوں سے روگردانی قرار دیا جائے؟ ہمارے سوالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے ذرا مروجہ گالیوں کے عناصر ترکیبی پر غور کیجیے!………. آپ کو ان گالیوں میں فقط وہ لوازمات ملیں گے جن کے بغیر ہماری زندگی نامکمل ہے۔ مثلاً بنیادی انسانی رشتے، ضروری جسمانی اعضا اور ناگزیر افعال۔ ان لوازمات کو مناسب ترتیب دینے سے گالی وجود میں آجاتی ہے۔ ان عناصر کے ”ظہورِ ترتیب“ پر ناک بھوؤں چڑھانا اور انھیں اجزائے پریشاں کی صورت میں دیکھ اور سُن کر کوئی اعتراض نہ کرنا………آپ ہی بتائیے، یہ کہاں کا انصاف ہے؟

    ہم تو سمجھتے ہیں کہ تہذیب و ثقافت، رسم و رواج، علوم و فنون اور آثارِ قدیمہ کی طرح کسی قوم کی گالیاں بھی اس کی پہچان ہوا کرتی ہیں۔ کیا اچھا ہو کہ حکومتِ پاکستان ہمارا ”فلسفۂ مغلظات“ تسلیم کرتے ہوئے گالیوں کو بھی قومی ورثہ قرار دے دے۔ قومی پھول، قومی کھیل اور قومی جانور کی طرح ”قومی گالی“ کا بھی تعین کر دیا جائے۔ قومی گالی کے تعین کے سلسلے میں کراچی اور پنجاب کے درمیان چشمک ہوسکتی ہے۔ مشاعروں اور ادبی نشستوں کی طرح ملک بھی میں ”گالی بازی“ پر نشستیں منعقد ہوں، جن میں ”گالی باز“ یا دشنام طراز اپنی نئی نئی گالیاں پیش کرکے داد حاصل کریں۔ گالیوں پر تنقیدی نشستیں ہوں، جن میں نقاد گالیوں کے بارے میں اپنی آراء کا اظہار کریں اور تنقیدی نظریات کی روشنی میں یہ ثابت کریں کہ کون سی گالی سماج کی آئینہ دار ہو کر ترقی پسندی کے رجحان کا پتا دے رہی ہے، کس میں علامتی انداز اختیار کیا گیا ہے۔ کون سی گالی فطری ہے اور کون سی غیر فطری۔ کس دشنام طراز کی تخلیق شعور کی لہر کا نتیجہ ہے اور کس گالی باز کی کاوش منفرد لب و لہجہ رکھتی ہے۔ ہمارے خیال میں یہ اپنی نوعیت کی واحد تنقیدی نشستیں ہوں گی، جن میں نقّاد تنقید سے پہلے گالیاں سنیں گے!

    پاکستانی گالیوں کے عالمی سطح پر فروغ کے لیے ملک میں اور بیرون ملک پاکستانی گالیوں کی نمائشیں بھی منعقد کی جاسکتی ہیں۔ ان نمائشوں میں قدیم اردو شعرا کی ہجویات سے لے کر دورِ حاضر کے سیاست دانوں کی مغلظات تک پھیلے ہمارے عظیم ”دشنامی ورثے“ کو ”سُن“ کر غیرملکیوں کو اندازہ ہوجائے گا کہ ہم کوئی ”ایویں“ قوم نہیں بلکہ گالیوں کی ایک طویل روایت سے جڑے ہوئے ہیں۔

    اگر حکومت نے ہمارا پیش کردہ ”فلسفۂ مغلظات“ اپنا لیا اور اسے عملی شکل دے دی تو یقین مانیے ہماری کرخت گالیاں راتوں رات ہمارا وہ ”سوفٹ امیج“ بنا دیں گی، جس کے لیے حکومت ایک مدت سے کوشاں ہے۔

    (معروف مزاح نگار، شاعر اور صحافی محمد عثمان جامعی کی ایک شگفتہ تحریر، یہ مزاح پارے مصنّف کی کتاب "کہے بغیر” سے مقتبس ہیں)