Tag: محمد علی

  • محمد علی: پاکستانی فلم انڈسٹری کا ناقابلِ‌ فراموش نام

    محمد علی: پاکستانی فلم انڈسٹری کا ناقابلِ‌ فراموش نام

    محمد علی فلم انڈسٹری میں ’’بھیا‘‘ مشہور تھے۔ ان کی فلمیں یادگار بھی ہیں اور بطور اداکار محمد علی کو ایک بے مثال فن کار کے طور پر پیش کرتی ہیں کہ وہ اپنے طرز کے واحد اداکار تھے جن پر پاکستان اور ہندوستان کے کسی بھی دوسرے اداکار کی چھاپ نہیں تھی۔

    اداکار محمد علی 19 اپریل 1931 کو بھارت کے شہر رامپور میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا خاندان 1947ء میں تقسیم کے بعد ہندوستان سے کراچی ہجرت کر گیا تھا۔ محمد علی نے 1956ء میں ریڈیو پاکستان حیدرآباد اسٹیشن میں بطور براڈ کاسٹر شمولیت اختیار کی۔ بعد ازاں وہ ریڈیو پاکستان کراچی چلے گئے جہاں اس وقت کے ڈائریکٹر جنرل ذوالفقار علی بخاری ان کی اداکاری کے لئے ان کے سرپرست بن گئے۔ محمد علی نے اپنے منفرد انداز سے اداکاری کی دنیا کو ایک نئی بلندی سے ہم کنار کیا اور بے مثال کام کیا۔ ان کے فلمی سفر کا آغاز فلم چراغ جلتا رہا سے ہوا تھا اور پھر وہ شوبز کی نگری کا معتبر اور بڑا حوالہ بن گئے۔ بلاشبہ محمد علی کردار میں اس قدر ڈوب جاتے کہ اس پر حقیقت کا گماں ہوتا۔ انہیں اپنی آواز کے اتار چڑھاؤ پر کمال عبور حاصل تھا۔ ان کی آواز اور لب و لہجہ دیگر فن کاروں سے انہیں نمایاں کرتا تھا۔ محمد علی نے اداکارہ شبنم، بابرہ شریف اور دیبا سمیت ماضی کی تمام معروف اداکاراؤں کے ساتھ بطور ہیرو کام کیا، لیکن زیبا کے ساتھ ان کی جوڑی بے حد مقبول ہوئی اور پھر حقیقی زندگی میں بھی وہ رشتہ ازدواج سے منسلک ہوئے اور اس جوڑی نے فلم
    بینوں سے ہی نہایت عزت اور احترام نہیں پایا بلکہ فن و ثقافت کے ہر شعبہ میں وہ ایک مثالی جوڑا سمجھا گیا۔

    محمد علی نے آگ کا دریا، انسان اور آدمی، شمع، آئینہ اور صورت، کنیز اور صاعقہ سمیت درجنوں فلموں میں کام کیا اور فن اداکاری میں اپنا لوہا منوایا۔ ورسٹائل اداکار محمد علی کو تمغائے امتیاز اور تمغائے حسنِ کارکردگی سے نوازا گیا تھا۔ 19مارچ 2006ء کو اداکار محمد علی کا انتقال ہوگیا تھا۔

    محمد علی ان اداکاروں میں سے تھے جو ہر قسم کے کردار کو نبھانا جانتے تھے۔ چاہے وہ المیہ سین ہو یا کامیڈی، چاہے کسی جنگجو ہیرو کا کردار ادا کرنا ہو یا رومانی ہیرو کے طور پر کوئی گانا عکس بند کروانا ہو۔ اداکار محمد علی کی شخصیت ایسی تھی کہ وہ ہر طبقہ سماج کے فلم بینوں میں پسند کیے گئے۔ وہ ذاتی زندگی میں ایک شریف النفس اور دوسروں کے مددگار انسان کے طور پر مشہور تھے۔

  • وہ پاکستانی فلم جس نے انڈسٹری کو مایہ ناز فن کار دیے

    وہ پاکستانی فلم جس نے انڈسٹری کو مایہ ناز فن کار دیے

    جب پاکستانی فلمی صنعت کی بنیاد رکھی گئی تو مشہور و معروف فلم سازوں کے ساتھ فن کاروں کی ایک بڑی تعداد سامنے آئی جنھوں نے اس انڈسٹری کو بامِ عروج پر پہنچایا اور اپنے فن اور یادگار فلموں کے سبب بے مثال شہرت سمیٹی۔ اداکاروں کی بات کی جائے تو چند نام ایسے تھے جن کو پہلی ہی فلم نے ملک گیر شہرت اور مقبولیت دی اور وہ دہائیوں تک فلم انڈسٹری پر راج کرتے رہے۔

    فلم ’’چراغ جلتا رہا‘‘ کی بات کی جائے تو یہ اس لحاظ سے ایک یادگار فلم ثابت ہوئی کہ اس کی بدولت فلمی انڈسٹری کو اداکار محمد علی، کمال ایرانی اور اداکارہ زیبا اور دیبا جیسے نام ملے جنھوں نے فلمی پردے پر راج کیا۔ 9 مارچ 1962ء کو ریلیز ہونے والی فلم "چراغ جلتا رہا” فضل احمد کریم فضلی کی یاد بھی تازہ کرتی ہے جو اس کے فلم ساز اور ہدایت کار ہی نہیں کہانی نگار بھی تھے۔ انھوں نے کراچی کے علاقہ ناظم آباد میں ایک فلمی ادارہ قائم کیا تھا اور وہیں اس فلم کو بنانے کا اعلان کیا تھا۔ فضلی صاحب نے اپنی فلم میں نئے فن کاروں کو متعارف کروانے کا رسک لیا اور کام یاب بھی ہوئے۔ انھوں نے ناظم آباد کی رہائشی نوجوان لڑکی ’’شاہین‘‘ کو فلم میں ’’زیبا‘‘ کے نام سے بہ طور ہیروئن کاسٹ کیا۔ اس کے ساتھ محمد علی جو ان دنوں تھیٹر اور ریڈیو پر کام کرتے تھے، انھیں بھی چانس دیا۔ فلم کی موسیقی نہال عبداللہ کی ترتیب دی ہوئی تھی اور میر تقی میر، مرزا غالب کے علاوہ جگر مراد آبادی، ماہر القادری جیسے شعرا کا کلام اس فلم میں‌ شامل تھا۔

    یہ فلم اس لیے بھی پاکستانی فلمی صنعت میں اہمیت رکھتی ہے اور یادگار ہے کہ کراچی کے نشاط سنیما میں مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح نے اس کی اوّلین نمائش کی تقریب میں شرکت کی تھی۔ اس فلم کے دو نغمات مشہور بھارتی گلوکار طلعت محمود کی آواز میں‌ ریکارڈ کیے گئے تھے۔

    ایک طرف یہ فضل احمد کریم فضلی کی پہلی کاوش تھی اور دوسری طرف محمد علی اور زیبا بھی پہلی بار بڑے پردے پر نمودار ہوئے۔ بعد میں لیجنڈری اداکار محمد علی کی شادی اداکارہ زیبا سے ہوئی اور اس جوڑی نے بہت عزت اور احترام پایا۔ ٹی وی اور فلم کے معروف اداکار طلعت حسین نے اس فلم میں پہلی بار کام کیا تھا اور وہ اداکارہ دیبا کے چھوٹے بھائی بنے تھے۔

    فلم کا ایک اہم کردار شاکر تھا جس کے گرد فلم کی کہانی گھومتی ہے اور یہ کردار ریڈیو کے فن کار وحید محمود نے ادا کیا تھا۔ وہ ایک اسکول کے ہیڈ ماسٹر بنے تھے، جو نہایت ایمان دار، اصول پرست اور شریف شخص ہوتا ہے۔ اس کہانی میں شاکر (وحید محمود) کو اپنے قصبے کے ایک خود غرض اور لالچی سیاست داں کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو اپنی بیٹی جمیلہ (زیبا) کی شادی شاکر کے بیٹے جمیل (عارف) سے کرنے کو کہتا ہے اور شاکر کی عزت اور نیک نامی کا فائدہ اٹھا کر اپنے سیاسی مقاصد کی تکمیل چاہتا ہے۔ لیکن شاکر انکار کر دیتا ہے اور پھر اسے سیاست داں اپنے اثر و رسوخ کی بنیاد پر نوکری سے برخاست کروا دیتا ہے۔ ادھر جمیلہ اور جمال کا رشتہ طے کردیا جاتا ہے، جب کہ شاکر اپنے بیٹے جمیل کو کراچی بھیج کر خود اپنی بیٹی صبا (دیبا) اور منّے (طلعت حسین) کے ساتھ کسی اور گاؤں چلا جاتا ہے۔ اس گاؤں کا نواب محمود (کمال ایرانی) اسے اپنے گاؤں میں رہنے کی اجازت دے دیتا ہے۔ یہ کردار دوسروں کو اپنا نام ایاز بتاتا ہے۔ ایاز بن کر وہ لوگوں کے دکھ اور تکلیفوں کا پتہ لگاتا ہے، اور کسی کو علم نہیں ہوتا کہ یہ نواب محمود ہے۔ اسی نواب کا چھوٹا بھائی افسر خان (محمد علی) فطرتاً ایک ہوس پرست شخص تھا، وہ ایک روز شاکر کی بیٹی صبا پر اپنی بری نظر ڈالتا ہے۔ بدقسمتی سے اصول پرست اور خود دار شاکر کی بیگم (صفیہ) ایک لالچی عورت ہوتی ہے، اور افسر خان سے صبا کی شادی پر رضامند ہوجاتی ہے جس کی شاکر مخالفت کرتا ہے۔ بیگم کو افسر خان کا بھائی بھی اس شادی سے منع کرتا ہے، مگر وہ نہیں مانتی اور حالات بدلتے ہیں تو ایک روز افسر خان صبا کو اغوا کرنے کا پروگرام بناتا ہے۔
    شاکر اپنی بیٹی کے اغوا کے بعد کراچی اپنے بیٹے جمیل کے پاس پہنچتا ہے۔ جمیل ایک پبلشر نبی احمد کے پاس رہ رہا ہوتا ہے، وہیں جمیلہ بھی موجود ہوتی ہے۔ افسر خان بھی اسی پبلشر کا مہمان بن کر اس کے گھر میں آتا ہے۔ جمیلہ کو دیکھ کر وہ اسے اپنی بیوی بنانے کا سوچتا ہے، لیکن جب اسے پتہ چلتا ہے کہ وہ جمیل کو چاہتی ہے، تو افسر خان جمیل کو نوکری دلانے کے چکر میں ڈھاکا بھیج دیتا ہے، تا کہ جمیلہ سے شادی کر سکے۔ شاکر دوبارہ اپنے قصبے کی طرف روانہ ہوتا ہے، جہاں اسٹیشن پر اس کی ملاقات اپنی بیٹی صبا سے ہوتی ہے، جو اسے بتاتی ہے کہ افسر خان نے شادی کا دھونگ رچا کر اس کی عزت برباد کردی ہے، یہ سن کر شاکر افسر خان کے پاس جاتا ہے اور کہتا ہے کہ صبا کو اپنی بیوی تسلیم کرے، ورنہ اسے عدالت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یہ سن کر افسر خان اپنے تعلقات سے شاکر کو جیل کروا دیتا ہے۔ جب جمیل کو سارے حالات کا پتہ چلتا ہے، تو وہ گاؤں آکر افسر خان کو ختم کرنے جاتا ہے، لیکن وہ اسے پولیس کے ذریعے گرفتار کرا دیتا ہے۔ جیل میں باپ اور بیٹے کی ملاقات ہوتی ہے۔ جمیل شاکر اپنے اچھے کردار کی وجہ سے تمام قیدیوں کی نظر میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ ایک روز افسر خان کا ساتھی پولیس کے ہتھے چڑھ جاتا ہے، اور افسر خان کے سارے مظالم سے پردہ ہٹا دیتا ہے۔ افسر خان کو پولیس پکڑ لیتی ہے۔ جمیل اور جمیلہ کی شادی ہوجاتی ہے۔ شاکر کی ساری تکلیفیں دور ہو جاتی ہیں اور ایک نئی صبح کا چراغ جلتا ہے۔

    یہ ایک کام یاب فلم تھی جس کے ہیرو عارف کی اداکاری کو بھی فلم بینوں نے پسند کیا تھا، لیکن وہ دوبارہ بڑے پردے پر نظر نہیں‌ آئے۔

  • سابق نگراں وفاقی وزیر شہباز شریف کابینہ کا حصہ بن گئے

    سابق نگراں وفاقی وزیر شہباز شریف کابینہ کا حصہ بن گئے

    اسلام آباد : وزیراعظم شہباز شریف نے سابق نگراں وفاقی وزیر محمد علی کو معاون خصوصی برائےتوانائی تعینات کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق سابق نگراں وفاقی وزیر محمدعلی شہبازشریف کابینہ کا حصہ بن گئے۔

    وزیراعظم نے محمد علی کو معاون خصوصی برائےتوانائی تعینات کردیا ، جس کے بعد کابینہ ڈویژن نے نئے معاون خصوصی کی تعیناتی کا نوٹیفکیشن جاری کردیا۔

    نوٹیفکیشن میں کہا گیا کہ معاون خصوصی محمد علی کا عہدہ وزیرمملکت کے برابر ہوگا اور بطورمعاون خصوصی محمد علی کی تعیناتی کا اطلاق فوری ہوگا۔

    محمد علی نگراں دور میں وفاقی وزیر برائے توانائی و پیٹرولیم رہ چکے ہیں جبکہ ماضی میں انھوں نےآئی پی پیز سے مذاکرات اور فرانزک آڈٹ کی سفارش کی تھی۔

  • اضافی بجلی موجود ہے ، اس کے باوجود ہم لوڈ شیڈنگ کررہے ہیں،  نگران وزیر توانائی

    اضافی بجلی موجود ہے ، اس کے باوجود ہم لوڈ شیڈنگ کررہے ہیں، نگران وزیر توانائی

    اسلام آباد : نگران وفاقی وزیر توانائی وپیٹرولیم محمد علی کا کہنا ہے کہ پاکستان بجلی کے فی کس استعمال میں کم ترین سطح پر ہے، اضافی بجلی موجود ہے اس کے باوجود ہم لوڈ شیڈنگ کررہے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق نگران وفاقی وزیر توانائی وپیٹرولیم محمد علی نے دی فیوچرسمٹ سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ سائنس وٹیکنالوجی مستقبل ہےاور دنیا میں فاصلے گھٹ جائیں گے، ہمیں جن مسائل کا سامناہےانکی ہم نےمنصوبہ بندی نہیں کی تھی۔

    محمد علی کا کہنا تھا کہ پاکستان کا ٹیکس سے جی ڈی پی کا تناسب 10 فیصد سے کم ہے جوکم ترین تناسب ہے، پاکستان کاماضی میں فی کس جی ڈی پی پڑوسی ملکوں سے زیادہ تھا لیکن ہم غیر دستاویزی معیشت،ہنڈی حوالہ ، بجلی و گیس چوری میں پھنس گئے، لوگ بل ادا نہیں کرتے ہیں جس کی وجہ سے دیگر لوگوں کو ان کا بل ادا کرنا پڑتا ہے۔

    نگران وفاقی وزیر نے بتایا کہ توانائی کسی ملک کی لائف لائن ہے پاکستان میں بڑی آبادی کوتوانائی تک رسائی نہیں ، دیہات میں لوگ آج بھی لکڑی جلا رہے ہیں، پاکستان منصوبہ بندی اور پالیسی سازی میں پیچھے رہ گیا ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ پاکستان بجلی کے فی کس استعمال میں کم ترین سطح پر ہے، اضافی بجلی موجود ہے اس کے باوجود ہم لوڈ شیڈنگ کررہے ہیں، پاکستان میں بجلی کی پیداوار، ترسیل اور تقسیم کی منصوبہ بندی نہیں کرسکے ہیں۔

    گیس کے شعبے کے‌ حوالے سے محمد علی نے کہا کہ گیس کے شعبے میں قیمت نہ بڑھنے سے مسائل ہوئے درآمدی بل بڑھا ہے تاہم حکومت توانائی کے شعبے میں اصلاحات کررہی ہے، گردشی قرضہ کم کرنے کے لئے کام کررہی ہے اور بجلی کے شعبے میں کیپسٹی ادائیگیوں کو حل کرنے کی کوشش کررہی ہے۔

    نگراں وزیر نے زور دیا کہ پاکستان کو برآمدات اور برآمدات پر توجہ دینے کے لئے بہت سے اقدامات کرنا ہوں گے، مہنگی توانائی کی وجہ سے صنعتیں برآمدی شعبے میں مقابلہ نہیں کرسکیں گی۔

  • ویڈیو: ’میں جس رنگ کے کپڑے پہنتا ہوں، آنکھیں بھی اسی رنگ کی ہو جاتی ہیں‘

    ویڈیو: ’میں جس رنگ کے کپڑے پہنتا ہوں، آنکھیں بھی اسی رنگ کی ہو جاتی ہیں‘

    اللہ جسے چاہے اپنے قدرت کے انوکھے تحائف سے نوازے، جسے چاہے کرشمہ بنا دے۔

    ٹوبہ ٹیک سنگھ کے 22 سالہ شہری محمد علی کو خدا نے ایک منفرد اور خوب صورت تحفے سے نوازا ہے، وہ جس رنگ کا لباس پہنتے ہیں، ان کی آنکھیں بھی اسی رنگ میں تبدیل ہو جاتی ہیں۔

    لوگ جب یہ سنتے ہیں تو یقین ہی نہیں کر پاتے، لیکن پھر ان کی آنکھوں کا بدلتا رنگ دیکھ کر دنگ رہ جاتے ہیں۔

    محمد علی نے بتایا کہ ’میں جس رنگ کے کپڑے پہنتا ہوں، میری آنکھیں بھی اسی رنگ کی ہو جاتی ہیں۔‘ انھوں ںے کہا کہ صرف تین رنگ ایسے ہیں جن کے پہننے سے رنگ تبدیل نہیں ہوتا، باقی ہر رنگ آنکھوں پر اثر انداز ہوتا ہے اور آنکھوں کا رنگ تبدیل ہو جاتا ہے۔

    محمد علی نے بتایا کہ سبز رنگ کے تمام شیڈز آنکھوں میں آ جاتے ہیں، اسی طرح نیلے رنگ کے شیڈز والی شرٹ اگر پہن لوں تو وہ بھی صاف طور سے آنکھوں میں آ جاتے ہیں، ان کے علاوہ سفید رنگ ہے جس کی وجہ سے آنکھوں کا رنگ بدل جاتا ہے۔

    محمد علی کے مطابق ان کی آنکھوں کا بنیادی رنگ خاکی (گرے) ہے، اور کالا ایسا رنگ ہے جس کا اثر آنکھوں میں خاص محسوس نہیں ہوتا۔ عام لوگ تو کہتے ہیں کہ ہاں تبدیل ہوا ہے رنگ لیکن جب کیمرے سے دیکھتے ہیں تو وہ اس میں پکڑا نہیں جاتا۔

    انھوں نے بتایا کہ کالے رنگ کے علاوہ پیلے اور لال رنگ کے شیڈز بھی ان کی آنکھوں میں نہیں آتے۔ ان رنگوں کے علاوہ کچھ شیڈز بالکل صاف طور سے آنکھوں میں آتے ہیں جب کہ کچھ ہلکے آ جاتے ہیں۔

    محمد علی نے بتایا کہ جب وہ کسی رنگ کے کپڑے پہنتے ہیں تو پھر 30 سے 35 سیکنڈ کا وقت لگتا ہے آنکھوں کا رنگ تبدیل ہونا شروع ہونے میں، لیکن رنگ مکمل تبدیل ہونے میں 4 سے 5 منٹ لگ جاتے ہیں۔

    محمد علی کا کہنا ہے کہ انھیں اس معاملے سے کبھی کوئی مسئلہ نہیں ہوا، اس لیے انھوں نے کبھی ڈاکٹر سے اس سلسلے میں رجوع نہیں کیا۔ انھوں نے کہا کہ گوگل پر اس حوالے سے سرچ کیا لیکن انھوں نے اس خصوصیت کے ساتھ کسی اور کو نہیں دیکھا۔

    جب محمد علی نے جاب شروع کی تو لوگ ان سے پوچھنے لگے کہ کیا وہ لینس استعمال کرتے ہیں، لیکن وہ جواب دیتے کہ یہ قدرتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ بہ طور ماڈل اپنا کیریئر بنانا چاہتے ہیں۔

  • محمد علی کی طاقت اور ہمت کی پوری دنیا معترف ہے،وزیراعظم

    محمد علی کی طاقت اور ہمت کی پوری دنیا معترف ہے،وزیراعظم

    اسلام آباد: وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ محمد علی کی طاقت اور ہمت کی پوری دنیا آج بھی معترف ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر وزیراعظم عمران خان نے اپنے پیغام میں کہا کہ باکسر محمدعلی ایک عظیم اسپورٹس مین تھے۔

    انہوں نے کہا کہ وہ ناصرف باصلاحیت اور ذہین تھے بلکہ ان کے اعتقادات بھی عظیم تھے،وہ مادی نظریات سے بالا انسان کی تخلیق کے مقصد کو سمجھتے تھے۔

    وزیراعظم کا کہنا تھا کہ محمدعلی نے اپنے اعتقادات کی اس وقت حفاظت کی جب وہ پیسہ کماسکتے تھے،محمدعلی نے کھیل کے بہترین سالوں میں مشکلات کا مقابلہ کرتے ہوئے قربانی دی۔انہوں نے اپنے پیغام میں مزید کہا کہ محمدعلی کی طاقت اور ہمت کی پوری دنیا آج بھی معترف ہے۔

  • لیجنڈ اداکار محمد علی کو اپنے مداحوں سے بچھڑے تیرہ برس بیت گئے

    لیجنڈ اداکار محمد علی کو اپنے مداحوں سے بچھڑے تیرہ برس بیت گئے

    لاہور: مفرد انداز اور مخصوص لب ولہجے کے مالک اداکار محمد علی کی 13ویں برسی آج منائی جارہی ہے۔

    محمد علی نے اپنے فنی سفر کا آغاز ریڈیو پاکستان حیدرآباد سے کیا، محمدعلی کو فلمساز فضل احمد کریم فضلی نے اپنی فلم چراغ جلتا رہا میں بطور ہیرو کاسٹ کیا، اس زمانہ میں لالہ سدھیر، سنتوش کمار، درپن اور رحمٰن کے ستارے عروج پر تھے۔

    فلم بینوں کی اکثریت نے محمدعلی کو پہلی ہی فلم میں بطور ہیرومقبولیت کی سند بخشی، محمدعلی کے ساتھ زیبا بطورہیروئن آئیں تو یہ جوڑی نہ صرف فلمی برانڈبن گئی بلکہ فلم کی کامیابی کی ضمانت بھی بنی۔

    اداکارمحمد علی 10 نومبر 1938ء کو ہندوستان کے شہر رامپور کے مذہبی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ محمد علی نے اپنے کیریئر کا آغاز ریڈیو پاکستان حیدر آباد سے کیا اور 1962ء میں ان کی پہلی فلم ‘چراغ جلتارہا’ ریلیز کی گئی جبکہ محمد علی کی اور مقبول فلم ‘شرارت’ 1964ء میں ریلیز ہوئی۔

    انہوں نے چار دہائیوں تک سلوراسکرین پر حکمرانی کرکے کروڑوں فلم بینوں کے دلوں پر راج کیا، محمد علی نے 300 سے زائد فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھائے جن میں پنجابی فلمیں بھی شامل ہیں۔ منفرد انداز، آواز کے اتار چڑھاؤ پر مکمل دسترس اور حقیقت سے قریب تر اداکاری نے محمد علی کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔

    محمد علی کی مشہور فلموں میں جاگ اٹھا انسان‘خاموش رہو‘ ٹیپو سلطان‘ جیسے جانتے نہیں‘آ گ‘ گھرانہ‘ میرا گھر میری جنت‘ بہاریں پھر بھی آئیں گی‘ محبت‘ تم ملے پیار ملا اور دیگر بہت سی فلمیں شامل ہیں۔

    محمد علی نے جس اداکارہ کے ساتھ بھی کام کیا ان کی جوڑی خوب سجی، محمد علی کا شمار ورسٹائل اداکاروں میں ہوتا تھا۔ انہوں نے کئی کریکٹر رول اور منفی رول بھی بڑی کامیابی سے پرفارم کئے۔

    انیس مارچ سنہ دوہزارچھ کو محمدعلی لاہور میں وفات پاگئے، محمدعلی نے پاکستان کی فلم انڈسٹری پر اپنی اداکاری کے گہرے نقوش چھوڑے۔

  • عظیم باکسر محمد علی کی پہلی برسی

    عظیم باکسر محمد علی کی پہلی برسی

    لیجنڈ باکسر محمد علی کو اس دنیا سے گزرے آج ایک برس بیت گیا۔ حوصلے اور عزم کا استعارہ محمد علی ایک عظیم کھلاڑی ہی نہیں عظیم انسان بھی تھے۔

    گزشتہ برس آج ہی کے روز سابق امریکی باکسر محمد علی کو سانس کی تکلیف کے باعث اسپتال لے جایا گیا تھا جہاں وہ کچھ دیر زیر علاج رہنے کے بعد 74 سال کی عمر میں چل بسے۔ محمد علی 3 دہائیوں سے پارکنسن سمیت متعدد بیماریوں میں مبتلا تھے۔

    محمد علی ایک درد مند انسان تھے۔ وہ اکثر و بیشتر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر آواز اٹھایا کرتے تھے۔

    مزید پڑھیں: لیجنڈ باکسر محمد علی کی یادگار تصاویر

    ویت نام جنگ کے دوران محمد علی نے امریکی فوج میں شامل ہونے کے عہد نامے پر دستخط کرنے سے انکار کردیا تھا جس کے بعد انہیں ان کے اولمپک چیمپئن شپ کے اعزازات سے محروم کر کے 5 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ بعد ازاں سپریم کورٹ نے عوامی احتجاج کو مدنظر رکھتے ہوئے محمد علی کو سزا سے مستثنیٰ قرار دیا تھا۔

    محمد علی زندگی کو ایک مثبت نظر سے دیکھنے کے عادی تھے۔ آج ان کی برسی کے موقع پر ان کے زریں خیالات و اقوال یقیناً آپ کی زندگی بدلنے میں مددگار ثابت ہوسکیں گے۔

    دوستی ایسی چیز نہیں جو آپ کسی تعلیمی ادارے میں سیکھیں، بلکہ اگر آپ نے دوستی کے صحیح معنی نہیں سیکھے، تو آپ نے کچھ نہیں سیکھا۔

    مجھے اپنی ٹریننگ کا ہر لمحہ برا لگتا تھا، لیکن میں نے سوچا کہ مجھے رکنا نہیں چاہیئے۔ میں ابھی تکلیف اٹھاؤں گا تو ساری زندگی چیمپئن کہلاؤں گا۔

    جو شخص مشکلات کا سامنا کرنے کا حوصلہ نہیں رکھتا وہ کبھی کچھ حاصل نہیں کر سکتا۔

    اگر تم مجھے ہرانے کا خواب بھی دیکھو، تو بہتر ہے کہ تم جاگ جاؤ اور اپنے اس خواب کی معافی مانگو۔

    قوم آپس میں جنگیں نقشوں میں تبدیلی لانے کے لیے لڑتی ہیں۔ لیکن غربت سے لڑی جانے والی جنگ زندگیوں میں تبدیلی لاتی ہے۔

    میں نے زندگی میں بہت سی غلطیاں کیں، لیکن اگر میں اپنی زندگی میں کسی ایک شخص کی زندگی بھی بہتر کرنے میں کامیاب رہا تو میری زندگی رائیگاں نہیں گئی۔

    جو شخص خواب نہیں دیکھتا، وہ کبھی بھی اونچا نہیں اڑ سکتا۔

    کاش کہ لوگ دوسروں سے بھی ویسے ہی محبت کرتے جیسے وہ مجھ سے کرتے ہیں۔ اگر وہ ایسا کریں تو دنیا بہت خوبصورت ہوجائے گی۔

    ویت نام کی جنگ میں شامل ہونے سے انکار کرنے کے بعد محمد علی نے کہا، ’یہ مجھ سے کیوں توقع رکھتے ہیں کہ میں یونیفار م پہن کر اپنے گھر سے 10 ہزار میل دور جاؤں، اور کالوں پر گولیاں اور بم برساؤں؟ یہ تو اپنے ہی ملک میں نیگرؤوں سے کتوں جیسا سلوک کرتے ہیں‘۔

    محمد علی زندگی کے بارے میں کہتے تھے۔

    زندگی بہت چھوٹی ہے۔ ہم بہت جلدی بوڑھے ہوجاتے ہیں اور مرجاتے ہیں۔ یہ ایک احمقانہ بات ہے کہ ہم لوگوں سے نفرت کرنے میں اپنا وقت ضائع کردیں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • تاریخ کے دریچے کھولتی چند نادر تصاویر

    تاریخ کے دریچے کھولتی چند نادر تصاویر

    دنیا کا ہر بڑا شخص پیدا ہوتے ہی مشہور اور کامیاب نہیں بن جاتا۔ کامیابی حاصل کرنے سے پہلے اس کی زندگی بھی ہماری اور آپ کی طرح معمولی انداز میں گزرتی ہے بس فرق صرف انتھک محنت اور لگن کا ہوتا ہے۔

    آج ہم آپ کو مشہور شخصیات کی کچھ نادر و نایاب تصاویر دکھا رہے ہیں جن کو دیکھ کر شاید آپ کو حیرت کا جھٹکا لگے۔ کیونکہ آپ نے ان معروف اور کامیاب شخصیات کو کبھی ایسا تصور نہیں کیا ہوگا۔ یہ تصاویر ان کے کامیاب ہونے سے قبل یا جدوجہد کے ابتدائی دور کی ہیں۔

    ان میں بہت سی تصاویر میں آپ اپنی زندگی سے مماثلت بھی پا سکتے ہیں۔ اگر ایسا ہے تو پھر خوش ہوجایئے کہ آپ بھی بہت جلد کامیاب افراد کی فہرست میں شامل ہونے والے ہیں۔

    10

    ذرا بائیں جانب کونے میں کھڑے شخص کو غور سے دیکھیئے۔ یہ کوئی اور نہیں روس کے موجودہ صدر ولادی میر پیوٹن ہیں اور یہ تصویر 60 کی دہائی میں کھینچی گئی۔

    1

    مشہور باکسر، اداکار اور کیلیفورنیا کے سابق گورنر آرنلڈ شیوازینگر کی کامیابی کی کہانی سے کون واقف نہیں۔ فلم ٹرمینیٹر کے مرکزی اداکار آرنلڈ کی یہ تصویر سنہ 1968 کی ہے جب وہ پہلی بار نیویارک آئے۔

    3

    سنہ 1977 ۔ دنیا کے امیر ترین شخص اور مائیکرو سافٹ کمپنی کے مالک بل گیٹس کو ان کی نوجوانی کے زمانے میں بغیر لائسنس ڈرائیونگ کرنے پر گرفتار کیا گیا۔
    4

    سنہ 1977 ۔ امریکی صدر بارک اوباما اپنی باسکٹ بال ٹیم کے کھلاڑیوں کے ہمراہ۔

    2

    سنہ 1981 ۔ مشہور باکسر محمد علی ایک خودکشی پر مائل شخص کو اس کے ارادے سے باز رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

    5

    سنہ 1928 ۔ مشہور فلم ساز کمپنی ایم جی ایم کا لوگو جس میں ایک شیر چنگھاڑتا ہوا نظر آتا ہے، کچھ یوں فلمایا گیا۔

    6

    سنہ 1931 ۔ اپنے شعبوں کی دو باکمال شخصیات، خاموش فلموں کے اداکار چارلی چپلن (بائیں) اور معروف سائنسدان آئن اسٹائن (دائیں)۔

    7

    برطانوی ملکہ الزبتھ دوسری جنگ عظیم کے دوران فوج کا حصہ رہیں۔

    8

    سنہ 1981 ۔ جراسک پارک جیسی شاندار سائنسی فلمیں تخلیق کرنے والے ہدایت کار اسٹیون اسپیل برگ۔ ان کی گود میں بیٹھی بچی ہالی ووڈ کی معروف اداکارہ ڈریو بیری مور ہے۔

    9

    سنہ 1991 ۔ سائنس اور کمپیوٹر کی دنیا کو نئی جہتیں دینے والے دو عظیم دماغ، بل گیٹس (دائیں) اور ایپل کے بانی اسٹیو جابز (بائیں)۔

    تصاویر بشکریہ: برائٹ سائیڈ

  • لیجنڈری باکسر محمد علی کے لیے سینیٹ و قومی اسمبلی میں فاتحہ خوانی

    لیجنڈری باکسر محمد علی کے لیے سینیٹ و قومی اسمبلی میں فاتحہ خوانی

    اسلام آباد: سینیٹ میں دنیا کے عظیم باکسر محمد علی کے انتقال پر تعزیتی قرارداد منظور کرتے ہوئے ان کے ایصال ثواب اور درجات کی بلندی کے لیے فاتحہ خوانی ہوئی۔

    سینیٹ میں قائد ایوان راجہ ظفر الحق کی جانب سے لیجنڈری باکسر محمد علی کو خراج عقیدت پیش کرنے اور ان کی روح کو ایصال ثواب پہنچانے کے لیے تعزیتی قرارداد پیش کی گئی جسے متفقہ طور پر منظور کر لیا گیا۔

    ایوان میں محمد علی کو زبردست خراج عقیدت پیش کیا گیا اور انھیں بہترین اسپورٹس مین ہونے کے ساتھ ساتھ بہترین انسان بھی قرار دیا گیا۔

    دوسری جانب قومی اسمبلی کے اجلاس میں باکسر محمد علی کے لیے فاتحہ خوانی کی گئی اور بلند درجات اور خراج عقیدت کی قرارداد بھی متفقہ طور پر منظور کی گئیں۔