Tag: محمد علی جناح

  • بمبئی کے جواں سال وکیل جناح کی نفاست پسندی اور جامہ زیبی

    بمبئی کے جواں سال وکیل جناح کی نفاست پسندی اور جامہ زیبی

    برصغیر کی تاریخ میں جہاں تقسیمِ ہند وہ موضوع ہے جسے ایک نہایت ہنگامہ خیز جدوجہد کے اختتام پر ایک عظیم ہجرت اور ناقابلِ‌ فراموش یادوں کے تسلسل میں ہر دور میں ضبطِ تحریر میں‌ لایا جاتا رہے گا اور محمد علی جناح کا نام ایک عظیم سیاسی لیڈر کے طور پر ہمیشہ لیا جاتا رہے گا۔

    پاکستان ہی نہیں‌ بلکہ تاریخِ عالم میں محمد علی جناح صرف ہندوستان کی سیاست کا ایک ناقابلِ فراموش کردار ہی نہیں‌ ہیں‌ بلکہ ان کی کرشماتی شخصیت بھی اکثر زیرِ بحث رہتی ہے۔ اور بانیِ پاکستان کی نفاست پسندی اور خوش پوشاکی ضربُ المثل رہی ہے۔

    اس دور کے مسلمان قائدین اور محمد علی جناح کے رفقاء ہی نہیں کانگریس کے بڑے بڑے نام اور سیاسی راہ نما کے ساتھ ساتھ انگریز وائسرائے بھی قائد اعظم سے متاثر ہوئے اور ان کی نفاست پسندی کے معترف رہے ہیں۔

    یہاں ہم لارڈ چمسفورڈ اور لارڈ ہارڈنگ کا تذکرہ کر رہے ہیں جنھوں نے محمد علی جناح کی نفاست پسندی اور جامہ زیبی کا کئی مواقع پر اعتراف کیا۔ لارڈ چمسفورڈ ہندوستان کے وائسرائے بھی رہے ہیں۔ ہندوستان میں برطانوی دور کے ایک اور منتظم لارڈ ریڈنگ تھے جن کی اہلیہ نے اپنی والدہ کے نام ایک خط میں مسلمانانِ ہند کے عظیم لیڈر کا تذکرہ ان الفاظ میں کیا: ’’بمبئی کے جواں سال وکیل جناح کو عموماً خوش لباسی اور جامہ زیبی میں لائیڈ جارج تصور کیا جاتا ہے۔‘‘

    اگر بات کی جائے ہندوستان کے عام مسلمانوں کی تو وہ روایتی ملبوس اور اس دور کی قدروں کو اہمیت دیتے تھے۔ یہاں کے مسلمان کپڑے کی بنی ہوئی ٹوپی سے سَر ڈھانپتے تھے جسے شرافت اور تہذیب کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ جب سلطنتِ عثمانیہ اور تحریکِ خلافت کا شہرہ ہوا تو ان کی اکثریت نے مذہبی ہم آہنگی کی بنیاد پر اپنے لباس میں ترکی ٹوپی کو بھی شامل کرلیا۔

    قائدِ اعظم لندن میں اور دورِ وکالت میں ہمیشہ کوٹ، پتلون، ٹائی اور فلیٹ ہیٹ ہی استعمال کرتے رہے، لیکن بعد میں مسلم لیگ کے راہ نما اور تحریکِ آزادی کے اس عظیم قائد نے اچکن اور تنگ پاجامہ، شیروانی جیسے ملبوس کے ساتھ ایک مخصوص ٹوپی پہننا شروع کی اور جلسوں اور مختلف تقاریب میں‌ اسی لباس میں شریک ہونے لگے۔ مسلمانوں نے اپنے قائد کے اس انداز کو بہت پسند کیا اور قائدِ‌اعظم کی وہ قراقلی ٹوپی عوام میں اتنی مقبول ہوئی کہ سب اسے جناح کیپ کہنے لگے۔

    یہ ٹوپی دراصل دنبے کی ایک خاص نسل قراقلی کی کھال سے تیّار کی جاتی ہے اور اسی سے موسوم ہے۔ اس جانور کی یہ مخصوص کھال افغانستان اور بیرونِ ملک سے منگوا کر متحدہ ہندوستان اور تقسیم کے بعد پاکستان میں بھی قراقلی ٹوپی کی تیّاری کے لیے استعمال کی جاتی رہی، لیکن وقت کے ساتھ اس کا رواج ختم ہو گیا۔

    بانیِ پاکستان محمد علی جناح سے اپنی والہانہ محبّت اور ان سے عقیدت و احترام کے اظہار کے لیے اس دور میں ہندوستانی مسلمانوں کی اکثریت جناح کیپ پہن کر جلسوں اور تقاریب میں شریک ہوتی تھی۔

  • محمد علی جناح: زندگی وہ پانچ ادوار جو انتھک محنت اور مستقل مزاجی کا مظہر ہیں

    محمد علی جناح: زندگی وہ پانچ ادوار جو انتھک محنت اور مستقل مزاجی کا مظہر ہیں

    بڑے لوگوں کی باتیں اور مقاصد بھی بڑے ہوتے ہیں اور وہ کسی بھی معاشرے کے لیے اپنے قول و فعل سے ایک مثال بنتے ہیں۔ بڑا آدمی جب اپنے مقصد کی تکمیل اور منزل کے لیے عملی کوشش شروع کرتا اور پختہ ارادے کے ساتھ آگے بڑھتا ہے تو کام یابی اس کے قدم چومتی ہے۔

    آج بانی پاکستان قائدِ اعظم محمد علی جناح کا یومِ‌ پیدائش منایا جارہا ہے، لیکن جس جوش و جذبہ سے ہم بابائے قوم کو یاد کرتے ہیں، یہ بھی ضروری ہے کہ ہم قائد اعظم کے افکار و خیالات اور اس وطن کے حصول کے لیے ان کے عزم و استقلال، جرأت و اعتماد، دیانت داری، خلوص اور بلند حوصلگی کو اپنے لیے مثال بھی بنائیں اور انہی اوصاف کو اپنا کر انفرادی اور اجتماعی ترقی و خوش حالی کا راستہ ہموار کریں۔ یہاں ہم بابائے قوم محمد علی جناح کی زندگی کے پانچ ادوار پر نظر ڈالتے ہیں۔

    بلاشبہ اس دور میں ہندوستان کی سیاست میں‌ قدم رکھنا، خاص طور پر مسلم لیگ کی قیادت کرتے ہوئے الگ وطن کے حصول کی جدوجہد کرنا قائد اعظم کی زندگی کا نہایت ہنگامہ خیز دور تھا۔ یوں تو نوجوان محمد علی جناح کی تعلیمی میدان میں کام یابیوں، بطور وکیل پیشہ ورانہ سفر اور پھر سیاسی سفر پر بہت کچھ لکھا گیا ہے، لیکن جب ہم اپنے قائد کے تعلیمی دور سے لے کر ان کی جدوجہد تک ایک مختصر جائزہ لیں تو اس میں بہت سے اہم باتیں سامنے آتی ہیں جن کا نوجوان نسل کو علم ہونا چاہیے۔

    محمد علی جناح کی زندگی کے پہلے دور کو 20 برسوں پر محیط کہا جاسکتا ہے۔ یہ زمانہ تھا 1876ء سے 1896ء تک کا، جب انھوں نے تعلیم پائی اور انگلستان میں بیرسٹری کا امتحان پاس کیا۔

    اس کے بعد اگلے دس سال یعنی 1896ء سے لے کر 1906ء تک کے عرصے میں انھوں نے مکمل یک سوئی اور محنت سے وکالت میں اپنی لیاقت کا لوہا منوایا۔

    مؤرخین اور سوانح و خاکہ نگار محمد علی جناح کے تیسرے دور کو 1906ء سے 1916ء تک دیکھتے ہیں، جب وہ زیادہ تر کانگریس کے پلیٹ فارم سے متحرک رہے۔

    قائدِ اعظم محمد علی جناح کی زندگی کا چوتھا دور بھی 20 سال پر محیط ہے اور یہ 1916ء سے 1936ء کا زمانہ ہے۔ اس میں بانی پاکستان نے کانگریس، لیگ اور ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان بڑی مستقل مزاجی اور حوصلے سے مفاہمت کی کوششیں جاری رکھیں۔

    پانچواں دور 1937ء سے شروع ہوتا ہے اور یہ ان کی وفات تک یعنی 1948ء تک کا ہے۔ اس دور کے ابتدائی برسوں میں محمد علی جناح نے وکالت چھوڑ کر اپنی تمام تر توجہ مسلمانانِ ہند کے اتحاد اور تنظیم پر مرکوز کردی اور پاکستان کے حصول کے لیے دن رات ایک کردیا تھا۔ بعد کے برسوں میں وہ پاکستان کے قیام کی جدوجہد میں بے حد مصروف ہوگئے اور قیامِ پاکستان کے بعد پہلے گورنر جنرل کی حیثیت سے کام کرتے رہے۔ 11 ستمبر 1948ء کو وہ اس دارِ فانی سے رخصت ہوئے۔

    قائدِاعظم کی زندگی کے ان ادوار پر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ وہ ہمیشہ کسی نہ کسی مقصد اور نصبُ العین کے حصول کے لیے مصروفِ کار رہے۔

    قائداعظم سے 21 جون 1937ء کو شاعرِ مشرق علّامہ اقبال نے کہا تھا: ’’ہندوستان میں صرف آپ ہی ایک ایسے مسلمان لیڈر ہوسکتے ہیں جو اپنی قوم کو اس طوفان سے، جو ان پر آنے والا ہے، بچاسکتا ہے۔ اس لیے قوم کو حق ہے کہ وہ آپ سے راہ نمائی کی امید رکھے۔‘‘

    قائدِ اعظم قوم کے اس حق اور اپنے فرض کو بخوبی پہچان چکے تھے اور کانگریس سے تعلق توڑنے اور وکالت ترک کرنے کے بعد اپنی تمام زندگی حصولِ پاکستان کی جدوجہد میں گزار دی اور مسلمانوں کی قربانیوں‌ کا صلہ ہمیں آزادی کی صورت میں ملا۔

  • قائدِاعظم محمد علی جناح کی شخصیت کا ایک نفیس و دل چسپ پہلو

    قائدِاعظم محمد علی جناح کی شخصیت کا ایک نفیس و دل چسپ پہلو

    ہندوستان کی تقسیم اور قیامِ پاکستان کے حوالے سے طویل اور ناقابلِ فراموش جدوجہد میں نہ صرف قائدِ اعظم محمد علی جناح کی بے لوث قیادت ایک اہم تاریخی موضوع ہے بلکہ آزادی کے متوالوں کے محبوب لیڈر محمد علی جناح کی سحر انگیز اور نفیس شخصیت سے بھی نئی نسل کو واقف کرانا ضروری ہے تاکہ وہ یہ جان سکیں کہ تعلیم و قابلیت، قیادت کی اہلیت کے ساتھ کون سے عوامل ہیں جن کی بنا پر ان کے قائد کو ایک باوقار، پُراعتماد اور ہمہ اوصاف شخصیت کہا جاتا ہے۔

    برصغیر پاک و ہند کے عظیم سیاسی مدبّر، قابل وکیل اور مسلمانانِ ہند کے قائد خوش پوشاک اور نفیس انسان مشہور تھے۔ مؤرخین نے لکھا ہے کہ قائدِ اعظم کی خوش پوشاکی ان کی شخصیت کا ایسا جزو تھی جسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا اور اس کا اعتراف ان کے سیاسی حریف اور مخالفین بھی کرتے ہیں۔

    قائد اعظم محمدعلی جناح کراچی میں پیدا ہوئے جو اس وقت بھی ساحلی شہر ہونے کی بنا پر اہم تجارتی مرکز تھا اور یہاں نہ صرف مختلف اقوام کے لوگ رہتے تھے بلکہ انگریز بھی آباد تھے۔ یہاں کی مخصوص مقامی آبادی انگریزی زبان و ثقافت سے کسی قدر واقف اور ان کے طور طریقوں اور لباس سے بھی مانوس ہوگئے تھے۔

    محمد علی جناح کے والد جناح پونجا تجارت پیشہ تھے اور اسی حوالے سے انگریزوں سے رابطہ اور واسطہ پڑتا رہتا تھا۔ اس لیے وہ نہ صرف انگریزی زبان جانتے تھے بلکہ ان کا لباس بھی کوٹ، پتلون اور ٹائی پر مشتمل تھا۔ اسی ماحول میں قائدِ اعظم بھی رہے اور شروع ہی سے انگریزی لباس زیبِ تن کیا۔ 1892ء میں وہ انگلستان چلے گئے اور تعلیمی مراحل طے کرتے ہوئے بیرسٹر بنے۔ لندن میں قیام کے دوران کوٹ، پتلون اور ٹائی کے استعمال کے ساتھ اس لباس کی تہذیبی اور ثقافتی روایت سے بھی آشنا ہوئے۔

    لندن سے واپس آکر بمبئی میں بہ طور پیشہ وکالت کا آغاز کیا۔ وہاں پارسیوں، عیسائیوں اور ہندوؤں کی آبادی نہ صرف با اثر اور متمول تھی بلکہ انگریزوں سے قریبی روابط رکھتی تھی اور انگریزی لباس پہنتی تھی اور محمد علی جناح بھی یہی لباس پہنتے رہے۔

    آل انڈیا مسلم لیگ اور مسلمانوں کے راہ بر و قائد بننے اور 1937 کے بعد محمد علی جناح نے مسلم لیگ کے اجلاسوں، کانفرنسوں اور عوامی اجتماعات میں اچکن اور تنگ پاجامہ پہن کر شرکت کرنا شروع کردی تھی، اور مؤرخین کے مطابق بعد میں شیروانی کا استعمال شروع کیا۔

    اگست 1947ء کے بعد پاکستان کے پہلے گورنر جنرل کی حیثیت سے بانی پاکستان نے آزادی کی تقریبات میں شیروانی، شلوار اور جناح کیپ پہن کر شرکت کی تھی۔

  • بانی پاکستان کے معمولاتِ زندگی، عادات، پسند اور ناپسند

    بانی پاکستان کے معمولاتِ زندگی، عادات، پسند اور ناپسند

    قائداعظم کھانے پینے کے معاملے میں بڑے محتاط تھے۔

    وہ کم کھاتے تھے۔ شوربے کی بجائے خشک سالن زیادہ پسند کرتے۔ لنچ پر نان کا ایک ٹکرا لے لیتے۔ ناشتا بڑے شوق سے کرتے۔ ان کے ناشتے میں ابلا ہوا انڈہ، شہد اور جیم شامل ہوتا۔ ایک توس کھاتے تھے۔ آدھا توس انڈے اور آدھا شہد یا جیم کے ساتھ کھاتے۔ مہینے میں ایک دوبار سری پائے کھا لیتے۔ قائداعظم کو آم پسند تھے۔

    بحیثیت راہ نما اور گورنر جنرل پاکستان قائدِ اعظم سے متعلق مختلف شخصیات نے مضامین لکھے اور کتب میں‌ ان کے تذکرے موجود ہیں جن کے مصنف بانیِ پاکستان کے رفقا،‌ سیاسی اور آزادی کی جدوجہد میں‌ شریک شخصیات اور وہ لوگ شامل ہیں‌ جو قیامِ پاکستان کے بعد حکومت میں‌ شامل رہے اور اس دوران انھیں‌ مسلمانوں‌ کے اس عظیم لیڈر کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔

    سردار عبدالرّب نشتر جیسے قریبی ساتھیوں‌ کی بدولت قائدِ اعظم کے شب و روز، طبیعت اور مزاج سے عوام بھی واقف ہوئے۔ بانی پاکستان کی عادات اور پسند و ناپسند کے علاوہ یہ واقعہ بھی ہمیں مختلف مضامین اور کتب میں‌ پڑھنے کو ملتا ہے۔

    15 اکتوبر 1937 کو آل انڈیا مسلم لیگ کا ایک اجلاس لکھنؤ میں ہوا جس میں مسلم لیگ کے لیڈروں نے شرکت کی۔ اس موقع پر نواب اسماعیل خان نے ٹوپی پہن رکھی تھی جو ان کو بہت خوب صورت لگ رہی تھی۔ قائدِ اعظم ٹوپی سے متاثر ہوئے۔

    نواب اسماعیل نے قائدِ اعظم کو ٹوپی پہننے کی پیش کش کی۔ قائدِ اعظم نے ٹوپی پہنی تو رفقا نے بڑی تعریف کی۔ انھوں نے شیشے کے سامنے کھڑے ہو کر دیکھا تو ٹوپی ان کو پسند آئی۔ نواب اسماعیل کی درخواست پر قائداعظم ٹوپی پہن کر پہلی بار اجلاس میں شریک ہوئے۔

    عوام نے قائداعظم کو ٹوپی پہنے دیکھ کر زبردست تالیاں بجائیں۔ یہ ٹوپی پورے ہندوستان میں ’’جناح کیپ‘‘ کے نام سے مشہور ہوگئی۔

  • قائدِ اعظم نے "کپورتھلا برادرز” کی خدمات کیوں‌ قبول نہ کیں؟

    قائدِ اعظم نے "کپورتھلا برادرز” کی خدمات کیوں‌ قبول نہ کیں؟

    قائد اعظم کھانا بہت کم کھاتے تھے۔ دبلے پتلے، بوڑھے اور بیمار تھے۔

    مرضُ الموت میں جسمانی کم زوری بہت بڑھ گئی۔ زیارت میں قیام کے دنوں میں ان کے معالج، ڈاکٹر الٰہی بخش نے تشویش ظاہر کی کہ کم خوراکی کی وجہ سے ان کی حالت زیادہ تیزی سے خراب ہو رہی ہے۔

    ان کی رائے تھی کہ لاہور میں جو دو باورچی، کپورتھلا برادرز کے نام سے مشہور ہیں انھیں زیارت بھیجا جائے کیوں کہ ان کے ہاتھ کا بنا ہوا کھانا قائداعظم کو مرغوب ہے۔

    کپورتھلا کے باورچی بھائیوں کی تلاش شروع ہوئی، وہ لاہور چھوڑ کر لائل پور چلے گئے تھے۔

    لائل پور سے زیارت پہنچے، کھانا پکایا اس روز قائداعظم نے چند لقمے شوق سے کھائے، کھانے کے بعد اپنے پرائیویٹ سیکریٹری فرخ امین کو بلایا اور کھانے میں فرق کی وجہ دریافت کی۔ وجہ بتائی گئی، تو وہ ناخوش ہوئے۔

    چیک بک منگائی، باورچیوں کے آنے جانے کے خرچ کا حساب کیا اس رقم کا چیک کاٹا، رقم سرکاری خزانے میں جمع کرائی، باورچی رخصت کیے اور کہا یہ حکومت اور ریاست کا کام نہیں کہ گورنر جنرل کو اس کی پسند کا کھانا (سرکاری خرچ پر) فراہم کرے۔“

    (مختار مسعود کی کتاب ”لوح ایام“ سے)

  • بابائے قوم قائدِ اعظم محمد علی جناحؒ کا یومِ ولادت آج منایا جا رہا ہے

    بابائے قوم قائدِ اعظم محمد علی جناحؒ کا یومِ ولادت آج منایا جا رہا ہے

    کراچی:  آج 25 دسمبر 2018 کو ملک بھر میں قائدِ اعظم محمد علی جناح کا 143 واں یومِ پیدائش مِلّی جوش و جذبے کے ساتھ منایا جا رہا ہے، سرکاری سطح پر پاکستان میں تعطیل ہو گی اور جناح صاحب کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے مختلف تقاریب کا اہتمام بھی کیا جائے گا۔

    بابائے قوم قائدِ اعظم محمدعلی جناحؒ 25 دسمبر 1876 کو سندھ کے موجودہ دار الحکومت کراچی میں پیدا ہوئے، انھوں نے ابتدائی تعلیم کا آغاز 1882 میں کیا۔ 1893 میں اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے انگلینڈ روانہ ہوئے جہاں سے انھوں نے 1896 میں بیرسٹری کا امتحان پاس کیا اور وطن واپس آ گئے۔

    بابائے قوم نے اپنی سیاسی سرگرمیوں کا آغاز 1906 میں انڈین نیشنل کانگریس میں شمولیت سے کیا تاہم 1913 میں محمد علی جناح نے آل انڈیا مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کرلی۔ اس دوران انھوں نے خود مختار ہندوستان میں مسلمانوں کے سیاسی حقوق کے تحفظ کی خاطر مشہور چودہ نکات پیش کیے۔

    کراچی میں جناح پونجا کے گھر جنم لینے والے اس بچے نے برصغیر کی نئی تاریخ رقم کی اور مسلمانوں کی ایسی قیادت کی جس کے بل پر پاکستان نے جنم لیا۔ قائدِ اعظم کی قیادت میں برِصغیر کے مسلمانوں نے نہ صرف برطانیہ سے آزادی حاصل کی، بلکہ تقسیمِ ہند کے ذریعے پاکستان کا قیام عمل میں آیا اور آپ پاکستان کے پہلے گورنر جنرل بنے۔

    قائدِ اعظم محمدعلی جناح کی زندگی جرات، ان تھک محنت، دیانت داری، عزمِ مصمّم ، حق گوئی کا حسین امتزاج تھی، برصغیر کی آزادی کے لیے بابائے قوم کا مؤقف دو ٹوک رہا، نہ کانگریس انھیں اپنی جگہ سے ہلا کسی نہ انگریز سرکار ان کی بولی لگا سکی۔

    مسلمانوں کے اس عظیم رہنما نے 11 ستمبر، 1948 کو زیارت بلوچستان میں وفات پائی اور کراچی میں دفن ہوئے۔

    مسلمانوں کے حقوق اورعلیحدہ وطن کے حصول کے لیے ان تھک جدوجہد نے ان کی صحت پر منفی اثرات مرتب کیے۔ 1930 میں انھیں تپِ دق جیسا موزی مرض لاحق ہوا جسے انھوں نے اپنی بہن محترمہ فاطمہ جناح اور چند قریبی رفقا کے علاوہ سب سے چھپائے رکھا۔ قیامِ پاکستان کے ایک سال بعد 11 ستمبر 1948 کو محمد علی جناح خالقِ حقیقی سے جا ملے۔


    یہ بھی پڑھیں:  وزیرمینشن: قائد اعظم کی سب سے اہم یادگار


    قائدِ اعظم محمد علی جناح نے اپنی زندگی کے آخری ایام انتہائی تکلیف دہ صورتِ حال میں گزارے، ان کا مرض شدت پر تھا اور آپ کو دی جانے والی دوائیں مرض کی شدت کم کرنے میں نا کام ثابت ہو رہی تھیں۔

    ان کے ذاتی معالج ڈاکٹرکرنل الہٰی بخش اوردیگر معالجین کے مشورے پر وہ 6 جولائی 1948 کو آب و ہوا کی تبدیلی اور آرام کی غرض سے کوئٹہ تشریف لے آئے، جہاں کا موسم نسبتاً ٹھنڈا تھا لیکن یہاں بھی ان کی سرکاری مصروفیات انھیں آرام نہیں کرنے دے رہی تھیں لہٰذا جلد ہی انھیں قدرے بلند مقام زیارت میں واقع ریزیڈنسی میں منتقل کر دیا گیا، جسے اب قائد اعظم ریزیڈنسی کہا جاتا ہے۔

    اپنی زندگی کے آخری ایام قائدِ اعظم نے اسی مقام پر گزارے لیکن ان کی حالت سنبھلنے کے بجائے مزید بگڑتی چلی گئی اور 9 ستمبر کو انھیں نمونیا ہوگیا ان کی حالت کے پیشِ نظر ڈاکٹر بخش اور مقامی معالجین نے انھیں بہترعلاج کے لیے کراچی منتقل کرنے کا مشورہ دیا۔


    اسے بھی ملاحظہ کریں:  قائداعظم محمد علی جناح کی نایاب اور یادگار تصاویر


    گیارہ ستمبر کو انھیں سی وَن تھرٹی طیارے کے ذریعے کوئٹہ سے کراچی منتقل کیا گیا جہاں ان کی ذاتی گاڑی اور ایمبولینس انھیں لے کر گورنر ہاؤس کراچی کی جانب روانہ ہوئی۔ بد قسمتی کہ ایمبولینس راستے میں خراب ہوگئی اور آدھے گھنٹے تک دوسری ایمبولینس کا انتظار کیا گیا۔ شدید گرمی کے عالم میں محترمہ فاطمہ جناح اپنے بھائی اور قوم کے محبوب قائد کو دستی پنکھے سے ہوا جھلتی رہیں۔

    کراچی وارد ہونے کے دوگھنٹے بعد جب یہ مختصر قافلہ گورنر ہاؤس کراچی پہنچا تو قائدِ اعظم کی حالت تشویش ناک ہو چکی تھی اور رات دس بج کر بیس منٹ پر وہ اس دارِ فانی سے رخصت فرما گئے۔

    ان کی رحلت کے موقع پر انڈیا کے آخری وائسرے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کا کہنا تھا کہ ’’اگر مجھے معلوم ہوتا کہ جناح اتنی جلدی اس دنیا سے کوچ کر جائیں گے تو میں ہندوستان کی تقسیم کا معاملہ کچھ عرصے کے لیے ملتوی کر دیتا، وہ نہیں ہوتے تو پاکستان کا قیام ممکن نہیں ہوتا‘‘۔

    قائد اعظم کے بد ترین مخالف اور ہندوستان کے پہلے وزیرِ اعظم جواہر لعل نہرو نے اس موقع پر انتہائی افسردگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’میں ایک طویل عرصے سے انھیں نا پسند کرتا چلا آیا ہوں لیکن اب جب کہ وہ ہم میں نہیں رہے تو ان کے لیے میرے دل میں کوئی تلخی نہیں، صرف افسردگی ہے کہ انھوں نے جو چاہا وہ حاصل کر لیا لیکن اس کی کتنی بڑی قیمت تھی جو انھوں نے ادا کی‘‘۔

  • قوم کو یتیم ہوئے 70 برس بیت گئے

    قوم کو یتیم ہوئے 70 برس بیت گئے

    مملکت ِخداداد پاکستان کے بانی اورہردل عزیزرہنماء قائد اعظم محمد علی جناح 25 کی آج سترویں برسی ہے، آپ دسمبر 1876 کو کراچی میں پیدا ہوئے تھے ، مسلمانوں کے حقوق اورعلیحدہ وطن کے حصول کے لئے انتھک جدوجہد نے ان کی صحت پر منفی اثرات مرتب کئے۔ سن 1930 میں انہیں تپِ دق جیسا موزی مرض لاحق ہوا جسے انہوں نے اپنی بہن محترمہ فاطمہ جناح اور چند قریبی رفقاء کے علاوہ سب سے پوشیدہ رکھا۔ قیام پاکستان کے ایک سال بعد 11 ستمبر 1948 کو قائد اعظم اپنے خالق ِحقیقی سے جاملے۔

    قائد اعظم محمد علی جناح نے اپنی زندگی کے آخری ایام انتہائی تکلیف دہ صورتحال میں گزارے، ان کا مرض شدت پر تھا اور آپ کو دی جانے والی دوائیں مرض کی شدت کم کرنے میں ناکام ثابت ہورہیں تھیں۔

    ان کے ذاتی معالج ڈاکٹرکرنل الٰہی بخش اوردیگر معالجین کے مشورے پر وہ چھ جولائی 1948 کو آب و ہوا کی تبدیلی اورآرام کی غرض کے لئے کوئٹہ تشریف لے آئے، جہاں کا موسم نسبتاً ٹھنڈا تھا لیکن یہاں بھی ان کی سرکاری مصروفیات انہیں آرام نہیں کرنے دیں رہیں تھیں لہذا جلد ہی انہیں قدرے بلند مقام زیارت میں واقع ریزیڈنسی میں منتقل کردیا گیا، جسے اب قائد اعظم ریزیڈنسی کہا جاتا ہے۔

    اپنی زندگی کے آخری ایام قائدِ اعظم نے اسی مقام پر گزارے لیکن ان کی حالت سنبھلنے کے بجائے مزید بگڑتی چلی گئی اور نوستمبر کو انہیں نمونیا ہوگیا ان کی حالت کے پیشِ نظرڈاکٹر بخش اورمقامی معالجین نے انہیں بہترعلاج کے لئے کراچی منتقل کرنے کا مشورہ دیا۔

    گیارہ ستمبر کو انہیں سی ون تھرٹی طیارے کے ذریعے کوئٹہ سے کراچی منتقل کیا گیا جہاں ان کی ذاتی گاڑی اورایمبولینس انہیں لے کرگورنر ہاؤس کراچی کی جانب روانہ ہوئی۔ بد قسمتی کہ ایمبولینس راستے میں خراب ہوگئی اور آدھے گھنٹے تک دوسری ایمبولینس کا انتظارکیا گیا۔ شدید گرمی کے عالم میں محترمہ فاطمہ جناح اپنے بھائی اورقوم کے محبوب قائد کو دستی پنکھے سے ہوا جھلتی رہیں۔

    کراچی وارد ہونے کے دوگھنٹے بعد جب یہ مختصرقافلہ گورنرہاؤس کراچی پہنچا توقائداعظم کی حالت تشویش ناک ہوچکی تھی اوررات دس بج کر بیس منٹ پر وہ اس دارِفانی سے رخصت فرما گئے۔

    ان کی رحلت کے موقع پر انڈیا کے آخری وائسرے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کا کہنا تھا کہ ’’اگر مجھے معلوم ہوتا کہ جناح اتنی جلدی اس دنیا سے کوچ کرجائیں گے تو میں ہندوستان کی تقسیم کا معاملہ کچھ عرصے کے لئے ملتوی کردیتا، وہ نہیں ہوتے تو پاکستان کا قیام ممکن نہیں ہوتا‘‘۔

    قائد اعظم کے بدترین مخالف اور ہندوستان کے پہلے وزیرِاعظم جواہر لعل نہرو نے اس موقع پر انتہائی افسردگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’ میں ایک طویل عرصے سے انہیں ناپسند کرتا چلا آیا ہوں لیکن اب جب کہ وہ ہم میں نہیں رہے تو ان کے لئے میرے دل میں کوئی تلخی نہیں ، صرف افسردگی ہے کہ انہوں نے جو چاہا وہ حاصل کرلیا لیکن اس کی کتنی بڑی قیمت تھی جو انہوں نے اداکی‘‘۔

    قائد اعظم کی وفات کے 67سال بعد بھی ا ن کی وفات کے موقع پر ہزاروں افراد کی ان کی لحد پر حاضری اورشہرشہرمنعقد ہونے والی تقریبات اس امر کی گواہی دیتی ہیں کہ پاکستانی قوم ان سے آج بھی والہانہ عقیدت رکھتی ہے۔

  • بابائے قوم محمد علی جناح کی 70 ویں برسی آج عقیدت و احترام سے منائی جائے گی

    بابائے قوم محمد علی جناح کی 70 ویں برسی آج عقیدت و احترام سے منائی جائے گی

    کراچی: برّ صغیر کے مسلمانوں کو علیحدہ تشخص، الگ پہچان اور ایک آزاد ملک کا تحفہ دینے والے قائدِ اعظم محمد علی جناح کی 70 ویں برسی آج عقیدت و احترام سے منائی جائے گی۔

    بانیٔ پاکستان کی برسی پر مختلف شہروں میں سیمینارز، مذاکروں اور تقاریب کا اہتمام کیا جائے گا، پوری قوم برّ صغیر کی اس عظیم شخصیت کو دل کی گہرائیوں سے خراجِ عقیدت پیش کرے گی۔

    قائدِ اعظم محمد علی جناح 25 دسمبر 1876 کو کراچی میں پیدا ہوئے، مسلمانوں کے حقوق اورعلیحدہ وطن کے حصول کے لیے ان تھک جدوجہد نے ان کی صحت پر منفی اثرات مرتب کیے۔

    سن 1930 میں انھیں تپِ دق جیسا موزی مرض لاحق ہوا، جسے انھوں نے اپنی بہن محترمہ فاطمہ جناح اور چند قریبی رفقا کے علاوہ سب سے پوشیدہ رکھا، قیامِ پاکستان کے ایک سال بعد 11 ستمبر 1948 کو جناح صاحب اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔


    یہ بھی پڑھیں:  ہزمیجسٹی کا نہیں،’آئینِ پاکستان کا وفاداررہوں گا‘: قائد اعظم


    بانیٔ پاکستان محمد علی جناح کو اس جہانِ فانی سے گزرے آج ستّر برس بیت گئے، آج ان کی ستّر ویں برسی منائی جائے گی، شہریوں کے مخلتف طبقات مزارِ قائد پر پھولوں کی چادریں چڑھائیں گے اور فاتحہ پڑھیں گے۔

  • مزار قائد کی زمین سیم زدہ، ہریالی اجڑنے کا خطرہ

    مزار قائد کی زمین سیم زدہ، ہریالی اجڑنے کا خطرہ

    کراچی: بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کا مزار ملک بھر سے آنے والے افراد کے لیے ایک مقام عقیدت ہے اور کراچی سمیت ملک بھر سے لوگ یہاں آتے اور قائد کی قبر پر فاتحہ خوانی کرتے ہیں۔ لیکن اس خوبصورت مزار کو ایک بڑے خطرے کا سامنا ہے جس سے ارباب اقتدار سمیت عام لوگ بھی ناواقف ہیں۔

    مزار قائد کے آس پاس کی زمین تیزی سے سیم زدہ ہو رہی ہے جس سے یہاں کی ہریالی اجڑنے کا خطرہ تیزی سے بڑھ رہا ہے اور اگر ہنگامی بنیادوں پر اس کے حل کے لیے کام نہ کیا گیا تو خدشہ ہے کہ یہاں کی زمین بنجر ہوجائے گی۔

    واضح رہے کہ مزار قائد کے آس پاس وسیع و عریض رقبے کو ہریالی سے آباد کیا گیا ہے اور یہاں مختلف اقسام کے درخت اور پھول لگائے گئے ہیں۔

    tomb-3

    اس بارے میں ایک شہری عبد الحمید بتاتے ہیں کہ دو سال قبل ان کے مشاہدے میں آیا کہ اس سیم کے باعث مزار قائد پر منفی اثر پڑ رہا ہے جس کے بعد انہوں نے سنہ 2015 میں سندھ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کے نام مفاد عامہ کے تحت ایک شکایتی خط تحریر کیا۔

    ان کے مطابق انہوں نے خط میں لکھا کہ سیم کی وجہ سے مزار کے باغ میں موجود متعدد درخت سوکھ گئے ہیں اور صرف ان کا تنا باقی رہ گیا ہے۔

    عبدالحمید کو ہائیکورٹ سے جواب موصول ہوا کہ وہ اس سلسلے میں ایک درخواست دائر کریں۔ عبد الحمید نے مزار کے انتظامی بورڈ سے رابطہ کیا اور ان سے کہا کہ وہ 30 دن کے اندر مزار کی حالت بہتر کرنے کے اقدامات کریں بصورت دیگر وہ عدالت میں درخواست دائر کردیں گے۔

    عبد الحمید کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر آپ غور سے جائزہ لیں تو آپ کو علم ہوگا کہ مزار کے صرف وہی حصے خستہ حالی کا شکار ہیں جو عام افراد کے لیے کھلے ہیں۔ وی آئی پی شخصیات کے لیے مختص حصہ نہایت صاف ستھرا اور منظم حالت میں رکھا گیا ہے۔

    تاہم قریب ہی رہائش پذیر ایک انجینئر کا کہنا ہے کہ یہ انتظامیہ کی غفلت نہیں بلکہ ایک قدرتی عمل ہے جس کی وجہ سے مزار کے درخت سوکھ رہے ہیں۔

    tomb-2

    دوسری جانب ماہرین کا کہنا ہے کہ مزار قائد شہر کے ایسے حصہ میں واقع ہے جو شہر کے بقیہ حصوں سے نیچا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پورے شہر کا زیر زمین پانی یہاں جمع ہوجاتا ہے۔

    اس بارے میں ہارٹی کلچر سوسائٹی کے رکن رفیع الحق نے وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ سیم و تھور کا عمل مزار کے صرف ایک چھوٹے سے حصے میں جاری ہے۔

    ان کے مطابق مزار کی دیواریں مضبوطی سے اپنی جگہ کھڑی ہیں اور ان کو کوئی نقصان نہیں پہنچ رہا لہٰذا یہ کہنا درست نہیں ہوگا کہ سیم پورے مزار کو متاثر کر رہا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ سیم سے متاثرہ حصے میں بھی بڑے درخت تو اس کو سہہ جائیں گے اور واپس اپنی اصل حالت میں آجائیں گے، البتہ چھوٹے پودوں اور درختوں کے لیے یہ نقصان دہ ثابت ہوگی۔

    رفیع الحق کا کہنا تھا کہ مزار کی انتظامیہ کو اس مسئلے کو سیاسی مسئلہ بنانے کے بجائے ماہرین ماحولیات سے رجوع کرنا چاہیئے تاکہ ماہرین کی زیر نگرانی اس مسئلے کے حل کے لیے اقدامات کیے جا سکیں۔

    اس سے قبل بھی سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات و نشریات اور قومی ورثے نے بانی پاکستان کے مزار پر شمسی توانائی سے بجلی پیدا کرنے کا سسٹم نصب کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔


  • وزیر مینشن: میں گاہِ گمشدہ ہوں مجھے یاد کیجئے

    آج ملک بھرمیں بانی ِ پاکستان محمد علی جناح کا 137 واں یوم ولادت منایاجارہا ہے، قائد اعظم 25 دسمبر 1876 کو اپنے گھر میں پیدا ہوئے، جسکا نام وزیر مینشن ہے اور وہ کراچی کے علاقے کھارادر میں واقعہ ہے۔

    قائد اعظم کے والد جناح پونجا آپکی ولادت سے تقریباً ایک سال قبل گجرات سےکراچی آکرآباد ہوئے ، وزیرمینشن کی پہلی منزل انہوں نے کرائے پر لی تھی انہوں نے اپنی زندگی کے کئی سال یہاں گزارے، قائد اعظم کے تمام بہن بھائیوں کی ولادت بھی اسی عمارت میں ہوئی۔

    سن 1953 میں حکومت پاکستان نے عمارت کو اسکے مالک سے خرید کر باقاعدہ قومی ورثے کا درجہ دیا گیا، اسکی  زیریں منزل کو ریڈنگ ہال میں اور پہلی منزل کو گیلری بنایا گیا اور اسکے بعد اسے 14 اگست 1953 کو عوام کے لئے کھول دیا گیا۔

    ایک گیلری کا اضافہ اس وقت کیا گیا جب 1982 میں قائد اعظم کی ایک اور بہن شیریں جناح نے مزید کچھ نوادرات قائد اعظم ریلکس کمیشن کے حوالے کیں۔
     
    دو منزلوں پر مشتمل گیلریوں میں قائداعظم کا فرنیچر ، انکے کپڑے ، انکی اسٹیشنری ، انکی ذاتی ڈائری اور انکی دوسری بیوی رتی بائی کے استعمال کی اشیا کی نمائش کی گئی ہے۔ سب سے اہم اثاثہ جو  وزیر مینشن کے علاوہ کہیں میسر نہیں وہ قائداعظم کی قانون کی کتابیں ہیں جنکی مدد سے وہ اپنے مقدمات کی پیروی کرتے تھے۔  

    یہ عمارت 2003 سے 2010 تک تزئین و آرائش کے لئے بند رہی۔

    میوزم کے عملے میں سے ایک شخص نے بتایا کہ 1992میں جب نیلسن منڈیلا پاکستان تشریف لائے تو وہ یہاں بھی آئے تھے لیکن بدقسمتی سے مہمانوں کی کتاب جس میں انکے دستخط تھے وہ گم ہوچکی ہے۔

    قائد اعظم کے یوم ِ پیدائش پر انکی جائے ولادت پر آنے والوں کی نا ہونے کے برابر تعداد سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ بحیثیت قوم ہمیں قائد اعظم اوران سے منسلک تمام چیزوں کی اہمیت کو سمجھنا ہوگا ورنہ یہ سب کچھ قصہ ِ پارینہ بن کر رہ جائے گا۔