Tag: محمد عمر میمن

  • ممکن ہے ہمیں زندگی سے اتنی محبت نہ ہو جتنی ہونی چاہیے؟

    ممکن ہے ہمیں زندگی سے اتنی محبت نہ ہو جتنی ہونی چاہیے؟

    یوں تو ہر باشعور شخص زندگی سے متعلق کوئی خاص نظریہ اور اپنا نقطۂ نظر رکھتا ہے، لیکن ایک تخلیق کار زندگی کو کئی زایوں سے دیکھتا اور اس کے مختلف پہلوؤں کو بیان کرنے پر قدرت رکھتا ہے۔ زندگی اتنی سادہ نہیں جتنی بظاہر نظر آتی ہے، اس کے رنگ بہت متنوع ہیں اور یہ کئی حوالوں سے بہت سفاک یا نہایت دردناک بھی ہوسکتی ہے۔

    یہاں‌ ہم کسی بچھڑ جانے والے سے متعلق اپنے رویّوں کی ایک جھلک فرانس کے نوبیل انعام یافتہ ادیب البرٹ کامیو کی تحریر میں دیکھ سکتے ہیں۔ یہ کامیو کے ناول سے لی گئی سطور ہیں جس کا ترجمہ محمد عمر میمن نے زوال کے نام سے کیا تھا۔ ملاحظہ کیجیے۔

    "ممکن ہے ہمیں زندگی سے اتنی محبت نہ ہو جتنی کہ ہونی چاہیے؟ کیا آپ نے کبھی غور کیا ہے کہ صرف موت ہمارے احساسات کو بیدار کرتی ہے، ہم ان دوستوں سے کتنا پیار کرتے ہیں جو ابھی ابھی ہم سے جدا ہوئے ہوں؟ ہم اپنے اساتذہ کی کتنی مدح سرائی کرتے ہیں جن کی زبانیں گنگ ہوچکی ہیں اور جن کے دہن اب خاک سے پُر ہیں۔”

    "سب کچھ ہو چکنے کے بعد ہمارا جذبۂ تحسین ابھرتا ہے۔ وہ تحسین جس کے لیے وہ لوگ شاید عمر بھر متوقع اور ترستے رہے۔ کیا آپ جانتے ہیں ہم مُردوں کے معاملے میں کیوں زیادہ انصاف پسند اور فیاض واقع ہوئے ہیں؟”

    "وجہ بالکل سادہ ہے۔ مُردوں کے معاملے میں ہم پر کوئی ذمے داری عائد نہیں ہوتی۔ وہ ہمیں آزاد چھوڑ دیتے ہیں، اور ہم باطمبنانِ خاطر، جب چاہے، کاک ٹیل پارٹی اور کسی حسین، کم سِن داشتہ کے درمیان، اوقاتِ فرصت میں، انھیں اسناد تقسیم کر کے مطمئن ہو جاتے ہیں۔ اگر وہ ہمیں کسی چیز کے لیے مجبور کرسکتے تو انھیں یاد رکھنے پر مجبور کرتے، اور یہ ممکن نہ ہوتا، کیوں کہ ہمارا حافظہ کمزور ہے۔ نہیں، ہم اپنے دوستوں میں صرف انھیں سے محبت کرتے ہیں جو تازہ تازہ داغِ مفارقت دے گئے ہوں، ہم ان کی درد ناک موت سے، اپنے جذبات سے، اور چوں کہ یہ جذبات ہمارے ہوتے ہیں، اس لیے خود سے محبت کرتے ہیں!”

  • "چوری چکاری سیکھو اور جو ہاتھ آئے اس میں دوسروں کو شریک کرو!”

    "چوری چکاری سیکھو اور جو ہاتھ آئے اس میں دوسروں کو شریک کرو!”

    آج پاکستان اور یہاں‌ کے عوام کو جن مسائل اور معاشرتی خرابیوں کا سامنا ہے، اور لوگ کرپٹ نظام کے ساتھ ملک کے بالا دست اور بااختیار طبقے کی من مانیوں اور خود پر ہونے والی زیادتیوں کو جھیل رہے ہیں، مراکش کے عوام بھی کچھ ایسے ہی حالات کا شکار ہیں۔

    مراکش کبھی فرانس کی ایک کالونی تھا۔ اپنی سرزمین کو فرانس کے قبضے سے آزاد کرانے کے لیے وہاں کے عوام نے سخت جدوجہد کی اور ہزاروں جانیں قربان کرکے 1956ء میں آزادی حاصل کی تھی۔ طاہر بن جلون کا تعلق شمالی افریقا کے مغربی کنارہ پر واقع اسی اسلامی ملک مراکش سے ہے۔

    طاہر بن جلون نے 1944ء میں شہر فاس میں‌ آنکھ کھولی۔ شروع ہی سے علم و ادب کے شائق اور شیدا تھے۔ انھوں نے مطالعہ کرنے کے ساتھ ساتھ لکھنا شروع کردیا اور بعد کے برسوں میں ایک ناول نگار کی حیثیت سے شہرت پائی۔

    مراکش میں‌ طاہر فلسفہ پڑھاتے تھے، لیکن جب وہاں سرکاری طور پر عربی زبان نافذ کی گئی تو انھوں نے ترکِ وطن کا فیصلہ کیا اور فرانس چلے گئے، جہاں فرانسیسی میں لکھنے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ ان کے ناول نہ صرف انگریزی میں بلکہ دنیا کی متعدد زبانوں میں ترجمہ ہو چکے ہیں۔

    طاہر بن جلون نے اپنے ناولوں میں مراکش کے معاشرے کی جو تصویر پیش کی ہے، وہ خاصی حد تک پاکستانی سماج سے مماثلت رکھتی ہے۔ اس حوالے سے ناول L’ Homme rompu جسے محمد عمر میمن نے اردو قالب میں ’کرپشن‘ کے نام سے ڈھالا ہے، قابلِ‌ ذکر ہے۔

    یہاں‌ ہم طاہر بن جلون کے اسی ناول سے اقتباس اپنے ادب دوست قارئین کی نذر کررہے ہیں۔ یہ چند سطور ایک سچّے، کھرے انسان اور کسی بھی معاشرے کے ایسے فرد کا فلسفۂ حیات ہمارے سامنے لاتی ہیں، جو باضمیر اور اپنے سماج اور لوگوں سے مخلص ہے۔ ملاحظہ کیجیے۔

    "یہ درست ہے کہ میں، جیسا کہ لوگ کہتے ہیں، کبھی بھی دوسروں کی ڈگر سے خود کو ہم آہنگ نہیں کر سکا ہوں۔ ہم آہنگ ہونا کیا ہے؟ یہی نا کہ جو سب کرتے ہیں وہی کرنے لگو، ضرورت پڑنے پر آنکھ پر پردہ ڈال لو، اپنے اصول اور آدرش ایک طرف ڈال دو، مشین کو گھومنے سے نہ روکو۔ مختصر یہ کہ چوری چکاری سیکھو اور جو ہاتھ آئے اس میں دوسروں کو شریک کرو۔ ذاتی طور پر، میں یہ نہیں کر سکتا۔

    مجھے تو یہ بھی پتا نہیں کہ جھوٹ کیسے بولا جاتا ہے۔ میں زیرک نہیں۔ مجھے معلوم ہے کہ وہ جسے ’مشین‘ کہتے ہیں، وہ ہم جیسے لوگوں سے نہیں چل سکتی۔ میں ریت کا وہ ذرّہ ہوں جو اس میں جا گھستا ہے اور یہ کھسکھسانے لگتی ہے۔ مجھے اعتراف ہے کہ مجھے یہ کام بھاتا ہے۔ یہ بڑا نادر اور باقیمت کام ہے۔ میں نے خود کو اس کے لیے وقف کر دیا ہے، خواہ میری بیوی بچے اتنے آرام سے نہ رہتے ہوں۔ یہ میرا فخر اور میری مسّرت ہے، لیکن جانتا ہوں کہ اس سے ان کا بہت زیادہ بھلا نہیں ہوتا۔”

  • اردو کا ایک اور محسن رخصت ہوا، ممتاز مترجم اور ادیب محمد عمر میمن انتقال کر گئے

    اردو کا ایک اور محسن رخصت ہوا، ممتاز مترجم اور ادیب محمد عمر میمن انتقال کر گئے

    نیویارک: امریکا میں‌ مقیم ممتاز پاکستانی محقق، مترجم اور ادیب محمد عمر میمن طویل علالت کے بعد انتقال کر گئے، ان کی عمر 79 برس تھی.

    تفصیلات کے مطابق عالمی ادب کو پختگی اور تسلسل کے سے اردو روپ دینے والا یہ جید مترجم بیماریوں کے باوجود زندگی کے آخری برس تک کام میں‌ مصروف رہا.

    ڈاکٹر عمر میمن کے کارناموں کی فہرست طویل ہے، آدمی انگشت بدنداں رہ جائے. یہ اداروں کے کرنے کا کام تھا، جو محمد عمر میمن نے تن و تتہا انجام دیا اور صحیح معنوں میں‌ خود کو اردو کا عاشق ثابت کیا.

    جاں‌ فشانی سے اردو ادب کی خدمت کرنے والے عمر میمن نے کامیو، گبرئیل گارسیا مارکیز، میلان کنڈیرا، ماریو برگیس یوسا، اورحان پامک، نجیب محفوظ ساگاں اور باپسی سدھوا کی نمائندہ تخلیقات کو اردو روپ دیا.

    انگریزی کو اردو روپے دینے والے مترجمین تو دست یاب ہیں، البتہ عمر میمن کو اوروں پر یوں فوقیت حاصل رہی کہ ان کی  انگریزی پر بھی خوب گرفت تھی۔ انھوں نے کئی اردو ادبیوں کو عالمی دنیا میں‌ متعارف کروایا. 

    ڈاکٹر عمر میمن نے عبداللہ حسین، انتظار حسین، نیر مسعود، اسد محمد خاں، ڈاکٹر حسن منظر، اکرام اللہ سمیت متعبر فکشن نگاروں کی تخلیقات کو نہ صرف انگریزی کے قالب میں ڈھالا، بلکہ ان پر مستند انگریزی جراید میں تنقیدی مضامین بھی لکھے.

    ان کے اور محمد حمید شاہد کے درمیان ماریو برگس یوسا کی کتاب سے متعلق ہونے والی خط و کتابت بھی کتابی صورت میں شایع ہوئی.

    ڈاکٹر عمر میمن 1939 میں علی گڑھ میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا تعلق گجراتی فیملی سے تھا، وہ عربی کے معروف اسکالر عبدالعزیز میمن کے بیٹے تھے، انھوں نے 1964 میں‌ ہارورڈ سے ایم اے اور یونیورسٹی آف کیلی فورنیا، لاس اینجلس سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی.

    ڈاکٹر عمر میمن ممتاز نقاد ڈاکٹر شمیم حنفی کے ساتھ

    وہ 38 برس یونیورسٹی آف وسکانسن سے متعلق رہے. انھوں نے پچیس برس تک اینو اسٹڈی آف اردو لٹریچر نامی جریدہ نکالا.


    اردو کے محسن، ممتاز مترجم شاہد حمید انتقال کر گئے


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔