Tag: محمد کاظم کی تحریریں

  • ”جب کوئی ہمارے ساتھ گستاخی کرے تو اپنی جان بچا کے نہیں لے جا سکتا“

    ”جب کوئی ہمارے ساتھ گستاخی کرے تو اپنی جان بچا کے نہیں لے جا سکتا“

    ہمارے اس ملک میں صحیح معنوں میں کثیرُ المطالعہ لوگ انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں۔ ان میں سے کچھ کو ہم جانتے ہیں اور کچھ لوگ ایسے ہیں جن کا انکشاف ہمیں ان کی تحریریں پڑھ کر ہوتا ہے۔

    کوئی شک نہیں کہ سیّد علی عباس جلالپوری ان کثیرُ المطالعہ لوگوں کی اقلیت سے تعلق رکھتے تھے۔ انہوں نے بہت پڑھا تھا اور جو پڑھا تھا اس کے بارے میں سوچ بچار کیا تھا اور اس کو ہضم کر کے اپنی ذہنی و فکری وجود کا جزو بنایا تھا۔

    مطالعے کی اس وسعت کے ساتھ ان کی دل چسپیوں کے میدان بھی گوناگوں تھے جو نفسیات، ناول و افسانہ، موسیقی اور مصوری سے ہوتے ہوئے جنسیات تک چلے گئے تھے۔ ایک دفعہ میں نے ان سے پوچھا کہ انہوں نے اپنی زندگی میں یہ سب کچھ کیسے کر لیا تھا؟ انہوں نے اس کا جو جواب دیا، اسے سن کر مجھے اپنی زندگی کے رائیگاں چلے جانے کا بہت افسوس ہوا۔ کہنے لگے ”سیّد صاحب! اس میں میرا کوئی بڑا کمال نہیں ہے۔ میں نے بس اتنا کیا ہے کہ زندگی میں اپنا وقت بہت کفایت شعاری سے استعمال کیا ہے۔ میں نے اسے روزمرہ کے فضول مشاغل میں ضائع نہیں ہونے دیا۔ میں نے کبھی بے مقصد مطالعہ نہیں کیا اور جو کچھ بھی پڑھا ہے ایک منصوبے کے تحت پڑھا ہے، چاہے وہ فلسفہ ہو، تاریخ ہو یا ناول و افسانہ ہو اور پھر اس کے باقاعدہ نوٹس (Notes) لیے ہیں اور میرے ان نوٹس کے پلندوں سے بوریاں بھر گئی ہیں۔ چنانچہ آج کل کسی موضوع پر لکھتے ہوئے مجھے جب بھی ان پڑھی ہوئی کتابوں کی طرف رجوع لانے یا ان کا حوالہ دینے کی ضرورت پیش آتی ہے، میں اپنے یہی نوٹس نکال کر سامنے رکھ لیتا ہوں اور وہ سب کچھ جو میں نے پڑھا تھا، مستحضر ہو جاتا ہے۔“

    لیکن پتا نہیں کیوں اس سارے مطالعے اور علم و دانش کے باوجود شاہ صاحب کی شخصیت اور مزاج میں ایک کمی محسوس ہوتی تھی اور وہ کمی تھی رواداری اور لچک کی، مخالف کی بات برداشت کرنے کی….ایسی کمی جس کی توقع ایک اسکالر سے نہیں کی جاتی۔

    مجھے کئی موقعوں پر یوں لگا کہ شاہ صاحب میں بعض چیزوں کے حق میں اور بعض چیزوں کے خلاف خاصا تعصب موجود ہے اور اس معاملے میں ان کا رویہ بالکل بے لچک ہے۔ وہ جب کسی بات پر اڑ جاتے تو پھر اس کے خلاف کوئی دلیل نہ سنتے۔ اس کی وجہ شاید یہ ہو کہ وہ زندگی بھر تدریس کے منصب پر فائز رہے اور استاد حضرات کے مخاطب ہمیشہ چونکہ ان کے کم علم شاگرد ہوتے ہیں۔ اس لیے وہ دوسرے لوگوں سے بھی جب بات کرتے ہیں تو لاشعوری طور پر استادی کی سطح ہی سے بات کرتے ہیں یا اس کی وجہ شاہ صاحب کا وہ خاص مزاج اور طبیعت ہو سکتی ہے جو انہیں قدرت کی طرف سے ودیعت ہوئی تھی۔ کچھ بھی ہو شاہ صاحب کو اپنی اس مزاجی خصوصیت کی وجہ سے بعض موقعوں پر کافی ناخوش گوار صورت حال کا سامنا کرنا پڑا۔ اس سلسلے میں ایک واقعہ میرے ذہن میں آتا ہے:

    ایک دن حسبِ معمول ”فنون“ کی محفل جمی ہوئی تھی کہ اتفاق سے سابق مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے نظم گو شاعر صلاح الدّین محمد آ نکلے۔ پہلے تو کچھ شعر و سخن پر گفتگو ہوئی، پھر باتیں سیاست کی طرف چل نکلیں۔ صلاح الدین محمد کا خیال تھا کہ دوسرے صوبوں اور خصوصاً کراچی اور اس میں آباد اُردو بولنے والے طبقے کے ساتھ اہلِ پنجاب کا رویہ ہم دردانہ اور منصفانہ نہیں تھا۔ شاہ صاحب نے حسبِ توقع پنجاب اور اہلِ پنجاب کا دفاع کیا اور اپنی بات کے حق میں دلائل دیے، لیکن اس بحث میں دونوں طرف کچھ تیزی آ گئی۔ شاہ صاحب اپنی بات پر اڑے ہوئے تھے۔ اتنے میں صلاح الدّین محمد کی زبان سے بے اختیار یہ جملہ نکل گیا، ”سید صاحب! آپ بھی اپنے علم کے باوجود نہایت متعصب اور پست ذہنیت رکھنے والے انسان ہیں۔“ یہ سننا تھا کہ شاہ صاحب جلال میں آ گئے اور غصے میں بے قابو ہو کر اس مہمان کو ایسی بے نقط سنائیں کہ سب لوگ ہکا بکا رہ گئے۔

    ان کی اس تیز و تند تقریر کا ٹیپ کا جملہ یہ تھا کہ ”ہم جلالپور کے رہنے والے ہیں، جب کوئی ہمارے ساتھ اس طرح گستاخی کرے تو وہ اپنی جان بچا کے نہیں لے جا سکتا۔“ صلاح الدّین محمد کو فوراً ہی احساس ہوا کہ ان سے بہت بڑی غلطی سرزد ہو گئی ہے۔ اب وہ معذرت کر رہے ہیں، معافی مانگ رہے ہیں کہ یہ فقرہ ان کے منہ سے بے ساختہ سوچے سمجھے نکل گیا ہے لیکن شاہ صاحب کا پارہ جب ایک دفعہ چڑھ گیا تو نیچے اترنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔ اتنے میں وہ اٹھے اور اپنی چھڑی سنبھال دفتر کی سیڑھیاں اتر کر نیچے چلے گئے۔

    اس افسوس ناک واقعے کے بعد شاہ صاحب نے ”فنون“ کے دفتر آنا چھوڑ دیا اور کسی کے ہاتھ کوئی پیغام بھی نہ بھیجا۔ ہم لوگوں نے پہلے کچھ عرصہ تو ان کے آنے کا انتظار کیا لیکن جب ان کی غیر حاضری کو ایک مہینہ گزر گیا تو مدیر ”فنون“ اور راقم السّطور نے طے کیا کہ ان کے گھر جا کر انہیں منانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ چنانچہ ایک دن ہم ان کے گھر ساندہ جا نکلے۔ ہم اندر سے ڈر رہے تھے کہ خدا جانے ہمیں یوں دیکھ کر ان کا فوری ردعمل کیا ہو گا۔ ہم نے جب گھنٹی بجائی تو یہ امکان بھی ہم نے سوچ رکھا تھا کہ شاہ صاحب جب باہر نکل کر ہمیں دیکھیں گے تو بڑی رکھائی سے کہیں گے ”فرمائیے، آپ صاحبان نے کیسے زحمت کی!“ لیکن خدا کا شکر کہ ایسا کچھ بھی نہ ہوا۔ شاہ صاحب باہر آئے تو ہم دونوں کو دیکھ کر نہال ہو گئے۔ مسکراتے ہوئے ہم سے ملے اور ہمیں اندر لے گئے۔ اِدھر اُدھر کا حال دریافت کرتے رہے۔ چائے اور فرنچ ٹوسٹوں کے ساتھ ہماری تواضع کی۔ پھر پیشتر اس کے کہ ہم کچھ بولیں، خود ہی کہنے لگے ”اس دن میں نے جو کچھ کیا وہ ٹھیک نہیں تھا، مجھے ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا لیکن میری مجبوری یہ ہے کہ میں ہائی بلڈ پریشر کا مریض ہوں۔ جب کوئی ناگوار بات سن کر مجھے غصہ آتا ہے تو یہ بلڈ پریشر یکلخت شوٹ کر جاتا ہے اور میرے لیے اپنے آپ کو قابو میں رکھنا ناممکن ہو جاتا ہے۔ بہرحال مجھے اس واقعے کا بہت افسوس ہے۔“ ہم نے شاہ صاحب کو اطمینان دلایا کہ وہ بات آ گئی ہو گئی ہے اور ان کے لیے اب گھر میں محصور رہنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ ہم ”فنون“ کی محفل سے ان کی غیر حاضری کو بہت محسوس کر رہے ہیں، اس لیے مہربانی کر کے اب وہ آنا شروع کر دیں۔ شاہ صاحب نے ہماری بات مان لی اور ان کے آجانے سے ”فنون“ کی ہفتہ وار مجلس پھر سے آباد ہو گئی۔

    (اردو کے ممتاز محقّق، مترجم اور عربی داں محمد کاظم کے ایک مضمون سے اقتباس)

  • معرّیٰ کا زمانۂ قیامِ بغداد اور تین مشہور واقعات

    معرّیٰ کا زمانۂ قیامِ بغداد اور تین مشہور واقعات

    ’’معرّیٰ کے زمانۂ قیامِ بغداد سے متعلق تین واقعات تاریخ کی کتابوں اور تذکروں میں اکثر دیکھنے میں آتے ہیں، جن سے پتہ چلتا ہے کہ معرّیٰ جیسے شخص کے لیے جو دور کی ایک آبادی سے چل کر آیا تھا، بغداد کا عام ادبی ماحول بھی کس قدر نخوت بھرا اور غیر دوستانہ تھا۔

    معرّیٰ جب بغداد پہنچا تو الشریف المُرتضٰی اور الشریف الرّضی کے والد اور ایک بارسوخ علوی گھرانے کے بزرگ الشریف طاہر الموسوی کا تھوڑا عرصہ ہوئے انتقال ہوا تھا اور لوگ تعزیت کے لیے اس معزّز گھرانے میں آجا رہے تھے۔

    ایک دن معرّیٰ بھی وہاں افسوس کرنے کے لیے پہنچا اور مجمع کی آخری صفوں کو پھلانگ کر آگے جانے لگا تو کسی نے کہا: الی این یا کلب؟ (کہاں جاتے ہو، کتّے!) معرّیٰ نے پلٹ کر جواب دیا ”کتّا وہ ہو گا جو کتّے کے ستّر نام نہ جانتا ہو!“ اس پر لوگوں میں کھسر پھسر شروع ہوئی اور کسی نے کہا کہ یہ ابوالعلاء معرّیٰ کے سوا اور کوئی نہیں ہو سکتا، اس لیے کہ وہی عربی زبان میں کتّے کے لیے ستّر نام گنوا سکتا ہے۔ بہرحال وہ کسی پچھلی صف میں اٹک گیا۔

    دوسرے شعرا جب اپنا تعزیتی کلام سنا چکے تو معرّیٰ کی باری آئی اور اس نے اپنا وہ مرثیہ پڑھا جس کا مطلع ہے۔ (یہاں ہم اس کا اردو ترجمہ و مفہوم کررہے ہیں)
    وہ کیا گیا کہ مفلس کا مالی وسیلہ چلا گیا اور طالب خوشبو کے لیے عنبر نہ رہا۔ کاش زمانے کے حادثات میں کچھ تو توازن ہوتا۔

    جب دونوں بھائیوں نے اس کا کلام سنا تو اُٹھ کر آئے اور اس کا ہاتھ پکڑ کر آگے لے گئے۔ کہنے لگے ”آپ غالباً ابو العلا معرّیٰ ہیں۔“ اس نے کہا۔ ”ہاں“ اس پر انھوں نے شاعر کی عزت و تکریم کی اور اسے اپنے پاس بٹھایا۔

    دوسرا واقعہ اس امر کا غمّاز ہے کہ بغداد میں بعض اہلِ علم بھی معرّیٰ سے کس طر ح حسد کرنے لگے تھے، یہاں تک کہ اس کے ساتھ بدتمیزی کرنے سے بھی نہیں چوکتے تھے۔ بغداد میں ایک نحوی تھا: ابوالحسن علی بن عیسیٰ جو اپنے علم کی وجہ سے جانا پہچانا جاتا تھا۔ معرّیٰ نے سوچا کہ اس سے جا کر ملنا چاہیے۔

    جب وہ اس کے ہاں پہنچا تو اندر آنے کے لیے اجازت طلب کی۔ اس پر ابوالحسن نے آواز دی: ”لیصعد الاصطبل“ (اوپر آ جائو، اندھے میاں) ابوالعلا کو یہ طرزِ تخاطب بہت ناگوار گزرا اور وہ وہیں سے واپس مڑ گیا اور پھر کبھی ابوالحسن نحوی سے ملنے کا خیال دل میں نہ لایا۔

    تیسرا واقعہ پھر اسی امیر الشریف المرتضیٰ کی مجلس سے متعلق ہے اور بعض لوگوں کے نزدیک یہ واقعہ بغداد سے ہمارے شاعر کا دل اُچاٹ کرنے کا سب سے بڑا سبب ہے۔ ابوالعلا جیسا کہ اوپر ذکر ہوا، شاعر متنبی کا بہت مداح تھا اور اس کے دیوان کی شرح بھی اس نے لکھی تھی۔

    ایک دن وہ الشریف المرتضیٰ کی مجلس میں آیا تو متنبی کا ذکر چل نکلا اور المرتضیٰ نے اس شاعر کے بارے میں کچھ نازیبا کلمات منہ سے نکالے۔ اس پر معرّیٰ سے نہ رہا گیا اور اس نے کہا۔ ”اگر متنبی نے صرف ایک ہی نظم کہی ہوتی جس کا مطلع ہے: لک یا منازل فی القلوب منازل، تو اس کی عظمتِ شان کے لیے یہی کافی تھی۔“

    یہ سن کر مرتضیٰ سیخ پا ہو گیا اور اس نے حکم دیا کہ معرّیٰ کو پاؤں سے گھسیٹ کر مجلس سے باہر نکال دیا جائے۔ لوگ امیر کے اس ردِّ عمل پر قدرے حیران ہوئے تو مرتضیٰ نے کہا: آپ کو معلوم ہے کہ وہ مطلع پڑھنے سے اُس خبیث کا مطلب کیا تھا؟ لوگوں نے کہا ”نہیں“ تو کہنے لگا اس کا اشارہ دراصل متنبی کے مذکورہ قصیدے کے اُس شعر کی طرف تھا جس میں وہ کہتا ہے: (شعر کا اردو ترجمہ و مفہوم یہاں پیش کیا جارہا ہے)
    اور جب تم میری مذمت کسی ایسے شخص کی زبان سے سنو جو خود ناقص ہو تو یہ اس بات کی دلیل ہو گی کہ میں کامل ہوں!

    یہ کچھ واقعات تو تاریخ کی کتابوں اور تذکروں میں درج ہو گئے۔ خدا جانے اس طرح کے اور کتنے واقعات ہوں گے جن میں ابوالعلا کو امّ البلاد بغداد کے حاسد اور تنگ دل مکینوں کی زبانی چھوٹی اور پر آزار باتیں سننی پڑی ہوں گی، لیکن ان کا کہیں ذکر نہ ہو سکا۔ ایک طرف یہ حالات تھے اور دوسری طرف ابوالعلا کے پاس وہ رقم ختم ہونے لگی تھی جو وہ معرّہ سے اپنے ساتھ لایا تھا۔

    فاصلے کی دُوری کے سبب اس کے لیے اپنے شہر سے مزید رقم منگوانا بھی آسان نہیں تھا۔ بغداد میں خلفا اور امرا کے گرد خوشامدیوں اور موقع پرستوں کے ہجوم نے معرّیٰ کے لیے ایک باعزت رزق کے دروازے بند کر دیے تھے۔ وہ جب ان امرا اور رؤسا کی مدح میں قصائد کہنے کا روادار نہیں تھا تو پھر یہ بااثر لوگ کیوں اِس کی فکر کرتے کہ بغداد میں وارد ہونے والے اس جوہرِ قابل کو اس کے شایانِ شان کوئی تدریسی یا ثقافتی عہدہ دے کر اسے مالی طور پر آسودہ کر دیا جائے۔

    ابوالعلا کو اب اپنا شہر معرّہ بُری طرح یاد آنے لگا تھا۔ ایک تو اپنی والدہ اور اقارب و اعزا سے جدائی، دوسرے ان لوگوں سے دُوری جو اس کے شہر میں اس کے ہاں آتے جاتے اور اس سے میل جول رکھتے تھے۔ اس پر مستزاد ہاتھ کی تنگی جو اب اسے بری طرح محسوس ہونے لگی تھی۔

    اسی زمانے کی ایک نظم میں وہ پہلی دفعہ شراب پینے کا خیال دل میں لاتا ہے اور کہتا ہے:

    میں نے چاہا کاش شراب مجھے اتنا بے خود کر دیتی کہ مجھے یہ سدھ نہ رہتی کہ میں کس حال میں ہوں۔ اور بھول جاتا کہ میں عراق میں جاں بلب ہوں اور میری سب خواہشیں ماند پڑ گئی ہیں۔

    ایسے حالات میں بھی معرّیٰ شاید کچھ وقت اور بغداد میں رہ لیتا، لیکن انہی دنوں اسے معرّہ سے اپنی والدہ کی علالت کی خبر ملی، جس سے وہ بے چین ہو گیا اور اس نے بالآخر بغداد کو خیر باد کہنے کا فیصلہ کر لیا۔

    شاعر کی بد قسمتی کہ ابھی وہ معرّہ کے راستے میں ہی تھا کہ اس کی والدہ کا انتقال ہو گیا۔‘‘

    (ابوالعلا معرّیٰ اپنے زمانے کے ایک عظیم مدبّر، دانا و حکیم اور مشہور شاعر تھے، انھوں نے 1057ء میں وفات پائی، ان کے بارے میں یہ پارے ممتاز شاعر و ادیب، محقّق اور مترجم محمد کاظم کی کتاب سے نقل کیے گئے ہیں)