Tag: محمد یونس

  • بنگلادیش: عبوری سربراہ محمد یونس نے مستعفی ہونے کی دھمکی دیدی

    بنگلادیش: عبوری سربراہ محمد یونس نے مستعفی ہونے کی دھمکی دیدی

    بنگلادیش میں سیاسی بحران میں مزید شدت آتی جارہی ہے، ایسے میں محمد یونس نے عبوری سربراہ کے عہدے سے مستعفی ہونے کی دھمکی دے دی ہے۔

    بین الاقوامی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق عبوری سربراہ محمد یونس نے اپنی کابینہ سے کہا ہے کہ اگر سیاسی جماعتوں نے انہیں اپنی مکمل حمایت نہ دی تو وہ استعفیٰ دیدیں گے جبکہ ان کی کابینہ کے ارکان نے انہیں ایسا نہ کرنے پر آمادہ کیا۔

    نیشنل سٹیزن پارٹی کے مطابق محمد یونس کو سیاسی بحران سے نمٹنے کے لیے ایک آل پارٹی میٹنگ بلانے کا مشورہ بھی دیا گیا ہے۔

    عبوری حکومت کے سربراہ محمد یونس کی جانب سے استعفیٰ دینے کی مبینہ دھمکی ڈھاکا میں نیشنلسٹ پارٹی کے ہزاروں حامیوں کی پہلی بار عبوری حکومت کے خلاف بڑے پیمانے پر احتجاجی ریلی نکالنے کے بعد سامنے آئی۔

    دوسری جانب سفارتی کشیدگی کے باعث بنگلہ دیش نے بھارتی کمپنی کے ساتھ کروڑوں روپے کا ایک معاہدہ منسوخ کر دیا ہے۔

    دونوں ملکوں کے درمیان سفارتی کشیدگی کے دوران بنگلہ دیش نے بھارتی کمپنی کے ساتھ کروڑوں روپے کا ایک معاہدہ منسوخ کر دیا ہے جبکہ چند روز قبل ہی بھارت نے بنگلہ دیش کی بعض مصنوعات کی درآمدات پر پابندی عائد کر دی تھی۔

    بھارتی شہر کولکتہ میں قائم سمندری جہاز تعمیر کرنے والی کمپنی کا کہنا ہے کہ بنگلہ دیش نے شپ تعمیر کرنے کے 21 ملین ڈالر کے بڑے دفاعی معاہدے کو منسوخ کر دیا۔

    منسوخ شدہ معاہدے میں بنگلہ دیش کے لیے ایک جدید سمندری ٹگ (چھوٹے جہاز) کی تعمیر شامل تھی، جو کھلے سمندروں میں لمبی دوری تک تجارتی بحری جہازوں کو کھینچنے اور بچاؤ کے کاموں کے لیے ایک خصوصی سمندی کشتی ہے۔

    رپورٹ کے مطابق یہ کمپنی بھارتی وزارت دفاع کے تحت کام کرتی ہے، چند روز پہلے بھارت نے بنگلہ دیش کی بعض مصنوعات کی درآمدات پر پابندی عائد کر دی تھی۔

    خالدہ ضیاء بنگلادیش واپس پہنچ گئیں، بڑا مطالبہ کردیا

    جبکہ حال ہی میں بھارت نے بنگلہ دیشی کارگو کی تیسرے ممالک کو برآمدات کے لیے ٹرانس شپمنٹ کی سہولیات کو منسوخ کر دیا تھا اور ڈھاکہ کی اس کارروائی کو بھارت کے حالیہ فیصلے پر جوابی کارروائی کہا جا رہا ہے۔

  • محمد یونس نے مودی سے ملاقات میں شیخ حسینہ کی حوالگی کا مطالبہ کیا، مودی کا انکار

    محمد یونس نے مودی سے ملاقات میں شیخ حسینہ کی حوالگی کا مطالبہ کیا، مودی کا انکار

    نئی دہلی: بنگلادیش کے عبوری رہنما محمد یونس نے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی سے ملاقات میں شیخ حسینہ واجد کی حوالگی کا مطالبہ کر دیا ہے۔

    غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق بنگلادیش کی سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ کو طلبہ کی قیادت میں ہونے والی بغاوت میں معزول کیے جانے کے بعد، پہلی بار تھائی لینڈ میں جمعہ کو بمسٹیک سربراہی اجلاس کے موقع پر بنگلادیشی اور بھارتی رہنماؤں کی ملاقات ہوئی۔

    بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اور بنگلادیش کے عبوری رہنما محمد یونس نے سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ کی بھارت سے حوالگی پر تبادلہ خیال کیا، محمد یونس نے کہا کہ بھارت مفرور وزیر اعظم کو بنگلادیش کے حوالے کرے، بھارت میں موجود حسینہ واجد مستقل عبوری حکومت پر مسلسل غلط اور اشتعال انگیز الزامات لگا رہی ہیں۔

    مودی نے بنگلادیش کی کسی بھی جماعت کی حمایت سے انکار کرتے ہوئے بنگلادیش سے مثبت اور تعمیری تعلقات کی خواہش کا اظہار کیا۔ نریندری مودی نے حسینہ واجد کو بنگلادیش کے حوالے کرنے کی درخواست مسترد کی، جہاں سابق وزیر اعظم کو بڑے پیمانے پر قتل کے الزامات کا سامنا ہے، اور ان کی بھارت موجودگی سے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات خراب ہو رہے ہیں۔


    بھارت میں متنازع وقف بل منظور، کانگریس کا بل کو چیلنج کرنے کا اعلان


    محمد یونس کے پریس سیکریٹری شفیق العالم کے مطابق بنگلادیش نے دونوں رہنماؤں کے درمیان 40 منٹ کی ملاقات کو ’’انتہائی تعمیری اور نتیجہ خیز‘‘ قرار دیا، جس میں باہمی دل چسپی کے امور پر بات کی گئی۔

  • بنگلہ دیش میں ہندوؤں پر حملے میں کتنی حقیقت ہے؟ محمد یونس نے بتادیا

    بنگلہ دیش میں ہندوؤں پر حملے میں کتنی حقیقت ہے؟ محمد یونس نے بتادیا

    بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کے سربراہ محمد یونس نے ملک میں ہندوؤں پر حملوں کو پروپیگنڈا اور بھارتی حکومت کی تشویش کو غلط قرار دیا ہے۔

    محمد یونس نے بنگلہ دیش میں رہنے والے ہندوؤں پر حملوں کو پروپیگنڈے سے تشبیح دی، انھوں نے کہا کہ بھارتی حکومت ہندوؤں کے تحفظ کے حوالے سے جس تشویش کا اظہار کر رہی ہے وہ حقائق پر مبنی نہیں ہیں، ہندوؤں کے حوالے سے جو کچھ کہا جا رہا ہے وہ صرف ’پروپیگنڈا‘ ہے۔

    چیف ایڈوائزر نے سابق وزیراعظم شیخ حسینہ پر بڑا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ شیخ حسینہ نے سب کچھ برباد کر دیا ہے، بنگلہ دیش میں انتخابی اصلاحات کے بعد ہی انتخابات ہوں گے۔

    انھوں نے کہا کہ انٹرنیشنل کرائم ٹربیونل میں ٹرائل ختم ہونے کے بعد وہ شیخ حسینہ کی بھارت سے حوالگی کی بات کریں گے، بین الاقوامی قانون کے تحت بھارت ان کی حوالگی کا پابند ہے۔

    انٹرویو کے دوران ملک کے عبوری سربراہ نے کہا کہ یہاں اصلاحات پر عمل درآمد میں وقت لگے گا کیونکہ ہم بنگلہ دیش کو نئے سرے سے تعمیر کر رہے ہیں،عبوری حکومت نے انتخابی نظام، آئین اور عدلیہ میں اصلاحات کے لیے کئی کمیشن بنائے ہیں۔

    انھوں نے کہا کہ 15 سالہ دور میں بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ نے سب کچھ برباد کردیا، انتظامی ڈھانچہ مکمل طور پر تباہ ہو چکا ہے۔

    محمد یونس نے کہا کہ شیخ حسینہ نے جعلی انتخابات کرائے اور خود کو اور ان کی پارٹی کو بلامقابلہ فاتح قرار دیا، شیخ حسینہ نے ایک فاشسٹ حکمران کے طور پر حکومت کی۔

  • حسینہ واجد: مطلق العنان طرز ہائے حکمرانی کے لیے ایک سبق

    حسینہ واجد: مطلق العنان طرز ہائے حکمرانی کے لیے ایک سبق

    شدید عوامی احتجاج اور فوج کے دباؤ کے بعد بنگلا دیش میں‌ عوامی لیگ کی سربراہ شیخ حسینہ واجد کے مسلسل 16 سالہ اقتدار کا خاتمہ ہوگیا۔ انہیں مستعفی ہونے کا حکم آرمی چیف جنرل وقار الزمان نے دیا جو رشتے میں ان کے بہنوئی بھی لگتے ہیں، جب کہ حسینہ واجد کے ملک چھوڑنے کے بعد صدر شہاب الدین نے طلبہ کے مطالبے پر نوبل انعام یافتہ محمد یونس کی سربراہی میں عبوری حکومت کے قیام کا اعلان کر دیا ہے۔ خالدہ ضیا سمیت تمام مخالف سیاسی رہنماؤں کو بھی رہا کر دیا گیا ہے، جب کہ اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے تین ماہ میں نئے الیکشن کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

    43 سال قبل بنگلا دیش ہمارا ہی ایک حصہ تھا اور مشرقی پاکستان کہلاتا تھا، لیکن 1971 میں بھارت کی مداخلت سے سقوط ڈھاکا کے بعد جب دنیا کے نقشے پر بنگلا دیش کے نام سے ابھرا تو کئی مسائل سے نبرد آزما تھا۔ تاہم 2009 میں عوامی لیگ کی سربراہ شیخ حسینہ واجد نے جب دوسری بار عنان اقتدار سنبھالا تو بنگلا دیش کو معاشی ترقی کی ایسی ڈگر پر ڈالا کہ وہ خطے کے کئی ممالک سے آگے نکل گیا اور خوشحالی کا پیمانہ یہاں تک پہنچا کہ اس کے ملکی زرمبادلہ کے ذخائر پاکستان سمیت خطے کے کئی ممالک سے زیادہ اور کرنسی (ٹکا) کی قدر پاکستانی روپے سے کئی گنا تک بڑھ گئی۔

    بنگلا دیش کو ڈیڑھ دہائی میں تیز رفتار ترقی دینے والی حسینہ واجد کے اقتدار کا ایسا انجام کہ انہیں یوں ملک سے فرار ہونا پڑا، خود انہوں نے تو کیا شاید ان کے بدترین مخالفین نے بھی نہیں سوچا ہوگا۔ لیکن کہتے ہیں کہ جب کامیابی غرور کی شکل اختیار کر لے اور حد سے بڑھ جائے تو کچھ لوگ خود کو ہی عقل کل سمجھ بیٹھتے ہیں اور پھر اس زعم میں وہ ایسے فیصلے کرتے ہیں جن کا انجام بھیانک ہوتا ہے۔

    خطے میں تیزی سے معاشی ترقی کرتے بنگلا دیش کا سیاسی زوال تو حسینہ واجد کے دور اقتدار میں ان کے بعض اقدامات کی وجہ سے آہستہ آہستہ شروع ہوگیا تھا لیکن جب 2009 میں وہ دوسری بار اقتدار کے سنگھاسن پر بیٹھیں تو سارے جمہوری اصولوں کو پس پشت ڈالتے ہوئے اپنے حریفوں سے بات چیت کے دروازے بند کر دیے اور بھارت نواز پالیسی اپناتے ہوئے ہندو انتہا پسند مودی کو اپنا دیرینہ دوست جب کہ پاکستان کے خلاف معاندانہ رویہ اختیار کیے رکھا۔ اپنے ملک میں سیاسی و نظریاتی مخالفین کا جینا حرام کر دیا۔

    حسینہ واجد نے صرف اسی پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ اپنی عوامی مقبولیت کے زعم میں عوام کے ہی مسائل حل کرنے کی بجائے اپنی تمام تر توانائی صرف مخالفین کو دبانے اور انتقام کی آگ ٹھنڈا کرنے پر لگا دی۔ انہوں نے ملک بھر میں جماعت اسلامی پر پابندی لگائی۔ اس کے معمر رہنماؤں پر ظلم کی تاریخ رقم کرتے ہوئے سن رسیدگی کے باوجود پھانسی کی سزا دی اور اس کو اپنا بڑا کارنامہ گردانا۔ انہوں ںے ماضی کی تلخیوں کو دوبارہ تازہ کرتے ہوئے البدر، الشمس اور پاکستانی فوج کا ساتھ دینے والے رضاکاروں کو پھانسیاں دی لیکن یہی رضاکار کا لفظ ان کے اس بھیانک انجام کا باعث بنا۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ وہ فسطائیت کی اس انتہا پر جا پہنچیں کہ پڑوسی ہونے کا فرض نبھاتے ہوئے روہنگیا کے مظلوم مسلمانوں کی داد رسی کے بجائے ان پر اپنے ملک کی سرحدیں ہی بند کر دیں۔

    اپنے اقتدار کو دوام دینے کے لیے رواں سال جنوری میں ہونے والے الیکشن میں ’’بنگلا دیش میں ایک پارٹی‘‘ پالیسی کی تکمیل کے لیے اپنے تمام سیاسی حریفوں جن میں سابق وزیراعظم خالدہ ضیا سمیت درجنوں سیاسی رہنما شامل ہیں، انہیں پابند سلاسل کیا، مخالف سیاسی رہنماؤں کے ساتھ کارکنان پر ظلم کے پہاڑ توڑے اور ایسے انوکھے انتخابات کرائے کہ اقتدار میں موجود رہ کر مسلسل چوتھی اور مجموعی طور پر پانچویں بار کامیابی کے ساتھ وزارت عظمیٰ کے پر فائز ہوئیں اور بنگلا دیش کی تاریخ میں طویل مدت تک حکمرانی کا ریکارڈ بھی قائم کیا۔

    ایسے میں جب 30 لاکھ بنگلا دیشی نوجوان بیروزگار ہیں، تو یہ کوٹہ سسٹم ایک عفریت کی طرح عوام پر مسلط تھا جس کے تحت بنگلا حکومت کی 54 فی صد ملازمتیں مخصوص طبقات میں تقسیم کی جاتی ہیں اور صرف 46 فی صد میرٹ پر دی جاتی ہیں۔ گزشتہ ماہ جولائی میں جب طلبہ کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوا تو چند طلبہ رہنماؤں کی آواز میں ملک بھر کے عوام نے آواز ملائی لیکن حسینہ واجد جو اقتدار کو شاید اپنا پیدائشی اور دائمی حق سمجھ رہی تھیں۔ انہوں نے مظاہرین کو ’’رضا کار‘‘ کہہ کر مخاطب کیا جس کو بنگالی میں غداری کے مترادف سمجھا جاتا ہے، جس نے اس احتجاج کو ایک نیا رخ دیا اور گالی نما اس لفظ کی صورت میں بنگلہ دیشی عوام کی غیرت پر ایسا حملہ ہوا کہ لاکھوں عوام بغیر کسی سیاسی چھتری کے سڑکوں پر نکل آئی جو پہلے سول نافرمانی اور پھر حسینہ واجد ہٹاؤ تحریک میں تبدیل ہوگئی۔

    لیکن مثل مشہور ہے نا کہ ہاتھی کی موت کمزور سی چیونٹی کے سبب ہو جاتی ہے۔ جس طاقتور حسینہ واجد کو ان کے بڑے سیاسی حریف پیچھے ہٹنے پر مجبور نہ کر سکے، اسی طاقتور وزیراعظم کو بنگلا دیش میں کوٹہ سسٹم کے خلاف یونیورسٹی سے شروع ہونے والی ایک تحریک، جس کا سرخیل تین طلبہ تھے جنہوں نے حکومتی جبر کے سامنے گھٹنے ٹیکنے سے انکار کر دیا اور بہادری کی ایسی داستان رقم کی جس نے بنگلا دیش کی طاقتور ترین وزیراعظم کو یوں پسپائی پر مجبور کیا کہ وہ پھر 45 منٹ کے نوٹس پر نہ اپنا سارا کروفر چھوڑ کر چند سوٹ کیسوں کے ساتھ بہن کے ہمراہ بھارت فرار ہوگئیں۔ مگر عوامی لیگ کی حکومت نے آواز خلق کو نقارۂ خدا نہ سمجھا اور اپنی پسپا ہوتی طاقت کے زعم میں مظاہرین سے سختی سے نمٹنے کا حکم دیا جس کے نتیجے میں ڈھاکا سمیت ملک کے کئی شہروں کی سڑکیں بے گناہوں کے خون سے سرخ ہوگئیں اور بین الاقوامی میڈیا کے مطابق اس شورش میں 400 سے زائد بنگلا دیشی شہری جان سے گئے۔ اس موقع پر جب بنگلا دیشی فوج نے بھی عوام کے ساتھ کھڑے ہونے کا اعلان کیا تو یہ حسینہ واجد کے لیے گرین سگنل تھا اور پھر وہی ہوا جو دنیا کی طویل تاریخ میں طاقت کے نشے میں چور حکمرانوں کا ہوتا ہے، جس کے حکم پر پوری حکومتی مشینری حرکت میں آ جاتی تھی اس کی یہ حالت ہوگئی کہ اسے آخری بار اپنی قوم سے خطاب کی اجازت بھی نہ دی گئی اور محفوظ راستہ فراہم کرتے ہوئے فوجی ہیلی کاپٹر میں رخصت کیا گیا اور انہیں وقت رخصت وزیراعظم ہاؤس پر حسرت بھری نظر ڈالنا شاید زندگی بھر یاد رہے گا۔

    کل تک کروفر سے دنیا کے ہر ملک گھومنے والی حسینہ واجد پر آج ہر ملک اپنا دروازہ بند کر رہا ہے۔ خود ان کا دیرینہ دوست ملک بھارت انہیں طویل مدت تک سیاسی پناہ دینے سے گریزاں ہے جب کہ برطانیہ نے بھی ان کی طویل سیاسی پناہ کی درخواست پر کوئی مثبت ردعمل نہیں دیا ہے جب کہ امریکا نے تو ان کا ویزا ہی منسوخ کر ڈالا ہے۔

    شیخ حسینہ کی انتظامیہ پر حزب اختلاف کی آوازوں اور اختلاف رائے کو منظم طریقے سے دبانے نے جمہوری عمل اور اداروں کو کمزور کردیا۔ ان کے دور میں انتخابات دھاندلی اور تشدد کے الزامات میں گھرے رہے۔ سرکاری ایجنسیوں نے ان کی ہدایت پر سازش کی اور اپوزیشن لیڈروں کو جیلوں میں ڈالتی رہیں یا ان کے خلاف مقدمات کا انبار لگا دیا گیا۔ پولیس اور دیگر سرکاری اداروں نے اپوزیشن رہنماؤں کو پھنسانے کے لیے کام زیادہ کیا۔ بدعنوانی اور اقربا پروری کے الزامات نے بھی ان کے سیاسی کیریئر کو داغ دار کیا۔ حسینہ کی حکومت میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی متعدد رپورٹس سامنے آئی ہیں، جن میں جبری گمشدگیاں اور ماورائے عدالت قتل شامل ہیں۔ بین الاقوامی تنظیموں نے ان زیادتیوں کو دستاویزی شکل دی ہے، جس کے نتیجے میں مغربی ممالک نے ان خلاف ورزیوں سے منسلک کچھ سیکیورٹی فورسز کے خلاف پابندیاں بھی عائد کیں۔ حسینہ واجد کے دور میں ان حکومت پر تنقید کرنے والے صحافیوں اور میڈیا اداروں کو اکثر ہراساں کیے جانے، قانونی کارروائی یا بندش کا سامنا کرنا پڑا۔

    حسینہ واجد کے جابرانہ اقتدار کے خاتمے کے بعد جہاں بنگلا دیش میں عوام خوشیاں اور جشن منا رہے ہیں وہیں ملکی سیاست اور خارجہ امور میں بھارت کی مداخلت کے خلاف بھی غم وغصے کا اظہار کیا جارہا ہے اور ملک میں بھارت کے خلاف بھی مظاہرے ہو رہے ہیں۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ عوامی لیگ کی مفرور سربراہ کو بھارت کی سپورٹ سے بنگلہ دیش کی اگلی حکومت کے اپنے پڑوسی ملک سے حالات کشیدہ رہیں‌ گے۔

    حسینہ واجد جمہوریت کے لبادے میں مطلق العنانی کی واحد مثال نہیں ہیں بلکہ دنیا میں‌ ایسی کئی مثالیں موجود ہیں، لیکن ان سب کے لیے بنگلہ دیش کی طاقتور ترین حکمران اور سیاسی رہنما کا یہ انجام ایک سبق ہے اور انہیں جان لینا چاہیے کہ اللہ کی طاقت کے بعد دنیا میں سب سے بڑی طاقت عوام کی ہوتی ہے۔ عوام کا سمندر اگر بے قابو ہو جائے تو زمین کے اندر گہری جڑیں رکھنے والے تناور درخت بھی اکھاڑ کر پھینک دیتا ہے۔ پھر نہ پابندیاں کام آتی ہیں اور نہ ہی حکومتی جبر، مگر طاقت اور اختیار کا نشہ ہی ایسا ہے کہ شاید ہی کوئی ایسا جابر اور مطلق العنان حکمران حسینہ واجد کے انجام سے سبق سیکھے۔