Tag: محمود الحسن کی تحریریں

  • ایک عظیم استاد اور قابلِ فخر شاگرد کا تذکرہ

    ایک عظیم استاد اور قابلِ فخر شاگرد کا تذکرہ

    ساہیوال میں جس استاد نے یہ پرکھا کہ خورشید رضوی میں عربی اخذ کرنے اور اسے پڑھنے کی خداداد صلاحیت ہے اور انھیں اس زبان سے فطری مناسبت ہے، وہ ڈاکٹر صوفی محمد ضیاءالحق تھے جو گورنمنٹ کالج ساہیوال میں ان کے استاد تھے۔

    وہ ہونہار بروا کو گھر میں اس شرط پر پڑھانے پر راضی ہوئے کہ کچھ بھی ہو جائے یہ ناغہ نہیں کریں گے اور اگر ایسا ہوا تو وہ پڑھانے کا سلسلہ موقوف کر دیں گے۔ خورشید رضوی نے یہ کڑی شرط قبول کر لی۔

    استاد نے اس زمانے میں ان سے اُردو سے عربی میں بہت ترجمے کرائے۔ کوئی غلطی کرتے تو اس کے حساب سے قواعد بیان کر دیتے۔ قواعد کی الگ سے کوئی کتاب نہیں پڑھائی۔

    ایک دن عجب معاملہ ہوا۔ ترجمہ کرتے وقت جملے میں لفظ ’شرمندہ‘ آ گیا، وہ نہیں جانتے تھے کہ اسے عربی میں کیا کہتے ہیں۔ استادِ مکرم سے عرض کی کہ صیغہ بنانے کے لیے لفظ کا مادّہ بتا دیں۔ اس پر جواب ملا کہ ڈکشنری سامنے پڑی ہے، اس میں سے دیکھ لیں۔ اس پر یہ گویا ہوئے کہ یہ تو عربی سے اُردو ڈکشنری ہے جو اگر وہ ساری دیکھیں تب کہیں جا کر شاید مطلوبہ لفظ کے معنی جان سکیں۔ خیر، چار و ناچار ڈکشنری دیکھنے لگے، دو گھنٹے مغزماری کی مگر بے سود۔

    ایسے میں مشفق استاد کہنے لگے:”آج ضروری تو نہیں، شاباش، جاﺅ، کل آکر دیکھ لینا۔“ یہ اس پر بجھ کر رہ گئے کہ کم از کم لفظ تو بتانا چاہیے۔ سوچنے لگے کہ اب مجھے کیا الہام ہو گا کہ ’شرمندہ‘ کو عربی میں کیا کہتے ہیں۔ یہ الجھن ذہن پر سوار رہی۔ ڈاکٹرخورشید رضوی کے بقول: لاشعور میں ایسی صلاحیتیں ہوتی ہیں جس کا آدمی کو پریشر کے بغیر اندازہ نہیں ہوتا۔ اگلے دن شام کو میں نے جب صوفی صاحب کے لان میں قدم رکھا تو تب بھی میرے ذہن میں کچھ نہیں تھا اور میں سوچ رہا تھا آج بھی گھنٹہ دو گھنٹہ بٹھائیں گے اور پھر کہیں گے کہ جاﺅ۔ اس اثنا میں بجلی کے کوندے کی طرح یہ خیال ذہن میں آیا کہ اسکول کے زمانے میں حافظ محمود شیرانی کی مرتب کردہ سرمایۂ اُردو میں میرانیس کی نظم ”آمدِ صبح“ میں شعر ہے:

    ہیرے خجل تھے، گوہرِ یکتا نثار تھے
    پتّے بھی ہر شجر کے جواہر نگار تھے

    اب میں نے سوچا کہ اس شعر میں ”خجل“ یہاں شرمندہ کے معنوں میں آیا ہے۔ یہاں سے صیغہ بننا چاہیے۔ اب میں شیر ہو کر کمرے میں داخل ہوا تو پوچھنے لگے: ”ہاں پھر لفظ تلاش کیا؟“ میں نے جب صحیح لفظ بتایا تو اٹھ کر کھڑے ہو گئے۔ مجھے سینے سے لگایا۔ ماتھا چوما اور کہنے لگے: ”میں جانتا تھا، تم ڈھونڈ لو گے، اسی لیے نہیں بتایا تھا۔“ تو ایک طرح سے یہ بھی ان کا اندازِ تدریس تھا۔

    صوفی محمد ضیاءُ الحق شاگردِ رشید کو ذہنی آزمائش سے دوچار کرتے رہتے تھے جس میں سرخروئی پر وہ کھل اٹھتے۔ ایک اور واقعہ ڈاکٹر خورشید رضوی نے کچھ یوں بتایا:

    ایک روز میں صوفی صاحب کے ساتھ اُن کی کوٹھی کے سامنے والے سبزہ زار میں ٹہل رہا تھا۔ ایک طویل ترکیبِ نحوی زیرِ غور تھی۔ میں نے اُن سے عرض کیا کہ لفظ ”الّذی“ جو یہاں آیا ہے اس کے بعد آنے والا اِتنا ٹکڑا مجموعی طور پر اِس سے مربوط ہوتا ہے۔ ”الّذی“ کو تو گریمر کی اصطلاح میں ”اسمِ موصول“ کہتے ہیں مگر جو کچھ آ کر اِس کے ساتھ مربوط ہو گا اِس کا اصطلاحی نام مجھے معلوم نہیں۔ کہنے لگے، ”سوچو۔“

    میں نے عرض کیا سوچنے کا تو اس سے کچھ تعلق معلوم نہیں ہوتا۔ یہ تو اصطلاح کا معاملہ ہے۔ میں سوچ سوچ کر اصطلاح تو دریافت نہیں کر سکتا۔

    فرمایا: ”پھر بھی قیاس کرو۔ آخر ’موصول‘ کے مقابل کیا آسکتا ہے؟ “ میں نے ایک گونہ زچ ہو کر کہا، ”سر، اب قیاس کیسے کروں۔ یوں تو میں کہہ دوں کہ ’موصول‘ کے مقابل ’صلہ‘ ہو سکتا ہے۔“

    انھوں نے داد اور مسرّت کی نگاہ مجھ پر ڈالی اور کہا: ”دیکھا۔ یہی تو اصطلاح ہے۔“

    اِن واقعات سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ استاد اپنے شاگرد کی خفتہ صلاحیتوں کو کس طریقے سے بیدار کرتا ہے۔ اس کا جوہر کیسے صیقل کرتا ہے۔ اسے گوہرِ نایاب کیسے بناتا ہے۔ یہ سب علم سے اخلاص کے بغیر ممکن نہیں۔ خورشید رضوی کالج سے چھٹی کے بعد گھر جاتے، دو گھنٹے آرام کے بعد پانچ چھ کلومیٹر کی مسافت پیدل طے کرکے صوفی صاحب کے ہاں آتے۔ رات کو اجاڑ بیابان راستے سے واپسی ہوتی۔

    ڈاکٹر خورشید رضوی بی اے میں تھے کہ استاد کا تبادلہ لاہور ہو گیا لیکن ان کی پڑھائی کا انھیں اس قدر خیال تھا کہ ساہیوال چھوڑنے سے پہلے باور کروا دیا کہ ترجمے کی مشق جاری رہے گی۔ اس کے لیے یہ طریقۂ کار وضع ہوا کہ خورشید رضوی روزانہ خط کے ذریعے ترجمہ ارسال کرتے جسے دیکھنے کے بعد اسے واپس بھجوایا جاتا۔ خورشید رضوی کے اورینٹل کالج میں، ایم اے عربی کے لیے داخلہ لینے تک، استاد شاگرد میں خط کتابت جاری رہی۔

    اورینٹل کالج کے زمانے میں استاد سے کسبِ فیض کے لیے گورنمنٹ کالج بھی جاتے رہے۔ کبھی ان کے کمرے میں تو کبھی اوول گراﺅنڈ میں اکتساب کرتے۔ انھی دنوں میں سے ایک دن، جی سی کی راہداریوں سے گزرتے ذہن میں اس خیال نے جنم لیا کہ کاش ایسا ہو کہ کبھی یہاں پڑھانے پر مامور ہوں۔ قسمت کی خوبی دیکھیے۔ صوفی محمد ضیاءُ الحق گورنمنٹ کالج میں شعبۂ عربی کے صدر تھے، خورشید رضوی بھی اسی کالج میں شعبۂ عربی کے سربراہ بنے۔ نقشِ قدم پر چلنا اسی کو کہتے ہیں۔

    انارکلی میں نگینہ بیکری ادیبوں دانشوروں کا اہم مرکز رہی ہے۔ اورینٹل کالج کے زمانے میں صوفی صاحب کے ساتھ خورشید رضوی کبھی کبھار وہاں چلے جاتے۔ خورشید رضوی کو وہاں کے کوکونٹ بسکٹ پسند تھے۔ صوفی صاحب انھیں چائے کے ساتھ یہ بسکٹ تو کھلاتے تھے لیکن علمی گتھیاں سلجھانے سے ان کی جان یہاں بھی نہیں چھوٹتی تھی۔ ایک دن نگینہ بیکری میں پرچے پر لکھے عربی کے دو گنجل دار شعر خورشید رضوی کو دیے تاکہ انھیں ذہنی ”خلفشار“ سے دوچار کیا جاسکے۔ اپنی ذہانت سے وہ اس امتحاں سے آساں گزر گئے تو صوفی صاحب بہت سرشار ہوئے۔

    ایک دفعہ ایک کتاب پر یہ شعر لکھ کر دیا:

    اعمل بعلمی و لا تنظر الیٰ عملی
    ینفعک قولی و لا یضررک تقصیری

    تو میرے علم پر عمل کر اور میرے عمل کو نہ دیکھ، میری بات تجھے فائدہ دے گی اور میری کوتاہی سے تجھے نقصان نہ ہوگا۔

    (محمود الحسن کی کتاب ’گزری ہوئی دنیا سے‘ میں شامل مضمون ’ڈاکٹر صوفی محمد ضیاء الحق اور ڈاکٹر خورشید رضوی: عظیم استاد اور قابلِ فخر شاگرد‘ سے اقتباس)

  • دیوندر ستیارتھی کی ”عادتِ بد“

    دیوندر ستیارتھی کی ”عادتِ بد“

    نرالی شخصیت ،افسانہ نگار اور شہر شہر گھوم پھر کر لوک گیت اکٹھے کرنے والے دیوندر ستیارتھی بھی تقسیم سے پہلے کے برسوں میں لاہور میں موجود تھے۔ ان کی ایک عادتِ بد، جس سے ان کے دوست تنگ رہتے، اپنا افسانہ زبردستی دوسروں کے گوش گزار کرنا تھی۔

    ستیارتھی سنت نگر میں رہتے تھے۔ اسی علاقے میں کنھیا لال کپور، فکر تونسوی اور ہنس راج رہبر کی رہایش تھی۔ یوں وہ براہِ راست ستیارتھی کی زد میں تھے، اس لیے چھپتے پھرتے۔ راجندر سنگھ بیدی کی قسمت بری تھی کہ ستیارتھی ایک دفعہ ان کے یہاں بیوی اور بیٹی سمیت آن براجے اور کئی دن ٹھیرے۔ بیدی لاہور کینٹ میں چھوٹے سے مکان میں رہتے تھے۔ شام کو تھکے ٹوٹے گھر پلٹتے تو مہمانِ عزیز افسانہ سنانے کو پھر رہے ہوتے، اس پر طرّہ یہ کہ اصلاح کے طالب ہوتے۔ اس عمل میں جو وقت برباد ہوتا سو ہوتا لیکن صبح سویرے بھی تازہ دَم ہو کر ستیارتھی تصحیح شدہ افسانہ بیچارے میزبان کو سناتے۔ ان سب باتوں سے تو بیدی زچ تھے ہی، غصّہ ان کو اس بات پر بھی تھا کہ بیوی بچّوں کے لیے وہ وقت نہ نکال پاتے۔ یہ سب معلومات بیدی کی زبانی منٹو کے علم میں آئیں، جن کی بنیاد پر انھوں نے افسانہ ”ترقّی پسند“ لکھ دیا۔

    ستیارتھی نے بیدی کی خلوت میں ایسی کھنڈت ڈالی کہ میاں بیوی کا قرب محال ہو گیا۔ منٹو نے یہ صورتِ حال افسانوی رنگ میں یوں پیش کی کہ ایک دن دھڑکتے دل کے ساتھ، کہ کہیں سے ترپاٹھی (دیوندر ستیارتھی) نہ آجائے، اس نے جلدی سے بیوی کا بوسہ یوں لیا جیسے ڈاک خانے میں لفافوں پر مہر لگائی جاتی ہے۔ یہ بیدی پر سیدھی چوٹ تھی کہ وہ ان دنوں ڈاک خانے میں لفافوں پر مہر لگاتے تھے۔

    منٹو کی کہانی کے ردِعمل میں ستیارتھی نے ”نئے دیوتا“ کے عنوان سے افسانہ لکھ ڈالا، اس میں منٹو کے طرزِ زندگی پر طنز تھا۔ مرکزی کردار کا نام نفاست حسن رکھا گیا۔ یہ کہانی ”ادبِ لطیف“ میں چھپی اور بقول ستیارتھی، اوپندر ناتھ اشک اور کرشن چندر کو بہت پسند آئی اور انھوں نے منٹو کو اس پر خوب دق کیا۔ ستیارتھی نے یہ بھی لکھا ہے کہ اس کہانی کی وجہ سے منٹو ان سے پانچ سال ناراض رہے۔ دونوں کی صلح کرانے میں راجندر سنگھ بیدی اور نذیر احمد چودھری نے کردار ادا کیا۔ ”نئے دیوتا“ کے بارے میں کہا گیا کہ بھلے سے یہ ستیارتھی کے نام سے شایع ہوا ہو مگر اس کے اصل مصنف بیدی ہیں۔ اشک اپنے مضمون ”منٹو میرا دشمن“ میں بتاتے ہیں:

    ”دوستوں کے درمیان دیوار نہ کھڑی ہوئی بلکہ انھوں نے منٹو کے خلاف ایک مشترکہ محاذ قایم کر لیا اور جس طرح منٹو نے اپنی کہانی میں بیدی اور ستیارتھی کے عادات و اطوار، شکل و شباہت اور ذاتی زندگی کا مذاق اُڑایا تھا، اسی طرح ان دونوں نے مل کر ایک افسانہ لکھ کر منٹو کی ذاتی زندگی اور اس کی خامیوں کو اُجاگر کر دیا۔ کہانی ستیارتھی کے نام سے شایع ہوئی۔ انھوں نے ہی لکھی تھی۔ بیدی نے اس پر نظرِ ثانی کرتے ہوئے کچھ ایسے پنّے لگائے کہ کہانی، جہاں تک کردار نگاری کا تعلّق ہے، بے حد اچھی اُتری، نام ہے ’نئے دیوتا‘ بات یہ ہے کہ افسانہ کسی نے لکھا ہو فنّی اعتبار سے منٹو کے ’ترقی پسند‘ کا پلّہ بھاری ہے۔“

    دیوندر ستیارتھی کے لوک گیتوں پر کام کو کنھیا لال کپور بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ ان کا کہنا تھا: ”اللہ میاں کی کچہری میں جب ستیارتھی کو آواز پڑے گی تو ’لوک گیتوں والا ستیارتھی‘ کہہ کر، نہ کہ کہانی کار ستیارتھی کے نام سے۔“ بیدی اس معاملے میں کپور کے ہم خیال تھے۔

    ستیارتھی نے حلقۂ اربابِ ذوق میں اپنی کہانی ”اگلے طوفانِ نوح تک“ پڑھی جس میں نذیر احمد چودھری کو بطور پبلشر طنز و مزاح کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ بیدی نے بحث میں حصّہ لیتے ہوئے کہا: ”ستیارتھی کو سات جنم میں بھی کہانی کار کا مرتبہ حاصل نہیں ہوسکتا۔“
    اس پر ستیارتھی نے جواب دیا: ”حضرات! جب تک میں کہانی کار نہیں بن جاتا میں بدستور بیدی کو گرو دیو تسلیم کرتا رہوں گا۔“

    (محمود الحسن کی کتاب ‘لاہور:‌ شہرِ پُرکمال’ سے اقتباس)