Tag: محمود عالم خالد

  • 2025: ماحولیاتی تباہیاں اور پاکستان میں مون سون: عالمی بحران، ایک مقامی حقیقت

    2025: ماحولیاتی تباہیاں اور پاکستان میں مون سون: عالمی بحران، ایک مقامی حقیقت

    سال 2025 دنیا کے لیے ایک فیصلہ کن موڑ ثابت ہوا۔ عالمی درجۂ حرارت میں مسلسل اضافے نے مختلف خطّوں کو شدید اور غیر معمولی ماحولیاتی آفات کی زد میں ڈال دیا۔ عالمی ادارۂ موسمیات (WMO) کے مطابق، 2025 کے پہلے آٹھ ماہ میں زمین کا اوسط درجۂ حرارت صنعتی دور سے پہلے کے مقابلے میں 1.4 ڈگری سیلسیس زیادہ رہا۔ یہ وہ سنگین حقیقت ہے جس نے دنیا کے کئی خطوں میں قہر برپا کر دیا، اور پاکستان بھی اس کی لپیٹ سے محفوظ نہ رہا۔

    دنیا بھر میں 2025 کی ماحولیاتی تباہیاں

    اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام (UNEP) کی رپورٹ کے مطابق، سال 2025 کے دوران یورپ نے اپنی تاریخ کی سب سے طویل گرمی کی لہر دیکھی۔ اٹلی، اسپین اور فرانس میں درجہ حرارت 45 ڈگری سے اوپر جا پہنچا۔ نتیجتاً فصلیں جھلس گئیں، بجلی کا نظام ناکام ہوا اور ہزاروں افراد متاثر ہوئے۔اسی دوران امریکہ اور کینیڈا میں جنگلاتی آگ نے لاکھوں ہیکٹر رقبہ راکھ کر دیا۔ بین الحکومتی پینل برائے موسمیاتی تبدیلی (IPCC) نے اپنی تازہ رپورٹ میں نشاندہی کی ہے کہ بڑھتا ہوا درجۂ حرارت اور طویل خشک سالی جنگلاتی آگ کے خطرے کو دگنا کر رہا ہے۔

    افریقہ میں ایتھوپیا، صومالیہ اور سوڈان جیسے ممالک شدید خشک سالی اور قحط کی زد میں رہے، جہاں لاکھوں افراد خوراک اور پانی کی کمی کا شکار ہوئے۔ جنوبی ایشیا کے کئی حصوں میں سمندری طوفان اور بارشیں تباہی لائیں، خصوصاً پاکستان، بنگلہ دیش اور فلپائن میں لاکھوں لوگ متاثر ہوئے۔ یہ سب مظاہر ایک ہی سمت اشارہ کر رہے ہیں: دنیا ماحولیاتی بحران کے نازک ترین دوراہے پر کھڑی ہے۔

    پاکستان میں مون سون کی تباہ کن بارشیں

    پاکستان میں 2025 کی مون سون بارشیں اپنی شدت اور پھیلاؤ کے اعتبار سے گزشتہ کئی دہائیوں کی نسبت زیادہ خطرناک ثابت ہوئیں۔ کشمیر، گلگت بلتستان،لاہور، پشاور اور اندرونِ سندھ کے کئی علاقے زیرآب آ گئے اور تباہیوں کی نئی داستانیں رقم ہوئیں۔ اقوام متحدہ کے ایک مطالعے کے مطابق، بارشوں کی شدت موسمیاتی تبدیلی کے باعث کم از کم 30 فیصد بڑھ گئی، اور یہ اضافہ انسانی سرگرمیوں سے پیدا ہونے والی گرین ہاؤس گیسوں کا نتیجہ ہے۔ سندھ اور جنوبی پنجاب میں لاکھوں ایکڑ زرعی زمین ڈوب گئی۔ کپاس، چاول اور گنے کی فصلیں تباہ ہوئیں، جس سے پاکستان کی معیشت کو کھربوں روپے کا نقصان ہوا۔ شہری علاقوں میں نکاسیِ آب کے ناقص نظام نے صورتحال کو مزید خراب کیا۔ گلگت بلتستان اور کے پی کے میں گاؤں کے گاؤں صفحۂ ہستی سے مٹ گئے، سیکڑوں لوگ جاں بحق ہوئے اور انفرا اسٹرکچر کو ناقابلِ تلافی نقصان ہوا۔

    گلگت بلتستان اور گلیشیئرز کا خطرہ

    پاکستان کے شمالی علاقوں میں ایک اور خاموش مگر مہلک خطرہ مسلسل بڑھ رہا ہے۔ گلگت بلتستان کے گلیشیئرز دنیا میں سب سے تیزی سے پگھلنے والے گلیشیئرز میں شمار ہوتے ہیں۔ UNEP اور پاکستان میٹرولوجیکل ڈپارٹمنٹ کی مشترکہ رپورٹ کے مطابق، گزشتہ بیس برسوں میں گلیشیئرز کے حجم میں 25 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ اس پگھلاؤ نے درجنوں گلیشیائی جھیلیں پیدا کر دی ہیں، جن میں سے کئی ہر وقت پھٹنے کے خطرے سے دوچار ہیں۔ 2025 کے دوران ضلع غذر اور ہنزہ میں کم از کم تین بار ایسے واقعات پیش آئے جن سے مقامی آبادی کو نقل مکانی کرنا پڑی۔ یہ صورتحال نہ صرف مقامی برادریوں کے لیے خطرہ ہے بلکہ ملک بھر کی آبی سلامتی کے لیے بھی۔ دریائے سندھ کا زیادہ تر بہاؤ انہی گلیشیئرز پر منحصر ہے۔ اگر یہ تیزی سے پگھلتے رہے تو آنے والے برسوں میں پاکستان کو پانی کے شدید بحران کا سامنا ہو سکتا ہے۔

    سماجی و معاشی نقصانات

    2025 کی تباہ کاریوں نے پاکستان میں نہ صرف بنیادی ڈھانچے کو متاثر کیا بلکہ لاکھوں افراد کی زندگیوں کو براہِ راست بدل دیا۔ دیہی علاقوں میں مکانات منہدم ہوئے، تعلیمی ادارے بند ہوئے اور صحت کی سہولتیں مفلوج ہوئیں۔ متاثرہ علاقوں میں ڈینگی اور ہیضہ جیسے امراض کے پھیلنے کا خطرہ بڑھ گیا۔ زراعت، جو پاکستان کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی ہے، سب سے زیادہ متاثر ہوئی۔ اقوام متحدہ کی فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن (FAO) کے مطابق، صرف مون سون بارشوں اور سیلابوں کے باعث پاکستان کی زرعی پیداوار میں 15 فیصد کمی واقع ہوئی۔

    عالمی تباہیاں اور پاکستان کا ربط

    پاکستان کی صورتحال کو اگر دنیا کے دیگر خطوں میں رونما ہونے والی آفات کے ساتھ جوڑ کر دیکھا جائے تو یہ ایک ہی کہانی کے مختلف ابواب ہیں۔ یورپ میں گرمی کی لہریں، افریقہ میں خشک سالی، امریکہ و کینیڈا میں جنگلاتی آگ، اور پاکستان میں بارشوں کے طوفان سب ایک ہی سلسلے کا حصہ ہیں۔ IPCC کی چھٹی رپورٹ (AR6) نے خبردار کیا تھا کہ اگر درجہ حرارت 1.5 ڈگری سے اوپر چلا گیا تو دنیا کو شدید اور ناقابلِ واپسی نقصانات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ 2025 کی صورتحال نے یہ خدشات ایک تلخ حقیقت میں بدل دیے ہیں۔

    پاکستان کو فوری طور سے ہنگامی بنیادوں درج ذیل اقدامات اٹھانا ہوں گے۔ ارلی وارننگ سسٹمز کو دیہی سطح تک مضبوط اور قابلِ عمل بنانے کے ساتھ شہری منصوبہ بندی میں ماحولیاتی لچک کو شامل کرنا ہو گا تاکہ بڑے شہروں میں نکاسی آب اور انفراسٹرکچر مستقبل کے دباؤ کو برداشت کر سکے، زرعی شعبے کو کلائمٹ ریزیلینٹ بیج اور ٹیکنالوجی فراہم کی جائے تاکہ فصلیں غیر معمولی بارشوں یا خشک سالی کو برداشت کر سکیں، گلگت بلتستان کے گلیشیئرز پر ریسرچ اور مانیٹرنگ سسٹم کو جدید بنانا ہو گا تاکہ GLOFs جیسے واقعات سے بروقت نمٹا جا سکے،عالمی سطح پر کلائمٹ فنانس کے حصول کے لیے پاکستان کو زیادہ متحرک سفارت کاری کے ذریعے باور کرانا ہو گا کہ پاکستان موسمیاتی تباہیوں کا مرکز بن چکا ہے تاکہ نقصانات کی تلافی اور لچکدار معیشت کی تعمیر ممکن ہو سکے۔

    2025 کی ماحولیاتی تباہیاں ہمیں یہ سبق دیتی ہیں کہ موسمیاتی بحران اب مستقبل کی دھمکی نہیں بلکہ حال کی حقیقت ہے۔ پاکستان کی مون سون بارشیں اور گلگت بلتستان کے پگھلتے گلیشیئرز اس بحران کی جیتی جاگتی مثال ہیں۔ اگر بروقت اقدامات نہ کیے گئے تو آنے والی نسلیں ایک ایسے پاکستان کی وارث ہوں گی جہاں پانی کمیاب، زمین بنجر اور موسم مہلک ہوگا۔ یہ لمحہ موجود ایک انتباہ ہے کہ ہمیں اپنی پالیسیوں، طرزِ زندگی اور ترقیاتی منصوبوں کو فوری طور پر ماحولیاتی تقاضوں کے مطابق ڈھالنا ہوگا۔ ورنہ، 2025 کی تباہیاں محض آغازہیں اور انجام؟؟

    حوالہ جات:
    عالمی موسمیاتی تنظیم (WMO)، 2025 — عالمی موسم کی صورتحال پر رپورٹ
    اقوام متحدہ ماحولیاتی پروگرام (UNEP)، 2025 — ماحولیاتی ایمرجنسی پر تازہ رپورٹس
    بین الحکومتی پینل برائے موسمیاتی تبدیلی (IPCC)، چھٹی جامع رپورٹ (AR6)، 2023–2025 کے نتائج
    فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن (FAO)، 2025 — جنوبی ایشیا میں زراعت پر موسمیاتی تبدیلی کے اثرات
    پاکستان محکمہ موسمیات (PMD)، 2025 — مون سون بلیٹن اور گلیشیئر مانیٹرنگ رپورٹس
    ایشیائی ترقیاتی بینک (ADB)، 2024–2025 — پاکستان میں موسمیاتی اور قدرتی آفات سے تحفظ کی حکمتِ عملی

  • موسمیاتی تبدیلی اور بارشیں: جب فطرت بغاوت پر اتر آئے

    موسمیاتی تبدیلی اور بارشیں: جب فطرت بغاوت پر اتر آئے

    بارش، جو کبھی خوشحالی اور زرخیزی کی علامت سمجھی جاتی تھی، اب تباہی، سیلاب اور انسانی المیوں کو جنم دے رہی ہے۔ دنیا کے مختلف خطوں میں معمول سے ہٹ کر ہونے والی شدید بارشیں ایک نئے اور غیر متوقع مظہر کی صورت اختیار کر چکی ہیں، جسے سائنسدان موسمیاتی تبدیلی کا براہِ راست نتیجہ قرار دے رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا واقعی بارشوں کے اس بگڑتے ہوئے انداز کا تعلق عالمی درجۂ حرارت میں اضافے سے ہے؟ اور اگر ہاں، تو کیا ہم اس کے لیے تیار ہیں؟

    ماہرین کے مطابق زمین کا ماحولیاتی نظام نہایت متوازن اور حساس ہے۔ جب فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ، میتھین اور دیگر گرین ہاؤس گیسوں کی مقدار بڑھتی ہے، تو نہ صرف درجۂ حرارت میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ فضائی نمی میں بھی غیر معمولی تبدیلی آتی ہے۔ نیشنل اوشینک اینڈ ایٹموسفیرک ایڈمنسٹریشن (NOAA) کے مطابق، ہر ایک ڈگری سیلسیئس درجۂ حرارت کے اضافے کے ساتھ فضا میں 7 فیصد زیادہ نمی جذب ہو سکتی ہے، جو مستقبل میں شدید بارشوں اور طوفانی موسم کی شدت کو بڑھا سکتی ہے۔

    بین الحکومتی پینل برائے موسمیاتی تبدیلی کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ (2023) میں خبردار کیا گیا کہ ہر گزرتے عشرے کے ساتھ دنیا میں بارش کے پیٹرن میں شدت، طوالت اور بے ترتیبی بڑھ رہی ہے جس کے نتیجے میں جنوبی ایشیا، وسطی افریقہ اور لاطینی امریکہ سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔ عالمی موسمیاتی تنظیم کی 2024 کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ عالمی درجۂ حرارت 1.5 ڈگری کے قریب پہنچ چکا ہے، اور اس کی وجہ سے بارش کے سائیکل میں غیر معمولی تبدیلی آئی ہے۔ کہیں طوفانی بارشیں ہیں، تو کہیں مکمل خشک سالی۔

    اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام کی 2025 کی رپورٹ میں کہا گیا کہ پاکستان جنوبی ایشیا کے ان پانچ ممالک میں شامل ہے جو شدید بارشوں اور اس کے نتیجے میں ہونے والے اربن فلڈنگ، مٹی کے تودے گرنے اور زرعی تباہی کے سب سے زیادہ خطرات سے دوچار ہیں جب کہ اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام اور آئی ایم ایف کی 2024 کی مشترکہ تحقیق میں بتایا گیا کہ غیر متوقع بارشیں ترقی پذیر ممالک کی معیشت کو ہر سال اوسطاً 235 ارب ڈالر کا نقصان پہنچا رہی ہیں، جن میں زراعت، انفراسٹرکچر اور انسانی جان و مال شامل ہے۔

    رواں اور گذشتہ سال کے چند بڑے واقعات کا ذکر کیا جائے تو رواں سال میں برازیل کے جنوبی علاقہ (ریو گراندے دو سل) مئی میں مسلسل دو ہفتے کی طوفانی بارشوں سے 170 افراد ہلاک اور 6000 سے زائد مکانات تباہ ہوئے جب کہ تقریباً 3.4 ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔ چین کے صوبہ ہنان میں جولائی کے آغاز میں آنے والی صرف 5 دن کی بارش نے 12 اضلاع کو ڈبو دیا۔ نقصان کا اندازہ 2 ارب ڈالر کے قریب لگایا گیا، 200,000 افراد بے گھر ہوئے۔ 2024 میں پاکستان کے صوبے بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں شدید بارشیں ہوئیں، مارچ تا جون غیر متوقع بارشوں اور ژالہ باری سے فصلیں تباہ ہوئیں اور معاشی نقصان کا تخمینہ تقریباً 180 ارب روپے (تقریباً 630 ملین ڈالر) لگایا گیا۔ جرمنی اور بیلجیم میں دریائے رائن کے کنارے شدید بارشوں سے صنعتی علاقے متاثر ہوئے۔ نقصان کا اندازہ 1.2 ارب یورو۔

    رواں سال مون سون سیزن کے دوران پاکستان شدید بارشوں اور سیلابی صورتحال کا سامنا کر رہا ہے۔ این ڈی ایم اے اور مختلف میڈیا رپورٹس کے مطابق اب تک 279 افراد جاں بحق اور 676 زخمی ہو چکے ہیں۔ پنجاب سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے جہاں 151 افراد ہلاک اور سیکڑوں زخمی ہوئے، جب کہ خیبر پختونخوا میں 64، بلوچستان میں 20، سندھ میں 25، گلگت بلتستان میں 9، اسلام آباد میں 8 اور آزاد کشمیر میں 2 اموات رپورٹ ہوئی ہیں۔ شدید بارشوں نے نہ صرف انسانی جانیں لیں بلکہ 1,500 سے زائد مکانات کو تباہ کر دیا یا ان کو نقصان پہنچایا، 370 کے قریب مویشی ہلاک ہوئے اور کئی اہم انفراسٹرکچر، سڑکیں اور پل منہدم ہو گئے۔

    جولائی کے وسط تک ملک میں ہونے والی بارشیں گزشتہ برس کے مقابلے میں 82 فیصد زیادہ ریکارڈ کی گئیں، جب کہ پہاڑی علاقوں میں شدید گرمی کے باعث گلیشیئر کے پگھلنے سے بھی فلش فلڈز اور گلیشیئر لیک آؤٹ برسٹ فلڈز (GLOFs) کے واقعات میں اضافہ ہوا۔ ماہرین کے مطابق ملک کے شمالی علاقوں میں مزید شدید بارشوں اور لینڈ سلائیڈنگ کے خطرات موجود ہیں، جو آنے والے ہفتوں میں صورتحال کو مزید پیچیدہ بنا سکتے ہیں۔

    ورلڈ میٹررو لوجیکل آرگنائزیشن (WMO) کی 2025 کی رپورٹ کے مطابق شدید بارشوں کے بڑھتے ہوئے واقعات کا براہِ راست تعلق ماحولیاتی تبدیلی سے ہے۔ موجودہ صدی کے وسط تک ایسے واقعات کی شدت دو گنا ہونے کا امکان ہے۔ رواں سال اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام کی رپورٹ میں کہا گیا کہ پاکستان جنوبی ایشیا کے ان پانچ ممالک میں شامل ہے جو شدید بارشوں اور اس کے نتیجے میں ہونے والے اربن فلڈنگ، مٹی کے تودے گرنے اور زرعی تباہی کے سب سے زیادہ خطرات سے دوچار ہیں۔ فوڈ اینڈ ایگری کلچر آرگنائزیشن کے مطابق، 2025 میں صرف پاکستان اور بھارت میں زرعی پیداوار میں 11% کمی کا اندیشہ ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق، موسمیاتی تبدیلی سے پیدا ہونے والے سیلاب اور بارشوں کے باعث 2024 میں تقریباً 33 ملین افراد نے اندرونِ ملک نقل مکانی کی۔

    یہ صورتِ حال شہری نظام پر مزید دباؤ بڑھا رہی ہے جس کے نتیجے میں ایک نیا بحران جنم لے رہا ہے۔ پاکستان کے بڑے شہر پہلے ہی ماحولیاتی دباؤ، بے ہنگم آبادی، ناقص منصوبہ بندی اور بنیادی ڈھانچے کی خستہ حالی کا شکار ہیں۔ جب اچانک موسلا دھار بارش ہوتی ہے تو نکاسی آب کا نظام بیٹھ جاتا ہے، کرنٹ لگنے کے حادثات ہوتے ہیں، بجلی، مواصلات اور آمدورفت کا نظام درہم برہم ہو جاتا ہے، کچی بستیوں میں مکانات گرنے اور اموات کے واقعات بڑھ جاتے ہیں۔

    بدلتے موسموں کے نتیجے میں پیدا ہونے والی اس صورتحال سے نپٹنے کے لیے جو ملکی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانے کا سبب بن چکی ہے۔ ہمارے پالیسی سازوں کو جنگی بنیادوں پر حکمت عملی اپناتے ہوئے اقدامات کرنے ہوں گے جیسے شہری سیلابی نقشے (Urban Flood Maps) بنانا ہوں گے جو ہر بڑے شہر کے لیے خطرے کے زون کی نشاندہی کریں۔ اس کے علاوہ نالوں کی صفائی کے ساتھ ان پر قائم تجاوزات کا خاتمہ، بارش کے پانی کا ذخیرہ، اور مقامی وارننگ سسٹمز کی تنصیب، شجر کاری و سبز انفراسٹرکچر، شہروں میں پارکس، کھلی زمین اور قدرتی نالے کو محفوظ کرنا ہو گا تاکہ پانی جذب ہو سکے۔ موسمیاتی تبدیلی سے متعلق ڈیزاسٹر مینجمنٹ بلز کو نافذ کیا جائے اور اور اس حوالے سے فنڈنگ یقینی بنائی جائے۔

    بارشوں کا تیز اور غیر متوقع انداز موسمیاتی تبدیلی کی زندہ مثال ہے۔ اگرچہ بارش ایک قدرتی عمل ہے، مگر اس بات میں اب کوئی دو رائے نہیں رہی کہ اس کی شدت، وقت، مقام اور اثرات میں جو تبدیلی آ رہی ہے وہ واضح طور پر انسانی سرگرمیوں سے جڑی ہے جس کے نتیجے میں موسمیاتی تبدیلی رونما ہوئی۔ پاکستان جیسے ممالک، جہاں وسائل کم اور خطرات زیادہ ہیں، وہاں مؤثر منصوبہ بندی، سائنسی حکمتِ عملی اور مقامی سطح پر عوام کی شرکت ہی ہمیں ان بارشوں کو ”رحمت” بنائے رکھنے میں مدد دے سکتی ہے۔ ورنہ یہ ”عذاب” بن کر ہمارے دروازے پر دستک دے رہی ہیں۔

  • پاکستان کے ختم ہوتے گلیشیئرز: بقا کا برفانی بحران

    پاکستان کے ختم ہوتے گلیشیئرز: بقا کا برفانی بحران

    پاکستان کے شمالی علاقوں میں واقع برفانی گلیشئرز نہ صرف قدرتی حسن کا شاہکار ہیں بلکہ ملک کے دریاؤں، زراعت، توانائی اور انسانی زندگی کے لیے ایک بنیادی وسیلۂ حیات کی حیثیت رکھتے ہیں۔ مگر افسوس کہ موسمیاتی تبدیلی کے مہلک اثرات نے ان برفانی خزانوں کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔

    پاکستان کے گلیشئرز خاموش مگر زندہ نشانیاں ہیں جو ہمیں خبردار کر رہی ہیں کہ وقت ختم ہو رہا ہے

    آج پاکستان ان چند ممالک میں شامل ہے جہاں گلیشئرز کی پگھلنے کی رفتار خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے، اور اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو یہ بحران ہماری آنے والی نسلوں کی زندگی کو خشک، بنجر اور عدم استحکام سے دوچار کر سکتا ہے۔

    پاکستان دنیا کے ان چند خوش قسمت ممالک میں شامل ہے جن کے پاس 7200 سے زائد گلیشئرز موجود ہیں، جو دنیا کے سب سے بڑے غیر قطبی برفانی ذخائر میں شمار ہوتے ہیں۔ بیافو، بالتورو، سیاچن، پسو اور ہسپر جیسے گلیشئرز نہ صرف قدرتی عجوبے ہیں بلکہ پاکستان کے دریاؤں، خاص طور پر دریائے سندھ، کے پانی کی اصل بنیاد بھی ہیں۔

    پاکستان میں اس وقت اندازاً 7200 سے زائد گلیشیئرز موجود ہیں، جن میں سے تقریباً 80 فیصد گلیشئرز تیزی سے پگھلنے کے عمل سے گزر رہے ہیں۔ شمالی علاقوں میں درجۂ حرارت میں 1.5 سے 2 ڈگری سینٹی گریڈ تک کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ مئی و جون 2025 میں گلگت اور ہنزہ میں غیر معمولی گرمی کی لہریں آئیں، جنہوں نے گلیشئرز کے غیر موسمی پگھلاؤ کو مزید بڑھا دیا۔

    2024–2025 کے دوران، اقوام متحدہ اور مقامی اداروں کی رپورٹس کے مطابق، پاکستان میں 33 سے زائد گلیشئرز ایسے زونز میں آ چکے ہیں جہاں گلشیل لیک آؤٹ فلیش فلڈز(GLOFs) کا شدید خطرہ لاحق ہے۔ 2024-25 کے دوران گلگت بلتستان اور چترال میں کم از کم 9 بڑے GLOF واقعات ریکارڈ ہوئے، ان حادثات کے نتیجے میں اب تک 12 ہزار سے زائد افراد متاثر ہو چکے ہیں، جن میں گھروں کی تباہی، زرعی اراضی کا نقصان، اور بنیادی ڈھانچے کی بربادی شامل ہے، جب کہ ہزاروں لوگ نقل مکانی پر مجبور ہوئے۔ اقوامِ متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام (UNEP) اور پاکستان میٹ ڈیپارٹمنٹ کی حالیہ رپورٹس کے مطابق 2025 تک پاکستان کے 80 فیصد گلیشئرز میں پگھلاؤ کے آثار واضح ہو چکے ہیں جب کہ بیافو، ست پارہ، چوغولنگما جیسے گلیشئرز کی برف میں سالانہ 1.2 میٹر تک کمی نوٹ کی گئی جب کہ کئی گلیشئرز اپنی سطح کا 20 تا 25 فیصد حصہ کھو چکے ہیں۔

    دنیا بھر میں بڑھتا ہوا گرین ہاؤس ایفیکٹ پاکستان کے برفانی علاقوں کو براہِ راست متاثر کر رہا ہے

    دنیا بھر میں بڑھتا ہوا گرین ہاؤس ایفیکٹ پاکستان کے برفانی علاقوں کو براہِ راست متاثر کر رہا ہے۔ ٹرانسپورٹ، لکڑی جلانے اور صنعتوں سے اٹھنے والے ذرات گلیشئرز پر جمع ہو کر سورج کی حرارت کو جذب کرتے ہیں اور برف کو تیز رفتاری سے پگھلاتے ہیں جب کہ شمالی علاقوں میں بے قابو ہوتی سیاحتی سرگرمیاں، پلاسٹک ویسٹ اور تعمیرات، ماحولیاتی نظام کو نقصان پہنچانے کا سبب بن رہی ہیں۔

    گلیشیئرز کے پگھلاؤ کے نتیجے میں پانی کا بہاؤ وقتی طور پر تو ضرور پر بڑھے گا، لیکن آنے والی دہائیوں میں پاکستان میں شدید پانی کی قلت متوقع ہے۔ پاکستان کی زراعت، جو دریائے سندھ پر انحصار کرتی ہے، اس سے تباہ ہو سکتی ہے۔ ہمارے ہائیڈرو پاور کا انحصار دریاؤں پر ہے، اور پانی کی کمی کی صورت میں بجلی کی شدید قلت اور لوڈشیڈنگ کا سامنا ہو سکتا ہے۔ گلیشیئرز کے پگھلاؤ سے پیدا ہونے والے سیلاب دیہاتی علاقوں کو اجاڑ سکتے ہیں۔ پہاڑی علاقوں سے ماحولیاتی پناہ گزین شہروں کی جانب نقل مکانی کر سکتے ہیں۔

    GLOF-11 پروجیکٹ کے تحت وارننگ سسٹمز کی تنصیب، نیشنل کلائمیٹ چینج پالیسی 2021 اور ایڈاپٹیشن پلانز جیسے اقدامات کے ذریعے جہاں گلیشیئر کے پگھلاؤ کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بحران میں کمی لائی جا سکتی ہے وہیں مقامی کمیونٹیز میں آگاہی کی کمی، محدود تحقیق و ڈیٹا شیئرنگ، پائیدار سیاحت اور فضلہ مینجمنٹ کے فقدان کے چیلنجیز کو حل کرنا بھی ضروری ہو گا۔

    گلیشیئر مانیٹرنگ کے لیے جدید ٹیکنالوجی استعمال کرنے کے ساتھ، شمالی علاقوں میں ماحول دوست سیاحت کو فروغ دیا جائے۔ مقامی افراد کو موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کی تربیت دی جائے، قومی و صوبائی سطح پر ماحولیاتی ایمرجنسی کا اعلان کیا جائے، صنعتی آلودگی اور سیاہ کاربن کے خلاف سخت اقدامات کیے جائیں۔

    پاکستان کے گلیشیئرز خاموش مگر زندہ نشانیاں ہیں جو ہمیں خبردار کر رہی ہیں کہ وقت ختم ہو رہا ہے۔ اگر ہم نے آج بھی سنجیدہ اقدامات نہ کیے تو پانی، خوراک، توانائی اور انسانی زندگی کے بحرانوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ماحولیاتی جنگ اب برف کے محاذ پر لڑی جا رہی ہے، اور اس میں خاموشی شکست کی علامت ہے۔