Tag: محمود عالم خالد کی تحریریں

  • موسمیاتی تبدیلی: عالمی عدالتِ انصاف کا فیصلہ اور نیا عالمی ضمیر

    موسمیاتی تبدیلی: عالمی عدالتِ انصاف کا فیصلہ اور نیا عالمی ضمیر

    رواں سال دنیا کے لیے موسمیاتی بحران کی شدت اور عالمی ماحولیاتی انصاف کے مطالبات کے حوالے سے ایک اہم موڑ ثابت ہو رہا ہے۔ جولائی کے آخر میں عالمی عدالتِ انصاف (ICJ) نے موسمیاتی تبدیلی کے تناظر میں ایک تاریخی مشاورتی رائے دی ہے، جسے چھوٹی جزیرہ ریاستوں، ماحولیاتی کارکنان اور ترقی پذیر ممالک کی دیرینہ کاوشوں کی فتح قرار دیا جا رہا ہے۔

    یہ فیصلہ ایک طرف بین الاقوامی قوانین میں ماحولیاتی ذمہ داریوں کی وضاحت کرتا ہے، تو دوسری طرف عالمی طاقتوں کو ایک اخلاقی آئینہ دکھاتا ہے۔ دنیا کی اعلی ترین عدالت میں اس کیس کا دورانیہ 6 سال پر محیط تھا۔ یہ آئی سی جے کے سامنے آنے والا اب تک کا سب سے بڑا معاملہ تھا جس میں 91 ملکوں نے تحریری بیانات جمع کرائے جب کہ 97 ملکوں نے زبانی دلائل میں حصہ لیا۔

    عدالتی رائے کی روشنی میں پاکستان نہ صرف مضبوط مؤقف اپنا سکتا ہے بلکہ موسمیاتی انصاف پر مبنی فنڈنگ اور امداد کا مطالبہ بھی کر سکتا ہے۔

    یہ سفر 2019 میں اُس وقت شروع ہوا جب موسمیاتی تبدیلی سے متاثرہ بحرالکاہل کی چھوٹی ریاست وانواتو (Vanuatu) نے بین الاقوامی عدالت سے یہ درخواست کی کہ وہ اقوامِ متحدہ کے رکن ممالک کی ماحولیاتی ذمہ داریوں کی قانونی تشریح کرے۔ وانواتو کے ساتھ ٹووالو، مارشل آئی لینڈز، اور دیگر درجنوں جزیرہ ریاستیں بھی کھڑی ہو گئیں جو سمندر کی سطح بلند ہونے کی وجہ سے اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہی ہیں۔ طلبہ، سماجی تنظیموں‌ اور سول سوسائٹی کے نیٹ ورکس نے اسے ایک عالمی تحریک میں بدل دیا۔ یہ محض قانونی مشورہ نہیں بلکہ انسانیت کا وہ مقدمہ تھا جس میں مدعا علیہ پوری دنیا تھی۔

    عالمی عدالت انصاف نے اپنے فیصلے میں واضح طور پر کہا کہ موسمیاتی تبدیلی کے خلاف اقدامات نہ کرنا بین الاقوامی انسانی حقوق اور ماحولیاتی قوانین کی خلاف ورزی کے زمرے میں آ سکتا ہے۔ عدالت نے اس بات پر زور دیا کہ تمام ریاستیں ماحول کو نقصان سے بچانے کی قانونی اور اخلاقی ذمہ داری رکھتی ہیں، مشترکہ مگر امتیازی ذمہ داری کا اصول ان پر لاگو ہوتا ہے، جس کا مطلب ہے کہ امیر اور صنعتی ممالک کو زیادہ بوجھ اٹھانا ہوگا۔

    عالمی عدالت کے فیصلے پر بڑے ممالک کا ردعمل دلچسپ مگر مختلف رہا۔ امریکہ، آسٹریلیا اور بھارت نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ مشاورتی رائے ”مذاکرات کے عمل کو متاثر کر سکتی ہے۔

    موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے بچاؤ کے لیے فوری، مؤثر اور مساوی اقدامات عالمی قانون کے تحت ضروری ہیں۔ انسانی حقوق، بالخصوص زندگی، صحت، اور باعزت رہائش کا حق، موسمیاتی تبدیلی سے براہِ راست متاثر ہو رہا ہے۔

    یہ رائے اگرچہ باضابطہ ”قانونی طور پر لازم” نہیں، مگر اقوامِ متحدہ، ماحولیاتی ادارے، اور دنیا بھر کی عدالتیں اس کو مستقبل میں حوالہ کے طور پر استعمال کر سکتی ہیں۔ پاکستان جیسے ممالک کے لیے، جو عالمی آلودگی کے محض 1 فیصد کے ذمہ دار ہیں مگر شدید موسمیاتی آفات (سیلاب، خشک سالی، گلیشیئر پگھلاؤ، ہیٹ ویو اور دیگر) کا سامنا کر رہے ہیں، یہ فیصلہ ایک اخلاقی اور قانونی بنیاد فراہم کرتا ہے تاکہ وہ ترقی یافتہ ممالک سے موسمیاتی انصاف کا مطالبہ کر سکیں۔ 2022 کے تباہ کن سیلاب، جس نے پاکستان کی معیشت کو ہلا کر رکھ دیا، ماحولیاتی عدم مساوات کی زندہ مثال ہے۔ اب اس عدالتی رائے کی روشنی میں پاکستان نہ صرف اقوام متحدہ میں مضبوط مؤقف اپنا سکتا ہے بلکہ بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے موسمیاتی انصاف پر مبنی فنڈنگ اور امداد کا مطالبہ بھی کر سکتا ہے۔

    عالمی عدالت کے فیصلے پر بڑے ممالک کا ردعمل دلچسپ مگر مختلف رہا۔ امریکہ، آسٹریلیا اور بھارت نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ مشاورتی رائے ”مذاکرات کے عمل کو متاثر کر سکتی ہے۔” ان نمائندوں کا کہنا تھا کہ اقوامِ متحدہ کے موسمیاتی فورمز زیادہ موزوں پلیٹ فارم ہیں۔ گویا وہ قانونی ذمہ داری کے بجائے رضاکارانہ اقدامات پر زور دیتے ہیں۔ چین نے کہا کہ ترقی پذیر دنیا کو مالی مدد ضرور ملنی چاہیے مگر ہر ملک کی ”قومی خود مختاری” کا احترام بھی لازم ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ چین بھی قانونی پابندیوں کے بجائے باہمی سمجھوتوں کو ترجیح دیتا ہے۔ یورپی یونین نے جزوی حمایت کی، اور کہا کہ وہ پہلے ہی Net Zero کے اہداف اور گرین انرجی پر کام کر رہے ہیں، مگر بعض یورپی ملکوں نے فیصلے کے قانونی اثرات کو کم کرنے کی کوشش کی

    یہ واضح ہے کہ بڑی طاقتیں فیصلے کے سیاسی اور قانونی مضمرات سے باخبر ہیں مگر مکمل قبولیت کے لیے تیار نہیں۔ لیکن عالمی دباؤ اور اخلاقی بوجھ کے باعث وہ اس سے مکمل طور پر انکار بھی نہیں کر سکتیں۔

    عدالتی فیصلے کے فوراً بعد، دنیا بھر میں اس پر مختلف آرا سامنے آئیں۔ چھوٹے ممالک، ترقی پذیر دنیا، اور ماحولیاتی تحریکوں نے اسے ”انصاف کی طرف پہلا عملی قدم” قرار دیا۔ وانواتو کے وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی، رالف ریگنوا (Ralph Regenvanu) نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ”یہ فیصلہ ہماری توقعات سے بھی زیادہ مضبوط ہے، اب دنیا یہ نہیں کہہ سکتی کہ ماحولیاتی تباہی کے خلاف کارروائی صرف ایک اخلاقی مسئلہ ہے، یہ ایک قانونی ذمہ داری ہے۔“

    تاہم کچھ بڑی طاقتوں، خاص طور پر وہ ممالک جن کی معیشتیں کوئلے، تیل اور گیس پر انحصار کرتی ہیں، نے اس فیصلے کو نرم الفاظ میں لیا اور خود پر لاگو قانونی نتائج کو نظر انداز کیا۔ ماحولیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ آئندہ اقوامِ متحدہ کی ماحولیاتی کانفرنسیں (COP) اس فیصلے کی بنیاد پر مزید سخت قانونی معاہدوں کی طرف جا سکتی ہیں۔ ”ماحولیاتی انصاف“ اب صرف ایک سماجی نعرہ نہیں رہا، بلکہ اقوام متحدہ، عالمی عدالتیں، اور بین الاقوامی معاہدے اسے قانونی اور عملی اصول کے طور پر تسلیم کر رہے ہیں۔ اس تناظر میں ICJ کا یہ فیصلہ ایک سنگِ میل ہے، جو درج ذیل پہلوؤں کو اجاگر کرتا ہے:

    آلودگی پھیلانے والا ازالہ کرے: جو ملک ماحول کو نقصان پہنچاتے ہیں، انہیں ہی مالیاتی طور پر اس کا ازالہ کرنا چاہیے۔

    نسل در نسل انصاف: موجودہ نسل کی ذمہ داری ہے کہ وہ آئندہ نسلوں کو محفوظ ماحول دے۔

    شہری حقوق اور ماحول: صاف ماحول تک رسائی کو بنیادی انسانی حق کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے۔

    پاکستان، جو دنیا کے سب سے کم کاربن خارج کرنے والے ملکوں میں شامل ہے، ہر سال موسمیاتی آفات کا بوجھ سہتا ہے۔ 2022 کے سیلاب میں ملک کا ایک تہائی حصہ زیرِ آب آگیا۔ 1700 سے زائد افراد جان سے گئے اور 3 کروڑ سے زائد متاثر ہوئے، جب کہ معاشی نقصان 30 ارب ڈالر سے تجاوز کر گیا۔ 2025 میں بھی غیر متوقع گرمی کی لہر، قحط، اور قبل از وقت مون سون نے ماحولیاتی بحران کی سنگینی کو مزید بڑھایا ہے۔ پاکستان کے لیے ICJ کا فیصلہ اس لیے اہم ہے کہ یہ بین الاقوامی قانون میں اس کے مقدمے کو تقویت دیتا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک پر مالی، تکنیکی اور اخلاقی دباؤ بڑھے گا۔ پاکستان اب Loss & Damage فنڈ، گرین کلائمیٹ فنڈ، اور دیگر بین الاقوامی فورمز پر قانونی بنیاد پر معاوضے کا مطالبہ کر سکتا ہے۔ پاکستانی عدالتیں اور پارلیمان اب ماحولیاتی انصاف کے اصولوں کو داخلی قانون سازی میں شامل کر سکتی ہیں۔

    عالمی عدالت انصاف کا یہ فیصلہ اگرچہ قانونی طور پر لازم نہیں، مگر اس کا اخلاقی وزن اور سیاسی اثر زبردست ہے۔ یہ انسانی تاریخ کے اس موڑ پر آیا ہے جہاں موسمیاتی تبدیلی صرف ماحولیاتی مسئلہ نہیں بلکہ بقاء کا مسئلہ بن چکی ہے۔ پاکستان، جو ماحولیاتی عدم مساوات کا زندہ استعارہ ہے، اب ایک مضبوط مقدمہ پیش کر سکتا ہے: ”ہم نے آلودگی نہیں پھیلائی، مگر ہم مر رہے ہیں۔” اب وقت ہے کہ عالمی ضمیر جاگے، اور قانون، اخلاق، اور انصاف ایک ہی زبان بولیں۔ اب یہ اقوام، سول سوسائٹی، اور پالیسی سازوں پر منحصر ہے کہ وہ اس قانونی رائے کو عملی اقدامات میں کیسے ڈھالتے ہیں۔

  • موسمیاتی تبدیلی اور بارشیں: جب فطرت بغاوت پر اتر آئے

    موسمیاتی تبدیلی اور بارشیں: جب فطرت بغاوت پر اتر آئے

    بارش، جو کبھی خوشحالی اور زرخیزی کی علامت سمجھی جاتی تھی، اب تباہی، سیلاب اور انسانی المیوں کو جنم دے رہی ہے۔ دنیا کے مختلف خطوں میں معمول سے ہٹ کر ہونے والی شدید بارشیں ایک نئے اور غیر متوقع مظہر کی صورت اختیار کر چکی ہیں، جسے سائنسدان موسمیاتی تبدیلی کا براہِ راست نتیجہ قرار دے رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا واقعی بارشوں کے اس بگڑتے ہوئے انداز کا تعلق عالمی درجۂ حرارت میں اضافے سے ہے؟ اور اگر ہاں، تو کیا ہم اس کے لیے تیار ہیں؟

    ماہرین کے مطابق زمین کا ماحولیاتی نظام نہایت متوازن اور حساس ہے۔ جب فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ، میتھین اور دیگر گرین ہاؤس گیسوں کی مقدار بڑھتی ہے، تو نہ صرف درجۂ حرارت میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ فضائی نمی میں بھی غیر معمولی تبدیلی آتی ہے۔ نیشنل اوشینک اینڈ ایٹموسفیرک ایڈمنسٹریشن (NOAA) کے مطابق، ہر ایک ڈگری سیلسیئس درجۂ حرارت کے اضافے کے ساتھ فضا میں 7 فیصد زیادہ نمی جذب ہو سکتی ہے، جو مستقبل میں شدید بارشوں اور طوفانی موسم کی شدت کو بڑھا سکتی ہے۔

    بین الحکومتی پینل برائے موسمیاتی تبدیلی کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ (2023) میں خبردار کیا گیا کہ ہر گزرتے عشرے کے ساتھ دنیا میں بارش کے پیٹرن میں شدت، طوالت اور بے ترتیبی بڑھ رہی ہے جس کے نتیجے میں جنوبی ایشیا، وسطی افریقہ اور لاطینی امریکہ سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔ عالمی موسمیاتی تنظیم کی 2024 کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ عالمی درجۂ حرارت 1.5 ڈگری کے قریب پہنچ چکا ہے، اور اس کی وجہ سے بارش کے سائیکل میں غیر معمولی تبدیلی آئی ہے۔ کہیں طوفانی بارشیں ہیں، تو کہیں مکمل خشک سالی۔

    اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام کی 2025 کی رپورٹ میں کہا گیا کہ پاکستان جنوبی ایشیا کے ان پانچ ممالک میں شامل ہے جو شدید بارشوں اور اس کے نتیجے میں ہونے والے اربن فلڈنگ، مٹی کے تودے گرنے اور زرعی تباہی کے سب سے زیادہ خطرات سے دوچار ہیں جب کہ اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام اور آئی ایم ایف کی 2024 کی مشترکہ تحقیق میں بتایا گیا کہ غیر متوقع بارشیں ترقی پذیر ممالک کی معیشت کو ہر سال اوسطاً 235 ارب ڈالر کا نقصان پہنچا رہی ہیں، جن میں زراعت، انفراسٹرکچر اور انسانی جان و مال شامل ہے۔

    رواں اور گذشتہ سال کے چند بڑے واقعات کا ذکر کیا جائے تو رواں سال میں برازیل کے جنوبی علاقہ (ریو گراندے دو سل) مئی میں مسلسل دو ہفتے کی طوفانی بارشوں سے 170 افراد ہلاک اور 6000 سے زائد مکانات تباہ ہوئے جب کہ تقریباً 3.4 ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔ چین کے صوبہ ہنان میں جولائی کے آغاز میں آنے والی صرف 5 دن کی بارش نے 12 اضلاع کو ڈبو دیا۔ نقصان کا اندازہ 2 ارب ڈالر کے قریب لگایا گیا، 200,000 افراد بے گھر ہوئے۔ 2024 میں پاکستان کے صوبے بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں شدید بارشیں ہوئیں، مارچ تا جون غیر متوقع بارشوں اور ژالہ باری سے فصلیں تباہ ہوئیں اور معاشی نقصان کا تخمینہ تقریباً 180 ارب روپے (تقریباً 630 ملین ڈالر) لگایا گیا۔ جرمنی اور بیلجیم میں دریائے رائن کے کنارے شدید بارشوں سے صنعتی علاقے متاثر ہوئے۔ نقصان کا اندازہ 1.2 ارب یورو۔

    رواں سال مون سون سیزن کے دوران پاکستان شدید بارشوں اور سیلابی صورتحال کا سامنا کر رہا ہے۔ این ڈی ایم اے اور مختلف میڈیا رپورٹس کے مطابق اب تک 279 افراد جاں بحق اور 676 زخمی ہو چکے ہیں۔ پنجاب سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے جہاں 151 افراد ہلاک اور سیکڑوں زخمی ہوئے، جب کہ خیبر پختونخوا میں 64، بلوچستان میں 20، سندھ میں 25، گلگت بلتستان میں 9، اسلام آباد میں 8 اور آزاد کشمیر میں 2 اموات رپورٹ ہوئی ہیں۔ شدید بارشوں نے نہ صرف انسانی جانیں لیں بلکہ 1,500 سے زائد مکانات کو تباہ کر دیا یا ان کو نقصان پہنچایا، 370 کے قریب مویشی ہلاک ہوئے اور کئی اہم انفراسٹرکچر، سڑکیں اور پل منہدم ہو گئے۔

    جولائی کے وسط تک ملک میں ہونے والی بارشیں گزشتہ برس کے مقابلے میں 82 فیصد زیادہ ریکارڈ کی گئیں، جب کہ پہاڑی علاقوں میں شدید گرمی کے باعث گلیشیئر کے پگھلنے سے بھی فلش فلڈز اور گلیشیئر لیک آؤٹ برسٹ فلڈز (GLOFs) کے واقعات میں اضافہ ہوا۔ ماہرین کے مطابق ملک کے شمالی علاقوں میں مزید شدید بارشوں اور لینڈ سلائیڈنگ کے خطرات موجود ہیں، جو آنے والے ہفتوں میں صورتحال کو مزید پیچیدہ بنا سکتے ہیں۔

    ورلڈ میٹررو لوجیکل آرگنائزیشن (WMO) کی 2025 کی رپورٹ کے مطابق شدید بارشوں کے بڑھتے ہوئے واقعات کا براہِ راست تعلق ماحولیاتی تبدیلی سے ہے۔ موجودہ صدی کے وسط تک ایسے واقعات کی شدت دو گنا ہونے کا امکان ہے۔ رواں سال اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام کی رپورٹ میں کہا گیا کہ پاکستان جنوبی ایشیا کے ان پانچ ممالک میں شامل ہے جو شدید بارشوں اور اس کے نتیجے میں ہونے والے اربن فلڈنگ، مٹی کے تودے گرنے اور زرعی تباہی کے سب سے زیادہ خطرات سے دوچار ہیں۔ فوڈ اینڈ ایگری کلچر آرگنائزیشن کے مطابق، 2025 میں صرف پاکستان اور بھارت میں زرعی پیداوار میں 11% کمی کا اندیشہ ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق، موسمیاتی تبدیلی سے پیدا ہونے والے سیلاب اور بارشوں کے باعث 2024 میں تقریباً 33 ملین افراد نے اندرونِ ملک نقل مکانی کی۔

    یہ صورتِ حال شہری نظام پر مزید دباؤ بڑھا رہی ہے جس کے نتیجے میں ایک نیا بحران جنم لے رہا ہے۔ پاکستان کے بڑے شہر پہلے ہی ماحولیاتی دباؤ، بے ہنگم آبادی، ناقص منصوبہ بندی اور بنیادی ڈھانچے کی خستہ حالی کا شکار ہیں۔ جب اچانک موسلا دھار بارش ہوتی ہے تو نکاسی آب کا نظام بیٹھ جاتا ہے، کرنٹ لگنے کے حادثات ہوتے ہیں، بجلی، مواصلات اور آمدورفت کا نظام درہم برہم ہو جاتا ہے، کچی بستیوں میں مکانات گرنے اور اموات کے واقعات بڑھ جاتے ہیں۔

    بدلتے موسموں کے نتیجے میں پیدا ہونے والی اس صورتحال سے نپٹنے کے لیے جو ملکی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانے کا سبب بن چکی ہے۔ ہمارے پالیسی سازوں کو جنگی بنیادوں پر حکمت عملی اپناتے ہوئے اقدامات کرنے ہوں گے جیسے شہری سیلابی نقشے (Urban Flood Maps) بنانا ہوں گے جو ہر بڑے شہر کے لیے خطرے کے زون کی نشاندہی کریں۔ اس کے علاوہ نالوں کی صفائی کے ساتھ ان پر قائم تجاوزات کا خاتمہ، بارش کے پانی کا ذخیرہ، اور مقامی وارننگ سسٹمز کی تنصیب، شجر کاری و سبز انفراسٹرکچر، شہروں میں پارکس، کھلی زمین اور قدرتی نالے کو محفوظ کرنا ہو گا تاکہ پانی جذب ہو سکے۔ موسمیاتی تبدیلی سے متعلق ڈیزاسٹر مینجمنٹ بلز کو نافذ کیا جائے اور اور اس حوالے سے فنڈنگ یقینی بنائی جائے۔

    بارشوں کا تیز اور غیر متوقع انداز موسمیاتی تبدیلی کی زندہ مثال ہے۔ اگرچہ بارش ایک قدرتی عمل ہے، مگر اس بات میں اب کوئی دو رائے نہیں رہی کہ اس کی شدت، وقت، مقام اور اثرات میں جو تبدیلی آ رہی ہے وہ واضح طور پر انسانی سرگرمیوں سے جڑی ہے جس کے نتیجے میں موسمیاتی تبدیلی رونما ہوئی۔ پاکستان جیسے ممالک، جہاں وسائل کم اور خطرات زیادہ ہیں، وہاں مؤثر منصوبہ بندی، سائنسی حکمتِ عملی اور مقامی سطح پر عوام کی شرکت ہی ہمیں ان بارشوں کو ”رحمت” بنائے رکھنے میں مدد دے سکتی ہے۔ ورنہ یہ ”عذاب” بن کر ہمارے دروازے پر دستک دے رہی ہیں۔

  • ماحول کی جنگ: ہم کس طرف کھڑے ہیں؟

    ماحول کی جنگ: ہم کس طرف کھڑے ہیں؟

    دنیا کی نبض تیز ہو چکی ہے، فضا گرم ہو رہی ہے، پانی کم ہوتا جا رہا ہے، اور زمین بے ترتیب سانس لے رہی ہے۔ وہ جو کل محض سائنسی انتباہات تھے، آج ہماری روزمرہ زندگی کا حصہ بن چکے ہیں۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریش نے اپنے حالیہ خطاب میں کہا کہ ”موسمیاتی تبدیلی قابو سے باہر ہے۔ اگر ہم اہم اقدامات میں تاخیر کرتے رہے تو تباہی ہمارا مقدر بن جائے گی۔“

    2023 دنیا کے لیے سب سے گرم سال ثابت ہوا، اور 2024 کے ابتدائی چھ ماہ نے اس تسلسل کو جاری رکھا۔ یورپ میں شدید گرمی کی لہریں، امریکہ میں جنگلات کی آگ، افریقہ میں قحط، اور جنوبی ایشیا میں بے وقت بارشیں اور شدید گرمی کی لہریں یہ سب اب اس نئے معمول کا حصہ ہیں۔ رواں سال کے ابتدائی چھ ماہ ماحولیاتی تباہی کے واضح اشارات سے بھرے پڑے ہیں۔ دنیا کے مختلف خطوں میں جو کچھ پیش آیا، وہ اتفاقی نہیں بلکہ ایک منظم عالمی موسمیاتی اور ماحولیاتی بحران کی جھلک ہے۔

    پاکستان اس جنگ کا محاذِ اوّل بن چکا ہے، نہ صرف اس لیے کہ ہم خطرے میں ہیں، بلکہ اس لیے بھی کہ ہمارے پاس فیصلہ کن موڑ پر پہنچنے کا وقت کم ہے۔

    رواں سال موسمیاتی بحران کے سبب آنے والی چند سنگین آفات کا ذکر کریں تو جنوری میں میکسیکو سٹی میں پانی کا مرکزی ذخیرہ تقریباً خشک ہو چکا تھا۔ تین ملین افراد پانی کی تلاش میں سڑکوں پر آ گئے۔ مارچ میں البرٹا اور برٹش کولمبیا کے جنگلات میں لگی آگ نے 54 ملین ایکڑ سے زیادہ رقبے کو راکھ کر دیا۔

    NASA کے مطابق، صرف تین ماہ میں 2023 کے مقابلے میں 25 فیصد زیادہ زمین جل چکی ہے۔ اپریل میں صومالیہ، ایتھوپیا اور کینیا میں قحط کے حالات پیدا ہو گئے۔ اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام نے اسے ”موسمیاتی قحط” قرار دیا۔ جون میں چین کے تین صوبوں میں صرف 24 گھنٹوں میں 600 ملی میٹر سے زیادہ بارش ہوئی، جس سے لاکھوں افراد متاثر ہوئے اور زرعی زمین تباہ ہو گئی۔ مئی میں پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش کے متعدد شہروں میں درجہ حرارت 50 ڈگری سیلسیس سے تجاوز کر گیا۔ پاکستان میں درجنوں افراد ہیٹ اسٹروک کا شکار ہوئے جب کہ یورپ کا خطّہ جہنّم کی آگ کا نمونہ پیش کرتا رہا۔

    پاکستان عالمی کاربن کے اخراج میں صرف 0.8 فیصد حصہ ڈالتا ہے، لیکن موسموں کے تباہ کن اثرات میں سرفہرست 10 ممالک میں شامل ہے۔ رواں سال گلگت بلتستان میں گلیشیئر پھٹنے کے کم از کم پانچ واقعات رپورٹ ہوئے، جن سے کئی دیہات خالی کرانے پڑے۔ کراچی، لاہور، جیکب آباد اور دادو میں ”ہیٹ آئی لینڈ ایفیکٹ” کے سبب درجۂ حرارت 3 سے 4 ڈگری اضافی محسوس کیا گیا۔ ملک کے بیشتر حصے کو گلیشیر کے پگھلاؤ کے نتیجے میں طوفانی بارشوں اور سیلاب کی صورتحال کا سامنا ہے۔ اقوامِ متحدہ کے مطابق، پاکستان میں 2025 کے اختتام تک ماحولیاتی مہاجرین کی تعداد 20 لاکھ سے تجاوز کر سکتی ہے۔

    بین الحکومتی پینل برائے موسمیاتی تبدیلی (IPCC) نے رواں سال جون میں کہا کہ ”ہم ناقابلِ واپسی ماحولیاتی نکات کے قریب پہنچ چکے ہیں۔ مؤثر ماحولیاتی اقدامات کے لیے وقت تیزی سے ختم ہو رہا ہے۔“ عالمی موسمیاتی تنظیم (WMO) – کلائمٹ واچ رپورٹ 2025 کے مطابق اس بات کا امکان 98 فیصد ہے کہ 2025 تاریخ کا سب سے گرم سال ہوگا، اور اس سال عالمی درجۂ حرارت عارضی طور پر 1.5 ڈگری سیلسیس کی حد عبور کر جائے گا۔

    اقوامِ متحدہ ماحولیاتی پروگرام (UNEP) کی ایمیشنز گیپ رپورٹ 2025 کا کہنا ہے کہ موجودہ عالمی پالیسیوں کے تحت ہم اس راستے پر گامزن ہیں جو ہمیں صدی کے آخر تک 2.8 ڈگری سیلسیس کے خطرناک درجہ حرارت تک لے جائے گا جو چھوٹے جزیروں، بنجر علاقوں اور جنوبی ایشیا کے لیے تباہ کن ثابت ہوگا۔ جرمن واچ کی عالمی موسمیاتی خطرہ اشاریہ رپورٹ 2025 کہتی ہے کہ پاکستان مسلسل تیسرے سال موسمیاتی خطرات سے متاثرہ دنیا کے دس بدترین ممالک میں شامل رہا ہے۔

    اس حقیقت سے انکار کرنا اب ممکن نہیں رہا ہے کہ صرف موسم نہیں، زندگی بدل رہی ہے۔ پاکستان میں رواں سال گندم اور کپاس کی پیداوار میں 12 فیصد کمی ہوئی۔انڈس بیسن میں پانی کی دستیابی مسلسل گھٹ رہی ہے۔ کراچی اور حیدرآباد میں گرمی کی شدت سے ہزاروں افراد اسپتالوں میں داخل ہوئے۔ جنوبی پنجاب اور اندرون سندھ کے لاکھوں افراد نقل مکانی پر مجبور ہوئے۔

     پاکستان میں ماحولیاتی مہاجرین کی تعداد 2030 تک 2 کروڑ تک پہنچنے کا خدشہ ہے، جنہیں زمین، پانی اور روزگار کی تلاش میں شہروں کا رخ کرنا ہوگا، جس سے شہری نظام مزید دباؤ کا شکار ہوگا۔

    پاکستان کی مرکزی اور صوبائی حکومتوں نے اس ضمن میں کچھ مثبت اقدامات ضرور کیے ہیں تاہم، ان اقدامات کو کام یاب بنانے کے لیے ضروری ہے کہ ماحولیاتی تعلیم کو قومی نصاب میں شامل کیا جائے، پائیدار توانائی کو فروغ دیا جائے، ماحولیاتی بجٹ کو ترجیح بنایا جائے۔ ہمیں سمجھ لینا چاہیے کہ یہ تبدیلیاں صرف موسم کی نہیں، زندگی کی نوعیت کو بدل رہی ہیں۔ فصلیں وقت پر نہیں اگتیں، پانی ناپید ہوتا جا رہا ہے، بیماریوں کا پھیلاؤ بڑھ رہا ہے، اور مہاجرین کی ایک نئی لہر ”ماحولیاتی مہاجرین“ جنم لے رہی ہے۔ پاکستان میں ماحولیاتی مہاجرین کی تعداد 2030 تک 2 کروڑ تک پہنچنے کا خدشہ ہے، جنہیں زمین، پانی اور روزگار کی تلاش میں شہروں کا رخ کرنا ہوگا، جس سے شہری نظام مزید دباؤ کا شکار ہوگا۔

    ہمیں اس امر کا جلد از جلد ادراک کرنا ہو گا کہ یہ جنگ توپ و تفنگ کی نہیں، زندگی اور بے حسی کے درمیان ہے۔ ایک طرف وہ فطرت ہے جو کروڑوں سال سے ہمیں خوراک، پانی، ہوا اور پناہ دیتی آ رہی ہے، اور دوسری طرف وہ انسان ہے جو ترقی کے نام پر زمین کے سینے کو چیر رہا ہے۔ یہ جنگ سائنس دانوں، کسانوں، ماہی گیروں اور عام شہریوں کی جنگ ہے جن کا مستقبل ان پالیسیوں، رویّوں اور فیصلوں سے جڑا ہے جو ہم آج اختیار کرتے ہیں۔

    سوال صرف یہ نہیں کہ زمین کب تباہ ہو گی، بلکہ یہ ہے کہ ہم تباہی سے پہلے جاگتے ہیں یا بعد میں؟ پاکستان اس جنگ کا محاذِ اوّل بن چکا ہے، نہ صرف اس لیے کہ ہم خطرے میں ہیں، بلکہ اس لیے بھی کہ ہمارے پاس فیصلہ کن موڑ پر پہنچنے کا وقت کم ہے۔ اب فیصلہ ہمیں کرنا ہے کہ کیا ہم اُس صف میں کھڑے ہوں گے جو زمین کو بچانا چاہتی ہے؟ یا اُس طرف، جو خاموشی سے ہر پگھلتے گلیشیئر، ہر مرجھاتی فصل، ہر بیمار بچے اور ہر بے گھر خاندان کو تقدیر کا کھیل سمجھ کر نظر انداز کر دے گی؟

    حوالہ جات
    بین الحکومتی پینل برائے ماحولیاتی تبدیلی (IPCC)، چھٹی تشخیصی رپورٹ – جون 2025
    (اقوام متحدہ کا سائنسی ادارہ جو عالمی درجۂ حرارت میں اضافے کے اسباب، اثرات اور حل پر رپورٹ جاری کرتا ہے)
    عالمی موسمیاتی تنظیم (WMO)، کلائمیٹ واچ رپورٹ – مئی 2025
    (دنیا بھر کے موسم، درجہ حرارت، اور شدید موسمی واقعات کی نگرانی پر مبنی بین الاقوامی جائزہ رپورٹ)
    اقوام متحدہ ماحولیاتی پروگرام (UNEP)، اخراج کے فرق سے متعلق رپورٹ – اپریل 2025
    (یہ رپورٹ بتاتی ہے کہ دنیا موجودہ رفتار سے گرین ہاؤس گیسوں کو کم کرنے میں کتنی پیچھے ہے اور کیا اقدامات درکار ہیں)
    جرمن واچ، عالمی موسمیاتی خطرہ اشاریہ – ایڈیشن 2025
    (جرمن ماحولیاتی تھنک ٹینک کی سالانہ رپورٹ جو ماحولیاتی آفات سے متاثرہ ممالک کی درجہ بندی کرتا ہے)
    ناسا (NASA)، جنگلاتی آگ کی نگرانی پر مبنی بریفنگ – مارچ 2025
    (ماحولیاتی آلودگی اور جنگلات میں لگنے والی آگ کے عالمی اثرات پر امریکی خلائی ادارے کی تحقیق)
    یو این ڈی پی، پاکستان موسمیاتی خطرات کی پروفائل – مئی 2025
    (پاکستان میں موسمیاتی تبدیلی کے مخصوص اثرات، خطرات اور ممکنہ پالیسی اقدامات کی تفصیل)
    دی لینسٹ کاؤنٹ ڈاؤن 2024–25: موسمیاتی تبدیلی اور صحت پر رپورٹ
    (طبی و سائنسی جریدے ”لینسٹ” کی عالمی رپورٹ جو بتاتی ہے کہ موسمیاتی تبدیلی انسانی صحت پر کیسے اثر ڈال رہی ہے)
    پاکستان محکمہ موسمیات – مئی و جون 2025 کی موسمیاتی رپورٹس
    (پاکستان میں درجہ حرارت، بارش، اور گلیشیئرز سے متعلق قومی سطح کی ماہرانہ موسمیاتی تفصیلات)

  • پاکستان کے ختم ہوتے گلیشیئرز: بقا کا برفانی بحران

    پاکستان کے ختم ہوتے گلیشیئرز: بقا کا برفانی بحران

    پاکستان کے شمالی علاقوں میں واقع برفانی گلیشئرز نہ صرف قدرتی حسن کا شاہکار ہیں بلکہ ملک کے دریاؤں، زراعت، توانائی اور انسانی زندگی کے لیے ایک بنیادی وسیلۂ حیات کی حیثیت رکھتے ہیں۔ مگر افسوس کہ موسمیاتی تبدیلی کے مہلک اثرات نے ان برفانی خزانوں کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔

    پاکستان کے گلیشئرز خاموش مگر زندہ نشانیاں ہیں جو ہمیں خبردار کر رہی ہیں کہ وقت ختم ہو رہا ہے

    آج پاکستان ان چند ممالک میں شامل ہے جہاں گلیشئرز کی پگھلنے کی رفتار خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے، اور اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو یہ بحران ہماری آنے والی نسلوں کی زندگی کو خشک، بنجر اور عدم استحکام سے دوچار کر سکتا ہے۔

    پاکستان دنیا کے ان چند خوش قسمت ممالک میں شامل ہے جن کے پاس 7200 سے زائد گلیشئرز موجود ہیں، جو دنیا کے سب سے بڑے غیر قطبی برفانی ذخائر میں شمار ہوتے ہیں۔ بیافو، بالتورو، سیاچن، پسو اور ہسپر جیسے گلیشئرز نہ صرف قدرتی عجوبے ہیں بلکہ پاکستان کے دریاؤں، خاص طور پر دریائے سندھ، کے پانی کی اصل بنیاد بھی ہیں۔

    پاکستان میں اس وقت اندازاً 7200 سے زائد گلیشیئرز موجود ہیں، جن میں سے تقریباً 80 فیصد گلیشئرز تیزی سے پگھلنے کے عمل سے گزر رہے ہیں۔ شمالی علاقوں میں درجۂ حرارت میں 1.5 سے 2 ڈگری سینٹی گریڈ تک کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ مئی و جون 2025 میں گلگت اور ہنزہ میں غیر معمولی گرمی کی لہریں آئیں، جنہوں نے گلیشئرز کے غیر موسمی پگھلاؤ کو مزید بڑھا دیا۔

    2024–2025 کے دوران، اقوام متحدہ اور مقامی اداروں کی رپورٹس کے مطابق، پاکستان میں 33 سے زائد گلیشئرز ایسے زونز میں آ چکے ہیں جہاں گلشیل لیک آؤٹ فلیش فلڈز(GLOFs) کا شدید خطرہ لاحق ہے۔ 2024-25 کے دوران گلگت بلتستان اور چترال میں کم از کم 9 بڑے GLOF واقعات ریکارڈ ہوئے، ان حادثات کے نتیجے میں اب تک 12 ہزار سے زائد افراد متاثر ہو چکے ہیں، جن میں گھروں کی تباہی، زرعی اراضی کا نقصان، اور بنیادی ڈھانچے کی بربادی شامل ہے، جب کہ ہزاروں لوگ نقل مکانی پر مجبور ہوئے۔ اقوامِ متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام (UNEP) اور پاکستان میٹ ڈیپارٹمنٹ کی حالیہ رپورٹس کے مطابق 2025 تک پاکستان کے 80 فیصد گلیشئرز میں پگھلاؤ کے آثار واضح ہو چکے ہیں جب کہ بیافو، ست پارہ، چوغولنگما جیسے گلیشئرز کی برف میں سالانہ 1.2 میٹر تک کمی نوٹ کی گئی جب کہ کئی گلیشئرز اپنی سطح کا 20 تا 25 فیصد حصہ کھو چکے ہیں۔

    دنیا بھر میں بڑھتا ہوا گرین ہاؤس ایفیکٹ پاکستان کے برفانی علاقوں کو براہِ راست متاثر کر رہا ہے

    دنیا بھر میں بڑھتا ہوا گرین ہاؤس ایفیکٹ پاکستان کے برفانی علاقوں کو براہِ راست متاثر کر رہا ہے۔ ٹرانسپورٹ، لکڑی جلانے اور صنعتوں سے اٹھنے والے ذرات گلیشئرز پر جمع ہو کر سورج کی حرارت کو جذب کرتے ہیں اور برف کو تیز رفتاری سے پگھلاتے ہیں جب کہ شمالی علاقوں میں بے قابو ہوتی سیاحتی سرگرمیاں، پلاسٹک ویسٹ اور تعمیرات، ماحولیاتی نظام کو نقصان پہنچانے کا سبب بن رہی ہیں۔

    گلیشیئرز کے پگھلاؤ کے نتیجے میں پانی کا بہاؤ وقتی طور پر تو ضرور پر بڑھے گا، لیکن آنے والی دہائیوں میں پاکستان میں شدید پانی کی قلت متوقع ہے۔ پاکستان کی زراعت، جو دریائے سندھ پر انحصار کرتی ہے، اس سے تباہ ہو سکتی ہے۔ ہمارے ہائیڈرو پاور کا انحصار دریاؤں پر ہے، اور پانی کی کمی کی صورت میں بجلی کی شدید قلت اور لوڈشیڈنگ کا سامنا ہو سکتا ہے۔ گلیشیئرز کے پگھلاؤ سے پیدا ہونے والے سیلاب دیہاتی علاقوں کو اجاڑ سکتے ہیں۔ پہاڑی علاقوں سے ماحولیاتی پناہ گزین شہروں کی جانب نقل مکانی کر سکتے ہیں۔

    GLOF-11 پروجیکٹ کے تحت وارننگ سسٹمز کی تنصیب، نیشنل کلائمیٹ چینج پالیسی 2021 اور ایڈاپٹیشن پلانز جیسے اقدامات کے ذریعے جہاں گلیشیئر کے پگھلاؤ کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بحران میں کمی لائی جا سکتی ہے وہیں مقامی کمیونٹیز میں آگاہی کی کمی، محدود تحقیق و ڈیٹا شیئرنگ، پائیدار سیاحت اور فضلہ مینجمنٹ کے فقدان کے چیلنجیز کو حل کرنا بھی ضروری ہو گا۔

    گلیشیئر مانیٹرنگ کے لیے جدید ٹیکنالوجی استعمال کرنے کے ساتھ، شمالی علاقوں میں ماحول دوست سیاحت کو فروغ دیا جائے۔ مقامی افراد کو موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کی تربیت دی جائے، قومی و صوبائی سطح پر ماحولیاتی ایمرجنسی کا اعلان کیا جائے، صنعتی آلودگی اور سیاہ کاربن کے خلاف سخت اقدامات کیے جائیں۔

    پاکستان کے گلیشیئرز خاموش مگر زندہ نشانیاں ہیں جو ہمیں خبردار کر رہی ہیں کہ وقت ختم ہو رہا ہے۔ اگر ہم نے آج بھی سنجیدہ اقدامات نہ کیے تو پانی، خوراک، توانائی اور انسانی زندگی کے بحرانوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ماحولیاتی جنگ اب برف کے محاذ پر لڑی جا رہی ہے، اور اس میں خاموشی شکست کی علامت ہے۔