Tag: محکمہ آثار قدیمہ

  • ’سعودیہ: ہزاروں سال قدیم اشیاء دریافت‘

    ’سعودیہ: ہزاروں سال قدیم اشیاء دریافت‘

    کہتے ہیں کہ یہ دنیا کروڑوں سال قدیم ہے، لیکن بعض تاریخی عمارات اور آثار ایسے بھی ہیں جو آج بھی دنیا کی نظروں سے اوجھل ہیں، سعودی ماہرین آثار قدیمہ ہزاروں سال پرانی اشیاء کی دریافت میں مصروف ہیں، ایسے میں انہوں نے حائل کے علاقے میں ایک نیا شہر دریافت کیا ہے۔

    بین الاقوامی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق سعودی عرب کے محکمہ آثار قدیمہ نے حائل کے جنوبی علاقے میں جبل عراف کے قریب کھدائی کے دوران ایک ہزار سال پرانا شہر دریافت کیا ہے۔

    سعودی محکمہ آثار قدیمہ کی بہترین کاوشوں اور جرمن انسٹی ٹیوٹ میکس بلانک کے تعاون کے باعث حائل کے علاقے میں ماضی کے فن اور معاشی سرگرمیوں کی عکاسی کرنے والے نوادرات کو دریافت کیا گیا ہے۔

    سائنسی جریدے‘پالس ون’میں شائع ہونے والی دریافت کی تفصیلات میں بتایا گیا ہے کہ قدیم پتھر کے زمانے میں اس مقام پر بڑی تعداد میں بنی نوع انسان آباد تھے۔

    ایس پی اے کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ جبل عراف سعودی عرب کے صحرائے النفود کے جنوب میں اور جبہ میں حائل شہر کے شمالی نخلستان میں واقع ہے۔ یہ وہاں جھیل کے دائرے میں آتا ہے جو جدید ہجری دور سے تعلق رکھتا ہے۔

    اس مقام سے پتھروں سے بنے ہوئے درجنوں اوزار اور برتن بھی دریافت کئے گئے ہیں، جو اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ یہاں بڑی تعداد میں انسان موجود تھے۔

    جبل اعراف ایک چٹان کی پناہ گاہ اور ایک کھلی جگہ پر مشتمل ہے جس میں ہولوسین کے وسط سے لے کر موجودہ دور تک آباد کاری کے آثار موجود ہیں۔

    سعودی محکمہ آثار قدیمہ اور جرمن انسٹی ٹیوٹ میکس بلینک گرین جزیرہ نما عرب میں ایک منصوبے پرمل کر اپنے امور انجام دے رہے ہیں،یہ ماہرین ایک طویل عرصے سے پتھر کے زمانے کی باقیات اور آثار قدیمہ پر تحقیق کر رہے ہیں۔

    اس سائنسی ٹیم کی اگر بات کی جائے تو اس میں سعودی عرب، برطانیہ، اٹلی،آسٹریلیا اور امریکہ کے اسکالرز اور ماہرین شامل ہیں۔

    اس سے قبل ماہرین آثار قدیمہ کو سعودی عرب میں صحرائے نفوذ کی جنوبی سرحد کے قریب چٹانوں پر اونٹوں کے ہزاروں سال قدیم نقوش ملے تھے۔

    صحرائی چٹانوں پر منقش جنگلی اونٹوں کے پانچ نقوش دریافت کئے گئے تھے، اونٹوں کی یہ نسل اب معدوم ہوچکی ہے، جو سعودیہ میں ہزاروں برس قبل موجود تھی۔

    سامنے آنے والے نقوش کو دیکھ اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ یہ جانوروں کی افزائش نسل کے دورانیہ یعنی نومبر سے مارچ کے درمیان کا وقت ہو سکتا ہے جن دنوں جانوروں میں افزائش نسل کا سیزن ہوتا ہے۔

  • زمانے کی کج روی، فلک کی نامہربانیوں‌ کا شاہد، قلعہ مروٹ

    زمانے کی کج روی، فلک کی نامہربانیوں‌ کا شاہد، قلعہ مروٹ

    اگر آپ کبھی پاکستان کے مشہور صحرائی علاقے چولستان کی سیر کو گئے ہیں، تو وہاں موجود قلعے اور قدیم آثار میں قلعہ مروٹ بھی ضرور دیکھا ہو گا۔

    اس قدیم قلعے کی خستہ حالی اور بوسیدگی اور اس کے آثار کئی نسلوں کی کہانیاں اور راز اپنے اندر سموئے ہوئے ہیں۔ یہ آثار زمانے کی کج روی، فلک کی نامہربانی اور موسموں کی سختی کے گواہ ہیں۔

    قلعہ مروٹ کے دروازے پر کبھی ایک کتبہ دیکھا گیا تھا جس پر مروٹ پاتھا، ملک جام سومرا، کوٹ پکی کھیل پھیرائی تحریر تھا۔ تاریخ نویسوں اور ماہرینِ آثار نے اس کتبے سے جانا کہ اس قلعے کو کسی زمانے میں جام سومرا نے بھی استعمال کیا اور 1941 میں اس کی مرمت کا کام بھی کروایا تھا۔

    تاریخی تذکروں میں لکھا ہے کہ اسے چتوڑ کے مہروٹ نے تعمیر کرایا تھا اور اسی کی راجا چچ سے جنگ بھی ہوئی تھی۔ اس کے بعد ہی قلعے کا نام قلعہ مہروٹ رکھا گیا جسے بعد میں مروٹ بولا جانے لگا۔

    یہ قلعہ چوں کہ ایک بلند ٹیلے پر تعمیر کیا گیا تھا، اس لیے دور ہی سے اس کے آثار نظر آجاتے ہیں۔ قلعہ مروٹ کی فصیل کے ساتھ بڑے برج بنائے گئے تھے جب کہ اس قلعے کے مغربی جانب بڑھیں تو وہاں ایک محل کے آثار بھی ملتے ہیں۔ اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ بیکانیر کے مہاراجا کا قصر تھا۔

  • لاکھن جو دڑو کی زمین خالی کرانے کے لیے کمیٹی تشکیل

    لاکھن جو دڑو کی زمین خالی کرانے کے لیے کمیٹی تشکیل

    سکھر: کمشنر سکھر نے موہن جو داڑو کی ہم عصر لاکھن جو داڑو کی سائٹ خالی کرانے کے لیے کمیٹی تشکیل دے دی ، ہائی کورٹ نے یہ زمین خالی کرانے کے احکامات دو سال قبل دیے تھے۔

    تفصیلات کے مطابق کمشنر سکھر رفیق ابڑو آج لاکھن جو داڑو کے تاریخی مقام کا جائزہ لینے پہنچے، انہوں نے کہا کہ ماضی میں تاریخی مقام کی زمین عام لوگوں کو الاٹ کی گئی۔

    انہوں نے ایک کمیٹی تشکیل دی ہے جو کہ اس سائٹ کی زمین کی حدود کا جائزہ لے گی ، کمشنر کا کہنا تھا کہ یہاں موجود فیکٹریوں کو متبادل جگہ فراہم کی جائے گی اور اس اہم تاریخی مقام کو محفوظ بنایا جائے گا۔

    سنہ 2015 میں سکھر کے صحافی محب چانڈیو کی جانب سے وکیل سہیل کھوسہ کی معرفت ایک آئینی پٹیشن داخل کرائی گئی تھی جس میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ لاکھین جو دڑو سندھ کی ثقافت کا قدیمی ورثہ ہے ۔ محکمہ آرکیالوجی کی جانب سے اس کی دیکھ بھال اور اس کو لاورث چھوڑے جانے کی وجہ سے اس پر سیاسی مفاد کے خاطر متعلقہ ڈپارٹمنٹ کے ساتھ مل کر اس کی 14ایکٹر اراضی کو غیر قانونی طریقے سے الاٹ کر دیا گیا ہے جس کے بعد دیگر افراد نے بھی اس کے اطراف کی زمین اور پلاٹوں پر قبضہ شروع کر دیا ہے ۔

    سندھ ہائی کورٹ نے اس پٹیشن پر فیصلہ دیتے ہوئے لاکین جو دڑو کی 14ایکڑ اراضی کی الاٹمنٹ کینسل کرتے ہوئے اس کے اطراف میں غیر قانونی قبضوں کو ختم کرنے کے احکامات دیئے تھے ، تاہم یہ قبضہ تاحال ختم نہیں کرایا جاسکا ہے ۔

    یاد رہے کہ ماہرین کا ماننا ہے کہ لاکھن جو دڑو موہن جو دڑو سےبھی زیادہ قدیم تہذیب ہے ۔ یہاں سے کچھ عرصے قبل موہن جو دڑو کی مہروں سے مشابہہ ہاتھی کی شبیہہ والی مہر بھی ملی ہے۔