Tag: محکمہ دفاع

  • امریکی محکمہ دفاع کا پرانا نام کیا ہے؟ ٹرمپ کا منصوبہ سامنے آ گیا

    امریکی محکمہ دفاع کا پرانا نام کیا ہے؟ ٹرمپ کا منصوبہ سامنے آ گیا

    واشنگٹن (31 اگست 2025): ٹرمپ انتظامیہ نے محکمہ دفاع کا پرانا نام محکمہ جنگ بحال کرنے پر غور شروع کر دیا ہے۔

    امریکی میڈیا رپورٹس کے مطابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پیر کے روز اس خیال کا اظہار کیا کہ محکمہ دفاع (Department of Defense) کو اس کے پرانے نام، محکمہ جنگ (Department of War) پر واپس لایا جا سکتا ہے، ان کا کہنا تھا کہ موجودہ نام 1940 کی دہائی سے رائج ہے، اور یہ حد سے زیادہ دفاعی ہے۔

    صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ ان کی انتظامیہ آئندہ چند دنوں میں نام تبدیل کر سکتی ہے، ٹرمپ نے کہا کہ حکام شاید اگلے ایک ہفتے میں پنٹاگون کو اس جارحانہ نام پر واپس لے جائیں گے جو اسے کبھی حاصل تھا۔

    صدر نے پیر کی سہ پہر اوول آفس میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہم دفاعی بننا چاہتے ہیں، لیکن اگر ضرورت پڑے تو ہم جارحانہ بھی بننا چاہتے ہیں۔ ان کا مؤقف تھا کہ امریکا کو اس کے پرانے نام کے تحت پہلی اور دوسری عالمی جنگوں کے دوران ناقابل یقین فتوحات حاصل ہوئی تھیں۔

    یوکرین کو اب کسی قسم کی مالی یا فوجی امداد فراہم نہیں کر رہے، ٹرمپ کا اعلان

    ٹرمپ نے پہلے کہا کہ یہ تبدیلی آئندہ ایک ہفتے یا اس سے کچھ زیادہ وقت میں متوقع ہے، تاہم چند گھنٹوں بعد انھوں نے کہا کہ وہ اس فیصلے کو وزیر دفاع پیٹ ہیگستھ پر چھوڑ دیں گے، ہم اسے چند بار اور آزمائیں گے، اور اگر سب کو یہ پسند آیا، تو ہم یہ تبدیلی کر دیں گے۔

    امریکی جریدے کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 1947 میں امریکی محکمہ جنگ کا نام تبدیل کر کے محکمہ دفاع رکھا گیا تھا۔ ٹرمپ انتظامیہ کو محکمہ دفاع کے پرانے نام کی بحالی کے لیے کانگریس کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ اس لیے ٹرمپ انتظامیہ کانگریس کی بجائے متبادل طریقوں پر غور کر رہی ہے۔

    جب ٹرمپ سے پوچھا گیا کہ کیا کانگریس کو اس پرانے نام کی بحالی کی منظوری دینی ہوگی، کیوں کہ قانون سازوں نے ہی اس کا نام پہلے تبدیل کیا تھا، تو صدر ٹرمپ نے کہا ’’مجھے ایسا نہیں لگتا، ہم بس یہ کریں گے، اگر ضرورت ہوئی تو مجھے یقین ہے کہ کانگریس ساتھ دے گی لیکن مجھے نہیں لگتا کہ ہمیں اس کی بھی ضرورت ہے۔

    یاد رہے کہ امریکی صدر کئی مہینوں سے وفاقی حکومت کے سب سے بڑے محکمے کے نام کی تبدیلی کا عندیہ دیتے رہے ہیں۔ پچھلے مہینے انھوں نے ایک موقع پر ٹرتھ سوشل پر پیٹ ہیگستھ کو اپنا ’’وزیرِ جنگ‘‘ قرار دیا تھا۔

  • کرونا وائرس کی ویکسین کے لیے امریکی محکمہ دفاع کی لاکھوں ڈالر امداد

    کرونا وائرس کی ویکسین کے لیے امریکی محکمہ دفاع کی لاکھوں ڈالر امداد

    واشنگٹن: امریکی بائیو ٹیکنالوجی کمپنی انوویو فارماسیوٹیکل کا کہنا ہے کہ انہیں کرونا وائرس کے خلاف اپنی ویکسین اور اس کے ساتھ تیار کی گئی ڈیوائس کے لیے امریکی محکمہ دفاع سے 71 ملین ڈالر وصول ہوگئے ہیں۔

    مذکورہ کمپنی کرونا وائرس کے خلاف ویکسین تیار کرچکی ہے جو انسانی آزمائش کے مرحلے میں ہے، اس کے ساتھ ایک ڈیوائس بھی تیار کی جارہی ہے جو اس ویکسین کو جلد کے اندر مانیٹر کرے گی۔

    کمپنی کا کہنا ہے کہ کلیکٹرا نامی اس ڈیوائس کے پرانے ورژن سے 2 ہزار مریضوں کو محفوظ طریقے سے دوا دی جا چکی ہے۔ کمپنی اس ڈیوائس کو سنہ 2019 میں بنانا شروع کر چکی تھے اور اب وہ اس کی ابتدائی پروڈکشن بھی شروع کرچکی ہیں۔

    کمپنی ترجمان کا کہنا ہے کہ محکمہ دفاع کی فنڈنگ کے بعد ڈیوائس کی تیاری مزید بڑے پیمانے پر ہوسکے گی۔

    دوسری جانب کمپنی کی تیار کردہ ویکسین کا ہیومن ٹرائل بھی جاری ہے، ویکسین کی انسانی آزمائش کا آغاز اپریل میں کیا گیا تھا جس کے نتائج رواں ماہ متوقع ہیں۔ اس کے بعد ٹرائل کا اگلا مرحلہ شروع کردیا جائے گا۔

    ویکسین کو اس سے قبل چوہوں پر آزمایا گیا تھا جس کے بعد ان کے خون میں اینٹی باڈیز پیدا ہوئی تھیں۔

    کمپنی کا کہنا ہے کہ امریکی محکمہ دفاع کی فنڈنگ کی مدد سے وہ ویکسین کی تیاری اور اس کی ڈیوائس کی مینو فیکچرنگ کو مزید وسعت دیں گے۔

  • پینٹاگون کا کاربن اخراج کئی ممالک سے بھی زیادہ

    پینٹاگون کا کاربن اخراج کئی ممالک سے بھی زیادہ

    دنیا بھر میں اس وقت کاربن اخراج ایک بڑا مسئلہ ہے جس کو کم سے کم کرنے کے لیے مختلف اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں تاہم امریکی محکمہ دفاع کے بارے میں حال ہی میں جاری ہونے والی ایک تحقیق نے دنیا بھر کے ماہرین کو تشویش میں مبتلا کردیا۔

    امریکا اس وقت سب سے زیادہ کاربن اخراج کرنے والے ممالک میں دوسرے نمبر پر ہے۔ حال ہی میں کی گئی ایک تحقیق سے پتہ چلا کہ امریکی محکمہ دفاع کا ہیڈ کوارٹر پینٹاگون، اس وقت صنعتی ممالک جیسے سوئیڈن اور پرتگال سے زیادہ کاربن اخراج کر رہا ہے۔

    امریکا کی براؤن یونیورسٹی کی جانب سے کی جانے والی تحقیق میں بتایا گیا کہ پینٹاگون نے سنہ 2017 میں 59 ملین میٹرک ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ اور مختلف گرین ہاؤس (نقصان دہ) گیسز خارج کیں۔ یہ مقدار سوئیڈن اور پرتگال جیسے کئی چھوٹے ممالک کے کاربن اخراج سے زیادہ ہے۔

    تحقیق میں کہا گیا کہ اسلحے کے استعمال اور اس کی نقل و حرکت میں اس ادارے کی 70 فیصد توانائی استعمال ہوتی ہے جس کا زیادہ حصہ جیٹ اور ڈیزل فیول پر خرچ ہوتا ہے۔

    پینٹاگون کی جانب سے تاحال اس تحقیق پر کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔

    اس سے قبل پینٹاگون بذات خود موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج کو قومی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دے چکا ہے۔

    کچھ عرصہ قبل کی جانے والی ایک تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ کلائمٹ چینج کے باعث امریکا میں مستقل آنے والے سمندری طوفانوں اور سطح سمندر میں اضافہ فوجی اڈوں، ان کے تحت چلائے جانے والے آپریشنز اور یہاں موجود تنصیبات کو متاثر کرے گا۔

    ماہرین کے مطابق 2050 تک یہ اڈے سیلاب سے 10 گنا زیادہ متاثر ہوں گے اور ان میں سے کچھ ایسے ہوں گے جو روز پانی کے تیز بہاؤ یا سیلاب کا سامنا کریں گے۔

    ان 18 اڈوں میں سے 4، جن میں کی ویسٹ کا نیول ایئر اسٹیشن، اور جنوبی کیرولینا میں میرین کورپس ڈپو شامل ہیں، صدی کے آخر تک اپنا 75 سے 95 فیصد رقبہ کھو دیں گے۔