Tag: مختار مسعود

  • امتحان سے قبل غبارِ خاطر کا مطالعہ!

    امتحان سے قبل غبارِ خاطر کا مطالعہ!

    غبارِ خاطر ابو الکلام آزاد کے خطوط کا مجموعہ ہے۔ مولانا ابو الکلام آزاد ایک انشاء پرداز، صاحبِ اسلوب ادیب تھے جن کا تحریر و تقریر میں کوئی ثانی نہیں۔ ان کی تصنیف غبارِ خاطر کا کی نثر شگفتہ اور پیرایہ دلنشیں ہے۔

    مختار مسعود بھی اردو ادب میں‌ اپنے اسلوب اور تصانیف کی وجہ سے شہرت اور مقام رکھتے ہیں۔ اپنے عہد کی ممتاز ادبی شخصیات اور بڑے بڑے قلم کاروں‌ کی طرح‌ مختار مسعود بھی مولانا ابوالکلام آزاد کی شخصیت اور ان کی تحریروں میں سحر میں‌ رہے اور اس کا تذکرہ اپنی کتابوں‌ میں‌ کیا ہے۔ یہاں‌ ہم مولانا آزاد کے تعلق سے مختار مسعود کے قلم سے نکلے چند پارے نقل کررہے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:

    بی اے کا امتحان شروع ہونے سے پانچ دن قبل مولانا آزاد کی ’غبارِ خاطر ‘ ہاتھ آگئی جسے پڑھنا شروع کیا تو یہ بھی یاد نہ رہا کہ پانچ روز بعد بی اے کا امتحان شروع ہونے والا ہے۔ چوبیس گھنٹے بعد جب یہ کتاب پڑھ کے رکھی تو اُس کا جادو پوری طرح چڑھ چکا تھا۔

    مختار مسعود لکھتے ہیں: ’’غبارِ خاطر ختم ہوئی۔ میں نے اُسے جہاں سے اُٹھایا تھا وہاں واپس رکھنا چاہا (تو) کتاب نے کہا (کہ اب) باقی باتیں امتحان کے بعد ہوں گی۔ اِس وقت تو (مجھے) تم سے ایک عہد لینا ہے کہ ’’میں مسمٰی مختار مسعود متعلم بی اے (سال آخر) بقائمی ہوش و حواس اور بہ رضا و رغبت یہ عہد کرتا ہوں کہ اگر حالات سازگار ہوئے اور زندگی نے موقع دیا تو میں بالیدگی، شائستگی اور حکمت کے اِس سبق کو جو مجھے اردو اور فارسی کی اِس (لازوال) نثر نے دیا ہے قرضِ حسنہ سمجھتے ہوئے بقلم خود قسط وار اُتارنے کی پوری پوری کوشش کروں گا۔

    وہ اس کتاب کے مطالعہ کے فوائد کا تذکرہ کرتے ہوئے رقم طراز ہیں: ’’امتحان کا خوف دل سے جاتا رہا۔ جامعاتی اور رسمی تعلیم کا حکمت اور دانش سے ہرگز کوئی تعلق نہیں۔ (اسی طرح ) فکر و نظر کا بھی تعلیمی اسناد (ڈگریوں) سے کوئی علاقہ نہیں۔ (اس) زور پر نہ کوئی اچھا شعر کہہ سکتا ہے نہ اچھی نثر لکھ سکتا ہے۔ نہ اچھی کہانی کہہ سکتا ہے اور نہ اچھی تصویر بنا سکتا ہے۔ اِن منزلوں کے راستے اور (ہی) ہیں۔ سنگلاخ اور دشوار گزار۔ تلوے چھلنی ہو جاتے ہیں۔ جسم پسینے پسینے اور چور چور ہو جاتا ہے (کیونکہ ) جسم ایک آرام طلب ذات ہے۔ ’کسب ِ کمال‘ کے لیے اُسے بہت بے آرام ہونا پڑتا ہے۔ تب جاکر ’عزیز جہاں شوی ‘ کی منزل آتی ہے۔ اور آدمی مڑ کر دیکھتا ہے تو حیران ہو جاتا ہے کہ ذرا سی بے آرامی اور اس کا اتنا بڑا صلہ!قدرت کتنی فیاض ہے۔ اور انسان کتنا نا سمجھ۔۔‘‘(حرفِ شوق)

  • اقوامِ متحدہ کا سیکریٹری جنرل اوتھانٹ ایک سعادت مند بیٹا

    اقوامِ متحدہ کا سیکریٹری جنرل اوتھانٹ ایک سعادت مند بیٹا

    مختار مسعود کی تصنیف ‘آوازِ دوست ‘ کئی مضامین اور خاکوں پر مشتمل ہے جن پر انہوں نے خونِ تمنا اور خونِ جگر دونوں ہی صرف کیے۔ یہ نثر پارے بلیغ اور بلند خیالی کے ساتھ اپنے بے حد دل کش اور منفرد اسلوب کی وجہ سے ہمیشہ مختار مسعود کو زندہ رکھیں‌ گے۔

    انشاء پرداز اور ادیب مختار مسعود کی کتاب سے ہم وہ واقعہ نقل کررہے ہیں‌ جو ماں اور بیٹے کے رشتے اور اس انمول لمحے کو ہمارے سامنے ایک خوب صورت مثال کے طور پر پیش کرتا ہے جس کا عالمی میڈیا میں چرچا ہوا تھا۔ وہ لکھتے ہیں:

    اوتھانٹ اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری لاہور آئے۔ ان کا استقبال کرنے والوں میں‌، میں بھی شامل تھا۔ انہوں نے وی آئی پی روم میں کچھ دیر توقف کیا۔ اخباری نمائندے بھی یہاں تھے۔ وہ سوال پوچھتے رہے۔ اوتھانٹ ٹالتے رہے۔ میں دیکھتا اور سنتا رہا۔ یہ انٹرویو مایوس کن تھا۔ بے معنی جملے جو بے ایمانی سے قریب اور حقیقت سے دور ہوتے ہیں۔بے وزن باتیں جنہیں سفارتی آداب کہتے ہیں۔ بے وجہِ چشم پوشی اور جان بوجھ کر پہلو تہی۔ناحق اس عہدے دار کو دنیا کا غیر رسمی وزیراعظم کہتے ہیں۔ یہ شخص تو دنیا بھر سے خائف رہتا ہے اور ہماری طرح سیدھی بات بھی نہیں‌ کرسکتا۔ آٹوگراف بک جیب میں‌ ہی پڑی رہی اور دوسرے دن ان کا جہاز جاپان کے شہر ناگوما چلا گیا۔ بات آئی گئی ہو گئی اور ایک مدت گزر گئی۔

    میں جاپان کے اسی شہر میں ٹھہرا ہوا تھا۔ میں نے انگریزی اخبار اور رسالہ خریدا۔ جب اسے کھولا تو اس میں‌ اوتھانٹ کی تصویر تھی۔ وہ برما گئے اور وہاں اپنی والدہ سے ملے۔یہ تصویر اس ملاقات کے متعلق تھی۔

    تصویر میں‌ ایک دبلی پتلی سی بڑھیا اونچی کرسی پر ننگے پاؤں بیٹھی ہے۔ معمولی لباس اور اس پر بہت سی شکنیں۔ سادہ سی صورت اور اس پر بہت سی جھریاں۔ چہرہ البتہ مسرت سے دمک رہا ہے۔ اس کے قدموں میں اوتھانٹ ایک نفیس سوٹ پہنے بیٹھا ہے۔ اس تصویر کو دیکھ کر میں سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ کو بھول چکا ہوں اور اب ایک سعادت مند بیٹے کی تلاش میں ہوں‌ تاکہ وہ میری آٹو گراف بک میں اپنے دستخط کر دے۔

  • رشید احمد صدیقی کا گھر اور کنواں

    ’’رشید احمد صدیقی کا گھر سال کے تین سو پینسٹھ دن کھلے گھر کا منظر پیش کرتا تھا۔ اس کیفیت کا اطلاق گھر کے دونوں حصّوں پر ہوتا تھا۔

    کیا مردانہ اور کیا زنانہ۔ آنا جانا لگا رہتا۔ پیدل، سائیکل، تانگہ، موٹر اور گاہے ٹم ٹم۔ رشتہ دار، شاگرد، مداح، احباب، مشاہیر اور بن بلائے مہمان۔

    اسٹاف کالونی میں دور دُور تک کوئی اور گھرانا اتنا خوش معاشرت اور دوست دارانہ نہ تھا۔ یہ بات سنی سنائی نہیں دیکھی بھالی ہے۔ میں ان کا ہم سایہ تھا لیکن یہ مضمون ہم سائیگی کے مشاہدات اور تجربات کے بارے میں نہیں ہے۔

    رشید احمد صدیقی کا گھر ایک اور اعتبار سے دوسرے تمام گھروں سے مختلف تھا۔ ان کے قطعۂ زمین کے مغربی جانب کنارے پر ایک بڑا سا کنواں تھا۔ رشید صاحب نے مکان کی دیوار میں خم دیا اور کنوئیں کو گھر میں شامل کرنے کی بجائے چار دیواری سے باہر رہنے دیا تاکہ لوگ آزادی سے اس کا پانی استعمال کر سکیں۔ نہ منڈیر پر تختی لگی کہ یہ شارع عام نہیں ہے، نہ کنویں پر کہیں لکھا تھا کہ آبی ذخیرہ کے جملہ حقوق بحق مصنفِ خنداں محفوظ۔ اس نیک کام کی ہر ایک نے دل کھول کر داد دی۔

    عنایت علی خان نے جن کا پلاٹ حاجی صاحب اور صدیقی صاحب کے گھروں کے درمیان تھا مکان بنانے کے منصوبے کو مؤخر کیا۔ کاشت کاری اور چاہی آب پاشی کا تجربہ شروع کر دیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ قطعۂ زمین پالیز میں بدل گیا۔ عنایت علی خان کے کھیت کے خربوزے اور تربوز خوش ذائقہ اور خوش رنگ تھے۔ رشید صاحب کے کنوئیں کے پانی کی تاثیر ہی کچھ ایسی تھی۔

    یہ ایک بڑا سا کنواں تھا۔ چمڑے کا بہت بڑا ڈول ڈالتے جو چرس کہلاتا۔ بیلوں کی جوڑی اس کا موٹا اور مضبوط رسہ کھینچتی ہوئی ڈھلان میں اُتر جاتی۔ بیل کھڈ کے آخری سرے تک پہنچتے اور چرس مینڈھ تک آ جاتا۔ ایک صحت مند آدمی جسے بارا کہتے پہلوانی گرفت سے پانی بھرے چرس کو اپنی طرف کھینچتا۔ تھوڑا سا پانی چھلک کر کنارے کی بلندی سے کنوئیں کی گہرائی میں گرتا۔ چھن چھن چھناک کی آواز بلند ہوتی۔ باقی پانی پختہ اینٹوں کے فرش سے سیلابی ریلے کی طرف بہتا ہوا کھالے میں جا پہنچتا جو اسے رشید احمد صدیقی کے گلابوں اور عنایت علی خان کے خربوزوں تک لے جاتا۔

    ایک رات مَیں کوئی آدھ گھنٹہ تک اس کنوئیں کی منڈیر پر بیٹھا رہا۔ رات ان دنوں مغرب کے ساتھ ہی شروع ہو جاتی تھی۔ آج کل کی طرح نہیں کہ روشنیوں سے ہار مان کر آدھی رات سے پہلے منہ چھپاتی پھرتی ہے۔ میں بستر پر لیٹا ہی تھا کہ تاریکی اور خاموشی میں ایک ترنم گونجا۔ میں اُٹھ کر بیٹھ گیا۔ آواز کی کشش نے مجبور کیا اور میں کشاں کشاں اس کنوئیں پر جا پہنچا۔ آواز دیوار کے اس پار رشید صاحب کے مردانہ صحن سے آرہی تھی۔ جگر مراد آبادی اپنے وجد آور ترنم سے غزل سنا رہے تھے۔

    میں کنوئیں کی منڈیر پر بیٹھ گیا۔ شروع گرمیوں کی ٹھنڈی رات۔ گئی بہار کی بچی بچائی خوشبو لیے آہستہ آہستہ چلنے والی پُروا۔ مطلع بالکل صاف۔ نہ بادل کا ٹکڑا، نہ گرد و غبار، نہ چمنی چولھے کا دھواں۔ فضا میں صرف غزل کے مصرعے تیر رہے تھے۔ سوچ کے پَر کھل گئے۔‘‘

    (مختار مسعود کی کتاب حرفِ شوق سے اقتباس، رشید احمد صدیقی اردو کے معروف مزاح نگار اور ادیب تھے)

  • سی آئی اے چیف یہ کیوں کہہ رہا تھا؟

    سی آئی اے چیف یہ کیوں کہہ رہا تھا؟

    دنیا کے طاقت وَر ممالک پر سازش کے ذریعے منتخب حکومتوں کو گرانے یا اپنے ناپسندیدہ اور ‘باغی’ حکم رانوں کو اقتدار سے ہٹانے کے الزامات لگتے رہے ہیں۔ امریکا اور روس پر مداخلت اور ان کے خفیہ اداروں کی کارروائیوں پر مختلف کتابیں بھی لکھی گئی ہیں۔

    یہاں‌ ہم اسی متعلق اردو کے ممتاز اور صاحبِ اسلوب ادیب مختار مسعود کی ایک تحریر سے اقتباس پیش کررہے ہیں۔ ملاحظہ کیجیے۔

    وہ جن دنوں آر سی ڈی کے سیکریٹری جنرل تھے تو تنظیم کے ہیڈ کوارٹر واقع تہران میں تعینات تھے اور یہ وہ وقت تھا جب شاہ ایران کا تختہ الٹا جا رہا تھا۔ انہوں نے ایران میں اپنے قیام کی یادادشتوں پر مشتمل ایک کتاب ’لوحِ ایام‘ لکھی۔

    اس کتاب میں وہ لکھتے ہیں کہ آر سی ڈی کے سیکریٹری جنرل کی حیثیت سے انہیں شہنشاہ ایران نے ایک بار خصوصی دعوت پر اپنے خاص جزیرے پر مدعو کیا۔ تہران سے جو جہاز انہیں اس جزیرے پر لے کر جا رہا تھا اس کا پائلٹ پاکستان ایئر فورس کا سابق آفیسر تھا۔ اس نے راستے میں مجھے اس جزیر ے کی خاصیت اور یہاں ٹھہرائے جانے والے خاص مہمانوں کے بارے میں بتانا شروع کیا کیونکہ یہ اس کے فرائضِ منصبی کا حصہ تھا۔

    جب وہ یہ سب کچھ بتا چکا تو کہنے لگا، ’سر، اس جزیرے پر شہنشاہ کے پچھلے مہمان سی آئی اے کے چیف تھے۔ جب میں انہیں یہ ساری باتیں بتا رہا تھا تو ان کے منہ سے نکل گیا کہ ’اب یہ شان و شوکت تھوڑی دیر کی ہے۔‘

    پائلٹ نے کہا، ’سر، بظاہر شاہ مضبوط ہے اور ابھی تو اس نے اپنی شہنشاہیت کا اڑھائی ہزار سالہ جشن بھی منایا ہے، پھر سی آئی اے چیف یہ کیوں کہہ رہا تھا؟‘

    لیکن بعد کے واقعات تاریخ کا حصہ ہیں کہ ایران میں شاہ کا تختہ الٹ دیا گیا اور وہاں ایک اسلام پسند حکومت برسر اقتدار آ گئی۔ تاہم یہ حکومت امریکا کو اب تک چیلنج کرتی آئی ہے۔

  • ‘کافرہ’ جو مخالفت کے باوجود مسلمانوں کے دوش بہ دوش کھڑی تھی!

    ‘کافرہ’ جو مخالفت کے باوجود مسلمانوں کے دوش بہ دوش کھڑی تھی!

    متحدہ ہندوستان کی سیاست، تحریکِ آزادی، سماجی حالات اور علم و ادب میں دل چسپی رکھنے والوں کے لیے بلبلِ دکن مسز سروجنی نائیڈو کا نام نیا ہے اور نہ ہی ان کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج۔

    وہ کُل ہند کانگریس کی روح و رواں رہی ہیں اور انگریز دور میں سیاسی قیدی بن کر خود کو خاتونِ آہن ثابت کیا ہے۔ ان کا مسلک یہ رہا کہ ہندو اور مسلمان باہم اتفاق اور اتحاد برقرار رکھتے ہوئے ہندوستان سے انگریزوں کو نکال باہر کریں اور اپنے وطن پر حکومت کی جائے۔

    مسز سروجنی کی نظر میں عورتوں کی سماجی اور معاشرتی ترقی بہت اہمیت رکھتی تھی اور اس کے لیے بھی وہ جدوجہد کرتی رہیں۔

    وہ فصیح و بلیغ مقررہ تھیں۔ کہتے ہیں کہ وہ تقریر نہیں کرتی تھیں بلکہ روانی، تسلسل اور زورِ بیاں کا دریا بہا دیتی تھیں۔ ان کا انداز اور تقریر دلوں میں طوفان برپا کر دیتی تھی۔

    مختار مسعود جیسے صاحبِ طرز ادیب اور انشا پرداز نے اپنی مشہور تصنیف آوازِ دوست میں ان کا شخصی خاکہ کچھ یوں رقم کیا ہے۔

    "دبلی پتلی ،بوٹا قد، تنگ دہن، آنکھیں کشادہ اور روشن، بالوں میں گھنگھر ہیں اور چھوٹا سا جوڑا گردن پر ڈھلکا ہوا ہے، جوڑے میں جڑاؤ پھول ہیں اور گلے میں موتیوں کا ہار۔

    بائیں ہاتھ کی پہلی انگلی میں بڑی سی انگوٹھی ہے، ساڑی کا پلّو کاندھے پر کلپ سے بندھا ہوا، صورت من موہنی، پہلی نظر میں پُراثر، دوسری میں پُراسرار، میں نے بھی جب اس بُت کو دوسری بار نظر بھر کر دیکھا تو صورت ہی بدلی ہوئی تھی۔

    ایک بھاری سانولی اور معمّر عورت نے سلک کی سلیٹی ساڑی باندھی ہے۔ پلّو سَر پر ہے، اور نصف چہرہ بھی اس میں چھپا ہوا ہے۔ اس نے دائیں ہاتھ سے ایک خوش نما قوس بنائی اور اسے ابرو کے سامنے لا کر سَر کی ہلکی سی جنبش کے ساتھ مسلم یونیورسٹی کورٹ کے اراکین کو جو وکٹوریا گیٹ میں صف بستہ کھڑے تھے، یوں آداب کیا، گویا وہ مسلم تمدن کا مرقع ہے یا شائستگی کا مجسمہ۔

    آداب کرتے ہوئے ساڑی کا پلّو چہرے سے ڈھلک گیا تو ہم نے پہچانا کہ یہ سروجنی نائیڈو ہے۔”

    آزادی کی یہ متوالی، عظیم راہ نما، دانش ور و مدبّر خاتون جو اردو اور انگریزی پر یکساں عبور رکھتی تھیں اور ہندو مسلم اتحاد کی زبردست حامی تھیں، ایک موقع پر مسلم یونیورسٹی کے جلسے میں شریک ہوئی تھیں۔ اس موقع پر سروجنی نائڈو کا زبردست استقبال ہوا تھا اور پورے اسلامی تمدّن اور تہذیب کے ساتھ ان کو صفِ اوّل میں بٹھایا گیا تھا۔ اس پورے منظر کو مختار مسعود نے اپنی تحریر میں گویا متحرک بنا دیا ہے۔ ظاہری اور باطنی اوصاف کے علاوہ طلبا کے استقبال کا انداز اور نائیڈو کی تقریر کا جوش اور اس میں حق و صداقت سے پُر آواز کا انھوں نے بھرپور نقشہ کھینچا ہے۔

    ان کے قلم سے جلسے کی کیفیت اور تقریر کے انداز کو ملاحظہ کیجیے:

    "میں آج مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں کئی لوگوں کے مشورے کے خلاف اور چند لوگوں کی دھمکی کے باوجود حاضر ہوئی ہوں، مجھے علی گڑھ کی ضلعی اور یو پی کی صوبائی کانگریس نے پہلے مشورہ اور پھر حکم دیا کہ تم مسلم یونیورسٹی کا دورہ منسوخ کر دو۔ انہیں یہ بات بھو ل گئی کہ گورنر کی حیثیت سے میں اب کانگریس کی ممبر نہیں رہی لہٰذا نہ ان کی رائے کی پابند ہوں نہ ان کے ضابطے سے مجبور، اور میں کسی کی دھمکیوں کو کب خاطر میں لاتی ہوں۔ میں حاضر ہوگئی ہوں، بلبل کو چمن میں جانے سے بھلا کون روک سکتا ہے؟،،

    ایک دوسرے مقام پر وہ اسلام کے پیغامات کی صداقت اور حقانیت کا اعلان کرتے ہوئے یوں گویا ہوتی ہیں:

    "اگرچہ میں تمہارے دوش بہ دوش کھڑے ہونے کے باوجود تمہاری نظروں میں ایک کافرہ ہوں مگر میں تمہارے سارے خوابوں میں شریک ہوں، میں تمہارے خوابوں اور بلند خیالوں میں بھی تمہارے دوش بدوش ہوں کیوں کہ اسلام کے نظریات بنیادی اور حتمی طور پر اتنے ترقّی پسند نظریات ہیں کہ کوئی انسان جو ترقّی سے محبّت کرتا ہو ان پر ایمان لانے سے انکار نہیں کر سکتا۔”

    مختار مسعود نے دل نشیں پیرائے میں سروجنی نائیڈو کی جلسے میں آمد اور ان کے خیالات کو ہمارے سامنے پیش کیا ہے اور ان کی زندگی کے مختلف پہلوؤں کو روشن کیا ہے اور ان کی تقریر کو لفظوں کی خوب صورت لڑی میں یوں پرویا ہے کہ ہر لفظ ذہن و دل پر نقش ہوا جاتا ہے۔

  • صاحبِ اسلوب ادیب مختار مسعود کی ایک تصویر کا ماجرا

    صاحبِ اسلوب ادیب مختار مسعود کی ایک تصویر کا ماجرا

    ’’آوازِ دوست‘‘ کا انتساب کچھ یوں تھا: ’’پرِ کاہ اور پارۂ سنگ کے نام

    وہ پرِ کاہ، جو والدہ مرحومہ کی قبر پر اُگنے والی گھاس کی پہلی پتّی تھی اور وہ پارۂ سنگ جو والد مرحوم کا لوحِ مزار ہے۔‘‘

    آوازِ دوست وہ کتاب تھی جس نے ادبی دنیا کو ایک ایسے اسلوب اور طرزِ تحریر سے آشنا کیا، جس کی نظیر کم ہی ملتی ہے۔ اس کتاب کا صرف ’’انتساب‘‘ ہی لاجواب نہ تھا بلکہ اس کا ’’دیباچہ‘‘ بھی انفرادیت لیے ہوئے تھا۔ اسے سبھی نے سراہا۔ دیباچہ میں‌ لکھا تھا کہ’’اس کتاب میں صرف دو مضمون ہیں۔ ایک طویل مختصر اور دوسرا طویل تر۔ ان دونوں مضامین میں فکر اور خون کا رشتہ ہے۔ فکر سے مُراد فکرِ فردا ہے اور خون سے خونِ تمّنا۔‘‘

    اس کے مصنّف مختار مسعود تھے جو علم و ادب کی دنیا میں‌ ممتاز ہوئے اور ایسے کہ صاحبِ اسلوب کہلائے۔ ان کی کتاب سے ایک پارہ آپ کے ذوق کی نذر ہے، وہ لکھتے ہیں۔

    ”میں قائدِاعظم کے سامنے کھڑا ہوا اور کانپتی ہوئی آواز میں ایک نظم پڑھی، میں نے چند ماہ پہلے میٹرک پاس کیا تھا اور یونیورسٹی میں کسی موقع پر ترنّم سے نظم پڑھنے کا یہ پہلا اور آخری واقعہ تھا۔

    یہ نظم میرے استاد مولانا عقیل الرّحمان ندوی کی لکھی ہوئی تھی۔ عقیل الرّحمان صاحب اسکول میں فارسی پڑھایا کرتے تھے اور ان میں بہت سی خوبیاں جمع تھیں۔ علم، شاعری، اخلاق، خود داری۔

    ان کی زندگی سادگی اور فقر سے عبارت تھی۔ ان کی نظر میں کچھ ایسا اثر تھا کہ اس کا فیض میں آج بھی اپنی زندگی میں پاتا ہوں۔

    میں گیارہ بارہ برس کا تھا تو شہر میں پاسپورٹ سائز کی تصویر کھینچنے کی ایک خود کار مشین نصب ہوئی۔ میں نے شوق سے تصویر اتروائی اور دوسرے دن اسے اسکول لے گیا۔ سبق ہو رہا تھا مگر جو لڑکا میرے ساتھ بیٹھا تھا اس نے تصویر لے کر پہلے دیکھی اور پھر چپکے سے آگے بڑھا دی۔ وہ تصویر ہاتھوں ہاتھ کلاس میں بہت دور نکل گئی۔ بالآخر مولانا عقیل الرّحمان نے دیکھ لیا۔ پوچھا کہ یہ کیا ہو رہا ہے، جس کے ہاتھ میں تصویر تھی اس نے ڈر کر اسے استاد کی میز پر رکھ دیا۔ سب اس انتظار میں تھے کہ اب ڈانٹ پڑے گی اور سزا ملے گی، مگر ایسا نہ ہوا۔ مولانا نے تصویر کو غور سے دیکھا پھر اس پر سعدی شیرازی کا ایک دعائیہ شعر اپنے خوب صورت خط میں لکھ کر مجھے تصویر واپس کر دی۔ یہ تحریر اور تصویر اب بھی میرے پاس محفوظ ہے۔

    اور وہ نصیحت جو مولانا نے مجھے ایک بار کی تھی اس کا نقش بھی میرے دل پر آج تک اسی طرح محفوظ ہے۔ میں نے اقبال کی ایک طویل نظم بھی اس شفیق استاد سے کوئی دو ہفتے تک ان کے گھر جا کر پڑھی۔ وہ اقبال کے سلسلے میں میرے خضرِ راہ ثابت ہوئے۔ اقبال سے ان کو بہت عقیدت تھی اور وہ نظم جو خاص طور پر قائدِاعظم کی آمد پر لکھی گئی اور اسٹریچی ہال میں مجھے پڑھنے کے لیے دی گئی وہ بھی اقبال کی زمین میں تھی۔ ان دنوں سیاسی جلسوں میں اکثر طلوعِ اسلام کا وہ بند پڑھا جاتا تھا، جس کا پہلا مصرع یہ ہے:

    غلامی میں نہ کام آتی ہیں شمشیریں نہ تدبیریں

    اسی بند میں اقبال کا وہ مصرع بھی شامل ہے، جسے جوہری توانائی کے بارے میں شاعرانہ دریافت کی سند کے طور پر پیش کرتے ہیں، مصرع یہ ہے:

    لہو خورشید کا ٹپکے اگر ذرّہ کا دل چیریں

    مولانا عقیل الرّحمان نے اس مصرع میں یوں تصرف کیا:

    محمدﷺ ہی لکھا ہو گا اگر مسلم کا دل چیریں

    اس نظم کے پڑھنے کے چند ماہ بعد مولانا عقیل الرّحمان ندوی جوانی میں انتقال کرگئے اور ان کی وہ بچیاں یتیم ہوگئیں جن کے نام انھوں نے محمدی اور احمدی رکھے تھے۔‘‘

  • جب تک گھٹنے سلامت ہیں!

    جب تک گھٹنے سلامت ہیں!

    "سر سید کے گھٹنوں میں جو تکلیف تھی، اسے آرتھرائٹس کہتے ہیں۔

    میں نیویارک کے بازار نما بھنڈار (store) سے خریدی ہوئی خانگی صحت اور طب کی نئی کتاب کھولتا ہوں۔ لکھا ہے کہ انسان کے جسم میں 187 جوڑ ہیں۔ گھٹنے کے جوڑ کو عمر بھر جتنا بوجھ اٹھانا اور کام کرنا پڑتا ہے، اتنی مشقت کسی اور جوڑ کی قسمت میں نہیں لکھی۔ اس جوڑ کے بنانے میں قدرت سے ذرا سی چوک ہو گئی اور یہ اتنا مضبوط نہ بن سکا، جتنا اس کو ہونا چاہیے تھا۔

    صرف امریکا میں تقریباً پچاس ملین افراد ایسے ہیں، جو گھٹنے کے درد میں مبتلا ہیں۔ اگر علم کی دولت سے مالا مال ملک کا یہ حال ہے تو ہمارے پسماندہ ملک میں اس کی تباہ کاریوں کا کیا عالم ہو گا۔

    میں گھبرا کر دوسری کتاب اٹھا لیتا ہوں۔ یہ عالمی ادب کی رفتار اور ترقی کے بارے میں ہے۔ 250 سال قبل مسیح وفات پانے والے یونانی شاعر تھیوک رے ٹس (Theocritius) کے اس قول پر نظر ٹھہر گئی:

    "Men must do somewhat while their knees are yet nimble”

    ہر شخص کا فرض ہے کہ جب تک اس کے گھٹنوں کا پھرتیلا پن سلامت ہے، وہ جو کچھ بھی کر سکتا ہے وہ کر دکھائے۔

    اس شاعر پر آفرین ہو جس نے سوا دو ہزار سال پہلے جوڑوں کے درد کو عالمی ادب میں جگہ دی۔ اہلِ روم بھی اس سلسلہ میں زیادہ پیچھے نہیں رہے۔ ایک بہت پرانی کہانی میں نوجوان لڑکی باپ کو جو گرمیوں کے موسم میں درخت کے نیچے لیٹا ہوا ہے، ایک کتاب پڑھ کر سنا رہی ہے۔ جملہ معترضہ کے طور پر مصنف نے یہ اضافہ کیا کہ باپ ریشمی غالیچہ پر لیٹا ہوا ہے، تا کہ وہ گنٹھیا کے درد سے محفوظ رہے۔

    میں عالمی ادب کی تاریخ ایک طرف رکھ دیتا ہوں اور تہذیبِ عالم کی تاریخ اٹھا لیتا ہوں۔ داستان کا تعلق ملکہ میری اسکاتلندی سے ہے۔ اسے پرستان کی ملکہ کہتے ہیں۔ پیدائش کے ایک ہفتہ بعد وہ اسکاٹ لینڈ کی ملکہ اور سولہ سال کی عمر میں فرانس کی ملکہ بن گئی۔ اٹھارہ سال کی عمر میں بیوہ ہو گئی۔ قسمت کا پھیر اسے فرانس سے واپس اسکاٹ لینڈ لے گیا۔

    ہر روز بغاوت، ہر شب سازش، اکثر شکست، گاہے قید، بار بار فرار، کبھی میدانِ جنگ سے اور کبھی قید خانے سے۔ سالہا سال حراست میں رہنے کی وجہ سے اس کی صحت خراب ہو گئی۔ پینتیس برس کی عمر میں بال سفید ہو گئے اور گنٹھیا سے ٹانگیں اتنی سوج گئیں کہ دو چار قدم چلنا بھی دشوار ہو گیا۔

    چوالیس سال کی عمر میں اس نے چہرے پر نقاب ڈالا، روتی ہوئی وابستہ دامن خواتین کو صبر کی تلقین کی اور اپنا وبالِ دوش سر شاہانہ وقار کے ساتھ مشینِ گردن زنی کے کندھے پر رکھ دیا۔ مشین چلی۔ سر اُچھل کر دُور جا گرا۔ بے حس ٹانگیں جہاں تھیں وہیں پڑی رہیں۔”

    (مختار مسعود کی کتاب حرفِ شوق سے اقتباس)

  • آج تاریخ کیا ہے؟

    آج تاریخ کیا ہے؟

    یہ 1957 كی بات ہے- بیسویں صدی کا مشہور مؤرخ ٹائن بی پاکستان کے دورے پر آیا ہوا تھا- یہ تاریخ کے بارے میں کوئی سیمینار تھا-

    تقریب کے اختتام پر پاکستان کے ایک نام ور مصنف اور سرکاری ملازم ڈائری لے کر آگے بڑھے اور آٹوگراف كی درخواست كی- ٹائن بی نے قلم پکڑا، دستخط کیے، نظریں اٹھائیں اور بیورو کریٹ كی طرف دیکھ کر بولے:

    "میں ہجری تاریخ لکھنا چاہتا ہوں، کیا آپ مجھے بتائیں گے کہ آج ہجری تاریخ کیا ہے؟”

    سرکاری ملازم نے شرمندگی سے نظریں جھکا لیں-

    ٹائن بی نے ہجری تاریخ لکھی، تھوڑا سا مسکرایا اور اس كی طرف دیکھ کر کہا:

    "تھوڑی دیر پہلے یہاں اسلام کے مستقبل کے بارے میں بڑے زور شور سے تقریریں ہورہی تھیں- وہ لوگ تاریخ کیسے بنا سکتے ہیں جنھیں اپنی تاریخ ہی یاد نہ ہو- تاریخ باتیں کرنے سے نہیں، عمل سے بنتی ہے-”

    سرکاری ملازم نے شرمندگی سے سر جھکا لیا-

    (مختار مسعود کی کتاب سے انتخاب)

  • وبا کے دنوں میں مردم شماری اور مردم شناسی!

    وبا کے دنوں میں مردم شماری اور مردم شناسی!

    قحط میں موت ارزاں ہوتی ہے اور قحط الرجال میں زندگی۔ مرگِ انبوہ کا جشن ہو تو قحط، حیاتِ بے مصرف کا ماتم ہو تو قحط الرجال۔

    ایک عالم موت کی ناحق زحمت کا دوسرا زندگی کی ناحق تہمت کا۔ ایک سماں حشر کا دوسرا محض حشراتُ الارض کا۔

    زندگی کے تعاقب میں رہنے والے قحط سے زیادہ قحط الرجال کا غم کھاتے ہیں۔

    بستی، گھر اور زبان خاموش۔ درخت، جھاڑ اور چہرے مرجھائے۔ مٹی، موسم اور لب خشک۔ ندی، نہر اور حلق سوکھے۔ جہاں پانی موجیں مارتا تھا وہاں خاک اڑنے لگی، جہاں سے مینہ برستا تھا وہاں سے آگ برسنے لگی۔ لوگ پہلے نڈھال ہوئے پھر بےحال۔ آبادیاں اجڑ گئیں اور ویرانے بس گئے۔

    زندگی نے یہ منظر دیکھا تو کہیں دور نکل گئی، نہ کسی کو اس کا یارا تھا نہ کسی کو اس کا سراغ۔ یہ قحط میں زمین کا حال تھا۔

    ابر دل کھول کر برسا، چھوٹے چھوٹے دریاؤں میں بھی پانی چڑھ آیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے ایسا جل تھل ہوا کہ سبھی تر دامن ہو گئے۔ دولت کا سیلاب آیا اور قناعت کو خس و خاشاک کی طرح بہا کر لے گیا۔ علم و دانش دریا بُرد ہوئے اور ہوش و خرد مئے ناب میں غرق۔ دن ہوا و ہوس میں کٹنے لگا اور رات ناؤ نوش میں۔ دن کی روشنی اتنی تھی کہ آنکھیں خیرہ ہو گئیں، رات کا شور اتنا بلند تھا کہ ہر آواز اس میں ڈوب گئی۔

    کارواں نے راہ میں ہی رختِ سفر کھول دیا۔ لوگ شاد باد کے ترانے گانے لگے، گرچہ منزلِ مراد ابھی بہت دور تھی۔ زندگی نے یہ منظر دیکھا تو کہیں دور نکل گئی، نہ کسی کو اس کا یارا تھا نہ کسی کو اس کا سراغ۔ یہ قحط الرجال میں اہلِ زمین کا حال تھا۔ شاعر نے جو یہ حال دیکھا تو نوحہ لکھا:

    بے دلی ہائے تماشا کہ نہ عبرت ہے نہ ذوق
    بے کسی ہائے تمنا کہ نہ دنیا ہے نہ دیں!

    دل گرفتگی نے کہا، ایسی شادابی اس ویرانی پر قربان جہاں مادرِ ایام کی ساری دخترانِ آلام موجود ہوں، مگر وبائے قحط الرجال نہ ہو۔ اس وبا میں آدمی کا یہ حال ہو جاتا ہے کہ مردم شماری ہو تو بے شمار، مردم شناسی ہو تو نایاب۔

    (اس نقشِ دل پزیر کے خالق مختار مسعود ہیں)

  • انصاف کا بول بالا کرنے کی انوکھی ترکیب

    انصاف کا بول بالا کرنے کی انوکھی ترکیب

    عدالتوں میں انصاف رائج کرنے کی ایک انوکھی ترکیب کموجیہ نامی بادشاہ نے نکالی تھی۔

    اس کے عہد سے پہلے کسی کو یہ ترکیب سوجھی، اور نہ اس کے بعد کسی کو اس پر عمل کرنے کی توفیق ہوئی۔

    بادشاہ کموجیہ کے حکم کے مطابق بے انصاف اور بے ایمان جج کی کھال بہ طور سزا کھینچ لی جاتی۔ چوں کہ یہ کھال یتیم خانے کے کسی مصرف کی نہ ہوتی، اس لیے اس سے سرکاری فرنیچر کی پوشش کا کام کیا جاتا۔

    جج صاحب کی کھال ان کی کرسی عدالت پر مڑھوا دی جاتی۔ پھر آں جہانی کی جگہ اس کے بیٹے کا تقرر کیا جاتا تاکہ وہ اس کرسی پر بیٹھ کر آغوشِ پدر کی گرمی اور انجامِ پدر کی تپش محسوس کرے اور مقدمات کا فیصلہ کرتے وقت انصاف اور صرف انصاف سے کام لے۔

    (مختار مسعود کی کتاب لوحِ ایام سے اقتباس)