Tag: مختصر کہانی

  • دور کی بانسری

    دور کی بانسری

    پیلی چاندنی، دھندلے ستارے، مدھم چاند اور خاموش پرندوں کا وقت… شاندار رات اور اس سب سے زیادہ خوبصورت دریا پار، دور سے آتی ہوئی ہلکی مگر واضح ہلکورے لیتی ہوئی بانسری کی آواز، آج رات وہ بانسری نواز کے دل میں بسا ہوا سکون بھی صاف سن سکتی تھی۔

    اس میں کوئی جلد بازی نہیں تھی، جذبات بھری مگر دھیمی موسیقی تھی۔ اس میں ایسی تاثیر تھی جو سننے والے کے دل میں اتر جاتی ہے اور دریا کے قریب موجود نمی نے اس کو مہمیز کر دیا تھا۔

    پائیپر نے ہاتھ میں پکڑی کتاب نیچے رکھ کر، مسحور ہو کر سننا شروع کر دیا۔ یہ بانسری بجانے والا شخص کیسا تھا؟ اس نے ادھر ادھر کی باتوں میں کئی لوگوں سے یہ سوال کیا تھا مگر ان کے جوابات سے مطمئن نہیں ہوئی تھی۔ مطلب یہ کہ کسی کے جواب سے یہ پتہ نہیں چلا تھا کہ وہ بانسری نواز مرد تھا کہ عورت، بوڑھا تھا کہ جوان۔ شاید وہ کوئی شکستہ دل لڑکی تھی۔ ’سرخ محلات کے خواب‘ والی ’دائی یو‘ کی طرح یا شاید کوئی بوڑھا آدمی تھا جو ملازمت سے فارغ التحصیل ہو چکا تھا اور اپنی طویل تنہائی کو بانسری کے ذریعے نشر کر رہا تھا، یا شاید یہ کوئی نو جوان تھا، نوجوان ہونا چاہیے تھا ورنہ وہ اتنا اچھا کیسے بجا سکتا تھا، اس کے دل کے تاروں کو اتنی زور سے کیسے چھیڑ سکتا تھا؟

    بانسری نواز واقعی بہت عجیب تھا۔ خلافِ توقع ہر شام دریا کے اس پار کہیں دور سے بانسری کی آواز بن بلائے آنے لگتی۔ یہ آواز ماضی کے کسی دکھ کا رد عمل لگتی تھی مگر اس میں نہ کوئی شکایت تھی نہ ملامت۔ پائیپر یہ کہنے پر تیار نہیں تھی کہ وہ اسے مکمل طور پر سمجھتی تھی اور نہ ہی یہ کہنا چاہتی تھی کہ جتنا اسے سمجھ آیا ہے وہ کیا تھا۔ مگر اسے ایسا محسوس ہوتا تھا کہ بانسری نواز اپنے دل میں چھپا ہوا کوئی راز بتا رہا تھا۔ اگر دریا کے اس پار بانسری بجانے والا کسی بھی وجہ سے کسی شام خاموش ہو جائے تو یہ پائیپر کے لیے ناقابل برداشت نقصان ہوگا۔ یہ نقصان ہوگا کس چیز کا؟ اس کے بارے میں وہ کچھ نہیں کہہ سکتی تھی۔

    کیا اسے بانسری نواز سے محبت ہو رہی تھی؟ شاید نہیں، اس نے کبھی اس کا چہرہ نہیں دیکھا تھا، نہ اسے یہ پتہ تھا کہ وہ کیسا انسان تھا۔ یہ اسے کسی طرح پسند کر سکتی تھی؟ اس نے بس ایسے ہی بانسری کی آواز کے سحر میں اس کی تصویر اپنے ذہن میں بنانے کی کوشش کی تھی۔ اس کے تصور میں وہ جذباتی تھا مگر روایتی بھی تھا، یقیناً روایتی اقدار سے وابستہ تھا۔ بعد ازاں بانسری نواز کو دیکھنے کی خواہش اس کے دل میں گرہ بن کر رہ گئی۔ کئی مواقع پر شام کے دھندلکے کے بعد وہ دریا کے کنارے چلتی ہوئی اس پر بنے ہوئے پل کی طرف گئی۔ جب وہ آواز کا تعاقب کرتے ہوئے دوسری طرف پہنچی تو وہاں کے زیر و بم میں کچھ دیر اس نے اسے تلاش کیا۔ جب اتفاق سے اسے وہ جگہ نظر آگئی جہاں بانسری نواز ہو سکتا تھا تو اس میں اوپر جانے کا حوصلہ پیدا نہیں ہوا۔ اسے ڈر لگا کہ وہ یہ خوبصورت خواب غارت کر دے گی۔ چنانچہ وہ خاموشی سے دریا کے اپنی طرف والے کنارے پر واپس آگئی۔

    بعد میں وہ تعلیم حاصل کرنے کے لیے سمندر پار چلی گئی۔ اس نے دریا چھوڑ دیا، اپنا آبائی قصبہ چھوڑ دیا، اب وہ بانسری کی دھیمی، گہری آواز نہیں سن سکتی تھی۔ اجنبی دیس میں اجنبی ہو کر وہ آواز اس کے دل میں گونجتی رہتی تھی۔ بانسری نواز کی آواز ہمیشہ رہنے والی یاد بن گئی تھی۔ پائیپر سوچتی تھی کہ شاید یہ بانسری کی آواز ہی تھی جس کی وجہ سے وہ تعلیم مکمل کرنے کے بعد اپنے آبائی قصبے میں واپس جانا چاہتی تھی۔

    (عالمی ادب سے انتخاب)

  • چھے الفاظ پر مشتمل المیہ!

    چھے الفاظ پر مشتمل المیہ!

    یہ تحریر دنیا کی اُس مختصر کہانی سے متعلق ہے جو انگریزی کے فقط چھے الفاظ پر مشتمل ہے اور کسی درد ناک واقعے یا کرب کی عمدہ مثال کے طور پر پیش کی جاتی ہے۔

    ابنِ آدم کو قصّہ گوئی سے شغف ہمیشہ سے رہا ہے۔ شاید اسی وقت سے جب اُس نے بولنا شروع کیا اور بامعنیٰ گفتگو کا آغاز کیا۔ ہر طاقت وَر، دیو ہیکل، اپنے سے قوی اور ضرر رساں شے، گزند پہنچانے والی کوئی بھی انجانی، نامعلوم، پُراسرار، دیدہ و نادیدہ ہستی اور اشیاء اس کی داستانوں میں جگہ پاتی چلی گئیں۔ اور پھر داستان گوئی، کہانی کہنا اور کہانی لکھنا ادب شمار ہوا اور دورِ جدید میں مختصر کہانیاں لکھنے کا چلن ہوا۔

    امریکہ کے مشہور وائرڈ میگزین نے 2006 میں مختصر ترین کہانیوں کا ایک مقابلہ منعقد کیا تھا جس میں امریکہ کے صفِ اوّل کے درجنوں مصنّفین نے اپنی اپنی کہانیاں بھیجی تھیں۔ ان کہانیوں کے موضوعات متنوع تھے جن میں سے چند کا اردو ترجمہ آپ کی دل چسپی کا باعث بنے گا۔

    1۔ اس کی حسرت تھی، مل گیا، لعنت
    2۔ میں نے خون آلود ہاتھوں سے کہا، خدا حافظ
    3۔ بچے کے خون کا گروپ؟ بالعموم، انسانی!
    4۔ انسانیت کو بچانے کے لیے اسے دوبارہ مرنا پڑا
    5۔ آسمان ٹوٹ پڑا۔ تفصیل 11 بجے۔
    6۔ کیا اتنا کافی ہے؟ کاہل ادیب نے پوچھا۔

    اب چلتے ہیں چھے الفاظ کی اُس کہانی کی طرف جو ارنسٹ ہیمنگوے سے منسوب ہے۔ وہ امریکی ادب کا ایک بہت بڑا نام، ایک اعلیٰ پائے کے ناول نگار، افسانہ نویس اور صحافی تھے۔ پیٹر ملر نامی مصنّف نے 1974ء اپنی ایک کتاب میں‌ مختصر کہانی نویسی پر ایک واقعہ ہیمنگوے سے منسوب کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ اُس نے ایک اخبار کے مالک کی زبانی سنا تھا جس کے مطابق ایک ریستوراں میں کھانا کھاتے ہوئے ارنسٹ ہیمنگوے کی اپنے دوست سے ایک بات پر ٹھن گئی۔ اس نے ہیمنگوے کو چیلنج کیا کہ وہ چھے الفاظ میں کوئی پُراثر کہانی لکھ کر دکھا دے اور ہیمنگوے نے ایک نیپکن پر چند الفاظ لکھ کر اس دوست کی طرف بڑھا دیے۔ ہیمنگوے نے لکھا تھا:

    "For sale: baby shoes, never worn.”

    "برائے فروخت: غیر استعمال شدہ، بے بی شوز۔” لیکن اس واقعہ کی صداقت مشکوک ہے۔ اس پر بہت زیادہ تنقید بھی ہوئی، مگر آج بھی فلیش فکشن یا مائیکرو فکشن کے باب میں اس کہانی کی مثال دی جاتی ہے۔

    اس تحریر میں ایسا کیا ہے جس کا ذکر مختصر کہانی نویسی کے ضمن میں‌ دنیا بھر کے ادیب اور ناقدین کرتے ہیں اور اسے متأثر کن تحریر کہا جاتا ہے؟ یہ بظاہر ایک اشتہار ہے جس میں ایک بچّے کے جوتوں کا جوڑا فروخت کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔ اس بے بی شوز کے بارے میں بیچنے والے کا دعویٰ ہے کہ یہ غیر استعمال شدہ ہیں، یعنی کبھی جوتے کی اس جوڑی کو کسی بچّے نے نہیں‌ پہنا۔ لیکن انھیں خریدا ضرور گیا تھا اور گویا یہ ‘ری سیل’ کیے جا رہے ہیں۔ یہی وہ اشارہ ہے جو اس کہانی کو ایک رمز اور گہرائی عطا کرتا ہے۔ Never worn یعنی کبھی نہ پہنے گئے یا غیر استعمال شدہ…. یہ وہ الفاظ ہیں جو ایک المیہ کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ شاید والدین نے جس بچّے کے لیے اسے خریدا تھا، وہ اب دنیا میں نہیں رہا، اور والدین شاید کسی مجبوری کے تحت انھیں بیچ رہے ہیں یا وہ چاہتے ہیں کہ یہ کسی اور بچّے کے کام آجائیں۔

    الغرض اس کی تفہیم کرنے والوں نے ان چھ الفاظ پر مشتمل کہانی کو والدین کے لیے ایک تکلیف دہ واقعے، اور انسانی المیے کے طور پر ہی دیکھا ہے۔ اس کا مصنّف کوئی بھی ہو، یہ کہانی اپنے مفہوم اور پیغام کے اعتبار سے ایک شان دار تخلیق ہے۔ مائیکرو فکشن کا حصّہ اس کہانی کو "ٹویٹریچر” بھی کہا جاتا ہے کیوں کہ یہ ٹویٹر پر بھی آسانی سے لکھی جا سکتی ہے۔

  • راتب

    انکم ٹیکس انسپکٹر کو تین ماتحتوں کے ساتھ دیکھ کر اُس نے اپنی حالت درست کی پھر دکان کی گدی سے اُٹھ کر کھڑا ہوگیا۔

    اُس نے عجلت سے ہاتھ جوڑ کر اُنہیں سلام کیا اور اُنہیں بٹھانے کے لیے سامنے پڑی کرسیوں کو اپنی دھوتی کے پلو سے صاف کرنے لگا۔

    آنے والے افسر اپنی کرسیوں پر بیٹھ گئے تو وہ اُن کے کھانے کے لیے کچھ خشک میوے اور پھلوں کا جوس لے آیا۔

    افسر اعلیٰ نے کھانے پینے کے بعد انگلیوں سے اپنی مونچھوں صاف کیں اور دکان دار سے حساب کتاب کا رجسٹر لے کر اُس کی پڑتال کرنے لگا۔ ایک صفحے پر اُس کی نظر ٹھہر گئی۔ وہ کچھ حیران سا ہوا پھر مسکرایا۔ اُس نے اپنے ماتحتوں کو وہ صفحہ دکھایا اور پڑھ کر سنایا تو وہ تینوں بھی مسکرانے لگے۔

    "کیسے لوگ ہیں۔ انکم ٹیکس بچانے کے لیے کتّے کو ڈالی گئی روٹی کے ٹکڑے تک کی قیمتِ اخراجات میں لکھ دیتے ہیں۔” افسرِ اعلیٰ نے تبصرہ کیا۔

    رجسٹر کے کھلے صفحے پر درج تھا: ” مورخہ بارہ فروری سنہ…. کتّے کا راتب 50 روپے۔”

    دکان دار بھی کھسیانے انداز میں اُن کے ساتھ ہنسنے لگا۔ تھوڑی دیر بعد وہ لوگ چلے گئے۔
    دکان دار نے وہ رجسٹر دوبارہ کھولا۔ خشک میوے اور پھلوں کے جوس پر آنے والے اخراجات جوڑے اور رجسٹر میں ایک نئی سطر کا اضافہ کر دیا۔

    تاریخ 20 اگست سنہ…. کتّوں کا کھانا 150 روپے۔

    (درشن متوا کی اس ہندی کہانی کے اردو مترجم احمد صغیر صدیقی ہیں)

  • ایک شہنشاہ ایسا، جس کا انت نہ کوئی

    ایک شہنشاہ ایسا، جس کا انت نہ کوئی

    ایک روز شہنشاہ گھوڑے پر سوار شہر میں وارد ہوا تو وہاں ہر سڑک کے کنارے، دائیں بائیں، لوگوں کے ٹھٹ کے ٹھٹ لگے ہوئے تھے جو شہنشاہ کے دیدار کے آرزو مند تھے۔

    وہ اس کے گھوڑے کو بھی، جھلک بھر، دیکھنے کے تمنائی تھے۔ بہت سے لوگ بالکل ہی آگے گویا پہلی صف میں کھڑے تھے لیکن ان سے کہیں زیادہ لوگ دوسری، تیسری اور چوتھی صفوں میں ایستادہ تھے اور رہے وہ لوگ جو چوتھی صف کے پیچھے تھے، انھیں تو صف بستہ قرار دینا ہی خارج از بحث تھا۔

    چنانچہ یہ ہوا کہ ایک بہت بڑی تعداد میں لوگ، درشن کو، نہ صرف پنجوں کے بل کھڑے ہو گئے، نہیں بلکہ انہوں نے اپنی گردنیں بھی اچکائیں، اس قدر، بے تحاشہ اچکائیں کہ شہنشاہ ان کے پاس سے گزر کر اندھیرے میں غائب بھی ہو گیا اور ان کی گردنیں زندگی بھر کے لیے اسی طرح کھنچی کی کھنچی رہ گئیں۔

    لہٰذا اگر کبھی کسی لمبی گردن والے شخص سے ملنے کا اتفاق ہو تو ہمیں چاہیے کہ اسے نہ تو حقارت کی نظر سے دیکھیں، نہ حیران ہو کر گھوریں۔ وہ انھی لوگوں میں سے کسی کا پوتا پڑ پوتا ہے جن پر شہنشاہ کو دیکھنے کا انوکھا جنون سوار تھا جو بعد ازاں بالکل ہی ناپید ہو گیا اور جس کا محرم ہونا اب ممکن نہیں رہا۔

    (عالمی ادب سے انتخاب، مترجم محمد سلیم الرّحمٰن)

  • بیل اور گدھا (دل چسپ کہانی)

    بیل اور گدھا (دل چسپ کہانی)

    کسی گاؤں میں‌ ایک بڑا زمیندار رہتا تھا۔ خدا نے اسے بہت سی زمین، بڑے بڑے مکان اور باغ ‌دیے تھے، جہاں ہر قسم کے پھل اپنے اپنے موسم میں پیدا ہوتے تھے۔

    گائے اور بھینسوں کے علاوہ اس کے پاس ایک اچھّی قسم کا بیل اور عربی گدھا بھی تھا۔ بیل سے کھیتوں میں‌ ہل چلانے کا کام لیا جاتا اور گدھے پر سوار ہو کر زمیندار اِدھر اُدھر سیر کو نکل جاتا۔ ایک بار اس کے پاس کہیں سے گھومتا پھرتا ایک فقیر نکل آیا۔

    زمیندار ایک رحم دل آدمی تھا۔ اس نے فقیر کو اپنے ہاں ٹھہرایا۔ اس کے کھانے پینے اور آرام سے رہنے کا بہت اچھا انتظام کیا۔ دو چار دن بعد جب وہ فقیر وہاں سے جانے لگا تو اس نے زمیندار سے کہا "چودھری! تم نے میری جو خاطر داری کی ہے، میں ‌اسے کبھی نہیں بھولوں گا۔ تم دیکھ رہے ہو کہ میں ایک فقیر ہوں۔ میرے پاس کوئی ایسی چیز نہیں، جو تمھاری خدمت میں پیش کروں۔ ہاں، میں جانوروں اور حیوانوں کی بولیاں‌ سمجھ سکتا ہوں۔ تم چاہو تو یہ علم میں تمھیں سکھا سکتا ہوں، لیکن تم کو مجھ سے ایک وعدہ کرنا ہو گا کہ تم یہ بھید کبھی کسی کو نہیں بتاؤ گے، اور یہ بھی سن لو کہ اگر تم نے یہ بھید کسی سے کہہ دیا تو پھر زندہ نہ رہ سکو گے۔”

    چودھری نے کہا: "بابا! میں تم سے وعدہ کرتا ہوں کہ میں یہ بھید کبھی کسی کو نہیں بتاؤں گا اور تمھارا یہ احسان عمر بھر یاد رکھوں گا۔”

    خیر، فقیر نے اسے جانوروں اور حیوانوں کی باتیں سمجھنے کا عمل سکھا دیا اور چلا گیا۔

    زمیندار کے پاس جو بیل تھا، وہ بیچارہ صبح سے پچھلے پہر تک ہل میں ‌جتا رہتا۔ شام کو جب وہ گھر آتا تو اس کے کھانے کے لیے بھوسا ڈال دیا جاتا، لیکن گدھے کو سبز گھاس اور چنے کا دانہ کھانے کو ملتا۔ غریب بیل یہ سب کچھ دیکھتا اور چپ رہتا۔

    وقت اسی طرح‌ گزر رہا تھا۔ ایک دن جب بیل کھیتوں سے واپس آتے ہوئے گدھے کے پاس سے گزرا تو گدھے نے اسے لنگڑاتے ہوئے دیکھ کر پوچھا: "بھائی آج تم لنگڑا لنگڑا کر کیوں چل رہے ہو؟”

    بیل نے جواب دیا: "گدھے بھائی! آج مجھے بہت کام کرنا پڑا۔ میں جب تھک جاتا تھا تو نوکر میری پیٹھ اور ٹانگوں پر زور زور سے لاٹھیاں مارتا۔ میری ٹانگ میں چوٹ لگ گئی ہے۔ خیر! اپنی اپنی قسمت ہے۔”

    گدھا چپ رہا اور بیل اپنے تھان کی طرف چلا گیا۔ جہاں بیل بندھا کرتا تھا، وہاں زمیندار کو اپنے نوکر کے لیے گھر بنوانا تھا۔ کچھ دنوں کے بعد زمیندار نے بیل کے لیے بھی گدھے کے پاس ہی کھرلی بنوا دی۔ جب دونوں کو وقت ملتا، ایک دوسرے سے باتیں بھی کر لیتے۔

    ایک روز بیل کو اداس اور خاموش دیکھ کر گدھے نے اس سے پوچھا: "بیل بھائی! کیا بات ہے؟ آج تم چپ چپ کیوں ہو۔ کوئی بات ہی کرو۔”

    بیل نے کہا: "گدھے بھائی! کیا بات کروں؟ آج پھر بڑی لاٹھیاں پڑی ہیں۔”

    گدھا کہنے لگا: "بیل بھائی! سچ جانو تم۔ تمھاری جو درگت بنتی ہے، وہ دیکھ کر مجھے بہت دکھ ہوتا ہے، لیکن مجھے افسوس ہے کہ میں تمھارا دکھ بانٹ نہیں سکتا۔”

    بیل بولا: "گدھے بھائی! تم نے سچ کہا۔ دکھ تو کوئی کسی کا نہیں بانٹ سکتا، لیکن تم کچھ مشورہ تو دو کہ اس مصیبت سے میری جان کیسے چھوٹے گی، اور نہیں تو دو چار دن ہی آرام کر لوں۔”

    گدھے نے کہا: "ایک ترکیب میری سمجھ میں آئی ہے۔ اس پر عمل کرو گے تو پانچ، سات روز کے لیے تو بچ جاؤ گے۔ کہو تو بتاؤں؟”

    بیل بولا:” نیکی اور پوچھ پوچھ، بتاؤ، کیا ترکیب ہے؟”

    گدھے نے بتایا: "تم یہ کرو کہ جب ہل والا تمھیں ہل میں جوتنے کے لیے لینے آئے تو تم آنکھیں بند کر کے کھڑے ہو جانا۔ وہ تمھیں کھینچے تو تم دو قدم چلنا اور ٹھہر کر گردن ڈال دینا۔ پھر بھی اگر اسے رحم نہ آئے اور کھیت پر لے ہی جائے تو کام نہ کرنا اور زمین پر بیٹھ جانا۔ کیسا ہی مارے پیٹے، ہرگز نہ اُٹھنا۔ گر گر پڑنا، پھر وہ تمھیں گھر لے آئے گا۔ گھر لا کر تمھارے آگے چارا ڈالے تو کھانا تو ایک طرف رہا تم اسے سونگھنا تک نہیں۔ گھاس، دانہ نہ کھانے سے کم زوری تو ضرور آجائے گی، مگر کچھ دن آرام بھی مل جائے گا، کیونکہ بیمار جانور سے کوئی محنت نہیں لیا کرتا۔ لو یہ مجھے ایک ترکیب سوجھی تھی، تمھیں بتا دی۔ اب تم کو اس پر عمل کرنے یا نہ کرنے کا اختیار ہے۔”

    اتفاق سے زمیندار جو اس وقت ان کے پاس سے گزرا تو اس نے ان دونوں کی باتیں سن لیں اور مسکراتا ہوا اِدھر سے گزر گیا۔ چارے بھوسے کا وقت آ گیا تھا۔ نوکر نے گدھے کے منہ پر دانے کا تو بڑا چڑھایا اور بیل کے آگے بھی چارا رکھ دیا۔ بیل دو ایک منھ مار کر رہ گیا۔ اگلے دن ہل والا بیل کو لینے آیا تو دیکھا کہ بیل بیمار ہے۔ رات کو کچھ کھایا بھی نہیں۔ نوکر دوڑا ہوا مالک کے پاس گیا اور کہنے لگا: "نہ جانے رات بیل کو کیا ہوا۔ نہ کھاتا ہے نہ پیتا ہے اور آج مجھے پورے کھیت میں ہل چلانا ہے، کہو تو باغ میں سے دوسرا بیل لے آؤں؟”

    زمیندار نے بیل اور گدھے کی باتیں تو سن ہی لی تھیں۔ دل میں بہت ہنسا کہ گدھے نے خوب سبق پڑھایا ہے۔

    زمیندار ہل والے سے بولا: "اچھا جاتا کہاں ہے؟ دوسرا بیل لانے کی کیا ضرورت ہے۔ گدھے کو لے جاؤ۔ ہل میں لگا کر کام نکال لو۔”

    گدھے پر مصیبت آ گئی۔ پہلے تو دن بھر تھان پر کھڑے کھڑے گھاس کھایا کرتا، اب جو صبح سے ہل میں جتا تو شام تک سانس لینے کی مہلت نہ ملی۔ دُم بھی مروڑی گئی، ڈنڈے بھی پڑے۔ سورج ڈوبنے کے بعد جب گدھا لوٹ کر اپنے تھان پر آیا تو بیل نے اس کا بہت شکریہ ادا کیا اور کہنے لگا: "بھیا تمھاری مہربانی سے آج مجھ کو ایسا سکھ ملا کہ ساری عمر کبھی نہیں ملا تھا۔ خدا تم کو خوش رکھے۔” گدھا کچھ نہ بولا۔ وہ اس سوچ میں تھا کہ اگر دو چار دن یہی حال رہا تو میری جان ہی چلی جائے گی۔ اچھی نیکی کی کہ اپنے کو مصیبت میں پھنسا دیا۔

    دوسرے دن پھر ہل والا گدھے کو لے گیا اور شام تک اسے ہل میں لگائے رکھا۔ جب گدھا تھکا ہارا واپس آیا تو بیل نے پھر اس کا شکریہ ادا کیا اور خوشامد کی باتیں کرنی چاہیں۔

    گدھا کہنے لگا: "میاں ان باتوں کو رہنے دو۔ آج میں نے مالک کی زبان سے ایک ایسی بُری خبر سنی ہے کہ میرے رونگٹے کھڑے ہو رہے ہیں۔ خدا تم کو اپنی حفاظت میں رکھے۔”

    بیل نے کان کھڑے کر کے پوچھا: "گدھے بھائی! سناؤ تو، میرا تو دل دھڑکنے لگا۔”

    گدھا بولا: ” کیا سناؤں۔ مالک ہل والے سے کہہ رہا تھا کہ اگر بیل زیادہ بیمار ہو گیا ہے اور اُٹھنے کے قابل نہیں رہا تو قصائی کو بلا کر اس پر چھری پھروا دو۔” بیل قصائی کے نام سے کانپ اٹھا اور کہنے لگا:‌ "پھر تم کیا مشورہ دیتے ہو؟”

    گدھا بولا: "میں تو ہر حال میں‌ تمھاری بھلائی چاہتا ہوں۔ اب میرا یہ مشورہ ہے کہ تم کھڑے ہو جاؤ۔ چارا، بھوسا کھانے لگو اور صبح کو جب ہل والا آئے تو خوشی خوشی اس کے ساتھ جا کر ہل میں جت جاؤ۔”

    یہ باتیں بھی زمیندار چھپا ہوا سن رہا تھا اور دونوں کی باتوں پر اسے دل ہی دل میں ہنسی آ رہی تھی۔ جان جانے کے ڈر سے بیل نے پھر گدھے کے مشورے پر عمل کیا۔ چارے کی ساری ناند صاف کر دیں اور کلیلیں کرنے لگا۔ صبح ہوئی تو زمیندار اپنی بیوی کو ساتھ لیے بیل کے تھان پر پہنچا۔ بیل نے جو اپنے مالک کو دیکھا تو اچھلنا شروع کر دیا۔ اتنے میں‌ ہل والا بھی آ گیا۔ اس نے بیل کو بالکل تندرست پایا۔ کھول کر لے چلا، تو وہ اس طرح ‌دُم ہلاتا اور اکڑتا ہوا چلا کہ مالک کو بے اختیار ہنسی آ گئی۔

    بیوی نے پوچھا: "تم کیوں ہنسے؟ ہنسی کی تو کوئی بات نہیں۔”

    زمیندار نے جواب دیا: "ایسی ہی ایک بھید کی بات ہے، جو میں نے سنی اور دیکھی جس پر میں ہنس پڑا۔”

    بیوی بولی:‌ ” مجھے بھی وہ بات بتاؤ۔”

    زمیندار نے کہا: "وہ بتانے کی بات نہیں ہے، اگر بتا دوں گا تو مر جاؤں گا۔”

    بیوی بولی: "تم جھوٹ بول رہے ہو۔ تم مجھ پر ہنسے تھے۔” زمیندار نے بہت سمجھایا کہ نیک بخت! تجھ پر میں کیوں ‌ہنسوں گا، تجھ کو تو وہم ہو گیا ہے۔ اگر مرنے کا ڈر نہ ہوتا تو ضرور بتا دیتا۔

    مگر وہ کب ماننے والی تھی، بولی: "چاہو مرو یا جیو، میں پوچھ کر ہی رہوں گی۔”

    جب بیوی کسی طرح نہیں مانی تو زمیندار نے سارے پڑوسیوں‌ کو جمع کیا اور سارا قصہ سنایا کہ میری بیوی ایک ایسی بات کے لیے ضد کررہی ہے، جسے ظاہر کرنے کے بعد میں مَر جاؤں گا۔ لوگوں نے اس کی بیوی کو بہت سمجھایا اور جب وہ نہ مانی تو اپنے گھر چلے گئے۔ زمیندار لاچار ہو کر وضو کرنے چلا گیا کہ بھید کھلنے سے پہلے دو نفل پڑھے۔

    زمیندار کے ہاں‌ ایک مرغا اور پچاس مرغیاں پلی ہوئی تھیں اور ایک کتّا بھی تھا۔ زمیندار نے جاتے جاتے سنا کہ کتّا مرغے پر بہت غصہ ہو رہا ہے کہ کم بخت!‌ تُو کہاں ‌مرغیوں‌ کے ساتھ ساتھ بھاگا چلا جاتا ہے۔ ہمارے تو آقا کی جان جانے والی ہے۔

    مرغ نے پوچھا: "کیوں‌ بھائی! اس پر ایسی کیا آفت آ پڑی! جو اچانک مرنے کو تیار ہو گیا۔”

    کتّے نے ساری کہانی مرغے کو سنا دی۔ مرغے نے جو یہ قصّہ سنا تو بہت ہنسا اور کہنے لگا: "ہمارا مالک بھی عجیب بے وقوف آدمی ہے۔ بیوی سے ایسا دبنا بھی کیا کہ مر جائے اور اس کی بات نہ ٹلے، مجھے دیکھو! مجال ہے جو کوئی مرغی میرے سامنے سر اٹھائے۔ مالک ایسا کیوں‌ نہیں کرتا کہ گھر میں‌ جو شہتوت کا درخت ہے، اس کی دو چار سیدھی سیدھی ٹہنیاں ‌توڑے اور اس ضدی کو تہ خانے میں لے جا کر اسے ایسا پیٹے کہ وہ توبہ کر لے اور پھر کبھی ایسی حرکت نہ کرے۔”

    زمیندار نے مرغ کی یہ بات سن کر شہتوت کی ٹہنیاں توڑیں اور انھیں تہ خانے میں چھپا آیا۔

    بیوی بولی: "لو اب وضو بھی کر آئے اب بتاؤ؟”

    زمیندار نے کہا: "ذرا تہ خانے چلی چلو، تاکہ میں بھید بھی کھولوں تو کوئی دوسرا جانے بھی نہیں اور وہیں مر بھی جاؤں۔”

    بیوی نے کہا: "اچھا۔” اور آگے آگے تہ خانے میں گھس گئی۔ زمیندار نے دروازہ بند کر کے بیوی کو اتنا مارا کہ وہ ہاتھ جوڑ کر کہنے لگی:‌ "میری توبہ ہے، پھر کبھی میں‌ ایسی ضد نہیں کروں گی۔”

    اس کے بعد دونوں باہر نکل آئے۔ کنبے والے اور رشتے دار جو پریشان تھے، خوش ہو گئے اور میاں‌ بیوی بڑے اطمینان کے ساتھ زندگی بسر کرنے لگے۔

  • انسانوں کے بارے میں‌ بھوت پریت کیا رائے رکھتے ہیں؟

    انسانوں کے بارے میں‌ بھوت پریت کیا رائے رکھتے ہیں؟

    دنیا ترقّی کررہی ہے، تیز رفتاری سے آگے بڑھ رہی ہے۔ اور آج کا انسان خود کو پہلے سے زیادہ متمدن و مہذّب بتاتا ہے، دانا اور باشعور سمجھتا ہے۔

    وہ رفتگاں کی طرح توہّم پرست بھی نہیں اور بھوت پریت پر یقین نہیں رکھتا، آج کے لوگ ایسے قصّوں کو من گھڑت کہتے ہیں اور ان کی نظر میں بھوت پریت خیالی باتیں ہیں، لیکن کیا بھوت بھی انسانوں کے بارے میں ایسا ہی سوچتے ہیں!

    اردو ادب میں مختصر کہانی نئی نہیں۔ اسے شارٹ اسٹوری کہیے یا افسانچہ ہر شکل میں اسے وہ تخلیق کار میّسر آئے جنھوں نے اپنے تخیل کی قوّت اور زورِ قلم سے خوب کام لیا۔ یہاں ہم نام وَر فکشن نگار جوگندر پال کا ایک پُراثر افسانچہ آپ کی نذر کررہے ہیں جسے پڑھ کر شاید آپ جان سکیں گے کہ بھوت پریت انسانوں کو کیا سمجھتے ہیں۔

    افسانچہ ملاحظہ کیجیے۔

    چند بھوت حسبِ معمول اپنی اپنی قبر سے نکل کر چاندنی رات میں گپیں ہانکنے کے لیے کھلے میدان میں اکٹھا ہو کر بیٹھ گئے اور بحث کرنے لگے کہ کیا واقعی بھوت ہوتے ہیں!

    ’’نہیں،‘‘ ایک نے ہنس کر کہا،’’سب من گھڑت باتیں ہیں۔‘‘

    ایک اور بولا، ’’کسی بھی بھوت کو علم نہیں ہوتا کہ وہی بھوت ہے۔‘‘

    اسی اثنا میں ایک اور نے ایک جھاڑی کی طرف اشارہ کر کے خوف زدہ آواز میں کہا، ’’وہ دیکھو!‘‘

    جھاڑی کے پیچھے ایک غریب آدمی بڑے انہماک سے لکڑیاں کاٹ رہا تھا۔

    ’’ہاں، وہی۔۔۔‘‘ اور سارے بھوت بے اختیار چیخیں مارتے ہوئے اپنی اپنی قبر کی طرف دوڑے۔

  • درختوں میں بھی جان ہوتی ہے!

    درختوں میں بھی جان ہوتی ہے!

    درخت کاٹنے والے نے کلہاڑے کو دونوں ہاتھوں سے سر سے اوپر لے جا کر پورے زور سے درخت کے تنے پر چوٹ کرنا چاہی، مگر درخت کی شاخیں کلہاڑے سے وہیں الجھ گئیں۔

    اور درخت کاٹنے والے نے کلہاڑے کو وہاں سے نکالنا چاہا تو وہ اس کے ہاتھوں سے چھوٹ کر اس کے پیروں پر آ گرا اور وہ درد سے بلبلاتے ہوئے وہیں بیٹھ گیا۔

    ’’ہائے!‘‘ شاخیں بے اختیار اس کے پیروں پر جھک آئیں۔

    ’’کتنی گہری چوٹ آئی ہے!‘‘

    (نام ور فکشن رائٹر جوگندر پال کا ایک پُراثر افسانچہ)

  • مستقبل کی ایمرجنسی ہیلپ لائن

    مستقبل کی ایمرجنسی ہیلپ لائن

    زخمی ہونے کے باوجود اُس نے فون سے 999 ملا لیا تھا۔

    "نئی ایمرجنسی ہیلپ لائن میں خوش آمدید” آواز آئی۔

    "ایمبولینس کے لیے ایک دبائیں
    آگ لگنے کی صورت میں دو دبائیں
    پولیس سے رابطے کے لیے تین
    سمندر میں حادثے کی صورت میں مدد کے لیے چار دبائیں
    اگر آپ کو ایمرجنسی مدد نہیں چاہیے تو پانچ دبائیے یا یہ ساری تفصیلات دوبارہ سننے کے لیے چھ دبائیں۔”

    پیٹ میں لگے چاقو کی وجہ سے خون ہر طرف پھیل چکا تھا۔ اُس نے لاشعوری طور پر ہمّت کرکے نمبر ایک دبا دیا۔

    ” پستول سے لگی گولی کے لیے ایک دبائیں، روڈ ایکسیڈنٹ کے لیے دو، تین، چار۔۔۔۔۔”

    لیکن اِس سے آگے وہ نہ سُن سکی!

    مصنّف: گورڈن لاری (Gordon Lawrie)
    مترجم: محمد جمیل اختر

  • گُم شدہ رجمنٹ

    گُم شدہ رجمنٹ

    ایک طاقت وَر فوج کی ایک رجمنٹ کو شہر کی گلیوں میں پریڈ کرنا تھی۔ دستے صبح ہی سے بیرک کے احاطے میں پریڈ کی ترتیب میں کھڑے ہونا شروع ہو گئے۔

    سورج بلند ہوتا گیا اور اب سائے احاطے میں اگنے والے نوخیز پودوں کے قدموں تلے مختصر ہونے لگے۔ اپنے تازہ پالش کردہ ہیلمٹوں کے اندر فوجی اور حکام پسینے سے شرابور ہونے لگے۔ سفید گھوڑے پر سوار کرنل نے اشارہ کیا، نقاروں پر ضربیں پڑیں، بینڈ نے مل کر ساز بجانا شروع کر دیے اور بیرک کے دروازے اپنی چُولوں پر آہستگی سے ہلنے لگے۔

    اب آپ دور کہیں کہیں نرم بادلوں کی دھاریوں والےنیلے آسمان کے تلے شہر دیکھ سکتے تھے جس کی چمنیاں دھویں کے لچھے چھوڑ رہی تھیں، اس کی بالکونیاں جہاں کپڑے سکھانے والی چٹکیوں سے اٹی تاریں، سنگھار میزوں کے آئینوں میں منعکس ہوتی سورج کی جگمگ کرنیں، مکھیاں دور رکھنے والے جالی دار پردوں میں خریداری کے سامان سے لدی خواتین کی الجھتی بالیاں، ایک چھتری والی آئس کریم گاڑی کے اندر کون رکھنے والا شیشے کا بکس، اور ایک لمبی ڈور کے سرے پر بچوں کا ایک گروہ سرخ کاغذی چھلوں پر مشتمل دُم والی پتنگ کھینچتے ہوئے جو زمین کو چھوتے ہوئے ڈگمگاتی ہے، پھر جھٹکوں جھٹکوں میں اٹھ کر آسمان کے نرم بادلوں کے مقابل بلند ہو جاتی ہے۔

    رجمنٹ نے نقاروں کی تھاپ میں پیش قدمی شروع کی، سڑکوں پر بوٹ بجنے لگے اور توپ خانے کی گھرگھراہٹ گونجنے لگی، لیکن اپنے سامنے خاموش، شریف طبع اور اپنے کام سے کام رکھنے والا شہر دیکھ کر فوجی خود کو تھوڑا بدلحاظ اور دخل انداز محسوس کرنے لگے، اور دفعتاً پریڈ بےمحل لگنے لگی۔ جیسے کوئی ساز کا غلط تار چھیڑ دے۔ جیسے اس کے بغیر بھی کام چل سکتا تھا۔

    پری جیو باتا نامی ایک نقارچی نے ظاہر کیا جیسے وہ اسی تاب سے نقارہ بجا رہا ہے حالانکہ وہ صرف نقارے کی سطح کو چھو رہا تھا۔ اس سے جو آواز نکل رہی تھی وہ ایک مغلوب سی دھم دھم تھی، لیکن وہ اکیلا نہیں تھا۔ کیوں کہ عین اسی لمحے دوسرے تمام نقارچی اسی کی پیروی کررہے تھے۔ پھر بگل والے گزرے لیکن ان کے بگلوں سے محض ایک آہ نکل رہی تھی کیوں کہ کوئی بھی ان میں زور سے نہیں پھونک رہا تھا۔ سپاہی اور حکام بے چینی سے ادھر ادھر دیکھ کر ایک ٹانگ ہوا میں اٹھاتے، پھر اسے بہت نرمی سے نیچے رکھ دیتے اور یہ پریڈ گویا پنجوں کے بل آگے بڑھتی گئی۔

    سو کسی کے حکم دیے بغیر ایک لمبی، بہت لمبی قطار پھونک پھونک کر قدم رکھتی، پنجوں کے بل دبی دبی چال سے چلی۔ شہر کے اندر توپیں اس قدر بےجوڑ لگنے لگیں کہ ان کے ساتھ چلنے والے توپچیوں پر یکایک خجالت طاری ہو گئی۔

    بعض نے بےاعتنائی کا وطیرہ اپنایا اور توپوں کی طرف دیکھے بغیر چلتے گئے، جیسے وہ وہاں محض اتفاق سے آ گئی ہوں۔ دوسرے توپوں سے لگ کر چلنے لگے، جیسے وہ انھیں چھپانا چاہتے ہوں، تاکہ لوگوں کے ان کے اکھڑ اور ناگوار نظارے سے بچایا جا سکے۔ کچھ نے ان پر غلاف ڈال دیے تاکہ کسی کی نظر نہ پڑے، یا کم از کم وہ لوگوں کی توجہ اپنی طرف نہ کھینچیں۔

    کچھ ایسے بھی تھے جنھوں نے توپوں کی نال یا توپ گاڑی پر ہاتھ مار کر یا ہونٹوں پر نیم مسکراہٹ لا کر کچھ ایسے شفقت آمیز تمسخر کا رویہ اختیار کیا گویا یہ دکھانا چاہتے ہوں کہ ان کا ان چیزوں کو مہلک مقاصد کے لیے استعمال کرنے کا کوئی ارادہ نہیں، بس ذرا ہوا لگانا مقصود ہے۔

    یہ پریشان کُن احساس کرنل کلیلیو لیون تومینی کے دماغ میں بھی سرایت کر نے لگا جنھوں نے بےاختیار سر اپنے گھوڑے کی طرف جھکا دیا، جب کہ خود گھوڑے نے بھی ہر قدم کے درمیان وقفہ ڈالنا شروع کر دیا اور اب وہ کسی ریڑھے والے گھوڑے کی سی احتیاط سے چل رہا تھا۔ لیکن کرنل اور ان کے گھوڑے کو دوبارہ جنگی چال اختیار کرنے میں بس ایک لمحے کا غور و فکر ہی کافی تھا۔ صورتِ حال کا تیزی سے جائزہ لے چکنے کے بعد کرنل نے تیز حکم دیا: ’پریڈ چال!‘

    نقارے متوازن تال پر بجنا شروع ہوئے۔ رجمنٹ نے تیزی سے اپنی دل جمعی دوبارہ حاصل کی اور اب وہ جارحانہ خوداعتمادی سے آگے قدم بڑھانے لگی۔

    ’یہ ہوئی نا بات،‘ کرنل نے صفوں پر تیزی سے نظریں دوڑاتے ہوئے خود سے کہا، ’اس کو کہتے ہیں مارچ کرتی ہوئی اصل رجمنٹ۔‘

    چند راہ گیر سڑک کے کنارے فٹ پاتھ پر قطار بنا کر کھڑے ہو گئے اور ایسے لوگوں کے انداز سے پریڈ دیکھنے لگے جو اس قدر طاقت کی صف آرائی میں دل چسپی رکھتے ہوں اور شاید انھیں اس میں مزہ بھی آتا ہو، لیکن کوئی ناقابلِ تفہیم احساس انھیں ستا رہا ہو۔ ایک مبہم خطرے کا احساس۔ اور ویسے بھی ان کے ذہنوں میں پہلے ہی سے کئی اہم چیزیں گردش کر رہی تھی کہ وہ تلواروں اور توپوں کے بارے میں سوچنا شروع کر دیتے۔

    خود پر نظریں جمی دیکھ کر سپاہی اور حکام ایک بار پھر ناقابلِ توجیہہ گھبراہٹ کا شکار ہونے لگے۔ وہ پریڈ چال کے بےلچک قدموں سے چلتے تو گئے، لیکن انھیں اس خیال سے دامن چھڑا پانا مشکل ہو رہا تھا کہ وہ ان بھلے شہریوں کے ساتھ کوئی زیادتی کر رہے ہیں۔ ان کی موجودگی کے باعث بدحواسی سے بچنے کے لیے سپاہی مارانگون ریمیگیو نے نظریں جھکائے رکھیں۔ جب آپ صفوں میں مارچ کرتے ہیں تو آپ کو صرف سیدھی لکیر میں رہنے اور قدم ملانے کی فکر ہوتی ہے، دستہ باقی ہر چیز کا خیال خود رکھتا ہے۔ لیکن سیکڑوں سپاہی وہی کچھ کر رہے تھے جو سپاہی مارانگون کر رہا تھا۔

    درحقیقت آپ کہہ سکتے ہیں کہ وہ سب، حکام، پرچم بردار، خود کرنل اپنی نظریں زمین سے اٹھائے بغیر، صف کا پیچھا کرتے چلے جا رہے تھے۔ بینڈ کے پیچھے پریڈ چال چلتے چلتے رجمنٹ ایک طرف کو کنی کھا گئی اور پارک کے اندر پھولوں کے تختے میں جا گھسی، اور پھر استقامت سے گلِ اشرفی اور بنفشے کے پھول روندتی چلی گئی۔

    باغبان گھاس کو پانی دے رہے تھے اور انھوں نے کیا دیکھا؟ ایک رجمنٹ آنکھیں بند کیے، نازک گھاس میں ایڑیاں پٹختے ان پر چڑھی چلی آ رہی ہے۔ ان بے چاروں کی سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ اپنے فوارے کس طرح تھامیں کہ پانی کہیں سپاہیوں پر چھڑکاؤ نہ کر دے۔ آخرکار ہوا یہ کہ انھوں نے اپنے فوارے سیدھے اوپر کر لیے، لیکن طویل دھاریں دوبارہ بے قابو سمتوں میں آ، آ کر نیچے گرنے لگیں۔ ایک نے آنکھیں میچے کمر سیدھی رکھے مارچ کرتے ہوئے کرنل کلیلیو لیون تومینی کو سر سے پاؤں تک شرابور کر دیا۔
    پانی سے نچڑ کر کرنل اچھل کر پکارے:

    ’سیلاب! سیلاب! بچاؤ کی کارروائی شروع کی جائے!‘ پھر انھوں نے فوری طور پر خود پر قابو پایا اور رجمنٹ کی کمان سنبھال کر اسے باغات سے باہر لے گئے۔ تاہم وہ تھوڑے سے بے دل ہو گئے تھے۔

    ’سیلاب! سیلاب!‘ کی پکار نے ایک راز اور ایک لاشعوری تمنا کا بھانڈا پھوڑ دیا تھا کہ قدرتی آفت اچانک آ سکتی ہے، اور کسی کو ہلاک کیے بغیر اس قدر خطرناک ہو سکتی ہے کہ پریڈ منسوخ کرا دے اور رجمنٹ کو لوگوں کے لیے ہر قسم کے مفید کام کرنے کا موقع مل سکے، مثلاً پلوں کی تعمیر یا بچاؤ کی کارروائیوں میں حصہ لینا۔ صرف اسی بات سے ان کا ضمیر مطمئن ہو سکتا تھا۔

    پارک سے نکلنے کے بعد رجمنٹ شہر کے ایک مختلف حصے میں داخل ہو گئی تھی۔ یہ وہ کھلی سڑکیں نہیں تھیں جہاں انھیں پریڈ کرنا تھی، بلکہ یہ علاقہ تنگ، خاموش اور بل کھاتی ہوئی گلیوں پر مشتمل تھا۔ کرنل نے فیصلہ کیا کہ وہ ان گلیوں کو عبور کر کے سیدھا چوک تک جا پہنچیں گے تاکہ مزید وقت ضائع نہ ہو۔

    اس علاقے میں ایک انوکھا جوش و خروش بیدار ہو گیا۔ الیکٹریشن لمبی سیڑھیوں پر چڑھے گلی کے بلب ٹھیک کر رہے تھے اور ٹیلی فون کی تاریں اوپر نیچے کر رہے تھے۔ سول انجینیئرنگ کے سرویئر آلات اور فیتوں سے سڑکیں ناپ رہے تھے۔ گیس والے فٹ پاتھ پر بڑے گڑھے کھود رہے تھے۔ اسکول کے بچے ایک طرف قطار میں چلے جا رہے تھے۔ راج مزدور کام کرتے ہوئے ایک دوسرے کی طرف ’یہ لو! یہ لو!‘ کہتے ہوئے اینٹیں اچھال رہے تھے۔ سائیکل سوار اپنے کندھوں پر لکڑی کی گھوڑیاں اٹھائے، تیز آواز میں سیٹیاں بجاتے گزرے۔ ہر کھڑکی میں ایک ایک لڑکی برتن دھو رہی تھی اور بڑی بالٹیوں میں کپڑے نچوڑ رہی تھی۔

    چنانچہ رجمنٹ کو ان بَل کھاتی گلیوں میں ٹیلی فون کی تاروں کے گچھوں، فیتوں، لکڑی کی گھوڑیوں، سڑک میں گڑھوں، پُر شباب لڑکیوں اور ہوا میں اڑتی اینٹیں– ’یہ لو! یہ لو!‘ – پکڑ کر اور ہیجان زدہ لڑکیوں کے چوتھی منزل سے گرائے ہوئے بھیگے کپڑوں اور بالٹیوں سے بچ بچا کر اپنی پریڈ جاری رکھنا پڑی۔

    کرنل کلیلیو لیون تومینی کو تسلیم کرنا پڑا کہ وہ بھٹک گئے ہیں۔ انھوں نے اپنے گھوڑے سے نیچے جھک کر ایک راہ گیر سے پوچھا: ’معاف کیجیے گا، کیا آپ جانتے ہیں کہ مرکزی چوک کو جانے والا سب سے مختصر راستہ کون سا ہے؟‘

    راہ گیر، جو ایک معنک اور دبلا پتلا شخص تھا، تھوڑی دیر سوچتا رہا۔ ’راستہ پیچیدہ ہے۔ لیکن اگر آپ اجازت دیں تو میں آپ کو ایک احاطے سے ایک اور گلی کے راستے لے جاؤں گا جس سے آپ کا کم از کم چوتھائی گھنٹہ بچ جائے گا۔‘

    ’کیا تمام رجمنٹ اس احاطے سے گزر پائے گی؟‘ کرنل نے پوچھا۔

    آدمی نے رجمنٹ پر ایک نظر دوڑائی اور ہچکچاتے ہوئے کہا: ’خیر، کوشش کی جا سکتی ہے،‘ اور انھیں ایک بڑے دروازے سے گزرنے کا اشارہ کیا۔

    عمارت کے تمام خاندان بالکونیوں کے زنگ آلود جنگلوں کے پیچھے کھڑے ہو کر احاطے میں سے توپ خانے اور گھوڑوں سمیت گزرنے کی کوشش کرتی رجمنٹ کو دیکھنے کے لیے جھک گئے۔

    ’باہر نکلنے کا دروازہ کہاں ہے؟‘ کرنل سے دبلے آدمی سے پوچھا۔

    ’دروازہ؟‘ آدمی نے کہا۔ ’شاید میں اپنی بات واضح نہیں کر سکا۔ آپ کو اوپری منزل تک چڑھنا پڑے گا، وہاں سے آپ سیڑھیوں سے ہوتے ہوئے دوسری عمارت میں داخل ہو جائیں گے اور اُس عمارت کا دروازہ گلی میں کھلتا ہے۔‘

    کرنل ان تنگ سیڑھیوں میں بھی اپنے گھوڑے پر سوار رہنا چاہتے تھے لیکن دو تین منزلوں کے بعد انھوں نے گھوڑے کو جنگلے سے باندھ کر پیدل آگے بڑھنے کا فیصلہ کر لیا۔ انھوں نے فیصلہ کیا کہ توپوں کو بھی احاطے میں چھوڑ دیا جائے جہاں ایک موچی نے وعدہ کیا کہ وہ ان پر نظر رکھے گا۔ سپاہی ایک قطار میں چلتے گئے اور ہر منزل پر دروازے کھلتے اور بچے چلاتے:’اماں، جلدی آؤ، دیکھو۔ سپاہی گزر رہے ہیں۔ فوج پریڈ کر رہی ہے!‘

    پانچویں منزل پر ان سیڑھیوں سے بالاخانے کو جانے والی سیڑھیوں تک پہنچنے کے لیے انھیں باہر کی طرف بالکونی کے اوپر چلنا پڑا۔ ہر کھلی کھڑکی میں سے سادہ کمرے نظر آتے جن میں جھلنگا چارپائیاں بچھی ہوتیں جہاں بچوں سے بھرے خاندان مقیم تھے۔

    ’اندر آؤ، اندر آؤ،‘ باپ اور مائیں سپاہیوں سے کہتے۔ ’تھوڑا آرام کرو، تم لوگ بہت تھکے ہوئے ہو گے!‘ ادھر سے آؤ، یہ راستہ چھوٹا ہے! لیکن اپنی بندوقیں باہر رکھ دو۔ اندر بچے ہیں۔ آپ سمجھتے ہیں نا۔۔۔‘

    سو راہداریوں اور گزرگاہوں میں رجمنٹ کی ترتیب ٹوٹ گئی۔ اور اس افراتفری میں وہ دبلا شخص کہیں ادھر ادھر ہو گیا جس نے کہا تھا کہ وہ راستہ جانتا ہے۔

    شام پڑ گئی اور رسالے اور پلٹنیں اب بھی سیڑھیوں اور بالکونیوں میں بھٹکتی پھر رہی تھیں۔ سب سے اوپر، چھت کے چھجے پر کرنل لیون تومینی بیٹھے تھے۔ انھیں نیچے بکھرا ہوا شہر دکھائی دے رہا تھا، وسیع و عریض اور تند و تیز، سڑکیں شطرنج کی بساط کی مانند اور خالی چوک۔ ان کے ساتھ ہی رنگین جھنڈیوں، پیغام رسانی والے پستولوں اور رنگ برنگے پردوں سے مسلح دستہ کھپریل پر ہاتھ اور گھٹنے ٹکائے بیٹھا تھا۔

    ’پیغام بھیجو،‘ کرنل نے کہا۔ ’جلدی، پیغام بھیجو: علاقہ ناقابلِ عبور۔۔۔ آگے بڑھنے سے قاصر۔۔۔ حکم کا انتظار۔۔۔‘


    (اٹلی کے معروف ناول نگار اور صحافی اٹالو کالوینو کی اس کہانی کو ظفر سیّد نے انگریزی سے اردو زبان میں‌ ترجمہ کیا ہے)

  • بادل، بجلی اور انصاف کی کہانی

    بادل، بجلی اور انصاف کی کہانی

    بھورے بادل کی گود میں بجلی مچلی۔ آگے بڑھی، زمین کی طرف۔ بادل نے ٹوکا’’ کہاں چلیں؟‘‘

    ایک ننّھی سی تتلی پھولوں پر منڈلا رہی تھی کہ تبھی ایک گَوریّا اس پر جھپٹ پڑی اور نہایت بے رحمی کے ساتھ اسے نگلنے کی کوشش کرنے لگی۔

    ’’اس بے رحم گَوریّا کو سبق سکھانے۔‘‘ بجلی نے اشاروں سے بتایا اور بادل کا ردِّ عمل جانے بغیر، زمین کی طرف بڑھنا چاہتی تھی کہ اس کی چیخ نکل گئی۔

    ’’بادل دادا!غضب ہو گیا۔‘‘ گَوریّا ابھی ٹھیک سے تتلی کو نگل بھی نہیں پائی تھی کہ اس پر ایک باز نے جھپٹّا مارا اور گَوریّا اپنی جان گنوا بیٹھی۔

    بادل خاموش رہا۔ ایک پُر اسرار مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر کھیلتی رہی۔ادھر بجلی کا غصہ مسلسل بڑھتا جا رہا تھا۔

    ’’میں اس ظالم باز کو ہر گز نہیں چھوڑوں گی۔‘‘ وہ غصے میں بڑبڑائی۔اچانک ایک احساس ندامت اس کی آواز میں اتر آیا۔

    ’’ہائے ابھی تک کتنی غلط تھی میں کہ گَوریّا کو ظالم سمجھ رہی تھی، گَوریّا سے بڑا ظالم تو وہ باز ہے۔ اچھا ہُوا کہ وقت سے پہلے حقیقت آشکار ہو گئی، ورنہ معصوم گَوریّا ہی میرے غضب کا شکار ہوتی۔‘‘

    بادل اب بھی مسکرا رہا تھا۔ بجلی کچھ اور آگے بڑھی۔ تب ہی اس کے کانوں میں ہلکی سی ایک آواز آئی۔ اس نے نیچے دیکھا۔ باز زمین پر پڑا تڑپ رہا تھا۔ اس کے قریب ہی بندوق لیے ایک شکاری کھڑا تھا۔

    ’’اُف۔۔۔ یہ شکاری تو سب سے بڑا ظالم و جابر ہے۔ گَوریّا نے تتلی کو مارا، اس لیے کہ وہ بھوکی تھی۔ باز نے گَوریّا کو مارا، اس لیے کہ اسے بھی بھوک نے مجبور کیا تھا۔

    اگر یہ دونوں اپنی اپنی بھوک کا کہا نہ مانتے تو ممکن تھا کہ وہ اپنی ہی بھوک کا لقمہ بن جاتے، لیکن یہ شکاری۔۔۔!!

    اس نے تو محض اپنے شوق کی تسکین کے لیے باز کو نشانہ بنایا۔ میں اسے چھوڑوں گی نہیں۔ کچھ تو زمین کا بوجھ کم ہو گا۔‘‘ سوچتے ہوئے بجلی کا چہرا تمتمانے لگا۔

    وہ تیزی سے آگے بڑھی۔ بجلی کی کڑک اور بادل کی گڑگڑاہٹ نے تیز بارش کی شکل اختیار کر لی۔ بارش سے بچنے کے لیے شکاری نے ایک غریب کسان کے جھونپڑے میں پناہ لی۔

    دانش وَروں کی طرح بجلی بھی اپنی بے جا ضد پر اَڑی رہنے والی تھی۔اپنے فیصلے پر وہ بھی نظرِثانی نہیں کر سکتی تھی۔ وہ جھونپڑی پر گری۔پَل بھر میں شکاری کے ساتھ غریب کسان اور اس کا خاندان بھی خاک ہو گیا۔

    عدلیہ کی طرح بجلی بھی مطمئن تھی کہ اس نے انصاف کر دیا ہے۔

    (اوم پرکاش کشیپ کی اس مختصر کہانی کا عنوان "مشیّت” ہے جو کسی بھی ریاست میں ظلم و جبر اور اشرافیہ کی من مانی اور مفاد پرستی کو بے نقاب کرتی ہے)