Tag: مختصر کہانیاں

  • ڈاکیے کا تھیلا

    ڈاکیے کا تھیلا

    کولیا ایک خوش مزاج، مگر غائب دماغ لڑکا تھا۔ اس نے پیٹرزبرگ میں اپنی دادی کو ایک بہت اچھا خط لکھا۔ جس میں انہیں برائٹ ہالیڈے کی مبارکباد دی، اپنے گاؤں کی زندگی کے بارے میں بتایا، اور یہ کہ وہ کیا پڑھ رہا ہے، وہ اپنا وقت کیسے گزارتا ہے، سب تفصیل سے بیان کیا۔

    ایک جملے میں بس یہ کہا جا سکتا تھا کہ خط بہت اچھا لکھا گیا تھا، لیکن کولیا نے خط کے بجائے خالی کاغذ کی آدھی شیٹ لفافے میں ڈال دی اور خط اسی کتاب میں رہ گیا، جہاں اس نے رکھا تھا۔ اس نے لفافے پر ٹکٹ لگائے، صاف ستھری لکھائی میں پتہ لکھا اور ڈاک خانے کا رخ کیا، جہاں لفافے پر مہر لگائی گئی اور کاغذ کی ایک خالی آدھی شیٹ، کولیا کی دادی کو چھٹی کی مبارکباد دینے سینٹ پیٹرزبرگ روانہ ہوگئی۔

    کولیا کے خط نے پانچ سو میل کا فاصلہ سرپٹ دوڑتے ہوئے طے کیا جیسے کسی اہم کام کے لئے جلدی میں ہو۔ ابھی وہ یہاں ہے، ابھی سینٹ پیٹرزبرگ میں اور کچھ دیر بعد ڈاکیے کے تھیلے میں، جو سڑکوں پر سائیکل دوڑاتا، داخلی راستوں پر گھنٹی بجاتا اور گھروں پر خط بانٹتا چلا جا رہا تھا، لیکن کولیا کا لفافہ تھیلے میں خاموش نہیں تھا۔ وہ تمام خالی مخلوقات کی طرح بہت باتونی اور متجسس تھا۔

    ”آپ کہاں جا رہے ہیں ؟ اور آپ میں کیا لکھا ہے؟“ کولیا کے خط نے اپنے پڑوسی سے پوچھا جو ویلم پیپر (چمڑے کی جھلی) سے بنا ایک موٹا اور خوبصورت لفافہ تھا۔ وہ ایک سرکاری مونو گرام سے آراستہ تھا، جس پر ایک شاہی تاج اور نقرئی سجاوٹ تھی۔

    خوش نما خط نے فوری طور پر جواب نہیں دیا۔ اس نے پہلے یہ جانچا کہ اس کا مخاطب کس حیثیت کا مالک ہے، اور یہ دیکھ کر کہ جس گستاخ نے اس کے ساتھ بات کرنے کی جسارت کی ہے وہ ایک صاف اور خوبصورت لفافہ ہے۔ اس نے جواب دینے کا فیصلہ کیا۔

    ”میرے پیارے بچے! مجھ پر لکھے گئے پتے سے آپ نتیجہ نکال سکتے ہیں کہ میں ایک بہت ہی اہم شخص کے پاس جا رہا ہوں۔ ذرا تصور کریں کہ میرے لیے اس اندھیرے اور بدبو دار تھیلے میں لیٹنا کتنا دشوار ہے، خاص طور پر اس طرح کے لفافوں کے ساتھ جیسا میرا بایاں پڑوسی ہے۔ یہ افسوس کی بات ہے کہ آپ اس خاکی اور گندے بدصورت لفافے کو نہیں دیکھ سکتے، جسے موم کے بجائے بریڈ کرمب جیسی کسی چیز سے بند کیا گیا ہے اور ڈاک ٹکٹ کے بجائے اس پر فوجی مہر ہے اور اِس پر پتہ کیا ہے؟ …. یہ کہاں جا رہا ہے؟ بڑی بدخط تحریر ہے….ہاں پیٹرزبرگ کی طرف، کچی گلی تک، اور یہاں تک کہ تہ خانے تک، افف… کیسی بے بسی ہے۔ ایسے پڑوسی کے پاس خود کو گندا ہونے سے نہیں بچایا جاسکتا۔“

    ”یہ میری غلطی نہیں ہے کہ انہوں نے ہمیں ایک ساتھ رکھ دیا ہے۔ “ سپاہی کے خط نے غصیلے لہجے میں جواب دیا۔ ”اور مجھے یہ تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں کہ آپ جیسے شاندار، لیکن خالی اور احمق لفافے کا قرب میرے لیے بیزار کن ہے۔ آپ کا اوپری پیرہن اچھا ہے، لیکن اندر کیا ہے؟ تمام بناوٹی جملے جن میں ایک لفظ بھی سچائی نہیں ہے۔ جس نے آپ کو لکھا، وہ اس شخص کی دل سے عزت نہیں کرتا، جس کے لیے آپ کو لکھا گیا ہے، پھر بھی نیک تمنائیں، دلی مبارکباد اور آخر میں گہرا احترام اور عقیدت۔ حالاں کہ یہ سب بکواس ہے۔ یہاں نہ عزت ہے اور نہ عقیدت، اگر آپ اس عاجز بندے سے کوئی کام کہے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ اس فرض شناسی اور احترام کی خوشبو کیسی ہے۔“

    ”بدتمیز! جاہل! تمہاری ہمت کیسے ہوئی مجھ سے اس لہجے میں بات کرنے کی؟ میں حیران ہوں کہ ڈاکیا تم کو اتنا بے غیرت ہونے کی وجہ سے سڑک پر کیوں نہیں پھینک دیتا، ذرا میرے کوٹ آف آرمز کو دیکھو۔ “

    ”کیا ہتھیاروں کا کوٹ؟“ سپاہی کے خط نے تمسخرانہ انداز میں کہا۔ ”آپ کا کوٹ اچھا ہے، لیکن ہتھیاروں کے کوٹ کے نیچے کیا ہے؟ بے روح اور بناوٹی جملے، سچ کا ایک قطرہ بھی نہیں، سب جھوٹ، نخوت اور تکبر ہے۔“ مہر والا لفافہ غصے سے پھٹنے کے لیے تیار تھا اور شاید وہ پھٹ جاتا۔ اگر اسی لمحے ڈاکیہ اسے تھیلے سے نکال کر ایک عالیشان سنہرے دروازے پر کھڑے دربان کے حوالے نہ کر دیتا۔

    ”خدا کا شکر ہے کہ ایک بیوقوف کم ہوا۔ “ سپاہی کے خط نے بات جاری رکھی۔ ”وہ گاؤدی اور مغرور اس بات پر ناراض ہو رہا ہے کہ وہ میرے ساتھ پڑا ہے… کاش اسے معلوم ہوتا کہ میرے اندر کیا لکھا ہے۔ “

    کولیا کے خط نے جب خود کو اس خاکی لفافے کے ساتھ پایا جس پر فوجی مہر لگی تھی تو تجسس سے پوچھا۔ ”تم میں کیا لکھا ہے؟“

    ”میرے پیارے ملنسار دوست! میں بتاتا ہوں کہ مجھ میں کیا لکھا ہے۔ میں ایک غریب اور خستہ حال بوڑھی عورت کو یہ خبر پہنچانے جارہا ہوں کہ اس کا بیٹا زندہ ہے۔ جب سے وہ فوج میں بھرتی ہوا ہے۔ اس نے اپنے بیٹے کے بارے میں کچھ نہیں سنا۔ دس سال ہوگئے ہیں۔ وہ زندہ ہے، خیریت سے ہے اور جلد ہی چھٹی پر گھر آئے گا۔ یہ سچ ہے کہ میں بری سگ ماہی موم سے بند ہوں، لیکن میں جانتا ہوں کہ اس مہر بند موم کو توڑتے ہوئے بوڑھی عورت کا ہاتھ کیسے کانپے گا۔ یہ سچ ہے کہ میں خراب لکھائی میں تحریر کیا گیا ہوں، لیکن اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں، مجھے ایک سپاہی نے لکھا ہے جس نے یہ فن خود ایک خراب قلم سے سیکھا اور سب سے گھٹیا خاکی کاغذ استعمال کیا، لیکن اگر آپ دیکھ سکتے کہ اس کی آنکھوں سے کیسے ایک گرم آنسو نکلا اور مجھ پر آگرا۔ ایک شاندار آنسو، میں اسے احتیاط سے اس کی ماں کے پاس لے جا رہا ہوں۔ میں جانتا ہوں کہ ایک پرجوش استقبال میرا منتظر ہے۔ اس مغرور آدمی کی طرح نہیں جو خدا کا شکر ہے کہ چلا گیا ہے۔ وہ بمشکل اسے دیکھتے ہیں، پھر اسے پھاڑ کر پہلے میز کے نیچے اور پھر کچرے کے گڑھے میں پھینک دیتے ہیں۔ اس مکتوب نگار کی ماں میرے ہر ہر لفظ پر گرم آنسو بہائے گی۔ وہ مجھے ہزار بار پڑھے گی، ہزار بار پیار سے اپنے سینے سے لگائے گی، پھر وہ مہربان ماں مجھے اپنے سینے میں چھپالے گی۔ اوہ یہ بے صبرا ڈاکیا! …. مجھے کتنی جلدی لے جارہا ہے۔“

    ”تم کہاں جا رہے ہو اور تم میں کیا لکھا ہے؟“ متجسس کولیا کے خط نے اپنے نئے پڑوسی سیاہ مہر والے خط کو مخاطب کرتے ہوئے پوچھا: ”میری مہر کے رنگ سے اندازہ کرو۔ “اس نے جواب دیا۔ ”تم دیکھ رہے ہو کہ میں ایک افسوسناک خبر لایا ہوں۔ غریب لڑکا جو ہسپتال میں ہے مجھے پڑھ کر جانے گا کہ اس کا باپ مرگیا ہے۔ میں بھی آنسوؤں میں بھیگا ہوا ہوں، لیکن یہ خوشی کے آنسو نہیں ہیں۔ میں ایک عورت کے کانپتے ہاتھ سے لکھا گیا جس نے اپنے پیارے شوہر کو کھو دیا ہے، ایک ماں کا ہاتھ جو اپنے بیمار بیٹے کو بتا رہا ہے کہ اس نے اپنے باپ کو کھو دیا ہے۔ بیچارہ وانیا! وہ اس جاں گسل خبر کو کیسے برداشت کر پائے گا؟ میں تصور کرتا ہوں کہ جب وہ میری منحوس مہر کو دیکھے گا تو کتنا خوفزدہ ہوگا، جب وہ مجھ میں لکھی خوفناک خبر پڑھے گا تو وہ کتنا کانپے گا، کیسے تکیے پر منہ کے بل گرے گا اور آنسو بہائے گا۔ آہ! اس طرح کی خبروں کے ہمراہ جانے سے بہتر ہے کہ میں زمین میں دفن ہوجاؤں۔ “

    کسی تعلیمی ادارے کے قریب رک کر ڈاکیے نے اپنے تھیلے میں ہاتھ ڈالا اور کالی مہر والا اداس خط نکال لیا۔ کولیا نے اپنے آپ کو ایک نئے پڑوسی کے ساتھ پایا جو بالکل مختلف نوعیت کا تھا۔

    ”ہاہاہا۔ ۔ ۔ ۔ “ اس نے کولیا کے خط کا قہقہہ لگا کر جواب دیا۔ ”کاش تم کو معلوم ہوتا کہ مجھ میں کیا مزاحیہ باتیں لکھی گئی ہیں؟ میرا مکتوب نگار ایک خوش مزاج آدمی ہے۔ میں جانتا ہوں جو مجھے پڑھے گا وہ ضرور ہنسے گا۔ اگرچہ مجھ میں تمام الم غلم باتیں لکھی ہوئی ہیں، لیکن وہ سب مضحکہ خیز ہیں۔ “

    دوسرے خطوط نے بھی ان کی گفتگو سن کر اس میں فرداً فرداً حصہ لیا۔ ہر کوئی اس بات کا اظہار کرنے کی جلدی میں تھا کہ وہ کیا خبر لے جارہا ہے۔

    ’’میں ایک امیر سوداگر کے لیے خبر لا رہا ہوں کہ اس کا سامان گراں قدر نرخوں پر فروخت ہوا ہے۔ “

    ”میں دوسرے کو بتا رہا ہوں کہ وہ دیوالیہ ہو گیا ہے۔“

    ”میں واسیا کو سرزنش کرنے جا رہا ہوں کہ اس نے اتنے عرصے سے اپنے والدین کو خط کیوں نہیں لکھا۔“

    بہرکیف وہ سب خطوط ڈاکیے کے تھیلے میں آپس میں باتیں کرتے رہے۔ اس دوران وہ سڑکوں پر سائیکل دوڑاتا رہا اور خوشی اور غم، ہنسی اور اداسی، محبت اور غصہ، دوستی اور نفرت، سچ اور جھوٹ، اہم اور احمقانہ خبریں، اور بے روح جملے گھر گھر پہنچاتا رہا۔

    آخر کار کولیا کے خط کی باری بھی آگئی۔ ڈاکیے نے چوکیدار کو، چوکیدار نے نوکرانی کو، نوکرانی نے بوڑھی دادی کو خط دیا، جو کھڑکی کے پاس بیٹھی تھیں اور آنکھوں پر موٹے شیشوں کی عینک لگائے جرابیں بن رہی تھیں۔ دادی نے خط کھولا، ایک خالی شیٹ نمودار ہوئی، انہوں نے حیرت سے اسے دیکھا، ان کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ ان کے ساتھ ایسا احمقانہ مذاق کس نے کیا ہے۔

    (روسی ادب سے ترجمہ)

  • پانچ پاؤنڈ کا چراغ (دل چسپ کہانی)

    پانچ پاؤنڈ کا چراغ (دل چسپ کہانی)

    سَنی نے کئی بار پیسے گنے لیکن ہر بار نتیجہ ایک جیسا رہا۔ اُن پیسوں میں کوئی اضافہ نہیں ہوا۔ ایک پاؤنڈ چونتیس پنس اور بس……!

    ”تمہیں پیسے احتیاط سے خرچ کرنے چاہییں۔“ اُس کے بھائی وکی نے کہا۔ ”پیسے جمع کیا کرو، وہ چیزیں مت خریدا کرو جن کی تمہیں ضرورت نہ ہو۔“ وکی ہمیشہ اچھی نصیحتیں کرتا تھا لیکن سَنی بھی ایک کان سے سن کر دوسرے سے اڑا دیتا تھا۔

    ”مجھے دیکھو! میں بچّوں کو ٹیوشن پڑھاتا ہوں، روز اسکول جانے سے پہلے لوگوں کے گھروں میں اخبار دینے جاتا ہوں اور جو پیسے ملتے ہیں، اُنہیں جمع کرتا رہتا ہوں تاکہ کوئی ضرورت کی چیز لے سکوں۔“

    سَنی کو رقم جمع کرنا تو اچھا لگتا تھا، لیکن پیسے کمانے کا خیال اُسے پسند نہیں تھا۔ وہ سوچتا کہ کیا ممکن ہے؟ کوڑھ مغز بچّوں کو ٹیوشن پڑھانا یا صبح سویرے گرم بستر سے نکل کر باہر سردی میں اخبار دینے جانا۔ نہیں ہرگز نہیں!

    ”امّی کی سال گرہ آرہی ہے اور انھیں تحفہ دینے کے لیے میرے پاس پیسے نہیں ہیں۔“ سَنی وکی کی باتیں اَن سنی کرتے ہوئے بڑبڑایا۔ ”ظاہر ہے! پیسہ کمانے اور محفوظ رکھنے کے لیے کچھ نہ کچھ محنت کرنا پڑتی ہے اور مجھے معلوم ہے کہ محنت تم کرنا نہیں چاہتے۔“ وکی بولا۔

    سَنی نے ٹھنڈی سانس بھری، لیکن پھر اچانک ہی اُس کے دماغ میں ایک زبردست خیال آیا کہ کیوں نہ اپنے گھر سے کچھ فاصلے پر پرانے سامان کی دکان سے وہ اپنی امّی کے لیے کوئی تحفہ لے آئے۔ ”اصل تو انسان کی نیت ہوتی ہے! سستا، مہنگا کیا ہوتا ہے۔“ اُس نے خود سے کہا۔

    پندرہ منٹ بعد وہ پرانے سامان کی دکان پر کھڑا تھا۔ یہاں اُسے پرانی میزیں، کرسیاں، تصاویر اور سامانِ آرائش نظر آیا۔ زیادہ تر چیزیں بہت ردّی حالت میں تھیں، پھر سَنی کو اچانک ایک زنگ آلود چراغ نظر آگیا: ”امّی کو نوادرات سے خاصی دل چسپی ہے اور یہ زنگ آلود چراغ بہت نادر معلوم ہوتا ہے۔“ اُس نے سوچا۔ ”یہ کتنے کا ہے؟“ سَنی نے دکان دار سے پوچھا۔

    ”ایک پاؤنڈ اور چونتیس پنس۔“ دکان دار کا جواب سن کر سَنی خوش ہوگیا۔ ”آپ ایسا کریں، یہ چراغ مجھے دے دیں۔“ اس نے فوراً اپنی کُل جمع پونجی دکان دار کے حوالے کرتے ہوئے کہا۔ دکان سے نکل کر اُس نے چراغ اپنی بائیک کی باسکٹ میں احتیاط سے رکھا اور روانہ ہونے ہی والا تھا کہ ایک بہت بڑی کار دکان کے باہر آکر رُکی۔ ایک لمبا چوڑا شخص قیمتی سوٹ پہنے کار سے باہر آیا۔ اُس نے سن گلاسز لگائے ہوئے تھے۔

    ”میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ اتنے امیر لوگ بھی کباڑیے کی دکانوں سے خریداری کرتے ہوں گے۔“ سَنی نے حیران ہو کر سوچا، پھر اُس نے بائیک اسٹارٹ کی، لیکن فوراً ہی اُسے اپنے پیچھے کار کا ہارن سنائی دیا۔ یہ وہی بڑی کار تھی جو اُس نے دکان کے باہر دیکھی تھی۔ کار اُس سے آگے نکل گئی اور پھر اُس کا راستہ روک لیا۔ سَنی نے بڑی مشکل سے بریک لگائے۔ کار کی کھڑکی کھلی اور لمبے چوڑے شخص نے باہر جھانکا۔

    ”اس حرکت کا مطلب؟ ابھی ایکسیڈنٹ ہوتے بچا ہے۔“ سَنی نے غُصّے سے کہا۔

    ”بہت معذرت! میرا ڈرائیور بعض اوقات بہت بے احتیاطی کا مظاہرہ کرتا ہے۔“ آدمی نے مسکرا کر کہا اور دوبارہ گویا ہوا: ”مجھے اپنا تعارف کرانے دیجیے۔ میرا نام بلڈ ہاؤنڈ ہے۔“ یہ کہتے ہوئے اُس کی مُسکراہٹ اور گہری ہوگئی۔

    سَنی جانتا تھا کہ اُسے اجنبیوں سے بات نہیں کرنی چاہیے اسی لیے اُس نے بائیک دوبارہ اسٹارٹ کر دی، لیکن بلڈ ہاؤنڈ نے جلدی سے کہا: ”تم یقیناً حیران ہو رہے ہوگے کہ ہم نے تمہارا راستہ کیوں روکا؟ تو سنو! میں کئی برس سے ایک خاص چیز کی تلاش میں تھا۔ آج مجھے پتا چلا کہ وہ چیز اُس دکان پر مل سکتی ہے، لیکن جب میں دکان پر آیا تو مجھے پتا چلا کہ تم وہ چیز پہلے ہی خرید چکے ہو۔“

    ”اوہ! تو یہ چراغ کا چکّر ہے مگر میں یہ چراغ نہیں دوں گا۔“ سَنی نے کندھے اچکائے۔

    ”میرے خیال میں تم میری بات سمجھے نہیں۔“ بلڈ ہاؤنڈ کی آواز سرد ہو گئی: ”پیسوں کے لحاظ سے اس چراغ کی کوئی اہمیت نہیں ہے لیکن مجھے اس چراغ سے ایک ذاتی لگاؤ ہے اسی لیے میں تم سے یہ چراغ خریدنا چاہتا ہوں۔“

    ”بہت معذرت! میں یہ چراغ بیچنا نہیں چاہتا۔“ سَنی نے کہا۔

    ”سو پاؤنڈ میں بھی نہیں؟“ سَنی کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔

    ”سو پاؤنڈ!“ وہ چراغ باسکٹ سے نکال کر اُس کے حوالے کرنے ہی والا تھا کہ اُس نے بلڈ ہاؤنڈ کی آنکھوں میں لالچ کی چمک دیکھی۔ وہ یک دم ٹھٹک گیا۔

    ”نہیں! ہوسکتا ہے، یہ چراغ سو پاؤنڈ سے زیادہ قیمتی ہو۔“ اُس نے سوچا اور پھر تیزی سے اپنا سر نفی میں ہلا دیا۔

    ”ایک ہزار پاؤنڈ؟“ بلڈ ہاؤنڈ نے بولی لگانے والے انداز میں کہا۔ سَنی کی سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ کیا جواب دے۔ شاید یہ کوئی انمول چراغ ہے اور پھر اس شخص کا چہرہ کس قدر سفّاک اور مکروہ لگ رہا ہے، چناں چہ اُس نے پھر نفی میں سَر ہلا دیا۔

    بلڈ ہاؤنڈ کی بھنویں تن گئیں، اپنے ڈرائیور کی طرف دیکھ کر پر چلّایا: ”بہت ہوگیا! اس لڑکے سے چراغ چھین لو!“

    ڈرائیور گاڑی سے اُترا اور اُس کی طرف لپکا۔ وہ سَنی سے بہت طاقت ور تھا لیکن جب سَنی بائیک پر سوار ہو تو اُس کی تیز رفتاری کو شکست نہیں دی جاسکتی، پھر یہی ہوا۔ جلد ہی وہ اُن کی پہنچ سے دور تھا۔ ساتھ ہی سَنی نے گاڑی کے اسٹارٹ ہونے کی آواز سنی۔ یقیناً وہ لوگ کار میں اُس کا تعاقب کررہے تھے۔ اُس نے جلدی سے اپنی بائیک، پتلی تنگ گلیوں میں گھسا دی تاکہ کار والے اُس تک نہ پہنچ سکیں۔ آخر کار وہ کئی گلیوں سے ہوتا ہوا اپنے گھر پہنچ گیا۔

    وہ وکی کو یہ سارا واقعہ سُنانے کے لیے بے چین تھا، لیکن گھر آکر پتا چلا کہ اُس کا بھائی ٹیوشن پڑھانے جا چکا ہے۔ اُس نے چراغ میز پر رکھ دیا۔ یہ ایک عام سا چراغ لگ رہا تھا، لیکن سَنی جانتا تھا کہ یہ یقیناً بے حد قیمتی چراغ ہے جب ہی تو بلڈ ہاؤنڈ اسے ہر حالت میں حاصل کرنا چاہتا تھا۔ سَنی نے دل ہی دل میں منصوبہ بندی کر لی۔ وہ پہلے اپنی امّی کو یہ چراغ بطور تحفہ دے گا، پھر وہ اسے نوادرات کے کسی ماہر کے پاس لے کر جائیں گے تاکہ چراغ کی اصل قیمت کا علم ہوسکے اور پھر…… اُف! وہ کتنے امیر ہو جائیں گے۔“ وہ خیالوں کی دنیا میں گم تھا۔

    اُس نے جھاڑن اُٹھا کر چراغ کو صاف کرنا شروع کیا، لیکن اچانک کمرے میں جیسے بجلی چمکنے لگی ہو۔ پرانی جرابوں کی تیز بدبو آئی اور پھر کمرے میں دھواں بھر گیا۔ جوں ہی دھواں چَھٹا، اُس نے دیکھا کہ وہ کمرے میں اکیلا نہیں ہے بلکہ ایک عجیب و غریب سا آدمی تھری پیس سُوٹ میں ملبوس ہاتھ میں بریف کیس لیے میز کے سامنے کھڑا ہے۔ اور اُس کا قد اتنا لمبا ہے کہ سَر چھت سے ٹکرا رہا ہے۔

    ”کیا حکم ہے میرے آقا! میں اس چراغ کا جنّ ہوں اور آج کے دن آپ کی خواہشات پوری کرنے کے لیے یہاں موجود ہوں۔“ اُس نے گونج دار آواز میں کہا۔ سَنی کچھ دیر کے لیے حیران و پریشان ہوا، لیکن وہ ڈرنے والا نہیں تھا۔ کچھ ہی لمحوں میں اُس نے اپنے اوپر قابو پالیا۔ اس سے قبل کے وہ کچھ بول پاتا، جن کہنے لگا: ”اب میں ذرا آپ کو خواہشات ظاہر کرنے کے اصول سمجھا دوں۔“

    جی نہیں شکریہ! میں اس بارے میں سب کچھ پہلے ہی جانتا ہوں۔ میں کوئی سی بھی تین خواہشات کرسکتا ہوں۔“ سَنی نے اُس کی بات کاٹ دی۔

    ”اوہو! نہیں بھئی! یہ سسٹم آج سے دو سو سال پہلے ہماری ”جن یونین“ نے ختم کردیا تھا۔ اب جونیا سسٹم آیا ہے، اُس کے مطابق چراغ کا مالک دو گھنٹے کے اندر کوئی بھی خواہش کرسکتا ہے۔ دو گھنٹے کے بعد جن دوبارہ چراغ میں واپس چلا جائے گا۔ اس کے علاوہ دیگر اُصول و قوانین کچھ یوں ہیں ……“

    ”ٹھیک ہے، ٹھیک ہے۔“ سَنی نے ایک بار پھر اُس کی بات کاٹ دی۔ ”زیادہ تفصیلات میں جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ میرے پاس دو گھنٹے ہیں۔ کیا تم مجھے دس لاکھ پاؤنڈ دے سکتے ہو؟“

    ”ہاں!“ جن نے اکتاہٹ سے بھرپور لہجے میں کہتے ہوئے سرد آہ بھری اور چٹکی بجائی لیکن کچھ بھی نہیں ہوا۔

    ”یہ کیا بھئی……؟“ سَنی نے مایوسی سے کہا۔

    ”کیا مطلب؟ تو کیا تمہارے سامنے سونے کے سکّوں سے بھرا ہوا کوئی صندوق آجاتا ابھی؟ ہم اب ان پرانے طریقوں سے کام نہیں کرتے۔ اپنی جیب میں دیکھو!“ جن نے برا سا منہ بنایا۔

    سَنی نے جیب میں ہاتھ ڈالا تو ایک کاغذ برآمد ہوا۔ یہ اُس کے بینک اکاؤنٹ کا اسٹیٹمنٹ تھا۔ ”دس لاکھ پاؤنڈ اور تین ین۔“ اُس نے باآواز بلند پڑھا۔

    ”تین ین تمہارے اکاؤنٹ میں پہلے سے موجود تھے۔“ جن نے وضاحت کی۔ سَنی نے خوشی سے ہاتھ مَلے۔ اُس کا ذہن تیزی سے کام کررہا تھا۔

    جب وکی ٹیوشن پڑھا کر گھر لوٹا تو حیران و پریشان رہ گیا۔ اُس کے گھر کی جگہ سنگ مَر مَر کا ایک عالی شان محل کھڑا تھا۔ وہ ڈرتے، ڈرتے اندر داخل ہوا تو اُس کی حیرت میں مزید اضافہ ہوگیا۔ کیا وہ راستہ بھٹک کر کسی بادشاہ کے محل میں آگیا ہے! وہ واپس جانے کے لیے مڑ ہی رہا تھا کہ اُسے کچن سے سَنی کی آواز سُنائی دی: ”ہیلو! وکی بھائی!“

    ”یہ…… یہ سب کیا ہے سَنی؟“ اُس نے کچن میں داخل ہوتے ہی پوچھا۔

    ”میرے نئے دوست سے ملو وکی!“ سَنی نے جنّ کی طرف اشارہ کیا تو وکی جنّ کو دیکھتے ہی خوف سے بے ہوش ہوگیا۔

    جب اُسے ہوش آیا تو جنّ بدستور وہاں موجود تھا۔ ”دوبارہ بے ہوش نہ ہونا! میں بتاتا ہوں، یہ کیا معاملہ ہے۔“ سَنی نے جلدی سے کہا اور ساری تفصیل وکی کو سنا دی۔

    ”لیکن کیا ہمارے پڑوسی یہ سب دیکھ کر حیران نہیں ہوئے؟“ وکی نے کہا۔

    سَنی مسکرایا۔ ”بہت آسان بات ہے۔ میں نے خواہش کی ہے کہ یہ سب تبدیلیاں ہم گھر والوں کے سوا اور کسی کو نظر نہ آئیں۔“

    ”اوہ! امّی ابّو شام کو آئیں گے تو یہ دیکھ کر کتنا حیران ہوں گے!“ وکی نے کہا۔

    ”ہاں! اور میرے بھائی! آج تمہارا خیال بھی غلط ثابت ہوگیا ہے۔ بعض دفعہ ہم بغیر محنت اور بغیر پیسے کے بھی بہت کچھ حاصل کرسکتے ہیں۔“ سَنی نے فخر سے کہا۔

    یہ سُن کر جن آہستہ سے کھنکھارا: ”کیا کہا؟ بغیر محنت اور پیسے کے؟“

    ”ہاں تو اور کیا؟“ سنی نے کہا۔

    ”تمہارا خیال بالکل غلط ہے۔ میں تمہیں چراغ استعمال کرنے کے سارے اُصول و ضوابط شروع میں ہی سمجھانے جا رہا تھا، لیکن تم نے میری ایک نہ سنی۔ جنّ یونین نے قوانین میں بہت ترمیم کی ہے۔ ہم نے طے کیا ہے کہ جو بھی کام کریں گے، اُس کا معاوضہ خواہش کرنے والے سے وصول کریں گے۔ ہم کیوں مفت میں دوسروں کے کام کرتے پھریں؟ دو گھنٹے پورے ہوتے ہی ہم خواہش کرنے والے کو اس کا بِل پیش کر دیتے ہیں۔“

    ”بِل؟ یعنی مجھے ان سب چیزوں کی قیمت ادا کرنا ہو گی؟“ سَنی چلّایا۔

    ”بالکل! اور یہ تو تمہیں معلوم ہی ہوگا کہ محل اتنے سستے نہیں ہوتے اور نہ ہی وہ سب چیزیں جو اس وقت یہاں نظر آرہی ہیں۔“ جنّ مسکرایا۔ وکی نے مایوسی سے سر ہلایا۔ اُس کا بھائی ایک بہت بڑی مصیبت میں پھنس گیا تھا۔

    ”اور بل کہاں ہے؟“ سنی نے ہکلاتے ہوئے پوچھا۔ جن نے اپنی جیب سے بل نکالنا شروع کردیا جو اتنا لمبا تھا کہ کمرے کے دروازے سے باہر تک چلا گیا۔ سَنی کا رنگ زرد پڑ گیا۔

    ”اگر میں یہ خواہش کروں کہ مجھے یہ پورا بل بھرنے کے پیسے مل جائیں تو؟“ اُس نے جلدی سے پوچھا۔

    ”تو اس خواہش کے نتیجے میں جو پیسے ملیں گے، تمہیں وہ بھی لوٹانے ہوں گے۔“ جّن ایک بار پھر مسکرایا۔

    ”اوہ! اب میں کیا کروں؟ کیا اس مصیبت سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں ہے؟“ سَنی نے سر پکڑ لیا۔ ”ایک راستہ یہ ہے کہ تم ہماری اس فیکٹری میں کام کرنا شروع کر دو جہاں ہم یہ خواہشاتی محل اور دیگر سامان تیار کرتے ہیں۔ ایک منٹ!“

    یہ کہہ کر جنّ نے جیب سے کیلکولیٹر نکالا: ”تم اگر بارہ ہزار آٹھ سو ساٹھ سال اس فیکٹری میں کام کرو تو یہ بِل ادا ہوسکتا ہے۔“ اُس نے حساب لگا کر بتایا۔

    ”لیکن یہ ناممکن ہے۔“ سَنی نے رو کر کہا۔

    ”قانون تو پھر قانون ہے۔ اگر یہ بل ادا نہ کیا تو سنگین نتائج بھگتنے کے لیے تیار رہو۔“ جّن نے کندھے اُچکائے۔ سَنی نے بے بسی سے گھڑی پر نگاہ ڈالی۔ دو گھنٹے پورے ہونے میں صرف چالیس منٹ باقی تھے۔

    ”کیا تمہارے پاس یہ نئے قوانین کتابی شکل میں موجود ہیں؟“ وکی نے کچھ سوچ کر کہا تو جنّ نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈال کر ایک پتلی سی کتاب نکالی اور وکی کے ہاتھ میں تھما دی۔ وکی جلدی، جلدی ورق گردانی کرنے لگا۔ بظاہر اس مشکل سے نکلنے کا کوئی راستہ نظر نہیں آرہا تھا لیکن پھر اچانک وکی کو ایک کام کی شِق نظر آہی گئی۔

    ”اگر چراغ کا مالک دوگھنٹے سے قبل چراغ کسی اور کے ہاتھ فروخت کر دے، لیکن یہ وہ شخص نہیں ہوسکتا جس سے اس نے چراغ خریدا ہے، تو اُس کی تمام خواہشات صِفر ہوجائیں گی اور معاہدہ ختم ہوجائے گا۔“ اُس نے باآوازِ بلند پڑھا۔

    ”اِس کا کیا مطلب ہے؟“ سَنی نے سر کھجایا۔

    ”مطلب یہ ہے کہ اگر تم نے یہ چراغ دو گھنٹے سے پہلے فروخت کر دیا، تو یہ محل و دیگر سامان غائب ہو جائے گا اور تمہیں اس کا بِل ادا نہیں کرنا پڑے گا، لیکن تم اب یہ چراغ دوبارہ اس دکان پر نہیں بیچ سکتے جہاں سے خریدا تھا۔

    سوال یہ ہے کہ تم اسے بیچو گے کہاں؟ تمہارے پاس صرف بیس منٹ رہ گئے ہیں۔“ وکی نے پریشان ہو کر کہا۔ سَنی کے دماغ میں ایک جھماکا سا ہوا: ”بلڈ ہاؤنڈ! وہ اس چراغ کو حاصل کرنا چاہتا تھا۔ میں یہ چراغ اس کو بیچ سکتا ہوں لیکن مجھے اُس کا گھر معلوم نہیں ہے۔“ اُس نے اپنے بھائی کو جلدی، جلدی بتایا۔

    ”جنّ بھائی! کیا تم مجھے اس کے گھر لے جاسکتے ہو؟“ نہیں! ہمارے قانون کی ایک شِق کہتی ہے کہ ہم چراغ کا نیا گاہک ڈھونڈنے میں کوئی مدد نہیں کرسکتے ہیں۔“ جنّ نے نفی میں سر ہلایا۔

    ”سَنی! کیا تمہیں اس کی گاڑی کا نمبر یاد ہے؟“ وکی نے پوچھا۔

    ”ہاں! بی بی ایکس دو سو چھے۔“ سَنی کی یاد داشت بہت اچھی تھی۔ وکی کی بھی کم نہ تھی۔ وہ یہ نمبر سنتے ہی اچھل پڑا۔

    ”سَنی! اس گاڑی کا مالک یہاں سے چار گلیوں کے فاصلے پر جو مارکیٹ ہے، اُس کے پیچھے واقع ایک بنگلے میں رہتا ہے۔ میں اس کے برابر والے گھر میں ٹیوشن پڑھانے جاتا ہوں، یہ لو ایڈریس!“ وکی نے جلدی سے ایک کاغذ پر پتا لکھتے ہوئے کہا۔

    ”لیکن یہاں سے اس جگہ کا فاصلہ تقریباً پندرہ منٹ ہے اور اب ہمارے پاس صرف پندرہ ہی منٹ بچے ہیں۔“ وہ پریشان ہوکر بولا۔

    ”جنّ بھائی! فوراً چراغ کے اندر جاؤ۔“ سَنی چلّایا۔ جنّ یہ سنتے ہی دھواں بن کر چراغ کے اندر گھس گیا۔ سَنی باہر کی طرف دوڑا۔ اُس نے پوری زندگی میں کبھی اتنی تیز بائیک نہیں چلائی ہوگی۔ اس کی سانس پھول رہی تھی، لیکن اُس نے ہمّت نہیں ہاری۔ آخر کار وہ بلڈ ہاؤنڈ کے گھر کے دروازے پر پہنچ ہی گیا۔ آخری پانچ منٹ!! اُس نے گھڑی پر ایک نظر ڈالی اور بیل پر اُنگلی رکھ دی۔ جب تک دروازہ کھل نہ گیا، اُس نے اپنی انگلی بٹن سے نہیں ہٹائی۔

    ”کون بدتمیز ہے؟“ دروازہ کھولنے والا دہاڑا، یہ بلڈ ہاؤنڈ تھا۔ اُس نے جب سَنی کو چراغ کے ساتھ دروازے پر کھڑا پاپا تو اُس کی آنکھیں چمکنے لگیں۔ اب صرف دومنٹ باقی تھے۔ ”میں نے اپنا ارادہ بدل دیا ہے۔ آپ یہ چراغ لے سکتے ہیں۔“ سَنی نے جلدی، جلدی کہا۔ بلڈ ہاؤنڈ لالچی تھا مگر بے وقوف نہیں۔

    ”تم نے اپنا ارادہ کیوں بدل لیا؟“ اُس نے شک بھرے لہجے میں پوچھا۔

    ”کیوں کہ…… کیوں کہ……“ سَنی کا دماغ تیزی سے کام کر رہا تھا ”کیوں کہ اس میں ایک طرف خراش پڑی ہوئی ہے اور اس کا رنگ بھی خراب ہوگیا ہے۔ میرے گھر میں یہ کسی کو بھی پسند نہیں آیا۔“ وہ دل ہی دل میں کہتا جارہا تھا، ”پلیز! میری بات کا یقین کر لو! میرے پاس بالکل بھی وقت نہیں ہے۔“

    ”اور تمہیں اس چراغ میں کوئی خاص بات محسوس نہیں ہوئی؟“ بلڈ ہاؤنڈ نے پوچھا۔ ”جی نہیں۔“ سَنی نے فوراً کہا: ”اس چراغ میں خراش پڑی ہوئی ہے اور اس کا رنگ بھی اُترا ہوا ہے، تو اس لیے اب میں تمہیں اس کے صرف پانچ پاؤنڈ دے سکتا ہوں۔“

    ”منظور ہے۔“ سنی نے اُس کا جملہ پورا ہوتے ہی کہا۔ بلڈ ہاؤنڈ نے جیب سے پانچ پاؤنڈ کا نوٹ نکال کر سَنی کے ہاتھ پر رکھا اور چراغ چھین کر دروازہ بند کر لیا۔ سنی نے پانچ پاؤنڈ کے نوٹ کو خوشی سے لہرایا۔

    ”چراغ تمہیں مبارک ہو مسٹر بلڈ ہاؤنڈ! امّی کی سال گرہ کے تحفے کے لیے مجھے کافی پیسے مل گئے ہیں۔ اُمید ہے تم جنّ سے اتنی ہی فرمائشیں کرو گے جتنا کہ تم بِل بھر سکو۔“

    (بچّوں کے ادیب پال شپٹن کی اس کہانی کا اردو ترجمہ گل رعنا صدیقی نے کیا ہے)

  • کام یاب یتیم خانہ

    کام یاب یتیم خانہ

    یتیم خانے کے انچارج نے مجھے بتایا، ’’ان سب بچّوں کے ماں باپ مَر چکے ہیں۔‘‘

    ’’افسوس!‘‘

    ’’افسوس کی کوئی بات نہیں۔ ہم انہیں پالیں پوسیں گے۔ انہیں کام سکھائیں گے، انہیں با روزگار بنائیں گے، ان کی شادیاں کریں گے۔ ان کے بچّے پیدا ہوں گے۔‘‘

    ’’اور پھر ان میں سے کئیوں کے بچّے یتیم ہوجائیں گے۔ افسوس!‘‘

    ’’افسوس کی کوئی بات نہیں، کیوں کہ ہم انہیں پھر یتیم خانے میں داخل کر دیں گے۔ آپ شاید نہیں جانتے کہ ہمارا یتیم خانہ گزشتہ ایک سو سال سے قائم ہے اور بڑی کام یابی سے چل رہا ہے۔‘‘

    (اردو کے معروف ادیب اور مزاح نگار فکر تونسوی کے قلم سے)

  • قصہ ایک بھیڑیے کا (سبق آموز کہانی)

    قصہ ایک بھیڑیے کا (سبق آموز کہانی)

    ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ چاندنی رات میں ایک دبلے پتلے، سوکھے مارے بھوکے بھیڑیے کی ایک خوب کھائے پیے، موٹے تازے کتّے سے ملاقات ہوئی۔

    دعا سلام کے بعد بھیڑیے نے اس سے پوچھا، ’’اے دوست! تُو تو خوب تر و تازہ دکھائی دیتا ہے۔ سچ کہتا ہوں کہ میں نے تجھ سے زیادہ موٹا تازہ جانور آج تک نہیں دیکھا۔ بھائی! یہ تو بتا کہ اس کا کیا راز ہے؟ میں تجھ سے دس گنا زیادہ محنت کرتا ہوں اور اس کے باوجود بھوکا مرتا ہوں۔‘‘

    کتّا یہ سن کر خوش ہوا اور اس نے بے نیازی سے جواب دیا، ‘’اے دوست! اگر تُو بھی میری طرح کرے تو مجھے یقین ہے کہ تُو بھی میری طرح خوش رہے گا۔‘‘

    بھیڑیے نے پوچھا، ’’بھائی! جلدی بتا، وہ بات کیا ہے؟‘‘

    کتّے نے جواب دیا، ’’تو بھی میری طرح رات کو گھر کی چوکیداری کر اور چوروں کو گھر میں نہ گھسنے دے۔ بس یہی کام ہے۔”

    بھیڑیے نے کہا ’’بھائی! میں دل و جان سے یہ کام کروں گا۔ اس وقت میری حالت بہت تنگ ہے۔ میں ہر روز کھانے کی تلاش میں سارے جنگل میں حیران و پریشان مارا مارا پھرتا ہوں۔ بارش، پالے اور برف باری کے صدمے اٹھا تا ہوں، پھر بھی پیٹ پوری طرح نہیں بھرتا۔ اگر تیری طرح مجھے بھی گرم گھر رہنے کو اور پیٹ بھر کھانے کو ملے تو میرے لیے اس سے بہتر کیا بات ہے۔‘‘

    کتّے نے کہا، ’’یہ جو کچھ میں کہہ رہا ہوں، سچ ہے۔ اب تو فکر مت کر۔ بس میرے ساتھ چل۔‘‘ یہ سن کر بھیڑیا کتّے کے ساتھ ساتھ چل دیا۔

    ابھی وہ کچھ دور ہی گئے تھے کہ بھیڑیے کی نظر کتّے کے گلے پر پڑے ہوئے اس نشان پر پڑی جو گلے کے پٹّے سے پڑ گیا تھا۔

    بھیڑیے نے پوچھا، ’’اے دوست! تیرے گلے کے چاروں طرف یہ کیا نشان ہے؟

    کتّے نے کہا، ’’کچھ نہیں۔‘‘

    بھیڑیے نے پھر کہا، ’’اے دوست! بتا تو سہی یہ کیا نشان ہے؟‘‘

    کتّے نے دوبارہ پوچھنے پر جواب دیا ’’اگر تُو اصرار کرتا ہے تو سن، میں چونکہ درندہ صفت ہوں۔ دن کو میرے گلے میں پٹّا ڈال کر وہ باندھ دیتے ہیں تاکہ میں سو رہوں اور کسی کو نہ کاٹوں اور رات کو پٹّا کھول کر چھوڑ دیتے ہیں تاکہ میں چوکیداری کروں اور جدھر میرا دل چاہے جاؤں۔ رات کو کھانے کے بعد میرا مالک میرے لیے ہڈیوں اور گوشت سے تیار کیا ہوا راتب میرے سامنے ڈالتا ہے اور بچوں سے جو کھانا بچ جاتا ہے، وہ سب بھی میرے سامنے ڈال دیتا ہے۔ گھر کا ہر آدمی مجھ سے پیار کرتا ہے۔ جمع خاطر رکھ، یہی سلوک، جو میرے ساتھ کیا جاتا ہے، وہی تیرے ساتھ ہو گا۔‘‘

    یہ سن کر بھیڑیا رک گیا۔ کتّے نے کہا، ’’چلو چلو! کیا سوچتے ہو۔‘‘

    بھیڑیے نے کہا، ’’اے دوست! مجھے تو بس معاف کرو۔ یہ خوشی اور آرام تجھے ہی مبارک ہوں۔ میرے لیے تو آزادی ہی سب سے بڑی نعمت ہے۔ جیسا تُو نے بتایا اس طرح اگر کوئی مجھے بادشاہ بھی بنا دے تو مجھے قبول نہیں۔‘‘

    یہ کہہ کر بھیڑیا پلٹا اور تیزی سے دوڑتا ہوا جنگل کی طرف چل دیا۔

  • بے خبری کا فائدہ (مختصر کہانی)

    بے خبری کا فائدہ (مختصر کہانی)

    اردو کے نام ور ادیب اور مشہور افسانہ نگار سعادت حسن منٹو کی مختصر کہانیاں (افسانچے) تقسیمِ ہند اور اس سے جڑے ان واقعات کی عکاس ہیں جو بربریت، دہشت، طاقت، جنون، وحشت، اختیار، بے حسی، سفاکی اور دوسری جانب مجبوری و بے بسی، غربت و افلاس اور خوف کے بطن سے جنم لیتے ہیں۔

    یہ ایک ایسی ہی کہانی ہے جو جنون، ڈر اور خوف کے ساتھ درندہ صفت انسان کی نفسیاتی کیفیت کی عکاس ہے۔ ملاحظہ کیجیے۔

    لبلبی دبی۔ پستول سے جھنجھلا کر گولی باہر نکلی۔ کھڑکی میں سے باہر جھانکنے والا آدمی اسی جگہ دہرا ہوگیا۔

    لبلبی تھوڑی دیر کے بعد پھر دبی۔ دوسری گولی بھنبھناتی ہوئی باہر نکلی۔ سڑک پر ماشکی کی مشک پھٹی۔ اوندھے منہ گرا اور اس کا لہو مشک کے پانی میں حل ہوکر بہنے لگا۔

    لبلبی تیسری بار دبی۔ نشانہ چوک گیا۔ گولی ایک گیلی دیوار میں جذب ہوگئی۔

    چوتھی گولی ایک بوڑھی عورت کی پیٹھ میں لگی۔ وہ چیخ بھی نہ سکی اور وہیں ڈھیر ہوگئی۔

    پانچویں اور چھٹی گولی بیکار ہوگئی۔ کوئی ہلاک ہوا نہ زخمی۔

    گولیاں چلانے والا بھنا گیا۔ دفعتا سڑک پر ایک چھوٹا سا بچہ دوڑتا دکھائی دیا۔

    گولیاں چلانے والے نے پستول کا منہ اس طرف موڑا۔ اس کے ساتھی نے کہا، ’’یہ کیا کرتے ہو؟‘‘

    گولیاں چلانے والے نے پوچھا، ’’کیوں؟‘‘

    ’’گولیاں تو ختم ہوچکی ہیں۔‘‘

    ’’تم خاموش رہو۔ اتنے سے بچّے کو کیا معلوم؟‘‘

  • ایثار (ایک دل گداز کہانی)

    ایثار (ایک دل گداز کہانی)

    میں شکار کھیلنے کے بعد گھر کے باغ کی روش پر سے گزر رہا تھا۔ میرا وفادار کتّا مجھ سے چند گز کے فاصلے پر دوڑا چلا جارہا تھا۔ یک لخت اس کی رفتار مدھم پڑ گئی۔ اگلے پنجوں کو اس طرح اٹھانے لگا گویا کسی شکار کو سونگھ رہا ہے۔

    جب میں نے روش پر نظر دوڑائی۔ تو مجھے قریب ہی زمین پر چڑیا کا ایک بچّہ دکھائی دیا جس کی چونچ زرد تھی۔ اور بدن پر نرم نرم روئیں اگ رہے تھے۔ یہ غالباً اپنے گھونسلے سے گر پڑا تھا۔ کیوں کہ آج ہوا بہت تیز چل رہی تھی اور روش کے آس پاس لگے ہوئے درخت زور زور سے ہل رہے تھے۔

    معصوم بچّہ چپ چاپ زمین پر بیٹھا ہوا تھا۔ اڑنے کے لیے ننھّے ننھّے پر پھیلاتا، مگر اتنی طاقت نہ تھی کہ پرواز کرسکے۔ بے چارہ پھڑپھڑا کر رہ جاتا۔

    میرا کتّا اس کی طرف آہستہ آہستہ جارہا تھا کہ دفعتاً قریب کے درخت سے ایک چڑیا اتری اور کتّے اور بچّے کے درمیان زمین پر اس طرح آپڑی جیسے پتّھر گر پڑا ہو۔

    کتّے کے کھلے ہوئے جبڑوں کی طرف دیکھ کر ایک درد ناک اور رحم طلب آواز میں چلائی اور اس کی طرف جھپٹ پڑی۔ وہ اپنے ننھّے بچّے کو میرے کتّے سے بچانا چاہتی تھی۔ اسی غرض کے لیے اس نے اسے اپنے بدن سے ڈھانپ لیا اور چیخ پکار شروع کردی۔ اس کے چھوٹے گلے میں آواز گھٹنے لگی۔ تھوڑی دیر کے بعد بے جان ہو کر گری اور مر گئی۔ اور اس طرح اپنے آپ کو قربان کر دیا۔

    وہ اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے بچّے کو کتّے کا لقمہ بنتے نہیں دیکھ سکتی تھی۔ اس کی نظروں میں میرا کتّا غالباً ایک ہیبت ناک دیو کی مانند تھا۔

    وہ کیا شے تھی۔ جو چڑیا کو شاخِ صنوبر سے کشاں کشاں زمین پر لائی؟

    میرا کتّا حساس تھا۔ چڑیا کو اس طرح قربان ہوتے دیکھ کر ٹھٹھکا اور ایک طرف ہٹ گیا میں نے اسے اپنی طرف اشارہ سے بلا لیا اور آگے بڑھ گئے۔

    یہ واقعہ دیکھ کر مجھے تسکین سی محسوس ہوئی۔ روح سے ایک بوجھ ہلکا ہوتا نظر آیا۔ اس بہادر چڑیا کی غیر معمولی جرأت نے میرے دل میں احترام اور احساسِ فرض کے جذبات موجزن کر دیے۔

    میں نے خیال کیا کہ محبت، موت اور اس کی ہیبت سے کہیں زیادہ ہے اور صرف محبّت ہی ایسی چیز ہے جو زندگی کے نظام کو قائم اور متحرک رکھتی ہے۔

    (عظیم روسی ادیب انتون چیخوف کے قلم سے)

  • ایک بس ڈرائیور کا سڑک پر آخری دن

    ایک بس ڈرائیور کا سڑک پر آخری دن

    وہ عام بس تھی اور سروپ سنگھ عام ڈرائیور۔ سواریوں نے سوچا تھا کہ بھیڑ والے علاقے سے باہر آ کر بس کی رفتار تیز ہو جائے گی، لیکن آج ایسا نہیں ہوا….

    سروپ سنگھ کے ہاتھ سخت ہی نہیں ملائم بھی تھے۔ اس کا دل آج بہت پگھل رہا تھا، وہ کبھی بس کو کبھی سواریوں کو اور کبھی باہر دوڑتے بھاگتے پیڑوں کو دیکھنے لگتا، جیسے وہاں کچھ خاص بات ہو۔ کنڈکٹر اس راز کو جانتا تھا، لیکن سواریاں بس کی دھیمی رفتار سے پریشان ہو رہی تھیں۔

    ’’ڈرائیور صاحب ذرا تیز چلاؤ، آگے بھی جانا ہے۔‘‘ ایک نے نہایت کڑوے لہجے میں کہا۔

    سروپ سنگھ نے مٹھاس گھولتے ہوے کہا۔ ’’آج تک میری بس کا ایکسیڈنٹ نہیں ہوا۔۔۔‘‘

    سواریاں اور بھی غصے میں آگئیں۔ ’’اس کا مطلب یہ نہیں کہ بیس، تیس کی ڈھیچم ۔۔۔ ڈھیچم رفتار سے چلاؤ۔‘‘ دو چار تو کچھ برا بھلا بھی کہنے لگے۔

    کوشش کرنے کے باوجود سروپ سنگھ بس کی رفتار تیز نہیں کر پا رہا تھا۔اس نے بڑھتے ہوئے شور میں بس روک دی، اپنا چہرہ گھما کر بولا۔

    ’’بات یہ ہے کہ اس راستے سے میرا تیس سال کا رشتہ ہے، آج میں آخری بار اس راستے پر بس چلا رہا ہوں۔

    بس کے اپنے مقام پر پہنچتے ہی میں ریٹائر ہو جاؤں گا، اس لیے۔۔۔۔‘‘ اس کی آواز رُندھ گئی۔

    (اشوک بھاٹیہ کی اس مختصر کہانی کا عنوان "رشتے” ہے، جو ایک انسان کے اپنے کام، اس کے استعمال کی کسی مشین، شے یا کسی راستے سے اس کے برسوں پرانے تعلق کو جذباتی انداز سے پیش کرتی ہے، اس ہندی کہانی کو محمد افضل خان نے اردو کے قالب میں ڈھالا ہے)

  • تعاون…..

    تعاون…..

    سعادت حسن منٹو

    چالیس پچاس لٹھ بند آدمیوں کا ایک گروہ لوٹ مار کے لیے ایک مکان کی طرف بڑھ رہا تھا۔

    دفعتا اس بھیڑ کو چیر کر ایک دبلا پتلا ادھیڑ عمر کا آدمی باہر نکلا۔ پلٹ کر اس نے بلوائیوں کو لیڈرانہ انداز میں مخاطب کیا۔

    ’’بھائیو، اس مکان میں بے اندازہ دولت ہے۔ بےشمار قیمتی سامان ہے۔ آؤ ہم سب مل کر اس پر قابض ہو جائیں اور مالِ غنیمت آپس میں بانٹ لیں۔‘‘

    ہوا میں کئی لاٹھیاں لہرائیں۔ کئی مکے بھنچے اور بلند بانگ نعروں کا ایک فوارہ سا چھوٹ پڑا۔ چالیس پچاس لٹھ بند آدمیوں کا گروہ دبلے پتلے ادھیڑ عمر کے آدمی کی قیادت میں اس مکان کی طرف تیزی سے بڑھنے لگا جس میں بے اندازہ دولت اور بے شمار قیمتی سامان تھا۔

    مکان کے صدر دروازے کے پاس رک کر دبلا پتلا آدمی پھر بلوائیوں سے مخاطب ہوا۔

    ’’بھائیو، اس مکان میں جتنا مال بھی ہے۔ سب تمہارا ہے، لیکن دیکھو چھینا جھپٹی نہیں کرنا، آپس میں نہیں لڑنا۔۔۔آؤ۔‘‘

    ایک چلایا، ’’دروازے میں تالا ہے۔‘‘ دوسرے نے با آواز بلند کہا۔ ’’توڑ دو۔‘‘

    ’’توڑ دو۔۔۔۔۔۔ توڑ دو۔‘‘ ہوا میں کئی لاٹھیاں لہرائیں، کئی مکے بھنچے اور بلند بانگ نعروں کا ایک فوارہ سا چھوٹ پڑا۔

    دبلے پتلے آدمی نے ہاتھ کے اشارے سے دروازہ توڑنے والوں کو روکا اور مسکرا کر کہا۔ ’’بھائیو ٹھیرو، میں اسے چابی سے کھولتا ہوں۔‘‘

    یہ کہہ کر اس نے جیب سے چابیوں کا گچھا نکالا اور ایک چابی منتخب کر کے تالے میں ڈالی اور اسے کھول دیا۔ شیشم کا بھاری بھر کم دروازہ ایک چیخ کے ساتھ وا ہوا تو ہجوم دیوانہ وار اندرداخل ہونے کے لیے آگے بڑھا۔

    دبلے پتلے آدمی نے ماتھے کا پسینہ اپنی آستین سے پونچھتے ہوئے کہا۔ ’’بھائی، آرام آرام سے، جو کچھ اس مکان میں ہے سب تمہارا ہے، پھر اس افراتفری کی کیا ضرورت ہے؟‘‘

    فوراً ہی ہجوم میں ضبط پیدا ہوگیا۔ ایک ایک کرکے بلوائی مکان کے اندر داخل ہونے لگے، لیکن جونہی چیزوں کی لوٹ شروع ہوئی پھر دھاندلی مچ گئی۔ بڑی بے رحمی سے بلوائی قیمتی چیزوں پر ہاتھ صاف کرنے لگے۔

    دبلے پتلے آدمی نے جب یہ منظر دیکھا تو بڑی دکھ بھری آواز میں لٹیروں سے کہا۔

    ’’بھائیو، آہستہ آہستہ۔۔۔۔ آپس میں لڑنے جھگڑنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ نوچ کھسوٹ کی بھی کوئی ضرورت نہیں۔ تعاون سے کام لو۔ اگر کسی کے ہاتھ زیادہ قیمتی چیز آگئی ہے تو حاسد مت بنو۔ اتنا بڑا مکان ہے، اپنے لیے کوئی اور چیز ڈھونڈ لو۔ مگر ایسا کرتے ہوئے وحشی نہ بنو، مار دھاڑ کرو گے تو چیزیں ٹوٹ جائیں گی۔ اس میں نقصان تمہارا ہی ہے۔‘‘

    لٹیروں میں ایک بار پھر نظم پیدا ہوگیا۔ بھرا ہوا مکان آہستہ آہستہ خالی ہونے لگا۔

    دبلا پتلا آدمی وقتاً فوقتاً ہدایت دیتا رہا، ’’دیکھو بھیا یہ ریڈیو ہے۔ آرام سے اٹھاؤ، ایسا نہ ہو ٹوٹ جائے۔ یہ اس کے تار بھی ساتھ لیتے جاؤ۔‘‘

    ’’تہ کر لو بھائی، اسے تہ کر لو۔ اخروٹ کی لکڑی کی تپائی ہے۔ ہاتھی دانت کی پچی کاری ہے۔ بڑی نازک چیز ہے۔ ہاں اب ٹھیک ہے!‘‘

    ’’نہیں نہیں۔ یہاں مت پیو۔ بہک جاؤ گے۔ اسے گھر لے جاؤ۔‘‘

    ’’ٹھہرو، مجھے مین سوئچ بند کرلینے دو، ایسا نہ ہو کرنٹ کا دھکا لگ جائے۔‘‘

    اتنے میں ایک کونے سے شوربلند ہوا۔ چار بلوائی ریشمی کپڑے کے ایک تھان پر چھینا جھپٹی کررہے تھے۔ دبلا پتلا آدمی تیزی سے ان کی طرف بڑھا اور ملامت بھرے لہجے میں ان سے کہا۔

    ’’تم کتنے بے سمجھ ہو۔ چندی چندی ہو جائے گی، ایسے قیمتی کپڑے کی۔ گھر میں سب چیزیں موجود ہیں۔ گز بھی ہوگا۔ تلاش کرو اور ماپ کر کپڑا آپس میں تقسیم کرلو۔‘‘

    دفعتاً کتے کے بھونکنے کی آواز آئی۔ ’’عف عف، عف۔‘‘ اور چشمِ زدن میں ایک بہت بڑا گدی کتا ایک جست کے ساتھ اندر لپکا اور لپکتے ہی اس نے دو تین لٹیروں کو بھنبھوڑ دیا۔ دبلا پتلا آدمی چلایا۔ ’’ٹائیگر ۔۔۔۔۔۔۔ ٹائیگر!‘‘

    ٹائیگر جس کے خوف ناک منہ میں ایک لٹیرے کا گریبان تھا، دم ہلاتا ہوا دبلے پتلے آدمی کی طرف نگاہیں نیچی کیے قدم اٹھانے لگا۔ کتے کے آتے ہی سب لٹیرے بھاگ گئے تھے۔ صرف ایک باقی رہ گیا تھا جس کے گریبان کا ٹکڑا ٹائیگر کے منہ میں تھا۔ اس نے دبلے پتلے آدمی کی طرف دیکھا اور پوچھا۔

    ’’کون ہو تم؟‘‘

    دبلا پتلا آدمی مسکرایا۔ ’’اس گھر کا مالک۔۔۔ دیکھو دیکھو۔۔۔ تمہارے ہاتھ سے کانچ کا مرتبان گر رہا ہے۔‘‘

  • بہروپیا

    بہروپیا

    یہ اس زمانے کی بات ہے جب میری عمر بس کوئی تیرہ چودہ برس کی تھی۔ ہم جس محلے میں رہتے تھے وہ شہر کے ایک بارونق بازار کے پچھواڑے واقع تھا۔

    اس جگہ زیادہ تر درمیانے طبقے کے لوگ یا غریب غربا ہی آباد تھے۔ البتہ ایک پرانی حویلی وہاں ایسی تھی جس میں اگلے وقتوں کی نشانی کوئی صاحب زادہ صاحب رہا کرتے تھے۔

    ان کے ٹھاٹھ تو کچھ ایسے امیرانہ نہ تھے، مگر اپنے نام کے ساتھ ’’رئیس اعظم‘‘ لکھنا شاید وہ اپنا فرض منصبی سمجھتے تھے۔ ادھیڑ عمر بھاری بھرکم آدمی تھے۔

    گھر سے باہر ذرا کم ہی قدم نکالتے، ہاں ہر روز تیسرے پہر حویلی کے احاطہ میں اپنے احباب کے جھرمٹ میں بیٹھ کر گپیں لڑانا اور زورزور سے قہقہے لگانا ان کا دل پسند مشغلہ تھا۔

    ان کے نام کی وجہ سے اکثر حاجت مند، یتیم خانوں کے ایجنٹ اور طرح طرح کے چندہ اگاہنے والے ان کے دروازے پر سوالی بن کر آیا کرتے۔ علاوہ ازیں جادو کے پروفیسر، رمال، نجومی، نقال، بھاٹ اور اسی قماش کے دوسرے لوگ بھی اپنا ہنر دکھانے اور انعام اکرام پانے کی توقع میں آئے دن ان کی حویلی میں حاضری دیا کرتے۔

    جس زمانے کا میں ذکر کر رہا ہوں، ایک بہروپیا بھی طرح طرح کے روپ بھر کر ان کی حویلی میں آیا کرتا، کبھی خاکی کوٹ پتلون پہنے، چمڑے کا تھیلا گلے میں ڈالے، چھوٹے چھوٹے شیشوں اور نرم کمانیوں والی عینک آنکھوں پر لگائے چٹھی رساں بنا ہر ایک سے بیرنگ خط کے دام وصول کر رہا ہے۔ کبھی جٹا دھاری سادھو ہے، لنگوٹ کسا ہوا، جسم پر بھبوت رمائی ہوئی، ہاتھ میں لمبا سا چمٹا، سرخ سرخ آنکھیں نکال نکال ’’بم مہا دیو‘‘ کا نعرہ لگا رہا ہے۔ کبھی بھنگن کے روپ میں ہے جو سرخ لہنگا پہنے، کمر پر ٹوکرا، ہاتھ میں جھاڑو لیے جھوٹ موٹ پڑوسنوں سے لڑتی، بھڑتی آپ ہی آپ بکتی جھکتی چلی آرہی ہے۔

    میرے ہم سبقوں میں ایک لڑکا تھا مدن۔ عمر میں تو وہ مجھ سے ایک آدھ برس چھوٹا ہی تھا مگر قد مجھ سے نکلتاہوا تھا، خوش شکل بھولا بھالا مگر ساتھ ہی بچوں کی طرح بلا کا ضدی۔

    ہم دونوں غریب ماں باپ کے بیٹے تھے۔ دونوں میں گہری دوستی تھی۔ اسکول کے بعد کبھی وہ میرے محلے میں کھیلنے آجاتا، کبھی میں اس کے ہاں چلاجاتا۔

    ایک دن سہ پہر کو میں اور مدن، صاحب زادہ صاحب کی حویلی کے باہر سڑک پر گیند سے کھیل رہے تھے کہ ہمیں ایک عجیب سی وضع کا بوڑھا آدمی آتا دکھائی دیا۔ اس نے مہاجنوں کے انداز میں دھوتی باندھ رکھی تھی، ماتھے پر سیندور کا ٹیکا تھا۔

    یہ شخص حویلی کے پھاٹک پر پہنچ کر پل بھر کو رکا، پھر اندر داخل ہو گیا۔ میں فوراً جان گیا، یہ حضرت سوائے بہروپیے کے اور کون ہو سکتے تھے۔ مگر مدن ذرا ٹھٹکا۔ اس نے بہروپیے کو پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ میں نے ذرا چھیڑنے کو پوچھا:’’مدن جانتے ہو ابھی ابھی اس حویلی میں کون گیا ہے؟‘‘

    ’’کوئی مہاجن تھا۔‘‘

    ’’ارے نہیں پگلے یہ تو بہروپیا ہے بہروپیا!‘‘

    ’’بہروپیا؟“مدن نے کچھ حیرانی ظاہر کرتے ہوئے کہا۔

    ’’ارے تم نہیں جانتے۔ یہ لوگ طرح طرح کے روپ بھر کر امیر امرا کو اپنا کمال دکھاتے ہیں اور ان سے انعام لیتے ہیں۔‘‘

    ’’تو کیا یہ شخص ہر روز آتا ہے؟‘‘

    ’’نہیں، ہفتے میں بس دو ایک ہی بار۔ روز روز آئے تو لوگ پہچان جائیں۔ بہروپیوں کا کمال تو بس اسی میں ہے کہ ایسا سوانگ رچائیں کہ لوگ دھوکا کھا جائیں اور سچ سمجھنے لگیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ لوگ کسی شہر میں دو تین مہینے سے زیادہ نہیں ٹکتے۔‘‘

    ’’کیا ان کو ہر دفعہ انعام ملتا ہے؟‘‘

    ’’نہیں تو۔ یہ جب پندرہ بیس مرتبہ روپ بھر چکتے ہیں تو آخری بار سلام کرنے آتے ہیں، بس یہی وقت انعام لینے کا ہوتا ہے۔‘‘

    ’’بھلا کتنا انعام ملتا ہو گا انہیں؟‘‘

    ’’کچھ زیادہ نہیں، کہیں سے ایک روپیہ، کہیں سے دو روپے اور کہیں سے کچھ بھی نہیں۔ یہ رئیسِ اعظم صاحب اگر پانچ روپے بھی دے دیں تو بہت غنیمت جانو۔ بات یہ ہے کہ آج کل اس فن کی کچھ قدرنہیں رہی۔

    اگلے وقتوں کے امیر لوگ تو اس قسم کے پیشے والوں کو اتنا اتنا انعام دے دیا کرتے تھے کہ انہیں مہینوں روزی کی فکر نہ رہتی تھی۔ مگر آج کل تو یہ بے چارے بھوکوں مر رہے ہوں گے اور۔۔۔‘‘

    میں کچھ اور کہنے ہی کو تھا کہ اتنے میں وہی بہروپیا حویلی کے پھاٹک سے نکلا۔ مدن اسے دیکھ کر چونک پڑا۔ بہروپیا ہماری طرف دیکھ کر مسکرایا اور پھر بازار کی طرف چل دیا۔

    بہروپیے کا پیٹھ موڑنا تھا کہ مدن دھیمی آواز میں کہنے لگا، ’’اسلم آؤ اس کا پیچھا کریں اور دیکھیں کہ وہ کہاں رہتا ہے، اس کا گھر کیسا ہے، اس کا کوئی نہ کوئی میک اپ روم تو ہوگا ہی، شاید اس تک ہماری رسائی ہو جائے، پھر میں یہ بھی دیکھنا چاہتا ہوں کہ وہ اپنی اصلی صورت میں کیا لگتا ہے۔‘‘

    ’’مدن دیوانے نہ بنو۔‘‘میں نے کہا،’’نجانے اس کا ٹھکانہ کدھر ہے۔ ہم کہاں مارے مارے پھریں گے۔ نجانے ابھی اس کو اور کن کن گھروں میں جانا ہے۔۔۔‘‘

    مگر مدن نے ایک نہ سنی۔ وہ مجھے کھینچتا ہوا لے چلا۔ میں پہلے کہہ چکا ہوں کہ اس کے مزاج میں طفلانہ ضد تھی۔ ناچار میں اس کے ساتھ ہو لیا۔

    یہ گرمیوں کی ایک شام تھی، کوئی چھے کا عمل ہو گا، اندھیرا ہونے میں ابھی کم سے کم ڈیڑھ گھنٹہ باقی تھا۔

    وہ تیز تیز قدم اٹھاتا ہوا ایک سے دوسرے بازار میں گزرتا جارہا تھا۔ راستے میں جب کبھی کوئی بڑی حویلی یا کسی مکان کا دیوان خانہ نظر آتا تو وہ بلاتکلف اندر داخل ہو جاتا اور ہمیں دو تین منٹ باہر اس کا انتظار کرنا پڑتا۔ بعض بڑی بڑی دکانوں میں بھی اس نے حاضری دی، مگر وہاں وہ ایک آدھے منٹ سے زیادہ نہ رکا۔ بہروپیا اب شہر کے دروازے سے باہر نکل آیا تھا اور فصیل کے ساتھ ساتھ چلنے لگا تھا۔

    ہم نے اب تک بڑی کام یابی سے اپنے کو اس کی نظروں سے اوجھل رکھا تھا۔ اس میں بازاروں کی ریل پیل سے ہمیں بڑی مدد ملی تھی مگر اب ہم ایک غیر آباد علاقے میں تھے جہاں اکا دکا آدمی ہی چل پھررہے تھے۔

    ہمیں زیادہ چلنا نہ پڑا۔ جلد ہی ہم ایک ایسے علاقے میں پہنچ گئے جہاں فصیل کے ساتھ ساتھ خانہ بدوشوں اور غریب غربا نے پھونس کے جھونپڑے ڈال رکھے تھے۔ بہروپیا آخری جھونپڑے کے پاس پہنچا جو ذرا الگ تھلگ تھا۔ اس کے دروازے پر ٹاٹ کا پردہ پڑا ہوا تھا۔

    جھونپڑے کے باہر ایک ننھی سی لڑکی جس کی عمر کوئی تین برس ہو گی اور ایک پانچ برس کا لڑکا زمین پر بیٹھے کنکریوں سے کھیل رہے تھے۔ وہ خوشی سے چلانے لگے: ’’اباجی آگئے! ابا جی آگئے!‘‘ اور وہ اس کی ٹانگوں سے لپٹ گئے۔

    بہروپیے نے ان کے سروں پر شفقت سے ہاتھ پھیرا، پھر ٹاٹ کا پردہ سرکا کر بچوں سمیٹ جھونپڑے میں داخل ہوگیا۔ میں نے مدن کی طرف دیکھا،’’کہو اب کیا کہتے ہو؟‘‘

    ’’ذرا رکے رہو۔ وہ ابھی مہاجن کا لباس اتار کر اپنے اصلی روپ میں باہر نکلے گا۔ اتنی گرمی میں اس سے جھونپڑے کے اندر کہاں بیٹھا جائے گا۔‘‘

    ہم نے کوئی پندرہ بیس منٹ انتظار کیا ہو گا کہ ٹاٹ کا پردہ پھر سرکا اور ایک نوجوان آدمی ململ کی دھوتی کرتا پہنے پٹیاں جمائے، سر پردو پلی ٹوپی ایک خاص انداز سے ٹیڑھی رکھے جھونپڑے سے باہر نکلا، بوڑھے مہاجن کی سفید مونچھیں غائب تھیں اور ان کی بجائے چھوٹی چھوٹی سیاہ آنکھیں اس کے چہرے پر زیب دے رہی تھیں۔

    ’’یہ وہی ہے‘‘۔ یک بارگی مدن چلا اٹھا، ’’وہی قد، وہی ڈیل ڈول۔‘‘

    اور جب ہم اس کے پیچھے پیچھے چل رہے تھے تو اس کی چال بھی ویسی ہی تھی جیسی مہاجن کا پیچھا کرنے میں ہم نے مشاہدہ کی تھی۔

    وہ شخص کچھ دور فصیل کے ساتھ ساتھ چلتا رہا، پھر ایک گلی میں ہوتا ہوا دوبارہ شہر کے اندر پہنچ گیا۔ وہ بازار میں چلتے چلتے ایک پنواڑی کی دکان پر رک گیا۔ ہم سمجھے کہ شاید پان کھانے رکا ہے مگر ہم نے دیکھا کہ پنواڑی دکان سے اتر آیا اور بہروپیا اس کی جگہ گدی پر بیٹھ گیا۔

    پنواڑی کے جانے کے بعد اس دکان پر کئی گاہک آئے جن کو اس نے سگریٹ کی ڈبیاں اور پان بنابنا کر دیے۔ وہ پان بڑی چابک دستی سے بناتا تھا جیسے یہ بھی کوئی فن ہو۔ اور ہم وہاں سے اپنے اپنے گھروں کو چلے آئے۔

    اگلے روز اتوار کی چھٹی تھی۔ میں نے سوچا تھا کہ صبح آٹھ نو بجے تک سو کر کل کی تکان اتاروں گا مگر ابھی نور کا تڑکا ہی تھا کہ کسی نے میرا نام لے لے کر پکارنا اور دروازہ کھٹکھٹانا شروع کردیا۔ میں ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا۔ نیچے گلی میں جھانک کر دیکھا تو مدن تھا۔ میں پیچ و تاب کھاتا سیڑھیوں سے اترا۔

    ’’اسلم جلدی سے تیارہو جاؤ‘‘۔ اس نے مجھے دیکھتے ہی کہا۔

    ’’کیوں کیا بات ہے؟‘‘

    ’’جلدی کرو، کہیں بہروپیا صبح ہی صبح گھر سے نہ چل دے۔‘‘ اور اس نے مجھے ایسی التجا بھری نظروں سے دیکھا کہ میرا دل فوراً پسیج گیا۔

    جب ہم کبھی دوڑتے، کبھی تیز تیز قدم اٹھاتے فصیل کی طرف جارہے تھے تو مدن نے مجھے بتایا کہ رات بھر وہ بہروپیے کو خواب میں طرح طرح کے روپ میں دیکھتا رہا۔ ابھی سورج نکلنے نہیں پایا تھا کہ ہم بہروپیے کے جھونپڑے کے پاس پہنچ گئے۔

    دن کی روشنی میں ہمیں ان جھونپڑوں کے مکینوں کی غربت اور خستہ حالی کا بخوبی اندازہ ہو گیا۔ بہروپیے کے جھونپڑے پر ٹاٹ کا جو پردہ پڑا تھا اس میں کئی پیوند لگے تھے۔

    ہم دو تین بار اس کے جھونپڑے کے سامنے سے گزرے۔ ہر بار ہمیں اندر سے بچوں کی آوازیں، دو ایک نسوانی آوازوں کے ساتھ ملی ہوئی سنائی دیں، آخر کوئی دس منٹ کے بعد ایک شخص بوسیدہ سا تہمد باندھے، بنیان پہنے، ایک ہاتھ میں گڑوی تھامے جھونپڑے سے برآمد ہوا۔ اس کی داڑھی مونچھ صاف تھی۔ سانولا رنگ، اس کو دیکھ کر اس کی عمر کا صحیح اندازہ کرنا مشکل تھا۔

    وہ شخص آگے آگے اور ہم اس کے پیچھے پیچھے۔ آگے ایک باڑا آیا، وہ شخص اس باڑے کے اندر چلا گیا اور میں اور مدن باہر ہی اس کی نظروں سے اوجھل ایک طرف کھڑے اس کی حرکات و سکنات کو بخوبی دیکھ سکتے تھے۔

    اس نے ایک بھینس کو پچکارا، پھر بھینس کو دوہنا شروع کیا۔ جب وہ ایک بھینس کو دوہ چکا تو دوسری کی طرف گیا۔ اس کام میں کوئی ایک گھنٹہ صرف ہوا۔ ایک بڈھے نے اس کی گڑوی کو دودھ سے بھر دیا جسے لے کر وہ باڑے سے نکل آیا۔

    جب وہ ذرا دور چلا گیا تو میں نے کہا: ’’لو اب تو حقیقت کھل گئی تم پر۔ چلو اب گھر چلیں۔ ناحق تم نے میری نیند خراب کی۔‘‘

    ’’مگر بھیا وہ بہروپیا کہاں تھا۔ وہ تو گوالا تھا گوالا۔ آؤ تھوڑی دیر اور اس کا پیچھا کریں۔‘‘ میں نے مدن سے زیادہ حیل وحجت کرنا مناسب نہ سمجھا۔ جب ہمیں اس کے جھونپڑے کے آس پاس گھومتے آدھ گھنٹہ ہوگیا تو ہمیں ایک تانگہ تیزی سے ادھر آتا ہوا دکھائی دیا۔

    یہ جھونپڑے کے قریب پہنچ کر رک گیا۔ اس کی آواز سنتے ہی ایک آدمی جھونپڑے سے نکلا، اس نے کوچوان کا سا خاکی لباس پہن رکھا تھا۔ اس کو دیکھ کر تانگے والا اتر پڑا اور یہ شخص تانگے میں آبیٹھا اور گھوڑے کو بڑی مہارت سے ہانکنے لگا۔ جیسے ہی تانگہ چلا پہلے شخص نے پکار کر کہا،’’تانگہ ٹھیک دو بجے اڈے پر لے آنا۔‘‘

    دوسرے شخص نے گردن ہلائی۔ اس کے بعد وہ تانگہ نظروں سے اوجھل ہو گیا۔

    آخر مدن نے سکوت کو توڑا،’’چلو یہ تو معلوم ہو ہی گیا کہ یہ شخص دو بجے تک کیا کرے گا۔ اتنی دیر تک ہمیں بھی چھٹی ہوگئی۔ اب ہمیں ڈھائی تین بجے تک یہاں پہنچ جانا چاہیے۔‘‘

    میں نے کچھ جواب نہ دیا۔ سچ یہ ہے کہ میں اس کی اصلیت جاننے کے لیے اتنا ہی بیتاب ہو گیا تھا جتنا کہ مدن۔

    ہم لوگ تین بجے سے پہلے ہی پھر بہروپیے کے جھونپڑے کے آس پاس گھومنے لگے۔ جھونپڑے کے اندر سے بچوں اور عورتوں کی آوازوں کے ساتھ ساتھ کبھی کبھی کسی مرد کی آواز بھی سنائی دے جاتی تھی۔ اس سے ہم نے اندازہ کر لیا کہ بہروپیا گھر واپس پہنچ گیا ہے۔

    ہمیں زیادہ دیر انتظار نہ کرنا پڑا اور اب کے بہروپیا ایک اور ہی دھج سے باہر نکلا۔ اس نے سیاہ چغہ پہن رکھا تھا۔ سر پر کالی پگڑی جو بڑی خوش اسلوبی سے باندھی گئی تھی۔ گلے میں رنگ برنگی تسبیحیں، ترشی ہوئی سیاہ داڑھی، شانوں پر زلفیں بکھری ہوئی۔ اس نے بغل میں لکڑی کی ایک سیاہ صندوقچی داب رکھی تھی۔ معلوم ہوتا تھا کہ آج اس نے ایک صوفی درویش کا سوانگ بھرا ہے۔

    ہم چپکے چپکے اس کے پیچھے پیچھے چلتے رہے، وہ شہر میں داخل ہوگیا۔ وہ کئی بازاروں سے گزرا۔ تھوڑی دیر میں ہم جامع مسجد کے پاس پہنچ گئے جس کے آس پاس ہر روز تیسرے پہر بازار لگا کرتا تھا۔ پھیری والے، بچوں کے سلے سلائے کپڑے، مٹھائیاں، چاٹ علاوہ ازیں تعویذ گنڈے والے، جڑی بوٹی والے بازار کی رونق بڑھاتے تھے۔

    ہمارا بہروپیا بھی خاموشی سے ان لوگوں میں آکر شامل ہو گیا۔ اس نے اپنی سیاہ صندوقچی کھول کر بڑے گمبھیر لہجے میں صدا لگانی شروع کی:’’آپ کی آنکھوں میں دھند ہو، لالی ہو، خارش ہو، ککرے ہوں، بینائی کم زور ہو، پانی ڈھلکتا ہو، رات کو نظر نہ آتا ہو تو میرا بنایا ہوا خاص سرمہ ’’نین سکھ‘‘ استعمال کیجیے۔‘‘

    ’’اس کا نسخہ مجھے مکہ شریف میں ایک درویش بزرگ سے دست یاب ہوا تھا۔ خدمتِ خلق کے خیال سے قیمت بہت ہی کم رکھی گئی ہے۔ یعنی صرف چار آنے فی شیشی۔‘‘

    میں اور مدن حیرت زدہ ہو کر بہروپیے کو دیکھنے لگے۔ ہمیں اپنی آنکھوں پر یقین نہ آتا تھا مگر اس نے سچ مچ سرمہ فروشی شروع کر دی تھی۔

    دو تین آدمی اس کے پاس آکھڑے ہوئے اور اس سے باری باری آنکھوں میں سرمے کی سلائی لگوانے لگے۔

    ہم جلد ہی وہاں سے رخصت ہوگئے۔ ہم نے بہروپیے کو اس کے اصل روپ میں دیکھنے کا خیال چھوڑ دیا۔


    (مشہور ادیب اور افسانہ نگار غلام عباس کی ایک شان دار تخلیق)

  • سمندر میں پرستان

    سمندر میں پرستان

    ایک وقت ایسا بھی تھا کہ سمندر میں کوئی پری نہیں رہتی تھی۔

    سمندر میں رہنے والی مخلوق کو معلوم تھا کہ پریاں تمام جان دار چیزوں پر نہایت مہربان ہوتی ہیں۔ جب ان میں کوئی دکھ بیماری یا مصیبت ہوتی ہے تو وہ ان کا پورا پورا خیال رکھتی ہیں، اس لیے سب رنجیدہ تھے کہ ہم نے ایسی کیا خطا کی ہے، جو ہمارے ہاں پریاں آ کر نہیں رہتیں۔

    چناں چہ سمندر کے سارے رہنے والوں نے پرستان میں اپنا ایلچی بھیجا اور وہاں کے بادشاہ سے درخواست کی کہ کچھ پریاں سمندر میں بھی بسنے کے لیے بھیج دی جائیں، تاکہ ہمارے آڑے وقتوں پر کام آ جائیں۔

    ایلچی نے بادشاہ کی خدمت میں عرض کی "جو پریاں ہمارے ہاں آ کر رہیں گی، ہم ان کے ساتھ نہایت مہربانی سے پیش آئیں گے اور انھیں خوش رکھنے میں حتی المقدور کوئی کسر نہیں اٹھا رکھیں گے۔”

    بادشاہ پریوں سے مخاطب ہو کر بولا "تم نے سنا، سمندر کا ایلچی ہمارے پاس کیا درخواست لے کر آیا ہے؟

    اب بتاؤ، تم وہاں جانا اور نیلے سمندر کے پانی کے نیچے رہنا پسند کرتی ہو؟”

    پریوں نے کانپ کر کہا "ہم وہاں جانے اور رہنے کے لیے بالکل تیار نہیں۔ ہم یہیں خوش ہیں۔”

    اس کے بعد بادشاہ نے جنگل کی پریوں کو بلایا اور ان سے پوچھا کہ سمندر میں جا کر رہنے میں تمھاری کیا مرضی ہے؟

    وہ بھی سب سر ہلا کر کہنے لگیں کہ کہیں جانا ہمیں گوارا نہیں۔

    بادشاہ نے باری باری تمام پریوں کی مرضی معلوم کی اور اب صرف پانی کی پریاں رہ گئی تھیں۔

    آخر میں بادشاہ ان سے مخاطب ہوا، وہ بلا جھجک فوراً تیار ہو گئیں اور کہنے لگیں "ہم تو خدا سے چاہتے تھے کہ کسی طرح ان ندی نالوں، تالابوں، کنوؤں اور باؤلیوں سے باہر نکلیں۔

    گھر بیٹھے ہماری مراد پوری ہوئی۔ اتنے لمبے چوڑے اور گہرے سمندر کا کیا کہنا ہے۔ ہمارے اچھلنے کودنے، بھاگنے دوڑنے کے لیے اس سے زیادہ اچھی کون سی جگہ ہو سکتی ہے؟ وہاں ہزاروں لاکھوں قسم کی مچھلیاں ہیں اور مچھلیوں کے علاوہ طرح طرح کے عجائبات۔

    حضور! ہماری اس سے بڑھ کر کوئی تمنا نہیں کہ ہم سمندر کی پریاں بن جائیں۔ ہاں ایک بات کا خیال رہے کہ ہم پانی میں کس طرح رہ سکیں گے؟ دوسرے اپنے تمام زندگی بھر کے ساتھیوں کو اچانک چھوڑنے کے خیال سے دل دکھتا ہے۔ ہمیشہ کے لیے ہم کو انھیں خدا حافظ کہنا پڑے گا اور پھر ہم اپنے پیارے بادشاہ اور ملکہ کی صورت بھی شاید کبھی نہ دیکھ سکیں۔”

    بادشاہ نے کہا "نہیں، ایسا نہیں ہو گا۔ جب تمھارا دل چاہے، رات کے وقت تم اوپر آ سکتی ہو اور چاندنی رات میں ہم میں سے بعض پریاں سمندر کے کنارے ریت پر جا کر تمھارے ساتھ کھیلا کودا اور گایا بجایا کریں گی، لیکن دن میں ہم سب اپنا اپنا کام کریں گے۔

    البتہ ہمارا ایک دوسرے سے ملنا دشوار ہے۔ رہا سمندر کے اندر ہر وقت رہنا، یہ معمولی بات ہے۔ میں تمھاری موجودہ صورت تبدیل کر دوں گا اور تم کو پانی میں رہنے سے کوئی دقت نہیں اٹھانا پڑے گی۔ پاؤں کی جگہ تمھاری مچھلیوں کی سی دمیں پیدا ہو جائیں گی اور پھر تم سمندر کی ہر مخلوق کی طرح بخوبی تیرا کرو گی۔ بلکہ ان سے بھی زیادہ پُھرتی کے ساتھ۔”

    چناں چہ جب یہ پانی کی پریاں سمندر کے کنارے پہنچیں تو ان کے چھوٹے چھوٹے پاؤں آپس میں جڑ کر ایسی خوبصورت چھوٹی چھوٹی مچھلیوں کی دمیں بن گئے کہ ان کے تصور میں بھی نہیں آ سکتا تھا اور وہ اپنے ہاتھوں سے پانی چیرتی اور تیرتی ہوئی اپنے گھر کی طرف چلی گئیں۔

    پریوں کو سمندر میں بے انتہا کام تھے، کیوں کہ سارے بڑے جانور چھوٹوں کو ستایا اور مار ڈالا کرتے تھے۔ اب تک وہاں کوئی ایسا نہ تھا، جو ان باتوں کا انتظام کرتا، ظالموں سے مظلوموں کو بچاتا اور جسے سمندر کی سطح پر امن قائم کرنے کا خیال آتا۔

    پریوں کے لیے یہ کام کم نہ تھے، امن و امان پیدا کرنا چھوٹی سی بات نہیں، لیکن تم جانتے ہو کہ پریوں کے پاس وقت کی کمی نہیں اور وہ کبھی تھکتی نہیں، اس لیے مصروف ہو کر وہ اتنی خوش ہوئیں کہ پورے ایک مہینے تک چاندنی رات میں بھی کھیلنے کودنے کے لیے سمندر کے کنارے پر نہ آئیں۔

    جب تیس راتیں لگا تار گزر گئیں اور کوئی پری باہر نہ آئی تو بادشاہ نے ان کی خبر لینے کے لیے اپنا ایلچی بھیجا۔

    ایلچی سمندر میں پریوں کے پاس پہنچا اور بادشاہ کا پیغام دیا۔ پریوں نے کہا: ” ہم کو یہاں آکر اتنی خوشی اور اس قدر مصروفیت رہی کہ معلوم نہ ہوا اتنا وقت گزر گیا ہے۔ آج رات ہم ضرور حاضر ہوں گے اور اب تک جو گزرا وہ سنائیں گے۔”

    رات کو پریاں سمندر سے باہر نکل آئیں۔ سارا پرستان ان سے ملنے جمع ہو گیا اور انھوں نے سمندر کی تہ کے عجیب و غریب حالات اور وہاں کی مخلوق کا ذکر کیا تو بادشاہ، ملکہ اور سب حیران رہ گئے اور بڑی دل چسپی لی۔

    بادشاہ نے کہا: "تم بڑی اچھی نیک دل پریاں ہو۔ تم کو اس کا صلہ ملنا چاہیے۔مناسب ہے کہ تم اپنا بادشاہ الگ بنا لو اور لہروں کے نیچے اپنی سلطنت قائم کر لو۔ شاہی خاندان میں سے ایک شہزادہ تمھارا بادشاہ بن سکتا ہے، تم اس کے رہنے کے لیے ایک محل بناؤ، جس میں جا کر وہ رہے اور تم پر حکومت کرے۔”

    سمندر کی پریاں خوش ہو گئیں کہ انھیں اپنی سلطنت اور بادشاہ ملا اور وہ محل تعمیر کرنے سمندر میں چلی گئیں۔ ایک مہینے کے اندر ہی محل تیار ہو گیا۔

    محل کے درو دیوار چمکیلی سیپ کے تھے اور اس کی چھتیں سفید باریک چاندنی جیسی ریت کی۔

    دیواروں پر رنگ رنگ کی نازک نازک سمندری بیلیں چڑھی ہوئی تھیں۔ کہیں سرخ، کہیں سبزی مائل زرد تو کہیں قرمزی۔ جتنے کمرے تھے، اتنے ہی رنگ کی آرائش۔ تخت شاہی اور دربار کی نشستیں عنبر کی۔ تاج بڑے بڑے موتیوں کا۔

    سفید محل کے چاروں طرف باغات تھے۔ رات کو مچھلیاں ہر طرف اپنے چمکیلے جسموں سے روشنی پھیلاتی پھرتیں اور جہاں ہر وقت اجالے کی ضرورت تھی، وہاں شعلہ نکالنے والی مچھلیوں کو سمندری بیلوں سے باندھا گیا تھا تاکہ لیمپوں کا کام دیں۔

    محل کی گھر داری کا انتظام پرانے پرانے کیکڑوں کے سپرد تھا، جو اندر یا باہر برابر پھرتے رہتے اور صفائی ستھرائی وغیرہ کے کام اس قدر مستعدی کے ساتھ انجام دیتے کہ سیکڑوں لونڈیاں، باندیاں بھی نہ کر سکتیں۔

    وہ آدمیوں کو چمٹنا اور شرارت کرنا قطعی بھول گئے تھے، پریوں کی تربیت نے انھیں پہلے سے بہت بہتر بنا دیا تھا۔

    محل اب ہر طرح سے آراستہ اور نئے بادشاہ کے قابل ہو گیا تھا۔ کام باقی تھا تو صرف دعوت کی تیاری کا۔ ایک بوڑھے دریائی بچھڑے کی ہدایت سے پریوں نے دعوت کا شان دار انتظام کر لیا۔

    سمندر کے پھل اور سمندر کی جلیبیاں وغیرہ، جو چیز کھانے میں مزیدار سمجھی یا دیکھنے میں اچھی معلوم ہوئی، جمع کر لی گئی اور چوں کہ امید تھی کہ ان گنت مہمان آئیں گے، اس لیے کام کاج کے لیے ایک فوج کی فوج سمندری مخلوق کی بلا لی گئی، تاکہ مہمانوں کی خدمت میں کمر بستہ کھڑے رہیں۔

    سمندر کے کنارے سے پانی کی نیلی نیلی لہروں میں بادشاہ کو لانے کے لیے چھ سمندری گھوڑے ساز لگے ایک گاڑی میں جتے کھڑے تھے۔ یہ گاڑی خالص سونے کی تھی، جس کے اندر نرم نرم سمندری گھاس کا فرش تھا اور ننھے ننھے گھونگوں سے سجی ہوئی تھی۔

    سب سے عجیب بات یہ تھی کہ یہ ننھے ننھے گھونگے سب زندہ تھے۔ انھوں نے نہایت خوشی کے ساتھ گاڑی کی سجاوٹ میں حصہ لیا تھا، کیوں کہ پریوں نے یہ احتیاط رکھی تھی کہ کوئی انھیں کسی طرح تکلیف نہ دے۔

    آخر کار بادشاہ سلامت آئے اور اپنے ساتھ ملکہ کو بھی لائے۔ تمام پریاں خوش تھیں۔ سمندر کی مخلوق خوشی کے ساتھ جوش میں غوطے لگانے لگی۔ ہر ایک نے پورے دن کی چھٹی منائی، سوائے کیکڑوں کے، جو قدرتاً کام کرنے کے ایسے عادی تھے کہ بےکار رہنا ان کے لیے عذاب تھا۔ دعوت بھی اس ٹھاٹھ کی ہوئی کہ نہ ایسا سلیقہ کسی نے دیکھا ہو گا، نہ ایسے کھانے کھائے ہوں گے۔

    دوسرے دن سلطنت کا نظام قائم کیا گیا۔ پریوں میں جو سب سے زیادہ سمجھدار تھی، وہ بادشاہ کی وزیر مقرر ہوئی اور خوب صورت سے خوب صورت اور نیک سے نیک کم عمر پریاں ملکہ کی خدمت گار بنائی گئیں۔ پرستان میں نر ہو یا مادہ، جتنی خوب صورت شکل ہو گی، اسی قدر خوش اخلاق اور سلیقہ شعار بھی ہو گی۔ اس لیے سمجھ لو کہ ملکہ کی خدمت میں رہنے کے لیے کن کو چنا ہو گا۔

    بادشاہ اور ملکہ کو وہاں جتنے ایک بادشاہت میں کام ہوا کرتے ہیں، اتنے ہی یہاں بھی کام تھے۔ وہ اپنی عمل داری میں دورے کرتے کہ کہیں کوئی ایک دوسرے پر ظلم تو نہیں کرتا۔

    بڑی دیکھ بھال یہ کرنی تھی کہ ظالم شارک اور اڑہ مچھلیاں ضعیف اور کمزور مچھلیوں کے ساتھ تو شرارت نہیں کرتیں یا دوسری مخلوق کا حد سے زیادہ تو خون نہیں کرتیں۔

    ان باتوں کے سوا یہ کام بھی تھا کہ جانوروں کے جھگڑوں کا تصفیہ کریں اور پریوں میں سے جو کام میں سست ہو یا شرارت کرے اس کو سزا دیں۔

    اچھا ان کی سزا کا کیا طریقہ تھا؟ پریوں یا سمندر کی مخلوق کو وہ سزا کیا دیتے؟

    شریر پریوں کو یہ سزا ملتی کہ اوپر سمندر کے کنارے جانا اور سنہری ریت پر کھیلنا کودنا، بالوں میں کنگھی کرنا اور گانا بجانا بند۔ پانی کے اندر پڑی ترسا کریں۔

    بد ذات جانوروں کی یہ سزا ہوتی کہ وہ کچھ عرصے کے لیے کیکڑوں کا ہاتھ بٹانے پر مجبور کر دیے جاتے۔ کیکڑے ان کو کیکڑے جیسا سیدھا کر دیتے کہ پھر ان سے کوئی قصور سرزد نہیں ہوتا۔

    شریروں اور نافرمان جانوروں کو جس طرح سزا ملتی، اسی طرح اچھا کام کرنے والوں اور حکم ماننے والوں کو انعامات بھی دیے جاتے۔

    سب سے بڑا انعام یا صلہ یہ تھا کہ درباریوں میں جگہ دی جاتی۔ وہ بادشاہ کے سمندری سلطنت کے بڑے بڑے دوروں پر ان کے ساتھ ہوتے اور جہاں ان کا جی چاہتا، سیر کرتے پھرتے۔

    جب کبھی طوفان آتے تو پریاں پانی کی سطح پر پہنچ جاتیں اور بڑے بڑے جہازوں کو چٹانوں سے ٹکرانے اور ریت میں دھنس جانے سے بچانے کی بے انتہا کوشش کرتیں، پھر اگر ان کی کوشش ناکام رہتی، ڈوبنے والے جہاز ڈوب ہی جاتے تو نہایت سریلی آوازوں میں ان کا مرثیہ پڑھتیں اور ڈوبے ہوئے ملاحوں کو ریت میں دفن کر دیتیں۔

    کبھی کبھی جہاز راں اور ملاح بھی ان کی جھلک دیکھ لیتے انھیں جل پری یا جل مانس کہتے اور کبھی ان کو نہیں ستاتے۔ صرف دیکھتے، خوش ہوتے اور گزر جاتے۔

    اب آپ نے جان لیا کہ سمندر میں پریاں کس طرح اور کیوں کر آ گئیں؟

    (عالمی ادب سے انتخاب)