Tag: مختصر کہانی

  • پیاس…

    پیاس…

    مصنف: ذیشان یاسین

    ”محکمہ موسمیات نے شہر میں شدید گرمی کی اطلاع دی ہے۔ اگلے ہفتے لُو چلے گی۔ ہمیں بچاؤ کے لیے کیا کرنا چاہیے؟“ ٹیچر نے کلاس کے بچوں سے سوال کیا۔

    ”سب کو اپنے اے سی ٹھیک کروا لینے چاہییں۔“ پپو بولا۔

    ”ہم فریج اور ڈیپ فریزر صاف کرلیں تاکہ ٹھنڈا پانی اور کولڈ ڈرنک انجوائے کریں۔“ بنٹی مسکرا کر بولی۔

    ”اسکول کو ایک ہفتے کے لیے بند کر دینا چاہیے۔“ چنٹو نے چہک کر مشورہ دیا۔

    ”آپ کیا کریں گی انابیہ۔“ ٹیچر نے میری بیٹی سے پوچھا۔

    ”میں چھت اور بالکونی میں پرندوں کے لیے پانی کا انتظام کروں گی۔“

  • "لاوارث”

    "لاوارث”

    مصنف: سردار فہد

    "اولاد کا دکھ کیا واقعی جان لیوا ہوتا ہے؟
    کیا بھوک انسان کی جان لے سکتی ہے؟
    عورت ہی عورت کی سب سے بڑی دشمن ہے کیا؟”

    اسے ایک پل کے لیے لگا کہ ان سب سوالوں کا جواب واقعی ہاں میں ہے اور یہ ایک ہاں اسے اپنے پورے جسم پر کسی بھاری بھرکم چٹان کی طرح محسوس ہو رہی تھی جو اسے کچلنے کے لیے کافی ہو۔

    نائلہ اپنی بڑی بہن حسینہ کے ساتھ گاڑی میں بیٹھی نہ جانے کیا کیا سوچ رہی تھی۔ اپنی حالت سے بالکل بے نیاز نائلہ کی آنکھوں کے سامنے پچھلے تین دنوں کی جیسے کوئی فلم چل رہی ہو۔ جس کے کرداروں نے اس کی زندگی کو ایک عجیب موڑ پہ لا کھڑا کیا تھا جہاں آگے کھائی تھی اور پیچھے کنواں۔

    پچھلے تین دن سے اس نے اپنے بچے کا منہ نہیں دیکھا تھا۔ اس کا چھے ماہ کا بچہ تین دن پہلے اس کی چھاتی سے آخری بار سیر ہوا تھا جب اس کی ساس نے اسے دھتکار کر گھر سے نکال دیا تھا۔

    وجہ جو بھی تھی لیکن یہ حق تو مرد کا ہوتا ہے کہ وہ اپنی منکوحہ سے باز پرس کرے۔ جب اسلام نے ہی یہ حق نہیں دیا تو ہمارا معاشرہ کیسے ان جٹھانیوں، نندوں اور ساسوں کو یہ حق دے دیتا ہے کہ وہ وکیل اور منصف بنیں اور کسی اور کی بیٹی کو سولی چڑھا دیں؟

    خون کی آگ بھی عجیب ہوتی ہے ناں۔ کسی کو جلا کر راکھ بنا دیتی ہے اور کسی کے خمیر میں شامل ہوتے ہی اسے شیطان کا کارندہ بنانے میں دیر نہیں کرتی۔

    ماں تو ماں ہوتی ہے۔ پھر یہ ماں ایک عورت کیسے بن سکتی ہے؟ ایسا کیوں ہوتا ہے کہ ماں کی ساری ممتا کو ساس نام کا گرہن لگ جاتا ہے اور سوائے اندھیرے کے اسے کچھ نہیں دکھائی دیتا؟

    گاڑی تیزی سے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر اسپتال کی طرف بڑھتی چلی جا رہی تھی۔ حسینہ نے نائلہ کی بگڑتی حالت دیکھتے ہوئے ڈرائیور کو اور تیز چلنے کے لیے کہا لیکن اسے کیا معلوم کہ سارا کھیل ہی وقت کا ہے۔ بعض دفعہ وقت ہی تو نہیں ہوتا انسان کے پاس۔ اور وقت کی خاص بات ہی یہی ہے کہ جب برا ہوتا ہے تب قلیل بھی ہوتا ہے۔ اتنا قلیل کہ ساری زندگی کو ریت کے مانند اپنی مٹھی میں لیے، اسے کھولتا جائے اور سانسیں اکھڑتی جائیں۔

    نائلہ تین دن سے بھوکی تھی۔ بھلا ایک ماں کا حلق اتنا ظالم بھی تو نہیں ہو سکتا کہ اس کا شیر خوار بچہ تین دن سے بھوکا ہو اور وہ لقمے اتارتا پھرے۔ انسانی جسم میں یہی تو خرابی ہے کہ یہ دکھ کو نہیں سمجھتا۔ بھلے روح تڑپتی رہے لیکن اسے تو دانہ پانی چاہیے ورنہ کسی بچے کی طرح بگڑ جاتا ہے اور ایسا بگڑتا ہے کہ بس زمین پر لیٹ ہی جائے۔

    اسپتال جاتے ہوئے حسینہ نے ایک بار پھر اس کے سسرال کے سامنے گاڑی رکوائی تھی۔ وہ جانتی تھی کہ نائلہ کا مسیحا وہ بچہ ہے جو اس کی جان بچا سکتا ہے۔ اس کی ساس سے ہزار منتیں ترلے کیے کہ تھوڑی دیر کے لیے اسے بچے کو دیکھ لینے دو اس کی طبیعت بہت خراب ہے۔ لیکن جب ایک ماں ایک عورت بن جائے تو اسے کب دوسری ماں کی پروا ہوتی ہے؟

    واقعی اس دنیا میں عورت کی سب سے بڑی دشمن خود عورت ہے۔

    "سنیے، ان کا بلڈ پریشر بہت گر گیا ہے۔ ہم کوشش کر رہے ہیں، لیکن ان کی حالت مزید خراب ہوتی جا رہی ہے”

    نرس کی دور سے آتی ہوئی آواز نے جیسے اس کی آخری امید پر بھی پانی پھیر دیا ہو۔ لیکن امید بچی ہی کہاں تھی؟ وہ تو اس شوہر کی امید پہ زندہ رہتی تھی جو سال میں صرف بار چھٹی ملنے پر گھر آتا تھا اور باقی گیارہ مہینے اسے عورتوں کے رحم و کرم پر چھوڑ کے چلا جاتا تھا؟

    یا اس بچے کے لیے جسے اس سے چھین لیا گیا تھا اور عورت کا حق ہی کہاں ہوتا ہے اولاد پہ؟ وہ تو بچے پیدا کرنے کی مشین سمجھی جاتی ہے۔ خون تو وہ کسی اور ہی کا ہوتا ہے بھلے نو مہینے پل صراط پر عورت نے کیوں نہ گزارے ہوں۔

    بس وہ آخری بار اپنے بچے کو دیکھنا چاہتی تھی، لیکن وہ یہ بھی جانتی تھی کہ وہ کوئی پھانسی گھاٹ پہ لٹکنے والی مجرم نہیں ہے جس سے اس کی آخری خواہش پوچھی جائے گی اور پوری بھی ہو گی۔

    اس نے اپنی آنکھیں بند کرنے میں ہی عافیت جانی۔

  • دو بھائی (قدیم داستان)

    دو بھائی (قدیم داستان)

    سُند اور اُپ سُند دونوں سگے بھائی تھے۔ دونوں ایک دوسرے پر جان چھڑکتے اور ایک پل کے لیے بھی جدا نہ ہوتے تھے۔

    دونوں کے دل میں سمائی کہ ایسی زندگی حاصل کریں کہ موت کا ڈر نہ رہے۔ دونوں ایک چوٹی پر جاکر ریاضت میں مشغول ہوگئے۔ برسوں تک بھی جب کوئی دیوتا متوجہ نہ ہوا تو مسلسل ایک ٹانگ پر کھڑے رہ کر ریاضت کرنے لگے۔

    برہما جی سے اُن کی یہ حالت نہ دیکھی گئی۔ انھوں نے خود دونوں کو وردان مانگنے کو کہا۔ دونوں یک زبان ہوکر بولے:

    مہاراج! ہماری مانگ بہت چھوٹی سی ہے۔ بس اتنی کہ کوئی ہتھیار ہم پر اثر نہ کرسکے اور ہم کسی دشمن کے ہاتھوں نہ مریں۔

    برہما نے کہا، ”یہ ناممکن ہے، موت اٹل ہے۔“

    اس پر دونوں نے سوچ کر کہا۔ ”ہمیں کوئی اور نہ مار سکے، اگر مرنا ہی ہے تو ہم بس ایک دوسرے کے ہاتھوں ہی مرسکیں۔“

    برہما نے ان کی بات مان لی اور غائب ہو گئے۔ دونوں چوں کہ ایک دوسرے سے بے حد محبت کرتے تھے، اس لیے انہیں یقین ہوگیا کہ اب وہ امر ہیں اور دنیا میں کوئی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ انھوں نے عہد کیا کہ خواہ کچھ ہو وہ آپس میں کبھی نہیں لڑیں گے۔

    اب دونوں نے دنیا میں آفت برپا کردی۔ جس کو چاہتے مار ڈالتے، جس کو چاہتے بادشاہ بنا ڈالتے اور جس کو چاہتے ملک بدر کردیتے۔ ان کے غرور اور تکبر کا یہ عالم تھاکہ کسی کو خاطر میں نہ لاتے اور لوگوں کو طرح طرح سے ستاتے، تھوڑے ہی دنوں میں انھوں نے جور و جفا اور ظلم و تعدی کا ایسا بازار گرم کیا کہ لوگ ان کا نام سن کر کانوں پر ہاتھ رکھنے لگے۔

    بالآخر سب برہما سے فریادی ہوئے۔ لوگوں کا حال سن کر برہما کو بہت دکھ ہوا، مگر وہ زبان دے چکے تھے۔ اب کیا ہوسکتا تھا۔

    کافی سوچ بچار کے بعد برہما نے ایک حسین عورت کا روپ دے کر تلوتما کو دونوں بھائیوں کے پاس جانے اور ان کو رجھانے کا حکم دیا۔

    تلوتما ان بھائیوں کے پاس پہنچی اور انھیں اپنے رقص کا کمال دکھانے لگی۔ تلوتما نظر اٹھاتی تو معلوم ہوتا بجلی گررہی ہے اور اٹھلا کے چلتی تو محسوس ہوتا بہار مسکرا رہی ہے۔

    نوبت یہاں تک پہنچی کہ دونوں بھائی اس کی اداؤں پر فریفتہ ہوگئے۔ وہ ان دونوں کے بیچ آکر کھڑی ہوجاتی تو ایک طرف سُند اور دوسری طرف اُپ سُند اس کا ہاتھ تھام لیتے۔

    سُند کا اصرار تھا کہ وہ بڑا ہے اس لیے خوب صورت عورت پر اس کا حق ہے۔ اُپ سُند کا کہنا تھا کہ بڑوں کا فرض ہے کہ چھوٹوں کی خوشی کا خیال رکھیں، اس لیے حسینہ اس کو ملنی چاہیے۔

    تلوتما کا جادو چل چکا تھا۔ تکرار بڑھنے لگی اور دونوں ایک دوسرے کو مرنے مارنے پر تل گئے۔ جھگڑا بڑھ گیا اور دونوں نے ایک دوسرے پر وار کیا اور زمین خون سے سرخ ہوگئی۔ ان دونوں کی لاشیں زمین پر تڑپنے لگیں۔

    برہما نے کہا، ”دیکھ لو، باہمی عداوت بڑے بڑے سورماؤں کو موت کے گھاٹ اتار دیتی ہے۔“

    (اس قدیم ہندی داستان میں نفسانی خواہشات، دنیاوی اور ظاہری حسن کے دھوکے میں آجانے کا انجام بتایا گیا ہے)

  • "جب دیکھو ترقی…ترقی اور ترقی”

    "جب دیکھو ترقی…ترقی اور ترقی”

    بھاڑ میں جاؤ تم اور تمھاری ترقی۔ جب دیکھو ترقی، ترقی اور ترقی۔ کوئی اور بات ہی نہیں کرتا۔

    تو میں کیا غلط کہہ رہا ہوں، دیکھ نہیں رہا، اندھا ہوگیا ہے کتنی آسانی ہوگئی ہے۔ ہر میدان میں نت نئی ایجادات، اتنے بڑے بڑے فلائی اوورز، سڑکیں اور ان پر بھاگتی دوڑتی رنگ برنگی گاڑیاں۔

    رابطے کی تو دنیا ہی بدل گئی، اب آپ کہیں بھی نہیں چھپ سکتے۔ ایک چھوٹے سے آلے نے کتنی آسان کردی زندگی۔ دنوں کا فاصلہ گھنٹوں میں طے ہو رہا ہے۔ چھوٹے سے آئی پوڈ نے موسیقی کی دنیا بدل دی، ایک چھوٹے سے ڈبے نے خبروں کی دنیا میں انقلاب برپا کردیا۔ ای کامرس نے جدید معیشت کی بنیاد ڈال دی۔۔۔۔۔

    کتنے پرسکون اور تاب ناک ہوگئے ہیں ہمارے چہرے۔ ایک چھوٹے سے پلاسٹک کارڈ سے تم دنیا کی ہر شے خرید سکتے ہو۔ پیسے ہوں نہ ہوں کریڈٹ کارڈ ہو تو جو چاہو خریدو، پیسے بعد میں دو۔ ہر طرف معلومات کا سمندر، بڑے بڑے بورڈ۔ اور ان پر عوام کی آگہی کے لیے درج کردیا گیا، یہ دودھ اچھا ہے، یہ کپڑا اچھا ہے، یہ رنگ خوب صورت ہے، یہ برش عمدہ ہے۔ مقابلے کی کتنی پُرکشش دنیا تخلیق ہوگئی ہے۔ اور دیکھ میں تجھے بتاتا ہوں کہ۔۔۔۔۔

    بند کر اپنی بکواس، بہت سن لی میں نے۔ جا کسی اور کو یہ رام کتھا سنا۔ تیری ترقی تجھے مبارک۔ جا چاٹ جاکر اسے، مجھے تو ہر طرف، اندھیرا ہی اندھیرا، بربادی اور تباہی نظر آتی ہے۔ یہ سحر انگیز گفت گو بھی ایک فریب ہے۔ بڑا آیا مجھے سمجھانے۔ جا اپنا رستہ لے۔

    لیکن تجھے ہر طرف، اندھیرا ہی اندھیرا، بربادی اور تباہی کیوں دکھائی دے رہی ہے۔ تیرے کہنے سے تھوڑی اندھیرا ہوگا، بربادی ہوگی۔ اور سن آج کل تو طب کی دنیا میں بھی ترقی ہوگئی ہے۔ جدید طبی آلات اور دوائیں انسانی زندگی کو طول دینے، پُرلطف بنانے کی جستجو میں ہیں۔ مجھے تو لگتا ہے کہ تو نفسیاتی مسائل کا شکار ہوگیا ہے۔ کسی اچھے ماہر نفسیات سے مشورہ کرتے ہیں۔ اس میں بھی بہت ترقی ہوگئی ہے۔ تُو جلد صحت یاب ہوجائے گا اور پھر تُو بھی کہے گا ترقی ہوگئی۔

    تُو باز نہیں آئے گا نا۔ اگر یہ بیماری ہے تو مجھے بہت پیاری ہے۔ جاں سے زیادہ عزیز ہے یہ مجھے۔ چل اب یہاں سے۔

    تُو میری بات کیوں نہیں سمجھتا۔ یہ تو اور زیادہ خطرناک بات ہے کہ تو اسے بیماری بھی نہیں سمجھتا۔ قنوطی انسان۔ پاگل ہوگیا ہے تو اسی لیے تو ہلکان رہتا ہے، اداس رہتا ہے۔ میری مان آ چل میرے ساتھ تجھے لے چلوں کسی ماہر کے پاس۔

    اچھا۔ اب تو ایسے باز نہیں آئے گا۔ بیمار میں نہیں تو ہے ذہنی بیمار۔ تو اسے ترقی کہتا ہے۔ اتنی دیر سے سن رہا ہوں تیری بکواس، یہ بتا یہ ساری ترقی جسے تُو اور تیرے جیسے کوڑھ مغز ترقی کہتے ہیں، کس کے لیے ہے؟ انسان کے لیے نا۔ میں مانتا ہوں ترقی ہوگئی، لیکن انسان تو دکھوں کی دلدل میں دھنستا چلا جا رہا ہے۔ اتنی بڑی بھیڑ میں، ہجوم میں تنہا ہوگیا ہے۔ یہ ساری ترقی مٹھی بھر انسانوں کے شاطر ذہن کی پیداوار ہے، چند مٹھی بھر سرمایہ داروں نے دنیا کے ہر انسان کو جو آزاد پیدا ہوا تھا غلام بنالیا ہے۔۔۔۔۔

    ذہنی غلام، جسمانی غلام، ایسا سحر ہے اس کا کہ انسان غلامی کو غلامی ہی نہیں سمجھتا۔ اسے آزادی کا نام دے کر اترانے لگا ہے۔ بڑی بڑی کاریں، سڑکیں، آسائشیں انسان کو تن آسان بنا رہی ہیں اور تن آسانی انسان کو انسان نہیں رہنے دیتی۔ اسے بے حس خود غرض، مفاد پرست بناتی ہے۔ اشتہار کی دنیا انسان کو یہ سکھاتی ہے کہ کسی چیز کی ضرورت ہو، نہ ہو۔ ضرور خریدی جائے۔ یہ لے لو، وہ لے لو۔ اگر پیسے نہیں تو کریڈٹ کارڈ ہے۔ اس کے ذریعے خرید لو۔ اور پھر غلام بنے رہو۔ ان مٹھی بھر لوگوں نے انسان کو تباہ و برباد کردیا۔ لالچی بنا دیا۔ اسے ناامید کردیا۔ خوف زدہ کر دیا، انسان، انسان نہیں رہا پیسا کمانے اور خرچ کرنے کی مشین بن گیا۔۔۔۔۔

    یہ ایک مایا جال ہے جو سرمایہ داروں کے وحشی گروہ نے بُنا ہے، اسے پُرکشش بنایا ہے تاکہ دنیا کے معصوم اور آزاد انسان اس جال میں پھنس جائیں اور کوئی یہ سوچنے بھی نہ پائے کہ چند سرمایہ داروں نے دنیا بھر کے انسانوں کو غلام بنالیا ہے، بس ان کا کام چلتا رہے۔۔۔۔۔۔

    اصل ترقی انسان کو بامِ عروج تک پہنچاتی ہے۔ اسے زنجیروں سے آزاد کرتی ہے، لیکن یہ ترقی کے نام پر دھوکا ہے۔ اب کوئی سوچتا ہی نہیں کہ وہ کیوں اس دنیا میں آیا ہے؟ اسے کیا کرنا ہے؟ اس مصنوعی ترقی نے انسان کو تنہائی، اداسی، کرب، دکھوں کے جہنم میں دھکیل دیا، یہ سب آسائشیں ہوتے ہوئے بھی سب ناآسودہ ہیں، سب دُکھی ہیں۔ مصنوعی خوشی خوشی نہیں ہوتی۔ خوشی انسان کے اندر سے پھولتی ہے۔۔۔۔۔۔۔

    آزاد انسان حقیقی خوشی حاصل کرتا ہے، غلام نہیں۔ ہاں میں اس دن مان لوں گا جب انسان یہ سوچنے لگے گا کہ خود کو اس ہشت پا بلا سے کیسے چھڑایا جائے اور پھر وہ دن ہوگا سب سے عالی شان، جب دنیا کے وسائل پر قابض مٹھی بھر لوگوں سے وہ سب کچھ چھین لیا جائے گا جس پر دنیا بھر کے انسانوں کا حق ہے۔ ہاں پھر میں مان لوں گا ترقی ہوگئی، انسان نے خود کو پہچان لیا۔

    اچھا، اچھا بس کر، بہت ہوگیا تیرا بھاشن۔ نہ جانے کیسے کیسے قنوطی بستے ہیں اس دنیا میں، جو ترقی کو غلامی کہتے ہیں، مایا جال کہتے ہیں۔

    میں وہاں سے نکلنے لگا تو وہ بولا، ہر نئی ایجاد اپنے ساتھ ہزار فتنے بھی تو لائی ہے اس پر کب بات کرے گا؟

    مصنف عبداللطیف ابُوشامل نے اپنی اس کہانی کو "سراب” کا نام دیا ہے، جو ہماری ترقی اور مشینی دور کی آسانیوں‌ سے جھلکتی بدصورتی کو بے نقاب کرتی ہے
  • قوّت

    قوّت

    مصنف: سجاد حیدر یلدرم

    گلی کے کنارے اس مجمع کو اکثر دیکھا کرتا تھا۔ مزدوروں کے، قلیوں کے، لڑکوں کے غول کے غول دوپہر کو وہاں کھیلتے ہوتے تھے، آپس میں الجھتے تھے، چیختے تھے، چلاتے تھے۔

    ایک دن میں اس راستے سے گزر رہا تھا۔ لڑکوں کا مجمع تو تھا مگر کھیل نہ تھا بلکہ لڑکے حلقہ باندھے کسی چیز کا تماشہ دیکھ رہے تھے اور ایسا معلوم ہو رہا تھا کہ وہ مزے دار تماشا انہیں بہت لطف دے رہا تھا۔

    سب کے چہروں پر مسکراہٹ تھی۔ میں نے دیکھا کہ جسے وہ اس ذوق و شوق سے دیکھ رہے تھے، وہ ایسا تماشا تھا جو غالباً ان کی تفریحِ طبع کے لیے روز ہوتا ہو گا۔

    ایک لڑکا جو سن میں سب سے زیادہ معلوم ہوتا تھا، بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ قریب قریب جوان ہو چکا تھا، متکبرانہ بیچ میں کھڑا تھا اور ایک چھوٹا لڑکا اس سے دست و گریبان ہو رہا تھا۔ بڑا لڑکا اس کو ہٹا رہا تھا اور غلیظ گالیاں دے دے کر اپنے سے علیحدہ کر رہا تھا۔

    چھوٹا لڑکا گھونسے کھا رہا ہے، بڑے لڑکے کے ہر جھٹکے پر زمین پر گر پڑتا ہے، ہر گھونسے اور ہر تھپڑ پر ہائے کی آواز اس کی جگر گاہ سے نکلتی ہے، مگر گر کے اٹھتا ہے، روتا جاتا ہے، رونے سے اور زمین پر گرنے سے اس کے بال، اس کا چہرہ خاک آلود ہو رہے ہیں، لیکن وہ پھر بڑے لڑکے سے غصے میں چمٹ جاتا ہے۔ ہچکیاں بندھ رہی ہیں، مگر کہے جاتا ہے۔

    میری ہے۔۔۔۔ لاؤ۔ یہ کہہ کر ایک قمچی کو بڑے لڑکے سے چھیننا چاہتا ہے۔

    ہر طلبِ حق کے مقابلے میں اسے ایک گھونسا، ایک لات ملتی ہے جسے کھا کر وہ لڑکھڑا کے پیچھے ہٹتا ہے، مگر پھر آگے آتا ہے۔ رونے اور چیخنے کی وجہ سے اس کی آواز بیٹھ گئی ہے۔ اس کا عجز و ضعف بڑھتا جا رہا ہے، لیکن اپنی قمچی اس سے واپس لینے کی کوشش کیے جا رہا ہے۔

    آخر کار اس پر ایسا لپّڑ پڑا جس سے وہ بھنّا گیا اور چکر کھا کر زمین پر گر پڑا۔ اب اس میں اٹھنے کی قوت بھی نہ رہی تھی، کم زوری سے زمین پر پڑا رو رہا تھا اور بڑے لڑکے کو گالیاں دے رہا تھا۔ اور وہ جبرو قہر سے حاصل کی ہوئی قمچی کو متفخرانہ انداز سے ہلا ہلا کے اس چھوٹی سی مخلوق کی جو حلقہ باندھے کھڑی تھی (اور جو قوت کے مقابلے میں عاجز کو ہیچ جانتی تھی) قہقہوں، تالیوں میں جھومتا ہوا چلا گیا۔

    عین اس وقت اس منظر کے اوپر سے ایک کوّا جس نے ایک آشیانِ شفقت میں گھس کر ابھی ابھی انڈوں کو پھوڑا تھا، اور انہیں کھا کر شکم سیر ہوا تھا، مصنوعی فرار کے انداز سے گزر رہا تھا، اور فیضِ مادرانہ میں بھری ہوئی ایک مینا، سادہ لوحی سے ٹھونگیں مارنے کی کوشش کر کے قوّت اور حیلے کو اپنے زعم میں مجروح کر رہی تھی۔

  • سڑک کا بنانا ایک غلطی تھی!

    سڑک کا بنانا ایک غلطی تھی!

    غفور علی مول تلا میں گوہر علی کے نام سے مشہور تھا۔ ایک دن نہ جانے اسے کیا ہوا کہ کُدال لے کر سڑک کو دیوانہ وار توڑنے پھوڑنے لگا۔

    دیکھنے میں تو اس کا یہ فعل بڑا ہی مجنونانہ تھا، لیکن درحقیقت یہ کوئی اضطراری فعل نہ تھا۔ اس کے پیچھے حالات کا ایک لمبا چوڑا سلسلہ تھا۔ ورنہ یہ بات کچھ سمجھ میں نہیں آتی کہ جو سڑک گاؤں کے سب سے لوگوں نے مل جل کر بنائی تھی اور جس کے لیے خود گوہر علی نے اپنی زمین کا بہت سا حصہ دیا تھا، وہ اسی کو دیوانہ وار تباہ کرنے کی کوشش کرے۔

    مول تلا ان چھوٹے چھوٹے دیہات میں سے تھا جن کا جنگ سے پہلے باہر کی دنیا سے بہت کم میل جول تھا۔ اور لوگ وہی پرانے زمانے کی زندگی بسر کر رہے تھے۔ کم ازکم سڑک بننے سے پہلے اس کی وضع اور ماحول میں کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوئی تھی۔ ان کا بیرونی دنیا سے کوئی تعلق نہ تھا۔ اور تھا تو بالکل برائے نام۔

    وہ ایک خاص وضع کی زندگی بسر کرتے تھے جس میں ان کی اپنی ہی رسموں اور ریتوں کو دخل ہوتا تھا۔

    ایک مرتبہ اس گاؤں کا نوجوان اس زندگی سے دامن چھڑا کر باہر نکل گیا۔ جب وہ واپس آیا تو وہ اپنے ساتھ روپیہ پیسہ ہی نہیں بلکہ ایک نیا تصور اور بلند تر معیار زندگی بھی لے کر آیا۔ اس نے گاؤں والوں کو بتایا کہ مول تلا کی ندیوں اور نہروں سے پرے، ایک جگہ ہے جسے ”شہر“ کہتے ہیں۔ زندگی کے بہتر پہلو سے روشناس ہونے کے لیے یہ ضروری ہے کہ شہروں اور بندرگاہوں کے ساتھ تعلق پیدا کیا جائے۔ یہ مسئلہ فی الفور ایک سڑک تعمیر کرنے سے حل ہوسکتا ہے۔

    اسی دن سے جناب علی حوالدار نے عہد کیا کہ اپنی ساری قوت اور ذرائع گاؤں کی ترقی پر صرف کرے گا۔ اس نے ڈسٹرکٹ بورڈ کو بھی سڑک بنانے پر آمادہ کرلیا ۔ گاؤں کے دوسرے مرفہ الحال لوگوں نے بھی بڑی سرگرمی سے سدھار کا بیڑا اُٹھایا جو ان کے خیال میں ضرور سماجی ترقی کا باعث ہوگا۔

    اس سلسلے میں زیادہ مشکل گوہر علی جیسے غریب کسانوں کے سبب پیدا ہوئی۔ جن کی زرعی زمینوں کا حصہ سڑک کی بھینٹ چڑھتا تھا۔ لیکن سڑک کے بارے میں دل میں عجیب و غریب تصورات کا ایک طلسم پیدا ہو گیا۔ اس نے سوچا وہ کب تک اس زمین کی معمولی سی پیداوار کو دانہ دانہ کرکے چُنتا رہے گا۔ اس سے کہیں بہتر یہ ہوگا کہ وہ نئی زندگی کا خیر مقدم کرے۔ گھر واپس جاکر اس نے اپنی بیوی کو بھی اس زندگی کے خلاف بغاوت پر آمادہ کر لیا۔

    آخر کار سڑک تعمیر ہوگئی۔ لوگوں نے شہر آنا جانا شروع کردیا۔ جب سڑک کا پہلا پہلا طلسمی اثر دور ہوگیا تو لوگ سڑک کے کنارے اپنے ڈھور ڈنگر باندھنے لگے۔ اس کے کنارے بیٹھ کر حقہ پیتے اور گپیں ہانکتے۔ ادھر بعض نوجوان گاؤں کو چھوڑ کر دھن دولت کی تلاش میں شہر کو روانہ ہوجاتے۔

    ایک دن گوہر علی نے سج دھج کر تین دن کے لیے شہر میں رہنے کو چل پڑا۔ واقعی شہر کے بارے میں جو کہانیاں بیان کی گئی تھیں۔ وہ بالکل صحیح تھیں۔ اس میں ایسے لوگ بستے تھے جن کی زندگیاں خوشی اور خوش نصیبی سے بھرپور تھیں، لیکن اس کے باوجود دال میں کچھ کالا ضرور تھا۔

    ان لوگوں کو سمجھنا، ان کے دل کی تہ تک پہنچنا دشوار تھا۔ انھیں اس جیسے غریبوں سے کوئی ہمدردی نہ تھی۔ اور کوئی اس سے ایک دو منٹ بھی بات کرنے کو تیار نہ تھا۔

    گوہر علی نے پوری شدت سے یہ محسوس کیا کہ شہروں میں ہر بات پیسے کی کسوٹی پر پرکھی جاتی ہے۔ تیسرے دن وہ شہر کے خلاف بڑی نفرت اور غصے سے بھرا ہوا دل لے کر گاؤں واپس چلا آیا۔

    وہ خیالات میں کھویا رہا۔ آخر فیصلہ کیا کہ وہ بھی اپنے مستقبل کی بنیاد دولت ہی پر رکھے۔ چنانچہ اس نے ایک کام شروع کردیا۔ ایک دن ہاجرہ کو کہنا ہی پڑا، ”اے میاں! جس طرح تم نے بے تحاشا چیزیں بیچنی شروع کردی ہیں کچھ عجب نہیں کہ ایک دن میں بھی بکاؤ مال میں شامل ہو جاؤں۔“

    گوہر علی اب دونوں ہاتھوں سے دھن کما رہا تھا۔ تین سال میں اس کی کٹیا پر ٹین کی چھت پڑ چکی تھی۔ اس کے ساتھ ہی سڑک پر دیوانی اور فوجداری عدالتوں کی طرف آمد و رفت بھی شروع ہوگئی۔ دیہاتیوں کی سیدھی سادی زندگی میں سازش اور مکاری بھی شامل ہوگئی۔

    سڑک کے دونوں طرف کتنے ہی گلی کوچے بن گئے جن میں خدا جانے کتنے ہیر پھیر تھے۔ رفتہ رفتہ نوبت یہاں تک پہنچی کہ ایک دن کسی شخص کی چند گائیں چرتی چرتی کسی اور کے کھیت میں جا نکلیں۔ جس پر جھگڑا ہوگیا اور ایک آدمی مارا گیا۔

    جب تک جناب علی کو اس کی خبر ہو اور وہ موقع واردات پر پہنچے۔ سڑک کا کافی حصہ بھی نابود ہوچکا تھا کیوں کہ لڑنے والوں نے اس کے اکھڑے اکھڑے پتھر اٹھا اٹھا کر ایک دوسرے پر خوب گولہ باری کی۔

    جناب علی نے سب کو بلایا اور کہا ”کیا ہم نے سڑک اسی لیے بنائی تھی؟ ارے گنوار وحشیو!“ لیکن اس کے الفاظ کا لوگوں پر کوئی اثر نہ ہوا ۔ وہ سب تو تھانے، عدالت اور مقدمے کی فکر میں تھے۔

    اسی اثنا میں جنگ چھڑ گئی۔ گاؤں کی تاریخ میں یہ ایک نادر واقعہ تھا۔ جو کچھ گزشتہ کئی صدیاں نہیں کرسکی تھیں، وہ انگریزوں کی دو سو سال کی حکومت نے کر دکھایا۔

    اناج کا بھاؤ تیزی سے چڑھنے لگا۔ زندگی کے سوا ہر چیز کی قیمت بڑھ گئی۔ دھیرے دھیرے سڑک کے راستے قحط بھی آن پہنچا اور چور بازاری اور اس قسم کے اور وتیرے بھی ریلے مار مار کر آنے لگے۔ ان کی امڈتی ہوئی موجیں اپنے ساتھ امن کو بہا لے گئیں۔

    ساتھ ہی سرکاری حکام سڑک کے راستے گاؤں میں آنے لگے۔ یہ لوگ اپنی جیبیں رشوتوں سے بھر بھر کر واپس جاتے۔ شہر کے ایک بڑے رئیس کا باورچی لطفو ایک شخص اصغر اللہ کی جوان بیٹی کلثوم کو لے بھاگا۔

    فوجیوں کی رسد کے لیے ٹھیکیدار اور دوسرے لوگ سبزیاں، ترکاریاں، لکڑی، کاٹھ اور مرغیاں وغیرہ لینے آتے۔ گوہر علی کی ان میں سے ایک کے ساتھ دوستی ہوگئی۔ قحط کا زمانہ تھا۔ گوہر علی بڑی مشکل میں تھا۔ اس نے سوچا کہ اپنے نئے دوست کے اثر و رسوخ سے آمدنی بڑھانے کی کوئی صورت پیدا کرے۔ لیکن اس کی کوششوں کے باوجود کچھ بھی بن نہ پڑا۔ صرف ایک صبح ہاجرہ گھر سے کہیں غائب ہوگئی۔ وہ دوست اس کے بعد کبھی دکھائی نہ دیا۔

    پوچھ گچھ کرنے پر سات میل دور ایک کسان سے پتا چلا کہ اس نے ایک دن صبح سویرے ایک عورت کو کسی مرد کے ساتھ جاتے دیکھا تھا۔

    قحط نے گوہر علی کو ظاہری حیثیت سے پہلے ہی قلاش کردیا تھا۔ اب وہ روحانی طور پر بھی قلاش ہوگیا۔ ایک دن گاؤں میں خبر مشہور ہوگئی کہ گوہر علی اپنی بیوی کے چلے جانے پر دیوانہ ہوگیا۔ سب لوگ اسے دیکھنے کے لیے دوڑ دوڑ کر آنے لگے۔

    گوہر علی سڑک پر اندھا دھند کدال پر کدال برسا رہا تھا۔ سب پوچھنے لگے یہ کیا کر رہا ہے؟“ اس نے کدال روکے اور آنکھیں اٹھائے بغیر جواب دیا۔

    ”اس سڑک کا صفایا کر رہا ہوں۔“

    ”وہ کیوں؟“

    اس لیے کہ اس سڑک کا بنانا ایک غلطی تھی۔ اسے ہرگز نہیں بننا چاہیے تھا۔“

    گوہر علی نے کدال سے تابڑ توڑ چوٹیں برساتے ہوئے یہ الفاظ کچھ اس طرح کہے گویا وہ اپنے دل سے کوئی بات کررہا ہو۔

    (ابوالکلام شمس الدین کے بنگالی زبان کے افسانے کا ترجمہ)

  • ایک اور ڈر کا جنم

    ایک اور ڈر کا جنم

    مریل سے کلرک نے جیب سے مہینے بھر کی تنخواہ نکال کے چارپائی پر رکھی اور سرہانے کے نیچے سے لین داروں کی فہرست نکالی، جمع تفریق کے بعد اس کے پاس صرف پچاس روپے بچے تھے اور پورے اکتیس دن آگے کھڑے تھے۔

    کمرے میں وہ اکیلا تھا، بچوں کی ضرورتیں اور بیوی کی حسرتیں فلم کی ریل کی طرح اس کی آنکھوں سے گزرنے لگیں۔ بیوی کی مطلوبہ چیزوں پر لکیر پھیرتے ہوئے اسے تھوڑی تکلیف ہوئی، لیکن اسے احساس تھا کہ ایسا پہلی بار نہیں ہو رہا ہے۔

    ششی کی اَدھ گھسی پتلون نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا، پھر پپی کے ٹوٹے ہوئے جوتے نے ایک جھٹکے سے اس کا دھیان اپنی طرف کھینچ لیا۔ ابھی وہ کوئی فیصلہ نہیں کر پایا تھا کہ بیوی اندر آگئی اور پچاس کا ٹوٹ اٹھا کر بولی۔

    "مجھے نہیں پتا، یہ تو میں نہیں دوں گی۔”

    "ارے میری بات تو سنو۔”

    "بالکل نہیں۔”

    "سردیاں شروع ہوگئی ہیں اور پپی…..” اس کی بات سنی ہی نہیں‌ گئی اور بیوی نے کہا۔

    "پپی کے جوتے سے زیادہ ضروری آپ کی دوا ہے۔”

    وہ کچھ نہ بول سکا۔ اس نے گلے سے اٹھتی ہوئی کھانسی جبراً روک لی کہ اسے کھانستا دیکھ کر بیوی ڈاکٹر کو بلانے نہ چلی جائے۔

    مصنف: نامعلوم

  • دس پیسے

    دس پیسے

    بس ایک دس پیسے کے لیے جھگڑا ہوگیا دادی سے۔ اور چکو گھر سے بھاگ گیا۔

    دس پیسے بھی کوئی چیز ہوتی ہے؟ رام منوہر کی جیب میں کتنی ریزگاری رہتی ہے، جب چاہیں جاکے پتنگ خریدسکتے ہیں۔ ایک کٹی اور دوسرے کی کنی بندھ گئی، مانجے کی چرکھی بس بھری ہی رہتی ہے….اور سدی کے کتنے سارے پتے رکھے ہیں گھر میں۔

    یہ سب یاد آتے ہی پھر غصہ آگیا اسے۔ دادی ہے ہی ایسے گھنی۔ اسی لیے اتنی جھریاں ہیں اس کی شکل پر۔ رام کی دادی کی شکل پر تو ایک بھی نہیں۔ ایک کے بعد ایک اسے دادی کے سارے نقص یاد آنے لگے۔ کان کتنے ڈھیلے ڈھیلے ہیں۔ جب بھی گالوں پر چومتی ہے تو آنکھوں پر لٹک جاتے ہیں، اور پلکیں تو ہیں ہی نہیں۔ رات کو سوتی ہے تو آدھی آنکھیں کھلی رہتی ہیں۔ منہ بھی کھلا رہتا ہے۔

    دادی کے کارٹون بناتا، وہ ننگے پاﺅں ہی ریلوے اسٹیشن تک آگیا۔ بلا کسی ارادے کے وہ اسٹیشن میں گھس گیا۔ اور جیسے ہی گاڑی نے سیٹی دی، وہ دوڑ کے گاڑی میں چڑھ گیا۔

    گاڑی چلنے کے بعد ہی اس نے سوچا کہ چلو گھر سے بھاگ جائیں اور گاڑی میں ہی اس نے فیصلہ کیا کہ زندگی میں خود مختار ہونا بہت ضروری ہے، یہ بھی کوئی زندگی ہے۔ ایک ایک پتنگ کے لیے اتنے بوڑھے بوڑھے لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانا پڑیں۔ اسی لیے تو اس کے بڑے بھائی بھی دادی کو چھوڑ کر بمبئی چلے گئے تھے۔ اب کبھی نہیں آتے۔۔۔۔۔ کتنے سال ہوئے۔

    گاڑی کے دروازے کے پاس ہی بیٹھے بیٹھے اسے نیند آگئی۔ بہت دیر بعد جب آنکھ کھلی تو باہر اندھیرا ہوچکا تھا۔ اور تب اسے پہلی بار احساس ہوا کہ وہ واقعی گھر سے بھاگ آیا ہے۔ دادی پر غصہ تو کچھ کم ہوا تھا لیکن شکایت اور گلہ ابھی تک گلے میں رندھا ہوا تھا۔

    دس پیسے کون سی ایسی بڑی چیز ہیں۔ اب اگر پوجا کی کٹوری سے اٹھالیے تو چوری تھوڑا ہی ہوئی۔ بھگوان کی آنکھوں کے سامنے لے کر گیا تھا۔ خود ہی تو کہتی ہے دادی کہ اس کے دیوتا "جاگرت” ہیں۔ دن رات جاگتے رہتے ہیں؟ کبھی نہیں سوتے؟ نہیں! وہ آنکھ بند کرلیں، تب بھی دیکھ سکتے ہیں۔

    ہونہہ! تو دس پیسے کیسے نہیں دیکھے؟ اور دیکھے تو بتایا کیوں نہیں دادی کو؟ وہ تو سمجھتی ہے، میں نے چوری کی ہے۔ دادی کے بھگوان بھی اس جیسے ہیں۔ گُھنے، کم سنتے ہیں، کم دیکھتے ہیں۔

    کسی نے دروازے سے ہٹ کر اندر بیٹھنے کے لیے کہا۔ اسٹیشن آرہا تھا شاید۔ گاڑی آہستہ ہو رہی تھی۔ گاڑی کے رکتے رکتے ایک بار تو خیال آیا کہ لوٹ جائے، لیکن اسٹیشن پہ ٹہلتے ہوئے پولیس والوں کو دیکھ کر اس کا دل دہل گیا۔ وہ بنا ٹکٹ تھا، یہ خیال بھی پہلی بار ہوا اسے!

    اس نے سنا تھا بنا ٹکٹ والوں کو پکڑ کے پولیس جیل بھیج دیتی ہے، اور وہاں چکی پسواتی ہے۔ دروازے کے پاس ٹھنڈ بڑھ گئی تھی۔ وہ اندر کی طرف سیٹوں کے درمیان آکر بیٹھ گیا۔ گاڑی چلی اور لوگ اپنی اپنی جگہوں پر لوٹے تو صندوق، پیٹی، بستر کے اوپر نیچے سے ہوتا ہوا وہ کھڑکی کے بالکل نیچے جاکر فٹ ہو گیا۔ تھوڑی دیر بعد اسے بھوک اور پیاس کا احساس ستانے لگا۔ خود مختاری کے مسئلے ایک ایک کرکے سامنے آنے لگے۔ اسے بھوک بھی ستارہی تھی پیاس بھی۔ اوپر والی برتھ پر سوئے ہوئے حضرت کی صراحی مسلسل ٹرین کے ہچکولوں سے جھول رہی تھی اور صراحی کے منہ پر اوندھا لگا ہوا گلاس بھی مسلسل کٹ کٹ، کٹ کٹ کیے جا رہا تھا۔

    اس وقت نیلی وردی پر پتیلی کا چمکتا بلا لگائے، ٹکٹ چیکر داخل ہوا اس کے پیچھے ہی اس کا اسسٹنٹ، ایک بنا ٹکٹ والے کو گدی سے پکڑے ہوئے داخل ہوا۔ چکو کی تو جان ہی نکل گئی۔ چلتی ہوئی گاڑی میں یہ آدمی کیسے اندر آگیا۔ اسٹیشن سے چڑھتے ہوئے تو دیکھا نہیں تھا۔ ضرور کہیں چھپ کے بیٹھے رہتے ہوں گے یہ لوگ۔

    سیٹ کے نیچے ہی نیچے، گھسٹتا کھسکتا وہ نیلی وردی کے پیچھے کی طرف جا پہنچا۔ پھر وہاں سے کھسکتا ہوا ڈبے کے دوسری طرف جا نکلا جہاں اسے ٹائلٹ نظر آگیا۔ بس اسی میں گھس گیا اور کھول کے کموڈ پر بیٹھ گیا۔ یہاں تھوڑا ہی کوئی ٹکٹ پوچھنے آئے گا؟ یہ خیال بھی آیا کہ دوسرے لوگ یہ ترکیب کیوں نہیں استعمال کرتے۔ وہ چیچک کے داغوں والا تو کر ہی سکتا تھا جسے ٹی ٹی کے اسسٹنٹ نے گدی سے پکڑ رکھا تھا۔ بہت دیر۔۔۔۔ بہت دیر بیٹھا رہا۔ ننگی ٹانگوں پر ٹھنڈ لگ رہی تھی۔ تھوڑی دیر کموڈ پر بیٹھے بیٹھے نیند بھی آنے لگی تھی۔

    پھر گاڑی نے پٹڑی بدلی، ایک دھچکا لگا۔ رفتار بھی کچھ کم ہونے لگی۔ بڑی احتیاط سے اس نے ٹائلٹ کا دروازہ کھولا۔ باہر جھانکا، کوئی اسٹیشن آ رہا تھا۔ نیلی وردی کہیں نظر نہیں آئی۔ گاڑی رکی تو وہ فوراً اتر گیا۔
    سنسان اسٹیشن، آدھی رات کا وقت، کوئی اترا بھی نہیں۔ گاڑی تھوڑی دیر کھڑی ہانپتی رہی، پھر بھک بھک کرتی ہوئی آگے چل دی۔

    چکو ایک بینچ پر سکڑ کے اپنی ہی ٹانگوں میں منہ دے کر بیٹھ گیا اور فوراً ہی تکیے کی طرح لڑھک گیا۔ ٹھک ٹھک کرتا لالٹین ہاتھ میں لیے ایک چوکی دار آیا اور کان سے پکڑ کر اٹھا دیا۔

    اے۔۔۔۔ چل باہر نکل! گھر سے بھاگ کے آیا ہے کیا؟….چل نکل، نہیں تو چوکی والے دھر لیں، چکی پسوائیں گے جیل میں۔

    ایک دھمکی میں وہ لڑکھڑا کے کھڑا ہو گیا۔ چوکی دار ٹھک ٹھک کرتا، پھر غائب ہوگیا۔ چکو، پلیٹ فارم کے نیچے کی طرف ٹہل گیا، جہاں مدھم سی روشنی میں ایک بوریوں کا ڈھیر پڑا نظر آرہا تھا۔ بوریوں کے پیچھے ہی کوئی بڑھیا دادی کی طرح منہ کھولے سو رہی تھی، پھٹا پرانا ایک لحاف اوڑھے۔ کوئی بھکارن ہوگی۔ نیند اور برداشت نہیں ہو رہی تھی، وہ اسی بھکارن کے لحاف میں گھس گیا۔ اسے لگا تھا جیسے دادی کے لحاف میں گھس رہا ہے۔ گاﺅں میں اکثر یہ ہوتا تھا۔ میراثن اپنے پاس سلاتی تھی اور وہ رات کو اٹھ کر دادی کے لحاف میں جا گھستا تھا۔

    سَر زمین پر لگتے ہی سو گیا۔ صبح جب اٹھا تو ویسے ہی بڑھیا سے لپٹ کے سویا ہوا تھا۔ بھکارن کے سرہانے پڑے کٹورے میں ریزگاری پڑی تھی۔ پھر وہی کٹوری یاد آگئی، کل رات کی بھوک پھر عود کر آئی۔ اتنی ساری ریزگاری کیا کرے گی بڑھیا۔ دادی سے پوچھا تھا تو کہتی تھی:
    مر کے بھی تو ضرورت پڑتی ہے پیسوں کی۔ ورنہ اس کاٹھی کو جلائے گا کون؟

    جھوٹی! کتنی لکڑیاں پڑی تھیں گھر میں۔ اس کی نظر پھر کٹورے پر گئی۔ ایک دس پیسے نکال بھی لیے تو کیا ہے؟ یہاں تو بھگوان بھی نہیں، دادی بھی نہیں۔ اس نے اٹھالیے دس پیسے۔

    بڑھیا کا لحاف ٹھیک کیا اور موتری کی طرف چلا گیا۔ واپس آکر مٹی سے ہاتھ دھوئے اور نیکر کی جیب میں ہاتھ ڈال کر پونچھے تو ٹھنڈے ٹھنڈے دس پیسے کے سکے نے ہاتھ پر کاٹ کھایا۔

    واپس لوٹا تو بڑھیا کے پاس تین چار آدمی کھڑے تھے۔ ایک اس کے سَر کے پاس بیٹھا ہوا کہہ رہا تھا۔
    اکڑ گئی ہے، مرے ہوئے بھی آٹھ دس گھنٹے تو ہو گئے ہوں گے۔
    رات نیند ہی میں چل بسی شاید! چکو گھبرا کے کھڑا ہوگیا، وہیں ویٹنگ روم سے بھی کچھ لوگ اسی طرف آرہے تھے۔
    اب کیا ہو گا اس کا؟
    اسٹیشن ماسٹر آئے گا تو کسی کو خبر کرے گا!
    کس کو؟
    میونسپلٹی کو، وہی جلائے گی لے جاکے۔

    جو پاس بیٹھا تھا اس نے لحاف کھینچ کے منہ ڈھک دیا۔ چکو نے نیکر کی جیب سے دس پیسے نکالے اور بڑھیا کے کٹورے میں پھینک دیے۔ سب نے دیکھا اس کی طرف اور وہ بھاگ لیا۔
    تیز، بہت تیز، اپنی دادی کے پاس۔

    مصنف: گلزار

  • میرے مولا اپنی امانت واپس لے لے!

    میرے مولا اپنی امانت واپس لے لے!

    عبداللطیف ابو شامل
    باپُو باتیں بہت مزے کی کرتے ہیں۔ سادہ اور دل نشیں۔ باپوُ پہلے ایک وکیل کے پاس مُنشی ہوا کرتے تھے، پھر کسی کمپنی میں بھرتی ہوگئے اور پھر ریٹائر، اس کے بعد بھی چین سے نہیں بیٹھے۔

    کہیں سے ٹائروں کی مرمت کا کام سیکھ لیا اور اب تک یہی کر رہے ہیں، بچوں کو پڑھایا لکھایا ان کی شادیاں کیں لیکن کسی کے دست نگر نہیں رہے۔ آزاد منش اور درویش۔ لیاری کی ایک خستہ حال سڑک پر اپنی دکان سجا لیتے ہیں۔ سیدھا سادہ سا لباس پہنتے ہیں، بہت کم خوراک، کبھی کبھی تو یوں لگتا ہے باپُو بغیر کھائے پیے زندہ ہیں۔
    ایک دن میں نے پوچھا، باپُو کچھ کھاتے پیتے بھی ہیں آپ۔ ……!
    مسکرائے اور کہنے لگے، تُو کیا سمجھتا ہے، میں فرشتہ ہوں کیا۔ میں انسان ہوں، انسان، کھاتا پیتا جیتا جاگتا۔
    کیا جو کھائے پیے اور جیے وہ انسان ہوتا ہے؟ میں نے پوچھا۔ اب تُو دوسری طرف جارہا ہے، سیدھی طرح کیوں نہیں کہتا کہ آؤ باپُو بات کریں۔

    دیکھ کھاتے پیتے تو جانور بھی ہیں۔ لیکن انسان دوسروں کو اپنے کھانے پینے اور جینے میں شریک کرتا ہے۔ دوسرے کا دکھ درد اپنا سمجھ کر محسوس کرتا ہے۔ کوشش کرتا ہے زندگی کے چار دن سب ہنس کھیل کر گزار دیں۔ سب سکھی رہیں۔ دکھ درد ختم ہوں، راحت اور آرام آئے۔ سب نہال رہیں۔

    انسان کا وجود انسانوں کے لیے نہیں جانوروں کے لیے، پرندوں کے لیے حتیٰ کہ درختوں اور زمین کے کیڑے مکوڑوں کے لیے بھی باعث رحمت ہوتا ہے۔ ارے پگلے، وہ ہوتا ہے انسان، زمین پر اتارا گیا انسان۔ دریا دل اور سخی، بس اس کی گدڑی میں لعل ہی لعل ہوتے ہیں۔ بانٹتا چلا جاتا ہے اور دیکھ جو بانٹتا ہے اس کے پاس کبھی کم نہیں ہوتا۔
    کیوں….؟ میں نے پوچھا۔
    اس لیے کہ کائنات کا خالق بھی یہی کرتا ہے۔ خزانے لٹاتا رہتا ہے۔ ہر ایک کو دیتا ہے۔ ہر ایک کی ضرورت پوری کرتا ہے جب انسان یہ کرنے لگے تو خدا اس کی مدد کرتا ہے۔

    وہ اپنے پیسے پر، اپنی لیاقت پر، اپنی ذہانت پر، اپنی طاقت پر بھروسا نہیں کرتا، وہ تو بس اپنے رب پر بھروسا کرتا ہے، وہ تیرا مکرانی دوست کیا اچھی بات کہتا ہے۔
    کون سی بات باپُو؟
    وہی دانے اور چونچ والی۔
    ہاں ہاں یاد آیا مجھے، داد محمد جسے ہم سب پیار سے دادُو کہتے ہیں، کہتا ہے۔
    ”جس مالک نے چونچ دیا ہے وہ دانہ بھی دیں گا، ورنہ اپنا دیا ہوا چونچ بھی واپس لے لیں گا نیں، جس دن دانا ختم تو چونچ بھی واپس۔“

    دیکھ کیسی اچھی بات کہتا ہے وہ۔ اپنے رب پر بھروسا اسے ہی کہتے ہیں، مولا پر توکل کہ ملے گا ضرور ملے گا، دیر تو ہوگی، پر ملے گا ضرور۔ کیوں نہیں ملے گا وہ تو سارے جہانوں کی ساری مخلوق کو پالتا ہے۔ تجھ سے کیا دشمنی ہے اس کی، اس کی تو سب سے دوستی ہے، سب کو دیتا ہے، دے گا۔ تو انسان اسے کہتے ہیں جو اپنے پالن ہار کی صفات اپنائے، سخی ہو، رحم دل ہو، معاف کردیتا ہو، سب کے لیے اچھا چاہے، کوئی بھی ہو، کہیں کا بھی ہو، کسی بھی مذہب کا ہو، برائی کے پاس نہ جائے اور بُرے کو بھی سینے سے لگائے، اسے سمجھائے، دیکھ تُو اچھا ہے، تیرا فعل اچھا نہیں ہے۔ چھوڑ دے اسے، نیکی کر اچھائی پھیلا، خوشیاں بانٹ۔

    اور باپُو اگر کسی کے پاس دینے کے لیے کچھ بھی نہ ہو تو….؟
    یہ تجھے کیا ہوگیا؟ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ انسان ہو اور اس کے پاس دینے کو کچھ نہ ہو۔ چڑیا کے پاس چہچہانا ہے، چہچہاتی ہے۔ کوئل کوکتی ہے، کتا انسان کی رکھوالی کرتا ہے، بکری، گائے، بھینس دودھ دیتی ہے تو دنیا جہاں کی نعمتیں بنتی ہیں۔ درخت سایہ دیتا ہے، پھل دیتا ہے اور پھر اس کی لکڑی سے دنیا جہاں کا ساز و سامان تیار ہوتا ہے، اب تُو جس جس چیز کے بارے میں سوچتا چلا جائے گا اس کی سخاوت تیرے سامنے آتی چلی جائے گی۔

    انسان تو مخلوق میں سب سے اعلیٰ ہے۔ اس کا وجود کائنات کی ساری مخلوق کے لیے رحمت ہے۔ رحمت ہی رحمت، چاہت ہی چاہت، وہ سب کو دیتا ہے۔
    لیکن باپُو اس کے پاس کچھ ہوگا تو دے گا۔……
    پھر ناسمجھی والی بات۔ ارے ناسمجھ تُو کیا سمجھتا ہے۔ دولت، پیسا، طاقت ہی سب کچھ ہے۔ نہیں۔ ہر چیز تو پیسے سے نہیں خریدی جاسکتی، تجھے یاد ہے وہ ایک ملنگ ہوتا تھا چاکی واڑہ میں، کیا نام تھا اس کا؟
    رحمو نام تھا اس کا باپُو، وہ جس کا ایکسیڈنٹ ہوگیا تھا۔
    ”ہاں ہاں وہی۔“
    باپُو، وہ بس ایک ہی بات کرتا تھا۔ ”سُکھ چین بنو، سُکھ چین بنو۔“
    دیکھ کیسی اچھی بات کرتا تھا وہ کہ سُکھ چین بنو، لوگوں کے لیے سُکھ چین بنو، تمہیں دیکھ کر دوسرے خوش ہوں۔ گڑ نہ دو تو گڑ جیسی بات کرو۔ نفرت کے سامنے محبت بن کر کھڑے ہوجاؤ۔ اپنے لوگوں میں جیو، انھیں بے یار و مددگار نہ چھوڑو۔ بس یہ ہوتا ہے انسان۔
    اور باپُو یہ جو ہر جگہ انسان انسان کو مارتا پھرتا ہے، وہ انسان نہیں ہوتا کیا…؟
    نہیں، بالکل نہیں۔ وہ کہاں سے انسان ہے چریے۔
    کیوں باپُو؟ انسان ہی تو ہوتا ہے۔
    تُو بہت نادان ہے، اتنی سی بات تیرے پلّے نہیں پڑ رہی۔ جو انسان دوسروں کو دکھ دے، قتل کردے، ان کی خوشیاں چھین لے، مسکراہٹیں چھین کر لوگوں میں رونا بانٹے، لوگوں کے لیے روگ بن جائے وہ انسان نہیں رہتا، انسانی روپ میں چلتی پھرتی مصیبت بن جاتا ہے اور مصیبت سے چھٹکارے کے لیے دعا کرنی چاہیے کہ ”اے میرے مولا اپنی امانت واپس لے لے۔“
    مجھے تو باپُو کی کوئی بات سمجھ میں نہیں آئی۔ آپ کو سمجھ میں آگئی ہے تو مجھے بھی سمجھائیے۔

  • ہرا چشمہ

    ہرا چشمہ

    مصنف: شرن مکڑ
    گؤ دان کی اپیل سن کر ایک سیٹھ نے گائے خیرات کی۔ جس شخص کو خیرات کی گائے ملی، وہ شہر کی گندی سی بستی میں رہنے والا ایک غریب مزدور تھا۔ اس کی کون سی زمین تھی جہاں ہری ہری گھاس اگتی۔ بستی کے آس پاس ہریالی کا نام و نشان نہ تھا۔

    خیرات میں اُسے گائے ملی تھی، گھاس نہیں۔ اس نے گائے کو کھلانے کے لیے سوکھی گھاس ڈالی۔ امیر کی گائے نے سوکھی گھاس دیکھ کر منہ پھیر لیا، وہ کسی حالت میں سوکھی گھاس کھانے کے لیے تیار نہیں تھی۔ آدمی نے اس کی پیٹھ پر پیار سے ہاتھ پھیر کے منت کی گائے ٹس سے مس نہ ہوئی۔

    وہ دو دن سے بھوک ہڑتال پر ڈٹی ہوئی تھی۔ مزدور ڈر رہا تھا کہ گائے کو کچھ ہوگیا تو گائے کی موت کا گناہ اس کے سر ہوگا۔ وہ دل ہی دل میں خوف زدہ ہو رہا تھا۔

    اسے اس طرح پریشان اور گائے کی منت سماجت کرتے دیکھ کر کسی نے اسے گائے کی آنکھوں پر ہرا چشمہ باندھنے کا مشورہ دیا۔ مزدور نے ایسا ہی کیا۔ ہری پٹی کی عینک بناکر اس نے گائے کی آنکھوں پر لگا دی۔ اب گائے کے سامنے سوکھی گھاس کی جگہ ہری گھاس تھی۔ وہ خوش ہوگئی۔

    مزدور اب خوش تھا لیکن اس کا پڑھا لکھا بے روزگار بیٹا اداس تھا۔ مزدور نے اس سے اداسی کا سبب پوچھا، وہ روہانسا سا ہوکر بولا۔ ”بابو! مجھے تو ایسا لگتا ہے جیسے ہم عوام بھی گائے ہیں۔ لوگ ہماری آنکھوں پر امیدوں کا ہرا چشمہ لگا کر ہم سے ووٹ لے جاتے ہیں اور ہم سوکھے کو ہریالی سمجھ لیتے ہیں۔“