Tag: مخصوص نشستوں

  • کسی بھی وقت مخصوص نشستوں کے ارکان سے حلف لے سکتا ہوں، گورنر کے پی

    کسی بھی وقت مخصوص نشستوں کے ارکان سے حلف لے سکتا ہوں، گورنر کے پی

    پشاور(20 جولائی 2025): گورنر خیبرپختونخوا فیصل کریم کنڈی کا کہنا ہے کہ سینیٹ الیکشن سے پہلے کسی بھی وقت مخصوص نشستوں کے ارکان سے حلف لے سکتا ہوں۔

    تفصیلات کے مطابق گورنر خیبرپختونخوا فیصل کریم کنڈی نے ایک بیان میں کہا کہ پشاور ہائیکورٹ کے آرڈر کے بعد میٹنگ کال کی ہے، کوشش ہے آج یا کل مخصوص نشستوں کے ارکان سےحلف لے لیں۔

    فیصل کنڈی نے کہا کہ پشاور ہائیکورٹ کے آرڈر کے بعد میٹنگ کال کی ہے، حلف برداری ہوجائے گی اور کل سینیٹ الیکشن بھی ہوجائے گا، 2008 میں بھی ہارس ٹریڈنگ روکنے کیلئے بلامقابلہ الیکشن کرائے تھے۔

    https://urdu.arynews.tv/cj-phc-nominate-governor-kp-oath-taking-20-july-2025/

    انہوں نے کہا کہ میں بھی ہارس ٹریڈنگ روکنے کیلئے بلامقابلہ الیکشن کرائے تھے، اگر ان کے امیدوار بات نہیں مان رہے تو ایم پی اے کیسے مانیں گے، مقابلہ ہوا تو کوشش کرینگے 5 کے بجائے 6 سینیٹ نشستیں جیتیں۔

    گورنر کے پی کا کہنا تھا کہ کےپی کے مخصوص نشستوں کے ارکان سے آج یا کل حلف ہوجائےگا، سینیٹ الیکشن کل اپنے وقت پر ہوگا، ہائیکورٹ کے آرڈر کے بعد کسی بھی وقت حلف لے سکتا ہوں، سینیٹ الیکشن سے پہلے مخصوص نشستوں کے ارکان سےحلف لے لوں گا۔

    واضح رہے کہ مخصوص نشستوں پر حلف برداری کے لیے ہونے والا خیبرپختونخوا اسمبلی کا اجلاس شروع ہوتے ہی کورم کی نشاندہی پر ملتوی کر دیا گیا۔

    کورم کی نشاندہی پی ٹی آئی کے رکن شیر علی آفریدی نے کی جبکہ اپوزیشن کی جانب سے احتجاج کیا گیا۔

  • مخصوص نشستوں پر بحال 77 اراکین اسمبلی سے متعلق اہم فیصلہ

    مخصوص نشستوں پر بحال 77 اراکین اسمبلی سے متعلق اہم فیصلہ

    مخصوص نشستوں کے نظر ثانی کیس میں سپریم کورٹ آئینی بینچ کے فیصلے کے بعد بحال ہونے والے 77 اراکین اسمبلی سے متعلق اہم فیصلہ کر لیا گیا ہے۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق سپریم کورٹ کے آئینی بینچ کے مخصوص نشستوں پر نظر ثانی کیس کے فیصلے کے بعد الیکشن کمیشن نے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی مخصوص نشستوں پر معطل 77 اراکین کو بحال کر دیا تھا۔ اب ان کی تنخواہوں سے متعلق بڑا فیصلہ کیا گیا ہے۔

    پارلیمانی ذرائع کا کہنا ہے کہ مخصوص نشستوں پر بحال اراکین کو معطلی کے عرصہ کی تنخواہیں بھی دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

    سپریم کورٹ کے حکم پر 13 مئی 2024 کو مخصوص نشستوں پر معطل ہونے والے 77 اراکین قومی وصوبائی اسمبلی کو ان کی معطلی کے روز سے تنخواہ جاری کی جائے گی۔

    سپریم کورٹ کے اس فیصلے سے قومی اسمبلی کے مجموعی طور پر 22 اراکین معطل ہوئے تھے جن میں 19 خواتین اور 3 اقلیتی اراکین شامل تھیں۔ ذرائع نے بتایا کہ 22 میں سے 19 اراکین کی بحالی کو نوٹیفکیشن ہوچکا، تین کا باقی ہے۔ قومی اسمبلی کے مذکورہ 19 اراکین کو 13 مئی سے لے کر عدالتی فیصلے کی تاریخ تک بنیادی تنخواہیں ادا کی جائیں گی۔ تاہم انہیں ٹی اے ڈی اے اور دیگر الاؤنسز نہیں ملیں گے۔

    مذکورہ اراکین کو 13 مئی 2024 سے 31 دسمبر 2024 تک ڈیڑھ لاکھ روپے فی رکن بنیادی تنخواہ جب کہ یکم جنوری 2025 سے عدالتی فیصلے تک حال ہی میں اضافہ کی گئی تنخواہ کے تناسب سے بنیادی تنخواہ دی جائے گی۔

    صوبائی اسمبلیوں میں بحال 55 مخصوص نشستوں کے اراکین کو بھی بنیادی تنخواہ ایکٹ کے مطابق ادا کی جائے گی۔

    واضح رہے کہ گزشتہ سال 8 فروری کو ہونے والے عام انتخابات کے نتائج کے مطابق تمام جماعتوں کو ما سوائے تحریک انصاف (سنی اتحاد کونسل) ان کی نشستوں کے تناسب سے مخصوص نشستیں الاٹ کر دی گئی تھیں۔

    پی ٹی آئی (سنی اتحاد کونسل) نے مخصوص نشستوں کے لیے پہلے الیکشن کمیشن اور پھر پشاور ہائیکورٹ سے رجوع کیا۔ تاہم فیصلہ ان کے حق میں نہ آ سکا اور یہ مخصوص نشستیں ن لیگ، پی پی، جے یو آئی (ف) سمیت پارلیمنٹ میں موجود دیگر جماعتوں کو دے دی گئیں۔

    پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف پی ٹی آئی نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا گیا تھا۔ عدالت عظمیٰ نے گزشتہ سال 12 جولائی کو الیکشن کمیشن اور پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے پی ٹی آئی (سنی اتحاد کونسل) کو اس کی جنرل نشستوں کی بنیاد پر مخصوص نشستوں کا اہل قرار دے دیا تھا۔

    اس سے قبل سپریم کورٹ نے پشاور ہائیکورٹ اور الیکشن کمیشن کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے دیگر جماعتوں کو دی گئی مخصوص نشستوں پر 77 اراکین کو معطل کرنے کے احکامات دیے تھے، جس کے اگلے روز 13 مئی 2024 کو ان کی معطلی کا نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا گیا تھا۔

    تاہم سپریم کورٹ آئینی بینچ نے مخصوص نشستوں کے نظر ثانی کیس میں گزشتہ سال کے عدالت عظمیٰ کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ بحال کر دیا تھا جس کے تحت پی ٹی آئی مخصوص نشستوں سے محروم ہو گئی تھی۔

  • مخصوص نشستوں پر سپریم کورٹ کے فیصلے بعد صورتحال، اسمبلیوں میں پارٹی پوزیشن

    مخصوص نشستوں پر سپریم کورٹ کے فیصلے بعد صورتحال، اسمبلیوں میں پارٹی پوزیشن

    سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے مخصوص نشستوں سے متعلق نظر ثانی درخواستوں پر فیصلے کے بعد قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں صورتحال بدل گئی ہے۔

    سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے سپریم کورٹ کے گزشتہ برس 12 جولائی کے فیصلے جس میں سنی اتحاد کونسل (پی ٹی آئی) کو اس کے کوٹے کی مخصوص نشستوں کا اہل قرار دیا گیا تھا کو کالعدم قرار دیتے ہوئے پشاور ہائیکورٹ کا پی ٹی آئی کو مخصوص نشستیں نہ دینے کے فیصلے کو بحال کر دیا ہے۔

    سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے بعد قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے 77 ممبران کی رکنیت بحال ہوگئی ہے۔ قومی اسمبلی کی تین غیر مسلم نشستوں اور کے پی سے 8 خواتین ارکان قومی اسمبلی کی رکنیت بھی بحال ہو گئی ہے۔

    پنجاب سے قومی اسمبلی کی 11 خواتین ارکان کی مخصوص نشستوں پر رکنیت بحال ہو گئی ہے۔ پنجاب اسمبلی کی 24 خواتین ارکان اور 3 غیر مسلم ارکان کی رکنیت بھی بحال ہو گئی ہے۔

    سندھ اسمبلی سے 2 خواتین اور ایک غیر مسلم رکن جب کہ کے پی اسمبلی کی 21 خواتین اور 4 غیر مسلم ارکان کی رکنیت بھی حال ہوئی ہے۔

    سپریم کورٹ کے اس فیصلے سے سب سے زیادہ فائدہ وفاق میں حکمراں جماعت پاکستان مسلم لیگ ن کو ہوا ہے جس کی قومی اسمبلی اور تین صوبائی اسمبلیوں میں 44 نشستیں بحال ہوئی ہیں۔ پیپلز پارٹی کی مجموعی طور پر 15، جے یو آئی کی 13 جب کہ ایم کیو ایم، آئی پی پی، ق لیگ، اے این پی اور پی ٹی آئی پارلیمنٹرین کی ایک ایک نشست بحال ہوئی ہے۔

    قومی اسمبلی سے مسلم لیگ ن کی 14، پیپلز پارٹی کی 5 اور جے یو آئی کی 3 نشستیں بحال ہوئیں۔ خیبر پختونخوا اسمبلی سے جے یو آئی کی 10، ن لیگ کی 7، پیپلز پارٹی کی 2، ق لیگ اور آئی پی پی کی ایک، ایک نشست بحال ہوئی۔

    سندھ اسمبلی سے ایم کیو ایم کی ایک اور پی پی کی دو مخصوص نشستیں بحال ہوئی۔

    https://urdu.arynews.tv/pti-deprived-of-specific-seats-supreme-court/

  • تحریک انصاف مخصوص نشستوں سے محروم، سپریم کورٹ نے فیصلہ سنا دیا

    تحریک انصاف مخصوص نشستوں سے محروم، سپریم کورٹ نے فیصلہ سنا دیا

    سپریم کورٹ آئینی بینچ نے مخصوص نشستوں سے متعلق پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ بحال کر دیا پی ٹی آئی مخصوص نشستوں سے محروم ہو گئی ۔

    سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے مخصوص نشستوں کے کیس کا فیصلہ سنا دیا ہے اور سپریم کورٹ کا گزشتہ سال 12 جولائی کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ بحال کر دیا ہے۔ اس فیصلے کے بعد سنی اتحاد کونسل (پاکستان تحریک انصاف) کو مخصوص نشستیں نہیں ملیں گی۔ اس کے کوٹہ کی نشستیں ن لیگ، پیپلز پارٹی سمیت قومی اسمبلی میں موجود دیگر جماعتوں کو ملیں گی۔

    سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نےپی ٹی آئی کو مخصوص نشستیں دینے کے فیصلے کے خلاف نظر ثانی کی درخواستیں منظور کرتے ہوئے 17 سماعتوں کے بعد اس کا فیصلہ سنایا۔ اپنے مختصر فیصلے میں پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ بحال کرنے کے ساتھ الیکشن کمیشن کو 80 ارکان کی درخواستیں دوبارہ سننے کی ہدایت بھی کی۔

    سپریم کورٹ کے 3 کے مقابلے میں 7 کی اکثریت سے نظر ثانی درخواستیں منظور کیں۔ جسٹس امین الدین، جسٹس مسرت ہلالی،جسٹس نعیم اختر افغان، جسٹس شاہد بلال، جسٹس ہاشم کاکڑ، جسٹس عامر فاروق، جسٹس علی باقر نجفی آئینی بینچ کے اکثریتی ججز میں شامل تھے۔ فیصلہ آئینی بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین نے پڑھ کر سنایا۔

    اختلاف کرنے والوں میں جسٹس جمال مندوخیل نے 39 نشستوں کی حد تک اپنی رائے برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا جب کہ جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس حسن اظہر رضوی نے مشروط نظر ثانی درخواستیں منظور کیں۔

    اقلیتی ججز نے فیصلہ دیا کہ 80 نشستوں تک کا معاملہ الیکشن کمیشن کو بھجواتے ہیں۔ الیکشن کمیشن تمام متعلقہ ریکارڈ دیکھ کر طے کرے کہ کس کی کتنی مخصوص نشستیں بنتی ہیں۔

    مخصوص نشستوں پر نظر ثانی کیس کے لیے ابتدا میں 13 رکنی آئینی بینچ تشکیل دیا گیا تھا۔ تاہم جسٹس صلاح الدین پنہور نے بینچ سے علیحدگی اختیار کر لی تھی جب کہ جسٹس عائشہ ملک، جسٹس عقیل عباسی نے ابتدائی سماعت میں درخواستیں خارج کر دی تھیں۔

    مخصوص نشستوں کا کیس کیا ہے اور اس میں اب تک کیا کیا ہوا؟

    گزشتہ برس 8 فروری کو ہونے والے عام انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف نے الیکشن کمیشن کی جانب سے عائد پابندی کے باعث آزاد امیدواروں کو میدان میں اتارا اور کامیابی حاصل کی۔

    قانون کے مطابق آزاد ارکان مخصوص نشستوں کے اہل نہیں ہوتے، اس لیے پی ٹی آئی کے آزاد امیدواروں نے سنی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیار کی اور مخصوص نشستوں کے حصول کے لیے 21 فروری 2024 کو الیکشن کمیشن میں درخواست دائر کی تھی۔

    الیکشن کمیشن نے 28 فروری کو سنی اتحاد کونسل کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کیا اور 4 مارچ کو مخصوص نشستوں کی درخواست پر چار ایک کے تناسب سے فیصلہ سناتے ہوئے سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستوں سے محروم کر دیا۔

    الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف 6 مارچ کو سنی اتحاد کونسل نے مخصوص نشستوں کیلیے پشاور ہائیکورٹ سے رجوع کیا، لیکن پشاور ہائی کورٹ نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستیں نہ ملنے کے خلاف درخواستوں کو

    14 مارچ کو پشاور ہائیکورٹ کے پانچ رکنی لارجر بنچ نے متفقہ طور پر سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستیں نہ ملنے کے خلاف درخواست کو مسترد کیا۔

    سنی اتحاد کونسل نے اس کے بعد 2 اپریل 2024 کو مخصوص نشستوں کے حصول کے لیے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی۔

    جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے 6 مئی کو اس درخواست کی سماعت کرتے ہوئے پشاور ہائیکورٹ اور الیکشن کمیشن کا فیصلہ معطل کر دیا۔ تاہم آئینی معاملہ ہونے کے باعث لارجر بینچ کی تشکیل کے لیے معاملہ ججز کمیٹی کو بھیج دیا۔

    فل کورٹ نے 3 جون کو مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کی پہلی سماعت کی اور 9 سماعتوں کے بعد اس وقت کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 9 جولائی کو فیصلہ محفوظ کیا، جو 12 جولائی کو سنایا گیا۔

    سپریم کورٹ کے اکثریتی ججز نے پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو دینے کا فیصلہ سنایا۔ یہ فیصلہ 8 ججز کی اکثریت نے دیا جب کہ پانچ نے اس سے اختلاف کیا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے اکثریتی فیصلہ تحریر کیا۔

    اکثریتی فیصلہ کے ساتھ اختلاف کرنے والے ججز میں سے سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس جمال مندوخیل نے ایک نوٹ تحریر کیا جب کہ جسٹس امین الدین خان، جسٹس نعیم اختر اعوان اور موجودہ چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے الگ الگ نوٹ تحریر کیے۔

    سپریم کورٹ کے فل کورٹ کے 12 جولائی کے اکثریتی فیصلے کے خلاف ن لیگ ، پیپلز پارٹی اور الیکشن کمیشن نے نظر ثانی درخواستیں دائر کیں۔ جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 13رکنی بینچ نے نظر ثانی درخواستوں پر 17 سماعتیں کیں۔

    بعد ازاں جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس عقیل عباسی نے اگلی سماعت پر نظر ثانی درخواستوں کو خارج کرتے ہوئے بینچ سے علیحدگی اختیار کر لی تھی جس کے بعد دیگر 11 ججز نے سماعت جاری رکھی۔

    آج جسٹس صلاح الدین پنہور کی بینچ سے علیحدگی کے بعد سپریم کورٹ کے آئینی بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین خان نے سماعت کو جاری رکھتے ہوئے کچھ دیر پہلے فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

  • مخصوص نشستیں کس کو ملیں گی؟ وفاقی حکومت نے الیکشن کمیشن سے امید باندھ لی

    مخصوص نشستیں کس کو ملیں گی؟ وفاقی حکومت نے الیکشن کمیشن سے امید باندھ لی

    اسلام آباد: وفاقی حکومت نے مخصوص نشستوں کے حصول کیلئے الیکشن کمیشن سے امید باندھ لی، الیکشن کمیشن آج اس حوالے سے کوئی فیصلہ کرسکتا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق وفاقی حکومت آج مخصوص نشستوں کے دوبارہ ملنے کے لیے پُرعزم ہیں اور مخصوص نشستوں کے حصول کیلئے الیکشن کمیشن سے امید باندھ لی۔

    تمام جماعتوں نے مخصوص سیٹوں پرمعطل اراکین کو اسلام آبادبلالیا ، آج تمام 23 معطل ارکان کو پارلیمنٹ ہاؤس میں بھی بلالیا گیا ہے۔

    اسپیکر کے خطوط پر الیکشن کمیشن سے بحالی کی صورت میں ارکان ایوان میں حاضر ہوں گے۔

    ذرائع نے بتایا کہ حکومت آئینی ترامیم کیلئے دو تہائی اکثریت سے زائد ووٹ حاصل کرنے کا دعویٰ کر چکی ہے۔

    مخصوص سیٹوں کی الاٹمنٹ سے متعلق اسپیکرز کے خطوط کے معاملے پر الیکشن کمیشن کا اہم اجلاس آج پھر طلب کر لیا گیا ہے، اس معاملے پر آج حتمی اجلاس ہوگا۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن مخصوص سیٹوں پرآج کوئی فیصلہ کرسکتا ہے۔

    الیکشن کمیشن نے گزشتہ روز بھی خطوط کا جائزہ لیا، قانونی ٹیم نے کئی پہلوؤں پر الیکشن کمیشن کوبریف کیا۔

    مزید پڑھیں : پی ٹی آئی قومی اسمبلی میں مخصوص نشستوں کی حقدار ہے، سپریم کورٹ کا تفصیلی فیصلہ جاری

    واضح رہے سپریم کورٹ کے تیرہ رکنی فل کورٹ نے مخصوص نشستیں تحریک انصاف کو دینے کا حکم دیا تھا۔

    سپریم کورٹ نے مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو دینے کا حکم دیتے ہوئے کہا تھا کہ فیصلے کا اطلاق قومی اسمبلی اور تمام صوبائی اسمبلیوں پر ہوگا۔

    فیصلے میں کہا گیا تھا کہ پنجاب،کےپی اور سندھ میں بھی مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو دی جائیں ، پی ٹی آئی کے منتخب امیدواروں کو کسی اور جماعت یا آزاد امیدوار تصورنہ کیا جائے۔

  • مخصوص نشستوں پر سپریم کورٹ کے 8  ججوں کے وضاحتی فیصلے کو چیلنج کردیا گیا

    مخصوص نشستوں پر سپریم کورٹ کے 8 ججوں کے وضاحتی فیصلے کو چیلنج کردیا گیا

    اسلام آباد :مخصوص نشستوں پر سپریم کورٹ کے 8 ججوں کے وضاحتی فیصلے کو چیلنج کردیا گیا ، جس میں استدعا کی وضاحت پر نظرثانی کی جائے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ کی مخصوص نشستوں پر 14 ستمبرکی وضاحت پر نظرثانی درخواست کردی گئی ، اکثریتی ججز کی وضاحت پر الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ میں نظرثانی درخواست دائر کی۔

    درخواست میں کہا گیا کہ عدالتی فیصلے پر تاخیر کا ذمہ دار الیکشن کمیشن نہیں، 12 جولائی فیصلے کی وضاحت 25 جولائی کو دائر کی، سپریم کورٹ نے14ستمبرکووضاحت کاآرڈرجاری کیا۔

    درخواست میں کہنا تھا کہ عدالت نے تحریک انصاف کو جواب کیلئے کب نوٹس جاری کیا؟ پی ٹی آئی کی دستاویزپرعدالت نےالیکشن کمیشن کونوٹس جاری نہیں کیا، عدالت نے پی ٹی آئی دستاویز پر الیکشن کمیشن سےجواب طلب نہیں کیا۔

    درخواست میں استدعا کی گئی پارلیمنٹ نے قانون سازی کردی،سپریم کورٹ 14ستمبرکی وضاحت پر نظرثانی کرے۔

    یاد رہے مخصوص نشستوں کے کیس میں اکثریتی فیصلہ دینے والے 8 ججز کی وضاحت جاری کی گئی  تھی، جس میں سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن کی وضاحت کی درخواست تاخیری حربہ ہے۔

    مزید پڑھیں : مخصوص نشستوں کے کیس سے متعلق سپریم کورٹ کا وضاحتی فیصلہ

    عدالتی فیصلے میں کہا گیا تھا کہ الیکشن کمیشن کی درخواست عدالتی فیصلے پرعملدرآمد کےراستے میں رکاوٹ ہے۔

    سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کی وضاحت کی درخواست درست نہیں، الیکشن کمیشن نے خود بیرسٹر گوہر کو پارٹی چیئرمین تسلیم کیا تھا۔

    عدالتی فیصلے کے مطابق الیکشن کمیشن وضاحت کے نام پر اپنی پوزیشن تبدیل نہیں کرسکتا۔

    سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا تھ کہ الیکشن کمیشن کی تسلیم شدہ پوزیشن ہے، پی ٹی آئی رجسٹرڈ سیاسی جماعت ہے، اقلیتی ججز نے بھی تحریک انصاف کی قانونی پوزیشن کو تسلییم کیا۔

    وضاحتی فیصلے  کے مطابق سرٹیفکیٹ جمع کرانے والے پی ٹی آئی کے ارکان ہیں، عدالتی فیصلے پر عمل کے تاخیر کے نتائج ہوسکتے ہیں، سرٹیفکیٹ جمع کرانے والے پی ٹی آئی کے ارکان ہیں، الیکشن کمیشن نے 41 ارکان سے متعلق وضاحت کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔

  • مخصوص نشستوں سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد کیلئے درخواست دائر

    مخصوص نشستوں سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد کیلئے درخواست دائر

    لاہور : مخصوص نشستوں سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد کیلئے درخواست دائر کردی گئی ، جس میں استدعا کی گئی کہ عدالت مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو دینے کا حکم دے۔

    تفصیلات کے مطابق مخصوص نشستوں کے فیصلے پر عملدرآمد کیلئے لاہور ہائیکورٹ میں درخواست دائر کردی گئی، درخواست شہری منیراحمدکی جانب سےاظہرصدیق ایڈووکیٹ نے دائر کی۔

    درخواست میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ نےمخصوص نشستیں پی ٹی آئی کودینےکاحکم دیا، عدالت کی جانب سےمختصرفیصلے کی وضاحت بھی جاری کی گئی۔

    درخواست گزار کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کامخصوص نشستوں پرتفصیلی فیصلہ آچکاہے،درخواست گزار عدالتی فیصلے کےباوجودپی ٹی آئی کومخصوص نشستیں نہیں دی گئیں۔

    درخواست میں استدعا کی گئی کہ عدالت سپریم کورٹ کےاحکامات پرعمل کرنےکاحکم دے اور سپریم کورٹ کےفیصلےکی روشنی میں مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کودینےکاحکم دیں۔

    گذشتہ روز سپریم کورٹ نےمخصوص نشستوں سےمتعلق کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کیا تھا ، ،سترصفحات کا فیصلہ جسٹس منصورعلی شاہ نے تحریر کیا تھا۔

    فیصلےمیں پی ٹی آئی کومخصوص نشستوں کاحقدار قراردیتے ہوئےالیکشن کمیشن کوہدایت کی پی ٹی آئی کےامیدواروں کونوٹیفائی کیا جائے۔

    سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کو مخصوص نشستیں نہ دینااضافی سزا ہے،پی ٹی آئی کی فریق بننےکی درخواست موجودتھی،اکثریتی فیصلے سے متعلق چودہ ستمبرکی وضاحت کو فیصلے کا حصہ سمجھا جائے۔

  • مخصوص نشستوں کے کیس کا  تفصیلی فیصلہ ، جسٹس امین الدین اور جسٹس نعیم اختر کا عمل منصب کے منافی قرار

    مخصوص نشستوں کے کیس کا تفصیلی فیصلہ ، جسٹس امین الدین اور جسٹس نعیم اختر کا عمل منصب کے منافی قرار

    اسلام آباد : سپریم کورٹ کے آٹھ ججوں نے مخصوص نشستوں کے کیس کے تفصیلی فیصلے میں جسٹس امین الدین اور جسٹس نعیم اختر کا عمل منصب کے منافی قرار دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ نے مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا ، تفصیلی فیصلہ جسٹس منصورعلی شاہ نےتحریرکیاہے ، مخصوص نشستوں سے متعلق اکثریتی فیصلہ 70 صفحات پر مشتمل ہے۔

    فیصلے میں سپریم کورٹ کے آٹھ ججوں نے دو ججوں کے اختلافی نوٹ پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے جسٹس امین الدین خان اور جسٹس نعیم اختر افغان کا عمل سپریم کورٹ کے ججوں کے منصب کے منافی قرار دیا۔

    تفصیلی فیصلے میں کہا دونوں ججوں نے بارہ جولائی کے فیصلے کو آئین سے متصادم قرار دیا، اکثریتی فیصلے پر جس انداز میں اختلاف کیا گیا وہ سپریم کورٹ کےججوں کو زیب نہیں دیتا۔

    عدالت کا کہنا تھا کہ حکم نامہ میں ہم نے مینڈیٹ کو نظرانداز کیا، وہ وجوہات بھی بتائیں کہ دوسرےججوں کی رائے میں غلط کیا ہے۔۔ دونوں ججوں کا اختلاف کا انداز سپریم کورٹ کے ججوں کیلئے درکار شائستگی اور تحمل سے کم ہے۔

    عدالتی فیصلے میں مزید کہا گیا کہ پریشانی کی بات یہ ہے کہ اختلافی نوٹ میں دونوں ججوں نے اسّی کامیاب امیدواروں کو وارننگ دی، رائے دیتے ہوئے حدود سے تجاوز کرگئے۔۔ دونوں ججوں کا یہ عمل عدالتی کارروائی اور انصاف کی فراہمی میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش ہے
    GFX

  • الیکشن کمیشن فروری 2024 میں اپنا کردار ادا کرنے میں ناکام رہا، مخصوص نشستوں کے کیس کا  تفصیلی فیصلہ

    الیکشن کمیشن فروری 2024 میں اپنا کردار ادا کرنے میں ناکام رہا، مخصوص نشستوں کے کیس کا تفصیلی فیصلہ

    سپریم کورٹ کے مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کے تفصیلی فیصلے میں الیکشن کمیشن کے رویے پر حیرانی کا اظہار کرتے ہوئے الیکشن کمیشن فروری 2024 میں اپنا کردار ادا کرنے میں ناکام رہا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ نے مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا ، تفصیلی فیصلہ جسٹس منصورعلی شاہ نےتحریرکیاہے ، مخصوص نشستوں سے متعلق اکثریتی فیصلہ 70 صفحات پر مشتمل ہے۔

    سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلے میں الیکشن کمیشن کےرویےپربھی حیرانی کا اظہار کرتے ہوئے کہا الیکشن کمیشن بنیادی فریق سےمخالف کےطورپرکیس لڑتارہا، الیکشن کمیشن ملک میں جمہوری عمل کاضامن اور حکومت کاچوتھاستون ہے۔

    تفصیلی فیصلے میں کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن فروری2024 میں اپناکرداراداکرنے میں ناکام رہا، انتخابات کے عمل میں تمام اتھارٹیزکوشفاف کاعمل اپناناچاہیے۔

    سپریم کورٹ اکثریتی ججز کے تفصیلی فیصلے میں کہنا تھا کہ انتخابی نشان نہ دیناسیاسی جماعت کے الیکشن لڑنے کے قانونی وآئینی حق کومتاثرنہیں کرتا، عوام کےپاس گورننس کرنے کا اختیار ان کے منتخب کردہ امیدوار ان سےہے، عوام کاووٹ جمہوری گورننس کااہم جزہے، جمہوریت کااختیارعوام کےپاس ہے۔

    یاد رہے مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کا مختصر فیصلہ 12جولائی کو سنایا گیا تھا۔

  • پی ٹی آئی قومی اسمبلی میں مخصوص نشستوں کی حقدار ہے، سپریم کورٹ کا تفصیلی فیصلہ جاری

    پی ٹی آئی قومی اسمبلی میں مخصوص نشستوں کی حقدار ہے، سپریم کورٹ کا تفصیلی فیصلہ جاری

    اسلام آباد: سپریم کورٹ نے مخصوص نشستوں سےمتعلق کیس کے تفصیلی فیصلے میں کہا کہ پی ٹی آئی قومی اسمبلی میں مخصوص نشستوں کی حقدار ہے، آئین وقانون کسی شہری کوانتخاب لڑنےسےنہیں روکتا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ نے مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا ، تفصیلی فیصلہ جسٹس منصورعلی شاہ نےتحریرکیاہے ، مخصوص نشستوں سے متعلق اکثریتی فیصلہ 70 صفحات پر مشتمل ہے۔

    جس میں کہا گیا ہے کہ پشاورہائیکورٹ کےمخصوص نشستوں سےمتعلق فیصلےکوکالعدم قراردیتےہیں، الیکشن کمیشن کایکم مارچ کوفیصلہ آئین سےمتصادم ہے، الیکشن میں بڑااسٹیک عوام کاہوتاہے، الیکشن کمیشن کے یکم مارچ کے فیصلےکی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔

    سپریم کورٹ نے مخصوص نشستوں سے متعلق تفصیلی فیصلہ اردومیں بھی جاری کرنے کا حکم دیا اور فیصلے میں کہا کہ آئین یاقانون سیاسی جماعت کوانتخابات میں امیدوار کھڑے کرنے سے نہیں روکتا، پاکستان تحریک انصاف ایک سیاسی جماعت ہے، انتخابی نشان نہ دیناسیاسی جماعت کےانتخاب لڑنےکےقانونی وآئینی حق کو متاثر نہیں کرسکتا۔

    تفصیلی فیصلے میں کہنا تھا کہ پی ٹی آئی نے2024کےانتخابات میں قومی وصوبائی اسمبلیوں کی نشستیں جیتیں، الیکشن کمیشن نےپی ٹی آئی کے80 میں سے39 ایم این ایز کوپی ٹی آئی کاظاہرکیا اور الیکشن کمیشن کوحکم دیاکہ باقی41 ایم این ایز کے 15روز  کے اندر دستخط شدہ بیان لیں۔

    عدالت نے کہا کہ عوام کی خواہش اورجمہوریت کےلیےشفاف انتخابات ضروری ہیں، انتخابی تنازع بنیادی طور پر دیگر سول تنازعات سے مختلف ہوتاہے، یہ سمجھنےکی بہت کوشش کی کہ اتنے آزاد امیدوار کیسے کامیاب ہو سکتے ہیں تاہم اس سوال کاکوئی تسلی بخش جواب نہیں دیا گیا۔

    سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کا دعویٰ تھا کہ آزاد امیدوار بھی پی ٹی آئی کےامیدوارتھے، پی ٹی آئی کے مطابق ووٹرز نے ان کے امیدوار ہونے کی وجہ سے ووٹ دیا۔

    عدالت نے بتایا کہ 8 ججز نے تفصیلی فیصلے میں 2 ججز کے اختلافی نوٹ پرتحفظات کااظہاربھی کیا اور جسٹس امین الدین اورجسٹس نعیم اخترافغان نے12جولائی کےفیصلےکوآئین سے متصادم قرار دیا، جس انداز میں 2 ججز  نے اکثریتی فیصلے پر اختلاف کا اظہار کیا وہ مناسب نہیں۔

    تفصیلی فیصلے کے مطابق ساتھی ججزدوسرےججزکی رائےپرکمنٹس دےسکتےہیں، رائے دینے کیلئے وہ وجوہات بھی دیں کہ دوسرےججزکی رائےمیں کیاغلط ہے، جسٹس امین الدین اورجسٹس نعیم اخترافغان کاعمل سپریم کورٹ کے ججز کے منصب کے منافی ہے۔

    سپریم کورٹ نے کہا کہ بھاری دل سےبتاتےہیں 2 ساتھی ججز نے ہمارے فیصلےسےاتفاق نہیں کیا، بطوربینچ ممبران قانونی طورپرحقائق اورقانون سےاختلاف کرسکتےہیں، جس طریقے سے ججز نے اختلاف کیا وہ سپریم کورٹ کے ججز کے تحمل اورشائستگی سے کم ہے۔

    فیصلے میں مزید کہا گیا کہ 2ججزکایہ عمل عدالتی کارروائی اورفراہمی انصاف میں رکاوٹ ڈالنےکی کوشش ہے،  2ججز نے80 کامیاب امیدواروں کووارننگ دی اور پریشان کن بات یہ ہےکہ ججز اپنی رائے دیتے ہوئے حدود سے تجاوز کرگئے۔

    عدالت کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن ملک میں جمہوری عمل کاضامن اورحکومت کاچوتھاستون ہے، الیکشن کمیشن مخصوص نشستوں پرپی ٹی آئی کےامیدواروں کونوٹیفائی کرے، پی ٹی آئی قومی اسمبلی میں مخصوص نشستوں کی حقدارہے، آئین وقانون کسی شہری کوانتخاب لڑنےسےنہیں روکتا۔

    فیصلے کے مطابق عوام کی خواہش اور جمہوریت کیلئے شفاف انتخابات ضروری ہیں، آئین عوام کو اپنا جمہوری راستہ اپنانے کا اختیار دیتاہے، عوام کا ووٹ جمہوری گورننس کیلئےاہم ہے، پی ٹی آئی کی کیس میں فریق بننے کی درخواست ہمارے سامنے موجود تھی، عمومی طورپرفریق بننےکی درخواست پر پہلے فیصلہ کیا جاتا ہے۔