Tag: مخصوص نشستوں کا کیس

  • مخصوص نشستوں کا کیس، سپریم کورٹ کا نیا 11 رکنی بینچ تشکیل

    مخصوص نشستوں کا کیس، سپریم کورٹ کا نیا 11 رکنی بینچ تشکیل

    مخصوص نشستوں کے کیس میں سپریم کورٹ کا نیا 11 رکنی بینچ تشکیل دے دیا گیا۔

    مخصوص نشستوں کے کیس میں جسٹس عائشہ ملک، جسٹس عقیل عباسی کو بینچ میں شامل نہیں کیا گیا ہے، دونوں ججز نے نظرثانی درخواستوں کو مسترد کردیا تھا۔

    جسٹس امین الدین 11 رکنی بینچ کے سربراہ ہوں گے۔

    اس سے قبل سپریم کورٹ میں جسٹس منصورعلی شاہ، جسٹس محمدعلی مظہر اور جسٹس شاہد بلال پر مشتمل سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے نظرثانی کے اسکوپ پر فیصلہ جاری کیا تھا۔

    یہ پڑھیں: مخصوص نشستوں پر نظر ثانی کیس سے پہلے جسٹس منصور علی شاہ کا اہم فیصلہ جاری

    جس میں کہا گیا تھا کہ نظرثانی آرٹیکل 188 اور رولز کے تحت ہی ہو سکتی ہے، نظرثانی کےلئے فیصلے میں کسی واضح غلطی کی نشاندہی لازم ہے۔

    فیصلے میں کہنا تھا کہ محض ایک فریق کا عدم اطمینان نظرثانی کی بنیادنہیں ہوسکتا، نظرثانی کیس میں فریق پہلےسے مسترد ہوچکا نکتہ دوبارہ نہیں اٹھا سکتا، نظرثانی کی بنیاد یہ بھی نہیں بن سکتی کہ فیصلے میں دوسرانکتہ نظربھی شامل ہوسکتا تھا۔

    عدالت نے کہا تھا کہ پاکستان میں اس وقت 22 لاکھ مقدمات زیر التوا ہیں، سپریم کورٹ میں 56 ہزار سے زائد کیسز زیر التوا ہیں، ان زیر التواکیسز میں بڑا حصہ نظرثانی درخواستوں کابھی ہے۔

    عدالتی فیصلے میں مزید کہنا تھا کہ من گھڑت قسم کی نظرثانی درخواستوں کی حوصلہ شکنی ہونی چاہئے۔

  • مخصوص نشستوں کے کیس کا  فیصلہ : متاثرہ 3 لیگی ارکان کی نظرثانی درخواست دائر

    مخصوص نشستوں کے کیس کا فیصلہ : متاثرہ 3 لیگی ارکان کی نظرثانی درخواست دائر

    اسلام آباد : مخصوص نشستوں کے کیس کے فیصلے سے متاثرہ تین لیگی ارکان نے سپریم کورٹ میں نظرثانی کی درخواست دائر کردی۔

    تفصیلات کے مطابق مسلم لیگ ن کے 3 ارکان نے مخصوص نشستوں کے کیس کے فیصلے پر نظرثانی درخواست دائرکردی، ہما اختر چغتائی، ماہ جبین عباسی اور سیدہ آمنہ بتول نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی۔

    درخواست میں موقف اختیار کیا گیا کہ پورا کیس سنی اتحاد کونسل کی مخصوص سیٹوں سے متعلق تھا، پارٹی تبدیلی کیلئے 15 دن دینا آئین دوبارہ تحریرکرنے کے مترادف ہے۔

    درخواست میں مزید کہا گیا کہ قانون میں طےکردہ اصول سے ہٹ کر نیا طریقہ نہیں اپنایا جاسکتا، استدعا ہے کہ 12 جولائی کے مختصر اکثریتی فیصلے کو کالعدم قراردیا جائے۔

    درخواست میں سنی اتحاد کونسل اورالیکشن کمیشن سمیت دیگر کو فریق بنایا گیا ہے۔

  • مخصوص نشستوں کا کیس : سپریم کورٹ کے ججز کے اختلافی نوٹ سامنے آگئے

    مخصوص نشستوں کا کیس : سپریم کورٹ کے ججز کے اختلافی نوٹ سامنے آگئے

    اسلام آباد : مخصوص نشستوں کے کیس میں جسٹس یحییٰ آفریدی ، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس جمال خان مندوخیل کے اختلافی نوٹ سامنے آگئے۔

    تفصیلات کے مطابق مخصوص نشستوں کے کیس مین سپریم کورٹ کا اکثریتی فیصلہ جسٹس منصور علی شاہ کا تحریر کردہ ہے ، جسٹس منصور علی شاہ نے ہی اکثریتی فیصلہ پڑھ کر سنایا۔

    جسٹس منیب اختر،جسٹس اطہر من اللہ ،جسٹس محمد علی مظہر ، جسٹس عائشہ ،جسٹس شاہد وحید ،جسٹس حسن اظہررضوی ، جسٹس عرفان سعادت اکثریتی فیصلے سے اتفاق کرنیوالےججز میں شامل ہیں۔

    جسٹس امین الدین اور جسٹس نعیم اختر افغان نے الیکشن کمیشن ،پشاور ہائیکورٹ کافیصلہ برقرار رکھا لیکن جسٹس امین الدین خان ،جسٹس نعیم اختر افغان نے سنی اتحاد کونسل کی اپیلیں خارج کردیں۔

    چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس جمال خان مندوخیل نے علیحدہ فیصلہ دیا جبکہ جسٹس یحییٰ آفریدی سنی اتحاد کونسل کی اپیلیں مستردکردیں۔

    جسٹس یحییٰ آفریدی نے اختلافی نوٹ میں کہا کہ الیکشن کمیشن ریکارڈ کے مطابق کچھ ممبران تحریک انصاف سے وابستہ رہے، وابستہ رہنے والوں کےتناسب سےتحریک انصاف کو مخصوص نشستیں دی جانی چاہئیں۔

    چیف جسٹس اور جسٹس جمال مندوخیل نے اختلافی نوٹ میں کہا کہ آئین میں نئے الفاظ شامل کرنا ترمیم کےمترادف ہیں ، سپریم کورٹ آئین میں مصنوعی الفاظ کااضافہ نہیں کر سکتی۔

    چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آئینی تشریح کے ذریعے نئے الفاظ کا اضافہ کرناآئین دوبارہ تحریر کرنےکے مترادف ہے۔

    دونوں ججز کی جانب سے اختلافی نوٹ میں کہا گیا کہ الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن کیس فیصلے کی غلط تشریح کی، چیف جسٹس ، سنی اتحاد کونسل نے عام انتخابات میں حصہ نہیں لیا، سنی اتحاد کونسل مخصوص نشستوں کی حق دار نہیں۔

    اختلافی نوٹ کے مطابق الیکشن کمیشن کےپاس سیاسی جماعت کےامیدواران کو آزاد ڈکلیئر کرنے کا اختیار نہیں، الیکشن کمیشن فیصلے کیخلاف سپریم کورٹ ،ہائیکورٹ سے رجوع نہیں کیا گیا۔

  • سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں ملیں گی یا نہیں ؟ فیصلہ آج  سنایا جائے گا

    سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں ملیں گی یا نہیں ؟ فیصلہ آج سنایا جائے گا

    اسلام آباد : سپریم کورٹ میں سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کا فیصلہ آج سنایا جائے گا۔

    تفصیلات کے مطابق سنی اتحادکونسل کو مخصوص نشستیں ملنے یا نہ ملنے سے متعلق فیصلہ چیف جسٹس کی سربراہی میں 13 رکنی فل کورٹ سنائے گا۔

    فیصلہ سنانے کا وقت اور بینچ تبدیل کردیا گیا ہے اور رجسٹرار سپریم کورٹ نے نئی کازلسٹ جاری کردی۔

    جس کے مطابق تیرہ رکنی بینچ دوپہر بارہ بجے فیصلہ سنائے گا، اس سے پہلے جاری کی گئی کاز لسٹ میں کہا گیا تھا تھا کہ محفوظ شدہ فیصلہ چیف جسٹس کے ریگولر تین رکنی بینچ میں صبح نو بجے سنایا جائے گا۔

    چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تیرہ رکنی فل کورٹ نے نو جولائی کو سماعت مکمل کرنے کے بعد فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

    جس کے بعد چیف جسٹس کی سربراہی میں دو مشاورتی اجلاس بھی ہوئے تھے۔

    مخصوص نشستوں کے کیس میں کب کیا ہوا؟

    الیکشن کمیشن نے عام انتخابات کے بعد سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستیں دیگر سیاسی جماعتوں کو دیں، جس کے بعد الیکشن کمیشن کے فیصلے پر سنی اتحاد کونسل نے پشاور ہائیکورٹ سے رجوع کیا۔

    بعد ازاں پشاور ہائیکورٹ کے لارجر بینچ نے الیکشن کمیشن کا فیصلہ برقرار رکھا۔ جس پر سنی اتحاد کونسل نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کردی۔

    سپریم کورٹ کے جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے ابتدائی سماعت پر پشاور ہائیکورٹ اور الیکشن کمیشن کے فیصلوں کو معطل کر دیا۔

    جس پر وفاقی حکومت کی جانب سے آئینی تشریح کا نکتہ اٹھایا گیا اور تین رکنی پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی نے سپریم کورٹ میں دستیاب تیرہ ججز پر مشتمل فل کورٹ تشکیل دیا گیا۔

    سنی اتحاد کونسل کی درخواست پر سپریم کورٹ میں کل سات سماعتیں ہوئیں، چھ مئی کو جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے ایک سماعت کی، اس کے بعد فل کورٹ نے چھ سماعتیں کیں، فل کورٹ نے پہلی سماعت تین جون کو کی تھی۔

    <strong>مخصوص نشستوں کی تقسیم</strong>

    الیکشن کمیشن نے خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستیں دیگر سیاسی جماعتوں میں تقسیم کر دیں۔

    خیبرپختونخوا اسمبلی میں ایک نوٹیفکیشن کے مطابق الیکشن کمیشن نے جمعیت علمائے اسلام پاکستان، پاکستان مسلم لیگ نواز (پی ایم ایل-این) اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کو ایک ایک مخصوص نشست الاٹ کی ہے۔

    سندھ اسمبلی میں متحدہ قومی موومنٹ-پاکستان اور پیپلز پارٹی کو خواتین کے لیے مختص نشستیں دی گئیں، جس پر پیپلز پارٹی کی سمیتا افضل اور ایم کیو ایم پی کی فوزیہ حمید مخصوص سیٹوں پر منتخب ہوئیں۔

    مزید برآں سندھ اسمبلی میں پیپلز پارٹی کے سادھو مل عرف سریندر والسائی نے اقلیتی نشست حاصل کی۔

    ای سی پی نے مسلم لیگ (ن)، پی پی پی اور جے یو آئی ف کو اقلیتوں کے لیے تین مخصوص نشستیں الاٹ کیں ، جن کا دعویٰ سنی اتحاد کونسل نے کیا تھا۔

    مسلم لیگ ن کی نیلم میگھواڑ، پیپلز پارٹی کے رمیش کمار اور جے یو آئی ف کے جیمز اقبال اقلیتی سیٹوں پر منتخب ہوئے۔

  • سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں ملیں گی یا نہیں؟ فیصلہ آج سنائے جانے  کا امکان

    سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں ملیں گی یا نہیں؟ فیصلہ آج سنائے جانے کا امکان

    اسلام آباد : مخصوص نشستوں کے لئے سنی اتحاد کونسل کی درخواست پر پر فیصلہ آج سنائے جانے کا امکان ہے،سپریم کورٹ نے منگل کو فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

    تفصیلات کے مطابق سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس میں سپریم کورٹ کے فل کورٹ بینچ کا فیصلہ آج سنائے جانے کا امکان ہے۔

    گذشتہ روز مخصوص نشستوں کے کیس سے متعلق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا فل کورٹ اجلاس ہوا تھا ، اجلاس میں چیف جسٹس سمیت فل کورٹ کے تیرہ ججز شریک ہوئے، جس میں محفوظ کردہ فیصلے پر مشاورت مکمل کی گئی۔

    یاد رہے منگل کے روز سپریم کورٹ میں چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 13 رکنی فل کورٹ نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کی سماعت مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

    کیس کا پس منظر

    واضح رہے کہ عام انتخابات کے بعد مارچ میں الیکشن کمیشن آف پاکستان نے 1-4 کی اکثریت سے فیصلہ جاری کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ سنی اتحاد کونسل کو پارلیمنٹ میں مخصوص نشستیں نہیں مل سکتیں کیونکہ اس جماعت نے انتخابات سے قبل مخصوص سیٹوں کے لیے امیدواروں کی فہرستیں جمع نہیں کرائیں، الیکشن کمیشن نے یہ بھی فیصلہ کیا تھا کہ یہ نشستیں پارلیمنٹ میں موجود دوسری جماعتوں کو تقسیم کردی جائیں گی۔

    علاوہ ازیں 14 مارچ کو پشاور ہائیکورٹ نے بھی الیکشن کمیشن کے اس فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے سنی اتحاد کونسل کی استدعا مسترد کردی تھی، جس کے بعد سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین صاحبزادہ حامد رضا نے اپریل میں اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا تھا۔

    بعد ازاں 6 مئی کو سپریم کورٹ نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص سیٹوں پر الیکشن کمیشن آف پاکستان اور پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کو معطل کردیا تھا۔

    جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل تین رکنی بینچ نے دیگر سیاسی جماعتوں کو مخصوص سیٹوں کی الاٹمنٹ سے متعلق فیصلہ معطل کیا تھا۔

    مخصوص نشستوں کی تقسیم

    الیکشن کمیشن نے خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستیں دیگر سیاسی جماعتوں میں تقسیم کر دیں۔

    خیبرپختونخوا اسمبلی میں ایک نوٹیفکیشن کے مطابق الیکشن کمیشن نے جمعیت علمائے اسلام پاکستان، پاکستان مسلم لیگ نواز (پی ایم ایل-این) اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کو ایک ایک مخصوص نشست الاٹ کی ہے۔

    سندھ اسمبلی میں متحدہ قومی موومنٹ-پاکستان اور پیپلز پارٹی کو خواتین کے لیے مختص نشستیں دی گئیں، جس پر پیپلز پارٹی کی سمیتا افضل اور ایم کیو ایم پی کی فوزیہ حمید مخصوص سیٹوں پر منتخب ہوئیں۔

    مزید برآں سندھ اسمبلی میں پیپلز پارٹی کے سادھو مل عرف سریندر والسائی نے اقلیتی نشست حاصل کی۔

    ای سی پی نے مسلم لیگ (ن)، پی پی پی اور جے یو آئی ف کو اقلیتوں کے لیے تین مخصوص نشستیں الاٹ کیں ، جن کا دعویٰ سنی اتحاد کونسل نے کیا تھا۔

    مسلم لیگ ن کی نیلم میگھواڑ، پیپلز پارٹی کے رمیش کمار اور جے یو آئی ف کے جیمز اقبال اقلیتی سیٹوں پر منتخب ہوئے۔

  • مخصوص نشستوں کا کیس: اٹارنی جنرل کی سنی اتحاد کونسل کی اپیلیں مسترد کرنے کی استدعا

    مخصوص نشستوں کا کیس: اٹارنی جنرل کی سنی اتحاد کونسل کی اپیلیں مسترد کرنے کی استدعا

    اسلام آباد : اٹارنی جنرل نے مخصوص نشستوں کے کیس میں سنی اتحاد کونسل کی اپیلیں مسترد کرنے کی استدعا کردی۔

    تفصیلات کے مطابق مخصوص نشستوں کے کیس میں اٹارنی جنرل نے تحریری جواب سپریم کورٹ میں جمع کرادیا، جس میں استدعا کی ہے کہ سنی اتحاد کونسل کی اپیلیں خارج کی جائے۔

    جواب میں یہ بھی استدعا کی گئی کہ کہ الیکشن کمیشن پشاور ہائیکورٹ کا مخصوص نشستیں نہ دینے کا فیصلہ برقرار رکھا جائے۔

    اٹارنی جنرل کی جانب سے جواب میں کہا ہے کہ سنی اتحاد کونسل مخصوص نشستوں کی تقسیم کے وقت پارلیمانی جماعت نہیں تھی، سنی اتحاد کونسل نے عام انتخابات میں حصہ نہیں لیا اور آزاد ارکان کی شمولیت سے سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں نہیں دی جا سکتی۔

    تحریری جواب میں مزید کہا کہ سنی اتحاد کونسل نے مخصوص نشستوں کیلئے کوئی فہرست جمع نہیں کرائی، آزاد ارکان کی سنی اتحاد کونسل میں شمولیت کے باوجود وہ آزاد ہی رہیں گے۔

    اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ مخصوص نشستیں اس جماعت کو دی جا سکتی ہے جس نےعام انتخابات میں سیٹ جیتی ہو، مخصوص سیٹوں کیلئےفہرست مقررہ تاریخ تک جمع کرائی ہو۔

    خیال رہے
    سپریم کورٹ کافل بنچ آج پھر سنی اتحاد کونسل مخصوص نشتوں کی اپیلوں پرسماعت کرے گا، چیف جسٹس قاضی فائز عیسی 13 رکنی فل کورٹ کی سربراہی کریں گے۔

    الیکشن کمیشن وکیل اسکندر بشیر مہمند دلائل دیں گے ، الیکشن کمیشن وکیل کے بعد پیپلز پارٹی وکیل فاروق ایچ نائیک دلائل دینگے۔مخصوص نشتوں پر سماعت آج مکمل ہونے کا امکان ہے ہے۔

    فل کورٹ آج اٹارنی جنرل کا تحریری جواب بھی پیش ہوگا جبکہ فل کورٹ تحریک انصاف کی پارٹی بننے کی درخواست کا جائزہ لے گا۔

  • پی ٹی آئی نے خود اپنا قتل کیا ہے، چیف جسٹس  کے مخصوص نشستوں کے کیس میں ریمارکس

    پی ٹی آئی نے خود اپنا قتل کیا ہے، چیف جسٹس کے مخصوص نشستوں کے کیس میں ریمارکس

    اسلام آباد : چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مخصوص نشستوں کے کیس میں ریمارکس دیئے تحریک انصاف کوہم نےکہاتھاپارٹی الیکشن نہ کرائیں؟ اس وقت وزیراعظم بانی پی ٹی آئی تھے،بطوروزیراعظم الیکشن کمیشن پر اثراندازہو رہے تھے، پی ٹی آئی نے خود اپنا قتل کیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں مخصوص نشستوں سےمتعلق اہم کیس کی سماعت ہوئی ، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 13 رکنی لارجز بینچ نے سماعت کی۔

    دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے الیکشن کمیشن اور آپ کی تشریح کے پابند نہیں،عدالت آئین میں درج الفاظ کی پابند ہے، ممکن ہے الیکشن کمیشن کی تشریح سےعدالت متفق ہونہ آپ کی تشریح سے، جس پر وکیل نے کہا کہ سوال یہی ہےالیکشن میں حصہ نہ لینےوالی جماعت کومخصوص نشستیں مل سکتی ہیں یانہیں تو چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آپ کہناچاہ رہےہیں عدالت آئین میں درج الفاظ کےمطلب پرتشریح نہ کرے۔

    فیصل صدیقی نے کہا کہ عدالت نےصرف مطلب کونہیں بلکہ آئین کی شقوں کےمقصدکوبھی دیکھناہے، تو جسٹس جمال نے ریمارکس دیئے مخصوص نشستیں ایسی جماعت کوکیسےدی جا سکتی ہیں جنہوں نےالیکشن لڑنےکی زحمت ہی نہیں کی۔

    جسٹس امین الدین خان نے استفسار کیا کیاآزاد ارکان نئی سیاسی جماعت قائم کر سکتے ہیں؟ فیصل صدیقی نے بتایا کہ آزاد ارکان اگر 3دن میں سیاسی جماعت رجسٹرکراسکتےہیں توضروراس میں شامل ہوسکتےہیں تو چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آپ کہتےہیں سیاسی جماعت کیلئے انتخابات میں نشست حاصل کرناضروری نہیں ہے۔

    جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ مخصوص نشستوں کا انتخابی نشان نہ ہونے سے کوئی تعلق نہیں،الیکشن کمیشن تسلیم کرتا ہے پی ٹی آئی اورسنی اتحاد کونسل دونوں رجسٹرڈجماعتیں ہیں۔

    چیف جسٹس نے استفسار کیا پی ٹی آئی رجسٹرڈ جماعت ہے تو آزاد ارکان اس میں شامل کیوں نہیں ہوئے؟کیا آزاد ارکان نے پی ٹی آئی جوائن نہ کرکے سیاسی خودکشی نہیں کی؟

    جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے ریمارکس دیئے آپ کےدلائل مفادات کا ٹکراؤ ہیں، آپ سنی اتحادکونسل کی نمائندگی کریں یاپی ٹی آئی کی ، ہم نے صرف دیکھنا ہے آئین کیا کہتا ہے، ہم یہ نہیں دیکھیں گے الیکشن کمیشن نے کیا کیا، نظریاتی میں گئےاورپھرسنی اتحادکونسل میں چلے گئے، آپ صرف سنی اتحادکونسل کی نمائندگی کر رہے ہیں۔

    جس پر وکیل سنی اتحادکونسل نے کہا کہ اس ملک میں متاثرہ فریقین کیلئے کوئی چوائس نہیں ہے، جس پر چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کا کہنا تھا کہ سیاسی باتیں نہ کریں، ملک میں ایسےعظیم ججزبھی گزرےجنہوں نےپی سی اوکےتحت حلف اٹھانے سے انکارکیا، صرف آئین پر رہیں۔

    چیف جسٹس نے استفسار کیا سنی اتحاد کونسل کا انتخابی نشان ہے کیا؟ وکیل نے بتایا کہ سنی اتحاد کونسل کا انتخابی نشان گھوڑا ہے تو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ سنی اتحاد کونسل کا انتخابی نشان تو لیا ہی نہیں گیا،ہم یہ نہیں سنیں گے الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی سے زیادتی کی، ہم آئین و قانون کے مطابق بات سنیں گے۔

    چیف جسٹس نے فیصل صدیقی سے مکالمے میں کہا کہ آپ سنی اتحاد کونسل کے وکیل ہیں پی ٹی آئی کے نہیں، آپ کے پی ٹی آئی کےحق میں دلائل مفادکےٹکراؤمیں آتاہے، سنی اتحاد کونسل سے تو انتخابی نشان واپس نہیں لیا گیا، آئین پر عمل نہ کر کے اس ملک کی دھجیاں اڑا دی گئی ہیں، میں نے آئین پر عملدرآمد کا حلف لیا ہے، ہم نے کسی سیاسی جماعت یا حکومت کے مفاد کو نہیں آئین کو دیکھنا ہے۔

    جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا الیکشن کمیشن نےامیدواروں کوآزادقراردیاتواپیل کیوں دائرنہیں کی؟ تو وکیل سنی اتحاد کونسل نے کہا اس سوال کاجواب سلمان اکرم راجہ دیں گے۔

    جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کا ریمارکس میں کہنا تھا کہ رولزآئین کو کنٹرول نہیں کیا جا سکتا تو وکیل نے بتایا کہ جسٹس منصور نے کہا تھا 80 فیصد لوگ آزاد ہو جاتے ہیں تو کیا 10 فیصد والی جماعتوں کوساری مخصوص نشستیں دیدیں گے تو چیف جسٹس نے کہا کہ جی بالکل آئین یہی کہتا ہے، کسی کی مرضی پر عمل نہیں ہو سکتا، اس ملک کی دھجیاں اسی لیےاڑائی گئیں کیونکہ آئین پرعمل نہیں ہوتا، میں نے حلف آئین کے تحت لیا ہے، پارلیمنٹ سے جاکر آئین میں ترمیم کرا لیں۔

    چیف جسٹس پاکستان کا مزید کہنا تھا کہ ہمارا آئین ہے ہی پروگریسو ہے، اب اس سے زیادہ کیا پروگریسو کیا ہوگا،کبھی کبھی پرانی چیزیں بھی اچھی ہوتی ہیں، ہمارے آئین کو بنے50سال ہوئے ہیں، امریکااور برطانیہ کے آئین کو صدیاں گزر چکی ہیں، جب آئین کے الفاظ واضح ہیں تو ہماری کیا مجال ہم تشریح کریں۔

    جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ کیا ہم پارلیمنٹ سے زیادہ عقلمند یا ہوشیار ہو چکے ہیں، اگر ہم نے ایسا کیا تو یہ ہماری انا کی بات ہو جائے گی، مشکل سے ملک پٹری پرآتا ہے پھر کوئی آکر اڑا دیتا ہے، پھر کوئی بنیادی جمہوریت پسند بن جاتا ہے۔

    چیف جسٹس نے استفسار کیا پی ٹی آئی کے صدر تھے انھوں نے انتخابات کی تاریخ کیوں نہیں دی، پی ٹی آئی نے تو انتخابات رکوانے کی کوشش کی تھی، پی ٹی آئی نے لاہور ہائیکورٹ میں درخواست دائر کی تھی،بانی پی ٹی آئی وزیر اعظم تھے انھوں نے انٹرا پارٹی انتخابات نہیں کرائے، کسی پر ایسےانگلیاں نہ اٹھائیں۔

    جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ کا تین رکنی بینچ تھا جو انتخابات نہیں کرا سکا، ہم نے انتخابات کی تاریخ دلوائی تھی،آئین ہمارا زیادہ پرانا نہیں ، ہم اتنے ہوشیار ہیں کہ آئین سے ہٹ کر اپنی اصطلاح نکال لیں، مخصوص نشستوں سے متعلق آئین واضح ہے، آئین سے ہٹ کر کوئی بھی جج فیصلہ نہیں دے سکتا۔

    جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے الیکشن پر سوالات اٹھائے گئے، جو کچھ 2018 میں ہوا وہی ابھی ہوا، جنھوں نے پریس کانفرنسزنہیں کیں انھیں اٹھا لیا گیا، یہ باتیں سب کےعلم میں ہیں، کیا سپریم کورٹ اس پر اپنی آنکھیں بند کرلے تو وکیل سنی اتحاد کونسل نے کہا کہ میں آپ کی باتوں سے مکمل متفق ہوں۔

    چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا کہ جب ضرورت ہوتی ہے ہمارے پاس آتے ہیں، وہ وقت بھی یاد رکھیں جب الیکشن انتخابات کی تاریخ ہم نے دی تھی، الیکشن کس نے کرائے الیکشن رکوانے کی کوشش پی ٹی آئی نے کی، صدر مملکت اس وقت کون تھے، عارف علوی تھے، کیا پی ٹی آئی کوہم نے کہا انٹرا پارٹی الیکشن نہ کرائیں۔

    جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مزید کہا کہ منت،سماجت کی گئی الیکشن کمیشن کی جانب سے پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن کرائے، اس وقت وزیراعظم بانی پی ٹی آئی تھے، بانی پی ٹی آئی بطوروزیراعظم بھی الیکشن کمیشن پر اثرانداز ہورہے تھے، الیکشن کرانے کیلئے سال بھر کی تاریخ دی گئی، یا تو پھر قانون کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیں،آدھی بات نہ کریں۔

    وکیل سنی اتحاد کونسل نے بتایا کہ پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن کیخلاف نظرثانی زیر التوا ہے،جس پر چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ہم چیک کرا لیتے ہیں، حامد خان صاحب آپ نے ہمیں یاد بھی کرایا کہ نظرثانی زیر التوا ہے۔

    وکیل فیصل صدیقی نے بتایا کہ کہیں نہیں لکھا کہ عام انتخابات سے قبل کوئی لسٹ دی جائے، مخصوص نشستوں کیلئے ترمیم شدہ شیڈیول بھی دیا جاسکتا ہے، آزاد امیدوار کسی جماعت میں شامل ہوتےہیں تو فہرست بعد میں دی جاسکتی ہے تو چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا کہ آپ کے مفروضے کو مان لیں تو ایک نیا نظام آجائے گا، پی ٹی آئی نے خود اپنا قتل کیا ہے۔

    وکیل سنی اتحاد کونسل کی بار بار رکاوٹ ڈالنےپر چیف جسٹس نے اظہارناراضگی کرتے ہوئے کہا کہ آپ یوں یوں ہاتھوں کوہلائیں گے تو پھر میں بات نہیں کروں گا ، جب آپ بات کرتے ہیں تو ہم ایسا کچھ بھی نہیں کرتے، جس پر وکیل سنی اتحاد کونسل نے معذرت کرلی۔

  • پی ٹی آئی نے  دوسری جماعت میں شمولیت اختیار کرکے خودکشی کیوں کی؟ چیف جسٹس کا استفسار

    پی ٹی آئی نے دوسری جماعت میں شمولیت اختیار کرکے خودکشی کیوں کی؟ چیف جسٹس کا استفسار

    اسلام آباد : چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مخصوص نشستوں سےمتعلق کیس کی سماعت میں استفسار کیا پی ٹی آئی نے دوسری جماعت میں شمولیت اختیار کرکے خودکشی کیوں کی؟

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں مخصوص نشستوں سےمتعلق اہم کیس کی سماعت ہوئی ، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 13 رکنی لارجز بینچ نے سماعت کی.

    سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی کی جانب سے دلائل میں اعلٰی عدلیہ کےمختلف فیصلوں کاحوالہ دیا گیا ، جسٹس منیب اختر، جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس منصورعلی شاہ کےفیصلوں کا حوالہ دیتے ہوئے وکیل نے کہا کہ فیصلوں میں آئینی تشریح کونیچرل حدودسےمطابقت پرزوردیاگیا۔

    سنی اتحاد کونسل کے وکیل کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 51اور106سےتین نکات بتاناضروری ہیں، آزاد امیدوار کسی بھی سیاسی جماعت میں شامل ہوسکتے ہیں، الیکشن کمیشن نے سیاسی جماعت کی غلط تشریح کی، الیکشن کمیشن نے مخصوص نشستوں سے متعلق آئین کو نظر انداز کیا۔

    چیف جسٹس نے وکیل سے مکالمے میں کہا کہ الیکشن کمیشن کافیصلہ غلط ہےتوآپ آئین کی درست وضاحت کر دیں، الیکشن کمیشن کوچھوڑ دیں اپنی بات کریں، آئین و قانون کےمطابق بتائیں سنی اتحادکونسل کوکیسےمخصوص نشستیں مل سکتی ہیں۔

    جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے آزادامیدوارانتخابات میں حصہ لینےوالی کسی بھی جماعت میں شامل ہوسکتےہیں، جو سیاسی جماعتیں الیکشن لڑکرآئیں ان کوعوام نےووٹ دیاہے، ایسی جماعت جس نے الیکشن میں حصہ ہی نہیں لیا اسے مخصوص نشستیں کیسے دی جاسکتی ہیں۔

    چیف جسٹس نے استفسار کیا کیا ہم آئین کے نیچرل معنی کو نظر اندازکردیں؟ہم ایساکیوں کریں؟ تو وکیل سنی اتحاد کونسل کا کہنا تھا کہ اصل معاملہ آئینی شقوں کے مقصد کا ہے تو جسٹس جمال خان کا کہنا تھا کہ جنہوں نےالیکشن لڑنےکی زحمت ہی نہیں کی انہیں کیوں مخصوص نشستیں دی جائیں۔

    جسٹس عرفان سعادت نے وکیل سے مکالمے میں کہا کہ آپ کےدلائل سےتوآئین میں دیےگئےالفاظ ہی غیرمؤثر ہو جائیں گے، سنی اتحاد کونسل توپولیٹیکل پارٹی ہی نہیں ہے۔

    اس حوالے سے جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ انتخابی نشان چلےجانےکےبعد پولیٹیکل پارٹی نہیں رہی، پولیٹیکل ان لسٹڈپولیٹیکل پارٹی توہے، الیکشن کمیشن نے ان لسٹڈ پارٹی تو قرار دیا ہے۔

    چیف جسٹس نے سوال کیا کہ پی ٹی آئی اب بھی پولیٹیکل پارٹی وجود رکھتی ہے تو انہوں نے دوسری جماعت میں کیوں شمولیت اختیار کی، اس دلیل کودرست مان لیں توآپ نے دوسری جماعت میں شمولیت اختیار کرکے خودکشی کیوں کی؟ یہ توآپ کےاپنےدلائل کے خلاف ہے۔

    جسٹس شاہد وحید نے وکیل سے مکالمے میں کہا کہ الیکشن کمیشن کے رول 92کی زیلی شق 2 پڑھیں ، جبکہ جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ آزاد امیدار الیکشن کمیشن نےقرار دیا، الیکشن کمیشن کی رائےکااطلاق ہم پرلازم نہیں، پارلیمانی جمہوریت کی بنیادسیاسی جماعتیں ہیں، الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی امیدواروں کوسپریم کورٹ فیصلےکےسبب آزادامیدوارقراردیا، یہ تو بہت خطرناک تشریح ہے۔

    جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیئے تمام امیدوارپی ٹی آئی کےتھےحقائق منافی ہیں، پی ٹی آئی نظریاتی کے سرٹیفکیٹس جمع کرا کر واپس کیوں لیےگئے؟ جس پر وکیل فیصل صدیقی نے بتایا کہ مخصوص نشستیں صرف متناسب نمائندگی کےسسٹم کےتحت ہی دی جا سکتی ہیں، متناسب نمائندگی کےنظام کے علاوہ مخصوص نشستیں الاٹ کرنےکاکوئی تصورنہیں، مخصوص نشستیں امیدواروں کانہیں سیاسی جماعتوں کاحق ہوتاہے۔

    وکیل سنی اتحاد کونسل نے مزید بتایا کہ الیکشن کمیشن ایک جانب کہتاہےآزادامیدوارکسی بھی جماعت میں شامل ہوسکتاہے، دوسری جانب الیکشن کمیشن کامؤقف ہے شمولیت صرف پارلیمان میں موجودجماعت میں ہو سکتی ہے،الیکشن کمیشن کی یہ تشریح خودکشی کے مترادف ہے۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے الیکشن کمیشن اور آپ کی تشریح کے پابند نہیں،عدالت آئین میں درج الفاظ کی پابند ہے، ممکن ہے الیکشن کمیشن کی تشریح سےعدالت متفق ہونہ آپ کی تشریح سے، جس پر وکیل نے کہا کہ سوال یہی ہےالیکشن میں حصہ نہ لینےوالی جماعت کومخصوص نشستیں مل سکتی ہیں یانہیں تو چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آپ کہناچاہ رہےہیں عدالت آئین میں درج الفاظ کےمطلب پرتشریح نہ کرے۔

    فیصل صدیقی نے کہا کہ عدالت نےصرف مطلب کونہیں بلکہ آئین کی شقوں کےمقصدکوبھی دیکھناہے، تو جسٹس جمال نے ریمارکس دیئے مخصوص نشستیں ایسی جماعت کوکیسےدی جا سکتی ہیں جنہوں نےالیکشن لڑنےکی زحمت ہی نہیں کی۔

    جسٹس امین الدین خان نے استفسار کیا کیاآزاد ارکان نئی سیاسی جماعت قائم کر سکتے ہیں؟ فیصل صدیقی نے بتایا کہ آزاد ارکان اگر 3دن میں سیاسی جماعت رجسٹرکراسکتےہیں توضروراس میں شامل ہوسکتےہیں تو چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آپ کہتےہیں سیاسی جماعت کیلئےانتخابات میں نشست حاصل کرناضروری نہیں ہے۔

    جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ مخصوص نشستوں کا انتخابی نشان نہ ہونے سے کوئی تعلق نہیں،الیکشن کمیشن تسلیم کرتا ہے پی ٹی آئی اورسنی اتحاد کونسل دونوں رجسٹرڈجماعتیں ہیں۔

    چیف جسٹس نے استفسار کیا پی ٹی آئی رجسٹرڈ جماعت ہے تو آزاد ارکان اس میں شامل کیوں نہیں ہوئے؟کیا آزاد ارکان نے پی ٹی آئی جوائن نہ کرکے سیاسی خودکشی نہیں کی؟

    جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے ریمارکس دیئے آپ کےدلائل مفادات کا ٹکراؤ ہیں، آپ سنی اتحادکونسل کی نمائندگی کریں یاپی ٹی آئی کی ، ہم نے صرف دیکھنا ہے آئین کیا کہتا ہے، ہم یہ نہیں دیکھیں گے الیکشن کمیشن نے کیا کیا، نظریاتی میں گئےاورپھرسنی اتحادکونسل میں چلے گئے، آپ صرف سنی اتحادکونسل کی نمائندگی کر رہے ہیں۔

    جس پر وکیل سنی اتحادکونسل نے کہا کہ اس ملک میں متاثرہ فریقین کیلئے کوئی چوائس نہیں ہے، جس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ سیاسی باتیں نہ کریں، ملک میں ایسےعظیم ججزبھی گزرے جنہوں نےپی سی اوکےتحت حلف اٹھانے سے انکار کیا، صرف آئین پر رہیں۔

    چیف جسٹس نے استفسار کیا سنی اتحاد کونسل کا انتخابی نشان ہے کیا؟ وکیل نے بتایا کہ سنی اتحاد کونسل کا انتخابی نشان گھوڑا ہے تو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ سنی اتحاد کونسل کا انتخابی نشان تو لیا ہی نہیں گیا،ہم یہ نہیں سنیں گے الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی سے زیادتی کی، ہم آئین و قانون کے مطابق بات سنیں گے۔

    چیف جسٹس نے فیصل صدیقی سے مکالمے میں کہا کہ آپ سنی اتحاد کونسل کے وکیل ہیں پی ٹی آئی کے نہیں، آپ کے پی ٹی آئی کےحق میں دلائل مفادکےٹکراؤمیں آتاہے، سنی اتحاد کونسل سے تو انتخابی نشان واپس نہیں لیا گیا، آئین پر عمل نہ کر کے اس ملک کی دھجیاں اڑا دی گئی ہیں، میں نے آئین پر عملدرآمد کا حلف لیا ہے، ہم نے کسی سیاسی جماعت یا حکومت کے مفاد کو نہیں آئین کو دیکھنا ہے۔

    جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا الیکشن کمیشن نےامیدواروں کوآزادقراردیاتواپیل کیوں دائرنہیں کی؟ تو وکیل سنی اتحاد کونسل نے کہا اس سوال کاجواب سلمان اکرم راجہ دیں گے۔

    جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کا ریمارکس میں کہنا تھا کہ رولزآئین کو کنٹرول نہیں کیا جا سکتا تو وکیل نے بتایا کہ جسٹس منصور نے کہا تھا 80 فیصد لوگ آزاد ہو جاتے ہیں تو کیا 10 فیصد والی جماعتوں کوساری مخصوص نشستیں دیدیں گے تو چیف جسٹس نے کہا کہ جی بالکل آئین یہی کہتا ہے، کسی کی مرضی پر عمل نہیں ہو سکتا، اس ملک کی دھجیاں اسی لیےاڑائی گئیں کیونکہ آئین پرعمل نہیں ہوتا، میں نے حلف آئین کے تحت لیا ہے، پارلیمنٹ سے جاکر آئین میں ترمیم کرا لیں۔

    چیف جسٹس پاکستان کا مزید کہنا تھا کہ ہمارا آئین ہے ہی پروگریسو ہے، اب اس سے زیادہ کیا پروگریسو کیا ہوگا،کبھی کبھی پرانی چیزیں بھی اچھی ہوتی ہیں، ہمارے آئین کو بنے50سال ہوئے ہیں، امریکااور برطانیہ کے آئین کو صدیاں گزر چکی ہیں، جب آئین کے الفاظ واضح ہیں تو ہماری کیا مجال ہم تشریح کریں۔

    جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ کیا ہم پارلیمنٹ سے زیادہ عقلمند یا ہوشیار ہو چکے ہیں، اگر ہم نے ایسا کیا تو یہ ہماری انا کی بات ہو جائے گی، مشکل سے ملک پٹری پرآتا ہے پھر کوئی آکر اڑا دیتا ہے، پھر کوئی بنیادی جمہوریت پسند بن جاتا ہے۔

    چیف جسٹس نے استفسار کیا پی ٹی آئی کے صدر تھے انھوں نے انتخابات کی تاریخ کیوں نہیں دی، پی ٹی آئی نے تو انتخابات رکوانے کی کوشش کی تھی، پی ٹی آئی نے لاہور ہائیکورٹ میں درخواست دائر کی تھی،بانی پی ٹی آئی وزیر اعظم تھے انھوں نے انٹرا پارٹی انتخابات نہیں کرائے، کسی پر ایسےانگلیاں نہ اٹھائیں۔

    جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ کا تین رکنی بینچ تھا جو انتخابات نہیں کرا سکا، ہم نے انتخابات کی تاریخ دلوائی تھی،آئین ہمارا زیادہ پرانا نہیں ، ہم اتنے ہوشیار ہیں کہ آئین سے ہٹ کر اپنی اصطلاح نکال لیں، مخصوص نشستوں سے متعلق آئین واضح ہے، آئین سے ہٹ کر کوئی بھی جج فیصلہ نہیں دے سکتا۔

    جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے الیکشن پر سوالات اٹھائے گئے، جو کچھ 2018 میں ہوا وہی ابھی ہوا، جنھوں نے پریس کانفرنسز نہیں کیں انھیں اٹھا لیا گیا، یہ باتیں سب کےعلم میں ہیں، کیا سپریم کورٹ اس پر اپنی آنکھیں بند کرلے تو وکیل سنی اتحاد کونسل نے کہا کہ میں آپ کی باتوں سے مکمل متفق ہوں۔

    چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا کہ جب ضرورت ہوتی ہے ہمارے پاس آتےہیں، وہ وقت بھی یاد رکھیں جب الیکشن انتخابات کی تاریخ ہم نے دی تھی،الیکشن کس نےکرائے الیکشن رکوانے کی کوشش پی ٹی آئی نے کی، صدر مملکت اس وقت کون تھے، عارف علوی تھے، کیا پی ٹی آئی کوہم نے کہا انٹرا پارٹی الیکشن نہ کرائیں۔

    منت،سماجت کی گئی الیکشن کمیشن کی جانب سے پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن کرائے، اس وقت وزیراعظم بانی پی ٹی آئی تھے، بانی پی ٹی آئی بطوروزیراعظم بھی الیکشن کمیشن پر اثرانداز ہورہےتھے، الیکشن کرانے کیلئےسال بھر کی تاریخ دی گئی، یا تو پھر قانون کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیں،آدھی بات نہ کریں۔

    وکیل سنی اتحاد کونسل نے بتایا کہ پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن کیخلاف نظرثانی زیر التوا ہے،جس پر چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ہم چیک کرا لیتے ہیں، حامد خان صاحب آپ نے ہمیں یاد بھی کرایا کہ نظرثانی زیر التوا ہے۔

    وکیل فیصل صدیقی نے بتایا کہ کہیں نہیں لکھا کہ عام انتخابات سے قبل کوئی لسٹ دی جائے، مخصوص نشستوں کیلئے ترمیم شدہ شیڈیول بھی دیا جاسکتا ہے، آزاد امیدوار کسی جماعت میں شامل ہوتےہیں تو فہرست بعد میں دی جاسکتی ہے تو چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا کہ آپ کے مفروضے کو مان لیں تو ایک نیا نظام آجائے گا، پی ٹی آئی نے خود اپنا قتل کیا ہے۔

    وکیل سنی اتحاد کونسل کی بار بار رکاوٹ ڈالنےپر چیف جسٹس نے اظہارناراضگی کرتے ہوئے کہا کہ آپ یوں یوں ہاتھوں کوہلائیں گے تو پھر میں بات نہیں کروں گا ، جب آپ بات کرتے ہیں تو ہم ایسا کچھ بھی نہیں کرتے، جس پر وکیل سنی اتحاد کونسل نے معذرت کرلی۔

  • مخصوص نشستوں کا کیس، سپریم کورٹ نے پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ معطل کر دیا

    مخصوص نشستوں کا کیس، سپریم کورٹ نے پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ معطل کر دیا

    اسلام آباد: مخصوص نشستوں کے کیس میں سپریم کورٹ نے پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ معطل کر دیا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ نے مخصوص نشستیں دوسری جماعتوں کو دینے کا الیکشن کمیشن اور پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ معطل کر دیا ہے۔

    جسٹس منصور علی شاہ نے کہا ہم کیس کو سماعت کے لیے منظور کر رہے ہیں اور الیکشن کمیشن اور ہائیکورٹ کے فیصلوں کو معطل کر رہے ہیں، تاہم فیصلوں کی معطلی صرف اضافی سیٹوں کو دینے کی حد تک ہوگی۔

    جسٹس منصور علی شاہ نے کہا عوام نے جو ووٹ دیا اس مینڈیٹ کی درست نمائندگی پارلیمنٹ میں ہونی چاہیے، وکیل الیکشن کمیشن نے کہا مخصوص نشستیں ایک ہی بار تقسیم کی گئیں، دوبارہ تقسیم کا معاملہ ہی نہیں، جسٹس محمد علی مظہر نے کہا آپ پھر الیکشن کمیشن کا حکمنامہ پڑھ کر دیکھ لیں، جسٹس اطہر من اللہ نے کہا آپ کوئی بھی نام دیں تناسب سے زیادہ نشستیں ان جماعتوں کو دی گئیں نا۔

    جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کیا زیادہ نشستیں بانٹنا تناسب کے اصول کے خلاف نہیں؟ وکیل الیکشن کمیشن نے کہا میں بتاتا ہوں الیکشن کمیشن نے اصل میں کیا کیا ہے، جس پر جسٹس منصور نے کہا ہمیں الیکشن کمیشن نے کیا کیا اس سے نہیں آئین کیا کہتا ہے اس سے غرض ہے۔

    جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس میں سوال اٹھائے کہ بغیر معقول وجہ بتائے مخصوص نشستیں دیگر جماعتوں میں بانٹی گئیں، کیا دوسرے مرحلے میں مخصوص نشستیں دوبارہ بانٹی جا سکتی ہیں؟ اگر مزید کچھ سیٹیں بچ جائیں ان کا کیا کرنا ہے؟

    سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت کرتے ہوئے کہا کہ دوسری جماعتوں کو نشستیں دینے کا فیصلہ معطل رہے گا، اور فیصلے کی معطلی اضافی سیٹوں کی حد تک ہوگی۔ سپریم کورٹ میں کیس کی مزید سماعت 3 جون کو روزانہ کی بنیاد پر ہوگی، واضح رہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد اضافی نشستیں لینے والے ارکان ایوان کی کارروائی کا حصہ نہیں بن سکیں گے، اور سپریم کورٹ حتمی فیصلے تک ان ارکان کی رکنیت بھی معطل رہے گی۔