Tag: مخصوص نشستیں

  • مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو دینے کا فیصلہ: حکومت نے  قومی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت کھو دی

    مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو دینے کا فیصلہ: حکومت نے قومی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت کھو دی

    اسلام آباد : سپریم کورٹ کی جانب سے مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو دینے کے فیصلے کے بعد حکومت نے قومی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت کھو دی۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد قومی اسمبلی میں پارٹی پوزیشن سامنے آگئی، حکومتی اتحاد کی قومی اسمبلی میں نشستیں 210 ہو جائیں گی جبکہ اپوزیشن کی قومی اسمبلی میں نشستوں کی تعداد 125 ہو جائے گی۔

    قومی اسمبلی میں ن لیگ کو14، پیپلز پارٹی کو 5، جے یو آئی ف کو 3 اضافی نشستیں ملی تھیں جبکہ کے پی سے جے یو آئی ف کو 10، ن لیگ ،پیپلزپارٹی کو7،7، اے این پی کو 1 اضافی نشست ملی تھی۔

    پنجاب سےن لیگ کو 23، پی پی کو 2، ق لیگ ،استحکام پاکستان پارٹی کو1،1اضافی نشست اور سندھ اسمبلی سے پیپلز پارٹی کو2 اور ایم کیو ایم کو 1 مخصوص نشست ملی تھی۔

    مزید پڑھیں : تحریک انصاف کی بڑی کامیابی ، مخصوص نشستوں کی اہل قرار

    قومی اسمبلی میں پارٹی پوزیشن پی ٹی آئئ کے حق میں ہیں مخصوص نشستیں ملنے کے بعد قومی اسمبلی میں تحریک انصاف اکثریتی جماعت بن جائے گی۔

    خیال رہے سپریم کورٹ نے مجموعی طور پر قومی اسمبلی کی 22 نشستوں کو معطل کر رکھا ہے، قومی اسمبلی میں معطل نشستوں میں 3 اقلیتی مخصوص نشستیں بھی شامل ہیں۔

    پنجاب اسمبلی میں 24 خواتین کی مخصوص نشستیں اور 3 اقلیتی نشستیں ، خیبر پختون خوا اسمبلی میں 21 خواتین اور 4 اقلیتی مخصوص نشستیں معطل اور ی سندھ اسمبلی سے 2 خواتین کی مخصوص نشستیں اور 1 اقلیتی نشست معطل ہیں.

  • پی ٹی آئی کو مخصوص نشستیں دینے کا فیصلہ : حکومت کا ردعمل آگیا

    پی ٹی آئی کو مخصوص نشستیں دینے کا فیصلہ : حکومت کا ردعمل آگیا

    اسلام آباد : سپریم کورٹ کی جانب سے پی ٹی آئی کو مخصوص نشستیں دینے کے فیصلے پر حکومت کا ردعمل آگیا۔

    تفصیلات کے مطابق وزیرقانون اعظم نذیرتارڑ نے پی ٹی آئی کو مخصوص نشستیں دینے کے فیصلے پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کےفیصلے سے حکومت کوکوئی خطرہ نہیں۔

    اعظم نذیرتارڑ کا کہنا تھا کہ حکومت فیصلے پرنظرثانی اپیل دائرکرےگی یانہیں مشاورت کے بعد بتاسکتاہوں، ہمارے پاس اب بھی 209 ارکان موجودہیں۔

    یاد رہے سپریم کورٹ نے مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو دینے کا حکم دیتے ہوئے مخصوص نشستیں دیگر جماعتوں کو دینے کا فیصلہ غیرقانونی قرار دے دیا۔

    سپریم کورٹ نے مخصوص نشستوں کا فیصلہ آٹھ پانچ سے سنایا، اطلاق قومی اسمبلی اورتمام صوبائی اسمبلیوں پرہوگا۔

    فیصلے میں کہا گیا کہ الیکشن کمیشن کا فیصلہ آئین کے خلاف تھا، پی ٹی آئی سیاسی جماعت تھی اور رہے گی، انتخابی نشان کسی سیاسی جماعت کو الیکشن لڑنے سے نہیں روکتا۔

    الیکشن کمیشن نے اسی ارکان اسمبلی کی فہرست پیش کی، جس میں سے انتالیس ارکان کا تعلق پی ٹی آئی سے تھا، پی ٹی آئی مخصوص نشستوں کیلئے درخواستیں الیکشن کمیشن کو پندرہ دن میں جمع کرائے۔

  • سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں ملیں گی یا نہیں ؟ فیصلہ آج  سنایا جائے گا

    سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں ملیں گی یا نہیں ؟ فیصلہ آج سنایا جائے گا

    اسلام آباد : سپریم کورٹ میں سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کا فیصلہ آج سنایا جائے گا۔

    تفصیلات کے مطابق سنی اتحادکونسل کو مخصوص نشستیں ملنے یا نہ ملنے سے متعلق فیصلہ چیف جسٹس کی سربراہی میں 13 رکنی فل کورٹ سنائے گا۔

    فیصلہ سنانے کا وقت اور بینچ تبدیل کردیا گیا ہے اور رجسٹرار سپریم کورٹ نے نئی کازلسٹ جاری کردی۔

    جس کے مطابق تیرہ رکنی بینچ دوپہر بارہ بجے فیصلہ سنائے گا، اس سے پہلے جاری کی گئی کاز لسٹ میں کہا گیا تھا تھا کہ محفوظ شدہ فیصلہ چیف جسٹس کے ریگولر تین رکنی بینچ میں صبح نو بجے سنایا جائے گا۔

    چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تیرہ رکنی فل کورٹ نے نو جولائی کو سماعت مکمل کرنے کے بعد فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

    جس کے بعد چیف جسٹس کی سربراہی میں دو مشاورتی اجلاس بھی ہوئے تھے۔

    مخصوص نشستوں کے کیس میں کب کیا ہوا؟

    الیکشن کمیشن نے عام انتخابات کے بعد سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستیں دیگر سیاسی جماعتوں کو دیں، جس کے بعد الیکشن کمیشن کے فیصلے پر سنی اتحاد کونسل نے پشاور ہائیکورٹ سے رجوع کیا۔

    بعد ازاں پشاور ہائیکورٹ کے لارجر بینچ نے الیکشن کمیشن کا فیصلہ برقرار رکھا۔ جس پر سنی اتحاد کونسل نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کردی۔

    سپریم کورٹ کے جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے ابتدائی سماعت پر پشاور ہائیکورٹ اور الیکشن کمیشن کے فیصلوں کو معطل کر دیا۔

    جس پر وفاقی حکومت کی جانب سے آئینی تشریح کا نکتہ اٹھایا گیا اور تین رکنی پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی نے سپریم کورٹ میں دستیاب تیرہ ججز پر مشتمل فل کورٹ تشکیل دیا گیا۔

    سنی اتحاد کونسل کی درخواست پر سپریم کورٹ میں کل سات سماعتیں ہوئیں، چھ مئی کو جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے ایک سماعت کی، اس کے بعد فل کورٹ نے چھ سماعتیں کیں، فل کورٹ نے پہلی سماعت تین جون کو کی تھی۔

    <strong>مخصوص نشستوں کی تقسیم</strong>

    الیکشن کمیشن نے خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستیں دیگر سیاسی جماعتوں میں تقسیم کر دیں۔

    خیبرپختونخوا اسمبلی میں ایک نوٹیفکیشن کے مطابق الیکشن کمیشن نے جمعیت علمائے اسلام پاکستان، پاکستان مسلم لیگ نواز (پی ایم ایل-این) اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کو ایک ایک مخصوص نشست الاٹ کی ہے۔

    سندھ اسمبلی میں متحدہ قومی موومنٹ-پاکستان اور پیپلز پارٹی کو خواتین کے لیے مختص نشستیں دی گئیں، جس پر پیپلز پارٹی کی سمیتا افضل اور ایم کیو ایم پی کی فوزیہ حمید مخصوص سیٹوں پر منتخب ہوئیں۔

    مزید برآں سندھ اسمبلی میں پیپلز پارٹی کے سادھو مل عرف سریندر والسائی نے اقلیتی نشست حاصل کی۔

    ای سی پی نے مسلم لیگ (ن)، پی پی پی اور جے یو آئی ف کو اقلیتوں کے لیے تین مخصوص نشستیں الاٹ کیں ، جن کا دعویٰ سنی اتحاد کونسل نے کیا تھا۔

    مسلم لیگ ن کی نیلم میگھواڑ، پیپلز پارٹی کے رمیش کمار اور جے یو آئی ف کے جیمز اقبال اقلیتی سیٹوں پر منتخب ہوئے۔

  • سپریم کورٹ کے فیصلہ پر عملدرآمد : مخصوص نشستوں پر 77 ارکان کی رکنیت معطل

    سپریم کورٹ کے فیصلہ پر عملدرآمد : مخصوص نشستوں پر 77 ارکان کی رکنیت معطل

    اسلام آباد : الیکشن کمیشن نےمخصوص نشستوں پر 77 ارکان کی رکنیت معطل کردی اور نوٹیفکیشن جاری کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد کرتے ہوئے الیکشن کمیشن نےمخصوص نشستیں معطل کردیں اور اس حوالے سے نوٹیفکیشن جاری کردیا۔

    نوٹیفکیشن میں بتایا کہ اضافی نشستوں پر77 ارکان کی رکنیت معطل کی گئی، قومی اسمبلی سے اضافی مخصوص نشستوں پر 22 منتخب ارکان ، 19خواتین اور 3 اقلیتی ارکان معطل ہوئے.

    الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ کے پی اسمبلی سے اضافی مخصوص نشستوں پر 25 ارکان ، 21 خواتین اور 4 اقلیتی ارکان معطل کئے گئے،

    نوٹیفکیشن کے مطابق پنجاب اسمبلی سےاضافی مخصوص نشستوں پر 27ارکان ، 24 خواتین اور3 اقلیتی رکن معطل ہوئے جبکہ سندھ اسمبلی سے پیپلز پارٹی اورایم کیو ایم کی ایک ایک خاتون ممبر کی رکینت معطل کی گئی جبکہ پیپلز پارٹی کے ایک اقلیتی رکن بھی معطل ہوا.

    پنجاب اسمبلی سےمسلم لیگ ن کی مخصوص نشست پر منتخب 21 ارکان معطل ہوئے ، پی پی،آْئی پی پی اور ن لیگ کی ایک ایک خواتین رکن کی رکنیت معطل کی گئی جبکہ مسلم لیگ ن کے2 اور پیپلز پارٹی کے ایک اقلیتی ممبر کی رکنیت معطل ہوئی۔

    یاد رہے الیکشن کمیشن کو مخصوص نشستوں پرارکان کوڈی نوٹیفائی نہ کرنے کی تجویز دی گئی تھی، ذرائع نے بتایا تھا کہ الیکشن کمیشن کےلا ونگ نے مخصوص نشستوں سےمتعلق اپنی رائےدی۔

    ذرائع کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن اورپشاور ہائیکورٹ کافیصلے کالعدم قرار نہیں دیا، سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن اور پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ معطل کیا ہے، سپریم کورٹ کے حکم کے عین مطابق عمل درآمد کیا جائے۔

    لاونگ نے رائے دی کہ فیصلے کےمطابق رکنیت معطل کی جا سکتی ہےڈی نوٹیفائی نہیں، الیکشن کمیشن نےسپریم کورٹ کےفیصلے پر لا ونگ سے رائے طلب کی تھی۔

  • مخصوص نشستوں سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے پر وفاقی وزیر قانون کا بیان

    مخصوص نشستوں سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے پر وفاقی وزیر قانون کا بیان

    لاہور: مخصوص نشستوں سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے پر وفاقی وزیر قانون نے کہا ہے کہ انھیں امید ہے کہ حتمی فیصلے میں پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ برقرار رہے گا۔

    وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ یہ تو آئین کے آرٹیکل 51 اور 106 کی تشریح کا معاملہ ہے، سپریم کورٹ پریکٹس پروسیجرز ایکٹ کے تحت مناسب ہوتا کہ 5 رکنی لارجر بینچ اس کیس کی سماعت کرتا اور لارجر بینچ ہی کوئی عبوری حکم نامہ جاری کرتا۔

    وفاقی وزیر قانون نے کہا پارلیمان کی قانون سازی کے اختیار کے معاملے پر حکم امتناع سے احتراز برتنا چاہیے تھا، منتخب رکن کے قانون سازی کے اختیار پر زد پڑتی ہو تو زیادہ احتیاط برتی جاتی ہے۔

    سپریم کورٹ کا فیصلہ، حکمران اتحاد قومی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت سے محروم

    انھوں نے مزید کہا کہ آرٹیکل 67 واضح ہے کہ رکن کی قانون سازی قانونی نااہلیت کے باوجود برقرار رہتی ہے، آرٹیکل 67 کے مطابق رکن کی قانون سازی کی اہلیت پر سوال نہیں اٹھایا جاتا۔

    https://urdu.arynews.tv/reserved-seats-sc-suspended-decision/

  • سپریم کورٹ کا فیصلہ: پی ٹی آئی کو کتنی مخصوص نشستیں واپس ملیں گی؟

    سپریم کورٹ کا فیصلہ: پی ٹی آئی کو کتنی مخصوص نشستیں واپس ملیں گی؟

    اسلام آباد: ایڈیشنل سیکریٹری سپریم کورٹ بار شہبازکھوسہ نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد پی ٹی آئی کو ملنی والی نشستوں کے‌ حوالے سے بڑا دعویٰ کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق ایڈیشنل سیکریٹری سپریم کورٹ بارشہبازکھوسہ نے مخصوص نشستوں کے حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلے کو بالکل درست قرار دے دیا۔

    شہبازکھوسہ نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے جانبداری دکھائی اورپشاورہائیکورٹ نے بھی وہی فیصلہ دیا ، اس فیصلےکی بدولت پی ٹی آئی کو ہی یہ مخصوص سیٹیں مل گئی ہیں۔

    شہبازکھوسہ نے دعویٰ کیا کہ 23پنجاب اسمبلی میں 9کےپی میں مخصوص نشستیں واپس ملیں گی جبکہ تقریباً ایک یا دو سینیٹرز بھی پی ٹی آئی کو واپس ملیں گے

    یاد رہے سپریم کورٹ نے مخصوص سیٹیں دوسری جماعتوں کو دینے کافیصلہ معطل کردیا، سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن اور پشاورہائیکورٹ کا فیصلہ معطل کیا۔

    جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس میں کہا کہ ہم الیکشن کمیشن اور ہائیکورٹ کے فیصلوں کومعطل کررہے ہیں ، فیصلوں کی معطلی صرف اضافی سیٹوں کو دینےکی حدتک ہوگی، عوام نے جوووٹ دیااس مینڈیٹ کی درست نمائندگی پارلیمنٹ میں ہونی چاہیے۔

    جس پر وکیل الیکشن کمیشن نے بتایا کہ مخصوص نشستیں ایک ہی بارتقسیم کی گئیں،دوبارہ تقسیم کامعاملہ ہی نہیں، تو جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ آپ پھر الیکشن کمیشن کا حکمنامہ پڑھ کر دیکھ لیں۔

    جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا زیادہ نشستیں بانٹنا تناسب کے اصول کےخلاف نہیں، جس پر وکیل الیکشن کمیشن نے بتایا کہ میں بتاتا ہوں الیکشن کمیشن نےاصل میں کیا کیا ہے تو جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن نے کیا کیا اس سےنہیں آئین کیا کہتا ہے اسکے غرض ہے

    جسٹس اطہر من اللہ نے وکیل سے کہا کہ آپ جس بیک گراؤنڈمیں جا رہے ہیں اس کے ساتھ کچھ اور حقائق بھی جڑے ہیں، ایک جماعت انتخابی نشان کھونے کے بعد بھی بطور سیاسی جماعت الیکشن لڑ سکتی تھی، بغیرمعقول وجہ بتائےمخصوص سیٹیں دیگرجماعتوں میں بانٹی گئیں۔

    وکیل الیکشن کمیشن کا کہنا تھا کہ سیاسی جماعت کا مطلب ہوتا ہےوہ جماعت جو انتخابی نشان پر الیکشن لڑے، پارٹی کو رجسٹرڈ ہونا چاہئے۔

    جسٹس مصور علی شاہ نے کہا کہ ہم آپ کو 60گھنٹے دینےکو تیار ہیں، آئین کا آغاز بھی ایسے ہی ہوتا ہےکہ عوامی امنگوں کےمطابق امور انجام دیئےجائیں گے، کیا دوسری مرحلے میں مخصوص سیٹیں دوبارہ بانٹی جا سکتی ہیں۔

    سپریم کورٹ نے کہا کہ دوسری جماعتوں کو نشستیں دینے کا فیصلہ معطل رہے گا، فیصلے کی معطلی اضافی سیٹوں کی حد تک ہو گی۔

  • مخصوص نشستوں کا کیس، سپریم کورٹ نے پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ معطل کر دیا

    مخصوص نشستوں کا کیس، سپریم کورٹ نے پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ معطل کر دیا

    اسلام آباد: مخصوص نشستوں کے کیس میں سپریم کورٹ نے پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ معطل کر دیا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ نے مخصوص نشستیں دوسری جماعتوں کو دینے کا الیکشن کمیشن اور پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ معطل کر دیا ہے۔

    جسٹس منصور علی شاہ نے کہا ہم کیس کو سماعت کے لیے منظور کر رہے ہیں اور الیکشن کمیشن اور ہائیکورٹ کے فیصلوں کو معطل کر رہے ہیں، تاہم فیصلوں کی معطلی صرف اضافی سیٹوں کو دینے کی حد تک ہوگی۔

    جسٹس منصور علی شاہ نے کہا عوام نے جو ووٹ دیا اس مینڈیٹ کی درست نمائندگی پارلیمنٹ میں ہونی چاہیے، وکیل الیکشن کمیشن نے کہا مخصوص نشستیں ایک ہی بار تقسیم کی گئیں، دوبارہ تقسیم کا معاملہ ہی نہیں، جسٹس محمد علی مظہر نے کہا آپ پھر الیکشن کمیشن کا حکمنامہ پڑھ کر دیکھ لیں، جسٹس اطہر من اللہ نے کہا آپ کوئی بھی نام دیں تناسب سے زیادہ نشستیں ان جماعتوں کو دی گئیں نا۔

    جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کیا زیادہ نشستیں بانٹنا تناسب کے اصول کے خلاف نہیں؟ وکیل الیکشن کمیشن نے کہا میں بتاتا ہوں الیکشن کمیشن نے اصل میں کیا کیا ہے، جس پر جسٹس منصور نے کہا ہمیں الیکشن کمیشن نے کیا کیا اس سے نہیں آئین کیا کہتا ہے اس سے غرض ہے۔

    جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس میں سوال اٹھائے کہ بغیر معقول وجہ بتائے مخصوص نشستیں دیگر جماعتوں میں بانٹی گئیں، کیا دوسرے مرحلے میں مخصوص نشستیں دوبارہ بانٹی جا سکتی ہیں؟ اگر مزید کچھ سیٹیں بچ جائیں ان کا کیا کرنا ہے؟

    سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت کرتے ہوئے کہا کہ دوسری جماعتوں کو نشستیں دینے کا فیصلہ معطل رہے گا، اور فیصلے کی معطلی اضافی سیٹوں کی حد تک ہوگی۔ سپریم کورٹ میں کیس کی مزید سماعت 3 جون کو روزانہ کی بنیاد پر ہوگی، واضح رہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد اضافی نشستیں لینے والے ارکان ایوان کی کارروائی کا حصہ نہیں بن سکیں گے، اور سپریم کورٹ حتمی فیصلے تک ان ارکان کی رکنیت بھی معطل رہے گی۔

  • سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں دی جائیں یا نہیں؟ فیصلہ محفوظ

    سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں دی جائیں یا نہیں؟ فیصلہ محفوظ

    اسلام آباد :الیکشن کمیشن نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کی درخواست پرفیصلہ محفوظ کرلیا، بیرسٹرعلی ظفر نے کہا کہ مخصوص نشستیں کوئی خیرات نہیں آئینی حق ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کیلئےدرخواست پرالیکشن کمیشن میں سماعت ہوئی۔

    ایم کیو ایم، ن لیگ ، پیپلز پارٹی کی درخواستیں سماعت کے لیے مقررکی گئیں ، ایم کیو ایم، ن لیگ، پیپلز پارٹی کے وکلا الیکشن کمیشن میں پیش ہوئے۔

    اس موقع پر پی ٹی آئی سینئر وکیل حامد خان ،فاروق ایچ نائیک،ولید اقبال،فروغ نسیم،اعظم نذیر تارڑ اور بیرسٹر گوہر بھی موجود تھے۔

    پی ٹی آئی وکیل علی ظفر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ تمام متعلقہ سیاسی جماعتوں کو نوٹس جاری کیے جانے چاہئیں، سپریم کورٹ میں خدشے کااظہار کیاکہ انتخابی نشان نہیں تومخصوص نشستیں نہیں ملیں گی ، الیکشن کمیشن حکام نے کہا کہ وہ پارٹی جوائن کریں گے تو نشستیں مل جائیں گے۔

    چیف الیکشن کمشنر نے سوال کیا کیا یہ سپریم کورٹ کے فیصلے میں موجود ہے، تو بیرسٹر علی ظفر کا کہنا تھا کہ نہیں یہ بات سپریم کورٹ کے فیصلے میں موجود نہیں ہے تو چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ آپکے وکیل نے بھی یہ کہا تھا انتخابی نشان نہیں تو مخصوص نشستیں نہیں ملیں گی، اگر ریکارڈنگز پر جانا ہے تو بہت کچھ سننا پڑے گا۔

    بیرسٹر علی ظفر نے بتایا کہ غیر معمولی صورتحال پیداہوئی اورسب سےزیادہ میں اسمبلی میں آئے، آزاد امیدواروں نے کے پی کے میں بہت زیادہ سیٹیں حاصل کیں، ممبر خیبرپختونخوا نے کہا کے پی کے کوئی نام نہیں ہےخیبرپختونخوا نام ہے۔

    جس پر وکیل نے کہا کہ مسئلہ یہ ہے کہ پی ٹی آئی کو انتخابی نشان نہیں دیا گیا،میں نے اس وقت بھی مخصوص نشستوں کے مسئلے کا ذکر کیا تھا، سپریم کورٹ میں الیکشن کمیشن کا مؤقف تھا کہ مخصوص نشستیں مل جائیں گی تو ممبرکے پی کا کہنا تھا کہ اس وقت تو معلوم ہی نہیں تھا کہ آزاد کس پارٹی میں جائیں گے۔

    وکیل پی ٹی آئی نے بتایا کہ عوام نے پی ٹی آئی حمایت یافتہ آزاد امیدواروں کو منتخب کیا یہ حقیقت ہے،یہ کوئی مسئلہ نہیں تنازعہ نہیں آزاد کامیاب امیدواروں کی مخصوص نشستیں کیسے ملی گی، 86آزاد امیدواروں نے قومی اسمبلی میں ایس آئی سی میں شمولیت کی۔

    بیرسٹر علی ظفر نے دوبارہ غلطی سے کے پی کے کہہ دیا ، کے پی بولنے پر چیف الیکشن کمشنر اور ممبران ہنس پڑے ، جس پر علی ظفر نے کہاکہ معذرت چاہتاہوں کے پی نہیں خیبرپختونخوا ، لوگ ای سی پی کوبھی کچھ اورکہتےہیں تو چیف الیکشن کمشنر کا کہنا تھ کہ آپ تو بہت کچھ کہتےہیں لیکن ہم خاموش ہیں۔

    پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر نے دلائل میں کہا اعتراض یہ ہے سنی اتحاد کونسل نے مخصوص نشستوں کی لسٹ نہیں دی، جب غیر معمولی صورتحال پیدا ہوتی ہے تو تشریح کرناپڑتی ہے ، سیاسی جماعت وہ ہے جو انتخابات میں حصہ لے، جس پر ممبر اکرام اللہ نے کہا کہ جس پارٹی کا آپ حوالہ دے رہےہیں کیا اس پارٹی نےانتخابات میں حصہ لیا تو بیرسٹر علی ظفر کا کہنا تھا کہ وہ پارٹی نہیں توالیکشن کمیشن کی فہرست پران کانام اورانتخابی نشان کیوں ہے۔

    ممبر خیبرپختونخوا نے سوال کیا کہ کیا آپ چاہتے ہیں کہ ہم اس پارٹی کی رجسٹریشن ختم کردیں تو بیرسٹر علی ظفر کا کہنا تھا کہ بے شک ختم کردیں لیکن اس کیلئے پراسس کرنا پڑے گا ، سنی اتحاد کونسل ایک سیاسی جماعت ہے، سنی اتحاد کونسل کے پاس ایک انتخابی نشان ہے، حمایت یافتہ آزاد ارکان کی شمولیت کےبعد سنی اتحاد کونسل پارلیمانی پارٹی بن گئی۔

    ممبر خیبرپختونخوا نے مکالمے میں کہا کہ آپ کہنا چاہ رہے کہ آزاد ارکان ہوں یا پارٹیز سے تعلق ہوسیٹیں ملیں گی ، مخصوص نشستیں توملیں گی لیکن کس کو ملیں گی یہ الگ بات ہے، جس پر علی ظفر کا کہنا تھا کہ آزاد امیدواروں پر پابندی نہیں کہ کس جماعت کو جوائن کریں کس کو نہیں، بنیادی مقصد کسی بھی حکومت یا اپوزیشن کا بنانے میں معاونت تھا، آئین میں کہیں نہیں ہے کہ کس جماعت میں شمولیت ہوسکتی ہے اورکس میں نہیں۔

    وکیل پی ٹی آئی نے مزید بتایا کہ ایک درخواست گزار کا موقف ہے سیاسی جماعت کو پارلیمانی جماعت ہوناضروری ہے،آئین میں سیاسی جماعت کا ذکر ہے ناکہ پارلیمانی جماعت کا، پارلیمانی جماعت اور سیاسی جماعت میں فرق سےمتعلق الگ آرٹیکل ہے، آرٹیکل 63کے مطابق سیاسی جماعت واضح ہے، جس پر ممبرسندھ نے کہا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ آزادشامل ہوگئے تو غیرپارلیمانی جماعت بھی پارلیمانی بن جائےگی۔

    بیرسٹر علی ظفر کا کہنا تھا کہ بالکل سیاسی جماعت پارلیمانی بن سکتی ہے جب ممبران اسمبلی شامل ہوں، اگرایس آئی سی کو مخصوص نشستیں نہ دی گئی تو اس کا مطلب یہ نہیں تقسیم کردی جائیں، 20نشستیں حاصل کرنیوالی جماعت کو30نشستوں کےحساب سے مخصوص نشستیں نہیں دی جاسکتیں۔

    وکیل نے کہا کہ آئین میں درج ہے مخصوص نشستوں کا فیصلہ آزاد امیدواروں کی شمولیت کے بعد کیا جائے گا، آرٹیکل 51 ڈی واضح ہے سیاسی جماعتوں کومتناسب نمائندگی کےتحت مخصوص نشستیں الاٹ ہونی ہیں، آزاد ارکان کی شمولیت کے بعد ایس آئی سی مخصوص نشستوں کی حق دار ہے، آئین سیاسی جماعت اور پارلیمانی پارٹی میں تفریق کرتا ہے، آزاد امیدواروں کی شمولیت کے بعد ایس آئی سی پارلیمانی پارٹی بن گئی۔

    چیف الیکشن کمشنر کا کہنا تھا کہ سنی اتحاد کونسل نے مخصوص نشستوں کی ترجیحی فہرست بھی جمع نہیں کرائی، کیا سنی اتحاد کونسل الیکشن کے بعد ترجیحی فہرست جمع کراسکتی ہے؟ ممبر بابر حسن بھروانہ نے سوال کیا کیا صرف آزاد ارکان کی بنیاد پر ایک سیاسی جماعت کو مخصوص نشستیں دیدیں؟ آزاد ارکان کے بغیر اس وقت سنی اتحاد کونسل کی کوئی حیثیت نہیں، جن جماعتوں کے ارکان نے نشستیں جیتیں ان جماعتوں میں کیوں مخصوص نشستیں تقسیم نہ کریں؟

    جس پر بیرسٹر علی ظفر نے بتایا کہ آئین کے مطابق سیاسی جماعت کیلئے پارلیمانی پارٹی ہونے کی کوئی شرط نہیں، مخصوص نشستیں نہ دینے سے سینیٹ الیکشن میں بھی سنی اتحاد کونسل کو نقصان ہوگا، تو ممبر بابر حسن بھروانہ نے سوال کیا ترجیحی فہرست کون دے گا پارٹی سربراہ یا پارلیمانی پارٹی کا سربراہ؟

    وکیل فاروق نائیک نے کہا کہ ترجیحی فہرست اس وقت دینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، ترجیحی فہرست جمع کرانے کا وقت الیکشن سے پہلے گزر چکا ہے۔

    ممبر کےپی کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ میں اس طرح کی رولنگ آئی تھی کہ ممبران اسمبلی کس طرح ووٹ کرسکتے ہیں، جس پرعلی ظفر نے کہا کہ وہ معاملہ پارٹی سربراہ کے احکامات کی عدم تکمیل کا تھا اس میں واضح کیا تھا کہ ووٹ کیسے کیا جاسکتا ہے، قومی اسمبلی کا کوٹہ تین دن میں دیا جاتا ہے تو چیف الیکشن کمشنر نے کہا مخصوص نشستوں کے کوٹہ کے تعین کیلئے 3 روز ہیں۔

    علی ظفر نے بتایا اس لیے ہم نے 3 دن میں اپلائی کیا اور آپ نے آزاد امیدواروں کو سنی اتحاد کونسل کا مان لیا، تیسرا اعتراض ہے کہ ترجیحی لسٹ نہیں دی گئی، جس پر ممبر کے پی نے کہا کہ ہم نہیں کہہ رہے آئین کہتا ہے جو ترجیحی لسٹ دی اسی میں سے منتخب ہونگے تو وکیل پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہآئین کا آرٹیکل 51کہتا ہے لسٹ کے مطابق نشستیں ملنی چاہیے میں مانتا ہوں، قانون بنایا آرٹیکل ایک سو چار نے اب وہ دیکھ لیں۔

    وکیل پی ٹی آئی نے کہا اب اگر آزاد امیدوار کسی جماعت کو جوائن نہ کرتے کیا مخصوص کوٹہ ضائع ہوتا؟ قانون میں کیا ترمیم کرنا پڑتی ؟ لسٹ اس سے دیکھا جائے گا اس کے علاوہ آرٹیکل ایک سو چار کچھ نہیں کہتا، کوٹےسے متعلق شیڈول آپ نے دینا ہے جب چاہیں جتنی بار چاہیں۔

    چیف الیکشن کمشنر نے کہا سربراہ سنی اتحاد کونسل نےچھبیس فروری کو الیکشن کمیشن کو خط لکھا، جس میں کہا گیا انہوں نے جنرل الیکشن نہیں لڑا۔ انہیں مخصوص نشستیں چاہیئں تو آپ کیوں مجبورکر رہے ہیں۔

    سکندر سلطان راجہ نے خط بیرسٹرعلی ظفر کو دے دیا،علی ظفرنے خط سے لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سنی اتحاد کونسل نے ایسے کسی خط کا پی ٹی آئی کو نہیں بتایا۔

    خیال رہے مسلم لیگ ن۔ پیپلزپارٹی۔ ایم کیوایم اور جےیوآئی ف کے وکیلوں نے سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں دینے کی مخالفت کی ہے۔

  • لیگی سینیٹر نے پی ٹی آئی کو مخصوص نشستیں دینے کی حمایت کردی

    لیگی سینیٹر نے پی ٹی آئی کو مخصوص نشستیں دینے کی حمایت کردی

    لاہور: مسلم لیگ ن کی سینیٹر سعدیہ عباسی نے پی ٹی آئی کو مخصوص نشستیں دینے کی حمایت کردی۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق سینیٹ میں اظہار خیال کرتے ہوئے ن لیگی سینیٹر سعدیہ عباسی کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کی جو مخصوص نشستیں بنتی ہیں وہ انہیں دی جائیں۔

    سینیٹر سعدیہ عباسی نے کہا کہ چیف الیکشن کمشنر کو استعفیٰ دینا چاہیے۔

    دوسری جانب پی ٹی آئی سینیٹرز کی گرفتار خواتین کی رہائی کے لیے نعرے بازی کی گئی، خواتین کو رہا کرو کے نعرے لگائے گئے اور سینیٹرز نے علامتی واک آؤٹ بھی کیا۔

    واضح رہے کہ اس سے قبل پیپلزپارٹی، مسلم لیگ ن اور ایم کیوایم نے سنی اتحاد کونسل (پی ٹی آئی) کو مخصوص نشستیں دینے کی مخالفت کی تھی اور سنی اتحاد کونسل کو پارلیمانی جماعت ڈکلیئر نہ کرنے کی بھی استدعا کی تھی۔

    -الیکشن کمیشن نے سنی اتحاد کونسل کیخلاف تمام درخواستیں یکجا کرکے  سماعت کل تک ملتوی کردی تھی

  • سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں ملیں گی یا نہیں؟ حتمی فیصلہ آج کیا جائے گا

    سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں ملیں گی یا نہیں؟ حتمی فیصلہ آج کیا جائے گا

    اسلام آباد : الیکشن کمیشن سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں دینے کے معاملے پر حتمی فیصلہ آج کرے گی، جبکہ لا ونگ سنی اتحاد کونسل کو نشستوں کے معاملے پر قانونی رائے بھی دے گا۔

    تفصیلات کے مطابق سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستوں کے معاملے پر الیکشن کمیشن کا اجلاس طلب کرلیا گیا ، چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی زیر صدارت اجلاس آج ہوگا۔

    اجلاس میں کمیشن کے چاروں ممبران،سیکرٹری اورسپیشل سیکرٹری سمیت لاء ونگ شرکت کرے گا، اجلاس میں سنی اتحاد کونسل کی درخواست کا جائزہ لیا جائے گا۔

    کمیشن سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں دینے یا نہ دینے سے متعلق حتمی فیصلہ کرے گا جبکہ لا ونگ سنی اتحاد کونسل کو نشستوں کے معاملے پر قانونی رائے بھی دے گا۔

    یاد رہے 8 فروری کو ہونے والے انتخابات میں پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار بڑی تعداد میں کامیاب ہوئے اور سنی اتحاد اب مخصوص نشستوں کیلیے وہ سنی اتحاد کونسل میں شامل ہوئے ہیں۔

    گزشتہ روز سنی اتحاد کونسل نے خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں کیلیے الیکشن کمیشن میں تحریری درخواست جمع کروائی تھی۔ تحریری درخواست کے ساتھ پارٹی لیٹر اور بیان حلفی بھی جمع کروایا گیا تھا جبکہ استدعا کی گئی تھی کہ خواتین اور اقلیت کی مخصوص نشستوں پر کوٹہ الاٹ کیا جائے۔

    درخواست میں کہا گیا تھا کہ پنجاب اسمبلی کے 107 آزاد اراکین نے بھی سنی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیار کر لی ہے، اس لیے تمام کامیاب آزاد امیدواروں کے تناسب سے مخصوص نشستیں لاٹ کی جائیں۔