Tag: مخنث

  • جرمنی نے خواجہ سراؤں کو شناخت کا حق دے دیا

    جرمنی نے خواجہ سراؤں کو شناخت کا حق دے دیا

    بون: جرمنی میں خواجہ سراؤں کو تیسری جنس بطور شناخت اپنانے کی اجازت دے دی گئی ہے، یہ شناخت دسمبر میں کی جانے والی قانون سازی کے تحت دی گئی۔

    تفصیلات کے مطابق جرمنی کے خواجہ سرا شہری اب اپنی شناخت باقاعدہ تیسری جنس کے طور پر کرواسکیں گے، اس سےقبل انہیں جنس کے خانے میں مرد یا عورت کا انتخاب کرنا پڑتا تھا۔

    بتایا جارہا ہے کہ اس کیٹیگری میں صرف وہی لوگ اپنی شناخت درج کرواسکیں گے جو کہ طبی طور پر مرد یا عورت کی تعریف پر پورا نہیں اترتے۔ اس کے لیے انہیں ڈاکٹر کے سرٹیفکیٹ کی بھی ضرورت ہوگی۔

    یاد رہے کہ خواجہ سرا وہ لوگ ہوتے ہیں جو پیدائشی طور پر مخلوط صلاحیتوں کے حامل ہوتے ہیں اور ان کا شمار نہ تو مکمل طور پر مردوں میں کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی عورتوں میں ۔ حالیہ کچھ سالوں میں کئی ممالک نے اس طرح کی قانون سازی کی ہے۔

    خواجہ سراؤں کے شناختی کارڈز بننے کا عمل شروع

    جرمنی نے اس سے قبل سنہ 2013 میں خواجہ سراؤں کو بطور مرد یا عورت رجسٹریشن کی اجازت تھی تھی ، تاہم 2017 میں خاتون رجسٹر ہونے والے ایک خواجہ سرا کے طبی ٹیسٹ کے بعد مطالبہ زور پکڑ گیا کہ تیسری جنس کو بطور شناخت تسلیم کیا جائے۔ا س ٹیسٹ کے بعد جرمنی کی اعلیٰ ترین عدالت نے اسے امتیازی سلوک قرار دیا تھا۔

    اقوام متحدہ کے مطابق دنیا کی 1.7 فیصد آبادی خواجہ سراؤں پر مشتمل ہے ، اور مناسب قانون سازی نہ ہونے کے سبب اکثر انہیں صنفی امتیاز اور بعض اوقات بد ترین رویے کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔

    یاد رہے کہ پاکستان میں گزشتہ سال الیکشن سے قبل سپریم کورٹ آف پاکستان کے احکامات پر خواجہ سراؤں کو تیسری جنس بطور شناخت اختیار کرنے ، بطور خواجہ سرا ووٹ کاسٹ کرنے اور الیکشن لڑنے کا اختیار دیا جاچکا ہے۔

  • جینز پہننے والی خواتین کے ہاں مخنث پیدا ہوتے ہیں: ہندو پروفیسر کا مضحکہ خیز دعویٰ

    جینز پہننے والی خواتین کے ہاں مخنث پیدا ہوتے ہیں: ہندو پروفیسر کا مضحکہ خیز دعویٰ

    کیرالا: ایک ہندو پروفیسر نے یہ عجیب و غریب دعویٰ کیا ہے کہ جینز پہننے والی خواتین کے ہاں مخنث پیدا ہوتے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق کیرالا سے تعلق رکھنے والے متنازع ماہر نباتات پروفیسر رجیت کمار نے دعویٰ کیا ہے کہ جو خواتین جینز اور مردانہ طرز کے کپڑے پہنتی ہیں، ان کے مخنث بچوں کی پیدائش کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

    انھوں نے ان خیالات کا اظہار اپنے ایک لیکچر میں کیا، جس میں طلبا و طالبات کی بڑی تعداد موجود تھی۔ ان کاکہنا تھا کہ ”جینز اور شرٹ پہننے والی خواتین کے ہاں خواجہ سرا پیدا ہوتے ہیں اور اس وقت کیرالا میں ان کی بڑھتی تعداد کا یہی سبب ہے۔ “

    یاد رہے کہ اس وقت کیرالا میں چھ لاکھ سے زائد خواجہ سرا ہیں، جو اپنے حقوق کی جدوجہد کر رہے ہیں۔ کیرالا کا شمار بھارت کی ان ریاستوں میں ہوتا ہے، جہاں تعلیم کی شرح سب سے بلند ہے۔

    پروفیسر رجیت نے مزید کہا کہ جو جوڑے اپنی صنفی شناخت کے ساتھ زندگی گزارتے ہیں، ان ہی کے ہاں نیک اولاد پیدا ہوتی ہے۔جن والدین کے کردار میں نقص ہوتا ہے، ان کے بچے بڑے ہو کر ملحد بن جاتے ہیں ۔

    پروفیسر رجیت کمار کے اس تبصرے پر شدید عوامی ردعمل آیا۔ سوشل میڈیا پر بھی انھیں کڑی تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ خواتین کی سماجی تنظیموں نے بھی پروفیسر رجیت کمار کو آڑے ہاتھ لیا۔

    یاد رہے کہ پروفیسر رجیت کمار ماضی میں بھی اپنے متنازع بیانات کی وجہ سے خبروں کی زینت بنتے رہے ہیں۔ وہ مذہبی عقائد اور خواتین سے متعلق اپنے انتہا پسندانہ نظریات کی وجہ سے ناپسندیدہ شخصیت تصور کیے جاتے ہیں۔ 

    کیرالا کی حکومت ان کے عوامی بیانات پر پابندی لگا دی ہے۔


    بھارت، ہندو اساتذہ کا مسلمان طالب علموں کے ساتھ امتیازی سلوک


  • خواجہ سرا جنس کے اندراج کے ساتھ پہلا پاسپورٹ جاری

    خواجہ سرا جنس کے اندراج کے ساتھ پہلا پاسپورٹ جاری

    پاکستانی تاریخ میں پہلی بار پاسپورٹ میں جنس کے زمرے میں خواجہ سرا کا اندراج کردیا گیا جس کے بعد پاکستان دنیا کے ان چند ممالک میں شامل ہوگیا جہاں سرکاری دستاویزات میں خواجہ سرا کو ایک علیحدہ جنس کے طور پر درج کیا جارہا ہے۔

    اس سلسلے میں سرکاری طور پر تو کوئی اعلان نہیں کیا گیا تاہم خیبر پختونخواہ میں خواجہ سراؤں کی فلاح کے لیے کام کرنے والے ادارے ٹرانس ایکشن پاکستان نے سوشل میڈیا پر اس اہم اقدام کا اعلان کیا۔

    فیس بک پر کی جانے والی پوسٹ کے مطابق ادارے کی سربراہ فرزانہ جان وہ پہلی خواجہ سرا بن گئی ہیں جن کے پاسپورٹ میں ان کی جنس بطور مخنث درج کی گئی ہے۔

    پوسٹ میں حکومت پاکستان اور وزارت داخلہ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا گیا کہ پاسپورٹ میں جنس کے خانے میں مخنث کا اندراج ایک اہم سنگ میل ہے۔

    یاد رہے کہ پاکستانی پاسپورٹ میں اس سے قبل جنس کے لیے صرف ’میل‘ اور ’فی میل‘ کا آپشن موجود تھا تاہم اب خواجہ سراؤں کے لیے علیحدہ جنس کا اندراج بھی شروع کردیا گیا جسے ’ایکس‘ سے ظاہر کیا جائے گا۔

    پاسپورٹ ملنے کے بعد خواجہ سرا فرزانہ جان نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ اتفاق سے وہ پہلی خواجہ سرا ہیں جن کے شناختی کارڈ میں بھی ان کی جنس بطور خواجہ سرا درج کی گئی ہے۔

    انہوں نے کہا کہ انہیں بے حد خوشی ہے کہ پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہوگیا ہے جہاں خواجہ سراؤں کو بطور علیحدہ جنس تسلیم کرلیا گیا ہے تاہم دنیا میں سعودی عرب جیسے ممالک بھی موجو دہیں جنہوں نے اپنے ملک میں خواجہ سراؤں کا داخلہ ممنوع قرار دے رکھا ہے۔

    مزید پڑھیں: مردم شماری میں خواجہ سراؤں کا اندراج

    یاد رہے کہ سرکاری دستاویزات میں جنس کے خانے میں مخنث کا اندراج کرنے والے دیگر ممالک میں بھارت، نیپال، جرمنی اور نیوزی لینڈ شامل ہیں۔ حیرت انگیز طور پر اس فہرست میں امریکا شامل نہیں ہے۔

    یاد رہے کہ رواں برس ہونے والی چھٹی مردم شماری میں بھی خواجہ سراؤں کے لیے علیحدہ جنس کا خانہ مقرر کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • خدا میرا بھی ہے: یہاں بچے ہمیشہ آتے ہیں، جاتے کبھی نہیں

    خدا میرا بھی ہے: یہاں بچے ہمیشہ آتے ہیں، جاتے کبھی نہیں

    اے آر وائی ڈیجیٹل کا ڈرامہ ’خدا میرا بھی ہے‘ جہاں ایک طرف تو ناظرین میں بے حد مقبول ہورہا ہے وہیں وہ ہمارے معاشرے کے کئی تلخ پہلوؤں کی عکاسی بھی کر رہا ہے۔

    ڈرامے کی کہانی ایک ایسے جوڑے (عائشہ خان اور جبران سید) کی ہے جن کے یہاں تیسری جنس کا بچہ پیدا ہوجاتا ہے جس کے بعد تمام لوگ اس بچے کو قبول کرنے سے انکار کر دیتے ہیں۔

    ان دونوں کو شدید قسم کے معاشرتی دباؤ کا سامنا ہے۔ ایک منظر میں عائشہ خان کی ساس کا کردار ادا کرنے والی اسریٰ غزل چیختی نظر آئیں، ’ہماری بہو نے ہیجڑا پیدا کیا ہے‘۔

    ایک ایسے حساس موضوع پر، جسے معاشرے کا حصہ ہونے کے باوجود اس پر گفتگو کرنا شجر ممنوعہ سمجھا جاتا ہو، ڈرامہ پیش کرنا نہایت بہادرانہ اقدام ہے۔

    جیسے جیسے ڈرامے کی کہانی آگے بڑھ رہی ہے ویسے ویسے ناظرین اس پہلو کے بارے میں مختلف سوالات سوچنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔

    ڈرامے کے ایک منظر میں ایک ماں اور اس کے اسپیشل بچے کو دکھایا گیا جو نہایت محبت سے اس کی دیکھ بھال کر رہی ہے۔ عائشہ خان کے دریافت کرنے پر وہ بتاتی ہے کہ اس کے بچے کی پیدائش سے قبل ہی ڈاکٹرز نے اسے آگاہ کردیا تھا کہ ان کے گھر معذور بچہ پیدا ہوگا اور وہ چاہیں تو اسے دنیا میں آنے ہی نہ دیں۔

    اس کی پیدائش کے بعد بھی، بقول خاتون اس کے شوہر اور سسرال والے اس پر زور دیتے ہیں کہ وہ اسے اسپیشل بچوں کے کسی ادارے میں داخل کروا دے۔ ’آپ خود ہی بتائیں، اپنے بچے کا گلہ گھونٹ کر مجھے کیسے سکون کی نیند آسکتی تھی؟ جو دیکھ بھال ایک ماں اپنے بچے کی کرسکتی ہے وہ کوئی سینٹر کیسے کر سکتا ہے‘۔

    اس موقع پر ناظرین کے ذہنوں میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ اگر ایک اسپیشل بچے کو پالنے، اس کی دیکھ بھال کرنے اور اسے اپنانے میں کوئی قباحت نہیں، تو ایک تیسری جنس کا بچہ کیوں ناقابل قبول ہے؟ آخر وہ بھی تو ایک اسپیشل قسم ہے جو بہت نایاب ہے۔

    ڈرامے میں دکھایا گیا ہے کہ تمام تر دباؤ کے بعد مجبور ہو کر ماہی اپنے بچے کو مخنثوں کے حوالے تو کر دیتی ہے لیکن اس کی محبت سے مجبور ہو کر وہ اسے واپس لینے پہنچ جاتی ہے۔

    اس موقع پر گرو نہایت جذباتی مکالموں اور دیوانہ وار رقص کے ذریعہ ہمارے معاشرے کے سیاہ پہلو کی عکاسی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ’میں نے یہاں ہمیشہ بچے آتے ہی دیکھے ہیں، جاتے ہوئے کبھی نہیں دیکھے‘۔

    ٹوئٹر پر بھی صارفین نے اس ڈرامے کے بارے میں اپنی پسندیدگی کا اظہار کیا۔

    ایک صارف نے اس حساس موضوع کو اس کی تمام تر حساسیت کے ساتھ پیش کرنے پر بے حد سراہا۔

    دوسری جانب معروف اداکار حمزہ علی عباسی نے بھی ڈرامے کے موضوع کو سراہتے ہوئے خواجہ سراؤں کے حقوق کے تحفظ کے بارے میں بات کی۔

    ڈرامے میں عائشہ خان کی اداکاری کو بھی بے حد پسند کیا جارہا ہے۔


    عائشہ خان ایک منجھی ہوئی اداکارہ ہیں اور ایک طویل عرصہ سے ڈرامہ انڈسٹری کا حصہ ہیں، تاہم خدا میرا بھی ہے میں ان کی اداکاری کو ان کے کیریئر کا بہترین حصہ قرار دیا جارہا ہے۔