Tag: مدارس رجسٹریشن

  • مدارس رجسٹریشن ترمیمی بل کے نکات سامنے آ گئے

    مدارس رجسٹریشن ترمیمی بل کے نکات سامنے آ گئے

    اسلام آباد: مدارس رجسٹریشن ترمیمی بل کے اہم نکات سامنے آ گئے ہیں، بل پر صدر مملکت کے دستخط کے بعد قومی اسمبلی سیکرٹریٹ نے گزٹ نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا۔

    سوسائٹیز رجسٹریشن ترمیمی بل کے مطابق جو مدارس ترمیمی بل کے نفاذ سے پہلے قائم ہوئے ہیں، وہ 6 ماہ میں رجسٹریشن کروائیں گے، اور جو دینی مدارس اس بل کے بعد قائم ہوئے وہ ایک سال میں رجسٹریشن کروائیں گے۔

    بل کے متن کے مطابق جن مدارس کے ایک سے زیادہ کیمپس ہیں انھیں صرف ایک رجسٹریشن کی ضرورت ہوگی، ہر دینی مدرسہ اپنی سرگرمیوں کی سالانہ رپورٹ رجسٹرار کو جمع کروائے گا۔

    بل میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ہر مدرسہ اپنے حسابات کا آڈٹ کروا کر رپورٹ رجسٹرار کے پاس جمع کروائے گا، کوئی بھی مدرسہ شدت پسندی اور مذہبی منافرت پر مبنی مواد شائع کرے گا نہ پڑھائے گا۔

    صدر نے مدارس رجسٹریشن سے متعلق ترمیمی آرڈیننس جاری کر دیا

    واضح رہے کہ صدر مملکت آصف علی زرداری نے مدارس رجسٹریشن سے متعلق ترمیمی آرڈیننس پر دستخط کر دیے ہیں، قومی اسمبلی سیکرٹریٹ نے گزٹ نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا۔

    سوسائٹی رجسٹریشن ترمیمی ایکٹ 2024 باقاعدہ طور پر ایکٹ بن گیا ہے، صدر آصف زرداری نے 27 دسمبر کو سوسائٹیز رجسٹریشن ترمیمی ایكٹ 2024 پر دستخط کیے ہیں، ترمیمی ایکٹ کا بل 20 اکتوبر کو سینیٹ اور 21 اکتوبر کو قومی اسمبلی سے منظور ہوا تھا، اس آرڈیننس کے ذریعے ایکٹ کے سب سیکشن 5، 6، 7 میں ترامیم کی گئی ہیں۔

  • صدر نے مدارس رجسٹریشن سے متعلق ترمیمی آرڈیننس جاری کر دیا

    صدر نے مدارس رجسٹریشن سے متعلق ترمیمی آرڈیننس جاری کر دیا

    اسلام آباد: صدر مملکت آصف علی زرداری نے مدارس رجسٹریشن سے متعلق ترمیمی آرڈیننس پر دستخط کر دیے، قومی اسمبلی سیکرٹریٹ نے گزٹ نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا۔

    تفصیلات کے مطابق سوسائٹی رجسٹریشن ترمیمی ایکٹ 2024 پر صدر پاکستان نے دستخط کر دیے، جس کے بعد یہ ایکٹ بن گیا ہے، صدر مملکت نے وزیر اعظم شہباز شریف کی ایڈوائس پر بل سے متعلق سمری کی منظوری دی۔

    صدر آصف زرداری نے 27 دسمبر کو سوسائٹیز رجسٹریشن ترمیمی ایكٹ 2024 پر دستخط کیے ہیں، ترمیمی ایکٹ کا بل 20 اکتوبر کو سینیٹ اور 21 اکتوبر کو قومی اسمبلی سے منظور ہوا تھا۔

    صدر آصف زرداری نے سوسائٹیز رجسٹریشن ترمیمی آرڈیننس گزشتہ روز 28 دسمبر کو جاری کیا ہے، اس آرڈیننس کے ذریعے ایکٹ کے سب سیکشن 5، 6، 7 میں ترامیم کی گئی ہیں۔

    ترجمان قومی اسمبلی کے مطابق قانون کے تحت دینی مدارس کی رجسٹریشن سوسائٹی ایکٹ کے مطابق ہوگی، یہ معاملہ افہام و تفہیم سے حل کر لیا گیا ہے۔

    واضح رہے کہ گزشتہ روز صدر آصف علی زرداری نے مولانا راشد محمود سومرو کی قیادت میں جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی ف) کے وفد کو یقین دہانی کرائی تھی کہ دینی مدارس کے رجسٹریشن بل کے حوالے سے مولانا فضل الرحمان کے تحفظات دور کیے جائیں گے، اور اس مسئلے کو حل کیا جائے گا۔

    پیپلز پارٹی کی قیادت اور جمعیت علمائے اسلام سندھ کے رہنماؤں کے درمیان سیاسی صورت حال کے علاوہ مدارس رجسٹریشن بل پر بھی تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا تھا۔ صدر زرداری اور پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے یقین دلایا تھا کہ دینی مدارس کی رجسٹریشن کا مسئلہ وعدے کے مطابق حل کیا جائے گا۔

  • مدارس رجسٹریشن بل کو دوبارہ پارلیمنٹ نہیں لایا جا سکتا، رویہ بدلیں ورنہ فیصلے میدان میں ہوں گے، فضل الرحمان

    مدارس رجسٹریشن بل کو دوبارہ پارلیمنٹ نہیں لایا جا سکتا، رویہ بدلیں ورنہ فیصلے میدان میں ہوں گے، فضل الرحمان

    اسلام آباد: مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ مدارس رجسٹریشن بل کو دوبارہ پارلیمنٹ نہیں لایا جا سکتا، رویہ بدلیں ورنہ فیصلے میدان میں ہوں گے۔

    قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے جے یو آئی کے امیر مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ بل پر ایک بار اعتراض کے بعد صدر کو دوبارہ ایوان کو بھیجنے کا حق نہیں، آئین کہتا ہے صدر کسی بل پر دس دن تک دستخط نہیں کرتے تو وہ ایکٹ بن جائے گا، اس لیے آئین کے مطابق مدارس سے متعلق بل ایکٹ بن چکا ہے۔

    انھوں نے کہا مدارس کی آزادی کو ہر قیمت پر برقرار رکھنا چاہتے ہیں، ملک میں شدید ناراضی پائی جاتی ہے کوشش کر رہے ہیں تلخی کی طرف نہ جائیں، حالات بگاڑ کی طرف نہ لے جائیں، رویہ تبدیل نہ ہوا تو فیصلے ایوان نہیں میدان میں ہوں گے، آپ 100 سال تک مدارس کی رجسٹریشن نہ کریں، مدارس تو چلیں گے، آپ رجسٹریشن نہیں دیں گے تو کیا مدارس بند ہو جائیں گے۔

    مولانا نے کہا اس ایوان کی نمائندگی پر ہمیں تحفظات ضرور ہیں لیکن آئینی ذمہ داریاں بھی یہ ایوان نبھا رہا ہے، اس سے قبل پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں نے چھبیسویں آئینی ترمیم پاس کی، یوں سمجھیں کہ وہ اتفاق رائے کے ساتھ تھا، لیکن ایک بڑی پارٹی نے اس سے اتفاق نہیں کیا۔

    انھوں نے کہا 2004 میں مدارس کے حوالے سوالات اٹھائے گئے، ان سوالات پر مذاکرات ہونے کے بعد قانون سازی ہوئی، کہا گیا کہ دینی مدارس محتاط رہیں گے کہ شدت پسندانہ مواد پیش نہ کیا جائے۔ خفیہ ایجنسیاں مدارس میں براہ راست جاتی تھیں۔ اس کے بعد 2010 میں دوبارہ معاہدہ ہوا، ہمارے نزدیک تو معاملات طے تھے لیکن اس کے بعد اٹھارویں ترمیم پاس ہوئی، اور حکومت نے کہا کہ مدارس سوسائٹیز ایکٹ کے تحت رجسٹرڈ ہوتے ہیں۔

    فضل الرحمان نے کہا پھر وزرات تعلیم کی بات آئی اور بات چیت ہوتی رہی، وہ ایکٹ نہیں بنا لیکن محض معاہدہ تھا، پہلی بات تھی کہ نئے مدارس کی رجسٹریشن پر حکومت تعاون کرے گی، دینی مدارس کے بینک اکاؤنٹس کھولنے کی بات بھی ہوئی، غیر ملکی طلبہ کو 9 سال کا ویزا دینے کی بات ہوئی، جوں ہی بل پاس ہوا، تو اعجاز جاکھرانی صاحب نے ایوان صدر آنے کی دعوت دی، لیکن نہ مدارس کے اکاؤنٹس کھل سکے نہ ویزے لگ سکے، اس کے بعد بیس پچیس بورڈز بنائے گئے۔

    انھوں نے کہا الیکشن سے پہلے وزیر اعظم سے بات کی، 26 ویں آئین میں جو بل پاس ہوا اس میں وزارت تعلیم کا کوئی تذکرہ نہیں تھا، ہم نے قبول کیا اور بل پاس ہوا، آدھے گھنٹے بعد انھوں نے کہا کہ پروگرام ملتوی کر دیا گیا ہے، صدر مملکت نے اعتراض کیا تو اسپیکر نے تصحیح کر دی۔ اسپیکر نے آرٹیکل 75 کا تذکرہ کیا، جانب صدر نے دوبارہ کسی قسم کا اعتراض نہیں کیا۔ صدر مملکت کو ایک بار اعتراض کا حق حاصل ہے لیکن دوسری دفعہ نہیں۔

    مولانا نے کہا کہ صدر عارف علوی نے ایک بل پر دستخط نہیں کیا تو بل ایکٹ بن گیا، یہ ایک نظیر بن چکی ہے، اب صدر کو اختیار حاصل نہیں ہے، اگر صدر دس دن کے اندر دستخط نہیں کرتے تو قانون بن جاتا ہے، اسپیکر قومی اسمبلی نے انٹرویو میں کہا کہ قانون کے مطابق یہ ایکٹ بن چکا ہے، سوال یہ ہے کہ قانون بن چکا ہے تو گزٹ نوٹیفیکیشن کیوں جاری نہیں کیا جا رہا۔

    انھوں نے مزید کہا دوبارہ مشترکہ اجلاس بلایا گیا تو یہ آئینی خلاف ورزی ہوگی، ہم ایوان اور آئین کے استحقاق کی جنگ لڑ رہے ہیں، ایوان صدر سے شکایت ہے کہ یہ آئین کی خلاف ورزی ہے، وزیر قانون کوئی تاویل نکال لیتے ہیں لیکن تاویلیں نہیں چلیں گی، قومی اسمبلی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ صدر مملکت نے مشترکہ اجلاس بلانے کا نہیں کہا، مدارس رجسٹریشن بل کو دوبارہ پارلیمنٹ نہیں لایا جا سکتا، اسپیکر نے بل پر صدر کا اعتراض دور کر دیا تھا۔

  • ایوان صدر کے اعتراضات سے ثابت ہو گیا حکومت بیرونی دباؤ کا شکار ہے، مولانا حسین احمد

    ایوان صدر کے اعتراضات سے ثابت ہو گیا حکومت بیرونی دباؤ کا شکار ہے، مولانا حسین احمد

    پشاور: مدارس رجسٹریشن بل کے معاملے پر مولانا حسین احمد نے کہا ہے کہ ایوان صدر کے اعتراضات سے ثابت ہو گیا ہے کہ حکومت بیرونی دباؤ کا شکار ہے۔

    اتحاد تنظیمات مدارس پاکستان کے صوبائی صدر مولانا حسین نے اے آر وائی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ’’عالمی مالیاتی ادارے کو دینی مدارس کو سہولتیں دینا برداشت نہیں، ایوان صدر کے اعتراضات سے ثابت ہو گیا حکومت بیرونی دباؤ کا شکار ہے۔‘‘

    مولانا حسین احمد کا کہنا تھا ’’مدارس رجسٹریشن پر سمجھوتا نہیں ہوگا، مولانا طاہر اشرفی نے ہمارے مؤقف کی تائید کی ہے، حکومت نے ہمیں کوئی دوسرا بل یا مسودہ نہیں بلکہ انتظامی حکم دیا ہے۔‘‘

    انھوں نے کہا 2019 کے انتظامی حکم کے مطابق ہمیں مدارس رجسٹریشن کا کہا جا رہا ہے، جب کہ ہمارا مطالبہ ہے کہ اسمبلیوں سے پاس شدہ قانون کے تحت مدراس کی رجسٹریشن ہو۔ مولانا حسین نے کہا کہ انتظامی حکم وقتی ہے، اس کے تحت مدراس کی رجسٹریشن نہیں ہونی چاہیے۔

    مولانا حسین احمد نے بتایا کہ مدراس رجسٹریشن کے حوالے سے 16 دسمبر کو اسلام آباد میں اجلاس ہوگا۔ واضح رہے کہ اتحاد تنظیمات مدارس نے صدر مملکت آصف علی زرداری کا مدارس رجسٹریشن بل پر اعتراض مسترد کر دیا ہے۔

    17 دسمبر کو مدارس رجسٹریشن بل کی منظوری کا امکان

    ادھر ذرائع کا کہنا ہے کہ مدارس رجسٹریشن بل کے معاملے پر وفاقی حکومت اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کے درمیان بیک ڈور رابطہ ہوا ہے۔ نئے بل پر حکومت اور جے یو آئی (ف) میں مشاورت جاری ہے، وزیر اعظم شہباز شریف نے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلانے کی ایڈوائس بھی صدر مملکت آصف علی زرداری کو بھیج دی۔ ذرائع کے مطابق اجلاس میں مدارس رجسٹریشن سمیت 8 بلوں کی منظوری کا امکان ہے۔