Tag: مدافعتی نظام

  • الرجی کو معمولی مت سمجھیں، ورنہ

    الرجی کو معمولی مت سمجھیں، ورنہ

    الرجی عموماً دو اقسام کی ہوتی ہے اس کی ایک قسم کا تعلق سانس اور دوسری کا جِلد سے ہے، جو حساس لوگوں کو مخصوص چیزوں کو چھونے سے ہونے لگتی ہے۔

    یہ بظاہر ایک عام سا مرض ہے، جسے زیادہ تر لوگ کوئی خطرناک مرض نہیں سمجھتے لیکن در حقیقت یہ ایک خطرناک مرض کی صورت بھی اختیار کرسکتا ہے۔

    مرض میں مبتلا افراد بظاہر نارمل نظر آتے ہیں، مگر وہ بر وقت ایسی چیزوں سے بچنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں، جن کے سامنے آتے ہی انہیں الرجی ہونے لگتی ہے۔

    ہمارا مدافعتی نظام ہمیں بیماریوں والے بیکٹیریاز اور وائرسز سے محفوظ رکھتا ہے۔ ایسے ہی کسی بھی عنصر کے مخالف ایک مضبوط مدافعتی رد عمل ہوتا ہے جو اکثر لوگوں کیلئے نقصان دہ نہیں ہوتا، یہ عنصر الرجی کہلاتا  ہے۔ یعنی یوں سمجھ لیں کہ یہ کیفیت قوت مدافعت کی کمزوری کی وجہ سے ہوتی ہے۔

    الرجی ہے کیا اور کیوں ہوتی ہے؟

    صحت جرنل میں شائع ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ الرجی دراصل انسان کے مدافعتی نظام کے کمزور ہونے کی وجہ سے ہوتی ہے۔

    صحت جرنل میں مدافعتی نظام سے متعلق بتایا گیا کہ یہ ایک بہت ہی پیچیدہ عمل ہے، جو عام افراد کو سمجھ نہیں آتا، لیکن اس کی آسان تشریح یہ ہے کہ یہ انسانی جسم کا وہ حصہ ہے جو جسم کی بیرونی چیزوں سے حفاظت کرتا ہے۔

    مدافعتی نظام کے کمزور ہونے کی وجہ سے مٹی، دھول، جانوروں کی جلد کے وائرسز، ہوا میں شامل نمی اور دیگر کئی چیزیں انسانی جسم میں داخل ہوکر ’الرجن‘ کا وائرس پیدا کرتی ہیں، جسے امیونوگلوبلین ای ( آئی جی ای) اینٹی باڈیز بھی کہا جاتا ہے جو بڑھ کر الرجی بن جاتا ہے۔

    الرجی کن چیزوں سے ہوتی ہے؟

    الرجی ایک حساس بیماری ہے، جو مختلف لوگوں کو بہت ہی حساس اشیاء سے بھی ہوتی ہے۔

    الرجی پھولوں، دُھول، مٹی کے ذرات، پالتو جانوروں اور پرندوں کے قریب رہنے سے بھی ہوتی ہے، کچھ خاص کھانوں اور پھلوں سے بھی ہوسکتی ہے۔ اس کے علاوہ روزہ مرہ کے استعمال میں آنے والی چیزوں میں بوسیدہ اور ملی ہوئی چیزوں سے بھی ہوتی ہے۔

    الرجی کے باعث ہونے والی چند بیماریاں

    نزلہ، زکام، کھانسی، ناک کا بند رہنا، یا بہتے رہنا۔ سانس ٹھیک سے نہ لے پانا، استھما۔ سینے میں درد، خارش، جلد میں خرابی، خشکی، بہت ہی گرمی لگنا، جلد پر سرخ دانے نکلنا۔ سر درد، آنکھوں کا لال رہنا، آنکھوں میں پانی رہنا۔ پیٹ کی خرابیاں، ہاضمے کی شکایات وغیرہ۔

    احتیاطی تدابیر

    الرجی عارضی ہو یا دائمی، اس کا مستقل علاج موجود نہیں ہے، یعنی اگر آپ کسی بھی قسم کی الرجی میں مبتلا ہیں تو ممکن ہے کہ وہ ساری زندگی آپ کے ساتھ رہے۔

    اگر اس کی ویکسین دستیاب ہے تو باقاعدگی سے ویکسین استعمال کریں، تاہم احتیاط کرنے سے ہی الرجی اور اس کی وجہ سے پیدا ہونے والے مسائل سے محفوظ رہا جاسکتا ہے۔

  • کیا آپ کینو کے ان فوائد سے آگاہ ہیں؟

    کیا آپ کینو کے ان فوائد سے آگاہ ہیں؟

    موسم سرما کی آمد کے ساتھ ہی جہاں دیگر پھل بازاروں میں فروخت ہوتے ہیں وہیں کینو کی خوشبو بھی فضاء کو معطر کررہی ہوتی ہے، قدرت کا یہ انمول تحفہ وٹامن سی کی دولت سے مالا مال ہے جبکہ اس کے چھلکے میں بھی کئی فوائد پوشیدہ ہوتے ہیں۔

    کینو کا ترش ذائقہ کیلوریز میں کم مگر غذائی اجزاء سے بھرپور ہوتا ہے جبکہ اس میں موجود وٹامنز اسے بہترین پھل بناتا ہے۔

    کینو میں وٹامن سی کی مقدار کافی زیادہ ہوتی ہے، یہ وٹامن جسم میں اینٹی آکسائیڈنٹ کا کام کرتا ہے اور مدافعتی نظام کو مضبوط بناتا ہے جس سے موسمی نزلہ زکام سے بچنے میں مدد ملتی ہے۔

    اسی طرح وٹامن سی سے جِلد کے خلیات کو نقصان دہ مالیکیولز سے تحفظ ملتا ہے جبکہ جھریوں سے بچنے میں بھی مدد ملتی ہے۔

    اس پھل کی چند بہترین خوبیوں میں سے ایک معدے میں اس کا آسانی سے جذب ہونا اور نظام ہاضمہ پر دباﺅ ڈالے بغیر اسے بہتر بنانا ہے، اگر معدہ کمزور ہے یا بدہضمی کا مسئلہ ہے تو ناشتے میں اس پھل کو کھائیں، دن میں دو بار کھانا موثر نتائج میں مدد دے گا۔

    اس پھل میں موجود وٹامن سی جسمانی دفاعی نظام کو بہتر کرتا ہے جو کہ موسمی بیماریوں یا انفیکشن وغیرہ کے خلاف مزاحمت کرتا ہے جبکہ کینسر کا باعث بننے والے فری ریڈیکلز کو بھی کم کرتا ہے۔

    ہالینڈ میں نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ اینڈ انوائرمنٹ نے یورپی کینسر اینڈ نیوٹریشن نے اپنے پروگرام کے دوران 20 سے لیکر 70 سال عمر تک کے افراد کا سروے کیا جس میں ان سے غذا، صحت سے متعلق معلومات حاصل کی گئیں۔

    طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ کینو کے رس کا استعمال فالج کا خطرہ بھی ٹال دیتا ہے اور اسی طرح دیگر تازہ پھلوں کا جوس بھی فالج کے خطرے کو کم کرتا ہے۔

    برٹش جرنل آف نیوٹریشن کے مطابق اگر ایک ہفتے کے دوران 8 گلاس کینو کا جوس نوش کیا جائے تو فالج کا خطرہ 25 فیصد تک کم ہوجاتا ہے۔

    کینو کا رس استعمال کرنے سے دل کی شریانوں کے متاثر ہونے کا خدشہ بھی 12 سے 13 فیصد تک کم ہوجاتا ہے۔

  • کوڈ لیور آئل‘‘ صحت کیلئے کیوں ضروری ہے؟ حیرت انگیز فوائد’’

    کوڈ لیور آئل‘‘ صحت کیلئے کیوں ضروری ہے؟ حیرت انگیز فوائد’’

    ہم میں سے بہت سے لوگ مچھلی کے تیل سے بنے کیپسول سے اچھی طرح واقف ہیں جو اومیگا تھری سے بھرپور ہوتا ہے لیکن کیا آپ کو کوڈ لیور آئل کی خصوصیات اور اس کے فوائد کا علم ہے؟

    اگر نہیں تو زیر نظر مضمون میں ہم آپ کو کوڈ لیور آئل کے بارے میں تفصیلات سے آگاہ کریں گے تاکہ آپ یہ جان سکیں کہ یہ تیل صحت کیلئے کتنا ضروری ہے۔

    کوڈ لیور آئل کیا ہے؟

    کوڈ لیور آئل ایک جگر کا تیل ہے، یعنی اسے مچھلیوں اور سمندری مخلوق کے ایک مخصوص گروپ کے جگر سے حاصل کیا جاتا ہے جو انسانی صحت اور مدافعتی نظام کے لیے ضروری اجزاء کا بھرپور ذریعہ ہے۔

    Capsules

    اس تیل کا عروج پچھلی صدی کے 60 اور 70 کی دہائی میں تھا، تب کوڈ لیور آئل سب سے زیادہ مقبول تھا لیکن آج بھی اس تیل کی شفا بخش خصوصیات کو سراہا جاتا ہے۔

    کوڈ لیور آئل بنیادی طور پر غیر سیر شدہ فیٹی ایسڈز اور وٹامنز کا خزانہ ہے، اس قیمتی تیل میں بہت سارے اومیگا سکس اور اومیگا تھری فیٹی ایسڈ ہوتے ہیں۔

    کوڈ لیور آئل آنکھوں کی بینائی، مدافعتی نظام کے ساتھ ساتھ ہڈیوں اور دانتوں کی نشوونما پر بھی فائدہ مند اثرات مرتب کرتا ہے۔ جگر کے تیل کی ترکیب میں وٹامن ڈی 3 (بچوں کی مناسب نشوونما کے لیے خاص طور پر اہم) اور وٹامن ای کی کچھ مقدار بھی شامل ہوتی ہے، جسے نوجوانوں کا وٹامن بھی کہا جاتا ہے۔

    کوڈ لیور آئل کب اور کیسے لیں؟

    فارمیسی میں، آپ شارک، کوڈ، سیل اور وہیل کے جگر سے حاصل کردہ کوڈ لیور آئل خرید سکتے ہیں۔ مائع کی تیاری اور گولیاں (یا کیپسول) موجود ہیں۔

    مچھلی کا تیل پیکیج پر دی گئی خوراک یا ڈاکٹر کی تجویز کردہ خوراک کے مطابق لینا چاہیے۔ اس کے استعمال کے اشارے کم قوت مدافعت اور وٹامن کی کمی (خاص طور پر وٹامن اے اور ڈی) ہیں۔

    اس کے علاوہ، غیر سیر شدہ فیٹی ایسڈز کے قدرتی ذریعہ کے طور پر جگر کا تیل گردشی نظام پر فائدہ مند اثر رکھتا ہے، بلڈ پریشر کو کم کرتا ہے، اریتھمیا (دل کی خرابی) کو روکتا ہے اور خون کی نالیوں میں خون کے جمنے کی تشکیل کو روکتا ہے۔

    Benefits

    مچھلی کے تیل کے مرہم کو ڈرمیٹالوجی میں استعمال کیا گیا ہے، مچھلی کا تیل رکیٹ، غذائیت کے شکار مریضوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ ساتھ ہی اس جگر کے تیل کے کینسر مخالف اثرات کی بھی اطلاعات ہیں، نیز یہ کہ یہ دائمی طور پر بیمار لوگوں اور بزرگوں میں ڈیمینشیا اور الزائمر کی بیماری کے خطرے کو کم کرنے میں کردار ادا کر سکتا ہے۔

    کیسے استعمال کیا جائے؟

    کوڈ لیور آئل کو روزمرہ خوراک میں شامل کرنا نہایت آسان ہے، یہ مختلف صورتوں میں دستیاب ہوتا ہے لیکن عام طور پر یہ مائع شکل اور کیپسول کی صورت میں دستیاب ہوتا ہے تاہم کوڈ لیور آئل کے استعمال کے لیے کوئی ضابطہ قائم نہیں کیا گیا۔

    کوڈ لیور آئل کی معمول کی خوراک 1-2 چائے کے چمچ تصور کی جاتی ہے لیکن روزانہ ایک چمچ محفوظ مقدار ہے۔ اسے زیادہ استعمال نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اس میں وٹامن اے کی زیادہ مقدار پائی جاتی ہے۔

    اگرچہ کوڈ لیور آئل کے بہت سے طبی فوائد ہیں، تاہم بعض لوگوں کو اس کے استعمال میں احتیاط برتنی چاہیے کیونکہ کوڈ لیور آئل خون کو پتلا کرنے کا کام کر سکتا ہے۔

    بلڈ پریشر یا خون کو پتلا کرنے والی ادویات استعمال کرنے والوں اور حاملہ خواتین کو کوڈ لیور آئل کے استعمال سے پہلے اپنے ڈاکٹر سے لازمی مشورہ کرنا چاہیے۔

  • ایک مٹھی کدو کے بیج اور ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حیرت انگیز فوائد

    ایک مٹھی کدو کے بیج اور ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حیرت انگیز فوائد

    سبزیوں کا استعمال بہت سے امراض سے بچاؤ کیلئے بے حد مفید ہے ان میں ایک کدو بھی ہے جسے نہ صرف گھروں میں پکوان کے طور پر شوق سے بنایا جاتا ہے بلکہ اس کے بیج بھی اپنی جگہ اہمیت کے حامل ہیں۔

    کدو کے بیج متعدد بیماریوں میں مفید ہیں کیونکہ اس میں بہت سارے اینٹی آکسیڈنٹ پائے جاتے ہیں جیسے صحت مند چکنائی اور فائبر وغیرہ، جو آپ کے دل کو صحت مند رکھتا ہے۔

    دوسری جانب کدو کے بیجوں میں مونو سیچوریٹڈ فیٹی ایسڈز بھی پائے جاتے ہیں جو کہ آپ کے جسم سے برے کولیسٹرول کو کم کرنے اور دل و دماغ کو صحت مند رکھنے میں مددگار اور مؤثر ہیں۔

    اس حوالے سے ڈاکٹر ایس ایف جیلانی نے ایک پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ کدو کو ویسے تو سبزیوں میں شمار کیا جاتا ہے لیکن ماہر نباتات کے نزدیک یہ ایک پھل ہے اس کے بیجوں میں اومیگا 6 فیٹی ایسڈز، وٹامن کے، فاسفورس، مینگنیز، میگنیشیم، آئرن، زنک، کاپر، وٹامن بی 2ٹو اور پوٹاشیم جیسی معدنیات موجود ہوتی ہیں۔

    کدو کے بیج

    ان خواص کی وجہ سے کدو کے بیجوں کو عام طور پر کھیر اور لڈو جیسے کئی میٹھے پکوانوں میں بھی ڈال کر کھایا جاتا ہے۔

    معدے کیلئے مفید

    انسانی صحت کے لیے فائبر ایک اہم جز ہے جو معدے کے نظام کو بہتر بنا کر اسے مزید فعال کر دیتا ہے اور آنتوں کی باقاعدہ حرکت کو فروغ دیتا ہے۔

    تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ کدو کے چھلکے میں الکحل میں حل نہ ہونے والے پولی سیکرائڈز موجود ہوتے ہیں جو بائل ایسڈ (معدے کی رطوبت) کو کم کرتے ہیں اور گٹ مائیکرو بائیوٹا کی نشوونما میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔

    مدافعتی نظام کی مضبوطی

    ان میں زنک کی وافر مقدار موجود ہوتی ہے اور اسی کی وجہ سے مدافعتی نظام مضبوط ہوتا ہے۔ ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ خواتین کو صحت مند رہنے کے لئے کم ازکم 8ملی گرام زنک ضرور کھانا چاہیے جبکہ ایک کپ کدو کے بیج کھانے سے آپ کو بآسانی 6.59ملی گرام زنک مہیا ہوگا جو کہ ایک صحت مند زندگی کا آغاز ہوگا۔

    دل پر اثر

    آنکھوں کی صحت کو بہتر بناتا ہے

    آنکھوں کی صحت کے لیے مددگار وٹامن اے، کیروٹینائیڈز، لیوٹین Lutein اور زیکسینتھین zeaxanthin کدو میں بھرپور مقدار میں پائے جاتے ہیں، یہ سب ہی اجزا آنکھوں کی بینائی کو بہتر بناتے ہیں اور بینائی کمزور ہونے کے خطرے کو کم کرتے ہیں۔

    نسخہ بنانے کا طریقہ :

    کدو کے بیجوں کا روزانہ استعمال آپ کی صحت کو بہتر بنا سکتا ہے۔
    ٭ ایک مٹھی کدو کے بیجوں کو اچھی طرح دھو کر خشک کیجیے، ان کو بلینڈر میں ڈالیں، ایک کپ سادہ پانی، آدھا چمچ ادرک کا پسا ہوا پاؤڈر اور ایک چوتھائی چمچ ہلدی ڈال کر اس کا رس تیار کریں۔ اب اس کو چھان کر روزانہ ایک کپ نہارمنہ پی لیں۔

  • سردیوں میں ہم بیمار کیوں ہوتے ہیں؟ ماہرین نے وجہ ڈھونڈ لی

    حال ہی میں کئی گئی ایک تحقیق میں ماہرین کو علم ہوا کہ موسم سرما کے دوران ہمارے مختلف بیماریوں کا شکار ہوجانے کی اصل وجہ ہماری ناک کا دفاعی نظام متحرک ہونا ہے۔

    جرنل آف الرجی اینڈ کلینکل امیونولوجی میں شائع ہونے والی حالیہ امریکی تحقیق میں موسم سرما کی بیماریوں کا ذمہ دار ہماری ناک کو ٹھہرایا گیا ہے۔

    سائنسدانوں کے مطابق 5 سالہ تحقیق میں مشاہدہ کیا گیا ہے کہ ہماری ناک خود کار نظام کے تحت مختلف وائرس اور بیکٹیریاز کا مقابلہ کرنے کے لیے ہر وقت تیار رہتی ہے۔

    یہی وجہ ہے کہ جب کبھی بدلتے موسم میں وبائی امراض اور بیکٹیریا حملہ آور ہوتے ہیں تو ہماری ناک کا خود کار دفاعی نظام متحرک ہوجاتا ہے اور ایک مائع سے بھرا غول جاری کرتا ہے، جس کا مقصد اس وائرس یا بیکٹیریا پر حملہ کرنا اور اسے بے اثر کرنا ہوتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق ہمارا جسم بالکل اسی طرح کام کرتا ہے جیسے کسی جنگ کی صورت میں ہم اپنا دفاع کرتے ہیں، ایسے ہی ہمارا جسم بھی بیکٹریا اور وائرس کے حملے کے نتیجے میں دفاع کرتا ہے۔

    نئی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ ہماری ناک بھی سانس کے ذریعے حملہ کرنے والے کسی بھی وائرس کے حملے کے نتیجے میں ہمارا دفاع کرنے کے لیے سب سے پہلے متحرک ہوجاتی ہے۔

    ماہرین کے مطابق کسی بھی صحت مند انسان کی ناک کا درجہ حرارت تقریباً 23 ڈگری سینٹی گریڈ تک ہوتا ہے جبکہ سرد موسم میں یہ 9 ڈگری تک کم ہوسکتا ہے۔

    ماہرین نے دوران تحقیق کم درجہ حرارت پر ناک کے دفاعی نظام کو جانچنے کے لیے لیبارٹری میں ناک کے خلیوں کے نمونوں کا ٹیسٹ کیا جس کے نتیجے میں معلوم ہوا کہ کم درجہ حرارت پر مدافعتی نظام کمزور پڑجاتا ہے، جس کی وجہ سے سردیوں میں ناک بہنے کا عمل تیز ہوجاتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق سردیوں میں ہماری ناک کا مضبوط اینٹی وائرل مدافعتی نظام کمزور ہوجاتا ہے۔

  • یہ علامات کمزور مدافعتی نظام کی طرف اشارہ کرتی ہیں

    یہ علامات کمزور مدافعتی نظام کی طرف اشارہ کرتی ہیں

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ہمارا مدافعتی نظام جسمانی صحت برقرار رکھنے کے لیے 24 گھنٹے کام کرتا ہے اور یہ حیاتیات اور دیگر ماحولیاتی قوتوں کے حملے سے جسم کو محفوظ رکھتا ہے۔

    اس کے علاوہ مدافعتی نظام جسم کو مختلف متعدی بیماریوں سے بچانے کے لیے اہم کردار ادا کرتا ہے اور اس کی بہتری سے موت کا خطرہ بھی کم ہوتا ہے۔ اس لیے یہ انسانی زندگی کی بقا کے لیے بہت ضروری ہے۔

    لیکن جب مدافعتی نظام کمزور ہوتا ہے تو یہ جسم کو خطرناک بیماریوں سے بچانے کے لیے مؤثر انداز میں کام نہیں کر سکتا۔

    مدافعتی نظام کی کمزوری کی علامات

    اگر آپ کو بار بار نزلہ ہو رہا ہے یا نزلے کی علامات دوبارہ آرہی ہیں تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کا مدافعتی نظام کمزور ہے، سردی اور اس سے پیدا ہونے والا انفیکشن اکثر 7 سے 10 دن میں ٹھیک ہوجاتی ہیں۔

    مدافعتی نظام کی بیماریاں مدافعتی نظام کی سرگرمی کو متاثر کرنے کا سبب بن سکتی ہیں۔

    اگر یہ نظام ضرورت سے زیادہ متحرک ہو تو جسم اپنے ٹشوز کو نقصان پہنچانا شروع کردیتا ہے، جس سے آٹو امیون بیماریاں جنم لیتی ہیں اور یہ بیماریاں جسم کی دیگر بیماریوں کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت کم کرتی ہیں۔

    کمزور مدافعتی نظام بچوں کی کمزور نشوونما کا باعث بنتا ہے، لہٰذا اگر آپ نے محسوس کیا کہ آپ کا بچے کا جسم معمول کے مطابق نہیں بڑھ رہا ہے تو آپ کو ڈاکٹر سے بچے کا معائنہ کروانے کی ضرورت ہے۔

    بعض اوقات نشوونما میں تاخیر ناقص خوراک کی وجہ سے بھی ہوتی ہے، اگر ایسا ہی ہے تو ماہر اطفال آپ کے بچے کے لیے مناسب پروٹین سے بھرپور غذا تجویز کرے گا۔ ان کی غذا میں وٹامن اے، وٹامن سی اور وٹامن بی سمیت تمام ضروری غذائی اجزا شامل ہونے چاہئیں۔

    خون کی کچھ بیماریاں بھی کمزور مدافعتی نظام کی نشاندہی کرتی ہیں جن میں ہیموفیلیا، انیمیا، خون کا جمنا اور خون کا کینسر جیسے لیمفوما، لیوکیمیا، اور مائیلوما شامل ہیں۔

    ہماری جلد جراثیم سے لڑنے میں سب سے پہلی رکاوٹ ہے، اس کی ظاہری شکل سے ظاہر ہوتا ہے کہ جسم کا مدافعتی نظام کس طرح کام کر رہا ہے۔ جلد پر بار بار خارش ہونا یا خشک جلد سوزش کی علامت ہے اور ہو سکتا ہے کہ آپ کا مدافعتی نظام بھی کمزور ہو۔

    اعضا کی سوزش جسم کی قوت مدافعت کو بھی سست کر سکتی ہے جس کی وجہ خلیوں کا انفیکشن، بیکٹیریا، ٹراما یا گرمی ہو سکتی ہے۔ جسم میں کسی قسم کی چوٹ سوزش کا باعث بن سکتی ہے اور یہ کمزور مدافعتی نظام کی علامت ہے۔

    اگر آپ نے محسوس کیا کہ جلد پر آپ کے زخم ٹھیک ہونے میں معمول سے زیادہ وقت لے رہے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ آپ کا مدافعتی نظام کمزور ہے۔ مدافعتی نظام جلد کو شفا بخش اور مؤثر بیکٹیریا یا جراثیم سے لڑنے میں مدد کرتا ہے، جبکہ انفیکشن کا خطرہ کم کرتا ہے۔

    روز مرہ کی زندگی میں سخت محنت کے بعد تھکاوٹ محسوس ہونا معمول ہے، لیکن اگر کافی آرام ملنے کے بعد بھی تھکاوٹ برقرار رہتی ہے تو یہ مدافعتی نظام کی کمزوری کی علامت ہوسکتی ہے۔

  • اومیکرون کن افراد کو زیادہ بیمار کرسکتا ہے؟

    اومیکرون کن افراد کو زیادہ بیمار کرسکتا ہے؟

    کرونا وائرس کی نئی قسم اومیکرون کن افراد کو طبی پیچیدگیوں کا شکار کرسکتی ہے، اس حوالے سے ماہرین نے وضاحت کی ہے۔

    سعودی ویب سائٹ کے مطابق متعدی امراض کے ماہر ڈاکٹر علا العلی نے بتایا ہے کہ کرونا وائرس کی نئی قسم اومیکرون سے متاثرہ افراد کن تکالیف کا شکار ہیں اور کیوں ہیں۔

    ڈاکٹر العلی کا کہنا تھا کہ کمزور مدافعتی نظام والے افراد پر اومیکرون کا حملہ شدید ہوتا ہے، جو افراد کرونا ویکسین کی دونوں خوراکیں لے چکے ہوتے ہیں ان کا مدافعتی نظام ایسے افراد کے مقابلے میں زیادہ مضبوط ہو جاتا ہے جنہوں نے یا تو ویکسین کی کوئی خوراک نہیں لی ہوتی یا مطلوبہ خوراکیں مکمل نہیں کی ہوتیں۔

    انہوں نے کہا کہ کرونا وائرس سے متاثرین کی تعداد میں اضافہ کوئی بڑا مسئلہ نہیں، اصل مسئلہ یہ ہے کہ متاثرین میں سے کتنے ایسے ہیں جو شدید تکلیف کی وجہ سے اسپتال میں علاج کروانے پر مجبور ہوتے ہیں۔

    ڈاکٹر العلی نے کہا کہ بوڑھوں اور لا علاج امراض میں مبتلا افراد کو بوسٹر ڈوز کی ضرورت دیگر افراد کے مقابلے میں زیادہ ہے۔

    انہوں نے کہا کہ بوسٹر ڈوز صرف ان لوگوں کے لیے مناسب نہیں جنہیں ویکسین کی پہلی اور دوسری خوراک کے دوران الرجی کی مشکل پیش آئی ہو۔

    ان کے علاوہ تمام افراد بوسٹر ڈوز لے سکتے ہیں، کسی کو بھی بوسٹر ڈوز لینے سے کوئی مشکل نہیں ہوگی جبکہ بوسٹر ڈوز لینے سے مدافعتی نظام زیادہ مؤثر ہوجائے گا۔

  • کرونا وائرس: "امیون سسٹم” کیوں اہم ہے؟

    کرونا وائرس: "امیون سسٹم” کیوں اہم ہے؟

    ایک صحت مند انسان کا جسم اُن جراثیم سے لڑنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے جو اسے عام بیماریوں میں مبتلا کرسکتے ہیں۔ اسی طرح مختلف مضرِ صحت جراثیم اور طاقت ور وائرس حملہ کرے تو جسم اس کا مقابلہ کرتا ہے۔

    جراثیم کے خلاف ردعمل ظاہر کرنا دراصل ہمارے جسم کے مناعی نظام کی بدولت ممکن ہوتا ہے جسے عام طوپر قوتِ مدافعت کہتے ہیں۔

    قدرتی طور پر جراثیم سے لڑنے کی صلاحیت کا حامل یہ نظام ہمیں طرح طرح کی بیماریوں، انفیکشن اور مختلف اقسام کے وائرس سے بچنے میں مدد دیتا ہے۔

    یوں تو ہمارے ماحول اور جانداروں کے جسم پر ہر وقت طرح طرح کے جراثیم موجود ہوتے ہیں، لیکن یہ جراثیم اور بیکٹریا جب جسم میں داخل ہوجاتے ہیں تو ہم بیمار ہو سکتے ہیں۔

    سانس لینے کے عمل میں سب سے زیادہ جراثیم ناک اور سانس کی نالی کے ذریعے جسم میں داخل ہوتے ہیں۔

    اگر ہمارا مدافعتی نظام کم زور ہو تو جسم نزلہ، کھانسی، بخار میں مبتلا ہوسکتا ہے اور جب یہ نظام کسی خطرناک وائرس کا مقابلہ نہیں کر پاتا تو پیچیدہ اور مہلک بیماریوں کا شکار ہوجاتا ہے۔

    طبی سائنس کے مطابق مدافعتی نظام کو مضبوط بنانے کے لیے چند بنیادی باتوں کا خیال رکھنا چاہیے جو یہ ہیں۔

    ماہرین کے مطابق جسمانی صحت کا نیند سے گہرا تعلق ہے۔ انسانی جسم میں دورانِ نیند قدرتی طور پر ایک ایسا ہارمون پیدا ہوتا ہے، جو مدافعتی نظام کو مضبوط بنانے میں مدد دیتا ہے۔ اچھی اور مکمل نیند اس ہارمون کی افزائش کے لیے ضروری ہے۔

    طبی محققین کا کہنا ہے کہ مضبوط قوتِ مدافعت کے لیے صحت بخش غذا کا استعمال لازمی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ تازہ سبزیاں، پھلوں اور پینے کے لیے صاف پانی کے ساتھ دھوپ بھی قوتِ مدافعت کو مضبوط بناتی ہے۔

    طبی ماہرین کے مطابق نزلہ، کھانسی، بخار وغیرہ اس بات کی علامت ہیں کہ آپ کا مدافعتی نظام کم زور ہورہا ہے اور اگر اس طرف توجہ نہ دی تو جسم کسی طاقت ور مضر بیکٹیریا اور وائرس کا مقابلہ نہیں‌ کرسکے گا۔

    کم عمر افراد یا نوجوانوں کا امیون سسٹم مضبوط یعنی ان میں قوتِ مدافعت زیادہ ہوتی ہے، لیکن جیسے جیسے عمر بڑھتی ہے، جسم کے بیماریوں کے خلاف لڑنے کی یہ صلاحیت کم زور پڑتی جاتی ہے، یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹر کرونا کی وبا میں عمر رسیدہ افراد کو زیادہ احتیاط کرنے اور گھروں میں رہنے کا مشورہ دے ہیں۔

  • وہ غلطیاں‌ جن سے جسم کے مدافعتی نظام کو نقصان پہنچ سکتا ہے

    وہ غلطیاں‌ جن سے جسم کے مدافعتی نظام کو نقصان پہنچ سکتا ہے

    ہمیں توانا، صحت مند رکھنا اور جسم کو مختلف جراثیم کے حملوں سے بچانا ہمارے مدافعتی نظام کا بنیادی کام ہے۔ یہ نظام ہمہ وقت جراثیم اور مختلف قسم کے بیکٹریا سے متصادم رہتا ہے، لیکن عمر کے ساتھ جسم کا مدافعتی نظام کم زور پڑ جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کوئی بھی فرد بڑی عمر میں مختلف طبی پیچیدگیوں‌ اور بیماریوں‌ کا زیادہ تیزی سے شکار ہوتا ہے. عمر رسیدہ افراد موسمی تبدیلیوں‌ کی وجہ سے بھی مختلف امراض کا شکار ہو جاتے ہیں.

    جراثیم ہماری ناک اور سانس کی نالی کے ذریعے ہمارے جسم میں داخل ہوتے ہیں اور بیمار کر دیتے ہیں۔ نزلہ، کھانسی اور بخار کسی بھی فرد کی قوتِ مدافعت کی کم زوری کی علامات میں سے ایک ہیں۔ ماہرینِ طب مدافعتی نظام کو مضبوط بنانے کے لیے چند بنیادی باتوں کا خیال رکھنے اور احتیاط برتنے کا مشورہ دیتے ہیں۔

    نیند سے ہماری جسمانی اور ذہنی صحت کا گہرا تعلق ہوتا ہے۔ رات کو مناسب اور اچھی نیند سے محروم افراد نہ صرف تھکاوٹ کا شکار رہتے ہیں بلکہ نیند کی بے قاعدگی سے دوران خون سے متعلق مختلف امراض اور مٹاپے کا بھی مسئلہ لاحق ہو سکتا ہے۔

    امریکا کے طبی محققین نے اس حوالے سے ریسرچ میں کہا ہے کہ دورانِ نیند جسم قدرتی طور پر ایک ایسا ہارمون پیدا کرتا ہے، جو مدافعتی نظام کو مضبوط بنانے کے لیے ضروری ہے، مگر جب کوئی شخص وقت پر سونے اور پرسکون نیند کا عادی نہ ہو تو اس ہارمون کی افزائش پر برا اثر پڑتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ رات کو اوسطاً سات گھنٹے کی نیند انسان کے لیے ضروری ہے۔ اس کے ساتھ وقت پر نیند لینا صحت پر مثبت اثرات مرتب کرتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق قوتِ مدافعت کی مضبوطی کا صحت بخش غذا اور مناسب خوراک سے بھی گہرا تعلق ہے۔ مختلف وٹامن، مناسب مقدار میں پروٹین اور لحمیات کے علاوہ کیلشیم سے بھرپور غذا جسم کے مدافعتی نظام کو مضبوط بناتی ہے۔

    طبی ماہرین کے مطابق وٹامن ڈی ہمارے امیون سسٹم کو توانا رکھنے کے لیے نہایت ضروری ہے۔ اس سے مختلف جراثیم کا مقابلہ کرنے والے سیلز پیدا ہوتے ہیں۔ وٹامن حاصل کرنے کا ایک قدرتی ذریعہ تازہ ہوا اور سورج کی روشنی ہے۔ طبی ماہرین تازہ سبزیوں، پھلوں اور پینے کا صاف پانی استعمال کرنے زور دیتے ہیں، جو مجموعی جسمانی صحت برقرار رکھتا ہے۔

  • ناک کی جھلی میں سوزش

    ناک کی جھلی میں سوزش

    موسمی تبدیلیاں، فضائی آلودگی یا گردوغبار کی وجہ سے لاحق ہونے والی نزلے کی شکایت سے عموماً چند روز میں نجات مل جاتی ہے، لیکن بعض لوگ نزلے کے دائمی مسئلے کا شکار ہوتے ہیں جسے عام طور پر ‘‘کیرا’’ کہتے ہیں۔

    یہ اصل میں ناک کی جھلی کی سوزش کا مسئلہ ہے جس کی وجہ سے متاثرہ فرد کو مختلف تکالیف اور الجھنوں کا سامنا رہتا ہے۔ کیرا میں مبتلا کوئی بھی شخص اکثر  جسم  میں ہلکے درد، سستی اور  غنودگی کی شکایت کرسکتا ہے۔ اس کے علاوہ سر کا بھاری پن بھی اسے بے چین  رکھتا ہے۔ موسم یا کسی وجہ سے اگر اس طبی کیفیت میں شدت آجائے تو آنکھوں میں سرخی ظاہر ہونے لگتی ہے اور ناک سے رطوبت خارج ہوتی ہے۔

    طبی تحقیق بتاتی ہے کہ  سردی  ہی نہیں تیز دھوپ اور آب و ہوا کی تبدیلی سے بھی نزلے کی شکایت پیدا ہوسکتی ہے۔ اس کے بعد گرد و غبار اور فضا میں موجود مختلف کثافتیں بھی ہمارے نظامِ تنفس کو متاثر کرتی ہیں اور اس کا آغاز نزلے کی صورت میں ہوتا ہے۔ ماہرین کی ایک تحقیق میں کہا گیا ہے کہ ناک کو متأثر کرنے  والا وائرس  اصل میں  سرد ماحول میں پھلتا پھولتا ہے اور اس سے پیدا ہونے والی طبی پیچیدگی کو ہم زکام کہتے ہیں۔

    طبی ماہرین کے مطابق تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ سرد ماحول میں انسان کا مدافعتی نظامکم  زور  پڑ جاتا ہے اور ناک میں داخل ہونے والے وائرس کو پھلنے پھولنے کا موقع مل جاتا ہے۔ تاہم موسمی اثرات کے علاوہ مختلف اشیا کی وجہ سے الرجی کی شکایت بھی نزلے کا باعث بنتی ہے اور یہ دائمی مسئلہ بھی ثابت ہو سکتا ہے۔

    دائمی نزلے میں مبتلا افراد کی آواز بھرائی ہوئی محسوس ہوتی ہے اور انھیں بار بار ناک سے رطوبت صاف کرنا پڑتی ہے۔ اس نزلے کو طبی سائنس نے Chronic Rhinitis کا نام دیا ہے جسے ہم سادہ زبان میں ناک کی جھلی میں سوزش کہہ سکتے ہیں۔

    اس طبی مسئلے کے شکار افراد کو  اکثر بلغم رہتا  ہے اور  چھینکیں آتی ہیں جس کے ساتھ مریض کو ناک میں سرسراہٹ یا خارش محسوس ہونے لگتی ہے۔ ایسے مریض بے چینی سے ناک مسلتے نظر آتے ہیں۔ دائمی نزلے کی وجہ سے متاثرہ  فرد کے بال بھی جھڑنے لگتے ہیں اور کم عمری میں سفید بھی ہوجاتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق اس نزلے کا اثر بینائی اور  یادداشت پر بھی پڑسکتا ہے۔ ایسے مریضوں کو کسی ماہر اور مستند معالج سے سال میں کم از کم دو بار اپنا طبی معائنہ ضرور کروانا چاہیے۔