Tag: مدراس

  • روزنامہ مسلمان: لگ بھگ صدی پرانا اردو اخبار جسے آج بھی کاتب تحریر کرتے ہیں

    روزنامہ مسلمان: لگ بھگ صدی پرانا اردو اخبار جسے آج بھی کاتب تحریر کرتے ہیں

    "مسلمان” کی خاص بات تو 1927 سے اس کی بلاناغہ اشاعت ہے اور انفرادیت یہ کہ آج بھی یہ اخبار کتابت کے عمل سے گزر کر قارئین تک پہنچتا ہے۔

    موجودہ دور میں جب تحریر اور اخبار کی تزئین کے لیے اردو سافٹ ویئرز آسانی سے دست یاب ہیں تب بھی بھارتی شہر چنائے کا یہ روزنامہ دہائیوں قبل پرانے تحریر و اشاعت کے طریقے کو اپنائے ہوئے ہے۔

    تقسیمِ ہند کے موقع اور اس کے نتیجے میں جوانب سے عظیم ہجرت بھی اس اخبار کی اشاعت پر اثر انداز نہ ہوسکی اور آج بھی روزنامہ مسلمان چنائے میں اردو بولنے اور سمجھنے والے مسلمانوں کے گھروں میں پڑھا جاتا ہے۔

    چنائے جو بھارتی ریاست تامل ناڈو کا شہر ہے کبھی مدراس کے نام سے جانا جاتا تھا۔ یہاں کی زبان تامل ہے جو یوں تو وہاں کے سبھی باسی بولتے اور سمجھتے ہیں، مگر مسلمانوں کا ایک گروہ اردو کا شیدائی اور اسے اپنی مذہبی اور ثقافتی شناخت تصور کرتا ہے۔ اردو رسمُ الخط سے واقف عمر رسیدہ ہندو بھی اگر ہاتھ لگے تو یہ اخبار پڑھ ہی لیتے ہیں۔

    سید عظمتُ اللہ نے 1927 میں اس روزنامے کا اجرا کیا تھا جن کی وفات کے بعد ان کے بیٹے فیضُ اللہ نے اس کی ادارت سنبھالی اور ان کے انتقال کے بعد سید عارفُ اللہ چیف ایڈیٹر ہیں۔ اخبار کے ناشر سید فضل اللہ ہیں۔

    یہ اخبار چنائے اور قرب و جوار کے مسلمانوں کی ترجمانی کرتا ہے۔ چار صفحات پر مشتمل اس اخبار کو کاتب تحریر کرتے ہیں، اخبار کی ضرورت کے لیے کمپیوٹر کا استعمال بہت محدود ہے۔ تاہم کمپیوٹر دفتری امور اور دیگر کاموں کے لیے عام استعمال ہوتا ہے۔ روشنائی اور مختلف قلم اس اخباری دفتر کی میز پر نظر آتے ہیں جو دیگر اخبارات میں‌ نہیں‌ دیکھے جاتے۔

    یہ بات بھی اہمیت رکھتی ہے کہ یہ اخبار ایک صدی پوری کرنے جارہا ہے۔ چند سال بعد یہ اپنی اشاعت کے سو برس پورے کر لے گا۔

    چنائے کے مسلمانوں کی بڑی آبادی گھروں میں اردو بولتی ہے اور اسے اپنی مادری زبان کا درجہ دیتی ہے۔

  • اردو زبان مسلمانوں‌ میں‌ اختلافات اور دوریوں‌ کی وجہ؟

    اردو زبان مسلمانوں‌ میں‌ اختلافات اور دوریوں‌ کی وجہ؟

    بھارتی ریاست تامل ناڈو کا شہر چنائے کبھی مدراس کے نام سے جانا جاتا تھا۔

    یہاں کی زبان تامل یا تمل ہے جو یوں‌ تو سبھی بولتے اور سمجھتے ہیں، مگر چند مقامی زبانیں‌ یا بولیاں بھی لوگوں میں رابطے کا ذریعہ ہیں۔ تامل ناڈو ریاست کے مختلف شہر اپنی مخصوص ثقافت کی وجہ سے الگ پہچان رکھتے ہیں۔

    مدراس یعنی چنائے کی بات کی جائے تو یہ شہر ہمیشہ اہمیت کا حامل رہا ہے۔ ہندوؤں کے ساتھ ساتھ یہاں کی بیش تَر مسلم آبادی بھی مقامی ثقافت میں رنگی ہوئی ہے اور ایک لحاظ سے متنوع ہے۔ تاہم زبان کے فرق نے چنائے کے مسلمانوں کو ایک دوسرے سے دور کر دیا ہے۔

    مسلمانوں کا ایک گروہ وہ ہے جو اردو کو مادری زبان مانتا ہے اور ان کے لیے یہ زبان تہذیبی اور مذہبی شناخت کا اہم ذریعہ ہے جب کہ ریاست کے اندرونی اور ساحلی علاقوں کے مسلمان خاندانوں کا اردو سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ تامل بولتے اور ہر معاملے میں اسی زبان اور مقامی بولیوں کو اہمیت دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک مسئلہ زبان نہیں ہے بلکہ وہ ثقافت ہے جسے وہ اس خطے کی اساس اور پہچان سمجھتے ہیں۔

    تامل ناڈو میں بہت تجزیہ نگار اور دانش وَر بھی اردو بولنے والوں پر تنقید کرتے ہیں اور انھیں سیاسی یتیم کہا جاتا ہے ۔ ان کی نظر میں اردو کو اپنی مذہبی شناخت اور ثقافت کے لیے ناگزیر سمجھنا ایک پسماندہ سوچ ہے۔

    حقیقت یہ ہے کہ تامل ناڈو اور چنائے جیسے بڑے شہر میں اردو بولنے والے مسلمان تعلیمی اور اقتصادی اعتبار سے بھی پسماندگی کا شکار ہیں۔ ان کی معاشی حالت بھی اچھی نہیں اور ان میں سے بیش تَر تجارت اور معمولی کاروبار کرتے ہیں۔ یہ اپنے مذہب اور اردو زبان کی بنیاد پر اپنے رہن سہن اور ثقافت کا تعین کرتے ہیں۔

    دوسری جانب تامل بولنے والے مسلمانوں اور اردو بولنے والے مسلمانوں کے درمیان عام معاملات میں کھنچاو اور ایک قسم کی دوری نظر آتی ہے اور بعض علاقوں میں تو ان کے سماجی روابط برائے نام ہیں۔

    اردو اور تامل بولنے اور مخصوص ثقافت کے حامی ان مسلمان خاندانوں میں سماجی خلیج نے انھیں آپس میں شادی بیاہ کرنے سے بھی دور رکھا ہوا ہے۔ یہ آپس میں‌ کسی قسم کے مراسم اور تعلقات استوار نہیں‌ کرنا چاہتے بلکہ تامل زبان بولنے والے جانتے ہیں کہ اردو بولنے والے مسلمان انھیں اچھا اور مکمل مسلمان ہی نہیں مانتے اور یہ بات بڑی حد تک درست بھی ہے۔