Tag: مدن موہن

  • مدن موہن: فلمی موسیقی کا بادشاہ

    مدن موہن: فلمی موسیقی کا بادشاہ

    مدن موہن ہندوستان میں‌ فلمی موسیقی کی دنیا کا ایک ایسا نام ہے جن کے ہر گیت بے مثال اور یادگار ثابت ہوا۔ مدن موہن کو بولی وڈ کا بہترین موسیقار کہا جاتا ہے اور مشہور ہے کہ نوشاد جیسے عظیم بھارتی موسیقار ایک نغمے’’آپ کی نظروں نے سمجھا پیار کے قابل مجھے‘‘ سے بہت متاثر ہوئے اور مدن موہن کو کہا کہ وہ ان کی اس دھن کے بدلے میں اپنی تمام ریاضت ان کے نام کرسکتے ہیں۔

    موسیقار مدن موہن 1975ء میں آج ہی کے دن چل بسے تھے۔ مدن موہن کی پیدائش عراق کی تھی جہاں ان کے والد مقیم تھے۔ 25 جون 1924ء کو اس دنیا میں آنکھ کھولنے والے مدن موہن کے والد عراق سے سرکاری ملازمت چھوڑ کر ہندوستان آگئے، لیکن یہاں بھی کاروباری مصروفیات کی وجہ سے ممبئی جانا پڑا اور مدن موہن چکوال میں اپنے دادا کے گھر رہے۔ چکوال کے موتی بازار میں مدن موہن کے دادا کا بڑا گھر تھا۔ وہ اپنے وقت کے ایک جانے مانے حکیم تھے۔ ان کی وجہ سے یہ گھر علاقے میں یوگ آشرم مشہور ہوگیا تھا۔ مدن موہن کے والد چنی لال کے ممبئی چلے جانے کے بعد مدن موہن نے یہیں پروش پائی اور لاہور میں‌ ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے دوران کلاسیکی موسیقی کی تھوڑی بہت تربیت حاصل کی۔ لیکن باقاعدہ یہ فن کسی سے نہیں‌ سیکھا۔ کہتے ہیں کہ مدن موہن کی والدہ شاعری اور موسیقی کا عمدہ ذوق رکھتی تھیں اور مدن موہن کو بھی انہی کو دیکھ کر یہ شوق ہوا تھا۔پھر یہ گھرانا ممبئی منتقل ہوگیا اور وہاں‌ مدن موہن نے سینٹ میری اسکول میں داخلہ لیا۔ یہیں مدن موہن ریڈیو پر موسیقی اور بچّوں‌ کے پروگراموں میں‌ جانے لگے اور ان کا فنِ موسیقی کا شوق صحیح معنوں میں‌ پروان چڑھا۔ ممبئی شہر اپنی فلمی صنعت اور نگار خانوں کے لیے شہرت رکھتا تھا اور اس زمانے میں وہاں‌ فلم ساز، اداکار اور بڑے بڑے موسیقار مصروف نظر آتے تھے۔ ریڈیو پر بھی کئی بڑے گلوکار اور موسیقار اپنے فن کا مظاہرہ کرتے تھے، لیکن ابھی وہ وقت نہیں آیا تھا کہ مدن موہن یہاں اپنا شوق پورا کرتے۔ انھیں برٹش آرمی میں کمیشن مل گیا لیکن دوسری جنگِ‌ عظیم کے بعد وہ نوکری چھوڑ کر ریڈیو سے پروگرام اسسٹنٹ کے طور پر منسلک ہوگئے۔ وہ اپنے موسیقی کے شوق کی تکمیل اور اس فن میں اپنی صلاحیتوں‌ کا اظہار کرنا چاہتے تھے۔

    آل انڈیا ریڈیو پر ان کی شناسائی جن عظیم موسیقاروں اور بڑے گلوکاروں سے ہوئی ان میں استاد فیاض علی، استاد علی اکبر خان، بیگم اختر، طلعت محمود کے نام شامل ہیں مدن موہن گلوکاری کے بڑے شوقین تھے اور چند مشہور شعرا کا کلام گانے کے بعد انھوں نے بطور موسیقار فلم انڈسٹری کے لیے کام شروع کردیا۔ 1948ء میں انھوں نے فلم شہید کے لیے گانا ریکارڈ کروایا جو بہت مقبول ہوا اور اس کے بعد ایک فلم بطور معاون موسیقار کی۔

    بالی وڈ میں‌ مدن موہن کو پہلی قابلِ ذکر کام یابی 1950ء میں ملی جب انھوں نے فلم "آنکھیں” کی موسیقی ترتیب دی۔ اس فلم نے انھیں انڈسٹری میں نام دیا۔ اس زمانے میں لتا اور محمد رفیع جیسے گلوکاروں کا ہر طرف شہرہ تھا اور مذکورہ فلم کا گیت "ہم عشق میں برباد رہیں گے” بہت مقبول ہوا جسے محمد رفیع نے گایا تھا۔ مدن موہن کی اگلی کام یاب فلم "ادا” تھی جس میں لتا منگیشکر نے ان کی ترتیب دی ہوئی دھنوں پر نغمات ریکارڈ کروائے۔

    فلمی موسیقار کی حیثیت سے مدن موہن نے کئی یادگار دھنیں تخلیق کیں جنھیں آج بھی ذوق و شوق سے سنا جاتا ہے۔ موسیقار مدن موہن چار مرتبہ فلم فیئر ایوارڈ کے لیے نام زد ہوئے اور بعد از مرگ انھیں "آئیفا ایوارڈ” سے نوازا گیا۔ پچاس کے اواخر میں‌ اپنی کام یابیوں کا آغاز کرنے والے مدن موہن نے اگلی تین دہائیوں میں بطور موسیقار اپنا عروج دیکھا۔

    مدن موہن کے چند مشہور اور یادگار فلمی گیتوں میں‌ نیناں برسیں رِم جھم رم جھم…، آپ کی نظروں نے سمجھا پیار کے قابل کے مجھے، لگ جا گلے کہ پھر یہ حسین رات ہو نہ ہو…، وہ بھولی داستاں لو پھر یاد آگئی، یوں حسرتوں کے داغ جگر میں سمو لیے شامل ہیں۔

  • مدن موہن: ایک عظیم موسیقار

    مدن موہن: ایک عظیم موسیقار

    مدن موہن کو برصغیر میں ایک ایسے موسیقار کی حیثیت سے شہرت ملی جن کا ہر گیت یادگار ثابت ہوا اور انھوں نے اپنے فنی سفر میں‌ بڑا نام و مرتبہ پایا۔ وہ بالی وڈ کے عظیم موسیقار کہلائے۔ فلمی موسیقی کے حوالے سے آج بھی ان کا نام بڑے احترام سے لیا جاتا ہے۔ مدن موہن 1975ء میں آج ہی کے دن چل بسے تھے۔

    مدن موہن کا وطن عراق تھا جہاں انھوں نے 25 جون 1924ء کو آنکھ کھولی۔ ان کے والد یہاں‌ سرکاری ملازمت کے سلسلے میں‌ مقیم تھے۔ وہ عراق میں‌ ایک محکمہ میں اکاؤنٹنٹ جنرل کی حیثیت سے کام کررہے تھے۔ ان کا نام رائے بہادر چنی لال کوہلی تھا۔ وہ اپنی ملازمت چھوڑ کر آبائی شہر چکوال آگئے جو اب پاکستان کا حصّہ ہے۔ چکوال کے موتی بازار میں مدن موہن کے دادا کا بڑا گھر تھا اور کہتے ہیں‌ کہ وہ اپنے وقت کے ایک جانے مانے حکیم تھے۔ ان کی وجہ سے یہ گھر علاقے میں یوگ آشرم مشہور ہوگیا تھا۔ چنی لال آبائی علاقے میں لوٹنے کے کچھ عرصہ بعد کاروبار کی غرض سے ممبئی چلے گئےاور مدن موہن کو چکوال میں‌ ان کے دادا کے پاس چھوڑ دیا۔ مدن موہن نے لاہور میں‌ ابتدائی تعلیم حاصل کرتے ہوئے کلاسیکی موسیقی کی تھوڑی بہت تربیت بھی حاصل کی۔ لیکن باقاعدہ یہ فن کسی سے نہیں‌ سیکھا۔ پھر یہ گھرانا ممبئی منتقل ہوگیا اور وہاں‌ مدن موہن نے سینٹ میری اسکول میں داخلہ لیا۔ اس کے ساتھ وہ ریڈیو پر موسیقی اور بچّوں‌ کے پروگراموں میں‌ جانے لگے اور وہیں ان کا فنِ موسیقی کا شوق صحیح معنوں میں‌ پروان چڑھا۔ ممبئی شہر اپنی فلمی صنعت اور نگار خانوں کے لیے شہرت رکھتا تھا اور اس زمانے میں وہاں‌ فلم ساز، اداکار اور بڑے بڑے موسیقار مصروف نظر آتے تھے۔ ریڈیو پر بھی کئی بڑے گلوکار اور موسیقار اپنے فن کا مظاہرہ کرتے تھے، لیکن ابھی وہ وقت نہیں آیا تھا کہ مدن موہن یہاں اپنا شوق پورا کرتے۔ انھیں برٹش آرمی میں کمیشن مل گیا لیکن دوسری جنگِ‌ عظیم کے بعد وہ نوکری چھوڑ کر ریڈیو سے پروگرام اسسٹنٹ کے طور پر منسلک ہوگئے۔ وہ اپنے موسیقی کے شوق کی تکمیل اور اس فن میں اپنی صلاحیتوں‌ کا اظہار کرنا چاہتے تھے۔ کہتے ہیں کہ مدن موہن کی والدہ شاعری اور موسیقی کا عمدہ ذوق رکھتی تھیں اور مدن موہن کو بھی انہی کو دیکھ کر یہ شوق ہوا تھا۔

    آل انڈیا ریڈیو پر ان کی شناسائی جن عظیم موسیقاروں اور بڑے گلوکاروں سے ہوئی ان میں استاد فیاض علی، استاد علی اکبر خان، بیگم اختر، طلعت محمود کے نام شامل ہیں مدن موہن گلوکاری کے بڑے شوقین تھے اور چند مشہور شعرا کا کلام گانے کے بعد انھوں نے بطور موسیقار فلم انڈسٹری کے لیے کام شروع کردیا۔ 1948ء میں انھوں نے فلم شہید کے لیے گانا ریکارڈ کروایا جو بہت مقبول ہوا اور اس کے بعد ایک فلم بطور معاون موسیقار کی۔

    بالی وڈ میں‌ مدن موہن کو پہلی قابلِ ذکر کام یابی 1950ء میں ملی جب انھوں نے فلم "آنکھیں” کی موسیقی ترتیب دی۔ اس فلم نے انھیں انڈسٹری میں نام دیا۔ اس زمانے میں لتا اور محمد رفیع جیسے گلوکاروں کا ہر طرف شہرہ تھا اور مذکورہ فلم کا گیت "ہم عشق میں برباد رہیں گے” بہت مقبول ہوا جسے محمد رفیع نے گایا تھا۔ مدن موہن کی اگلی کام یاب فلم "ادا” تھی جس میں لتا منگیشکر نے ان کی ترتیب دی ہوئی دھنوں پر نغمات ریکارڈ کروائے۔

    فلم کے موسیقار کی حیثیت سے مدن موہن نے کئی یادگار دھنیں تخلیق کیں جنھیں آج بھی ذوق و شوق سے سنا جاتا ہے۔ موسیقار مدن موہن چار مرتبہ فلم فیئر ایوارڈ کے لیے نام زد ہوئے اور بعد از مرگ انھیں "آئیفا ایوارڈ” سے نوازا گیا۔ پچاس کے اواخر میں‌ اپنی کام یابیوں کا آغاز کرنے والے مدن موہن نے اگلی تین دہائیوں میں بطور موسیقار اپنا عروج دیکھا۔

    یہ وہ چند یادگار فلمی گیت ہیں جن کی موسیقی مدن موہن نے ترتیب دی تھی۔

    نیناں برسیں رِم جھم رم جھم…
    آپ کی نظروں نے سمجھا پیار کے قابل کے مجھے
    لگ جا گلے کہ پھر یہ حسین رات ہو نہ ہو…
    وہ بھولی داستاں لو پھر یاد آگئی
    یوں حسرتوں کے داغ جگر میں سمو لیے…

  • یومِ وفات: فلمی موسیقی سے شائقین کے دل موہ لینے والے مدن موہن کا تذکرہ

    یومِ وفات: فلمی موسیقی سے شائقین کے دل موہ لینے والے مدن موہن کا تذکرہ

    بالی وڈ میں مدن موہن کا سفر تین دہائیوں پر محیط رہا جس میں انھوں نے کئی مدھر دھنیں‌ ترتیب دیں، اور اپنے فن کی بدولت کئی فلمی گیتوں کو لازوال بنا دیا۔ مدن موہن نے 1975ء میں آج ہی کے دن دنیا سے کوچ کیا تھا۔

    بالی وڈ کو مدھر دھنیں دینے والے مدن موہن کا وطن عراق تھا جہاں انھوں نے 25 جون 1924ء کو آنکھ کھولی اور بعد میں اپنے آبائی شہر چکوال چلے آئے۔ کچھ عرصہ یہاں رہ کر ممبئی چلے گئے اور برٹش آرمی میں کمیشن حاصل کرلیا، لیکن جلد ہی نوکری چھوڑ دی اور آل انڈیا ریڈیو سے وابستہ ہوگئے۔ یہاں بھی زیادہ عرصہ کام نہ کیا اور بالی وڈ فلم انڈسٹری سے منسلک ہو گئے۔

    بالی وڈ میں‌ انھوں نے پہلی قابلِ ذکر کام یابی 1950ء میں حاصل کی اور فلم "آنکھیں” کی موسیقی ترتیب دے کر فلم سازوں کو اپنی جانب متوجہ کیا۔ اس وقت برصغیر میں لتا اور محمد رفیع جیسے گلوکاروں کا شہرہ تھا اور مذکورہ فلم کا گیت "ہم عشق میں برباد رہیں گے” محمد رفیع کی آواز میں بہت مقبول ہوا۔ ان کی اگلی فلم "ادا” تھی جس میں لتا منگیشکر نے مدن موہن کی موسیقی میں نغمات ریکارڈ کروائے۔

    مدہن موہن نے فلمی موسیقار کی حیثیت سے اپنے کیریئر کے کئی یادگار دھنیں تخلیق کیں اور ان میں سے اکثر لازوال ثابت ہوئیں۔ آج بھی ان کی ترتیب دی ہوئی موسیقی میں گیت سننے والوں کو مسحور کردیتے ہیں۔

    مدن موہن کو چار مرتبہ فلم فیئر ایوارڈ کے لیے نام زد کیا گیا، اور بعد ازمرگ "آئیفا ایوارڈ” سے بھی نوازا گیا۔

    یہ چند یادگار فلمی گیت جن کی موسیقی مدن موہن نے ترتیب دی تھی۔

    نیناں برسیں رِم جھم رم جھم…
    آپ کی نظروں نے سمجھا پیار کے قابل کے مجھے
    لگ جا گلے کہ پھر یہ حسین رات ہو نہ ہو…
    وہ بھولی داستاں لو پھر یاد آگئی
    یوں حسرتوں کے داغ جگر میں سمو لیے…