Tag: مدھو بالا

  • مدھو بالا:‌ روپ کی رانی جو عین جوانی میں زندگی سے محروم ہوگئی

    مدھو بالا:‌ روپ کی رانی جو عین جوانی میں زندگی سے محروم ہوگئی

    مدھو بالا نے فلم ‘مغلِ اعظم’ میں ‘انار کلی’ کا کردار قبول کر کے شہرت اور مقبولیت کے ہفت آسمان گویا راتوں رات طے کر لیے۔ حسین اور دل کش سراپے کی مالک مدھو بالا ہندوستانی سنیما پر چھا گئیں اور انھیں ‘وینس آف انڈین سنیما’ کہا جانے لگا۔ آج اداکارہ مدھو بالا کی برسی ہے۔‌

    تاریخ کے اوراق الٹیں‌ تو مغلیہ دور کی ایک کنیز انار کلی کے بارے میں مشہور ہے کہ اسے بادشاہ کے حکم پر دیوار میں‌ زندہ چنوا دیا گیا تھا۔‌ فلم میں‌ یہ کردار اداکارہ شہناز، نرگس اور نوتن کو آفر ہوا تھا، لیکن ان کی قسمت میں ‘انار کلی’ بننا نہیں لکھا تھا اور یوں لازوال شہرت اداکارہ مدھو بالا کا مقدر بنی۔‌

    فلمی دنیا کی مدھو بالا کا اصل نام ممتاز تھا۔ اسی نام سے وہ پہلی مرتبہ بڑے پردے پر فلم ‘بسنت’ میں نظر آئی تھیں۔ یہ 1942ء کی بات ہے۔ مشہور ہے کہ اسی دور کی ایک معروف اداکارہ دیویکا رانی کے کہنے پر ممتاز نے فلمی پردے کے لیے اپنا نام مدھو بالا رکھا تھا۔ فلمساز اور ہدایت کار کیدار شرما نے 1947ء میں انھیں اپنی پہلی فلم نیل کمل میں بطور ہیروئن سائن کیا تھا۔ اس وقت مدھو بالا کی عمر صرف تیرہ سال تھی۔ بعد میں وہ سب سے زیادہ معاوضہ لینے والی اداکارہ بنیں اور پھر مغلِ اعظم میں لاجواب اداکاری کے ساتھ ان کے حسن وجمال کا بھی ہر طرف چرچا ہونے لگا۔ یہاں یہ بات قابلِ‌ ذکر ہے کہ مغلِ اعظم کی عکس بندی کے دوران مدھو بالا بیمار تھیں، لیکن انھوں نے شوٹنگ جاری رکھی۔ ہندوستانی سنیما میں یہ فلم آج بھی ایک کلاسک کا درجہ رکھتی ہے۔ اس کنیز کا کردار نبھانے کے لیے مدھو بالا کا رنگ روپ، بانکپن، تمکنت اور دل کش لب و لہجہ فلم ساز کو بہت موزوں نظر آیا تھا اور واقعتاً مدھو بالا کے. آصف کی توقعات پر پورا اتریں اور بیماری کے باوجود اپنا کردار بہت عمدگی سے نبھایا۔

    لاکھوں دلوں‌ کی دھڑکن اور روپ کی رانی مدھو بالا نے عمر بہت تھوڑی پائی۔ وہ صرف 36 زندہ رہ سکیں اور اس عرصہ میں بھی 9 سال وہ تھے جب مدھو بالا بیماری کی وجہ سے اپنے گھر میں بستر تک محدود تھیں۔ مدھو بالا کے دل میں سوراخ تھا اور معالجین کا کہنا تھا کہ انھیں زیادہ سے زیادہ آرام کرنا ہوگا۔ 14 فروری کو دہلی میں پیدا ہونے والی ممتاز کے والدین کو ڈاکٹروں نے کہا تھاکہ اس کے آرام کا خاص خیال رکھنا ہوگا، ان کی بیٹی بہت زیادہ کام نہیں‌ کرسکتی اور عام آدمی کی طرح‌ مسلسل جسمانی سرگرمی اس کے لیے مسئلہ بن سکتی ہے۔

    ممتاز جس کنبے کی فرد تھی وہ والدین اور گیارہ بہن بھائیوں پر مشتمل تھا۔ ممتاز کے والد عطاء اللہ لاہور میں ایک ٹوبیکو کمپنی کے ملازم تھے، جو نوکری چھوڑ کر دہلی منتقل ہوگئے اور اپنی بیٹی ممتاز کو چھوٹی عمر میں‌ فلم نگری میں‌ کام دلوانے میں کام یاب رہے۔ بمبئی میں‌ مقیم ممتاز کو آرام کرنے کا موقع کم ملتا تھا۔ وہ مسلسل شوٹنگ کی وجہ سے اکثر تھکن محسوس کرتی تھیں۔ لیکن عطاء اللہ کو بیٹی کی صحت سے زیادہ اس کی کمائی سے غرض تھی۔ ممتاز بڑی ہورہی تھی اور فلم کی دنیا میں اس کے حسن کا جادو چل چکا تھا اور پھر وہ وقت آیا جب عطاء اللہ کے گھر گویا ہن برسنے لگا۔

    دیکھا جائے تو مدھو بالا کے فلمی سفر کا آغاز، اپنے حسن اور دل کش سراپے کی بدولت فلم سازوں‌ کی نظر میں آنا اور پھر کام یابیاں‌ سمیٹتے چلے جانا ایک قابلِ‌ ذکر کہانی ہے، لیکن اس کا الم ناک پہلو مدھو بالا کی بیماری، فلمی دنیا میں عشق اور شادی کے بعد بھی رنج و آلام اور روح پر لگنے والے زخم ہیں، جن کے بعد وہ تیزی سے موت کی طرف بڑھ گئی۔ مدھو بالا 1969ء میں‌ آج ہی کے دن دنیا سے رخصت ہوگئی تھیں۔ ان کی زندگی کے آخری ایّام آنسو بہاتے ہوئے گزرے۔

    اداکارہ مدھو بالا اور دلیپ کمار کے عشق کی داستان بھی فلمی دنیا میں بہت مشہور ہوئی تھی۔ کہتے ہیں کہ ایک وقت آیا جب یوسف خان المعروف دلیپ کمار اداکارہ پر نکاح کے لیے دباؤ ڈالنے لگے، لیکن مدھو بالا اپنے باپ کے خوف سے ایسا کوئی قدم اٹھانے کو فی الوقت تیّار نہ تھی۔ مدھو بالا کو کچھ وقت چاہیے تھا، لیکن دلیپ نہ مانے اور مدھو بالا سے ناتا توڑ لیا۔ دلیپ کمار سے مایوس، گھر کے حالات، اپنے والد کی لالچی اور خود غرضانہ طبیعت اور اپنی بیماری سے پریشان مدھو بالا نے یہ سوچ کر اس وقت کشور کمار کا ہاتھ تھام لیا کہ وہ اسے زندگی کی طرف لوٹا سکے گا۔ 1960 میں ان کی شادی ہوئی۔ لیکن گلوکار کشور کمار بھی مدھو بالا کو خوشیاں نہ دے سکے۔ انھیں مدھو بالا کی بیماری کا علم تو تھا لیکن وہ یہ نہیں سمجھ سکے تھے کہ بیماری کس حد تک ان کی نوبیاہتا کو متاثر کرچکی ہے۔ بہرحال، وہ اپنی بیوی کو علاج کے لیے لندن لے گئے، لیکن ڈاکٹروں نے کہہ دیا کہ وہ چند سال ہی زندہ رہ سکیں‌ گی۔ کشور کمار نے ایک بیمار عورت کے ساتھ زندگی گزارنے کے بجائے اپنی ذات اور سکون کو ترجیح دی اور مدھو بالا کو اس کے والدین کے گھر چھوڑ دیا۔ وہ دو، تین ماہ میں ایک بار اپنی بیوی کی خیریت دریافت کرنے چلے آتے تھے۔ کشور کمار کے اس سلوک نے شکستہ دل مدھو بالا کو مزید ہلکان کردیا۔ پرستار لاکھوں، آگے پیچھے پھرنے والے ہزاروں، فلم انڈسٹری اور باہر کی دنیا میں ہر ایک مدھو بالا کے حسن و جمال اور ان کے فنِ اداکاری کا قائل تھا، مگر مدھو بالا کو حقیقی خوشیاں اور سکھ نصیب نہ ہوسکا۔

    فلم انڈسٹری کی معروف شخصیت کمال امروہوی بھی عاشق مزاج اور حُسن پرست مشہور تھے جن کی مدھو بالا سے پہلی ملاقات کا ایک واقعہ انیس امروہوی نے یوں بیان کیا ہے۔

    ایک بار ایک دوست نے کمال امروہی کو کھانے پر مدعو کیا جہاں ممتاز نام کی ایک خوب صورت لڑکی سے اُن کی ملاقات ہوئی۔ کھانے کی میز پر وہ لڑکی کمال امروہی کے بالکل سامنے بیٹھی تھی۔ جب وہ کسی کام سے میز سے اُٹھ کر گئی تو کمال صاحب نے اپنے دوست سے دریافت کیا کہ کیا یہ لڑکی فلموں میں کام کرنا چاہتی ہے؟

    اُن دنوں کمال صاحب کو فلم ’محل‘ کے لیے ہیروئن کی تلاش تھی۔ دوست نے بتایا کہ ممتاز کئی فلموں میں کام کر چکی ہے اور اس دعوت کا مقصد بھی یہی تھا کہ ممتاز (مدھو بالا کا اصلی نام) کو آپ سے ملوایا جائے۔ اس طرح چھوٹی فلموں کی اداکارہ ممتاز بڑی فلم ’محل‘ کی ہیروئن مدھوبالا بنی۔

    اداکارہ مدھو بالا نے 66 فلموں میں کردار ادا کیے۔ ان کی مشہور فلموں میں دلاری، دولت، اپرادھی، نادان، ساقی، سنگدل، امر، نقاب، پھاگن، کلپنی، بارات کی رات، مغلِ اعظم، شرابی اور جوالا سرِ فہرست ہیں۔ کہتے ہیں کہ بولی وڈ میں ذاتی محافظ رکھنے کا آغاز مدھو بالا نے کیا تھا۔ اداکارہ کی آخری آرام گاہ ممبئی میں ہے۔

  • مدھو بالا کی چڑیا گھر سے منتقلی کی تاریخ کا اعلان کب کیا جائے گا؟

    مدھو بالا کی چڑیا گھر سے منتقلی کی تاریخ کا اعلان کب کیا جائے گا؟

    کراچی: مدھو بالا ہتھنی کی چڑیا گھر سے منتقلی کے سلسلے میں فور پاز کے ماہرین پھر سفاری پارک پہنچ گئے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق مدھو بالا ہتھنی کی چڑیا گھر سے سفاری پارک منتقلی کے سلسلے میں جانوروں کی عالمی تنظیم فور پاز کے ماہرین سفاری پارک پہنچ گئے، جہاں ہتھنی کے لیے قدرتی ماحول کی طرح جگہ تیار کی جا رہی ہے۔

    فور پاز کے ماہرین نے جگہ کا تفصیلی معائنہ کیا، یہاں مالیکا اور سونیا نامی ہتھنیاں پہلے ہی موجود ہیں، اور مدھو بالا کی چڑیا گھر سے منتقلی کی تاریخ کا اعلان کچھ روز بعد کیا جائے گا۔

    ہتھنی کی منتقلی کے لیے ڈاکٹر عامر خلیل تمام معاملات کی نگرانی کر رہے ہیں، عالمی تنظیم فور پاز کے ڈاکٹر عامر خلیل نے بتایا کہ ان کا مقصد مدھو بالا کو قدرتی ماحول کی فراہمی کو یقینی بنانا ہے، اس سلسلے میں سفاری پارک میں کام آخری مرحلے میں ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ نومبر کے اوائل میں ہتھنی کو چڑیا گھر سے سفاری پارک منتقل کر دیا جائے گا، ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ مدھو بالا کی صحت اچھی ہے، اور وہ سونیا اور مالیکا نامی ہتھنیوں کے ساتھ آسانی سے گھل مل جائے گی۔

  • مدھو بالا: عارضۂ قلب کے ساتھ اداکارہ کو عشق کا روگ بھی لگ گیا تھا!

    مدھو بالا: عارضۂ قلب کے ساتھ اداکارہ کو عشق کا روگ بھی لگ گیا تھا!

    شہناز، نرگس اور نوتن کی قسمت میں ‘انار کلی’ بننا نہیں لکھا تھا۔‌ فلم مغلِ‌ اعظم کا یہ کردار حسن کی دیوی مدھو بالا نے نبھایا اور ہندوستانی سنیما پر چھا گئیں۔‌ حسین اور دل کش سراپے کی مالک مدھو بالا کو ‘وینس آف انڈین سنیما’ کہا جانے لگا۔ آج ماضی کی اس مقبول ہیروئن کی برسی منائی جارہی ہے۔‌

    فلمی دنیا کی مدھو بالا کا اصل نام ممتاز تھا۔ اسی نام سے وہ پہلی مرتبہ بڑے پردے پر فلم ‘بسنت’ میں نظر آئی تھیں۔ یہ 1942ء کی بات ہے۔ مشہور ہے کہ اسی دور کی ایک معروف اداکارہ دیویکا رانی کے کہنے پر ممتاز نے اپنا فلمی نام مدھو بالا رکھا۔ فلمساز اور ہدایت کار کیدار شرما نے 1947ء میں انھیں اپنی پہلی فلم نیل کمل میں بطور ہیروئن سائن کیا تھا۔ اس وقت ان کی عمر محض تیرہ سال تھی۔ بعد میں وہ سب سے زیادہ معاوضہ لینے والی اداکارہ بنیں اور مغلِ اعظم کے بعد تو ہر طرف ان کی اداکاری اور حسن کے چرچے تھے۔ یہاں یہ بات قابلِ‌ ذکر ہے کہ مغلِ اعظم کی عکس بندی کے دوران وہ بہت بیمار تھیں، لیکن انار کلی کے روپ میں انھوں نے لازوال اداکاری کی اور نام وَر فلم ساز کے آصف کی توقعات پر پورا اتریں۔ ہندوستانی سنیما میں کلاسک کا درجہ رکھنے والی اس فلم کے مرکزی کردار میں فلم ساز جیسا حسن و جمال، رنگ روپ، بانکپن، تمکنت اور دل کش لب و لہجہ چاہتے تھے، وہ مدھو بالا کو قدرت نے دے رکھا تھا۔ اداکارہ نے بیماری کے باوجود شوٹنگ کروائی اور بے مثال اداکاری کی۔

    مدھو بالا فلم انڈسٹری کی وہ اداکارہ تھیں جو لاکھوں دلوں کی دھڑکن بنیں‌ اور خوب شہرت پائی۔ روپ کی اس رانی نے نام و مقام تو بہت پایا مگر عمر تھوڑی پائی۔ مدھو بالا زندگی کی صرف 36 بہاریں دیکھ سکیں اور بدنصیبی دیکھیے کہ ان میں بھی نو برس ایسے تھے جب وہ بیماری کی وجہ سے اپنے گھر میں بستر تک محدود رہیں۔ مدھو بالا کے دل میں سوراخ تھا اور معالجین کا کہنا تھاکہ انھیں زیادہ سے زیادہ آرام کرنا ہوگا۔ 14 فروری کو دہلی میں پیدا ہونے والی ممتاز کے والدین کو ڈاکٹروں نے بتا دیا تھا کہ اس کے آرام کا خاص خیال رکھنا ہوگا، وہ بہت زیادہ کام اور عام آدمی کی طرح‌ مسلسل جسمانی سرگرمی آسانی سے انجام نہیں دے سکے گی، لیکن ممتاز کو اس کے والد عطاء اللہ نے چھوٹی عمر میں‌ فلم نگری میں‌ کام دلوا دیا۔ یہاں‌ ممتاز کو آرام کرنے کا موقع کم ملتا تھا۔ وہ مسلسل شوٹنگ کی وجہ سے اکثر تھکن محسوس کرتی تھیں۔ ممتاز کے بہن بھائی گیارہ تھے اور والد نے اخراجات پورے کرنے کے لیے اپنی بیٹی کو فلمی دنیا میں‌ بھیج دیا۔ ممتاز کے والد عطاء اللہ لاہور میں ایک ٹوبیکو کمپنی میں کام کرتے تھے، اور پھر وہ نوکری چھوڑ کر دہلی چلے گئے۔ وہاں سے وہ اپنی بیٹی کو بمبئی لے گئے اور بھولی بھالی، من موہنی صورت والی ممتاز کو فلموں میں کام مل گیا۔ عطاء اللہ نے بیٹی کی کمائی سے گھر کی گاڑی کھینچنا شروع کی اور بہت جلد ممتاز کے حسن کا جادو مدھو بالا کے نام ایسا چلا کہ عطاء اللہ کے گھر گویا ہن برسنے لگا۔

    دیکھا جائے تو مدھو بالا کے فلمی سفر کا آغاز، اپنے حسن اور دل کش سراپے کی بدولت فلم سازوں‌ کی نظر میں آنا اور پھر کام یابیاں‌ سمیٹتے چلے جانا ایک قابلِ‌ ذکر کہانی ہے، لیکن اس کا دکھ بھرا پہلو مدھو بالا کی بیماری، فلمی دنیا میں عشق اور شادی کے بعد بھی رنج و آلام اور روح پر لگنے والے زخم ہیں، جنھوں نے مدھو بالا کو موت کے منہ میں‌ دھکیل دیا۔ اداکارہ مدھو بالا 1969ء میں‌ آج ہی کے دن دنیا سے رخصت ہوگئیں۔ ان کی زندگی کے آخری ایّام آنسو بہاتے ہوئے گزرے۔

    مدھو بالا اور دلیپ کمار کا عشق زوروں پر رہا۔ ایک وقت آیا جب یوسف خان المعروف دلیپ کمار اداکارہ پر نکاح کے لیے دباؤ ڈالنے لگے، لیکن مدھو بالا اپنے باپ کے خوف سے ایسا کوئی قدم اٹھانے کو فی الوقت تیّار نہ تھی۔ مدھو بالا کو کچھ وقت چاہیے تھا، لیکن دلیپ نہ مانے اور مدھو بالا سے ناتا توڑ لیا۔ دلیپ کمار سے مایوس، گھر کے حالات اور اپنی بیماری سے تنگ آئی ہوئی مدھو بالا یہ سوچ کر کشور کمار کا ہاتھ تھام لیا کہ وہ اسے زندگی کی طرف لوٹا سکے گا۔ انھوں نے 1960 میں شادی کی۔ لیکن گلوکار کشور کمار انھیں سکھ نہ دے سکے۔ انھیں مدھو بالا کی بیماری کا علم تو تھا لیکن وہ یہ نہیں سمجھ سکے تھے کہ بیماری کس حد تک ان کی دلہن کو متاثر کرچکی ہے۔ بہرحال، وہ اپنی بیوی کو علاج کے لیے لندن لے گئے، لیکن ڈاکٹروں نے کہہ دیا کہ وہ چند سال ہی زندہ رہ سکیں‌ گی۔ کشور کمار نے ایک بیمار عورت کے ساتھ زندگی گزارنے کے بجائے اپنی ذات اور سکون کو ترجیح دی اور مدھو بالا کو اس کے والدین کے گھر چھوڑ دیا۔ وہ دو، تین ماہ میں ایک بار اپنی بیوی کی خیریت دریافت کرنے چلے آتے تھے۔ کشور کمار کے اس سلوک نے شکستہ دل مدھو بالا کو مزید ہلکان کردیا۔ پرستار لاکھوں، چاہنے والے ہزاروں، فلم انڈسٹری میں ہر کوئی دیوانہ، ہر ایک عاشق مگر مدھو بالا ان سب کے ہوتے ہوئے بھی تنہا تھی۔

    یہاں ہم ہندوستانی فلم انڈسٹری کی معروف شخصیت کمال امروہوی جو عاشق مزاج اور حُسن پرست مشہور تھے، ان کی مدھو بالا سے پہلی ملاقات کا تذکرہ کررہے ہیں اور یہ واقعہ انیس امروہوی نے اپنی کتاب میں رقم کیا ہے۔ ملاحظہ کیجیے۔

    ایک بار ایک دوست نے کمال امروہی کو کھانے پر مدعو کیا جہاں ممتاز نام کی ایک خوب صورت لڑکی سے اُن کی ملاقات ہوئی۔ کھانے کی میز پر وہ لڑکی کمال امروہی کے بالکل سامنے بیٹھی تھی۔ جب وہ کسی کام سے میز سے اُٹھ کر گئی تو کمال صاحب نے اپنے دوست سے دریافت کیا کہ کیا یہ لڑکی فلموں میں کام کرنا چاہتی ہے؟

    اُن دنوں کمال صاحب کو فلم ’محل‘ کے لیے ہیروئن کی تلاش تھی۔ دوست نے بتایا کہ ممتاز کئی فلموں میں کام کر چکی ہے اور اس دعوت کا مقصد بھی یہی تھا کہ ممتاز (مدھو بالا کا اصلی نام) کو آپ سے ملوایا جائے۔ اس طرح چھوٹی فلموں کی اداکارہ ممتاز بڑی فلم ’محل‘ کی ہیروئن مدھوبالا بنی۔

    مدھو بالا کی دیگر مشہور فلموں میں دلاری، دولت، اپرادھی، نادان، ساقی، سنگدل، امر، نقاب، پھاگن، کلپنی، بارات کی رات، مغلِ اعظم، شرابی اور جوالا سرِ فہرست ہیں۔ انھوں نے اپنے وقت کے باکمال اداکاروں اور مقبول ترین ناموں کے ساتھ کام کیا۔

    مدھو بالا نے 66 فلموں میں کردار نبھائے۔ کہتے ہیں کہ بولی وڈ میں ذاتی محافظ رکھنے کا سلسلہ مدھو بالا نے شروع کیا تھا۔ مدھو بالا ممبئی کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • کراچی: چڑیا گھر کی ہتھنیاں نور جہاں اور مدھو بالا کہاں جائیں گی؟

    کراچی: چڑیا گھر کی ہتھنیاں نور جہاں اور مدھو بالا کہاں جائیں گی؟

    کراچی: سفاری پارک نے ہتھنیوں کی منتقلی اور ان کے انتظامات سے انتظامیہ نے معذرت کرلی۔

    تفصیلات کے مطابق چڑیا گھر کی ہتھنیوں کو سفاری پارک منتقل کرنا تھا، چڑیا گھر کے سینئر ڈائریکٹر نے ہتھنیوں کو سفاری پارک منتقل کرنے کیلئےخط لکھا تھا۔

    تاہم ڈائریکٹر سفاری پارک نے جوابی خط میں ہتھنیوں کی منتقلی سےمنع کردیا، سفاری پارک کے ڈائریکٹر نے انتظامیہ سے ہتھنیوں کی رہائش کے انتظامات کیلئے ٹینڈر دینے کا مشورہ دیا ہے۔

    واضح رہے کہ کراچی چڑیا گھر میں ہھتنی نورجہاں کی طبیعت دن بدن خراب ہونے لگی۔

    ہھتنی نورجہاں کو جوڑوں میں تکلیف پر دی جانے والی ادویات نے حالت مزید خراب کردی۔

    ذرائع نے بتایا کہ چڑیا گھر انتظامیہ نے ہتھنی کو درد کش دواؤں پر رکھا ہوا تھا، دردکش ادویات کے باعث ہتھنی کی طبیعت دن بدن مزید خراب ہورہی ہے۔

  • روپ کی رانی مدھو بالا کا تذکرہ جو صرف 36 سال زندہ رہ سکیں!

    روپ کی رانی مدھو بالا کا تذکرہ جو صرف 36 سال زندہ رہ سکیں!

    شہناز، نرگس اور نوتن کے بعد قسمت کی دیوی مدھو بالا پر مہربان ہوئی اور انھوں نے فلم مغلِ‌ اعظم میں انار کلی کا کردار نبھا کر اسے لازوال بنا دیا۔‌

    ہندوستانی سنیما کی تاریخ میں اس اداکارہ کو ان کی خوب صورتی کی وجہ سے ‘وینس آف انڈین سینیما’ بھی کہا جاتا ہے۔ آج مدھو بالا کی برسی ہے جن کا اصل نام ممتاز تھا۔

    وہ ممتاز کے نام سے پہلی مرتبہ بڑے پردے پر فلم ‘بسنت’ میں نظر آئی تھیں۔یہ 1942ء کی بات ہے۔ اس زمانے کی ایک معروف اداکارہ دیویکا رانی نے ان کی اداکاری سے متاثر ہوکر انھیں اپنا نام مدھو بالا رکھنے کا مشورہ دیا تھا۔

    یہاں یہ بات قابلِ‌ ذکر ہے کہ مغلِ اعظم میں جن دنوں اداکارہ اپنا مشہورِ زمانہ کردار نبھا رہی تھیں، بے حد بیمار تھیں، لیکن وہ برصغیر کے نام وَر فلم ساز، کے آصف کی توقعات پر پوار اتریں۔ کہتے ہیں کلاسک کا درجہ رکھنے والی اس فلم کے لیے میں انار کلی کے کردار کے لیے فلم ساز کو جیسا حسن اور روپ، بانکپن، غرور اور دل کش لب و لہجہ چاہیے تھا، وہ سب مدھو بالا میں تھا۔

    مدھو بالا فلم انڈسٹری کی وہ اداکارہ تھیں جن کا چہرہ آنکھوں میں بَس جاتا اور وہ دل میں اتر جاتیں۔ روپ کی اس رانی نے شہرت اور نام و مقام تو بہت بنایا مگر عمر تھوڑی پائی۔ انھیں زندگی کی صرف 36 بہاریں نصیب ہوئیں جس میں نو برس ایسے تھے جب وہ اپنے گھر میں اپنی بیماری سے لڑتے ہوئے تنہا وقت گزار رہی تھیں۔ 1969ء میں‌ آج ہی کے دن وہ ہمیشہ کے لیے دنیا سے رخصت ہوگئی تھیں۔

    مدھو بالا 14 فروری کو دہلی میں پیدا ہوئیں۔ پیدائش کے بعد ڈاکٹروں نے والدین کو بتایا کہ ان کی بیٹی کے دل میں سوراخ ہے جس میں انھیں آرام کی ضرورت ہوگی، لیکن کم عمری ہی میں وہ فلم نگری میں‌ چلی آئیں جہاں مسلسل کام اور شوٹنگ کی وجہ سے اکثر تھکن محسوس کرتی تھیں۔

    خوب صورت اور خوش ادا ممتاز کے بارے میں‌ کہا جاتا ہے کہ انھیں 9 سال کی عمر میں اپنے 11 بہن بھائیوں اور والدین کے لیے روزی روٹی کمانے کے لیے فلمی دنیا میں‌ بھیج دیا گیا تھا۔ ان کے والد لاہور میں ایک ٹوبیکو کمپنی میں کام کرتے تھے، جو نوکری چھوڑ کر دہلی چلے گئے اور وہاں سے بمبئی اس امید کے ساتھ پہنچے کہ ان کی خوب صورت بیٹی کو فلموں میں کام ضرور ملے گا اور وہ اس کی کمائی ان کی زندگی بدل دے گی۔ ہُوا تو یہی، مگر اس بھاگ دوڑ میں خود ان کی زندگی کے دن گھٹ گئے۔

    بولی وڈ کی اس اداکارہ اور دلیپ کمار کے درمیان رومانس کی خبر بھی اس زمانے میں خوب گرم رہی، اور بعد میں ان کے مابین دوریوں کا چرچا بھی ہوا، لیکن 1960ء میں وہ مشہور گلوکار کشور کمار کی دلہن بن گئیں۔ کشور کمار کو مدھو بالا کی بیماری کا علم تو تھا لیکن اس کی سنگینی کا اندازہ نہیں تھا۔ وہ اپنی بیوی کو علاج کے لیے لندن لے گئے، لیکن وہاں ڈاکٹروں نے کہہ دیا کہ وہ اس دنیا میں چند سال کی مہمان ہیں۔ کشور کمار انھیں میکے میں چھوڑ کر اپنی دنیا میں مصروف ہوگئے اور دو تین ماہ میں ایک بار ان سے ملاقات کے لیے جاتے تھے۔

    ہندوستانی فلم انڈسٹری میں اپنی تخلیقی صلاحیتوں اور بے مثال کام کے علاوہ کمال امروہوی عاشق مزاج اور حُسن پرست بھی مشہور تھے۔

    انیس امروہوی نے اداکارہ مدھو بالا اور کمال امروہوی کے درمیان ملاقات سے متعلق ایک واقعہ یوں بیان کیا ہے، ایک بار ایک دوست نے کمال امروہی کو کھانے پر مدعو کیا جہاں ممتاز نام کی ایک خوب صورت لڑکی سے اُن کی ملاقات ہوئی۔ کھانے کی میز پر وہ لڑکی کمال امروہی کے بالکل سامنے بیٹھی تھی۔

    جب وہ کسی کام سے میز سے اُٹھ کر گئی تو کمال صاحب نے اپنے دوست سے دریافت کیا کہ کیا یہ لڑکی فلموں میں کام کرنا چاہتی ہے؟

    اُن دنوں کمال صاحب کو فلم ’محل‘ کے لیے ہیروئن کی تلاش تھی۔ دوست نے بتایا کہ ممتاز کئی فلموں میں کام کر چکی ہے اور اس دعوت کا مقصد بھی یہی تھا کہ ممتاز (مدھو بالا کا اصلی نام) کو آپ سے ملوایا جائے۔ اس طرح چھوٹی فلموں کی اداکارہ ممتاز بڑی فلم ’محل‘ کی ہیروئن مدھوبالا بن گئی۔

    اس میں کوئی شک نہیں کہ فلم ’محل‘ میں مدھوبالا بے حد خوب صورت دکھائی دی ہے اور اعلیٰ درجے کی فلموں میں وہ اسی فلم سے اپنی پہچان بنا سکی۔

    مدھو بالا کی مشہور فلموں میں محل، دلاری، دولت، اپرادھی، نادان، ساقی، سنگدل، امر، نقاب، پھاگن، کلپنی، بارات کی رات، مغلِ اعظم، شرابی اور جوالا سرِ فہرست ہیں۔ انھوں نے اپنے وقت کے باکمال اداکاروں اور مقبول ترین ناموں کے ساتھ کام کیا۔ مدھو بالا نے صرف 66 فلموں میں کردار نبھائے تھے۔

    آج بہت سے فلم اسٹارز اپنے ساتھ باڈی گارڈ رکھتے ہیں۔ کہتے ہیں بولی وڈ میں یہ سلسلہ مدھو بالا نے شروع کیا تھا۔ اداکارہ کو ممبئی کے ایک قبرستان میں سپردِ‌ خاک کیا گیا تھا۔

  • مدھو بالا کی بہن کے ساتھ نیوزی لینڈ میں کیا ہوا؟

    مدھو بالا کی بہن کے ساتھ نیوزی لینڈ میں کیا ہوا؟

    ممبئی: ہندوستانی فلموں کی لازوال اداکارہ اور حسن کی ملکہ مدھو بالا کی بڑی بہن کو نیوزی لینڈ سے ممبئی تک کسمپرسی کی حالت میں تنہا سفر کرنا پڑا، جس پر ان کی بیٹی نے شدید احتجاج کیا، اور وزیر اعظم جیسنڈا آرڈرن کو خط لکھ دیا ہے۔

    غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق ماضی کی سپر اسٹار مدھو بالا کی بڑی بہن 96 سالہ کنیز بلسارا کو نیوزی لینڈ میں ان کی بہو نے گھر سے نکالا، اور وہ 29 جنوری کو بغیر کسی مدد اور پیسوں کے آکلینڈ سے ممبئی پہنچیں، ان کی بیٹی پرویز سومجی کا کہنا ہے کہ ان کی والدہ سترہ اٹھارہ سال قبل نیوزی لینڈ اپنے بیٹے اور بہو کے پاس رہنے گئی تھیں، لیکن ان کی بہو کا رویہ ان کے ساتھ ٹھیک نہیں تھا۔

    کنیز بلسارا جب ممبئی ایئرپورٹ پہنچیں تو ان کی حالت زار دیکھ کر ان کی بیٹی پرویز نے جیسنڈا آرڈرن کو خط لکھنے کا فیصلہ کیا، انھوں نے خط لکھنے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ یہ سچ ہے میں نے اس سلسلے میں نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم کو ایک خط لکھا ہے لیکن میں اس کی وضاحت نہیں کرنا چاہتی۔

    پرویز نے جیسنڈا آرڈرن کو لکھے گئے خط میں نیوزی لینڈ میں والدہ کے ساتھ غیر انسانی رویے کی تفصیلات بتائی ہیں۔

    پرویز کے مطابق انھوں نے اپنی بھابھی ثمینہ سے فون پر والدہ کے فنڈز سے متعلق استفسار بھی کیا لیکن انھوں نے لاعلمی کا اظہار کیا، پرویز کے مطابق بھابھی نے ان کی والدہ کے پیسے اور زیورات قبضہ کر لیے ہیں۔

    پرویز نے والدہ کو گھر سے نکالنے والی بہو اور ایئر پورٹ انتظامیہ پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ آخر کس طرح ایئر پورٹ انتظامیہ کووِڈ کے دنوں میں کسی بزرگ خاتون کو بغیر کسی کو ساتھ لائے فلائٹ میں بٹھانے پر رضامند ہوگئی۔

    یاد رہے کہ ماضی کی سپر اسٹار مدھو بالا کا اصل نام ممتاز جہاں بیگم دہلوی تھا، اور وہ 11 بہن بھائیوں میں پانچویں نمبر پر تھیں، انھیں 36 سال کی عمر میں 1969 میں دل کا جان لیوا دورہ پڑا تھا۔

  • لیجنڈ اداکارہ ’’مدھو بالا‘‘ کا آج 84 واں یوم پیدائش

    لیجنڈ اداکارہ ’’مدھو بالا‘‘ کا آج 84 واں یوم پیدائش

    ممبئی : ماضی کی انتہائی خوبصورت اور مشہور فلمی اداکارہ مدھو بالا کا آج چوراسی واں جنم دن ہے،خوب صورت مسکان والی ہیروئن مدھو بالا کا شمار ہندی فلموں کی سب سے بااثر شخصیات میں کیا جاتا ہے۔ وہ محض چھتیس سال کی عمر میں اس دار فانی سے کوچ کرگئیں تھیں۔

    انہوں نے چالیس اور پچاس کی دہائی میں اپنے فن اداکاری سے مداحوں کے دل میں گھر کرلیا تھا، چودہ فروری (ویلنٹائن ڈے) جو دنیا بھر میں محبت کرنے والوں کے لئے بہت خاص دن ہوتا ہے، دل چسپ اتفاق ہی ہے کہ بولی وڈ کی فلموں میں لازوال رومانوی کردار ادا کر کے امر ہوجانے والی مدھو بالا کا یوم پیدائش بھی 14 فروری 1933 ہے۔

    madhu-post-01

    مدھو بالا کا اصل نام ممتاز جہاں بیگم تھا، انہوں نے سال 1942 میں صرف نو سال کی فلم بسنت سے اپنے فلمی کیریئر کا آغازکیا تھا، اس وقت کی مشہور فلم ساز دیویکا رانی نے انہیں مدھو بالا کا فلمی نام دیا، سال 1947 میں مدھو بالا نے فلم نیل کمل میں راج کپور کے مقابلے میں مرکزی کردار ادا کیا تھا۔

    فلم محل سے شہرت اور ناموری کا جو سفر مدھو بالا نے شروع کیا، اس کا عروج تھا، شہرہ آفاق فلم مغل اعظم جس کے بعد مدھو بالا صرف اداکارہ نہیں رہیں بلکہ سینما کی تاریخ میں لیجنڈ کی حیثیت اختیار کر گئیں، اپنی مختصر زندگی میں مدھو بالا نے چوبیس فلموں میں کام کیا جن میں سے زیادہ تر سپر ہٹ رہیں لیکن دلیپ کمار کے ساتھ مدھو بالاکی جوڑی کو دیکھنے والوں نے بہت پسند کیا۔

    ان پر فلمایا گیا فلم ’’مغل اعظم‘‘ کا ایک بہت خوبصورت گیت قارئین کی نذر

    ان کی مشہور فلموں میں پرائی آگ، لال دوپٹہ، امرپریم، سنگار،نیکی اوربدی، دو استاد، چلتی کا نام گاڑی اور مسٹر اینڈ مسز 55 قابلِ ذکر ہیں۔ حسن و عشق کی دیوی مدھو بالا کا دلیپ کمار سے زبردست رومانس چلا وہ شادی بھی دلیپ کمار سے ہی کرنا چاہتی تھیں ﻣﮕﺮﺍﯾﺴﺎ ﻣﻤﮑﻦ ﻧﮧ ﮨﻮﺳﮑﺎ تاہم ان کی شادی اس وقت کے نامور گلوکار کشور کمار سے ہوئی۔

    madhu-post-02

    یہ ورسٹائل اداکارہ صرف 36 سال کی عمر میں 23 فروری 1969 کو عارضہ قلب میں مبتلا ہوکر اس دنیا سے رخصت ہوگئی لیکن اپنے کام سے ہمیشہ کے لئے امر ہو گئی۔