Tag: مذاکرات

  • ایران امریکا سے دوبارہ مذاکرات شروع کرنے پر مشروط طور پر آمادہ

    ایران امریکا سے دوبارہ مذاکرات شروع کرنے پر مشروط طور پر آمادہ

    تہران: ایرانی وزیرخارجہ عباس عراقچی کی جانب سے امریکا سے دوبارہ مذاکرات کے لیے مشروط آمادگی کا اظہار کیا گیا ہے۔

    غیر ملکی ذرائع ابلاغ کے مطابق فرانسیسی اخبارکو دیے گئے انٹرویو میں ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی کا کہنا تھا کہ ہم امریکا کے ساتھ باہمی احترام کی بنیاد پر مذاکرات شروع کرنے کیلیے آمادہ ہیں تاہم امریکا کو مذاکرات کے دوران ایران پر حملے نہ کرنے کی ضمانت دیناہوگی اور امریکا غلطیوں کا ازالہ کرے تو مذاکرات کا آغاز ہوسکتا ہے۔

    اُن کا کہنا تھا کہ ایران کو جوہری تنصیبات پر نقصان کے تخمینے کے بعد معاوضہ طلب کرنے کا حق حاصل ہے، امریکا نے ہی مذاکرات توڑ کر کارروائی کا آغاز کیا، اس لیے اب ضروری ہے کہ امریکا اپنی غلطیوں کی ذمہ داری قبول کرے، امریکا کے حالیہ حملوں سے ایران کی جوہری تنصیبات کو نقصان پہنچا ہے۔

    ایرانی وزیرخارجہ نے کہا کہ یہ سمجھنا کہ ایران کو پر امن جوہری منصوبہ ترک کرنے پر مجبور کیا جاسکتا ہے درحقیقت یہ ایک سنگین غلط فہمی ہے، ایرانی جوہری پروگرام ایسا قومی سرمایہ ہے جسے آسانی سے ختم نہیں کیا جا سکتا۔

    اُنہوں نے کہا کہ سفارت کاری دو طرفہ معاملہ ہے اوردوست ممالک یا ثالثوں کے ذریعے ایک سفارتی ہاٹ لائن قائم کی جا رہی ہے۔

    دوسری جانب اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ ایران نے 16 دن میں 5لاکھ سے زائد افغان شہریوں کو ملک بدر کر دیا۔ 24 جون سے 9جولائی تک ایران سے 5لاکھ 8ہزار افغان مہاجرین بیدخل کیے گئے۔

    ایک دن میں 51 ہزار افغان شہریوں کی ملک بدری کی گئی جو کہ اتوار کی ڈیڈلائن سے قبل ریکارڈ اخراج ہے۔ ایرانی حکومتی ترجمان کا کہنا ہے کہ قومی سلامتی مقدم ہے غیرقانونی شہریوں کی واپسی ناگزیر ہے۔

    سی این این کے مطابق ریاستی میڈیا پر افغانوں کی اسرائیل کیلئے مبینہ جاسوسی کی اعترافی ویڈیوز نشر کی گئیں، ایرانی پولیس کی افغان شہریوں کیخلاف بھرپور کارروائی کی ویڈیوز بھی نشر کی گئیں۔

    ’غزہ بچوں اور بھوکے لوگوں کا قبرستان بن چکا‘

    ایران میں لاکھوں افغان مہاجرین اور پناہ گزینوں سے کہا گیا ہے کہ وہ ملک چھوڑ دیں یا گرفتاری کا سامنا کریں۔

    ایران ایک اندازے کے مطابق 40 لاکھ افغان مہاجرین کا گھر ہے اور بہت سے لوگ وہاں کئی دہائیوں سے مقیم ہیں۔

    2023 میں، تہران نے غیر ملکیوں کو نکالنے کے لیے ایک مہم کا آغاز کیا جس کے مطابق وہ ملک میں ”غیر قانونی طور پر”رہ رہے تھے۔

  • آذربائیجان اور آرمینیا میں تنازع کے حل کیلئے مذاکرات کا آغاز

    آذربائیجان اور آرمینیا میں تنازع کے حل کیلئے مذاکرات کا آغاز

    متحدہ عرب امارات میں آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان چار دہائیوں سے جاری تنازع کے امن معاہدے کو حتمی شکل دینے کے لیے مذاکرات ہوئے۔

    غیر ملکی ذرائع ابلاغ کے مطابق آرمینیا حکومت کا کہنا ہے کہ ابوظبی میں آرمینیا کے وزیراعظم نکول پشینیان اور آذربائیجان کے صدر الہام علیوف کے درمیان ملاقات میں دونوں ملکوں کے تعلقات کے مختلف پہلوؤں پر بات چیت ہوئی۔

    رپورٹس کے مطابق دونوں ممالک میں دوطرفہ مذاکرات اور اعتماد سازی کے اقدامات جاری رکھنے پر اتفاق ہوا۔

    واضح رہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان نگورنو کاراباخ کے سرحدی علاقے پر 1980 سے تنازع چلا آرہا ہے۔

    روسی صدر پیوٹن کی بڑی پیشکش:

    روسی صدر پیوٹن نے آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان امن معاہدے میں ثالثی کی پیشکش کی ہے۔

    صدر ولادیمیر پیوٹن نے باکو کے دورے میں کہا کہ ماسکو یوکرین میں جنگ کے باوجود آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان امن مذاکرات میں ثالثی کے اپنے تاریخی کردار کے لیے اب بھی پُرعزم ہے۔

    یہ روسی صدر کا آذربائیجان کا دو روزہ دورہ تھا جب کہ 2022 میں ماسکو کے یوکرین پر حملہ کرنے کے بعد اور ستمبر کے حملے میں باکو نے نگورنو کاراباخ انکلیو کو نسلی آرمینیائی علیحدگی پسندوں سے واپس لینے کے بعد تیل کی دولت سے مالا مال ملک میں ان کا پہلا دورہ تھا۔

    روس کئی دہائیوں سے قفقاز کے دشمنوں کے درمیان روایتی ثالث رہا ہے جو دونوں سابق سوویت جمہوریہ ہیں لیکن پچھلے دو سالوں میں، ماسکو اپنی یوکرین مہم سے الجھا ہوا ہے اور مغربی طاقتیں ثالثی میں بڑا کردار ادا کر رہی ہیں۔

    آرمینیا نے کئی علاقے آذربائیجان کو واپس کر دیے

    پیوٹن نے باکو میں آذربائیجان کے صدر الہام علیئیف کے ساتھ مشترکہ بیان میں کہا کہ یہ وسیع پیمانے پر جانا جاتا ہے کہ روس کو بھی بحرانوں کا سامنا ہے سب سے پہلے یوکرائنی راستے پر، تاہم جنوبی قفقاز کے واقعات میں روس کی تاریخی شمولیت، یہاں تک کہ حالیہ برسوں کے دوران بھی یہ ہمارے لیے ضروری ہے کہ جہاں فریقین کی ضرورت ہو، بلا شبہ شرکت کریں۔

  • امریکہ کے ساتھ مذاکرات کی بحالی کے لیے تیار ہیں، ایران

    امریکہ کے ساتھ مذاکرات کی بحالی کے لیے تیار ہیں، ایران

    ایرانی صدر مسعود پزشکیان کا کہنا ہے کہ ان کا ملک امریکہ کے ساتھ مذاکرات کی بحالی کے لیے تیار ہے۔ اُنہوں نے وضاحت کی کہ اگر دونوں ملکوں کے درمیان اعتماد بحال ہو جائے تو ایران کو امریکہ کے ساتھ اپنے جوہری پروگرام پر مذاکرات دوبارہ شروع کرنے میں ”کوئی مسئلہ” نہیں ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق ایرانی صدر مسعود پزشکیان نے امریکی صحافی ٹکر کارلسن کے ساتھ ایک انٹرویو میں واشنگٹن کے ساتھ اعتماد کے بحران کا انکشاف کرتے ہوئے سوال کیا کہ ایران کیسے یقین کر سکتا ہے کہ واشنگٹن اسرائیل کو دوبارہ ایران پر حملہ کرنے کی اجازت نہیں دے گا؟

    رپورٹس کے مطابق پزشکیان نے اسرائیل پر انہیں قتل کرنے کی کوشش کا الزام لگایا تاہم انہوں نے اس کوشش کی تاریخ نہیں بتائی۔

    ایرانی صدر نے کہا کہ میری جان لینے کی کوشش کے پیچھے امریکہ نہیں تھا۔ یہ اسرائیل تھا۔ میں ایک میٹنگ میں تھا، انہوں نے اس علاقے پر بمباری کرنے کی کوشش کی جہاں ہم میٹنگ میں مصروف تھے۔

    دوسری جانب ایران پر اسرائیل کی جانب سے ممکنہ دوبارہ حملے کے خدشے کے باعث ایرانی فوج کو مکمل ہائی الرٹ کر دیا گیا ہے۔

    ایرانی میڈیا کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ تمام خطرات سے نمٹنے کے لیے ایران نے فوجی تیاریوں کو مکمل کرلیا ہے، جبکہ ایرانی سپریم لیڈر کے مشیر نے کہا ہے کہ اگر جارحیت کی گئی جوابی کارروائی پہلے سے زیادہ شدید ہوگی۔

    ایرانی میڈیا کے مطابق امریکی صدر ٹرمپ ایک بار پھر اسرائیل کی حمایت میں سامنے آئے ہیں اور ان کی نیتن یاہو سے حالیہ ملاقات کو ”پہلے سے طے شدہ ڈرامہ”قرار دیا جا رہا ہے۔

    ایرانی فوج کے ترجمان کے مطابق ملک کے خفیہ مقامات پر ہزاروں میزائل اور ڈرونز بالکل تیار ہیں، اس بار جنگ میں قدس فورس، نیوی اور آرمی کو مکمل طور پر استعمال کیا جائے گا۔

    برطانیہ نے تہران میں اپنا سفارتخانہ دوبارہ کھول دیا

    واضح رہے کہ 13 جون کو اسرائیل نے ایران پر فضائی حملے شروع کیے تھے، جن میں ایران کے اعلیٰ فوجی افسران اور جوہری سائنسدانوں کو شہید کیا گیا تھا، اس کے بعد ایران نے بھی اسرائیلی علاقوں پر شدید میزائل حملے کیے، جس میں اسرائیل نے 28 اسرائیلی شہریوں کے ہلاک ہونے کا دعویٰ کیا تھا۔

  • اسرائیل حماس مذاکرات کا پہلا دور بے نتیجہ ختم

    اسرائیل حماس مذاکرات کا پہلا دور بے نتیجہ ختم

    قطر میں اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی مذاکرات کا پہلا دور بے نتیجہ اختتام پذیر ہوگیا۔

    بین الاقوامی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق فلسطینی حکام کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ مذاکرات کے لیے آئے اسرائیلی وفد کے پاس حتمی معاہدے تک پہنچنے کے لیے اختیارات نہیں تھے۔

    رپورٹس کے مطابق اسرائیل اور حماس کے درمیان مذاکرات کا یہ سلسلہ اسرائیلی وزیراعظم کی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات سے ایک روز قبل شروع ہوا ہے۔

    نیتن یاہو نے واشنگٹن روانگی سے قبل کہا تھا کہ جنگ بندی مذاکرات میں حصہ لینے والی اسرائیلی مذاکراتی ٹیم کو ہدایات دی ہیں کہ ایسی شرائط کے تحت ہی جنگ بندی کا معاہدہ کیا جائے جنہیں اسرائیل نے قبول کیا ہے۔

    دوسرئ جانب اسرائیلی فوج کے ریٹائرڈ جنرل یتزاک برک نے اعتراف کیا ہے کہ فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس نے دوبارہ طاقت حاصل کر لی ہے۔

    قطری نشریاتی ادارے الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق اسرائیلی میڈیا آؤٹ لیٹ ماریو میں شائع اپنے مضمون میں یتزاک برک نے لکھا کہ حماس نے جنگ سے پہلے کی طاقت دوبارہ حاصل کر لی ہے۔

    ریٹائرڈ فوجی جنرل نے لکھا کہ حماس کا دوبارہ طاقت حاصل کرنا غزہ میں اسرائیلی فوج کی پیشرفت کے بیانات سے متصادم ہے۔

    انہوں نے اپنے مضمون میں غزہ میں زمینی حقائق کو بھیانک قرار دیا۔

    ٹرمپ سے ملاقات: نیتن یاہو کی واشنگٹن روانگی میں تاخیر

    یتزاک برک نے دعویٰ کیا کہ حماس کے پاس اب 40 ہزار مزاحمت کار ہیں جو کہ غزہ میں جنگ شروع ہونے سے پہلے کی طاقت کے برابر ہے جبکہ بہت سے مزاحمت کار سرنگوں میں تعینات ہیں۔

    ان کا کہنا تھا کہ حماس کے مزاحمت کار گوریلوں کی طرح لڑتے رہتے ہیں جیسا کہ وہ جنگ کے آغاز سے لڑ رہے ہیں، وہ کبھی بھی ایک فوج کی طرح نہیں رہے اور اسی لیے انہوں نے اپنی فوجی صلاحیتوں کو نہیں کھویا جیسا کہ اسرائیلی فوج کے چیف آف اسٹاف کا دعویٰ ہے۔

  • جی 7 وزرائے خارجہ اجلاس میں ایران کے جوہری پروگرام کی سخت مخالفت

    جی 7 وزرائے خارجہ اجلاس میں ایران کے جوہری پروگرام کی سخت مخالفت

    جی 7 وزرائے خارجہ کا کہنا ہے کہ ایران کو ایٹمی ہتھیار حاصل کرنے کی اجازت ہرگز نہیں دی جاسکتی۔

    بین الاقوامی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق کینیڈا میں جاری جی 7 وزرائے خارجہ اجلاس کے مشرق وسطیٰ سے متعلق مشترکہ بیان میں ایران سے یورینیئم افزودگی کی غیر ضروری سرگرمیاں دوبارہ نہ شروع کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

    مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ ایران کو ایٹمی ہتھیار حاصل کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔

    رپورٹس کے مطابق جی 7 وزرائے خارجہ کی جانب سے ایران کے جوہری پروگرام پر جامع، قابلِ تصدیق اور دیرپا معاہدے کے لیے مذاکرات کی بحالی پر بھی زور دیا گیا۔

    اجلاس میں ایران میں آئی اے ای اے چیف کیخلاف گرفتاری اور پھانسی کے مطالبات کی مذمت کی گئی جب کہ اسرائیل ایران جنگ بندی کی حمایت کا اعادہ بھی کیا گیا۔

    دوسری جانب ایران نے کہا ہے کہ آئی اے ای اے کی رپورٹ ہماری ایٹمی تنصیبات پر حملے کا بہانہ تھی، اس صورتحال میں عالمی ادارے سے تعاون ممکن نہیں۔

    تھائی لینڈ کی عدالت نے وزیراعظم کو معطل کردیا

    ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ آئی اے ای اے سیاسی دباؤ سے آزاد ہوکر کام کرے، ایسے ماحول میں آئی اے ای اے سے تعاون ممکن نہیں، آئی اے ای اے رپورٹ حملے کا جواز بنانے کیلئے تیار کی گئی۔

    ترجمان ایرانی وزارت خارجہ نے کہا کہ ایران نے اسرائیلی حملوں پر عالمی اداروں کو باضابطہ رپورٹ کا اعلان کیا تھا، اسرائیلی حملے بین الاقوامی قوانین کی صریحاً خلاف ورزی ہیں۔

  • مذاکرات کرنے ہیں تو بانی پی ٹی آئی تیار ہیں، علی امین گنڈاپور

    مذاکرات کرنے ہیں تو بانی پی ٹی آئی تیار ہیں، علی امین گنڈاپور

    وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے کہا ہے کہ اگر مذاکرات کرنے ہیں تو بانی تحریک انصاف اس کے لیے تیار ہیں۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے راولپنڈی میں میڈیا سے گفتگو کرت ہوئے کہا ہے کہ ملک میں حقیقی جمہوریت کی ضرورت ہے۔

    ہمارے ورکرز آج بھی جیلوں میں ہیں۔ اگر مذاکرات کرنے ہیں تو عمران خان اس کے لیے تیار ہیں، لیکن ہماری تحریک جاری ہے اور جلد ہم اپنی پارٹی کے بانی کو رہا کرائیں گے۔ کارکنوں کی جان مال کی حفاظت کرنا ہمارا فرض ہے۔

    علی امین گنڈاپور نے کہا کہ ہائیکورٹ آرڈر کے باوجود ہمیں عمران خان سے ملنے نہیں دیا جاتا۔ بجٹ، حکومتی اور سیاسی معاملات پر بانی پی ٹی آئی کو بریفنگ دی ہے۔ اگر پارٹی رہنماؤں کی عمران خان سے ملاقات نہیں کرائی گئی تو آئی ایم ایف شرائط پر ساتھ نہیں دیں گے۔

    وزیراعلیٰ کے پی نے مزید کہا کہ میں نے کبھی نہیں کہا کہ حکومت ہمارے ساتھ بیٹھے۔ بانی پی ٹی آئی کا مجھ پر اعتماد ہے اور جو بیان انہوں نے دیا میں اس کا پابند ہوں۔ پیسے کمانے والے لوگ مجھ سے نظریے کی بات نہ کریں۔

    علی امین گنڈاپور نے عدلیہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ قوم آپ کے ساتھ ہے، فیصلے کریں۔

  • روس یوکرین جنگ : کچھ ہونے والا ہے، نہ ہوا تو۔ ۔ ۔ ۔ !!  ٹرمپ نے بڑی خبر سنادی

    روس یوکرین جنگ : کچھ ہونے والا ہے، نہ ہوا تو۔ ۔ ۔ ۔ !! ٹرمپ نے بڑی خبر سنادی

    امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ روس یوکرین جنگ بندی مذاکرات فوری شروع نہ ہوئے تو پیچھے ہٹ جاؤں گا۔

    روسی اور یوکرینی صدور سے الگ الگ ٹیلی فونک گفتگو کرنے کے بعد واشنگٹن میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ روسی صدر پیوٹن سے گفتگو بہت مثبت رہی۔

     اس حوالے سے الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے روسی ہم منصب ولادیمیر پوتن کے درمیان یوکرین میں جنگ بندی کی کوششوں کے سلسلے میں فون پر دو گھنٹے سے زائد طویل گفتگو ہوئی ہے۔

    روسی سرکاری میڈیا کے مطابق پوتن نے کہا ہے کہ روس یوکرین کے ساتھ ایک یادداشت پر کام کرنے کے لیے تیار ہے، جس کا مقصد جنگ بندی کا قیام ہے۔

    دوسری جانب یوکرینی صدر ولادیمیر زیلنسکی نے کہا کہ ان کا ملک روس کے ساتھ مذاکرات کے لیے ترکیہ، سوئٹزر لینڈ یا ویٹی کن میں بات چیت کرنے کو تیار ہے۔ اس موقع پر زیلنسکی نے ایک بار پھر مکمل اور غیر مشروط جنگ بندی کا مطالبہ دہرایا ہے

    صدر ٹرمپ نے کہا کہ روس یوکرین جنگ بندی مذاکرات فوری شروع ہوں گے، جنگ بندی کی شرائط دونوں فریقین آپس میں طے کریں گے۔

    انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ روس اس جنگ کے خاتمے کے بعد امریکا کے ساتھ بڑے پیمانے پر تجارتی تعلقات چاہتا ہے۔

    امریکی صدر کا کہنا تھا کہ ویٹی کن نے روس، یوکرین جنگ بندی مذاکرات کی میزبانی میں دلچسپی ظاہر کی ہے، جرمنی، فرانس، اٹلی اور فن لینڈ کو بھی اس پیشرفت سے آگاہ کردیا گیا ہے۔

    ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ یوکرین جنگ جلد ختم ہوسکتی ہے مگر اس میں بڑی انائیں رکاوٹ ہیں، میرا خیال ہے کچھ ہونے والا ہے، اگر نہ ہوا تو پیچھے ہٹ جاؤں گا۔

    ٹرمپ نے روس یوکرین جنگ میں اس وقت کی امریکی حکومت کے کردار پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ
    یہ تنازع یورپی مسئلہ ہی رہنا چاہیئے تھا۔

    انہوں نے کہا کہ میرے خیال میں پیوٹن اور زیلنسکی دونوں جنگ ختم کرنا چاہتے ہیں، اگر ایسا نہ لگا تو مذاکرات کیلئے اپنی حمایت واپس لے لوں گا۔

    مزید پڑھیں : جنگ بندی کیلئے ٹرمپ کا پیوٹن اور زیلنسکی سے رابطہ

    علاوہ ازیں امریکی صدر نے فحش مواد سوشل میڈیا سے ہٹانے کے بارے میں بل پر دستخط کردیئے۔

  • ٹیرف معاملہ: پاکستان کا مذاکرات کیلیے اعلیٰ سطح وفد امریکا بھیجنے کا فیصلہ

    ٹیرف معاملہ: پاکستان کا مذاکرات کیلیے اعلیٰ سطح وفد امریکا بھیجنے کا فیصلہ

    امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ٹیرف معاملے پر پاکستان نے اعلیٰ سطح وفد امریکا بھیجنےکا فیصلہ کیا ہے جو ٹرمپ انتظامیہ سے مذاکرات کرے گا۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے تجارتی ٹیرف کی زد میں پاکستان بھی آیا ہے اور پاکستانی مصنوعات پر اضافی ٹیرف عائد کیا گیا ہے۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ ٹیرف معاملے پر پاکستان حکومت نے ایک اعلیٰ سطح وفد امریکا بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے جو ٹرمپ انتظامیہ سے اس مسئلے پر ٹرمپ انتظامیہ سے مذاکرات کرے گا۔ اس وفد میں ایک روز میں امریکا روانگی کا امکان ہے۔

    ذرائع کے مطابق اس وفد کی سربراہی وفاقی وزیر تجارت جام کمال خان کریں گے جبکہ اس وفد میں سیکریٹری تجارت، وزارت خزانہ اور دفتر خارجہ کے حکام بھی شامل ہوں گے۔

    ذرائع نے بتایا کہ پاکستانی وفد امریکی انتظامیہ سے 29 فیصد مجوزہ ٹیرف میں کمی کے لیے بات چیت کرے گا اور غیر ٹیرف رکاوٹوں کو ہٹانے اور تجارت بڑھانے پر بھی زور دیا جائے گا۔

    مذاکرات میں 90 روز بعد 29 فیصد ٹیرف سے بچنے کے لیے حکمت عملی پر بات کی جائے گی اور امریکا سے درآمدات بڑھانے کی تجویز پیش کی جائے گی۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ امریکا کو پاکستان کے ساتھ تجارت میں 3 ارب ڈالر خسارے کا سامنا ہے اور اس خسارے کے باعث ہر ایک ارب ڈالر کی کمی پر ٹیرف میں 9 فیصد کمی کا سامنا ہے۔

    ان مذاکرات میں امریکا سے پوما کپاس، مشینری اور سویا بین آئل کی درآمدات بڑھانے سمیت بیڈلینن، ڈینم اور تولیوں کی برآمدات میں 50 کروڑ ڈالر اضافے پر بات چیت متوقع ہے۔

    واضح رہے کہ اضافی ٹیرف سے قبل پاکستانی مصنوعات پر اوسط امریکی ٹیرف 9.9 فیصد عائد تھا۔ وزارت تجارت کے حکام کا کہنا ہے کہ امریکا نے 90 روز کے لیے مزید 10 فیصد ٹیرف میں اضافہ کیا ہے۔

  • روس یوکرین جنگ میں بڑی پیش رفت، صدر زیلنسکی نے براہ راست بات چیت پر رضا مندی ظاہر کر دی

    روس یوکرین جنگ میں بڑی پیش رفت، صدر زیلنسکی نے براہ راست بات چیت پر رضا مندی ظاہر کر دی

    کیف: روس یوکرین جنگ میں بڑی پیش رفت ہوئی ہے، یوکرینی صدر نے براہ راست بات چیت پر رضا مندی ظاہر کر دی۔

    غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کے براہ راست گفتگو کے اشارے کے بعد یوکرینی صدر ولودیمیر زیلنسکی کا رد عمل بھی سامنے آ گیا ہے۔

    یوکرینی صدر نے کہا جنگ بندی ہو تو روس کے ساتھ براہ راست بات چیت کے لیے تیار ہیں، صدر زیلنسکی نے پیشکش کی ہے کہ روس حملے روکے تو کسی بھی سطح پر بات چیت کے لیے تیار ہیں۔

    یاد رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے انتخابی مہم کے دوران ماسکو اور کیف کے درمیان 24 گھنٹوں میں معاہدہ کرنے کا وعدہ کیا تھا، ان کی جانب سے یوکرین پر روس کے ساتھ جلد از جلد ڈیل کرنے کا بہت زیادہ دباؤ ہے۔


    روس اور یوکرین رواں ہفتے معاہدہ کر لیں گے، ڈونلڈ ٹرمپ


    اگرچہ فی الوقت، روس اور یوکرین جنگ بندی پر اتفاق کرنے کے معاملے کے کہیں بھی قریب نہیں پہنچے ہیں، تاہم دو دن قبل امریکی صدر نے دعویٰ کیا تھا کہ دونوں متحارب فریقوں میں رواں ہفتے امن معاہدہ متوقع ہے۔

    واضح رہے کہ کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے منگل کو جلد از جلد جنگ بندی کے خیال پر سوالیہ نشان لگاتے ہوئے کہا تھا کہ یہ مسئلہ پیچیدہ ہے اسے فوری حل نہیں کیا جا سکتا، کوئی قابل عمل تصفیہ مختصر اور سخت ٹائم فریم میں حاصل کرنے کی کوشش لا حاصل ہے۔

    گزشتہ روز روسی صدر نے یوکرین کے ساتھ براہ راست بات چیت کا اشارہ دیا تھا، پیوٹن نے پیش کش کی ہے کہ روس موجودہ فرنٹ لائن پر یوکرین پر اپنے حملے کو روک سکتا ہے، جب کہ اس ماہ کے شروع میں پیوٹن نے سینٹ پیٹرزبرگ میں ایک ملاقات کے دوران ٹرمپ کے خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف کو بتایا تھا کہ ماسکو یوکرین کے 4 جزوی طور پر زیر قبضہ علاقوں پر اپنے دعوے سے دستبردار ہو سکتا ہے جو بدستور کیف کے کنٹرول میں ہیں۔

    ادھر ترجمان وائٹ ہاؤس نے کہا ہے کہ یوکرین امن کوششیں درست سمت میں آگے بڑھ رہی ہیں، امریکی ایلچی روسی صدر سے بات چیت کے لیے رواں ہفتے دوبارہ جائیں گے۔

  • قاہرہ مذاکرات ناکام، حماس کا ہتھیار ڈالنے سے انکار

    قاہرہ مذاکرات ناکام، حماس کا ہتھیار ڈالنے سے انکار

    غزہ میں جاری اسرائیل-حماس جنگ کو ختم کرنے کے لیے مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں ہونے والے مذاکرات بغیر کسی نتیجے کے ختم ہوگئے۔

    بین الاعوامی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق ان مذاکرات کا مقصد جنگ بندی کی بحالی اور اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی تھا، تاہم مذاکرات کے دوران کوئی نمایاں پیش رفت نہ ہو سکی۔

    رپورٹس کے مطابق اسرائیل کا مؤقف ہے کہ جب تک حماس کو مکمل شکست نہ دی جائے، فوجی کارروائیاں جاری رہیں گی جبکہ حماس نے واضح کیا کہ کسی بھی معاہدے کی بنیاد جنگ کا مکمل خاتمہ اور غزہ سے اسرائیلی انخلا ہونا چاہیے۔

    مصری حکومت نے نئی جنگ بندی تجویز پیش کی جس میں حماس سے ہتھیار ڈالنے کا مطالبہ کیا گیا۔ تاہم حماس نے اس تجویز کو مسترد کر دیا۔ حماس رہنما نے کہا کہ ہم صرف اس صورت میں جنگ بندی پر تیار ہیں جب اسرائیل مکمل طور پر جنگ بند کرے اور فوجی انخلا کرے۔ ہتھیار ڈالنے پر کوئی بات نہیں ہو سکتی۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ مصر کی تجویز میں 45 دن کی عارضی جنگ بندی شامل ہے، جس کے بدلے غزہ میں خوراک اور پناہ گاہوں کا سامان پہنچانے کی اجازت دی جائے گی۔

    حماس نے اپنا موقف اختیار کرتے ہوئے کہا ہے کہ 50 ہزار سے زائد فلسطینی جام شہادت نوش کرچکے ہیں، جنگ بندی صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب اسرائیل کی جارحیت کا مکمل خاتمہ ہو۔

    دوسری جانب اسرائیل نے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے غزہ میں یرغمالیوں کی رہائی کیلیے منعقد تقریب میں حصہ لینے والے فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس کے اہم جنگجو کو شہید کر دیا۔

    الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق اسرائیلی فوج نے ایک بیان میں کہا کہ اس نے شن بیٹ انٹیلیجنس سروس کے تعاون سے وسطی غزہ میں دیر البلاح کی نخبہ فورس کے جنگجو حمزہ وائل محمد آصفہ کو نشانہ بنایا۔

    امریکا اسرائیل کو 18 کروڑ ڈالرز کے ہیوی وہیکل انجن فروخت کرے گا

    اسرائیلی فوج نے بتایا کہ اس نے دو ہفتے قبل حماس کے جنگجو کو شہید کیا تھا، حمزہ وائل محمد آصفہ نے فروری میں اسرائیلی یرغمالیوں ایلی، اوہد بن امی اور اور لیوی کی رہائی کی تقریب میں حصہ لیا تھا۔ تاہم حماس کی جانب سے اب تک جنگجو کی شہادت کی تصدیق نہیں کی گئی۔