Tag: مذہبی شاعری

  • روپ کماری: وہ غیرمسلم شاعرہ جن کے مرثیے بہت مقبول ہوئے

    روپ کماری: وہ غیرمسلم شاعرہ جن کے مرثیے بہت مقبول ہوئے

    واقعۂ کربلا کو انسانی تاریخ کا ایسا واقعہ کہا جاتا ہے جس نے جذباتی اور فکری سطح پر کسی نہ کسی شکل میں ہر مذہب اور عقیدے کے ماننے والوں کو متاثر ضرور کیا ہے۔ اردو ادب میں کئی غیر مسلم شعراء ایسے ہیں جنھوں نے غزل گوئی کے ساتھ حمد و نعت اور منقبت بھی کہی ہے۔ ان میں عیسائی، سکھ اور ہندو دھرم کے وہ پیروکار شامل ہیں جنھیں اردو شاعری میں بڑا مقام حاصل ہوا۔ روپ کماری ایسا ہی ایک نام ہے جن کے مرثیہ غمِ حسین اور شہدائے کربلا کی یاد میں آنسو بہانے کا موقع دیتے ہیں۔

    روپ کماری کا یہ اعتراف لائقِ توجہ ہے۔
    بحر وحدت کی شناور ہے طبیعت میری
    گو ہوئی مشرکوں کے گھر میں ولادت میری
    کفر اور شرک سے ہے پاک جو طینت میری
    ہوش آتے ہی بڑھی کفر سے نفرت میری
    مے توحید تھی گھٹی میں جو شامل ساقی
    اس لیے طبع ہے اسلام پہ مائل ساقی

    اردو شاعرہ روپ کماری کا کلام برصغیر ہند و پاک میں بپا کی جانے والی مجالس میں اسی طرح پڑھا جاتا رہا ہے جیسے انیس اور دبیر کے مرثیے بہ کثرت پڑھے جاتے ہیں۔ آج ہم سنتے اور دیکھتے ہیں کہ پاک و ہند میں بعض غیر مسلم بھی رسوم عزاداری میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لے رہے ہیں اور عام زندگی میں بھی خود کو شہیدِ کربلا امام حسین کا معتقد اور پیروکار کہتے ہیں۔ لیکن جب ایسا کوئی غیرمسلم شعر و سخن سے وابستہ ہو تو یہ ناممکن ہے کہ وہ غمِ حسین میں ڈوب کر اشعار نہ کہے اور واقعۂ کربلا کو مرثیہ کی صورت میں نظم کر کے اپنے دلی جذبات کا اظہار نہ کرے۔

    اردو شاعری میں ہمیں رام راؤ کا تذکرہ بھی پڑھنے کو ملتا ہے اور ان کو اردو ادب کا پہلا غیر مسلم مرثیہ گو شاعر قرار دیا جاتا ہے۔ ان کے علاوہ منشی چھنو لال دلگیر لکھنوی کے مراثی آج بہت مقبول ہیں اور حالیہ برسوں میں کئی سوز خوانوں نے دلگیر کا کلام پڑھا ہے۔ اسی طرح روپ کماری کے مراثی بھی پاک و ہند میں مقبول ہوئے۔ انھیں بعض جگہ روپ کنواری بھی لکھا گیا ہے جو آگرہ کی رہنے والی تھیں۔ شاعرہ کا تعلق کشمیری پنڈت گھرانے سے تھا۔ روپ کماری کا دورِ تصنیف تقریباً سات برسوں پر محیط ہے۔ ان کا پہلا سلام اپریل 1931 اور آخری مرثیہ نومبر 1937 کا ہے۔

    اردو دنیا کو روپ کماری کے حالاتِ زندگی کم ہی معلوم ہیں۔ ان کے سنہ پیدائش اور وفات کے بعد میں بھی علم نہیں۔ لیکن اندازہ ہے کہ وہ 1938 سے قبل وفات پاگئی تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ انھیں ایک خیالی کردار بھی کہا گیا۔ بعض تذکرہ نویسوں کے مطابق ایسی کوئی شاعرہ حقیقتاً نہیں تھی بلکہ روپ کماری کے نام سے فضل رسول فضل نے مراثی لکھے۔ لیکن تعجب خیز امر یہ ہے کہ فضل رسول فضل ہی نہیں بلکہ نجم آفندی جیسے استاد شاعر کا اصلاح کردہ کلام بھی روپ کماری کے نام سے موجود ہے اور اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ کوئی خیالی کردار نہیں تھا۔

    بعضوں کے نزدیک روپ کماری اسلامی تعلیمات اور قصائص سے خوب واقف تھیں۔ انھیں اردو اور فارسی کے ساتھ انگریزی زبان پر بھی عبور حاصل تھا۔ فارسی میں منشی کامل کا امتحان پاس کرچکی تھیں اور انگریزی کی سیکنڈ ایئر تک تعلیم حاصل کی تھی۔

    روپ کماری کا یہ سلام بہت مشہور ہوا اور اس دور کے متعدد مذہبی رسائل میں شائع ہوا۔

    دعائیں مانگی ہیں ہم نے برسوں جھکا کے سَر، ہاتھ اٹھا اٹھا کر
    ملا ہے تب مصطفیٰ سا بندہ، خدا خدا کر، خدا خدا کر
    پیوں گی میں گنگا جل نہ ساقی، گناہ سمجھوں جو دے برہمن
    ثواب لے لے، میں تیرے صدقے، شرابِ طاہر پلا پلا کر
    برنگ گل داغِ حبِّ حیدر ہمارے سینے میں ہے نمایاں
    یہ پھول رکھا ہے ہم نے دل میں بتوں سے نظریں بچا بچا کر
    رحیم ہے تیرا نام ایشور، معاف کر دے گناہ میرے
    خطائیں مجھ سے ہوئی ہیں ظاہر، کیے ہیں عصیاں چھپا چھپا کر
    خبر نہ جب تک کہ راہ کی تھی تو روپ تو کس بلا کی بھٹکی
    عبث ہے پر اب یہ بت پرستی، خدا خدا کر، خدا خدا کر

  • فانی بدایونی کی شاعری میں‌ اسلامی تلمیحات

    فانی بدایونی کی شاعری میں‌ اسلامی تلمیحات

    فانی کو یاسیات کا شاعر کہا جاتا ہے۔ ان کا کلام حزن و یاس، رنج و الم سے عبارت ہے۔

    ان کا اصل نام شوکت علی خاں تھا، وطن بدایوں اور تخلّص فانی۔ 1879ء میں پیدا ہوئے اور 1941ء تک دنیا کے میلے اور زندگی کے جھمیلے میں گرفتار رہے۔

    فانیؔ بدایونی کے کلام میں یوں تو وارداتِ قلب و نظر، اخلاقیات، فلسفہ اور تصوف کا بیان بھی ملتا ہے، لیکن یاس و نا امیدی کے مضامین بڑی آب تاب کے ساتھ کلام میں ظاہر ہوئے ہیں اور اسی بنا پر انھیں یاسیات کا شاعر کہا گیا، جب کہ فلسفہ و تصوّف بھی ان کے کلام میں نمایاں‌ ہے۔

    کہتے ہیں فانی عشق کی بدولت غم سے دوچار ہوئے اور یہ غم انھیں تصوّف تک لے گیا اور تصوّف نے اسرارِ کائنات سے پردہ اٹھایا۔ یہاں‌ ہم اپنے باذوق قارئین کو فانی کے اُس شعری وصف کی جانب متوجہ کررہے ہیں جسے "اسلامی تلمیحات” کہنا چاہیے۔

    فانی بدایونی اللہ کے انصاف سے امید رکھتے ہیں۔ اپنے بد اعمال یا گناہوں کی وجہ سے مایوس نہیں ہوتے، کیوں کہ وہ ربِّ کائنات کو پردہ رکھنے والا سمجھتے ہیں اور اس سے عفو و درگزر کے طالب ہیں۔ اس کی ایک مثال دیکھیے۔

    امیدِ عفو ہے ترے انصاف سے مجھے
    شاہد ہے خود گناہ کہ تُو پردہ پوش تھا

    یہ شعر اس یقینِ کامل کا مظہر ہے جس میں‌ انسان ہونے کے ناتے اضطراب اور بے چینی تو ہے، لیکن شاعر جانتا ہے کہ حقیقی مددگار اور مشکلات کو آسان کرنے والی ذات وہی ہے۔

    یارب تری رحمت سے مایوس نہیں فانیؔ
    لیکن تری رحمت کی تاخیر کو کیا کہیے!

    روزِ‌ محشر حساب ہو گا، خطا کاروں، گناہ گاروں کو ان کے کیے کی سزا ملے گی، لیکن شاعر کو یہ یقین ہے کہ جہاں ﷲ کا قہر اور غضب ہوگا وہیں اس کی رحمت بھی اپنے بندوں پر سایہ فگن ہوگی اور یہی خیال انھیں مایوس اور غم زدہ نہیں ہونے دیتا۔ اس حوالے سے یہ شعر دیکھیے۔

    کس طرف جوشِ کرم تیری نگاہیں اٹھیں
    کون محشر میں سزاوارِ عتاب آتا ہے

    اور اسی ذیل میں ایک جداگانہ احساس اور یقین میں‌ ڈوبا ہوا فانی کا یہ شعر بھی ملاحظہ ہو۔

    منہ ڈھانپ لیا جوشِ ندامت کے اثر سے
    خورشیدِ قیامت نے مرے دامنِ تر سے

    فانی نے اپنی شاعری میں قرآنی آیات، بعض تراکیب بھی استعمال کی ہیں یا نہایت لطیف انداز سے ان کا اشارہ دیا ہے اور ان سے بھرپور معنٰی اور مفہوم پیدا کیا ہے۔

    لوح دل کو غمِ الفت کو قلم کہتے ہیں
    ’’کن‘‘ ہے اندازِ رقم حُسن کے افسانے کا

    طُور تو ہے ربِّ ارنی کہنے والا چاہیے
    لن ترانی ہے مگر نہ آشنائے گوش ہے

    قرآن اور احادیث میں‌ دعا کی اہمیت اور فضیلت کا بہت ذکر کیا گیا ہے۔ فانی کو قرآن سے تقویت ملتی ہے کہ ﷲ بندے کی دُعا سنتا ہے اور انھوں نے اس لفظ "دعا” سے اپنے اشعار میں‌ خوب استفادہ کیا۔ فانی کا یہ شعر پڑھیے۔

    میں دعا موت کی مانگوں تو اثر پیدا کر
    ورنہ یارب شبِ فرقت کی سحر پیدا کر

    اسی مضمون میں فانی کا یہ شعر دیکھیے جس میں انھوں نے دعا اور ہاتھوں کی اہمیت یا اس عضو سے نوازنے پر ربِّ کائنات کا شکر ادا کیا ہے۔

    ازل میں اہلِ دل نے بابِ رحمت سے نہ کیا پایا
    دعا پائی، دعا کے واسطے دستِ دعا پایا

    (سید بصیر الحسن وفاؔ نقوی کے مضمون سے خوشہ چینی)