Tag: مرثیہ گو شاعر

  • یومِ وفات: میر انیسؔ آج بھی اردو کے سب سے زیادہ پڑھے جانے والے شاعر ہیں

    یومِ وفات: میر انیسؔ آج بھی اردو کے سب سے زیادہ پڑھے جانے والے شاعر ہیں

    میر انیسؔ آج بھی اردو زبان کے سب سے زیادہ پڑھے جانے والے شاعروں میں سے ایک ہیں۔

    وہ لکھنؤ کے کلاسیکی شعرا میں‌ اپنی مرثیہ نگاری کے سبب ممتاز ہوئے اور ہندوستان بھر میں ان کی شہرت پھیل گئی۔ انھیں رثائی ادب میں خدائے سخن تسلیم کیا گیا۔ آج بھی اس فن میں وہی یکتا و بے مثل ہیں۔

    زبان و بیان پر میر انیس کو غیرمعمولی دسترس حاصل تھی۔ میر انیس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جس صنف کو وسیلۂ اظہار بناتے، اسے درجۂ کمال تک پہنچا دیتے اور اسے فن کی معراج نصیب ہوتی۔

    اردو زبان و ادب کا ادنیٰ‌ طالبِ علم بھی جانتا ہے کہ اُس دور کے شعرا کو "غزل” محبوب تھی۔ وہ اس صنف کو خلّاقی کا معیار سمجھتے تھے۔ میر انیس نے اس خیال کو باطل ثابت کر دیا اور رثائی شاعری کو جس مرتبہ و کمال تک پہنچایا وہ بجائے خود ایک مثال ہے۔

    میر انیسؔ کے کلام کی سحر انگیزی ہی نہیں ان کا منبر پر مرثیہ پڑھنا بھی مشہور تھا۔ یعنی وہ ایک زبردست مرثیہ خواں بھی تھے۔ سانس کا زیر و بم، آواز کا اتار چڑھاؤ، جسمانی حرکت یعنی آنکھوں، ابرو، ہاتھوں کی جنبش اور اشارے سے جذبات اور کیفیات کے اظہار پر انھیں وہ قدرت حاصل تھی کہ اہلِ مجلس خود سے بیگانہ ہو جاتے، لوگوں کو تن بدن کا ہوش نہ رہتا۔

    میر انیس نے اردو میں نہ صرف رزمیہ شاعری کی کمی کو پورا کیا بلکہ اس میں انسانی جذبات اور ڈرامائی تأثر کے عناصر کا اضافہ کر کے مرثیہ کی صنف کو ایک معراج عطا کی۔

    اردو زبان کا یہ عظیم شاعر 10 دسمبر 1874ء کو لکھنؤ میں‌ وفات پا گیا۔ آج میر انیسؔ کی برسی ہے۔ انھوں نے 1803ء کو محلہ گلاب باڑی، فیض آباد میں آنکھ کھولی تھی۔ نام ان کا میر ببر علی اور تھا۔ ان کے والد میر مستحسن خلیق، دادا میر حسن اور پر دادا امیر ضاحک بھی قادرُ الکلام شاعر تھے۔ یوں انیس کو بچپن ہی سے شاعری سے شغف ہو گیا اور زبان پر ان کی دسترس اور بیان میں مہارت بھی اسی ماحول کی دین تھی۔

    انیسؔ کا یہ شعر دیکھیے۔

    گل دستۂ معنیٰ کو نئے ڈھنگ سے باندھوں
    اک پھول کا مضموں ہو تو سو رنگ سے باندھوں

    میر انیسؔ نے غزل اور رباعی کی صنف میں بھی طبع آزمائی کی، لیکن مرثیہ گوئی کی صنف کو خلّاقی کی معراج تک پہنچایا۔ ان کا ایک شعر ہے۔

    لگا رہا ہوں مضامینِ نو کے پھر انبار
    خبر کرو مرے خرمن کے خوشہ چینوں کو

    اردو کے عظیم نقّاد، شاعر و ادیب شمسُ الرّحمٰن فاروقی نے اپنے ایک انٹرویو میں‌ میر انیس کی مدح سرائی کرتے ہوئے کہا تھا۔

    ’’میں میر انیسؔ کو ہمیشہ سے چار پانچ بڑے شاعروں میں رکھتا ہوں۔ بنیادی بات رواں کلام ہے۔ یہ بہت بڑی صفت ہے۔ ہم اس کو سمجھ اور قدر نہیں کر پائے۔ خیر، یہ سمجھنے والی بات بھی نہیں، محسوس کرنے کی بات ہے۔ مصرع کتنا مشکل ہو، کتنا عربی فارسی ہو، کتنا ہندی سندھی ہو، آسانی اور روانی سے ادا ہو جاتا ہے۔ سمجھ میں آجاتا ہے۔

    مصرع میں لگتا نہیں لفظ زیادہ ہو گیا ہے یا کم ہوگیا۔ میر انیس کا شاعری میں یہ کمال اپنی جگہ ہے کہ الفاظ کو اپنے رنگ میں ڈھال لیتے ہیں، کسی سے یہ بَن نہیں پڑا۔ مضمون ایک ہے، لیکن ہرمرثیہ نیا معلوم ہوتا ہے۔ زبان پر غیر معمولی عبور۔ زبان عام طور پر شاعر پر حاوی ہوتی ہے، لیکن میر انیس زبان پر حاوی ہے۔

    معمولی مصرع بھی کہیں گے تو ایسی بات رکھ دیں گے کہ کوئی دوسرا آدمی کہہ نہیں سکتا۔ اکثر یہ تو آپ تجزیہ کرکے دکھا سکتے ہیں کہ اس غزل یا نظم میں کیا کیا ہے، میر انیس کے معاملہ میں نہیں دکھا سکتے۔ مجھے ان کا مرثیہ دے دیں۔ اس کے ہر بند کے بارے میں بتا دوں گا لیکن مجموعی طور پر اتنا بڑا مرثیہ کیسے بن گیا اس کو اللہ میاں جانیں یا میر انیسؔ۔‘‘

    میر انیسؔ کے مرثیہ کی خصوصیات سراپے کا بیان، جنگ کی تفصیلات، رخصت اور سفر کے حالات کے ساتھ ان کی جذبات نگاری تھی جس نے مرثیے کو ایک شاہ کار اور ایسا ادبی فن پارہ بنا دیا جس کی برصغیر میں نظیر ملنا مشکل ہے۔

    بقول رام بابو سکسینہ ” ادبِ اردو میں انیس ایک خاص مرتبہ رکھتے ہیں۔ بحیثیت شاعر ان کی جگہ صفِ اوّلین میں ہے اور بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو ان کو زبانِ اردو کے تمام شعراء سے بہترین اور کامل ترین سمجھتے ہیں اور ان کو ہندوستان کا شکسپیئر اور خدائے سخن اور نظمِ اردو کا ہومر اور ورجل اور بالمیک خیال کرتے ہیں۔“

    انیسؔ دَم کا بھروسا نہیں ٹھہر جاؤ
    چراغ لے کے کہاں سامنے ہوا کے چلے

  • استاد شاعر اور نام وَر مرثیہ گو نجم آفندی کی برسی

    استاد شاعر اور نام وَر مرثیہ گو نجم آفندی کی برسی

    اردو کے نام وَر مرثیہ گو شاعر نجم آفندی 21 دسمبر 1975ء کو کراچی میں وفات پاگئے تھے۔ آج ان کا یومِ وفات ہے۔ نجم آفندی کا اصل نام میرزا تجمل حسین تھا۔ انھوں نے 1893ء میں آگرہ کے ایک علمی اور ادبی گھرانے میں آنکھ کھولی تھی۔

    نجم آفندی کے والد بزم آفندی، اِن کے دادا مرزا عباس علی ملیح، پردادا مرزا نجف علی بلیغ اور پردادا کے بھائی مرزا جعفر علی فصیح بھی اپنے زمانے کے شعرا میں نمایاں تھے۔

    مرزا جعفر علی فصیح کو سلطنتِ عثمانیہ کی جانب سے آفندی کا خطاب ملا تھا اور یہی خطاب ان کے خاندان کی شخصیات کے ناموں کا جزو بن گیا۔

    نجم آفندی نے کم عمر ہی سے شاعری شروع کردی تھی۔ غزل گوئی سے انھوں نے اپنے تخلیقی سفر کا آغاز تو کیا مگر جلد ہی ان کے کلام میں مذہبی موضوعات نظر آنے لگے اور پھر وہ مرثیہ گوئی میں باکمال اور معروف ہوئے۔ وہ 1971ء میں‌ ہجرت کرکے پاکستان آئے تھے۔ نجم آفندی کے مرثیے، نوحے، قصائد اور رباعیات کے کئی مجموعے شایع ہوئے۔

  • دو باکمال اور لفظوں کا طلسم

    دو باکمال اور لفظوں کا طلسم

    زمانہ کی خاصیت طبعی ہے کہ جب نباتات پرانے ہو جاتے ہیں تو اُنھیں نکال کر پھینک دیتا ہے اور نئے پودے لگاتا ہے۔

    میر ضمیرؔ اور میر خلیقؔ کو بڑھاپے کے پلنگ پر بٹھایا، میر انیسؔ کو باپ کی جگہ منبر پر ترقی دی، ادھر سے مرزا دبیر اُن کے مقابلے کے لیے نکلے، یہ خاندانی شاعر نہ تھے، مگر ضمیرؔ کے شاگرد رشید تھے۔

    جب دونوں نوجوان میدانِ مجالس میں جولانیاں کرنے لگے تو فنِ مذکور کی ترقی کے بادل گرجتے اور برستے اُٹھے اور نئے اختراع اور ایجادوں کے مینھ برسنے لگے۔

    نوجوانوں کے کمال کو خوش اعتقاد قدر دان ملے، وہ بزرگوں کے شمار سے زیادہ اور وزن میں بہت بھاری تھے۔ کلام نے وہ قدر پیدا کی کہ اس سے زیادہ بہشت ہی میں ہو تو ہو! قدر دانی بھی فقط زبانی تعریف اور تعظیم و تکریم میں ختم نہ ہو جاتی تھی بلکہ نقد و جسن کے گراں بہا انعام تحائف اور نذرانوں کے رنگ میں پیش ہوتے تھے۔

    ان ترغیبوں کی بدولت فکروں کی پرواز اور ذہنوں کی رسائی سے اُمید زیادہ بڑھ گئی۔ دونوں با کمالوں نے ثابت کر دیا کہ حقیقی اور تحقیقی شاعر ہم ہیں۔ اور ہم ہیں کہ ہر رنگ کے مضمون، ہر قسم کے خیال، ہر ایک حال کا اپنے الفاظ کے جوڑ بند سے ایسا طلسم باندھ دیتے ہیں کہ چاہیں رُلا دیں، چاہیں ہنسا دیں، چاہیں تو حیرت کی مورت بنا دیں۔

    (آزاد کی کتاب آبِ حیات سے انتخاب)