Tag: مرجان

  • ابوظبی: مرجان کی چٹانوں کے لیے بڑا منصوبہ شروع

    ابوظبی: مرجان کی چٹانوں کے لیے بڑا منصوبہ شروع

    ابوظبی: یو اے ای کے دارالحکومت میں مرجان کی چٹانوں کی بحالی کے لیے سب سے بڑے منصوبے کا آغاز کر دیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق ماحولیاتی ایجنسی ابوظبی (ای اے ڈی) کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے چیئرمین شیخ حمدان بن زاید آل نھیان نے مرجان کی 10 لاکھ سے زیادہ کالونیوں کی بحالی کے سب سے بڑے منصوبے کا آغاز کر دیا ہے۔

    شیخ حمدان کا کہنا تھا کہ مرجان کی چٹانوں کو بچانے کا یہ منصوبہ نہایت اہم ہے، کیوں کہ یہ چٹانیں اہم اور پیداواری سمندری رہائش گاہ سمجھی جاتی ہے۔

    مرجان کی چٹانیں ابوظبی میں حیاتیاتی تنوع کی تائید کرتی ہیں اور متعدد اقسام کی مچھلیوں اور سمندری حیات کے لیے ایک قدرتی رہائش گاہ فراہم کرتی ہیں، اس کے علاوہ یہ ساحل کو کٹاؤ سے بچانے کے ساتھ ساتھ ماہی گیری میں بھی مدد کرتی ہیں، ابوظبی میں تفریح اور سیاحتی سرگرمیاں بھی ان کی وجہ سے فروغ پاتی ہیں۔

    شیخ حمدان نے کہا کہ خلیج عرب میں مرجان کی چٹانوں کے لیے سخت ماحولیاتی حالات کے باوجود، خطے میں سمندری حیات کی متعدد اقسام کے لیے یہ موافق رہائش گاہ فراہم کر سکتے ہیں، کیوں کہ یہ نہایت لچک دار ہیں جس کی وجہ سے یہ زیادہ درجہ حرارت سے مطابقت پیدا کر سکتے ہیں۔

    حکام کے مطابق ابوظبی میں متعدد مقامات پر 34 مختلف قسم کے سخت مرجان پائے گئے ہیں، جس میں راس غنڈا، بٹینہ، سعادت اور النوف شامل ہیں، تازہ منصوبے کے تحت سمندر کے فرش پر مرجانی چٹانوں کے لیے نرسریز تیار کی جائیں گی۔

    حکام کا کہنا ہے کہ مرجان (کورل) کی چٹانوں کو درپیش سب سے اہم چیلنج پانی کے درجہ حرارت میں اضافہ ہے، جو تھرمل تناؤ کا مرکب ہوتا ہے، جس کے نتیجے میں کورل بلیچنگ ہوتی ہے۔ یہ تب ہوتا ہے جب پانی بہت زیادہ گرم ہو جاتا ہے، اور مرجان کے ٹشوز میں موجود الجی (کائی) خارج ہونے لگتی ہے، اور مرجان پوری طرح سفید پڑ جاتا ہے، اور اسے کورل بلیچنگ کہا جاتا ہے۔

    حکام کے مطابق 2017 میں ابوظبی نے بڑے پیمانے پر مرجان بلیچ کی وجہ سے اپنی 73 فی صد چٹانیں کو کھو دی تھیں، اسی طرح دنیا نے آسٹریلیا میں گریٹ بیریئر ریف مرجان کی چکنائیوں کا ایک بڑا حصہ بھی کھو دیا تھا۔

    ای اے ڈی کے سروے کے مطابق پچھلے سال کے دوران مرجان کی چکنائی کی صورت حال میں 10 فی صد سے 18 فی صد تک بہتری دیکھی گئی ہے۔ خیال رہے کہ اس منصوبے کا آغاز سمندروں کے عالمی دن کے موقع پر کیا گیا ہے جو ہر سال 8 جون کو منایا جاتا ہے۔

  • چھوٹے بچے نے لاکھوں سال پرانا خزانہ کیسے ڈھونڈا؟

    چھوٹے بچے نے لاکھوں سال پرانا خزانہ کیسے ڈھونڈا؟

    لندن: برطانیہ کے علاقے مغربی مڈلینڈز میں ایک بچے نے لاکھوں سال قدیم خزانہ ڈھونڈ نکالا۔

    تفصیلات کے مطابق مغربی مڈلینڈز کے ایک علاقے میں اسکول جانے والے چھوٹے بچے سدک سنگھ جھامت نے گھر کے باغیچے سے قدیم ترین خزانہ دریافت کر لیا، یہ سینگ کی شکل کا مرجان کا ٹکڑا تھا۔

    میڈیا رپورٹس کے مطابق 6 سالہ سدک سنگھ کو گھر کے باغیچے میں کھدائی کے دوران ہارن کورل ملا ، جو ماہرین کے اندازے کے مطابق 488 ملین سال قدیم ہے۔

    خزانے کی دریافت بالکل اتفاقیہ طور پر ہوئی، سدک سنگھ کو کرسمس پر ایک کٹ تحفے میں ملی تھی جس میں کھدائی کا سامان تھا، وہ اسی کٹ کے ذریعے باغیچے میں کیڑے نکالنے کے لیے کھدائی کر رہا تھا۔

    سدک سنگھ نے اس واقعے سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ وہ باغیچے میں کھدائی میں مصروف تھا کہ اس دوران اسے زمین میں کوئی سخت چیز محسوس ہوئی، وہ سمجھا کہ شاید کوئی پتھر ہوگا۔

    تاہم سدک سنگھ نے کھدائی کر کے جب زمین میں دبا ایک عجیب و غریب ٹکڑا نکالا، تو وہ اسے اپنے والد وِش سنگھ کے پاس لے گیا، وہ بھی اسے دیکھ کر حیران ہو گئے۔

    جلد ہی انھیں معلوم ہوا کہ وہ ٹکڑا دراصل قیمتی پتھر مرجان تھا، سدک کے والد نے بتایا کہ جب اس کی حقیقت معلوم ہوئی تو ہماری خوشی کی انتہا نہ رہی۔

    ان کا کہنا تھا کہ مزید کھدائی کے دوران وہاں سے سمندری گھونگے اور دیگر متعدد ٹکڑے بھی ملے جو فوصل کی شکل میں تھے۔ انھوں نے کہا برطانیہ قدیم زمانے میں مکمل طور پر زیر آب تھا۔

  • مرجان: وہ پتھر جس کا ذکر قرآن اور دیگر آسمانی صحیفوں میں بھی ملتا ہے

    مرجان: وہ پتھر جس کا ذکر قرآن اور دیگر آسمانی صحیفوں میں بھی ملتا ہے

    قرآن میں جن نہایت عمدہ اور خوب صورت اشیا کا ذکر ملتا ہے ان میں سے ایک مرجان بھی ہے جسے بیش قیمت پتھر کہہ سکتے ہیں۔ توریت اور انجیل جیسی آسمانی کتب میں بھی اس پتھر کا ذکر آیا ہے۔

    کہتے ہیں ایک زمانے میں فلسطین کا شہر طائر اس پتھر کی تجارت کے لیے شہرت رکھتا تھا۔ اس کے حصول کے لیے بحرِ روم، بحرِ قلزم اور ہند ایک زمانے میں مشہور تھے۔ بیش قیمت اور نادر پتھروں کے علاوہ خوب صورت اور جاذبِ نظر پتھروں سے بھی زمانۂ قدیم میں بادشاہ اور امرا اپنے تخت و تاج مزین کرتے اور گھروں میں ان کا استعمال کیا جاتا تھا۔

    اس حوالے سے ماہر کاری گروں کی خدمات حاصل کی جاتی تھیں جو اس پتھر کی تراش خراش کے ساتھ اسے مہارت سے جڑنے کا کام کرتے اور اس کی قیمت کے ساتھ اپنے کام میں نفاست اور چابک دستی کی داد بھی پاتے تھے۔ اس سے زیورات تیار کرنے کے علاوہ نشست و پلنگ اور شاہانِ وقت کے زیرِ استعمال دیگر مصنوعات میں جڑا جاتا تھا۔

    یہ مختلف رنگوں کا ہوتا ہے۔ گہرا سرخ رنگ کا مرجان عمدہ و نفیس سمجھا جاتا ہے جب کہ گلابی، سفید اور دیگر رنگوں میں بھی مرجان پایا جاتا ہے۔ اس نگینے سے متعلق جہاں مستند مذہبی حوالے ملتے ہیں، وہیں اس کے بارے میں عجیب و غریب باتیں اور قصے بھی مشہور ہیں۔ یہ قدیم زمانے سے ہی داستانوں کا حصّہ رہا ہے اور اس سے پراسرار باتیں بھی منسوب کی جاتی ہیں۔ تاہم مسلمانوں کے نزدیک یہ اس لیے پاکیزہ و مقدس ہے کہ قرآن میں اس کا ذکر کیا گیا ہے۔

    مرجان کو اس کے خواص اور اس کے بعض اوصاف کی وجہ سے طبیب اور حکما نے مفید بھی بتایا اور کہتے ہیں کہ زمانۂ قدیم میں اسے مختلف امراض میں استعمال بھی کیا جاتا تھا۔

    طبِ یونانی میں خاص طور پر مرجان کو مفید بتایا گیا ہے اور اس حوالے سے کتب میں اس پتھر کے خواص اور امراض سے متعلق ذکر ملتا ہے۔

    طبِ یونانی میں مرجان کو جلا کر اس کی راکھ کو مخصوص طریقے سے بیماریوں کے علاج کے لیے استعمال کرنے کی ہدایت بھی کی جاتی تھی۔

  • مرتی ہوئی مونگے کی چٹانوں کو بچانے کی کوشش

    مرتی ہوئی مونگے کی چٹانوں کو بچانے کی کوشش

    دنیا میں ایسے افراد کی کمی نہیں جو زمین کے سبزے اور اس کی خوبصورتی کو بچانے کے لیے دیوانہ وار کام کر رہے ہیں۔ یہ لوگ پوری دنیا کو، زمین کو لاحق ان مسائل کی طرف متوجہ کرنے کا انوکھا طریقہ ڈھونڈتے ہیں، اور اپنی اس کوشش میں کامیاب بھی رہتے ہیں۔

    ایسا ہی ایک دیوانہ معروف اطالوی پیانو نواز لڈووکو اناڈی تھا جس نے قطب شمالی کے سمندر میں برفانی گلیشیئرز کے سامنے بیٹھ کر پیانو کی پرفارمنس پیش کی۔

    اس پرفارمنس کا مقصد دنیا کو متوجہ کرنا تھا کہ برفانی علاقوں کی برف تیزی سے پگھل کر دنیا کو کن خطرات سے دو چار کرنے والی ہے۔

    لارا جونز بھی ایسی ہی ایک مصورہ ہیں جو اپنے فن پاروں کے ذریعہ دنیا کو مونگے کی بے رنگ ہوتی چٹانوں کی طرف متوجہ کرنا چاہ رہی ہیں۔

    ماہرین کے مطابق دنیا بھر کے سمندروں میں موجود رنگ برنگی مونگے یا مرجان کی چٹانیں اپنی رنگت کھو رہی ہیں جسے بلیچنگ کا عمل کہا جاتا ہے۔

    7

    اعداد و شمار کے مطابق دنیا کی سب سے بڑی رنگ برنگی چٹانوں کا سلسلہ جو گریٹ بیریئر ریف یا عظیم حائل شعب کہلاتا ہے آسٹریلیا کے سمندر میں موجود ہے۔ یہاں موجود ایک تہائی سے زیادہ چٹانیں اپنی رنگت کھو چکی ہیں یا کھو رہی ہیں۔

    یہ دنیا کا واحد سب سے بڑا سمندری ڈھانچہ ہے جو زندہ اجسام نے بنایا ہے اور ان رنگ برنگی چٹانوں کو اربوں ننھے اجسام نے ترتیب دیا ہے جو کورل یعنی مونگے یا مرجان کہلاتے ہیں۔

    سنہ 1981 میں گریٹ بیرئیر ریف کو عالمی ورثہ قرار دیا گیا تھا۔

    6

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ان چٹانوں کی رنگت اڑنے کی وجہ سمندروں کی آلودگی اور عالمی درجہ حرارت میں اضافہ یعنی گلوبل وارمنگ ہے۔ گلوبل وارمنگ کی وجہ سے سمندروں کا پانی بھی گرم ہورہا ہے جس کے باعث یہ چٹانیں بے رنگ ہورہی ہیں۔

    لارا جونز انہی مرتی ہوئی خوبصورت چٹانوں کو اپنے فن پاروں میں پیش کر رہی ہیں۔

    ان کے فن پارے دیکھ کر آپ کو یوں لگے گا جیسے آپ خود سمندر میں موجود ہیں اور اپنی آنکھوں سے ان چٹانوں کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔

    2

    4

    3

    5