Tag: مرجان کی چٹانیں

  • مرجان: وہ پتھر جس کا ذکر قرآن اور دیگر آسمانی صحیفوں میں بھی ملتا ہے

    مرجان: وہ پتھر جس کا ذکر قرآن اور دیگر آسمانی صحیفوں میں بھی ملتا ہے

    قرآن میں جن نہایت عمدہ اور خوب صورت اشیا کا ذکر ملتا ہے ان میں سے ایک مرجان بھی ہے جسے بیش قیمت پتھر کہہ سکتے ہیں۔ توریت اور انجیل جیسی آسمانی کتب میں بھی اس پتھر کا ذکر آیا ہے۔

    کہتے ہیں ایک زمانے میں فلسطین کا شہر طائر اس پتھر کی تجارت کے لیے شہرت رکھتا تھا۔ اس کے حصول کے لیے بحرِ روم، بحرِ قلزم اور ہند ایک زمانے میں مشہور تھے۔ بیش قیمت اور نادر پتھروں کے علاوہ خوب صورت اور جاذبِ نظر پتھروں سے بھی زمانۂ قدیم میں بادشاہ اور امرا اپنے تخت و تاج مزین کرتے اور گھروں میں ان کا استعمال کیا جاتا تھا۔

    اس حوالے سے ماہر کاری گروں کی خدمات حاصل کی جاتی تھیں جو اس پتھر کی تراش خراش کے ساتھ اسے مہارت سے جڑنے کا کام کرتے اور اس کی قیمت کے ساتھ اپنے کام میں نفاست اور چابک دستی کی داد بھی پاتے تھے۔ اس سے زیورات تیار کرنے کے علاوہ نشست و پلنگ اور شاہانِ وقت کے زیرِ استعمال دیگر مصنوعات میں جڑا جاتا تھا۔

    یہ مختلف رنگوں کا ہوتا ہے۔ گہرا سرخ رنگ کا مرجان عمدہ و نفیس سمجھا جاتا ہے جب کہ گلابی، سفید اور دیگر رنگوں میں بھی مرجان پایا جاتا ہے۔ اس نگینے سے متعلق جہاں مستند مذہبی حوالے ملتے ہیں، وہیں اس کے بارے میں عجیب و غریب باتیں اور قصے بھی مشہور ہیں۔ یہ قدیم زمانے سے ہی داستانوں کا حصّہ رہا ہے اور اس سے پراسرار باتیں بھی منسوب کی جاتی ہیں۔ تاہم مسلمانوں کے نزدیک یہ اس لیے پاکیزہ و مقدس ہے کہ قرآن میں اس کا ذکر کیا گیا ہے۔

    مرجان کو اس کے خواص اور اس کے بعض اوصاف کی وجہ سے طبیب اور حکما نے مفید بھی بتایا اور کہتے ہیں کہ زمانۂ قدیم میں اسے مختلف امراض میں استعمال بھی کیا جاتا تھا۔

    طبِ یونانی میں خاص طور پر مرجان کو مفید بتایا گیا ہے اور اس حوالے سے کتب میں اس پتھر کے خواص اور امراض سے متعلق ذکر ملتا ہے۔

    طبِ یونانی میں مرجان کو جلا کر اس کی راکھ کو مخصوص طریقے سے بیماریوں کے علاج کے لیے استعمال کرنے کی ہدایت بھی کی جاتی تھی۔

  • فائنڈنگ نیمو کی ’نیمو‘ گمشدہ ہونے کے قریب

    فائنڈنگ نیمو کی ’نیمو‘ گمشدہ ہونے کے قریب

    فائنڈنگ نیمو سنہ 2003 میں آنے والی اینی میٹڈ فلم تھی جس نے بچوں اور بڑوں سب کو اپنا دیوانہ بنا لیا۔ فلم میں نیمو نامی ایک مچھلی کھوجاتی ہے جس کے بعد اس کا باپ اسے ڈھونڈنے کی طویل جدوجہد پر نکلتا ہے۔

    لیکن آپ کو یہ جان کر سخت مایوسی ہوگی کہ حقیقت میں پائی جانے والی اس نسل کی نیمو مچھلی تیزی سے معدومی کے خطرے کی جانب بڑھ رہی ہے۔

    ماہرین کے مطابق گہرے سمندروں میں پائی جانے والی گہرے رنگوں کی یہ دھاری دار مچھلی نہایت خطرے کا شکار ہے۔

    یہ خطرہ براہ راست ان مچھلیوں کو نہیں بلکہ ان کے گھروں یا پناہ گاہوں کو ہے جنہیں اینے من کہا جاتا ہے۔ یہ گہرے رنگوں اور پتوں سے گھرا ہوا ایک مقام ہوتا ہے جو عموماً رنگ برنگی مونگے یا مرجان کی چٹانوں کے قریب واقع ہوتا ہے جو پہلے ہی تباہی کی زد میں ہیں۔

    نیچر کمیونیکیشنز نامی جریدے میں شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق بڑھتا ہوئے درجہ حرارت یعنی گلوبل وارمنگ سمندروں کو بھی گرم کر رہا ہے جس کی وجہ سے یہ رنگ برنگی چٹانیں اپنا رنگ کھو رہی ہیں۔

    ماہرین کے مطابق ان کے رنگ اور مخصوص ماحول یہاں رہنے والی آبی حیات کے لیے نہایت ضروری ہیں کیونکہ یہی رنگ ان آبی حیات کو رنگ، آکسیجن اور غذا فراہم کرتے ہیں۔

    نیمو مچھلی، جسے اینے من مچھلی کہا جاتا ہے ان ہی رنگ برنگی مونگے کی چٹانوں کے اندر رہتی ہیں، یہیں وہ انڈے دیتی ہیں اور اپنے ننھے بچوں کی پرورش بھی کرتی ہیں۔

    تحقیق کے مطابق اس کا سب سے گہرا اثر اس وقت پڑا جب ایل نینو شروع ہوا جو سال 2015 سے 2016 کے وسط تک رہا۔ ایل نینو بحر الکاہل کے درجہ حرارت میں اضافہ کو کہتے ہیں جس کے باعث پوری دنیا کے موسم پر منفی اثر پڑتا ہے۔

    ایل نینو ختم ہونے کے بعد دیکھا گیا کہ نہ صرف مونگے کی چٹانیں بلکہ ان کے اندر رہنے والی نیمو مچھلیاں بھی اپنی رنگت کھو بیٹھی تھیں اور سفید ہوگئی تھیں۔

    مچھلیوں کے خون کے نمونوں کی جانچ سے علم ہوا کہ اس عمل سے مچھلیوں کی زرخیزی کی صلاحیت میں بھی کمی واقع ہوئی اور ان کی نسل میں کمی کا خدشہ پیدا ہوگیا۔

    گو کہ ایل نینو ختم ہونے کے بعد مچھلیوں کی صحت 3 سے 4 ماہ کے اندر دوبارہ بحال ہونا شرع ہوگئی، تاہم ماہرین کے مطابق یاد رہے کہ گلوبل وارمنگ اور اس کے باعث مونگے کی چٹانوں کی بلیچنگ کا عمل بھی جاری ہے لہٰذا اس بات کا خدشہ موجود ہے کہ نیمو مچھلیاں بہت جلد سچ مچ گمشدہ ہوجائیں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔