Tag: مردم شماری

  • 2017 کی مردم شماری نتائج کے اعداد و شمار جاری

    2017 کی مردم شماری نتائج کے اعداد و شمار جاری

    اسلام آباد: وزارت منصوبہ بندی نے 2017 میں ہونے والی مردم شماری کے نتائج کے اعداد و شمار جاری کر دیے۔

    تفصیلات کے مطابق وزارت منصوبہ بندی نے اعلامیے میں کہا ہے کہ 2017 مردم شماری کے مطابق پاکستان کی آبادی 20 کروڑ 77 لاکھ ہے۔

    اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ 2017 مردم شماری کے مطابق پنجاب کی آبادی کل آبادی کی 52.9 فی صد تھی، سندھ کی آبادی کل آبادی کی 23 فی صد تھی، خیبر پختون خوا کی آبادی کل آبادی کی 14.6 فی صد، بلوچستان کی آبادی کل آبادی کی 5.9 فی صد، فاٹا کی آبادی کل آبادی کی 2.4 فی صد، جب کہ اسلام آباد کی آبادی کل آبادی کی 0.96 فی صد تھی۔

    مشترکہ مفادات کونسل کا فوری نئی مردم شماری کرانے کا فیصلہ

    2017 مردم شماری کے مطابق ملک بھر میں مردوں کی تعداد 10 کروڑ 60 لاکھ تھی، جب کہ خواتین کی تعداد 10 کروڑ 13 لاکھ تھی، 1998 کے مقابلے میں 2017 میں آبادی میں اضافے کا تناسب 2.40 فی صد تھا۔

    ایک مربع کلومیٹر کے حساب سے زیادہ آبادی اسلام آباد میں 2 ہزار 211 افراد تھی، جب کہ سب سے کم آبادی بلوچستان میں 35 افراد تھی۔

    مشترکہ مفادات کونسل نے مردم شماری کے نتائج جاری کرنے کی منظوری دیدی

    2017 مردم شماری کے مطابق 53 فی صد آبادی 15 سے 64 سال کی عمر کے درمیان تھی، 40 فی صد آبادی 15 سال سے کم عمر تھی، 63 فی صد آبادی دیہی علاقوں میں رہائش پذیر ہے، جب کہ 36 فی صد آبادی شہری علاقوں میں رہائش پذیر ہے۔

  • صوبوں کا مردم شماری سے متعلق حتمی فیصلے پر اتفاق نہ ہو سکا

    صوبوں کا مردم شماری سے متعلق حتمی فیصلے پر اتفاق نہ ہو سکا

    اسلام آباد: صوبے مردم شماری سے متعلق کسی حتمی فیصلے پر نہ پہنچ سکے۔

    تفصیلات کے مطابق مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں بدھ کو مردم شماری سے متعلق کسی فیصلے پر اتفاق نہ ہو سکا۔

    وزیرا عظم کی زیر صدارت مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں کونسل کے مستقل سیکریٹریٹ کی منظوری دے دی گئی، مردم شماری کے نتائج جاری کرنے کے معاملے پر پیر کو دوبارہ اجلاس بلانے کا فیصلہ کیا گیا۔

    چار گھنٹے جاری رہنے والے اجلاس میں چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ سمیت وفاقی وزرا اور اعلیٰ حکام نے شرکت کی، اجلاس میں مردم شماری کے نتائج جاری کرنے معاملے پر تفصیلی بات ہوئی۔

    پنجاب اور خیبر پختون خوا نے مردم شماری کے نتائج جاری کرنے، جب کہ وزیر اعلیٰ سندھ نے مردم شماری کے نتائج جاری کرنے کے معاملے کو نئی مردم شماری سے جوڑنے کا مطالبہ کیا۔ وزیر اعلیٰ بلوچستان نے مردم شماری کے نتائج سے متعلق وقت مانگ لیا، جس کے بعد مردم شماری کے معاملے پر مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس سوموار کو دوبارہ طلب کر لیا گیا ہے۔

    مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں نیپرا کی جانب سے بتایا گیا کہ سندھ میں لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کے لیے صوبے کو 3800 میگا واٹ اضافی بجلی دی جائے گی۔ جب کہ وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال نے بڑھتی ہوئی آبادی کے پیش نظر بلوچستان میں بجلی کی ایک اور تقسیم کار کمپنی قائم کرنے کا مطالبہ کیا۔

    مشترکہ مفادات کونسل نے درآمد شدہ ایل این جی کے ریٹ طے کرنے سے متعلق تجویز کی منظوری دی، جب کہ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ وفاق ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے معاملات طے کرے گا، صوبائی فوڈ اتھارٹیز کے معیار بھی پی ایس کیو سی ایس وفاق طے کرے گا۔

    اجلاس میں مردم شماری میں ٹیکنالوجی کے استعمال کی تجاویز بھی سامنے آئیں۔

  • الیکشن کمیشن نے وفاق کو مردم شماری کی سرکاری اشاعت کا حکم دے دیا

    الیکشن کمیشن نے وفاق کو مردم شماری کی سرکاری اشاعت کا حکم دے دیا

    کراچی: سندھ میں بلدیاتی انتخابات کی تیاریاں کی جا رہی ہیں، ایسے میں الیکشن کمیشن نے حلقہ بندیوں پر حکومت سندھ اور پیپلز پارٹی کے مؤقف پر ایکشن لے لیا۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق الیکشن کمیشن آف پاکستان نے وفاقی حکومت کو حکم دے دیا ہے کہ جلد از جلد مردم شماری کی سرکاری اشاعت کی جائے۔ اس سلسلے میں الیکشن کمیشن نے وزارتِ پارلیمانی امور اور وزارتِ قانون کو احکامات جاری کر دیے۔

    قبل ازیں، چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی زیر صدارت اجلاس میں حکومت سندھ، پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کی پٹیشنز پر غور کیا گیا، اجلاس میں مردم شماری کے سرکاری اعداد و شمار کی اشاعت اور سندھ میں حلقہ بندیوں کے معاملے کو دیکھا گیا۔

    الیکشن کمیشن کا کہنا تھا کہ آبادی کے اعداد و شمار حلقہ بندیوں کے لیے بنیادی جز ہیں، اس لیے حلقہ بندیوں کے لیے 2017 کی مردم شماری کی سرکاری اشاعت ضروری ہے۔

    احکامات پر عمل درآمد کے لیے الیکشن کمیشن نے متعلقہ حکام کو مراسلے بھی جاری کر دیے۔

    الیکشن کمیشن نے سندھ میں بلدیاتی حلقہ بندیوں کیلئے کمیٹیوں کا اعلان کر دیا

    یاد رہے کہ 2 ستمبر کو الیکشن کمیشن نے سندھ میں بلدیاتی حلقہ بندیوں کے لیے کمیٹیوں کا اعلان کیا تھا، یوسیز، یونین کمیٹیز اور وارڈز کی نئی حلقہ بندیوں کے بعد سندھ میں بلدیاتی الیکشن کا انعقاد کیا جانا ہے۔

    الیکشن کمیشن کا کہنا تھا کہ 9 سے 22 ستمبر تک سندھ بھر میں بلدیاتی حلقہ بندیوں کو مکمل کیا جائے گا، 23 ستمبر کو سندھ میں ابتدائی حلقہ بندیاں آویزاں کی جائیں گی اور اس کے بعد بلدیاتی انتخابات کے شیڈول کا اعلان ہوگا۔

  • سندھ حکومت نے وفاق سے مردم شماری کا ڈیٹا مانگ لیا

    سندھ حکومت نے وفاق سے مردم شماری کا ڈیٹا مانگ لیا

    کراچی: سندھ حکومت نے غربت کم کرنے کے ایک پروگرام کے تحت وفاق سے مردم شماری کا ڈیٹا مانگ لیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سندھ حکومت نے مردم شماری ڈیٹا کے لیے وفاقی ادارہ شماریات کو خط لکھ کر کہا ہے کہ صوبے میں غربت پر قابو پانے کے لیے سماجی تحفظ اور معاشی استحکام کا پروگرام متعارف کرایا جا رہا ہے، جس کے لیے مردم شماری ڈیٹا درکار ہے۔

    خط میں کہا گیا ہے کہ سندھ حکومت نے آئندہ مالی سال کے بجٹ میں ‘غریب پرور، سماجی تحفظ اور معاشی استحکام انیشی ایٹو’ متعارف کرایا ہے جس میں شہری علاقوں میں غربت کے خاتمے کے پروگرام کے لیے 3 ارب روپے رکھے گئے ہیں، جب کہ دیہی علاقوں میں چھوٹے کاشت کاروں کے لیے غربت کے خاتمے کے پروگرام کے لیے 2 ارب روپے تجویز کیے گئے ہیں۔

    خط میں کہا گیا کہ اس تناظر میں ادارہ شماریات سے درخواست ہے کہ آبادی کی تفصیلات، شہری، دیہی آبادی کا بلاک وائز ڈیٹا اور نقشہ جات فراہم کیے جائیں، سندھ حکومت کی جانب سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ مطلوبہ ڈیٹا صوبائی شماریات دفتر کے ذریعے فراہم کیا جائے۔

    سندھ حکومت نے خط میں لکھا ہے کہ آبادی کے اعداد و شمار سماجی پروگرام کے لیے مدد گار ہوں گے۔ خط میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ وزیر اعلیٰ سیکریٹریٹ میں قائم سوشل پروٹیکشن اسٹریٹجک یونٹ (ایس پی ایس یو) کو تمام تفصیلات فوری فراہم کی جائے۔

  • مادری زبان

    مادری زبان

    دروازے کے اِدھر اُدھر نظر ڈالی گھنٹی کا کوئی سوئچ نہیں تھا۔ لہٰذا ہولے سے دروازہ کھٹکھٹایا۔ کوئی آواز نہیں۔ پھر دوبارہ اور زور سے….. اور زور سے…..؟

    ’’کون ہے‘‘…..؟ چیختی ہوئی ایک آواز سماعت سے ٹکرائی۔ آواز اوپر سے آئی تھی۔

    میں نے گردن اٹھائی لیکن کوئی نظر نہیں آیا۔

    ذرا نیچے تشریف لائیے، سینسس کے لیے آئی ہوں۔ میں نے بھی تقریباً چلّاتے ہوئے جواب دیا، لیکن میرا چلّانا بیکار ہی گیا۔

    ’’ارے کون ہے؟‘‘ پھر آواز آئی۔

    ’’جی میں….. دروازہ کھولیے ذرا… سینسس کے لیے آئی ہوں۔ میں نے ذرا اور اونچی آواز میں کہا۔ نیچے تو آئیے ‘‘

    ’’کاہے کے لیے‘‘؟

    مردم شماری کے لیے۔ زور سے بولنے کے سبب میرے گلے میں دھنسکا لگ گیا تھا، پھر بھی میں نے اپنی آنکھیں کھڑکی پر جمائے رکھیں۔

    اوپر کھڑکی سے باہر ایک خاتون نے گردن نکال کر سوالیہ نظروں سے مجھے دیکھا۔ تو میں پھر بولی ’’برائے مہربانی نیچے تشریف لائیں گی یا میں ہی اوپر آجاؤں؟‘‘

    بغیر کوئی جواب دیے اس خاتون کا چہرہ کھڑکی سے ہٹ چکا تھا۔ کئی منٹ گزر جانے کے بعد بھی نہ کوئی جواب ملا اور نہ ہی دروازہ کھلا۔

    اپنا چہرہ اوپر کیے کیے اب میری گردن تھک چکی تھی۔ میں نے ہمت کر کے پھر دروازے پر دستک دی۔ اچانک کھٹ پٹ کی تیز آواز سنائی دی تو مجھے یقین ہوا کوئی آرہا ہے۔

    دروازے کے پٹ ایک ساتھ جھٹکے سے کھل گئے۔ ایک بچی نمودار ہوئی تقریباً سات آٹھ برس کی۔ اپنے پیروں سے کئی گنا بڑے چپل اس کے پیروں سے پیچھے نکل رہے تھے۔

    کیا بات ہے؟ کس سے ملنا ہے؟

    ’’بیٹا کسی بڑے کو بھیجیے نا۔ بہت ساری معلومات لکھنا ہے۔‘‘

    ’’کوئی ہے نہیں‘‘ اس نے دو ٹوک جواب دیا۔

    ’’لیکن وہ جو ابھی کھڑکی سے بول رہی تھیں ان کو بھیجیے نا۔

    ’’کون ہیں وہ؟‘‘

    ’’امی۔‘‘

    ’’تو پھر انہیں بھیجیے بیٹا۔‘‘

    ’’وہ کام کررہی ہیں۔‘‘

    ’’تو کسی اور کو۔ کسی بڑی بہن کو، بھائی کو، ابا کو، یا پھر امی سے پوچھیے میں اوپر آجاؤں؟‘‘ ضروری کام ہے یہ بیٹا۔‘‘

    ’’جائیے پوچھ کر آئیے بیٹا پلیز، دیر ہورہی ہے۔‘‘

    وہ اپنی جگہ سے ٹس سے مس نہ ہوئی بلکہ ایک اور لڑکی زینہ طے کرتی ہوئی نیچے آئی۔ تقریباً پندرہ سولہ برس کی۔

    ’’کیا بات ہے؟‘‘

    ’’بیٹا مردم شماری کرنا ہے۔‘‘

    ’’جی کیا کرنا ہے؟‘‘

    ’’مردم شماری… سینسس… گھر کے لوگوں کے نام لکھنا ہیں۔ جَن گڑنا ہے جَن گڑنا۔‘‘

    ’’اچھا تو کرئیے۔‘‘

    ’’یہیں۔‘‘ میں نے اپنا سامان کا پلندہ سنبھالتے ہوئے اپنی بے چارگی اور پریشانی کا احساس دلانا چاہا۔

    چھوٹی لڑکی نے شاید اوپر جاکر میرے کام کی اطلاع کردی تھی۔

    ’’باجی امی بلا رہی ہیں۔‘‘ یہ وہی لڑکی تھی جس نے دروازہ کھولا تھا، زینے کی اوپری سیڑھی سے جھانک کر بہن کو بلا رہی تھی۔

    موقع کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے میں نے بیگ کندھے پر لٹکایا گُھٹنے پر رجسٹر ٹکا کر فارم پھیلا دیا اور فوراً ضروری معلومات بھرنا شروع کردیں۔

    ’’اپنے والد کا نام بتائیے بیٹا۔‘‘

    ’’امام الدین۔‘‘

    ’’عمر کتنی ہوگی؟‘‘

    وہ سوچ میں پڑگئی۔’’امی نیچے آؤ۔۔۔۔‘‘ اس نے چلاّتے ہوئے آواز لگائی۔ کئی منٹ گزر گئے نیچے کوئی نہیں آیا۔

    ’’کتنے بہن بھائی ہو؟ ‘‘میں نے اس کے باپ کی عمر کا حساب لگانے کی غرض سے دریافت کیا۔

    ’’گیارہ…..‘‘

    ’’بڑا کون ہے؟ بھائی یا بہن؟‘‘

    ’’بھائی‘‘

    ’’شادی؟‘‘

    ’’ہوگئی۔‘‘

    ’’یہیں رہتے ہیں کیا؟‘‘

    ’’ہاں۔‘‘

    ’’کتنے سال ہوئے شادی کو؟‘‘

    ’’چار پانچ سال۔‘‘ اس نے سوچتے ہوئے جواب دیا۔

    ’’بچے کتنے ہیں بھائی کے؟‘‘

    ’’دو۔۔۔۔‘‘

    میں نے حساب لگایا کہ اگر بیس برس کی عمر میں بیٹے کی شادی ہوئی تو اس وقت بیٹا پچیس برس کا ہوا تب باپ کی عمر تقریباً پینتالیس کی تو ضرور ہوگی۔

    ’’بیٹا پینتالیس برس لکھ دوں؟‘‘

    ’’جی لکھ دیجیے۔ اچھا ابھی رک جائیے۔ امی کو بلاتی ہوں۔

    ’’تعلیم والد کی؟‘‘

    ’’جی۔‘‘

    ’’میرا مطلب ہے آپ کے والد کتنا پڑھے لکھے ہیں۔ آٹھویں، دسویں، بارہویں یا پھر کچھ نہیں؟‘‘

    ’’پڑھے ہوئے نہیں ہیں۔‘‘ ’’تھوڑا بہت بس گھریلو‘‘

    ’’کیا کام کرتے ہیں؟‘‘

    ’’ویلڈنگ۔‘‘

    ’’ملازم ہیں یا مالک؟‘‘

    ’’کیا ان کا اپنا کام ہے؟‘‘

    ’’ہاں اپنا کارخانہ ہے۔‘‘

    ’’کاہے سے جاتے ہیں؟ سائیکل، موٹر سائیکل، کار یا بس؟‘‘

    ’’اسکوٹر ہے‘‘ لڑکی نے جواب دیا۔

    ’’کارخانہ کہاں ہے ان کا؟‘‘

    ’’گاندھی نگر۔‘‘

    یعنی تقریباً پچیس کلومیٹر میں نے اندازہ لگایا۔ ایک شخص کے انتالیس کالم پورے کرنے کے بعد بیوی اور پھر گیارہ بچوں، بہو اور ان کے بچوں سمیت تیرہ افراد کا نام اور تفصیلات جس میں دادی بھی شامل ہے، درج کرتے کرتے تقریباً آدھا گھنٹہ بیت چکا تھا اور میں دروازے پر کھڑے کھڑے کبھی ایک گھٹنے پر فارم رکھتی کبھی دوسرے پر۔ کمر درد سے دہری ہوئی جارہی تھی۔ تبھی ایک خاتون غصہ سے بپھرتی ہوئی زینہ کی اوپری سیڑھی سے چلّائی۔

    ’’اری او کمبخت اوپر آ۔ کیا کررہی ہے۔‘‘

    ’’امی آبھی آئی۔ نام لکھوا رہی ہوں۔

    ’’کاہے کا نام؟ کس کا نام؟ میں نے منع کیا تھا نا؟ تیرے باپ گھر میں نہیں ہیں، واپس بھیج دے۔ ہمیں کیا پتہ کیا لکھوانا ہے۔‘‘

    ’’جی میں کوئی بھی ایسی بات نہیں لکھ رہی ہوں جس سے آپ پریشان ہوں۔ بچی سمجھدار ہے۔ پڑھی لکھی ہے۔ اس نے سب کچھ لکھوا دیا ہے۔ بس دو چار کالم رہ گئے ہیں۔ وہ صرف آپ ہی لکھوا سکتی ہیں۔ ذرا نیچے آجائیے۔ میں نے اپنا کام روک کر ان صاحبہ کی طرف گردن اٹھا کر بڑی نرمی سے درخواست کی۔

    ’’زبان میں کیا لکھوایا ہے تُو نے؟‘‘ خاتون نے میری بات کا جواب دیے بغیر سیڑھیاں اترتے ہوئے بیٹی سے پوچھا۔

    ’’جی اردو لکھ دیا ہے۔ میں نے انہیں تسلی دیتے ہوئے ذرا مسکرا کر جواب دیا۔

    ’’کیوں اردو کیوں لکھا؟ عربی لکھو‘‘ وہ بگڑ گئی۔

    ’’عربی؟ لیکن کیوں؟‘‘

    ’’زبان کا مطلب مادری زبان۔ آپ کی مادری زبان اردو ہے اردو لکھوائیے۔‘‘

    ’’اردو کیوں ہوتی؟ عربی لکھو۔‘‘ خاتون کے تیور چڑھ گئے۔

    ’’لیکن آپ بول تو اردو رہی ہیں۔‘‘

    ’’ہاں بول رہے ہیں۔ مرضی ہماری۔ لیکن تم عربی لکھو۔‘‘

    ’’آپ عرب سے آئی ہیں کیا؟‘‘

    ’’عرب سے کیوں آتے؟‘‘ وہ زینے کی سیڑھی پر بیٹھتے ہوئے بولی۔

    ’’دیکھیے اس میں درست لکھنا ہے۔‘‘ میں نے پھر مادری زبان کا مطلب بہت محبت سے سمجھانے کی کوشش کی۔

    ’’تو پھر عربی لکھو کہہ تو دیا۔ تم کیسی پڑھی لکھی ہو۔‘‘

    آپ عربی بول کر دکھائیے مجھے، میں واقعی عربی لکھ دوں گی۔

    ’’کیوں بولیں…یں…یں۔؟‘‘ اس نے بولیں پر زیادہ زور دیا۔ ’’تمہیں نہیں لکھنا تو پھر جاؤ۔‘‘ ہمارا وقت خراب مت کرو۔

    میں نے دیکھا چھوٹے بڑے چھے سات بچے اب تک میرے اردگرد جمع ہوچکے تھے۔ جن میں سے کئی گلی کے تھے یا پھر شاید اسی گھرانے کے۔ ان میں سے کسی ایک لڑکی نے الحمد کی سورت پڑھنا شروع کی تو وہ فوراً چہکی۔

    ’’بولی کہ نہیں بولی۔ اب تو بولی نہ عربی؟‘‘

    ’’اچھا جناب ٹھیک ہے آپ ناراض نہ ہوں میں عربی ہی لکھ دوں گی۔‘‘ میں نے اسی میں عافیت جانی۔

    لیکن اب بساط پلٹ چکی تھی۔ وہ بری طرح بگڑ گئی۔

    ’’ہمارے پاس فالتو وقت ہے کیا؟ تمہارے نوکر ہیں کیا؟ ہمیں کیا فائدہ؟‘‘

    اس میں آپ کا بہت فائدہ ہے۔ آپ میری بات کا یقین کیجیے۔ آپ ہندوستان میں رہتی ہیں تو اس کا اندراج بھی ضروری ہے۔ آپ سمجھدار خاتون ہیں۔‘‘ میں نے انہیں سمجھایا۔

    ’’چالیس برس سے رہتے ہیں۔ کون نکالے گا ہمیں۔‘‘

    ’’ارے نہیں۔ خدا نہ کرے۔ میں ایسا تھوڑے کہہ رہی ہوں۔ یہ تو ملک ہے آپ کا۔ میں نے پھر سمجھانا چاہا۔

    ’’بس دو چار خانے ہی رہ گئے ہیں ابھی ہوئے۔ یہ بتائیے آپ کی اور آپ کے شوہر کی پیدائش کہاں کی ہے؟‘‘

    ’’پہلے اردو کی جگہ عربی لکھو۔‘‘

    ’’جی لکھ رہی ہوں۔ یہ دیکھیے۔‘‘

    ’’امی اردو ٹھیک ہے۔‘‘ بیٹی بولی۔

    ’’چپ کمینی— تجھے کیا پتہ۔‘‘

    بیٹی شرمندہ سی ہوکر خاموش ہوگئی۔

    آپ نے بتایا نہیں آپ کی اور آپ کے شوہر کی پیدائش کہاں کی ہے؟ ذرا راشن کارڈ دکھا دیجیے اپنا اور آئی کارڈ بھی۔ پہچان پتر تصویر والا۔‘‘

    ’’کیوں؟ اس کا کیا کروگی؟

    چیک کرنا ہے۔ اگر ہے تو دکھا دیجیے نہیں ہے تو بھی بتا دیجیے۔‘‘

    ’’نہیں ہے تو کیا کرو گی؟‘‘

    ’’تو میں اس فارم میں لکھ دوں گی۔ پھر آپ کا دوسرا بن جائے گا۔‘‘

    تو لکھ دو نہیں ہے۔ پتہ نہیں کہاں رکھا ہے، ہم کہیں رکھ کر بھول گئے۔

    ’’راشن کارڈ تو دکھا دیجیے۔‘‘

    ’’ان کے باپ کے پاس ہے۔‘‘

    برائے مہربانی تلاش کرلیں۔ سرکاری کام ہے یہ۔ میں انتظار کرتی ہوں۔

    ’’ارے تم تو پیچھے ہی پڑگئی ہو۔ نہ جانے کیا کیا لکھ لیا اور کیا کیا لکھو گی؟ اب بس بھی کرو۔ بہت ہو گیا۔‘‘

    ’’آپ سمجھ نہیں رہی ہیں۔ یہ آپ کا ہی کام ہے۔ آپ میری مدد کیجیے۔ آپ ہی کا فائدہ ہے۔‘‘

    ’’کیا فائدہ ہے ہمارا؟ نوکری دلوا دو گی ہمارے بچوں کو؟ بولو… گھر دلوا دو گی؟ زمین دلوا دو گی؟ فائدہ فائدہ…..‘‘ اس نے تقریباً منہ چڑاتے ہوئے کہا۔

    دیکھیے میں نے اتنا وقت لگایا ہے۔ سترہ لوگوں کے فارم بھرے ہیں۔ ان کے تمام کالم پورے کیے ہیں۔ بس ذرا سی دیر اور لگے گی۔ برائے مہربانی یہ بتائیے آپ کے کل گیارہ ہی بچے پیدا ہوئے ہیں۔ کوئی…..‘‘ میں نے اس کی تیوری چڑھی دیکھ کر سوال ادھورا چھوڑ دیا۔’’

    اچھا یہ بتائیے سب بچے ماشاء اللہ ٹھیک ٹھاک صحت مند ہیں نا؟ دیکھیے اس میں ایک خانہ ایسا ہے جس میں پوچھا ہے خدا نہ کرے کوئی بچہ پاگل یا اپاہج وغیرہ تو نہیں ہے؟‘‘ یہ سرکار بھی نہ معلوم کیا کیا پوچھتی ہے۔ میں نے اس کے غصہ سے بچنے کی غرض سے سرکار کو برا بھلا کہنا شروع کردیا۔

    ’’پاگل ہوگی تم! اپاہج ہوگی تم! ہمارے آدمی گنتی ہو۔ تمہارا کھاتے ہیں کیا۔ ہائے ڈالو گی۔ اتنی دیر سے کیا سترہ سترہ کی رٹ لگا رکھی ہے۔ رستہ لو اپنا… اے لو… ہمارے بچوں کو اپاہج پاگل کیا کیا بنا ڈالا— پڑھی لکھ ہو تم؟ بہت ہو گیا، بس جاؤ۔ ہمیں اب نہ کچھ بتانا نہ لکھوانا جو مرضی آئے کرلو‘‘

    ’’آپ غلط سمجھ رہی ہیں محترمہ۔ میرا یہ مطلب ہرگز نہیں تھا۔ معاف کیجیے گا۔‘‘

    ’’سمجھ گئے ہم تمہارا مطلب۔‘‘ وہ اٹھتے ہوئے بولی۔

    ’’چل ری چل اوپر….. یہ سب تیرا ہی کیا دھرا ہے۔ منع کیا تھا میں نے۔۔۔۔‘‘ اس نے بیٹی کو پھٹکارا۔

    ’’سنیے تو— میری بات تو سنیے….. اس نے دھڑام سے میرے منہ پر دروازے کے دونوں پٹ بند کردیے۔ گھٹنے سے رجسٹر پھسل کر نیچے گر گیا۔ اور کاغذات اِدھر اُدھر پھیل گئے۔ کچھ اُڑ کر نالی میں چلے گئے۔ مارے غصے کے میرا سر بھنّانے لگا۔ دل چاہا کہ سارے کاغذات پھاڑ کر….. لیکن میں ایسا کچھ نہیں کرسکی کیوں کہ معاملہ مادری زبان کا تھا!

    اس افسانے کی خالق نگار عظیم ہیں، مادری زبانوں کے عالمی دن پر یہ انتخاب آپ کے ذوقِ مطالعہ کی نذر ہے

  • 30 سال میں ہماری آبادی دگنی ہو جائے گی، علما سے مدد کی اپیل

    30 سال میں ہماری آبادی دگنی ہو جائے گی، علما سے مدد کی اپیل

    اسلام آباد: قومی اسمبلی اجلاس میں انکشاف کیا گیا ہے کہ آیندہ 30 برسوں میں ہماری آبادی بڑھ کر دگنی ہو جائے گی۔

    تفصیلات کے مطابق قومی اسمبلی اجلاس کے دوران پارلیمانی سیکریٹری برائے صحت ڈاکٹر نوشین نے کہا کہ 30 سال میں ہماری آبادی دگنی ہو جائے گی، جب کہ جنوبی ایشیا میں ایسا 60 برس میں ہوگا۔

    پارلیمانی سیکریٹری نے بتایا کہ وزیر اعظم عمران خان اس معاملے پر خصوصی توجہ دے رہے ہیں، ماضی کی حکومت نے آبادی کو کنٹرول کرنے کے لیے کچھ نہیں کیا۔ ڈاکٹر نوشین کا کہنا تھا کہ آبادی کنٹرول کرنے کے لیے علما کے تعاون کی بھی ضرورت ہے، ہم آبادی کے سلسلے میں عالمی معاہدوں کی پاس داری کریں گے۔

    یاد رہے کہ رواں سال جون میں یو این رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ عالمی آبادی 2050 تک تقریباً 2 ارب ہو جائے گی، جب کہ پاکستان کی موجودہ آبادی کا نصف حصہ 2050 میں دگنا ہو جائے گا، خیال رہے کہ عالمی آبادی اس وقت 7 ارب 70 کروڑ ہے جو 2050 تک تقریباً 9 ارب 70 کروڑ تک پہنچ جائے گی، جب کہ پاکستان کی موجودہ آبادی 21 کروڑ 70 لاکھ نفوس پر مشتمل ہے۔

    یاد رہے کہ 2017 میں پاکستان میں چھٹی مردم شماری کرائی گئی تھی، جس کے مطابق پاکستان کی آبادی 13 کروڑ 23 لاکھ سے بڑھ کر21 کروڑ 70 لاکھ ہو گئی ہے جب کہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان سمیت یہ آبادی 21 کروڑ 90 لاکھ تک پہنچ جاتی ہے، آبادی میں 1998 سے 2017 تک 7 کروڑ 87 لاکھ سے زائد افراد کا اضافہ ہوا۔

  • کچھ افراد فوج کےاہلکاربن کرلوگوں کوجعلی کالزکررہے ہیں‘ آئی ایس پی آر

    کچھ افراد فوج کےاہلکاربن کرلوگوں کوجعلی کالزکررہے ہیں‘ آئی ایس پی آر

    راولپنڈی : آئی ایس پی آر نے مفاد عامہ کے لیے آگاہی مہم کےحوالے سے اپنے پیغام میں کہا ہے کہ کچھ افراد فوج کے اہلکاربن کرلوگوں کوجعلی کالزکررہے ہیں، ایسے افرد کو ذاتی معلومات ہرگز فراہم نہ کیں جائیں۔

    پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ چند حلقے مسلح افواج کے اہلکار بن کرلوگوں کوکالز کررہے ہیں۔

    آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ مردم شماری کے نام پر اس قسم کی کالزبھی جعلی ہیں، کسی کوبھی ذاتی، اہم معلومات ہرگزفراہم نہ کی جائیں۔

    پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے مطابق شناختی کارڈ، بینک اکاؤنٹ ودیگرمعلومات دینے سے گریزکیا جائے جبکہ عوام ایسی کالزآنے پر1135 اور1125 پرفوری اطلاع دیں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • مخالفین ووٹ کےبجائےسازش سےاقتدارمیں آنا چاہتے ہیں‘ سعد رفیق

    مخالفین ووٹ کےبجائےسازش سےاقتدارمیں آنا چاہتے ہیں‘ سعد رفیق

    لاہور: وفاقی وزیرریلوے خواجہ سعد رفیق کا کہنا ہے کہ نئی حلقہ بندیوں کے لیے ترمیم نہ کی توانتخابات کا بروقت انعقاد نہیں ہوپائے گا۔

    تفصیلات کے مطابق وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے ٹویٹر پر اپنے پیغام میں کہا کہ نئی مردم شماری کے ابتدائی نتائج کا اعلان ہوچکا، انتخابات پرانی مردم شماری کی بنیاد پر کرانا آئین سے متصادم ہوگا۔

    خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ آئینی ترمیم سےگریزاں جماعتیں انتخابات سےخوفزدہ ہیں، مخالفین ووٹ کے بجائے سازش سے اقتدارمیں آنا چاہتے ہیں۔

    وزیرریلوے کا کہنا ہے کہ ‏ہر 10 سال بعد نئی مردم شماری آئینی ذمہ داری ہے جبکہ قومی ڈیٹا بیس اپ ڈیٹ کیے بغیرمستقبل کی منصوبہ بندی ممکن نہیں ہے۔


    مردم شماری کے بجائے آدم خوری کی گئی، فاروق ستار


    انہوں نے کہا کہ ‏آخری مردم شماری 1998 میں مسلم لیگ ن لیگ ہی کے دورمیں کرائی گئی، پیپلز پارٹی نے اپنے دورمیں مردم شماری کی ذمہ داری ادا نہیں کی۔

    خواجہ سعد رفیق کا کہنا ہے کہ 2013 میں سپریم کورٹ نے جلد مردم شماری کا آئینی حکم دیا، رکاوٹوں کے باوجود مسلم لیگ ن کی حکومت نے نئی مردم شماری کرائی۔

    وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق کا کہنا ہے کہ پنجاب کی سیٹیں کم ہوئیں، ہم نے گلہ نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کہ پیپلزپارٹی اور پاکستان تحریک انصاف آئینی ترمیم کے لیے تعاون کریں تاکہ آئندہ انتخابات مقررہ وقت پر کرائے جا سکیں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • مردم شماری کے دوران کوئی اعتراض سامنے نہیں آیا، کامران مائیکل

    مردم شماری کے دوران کوئی اعتراض سامنے نہیں آیا، کامران مائیکل

    اسلام آباد : وفاقی وزیر شماریات کامران مائیکل نے کہا ہے مردم شماری کے دوران کہیں سے کوئی اعتراض سامنے نہیں آیا، سندھ سمیت کسی بھی صوبے کو اعتراض ہے تو وہ مشترکہ مفادات کونسل میں لائے، آئندہ الیکشن اور این ایف سی ایوارڈ کا تعین ان ہی نتائج کی بنیاد پرہوگا۔

    ان خیالات کا اظہار انہوں نے سیکریٹری شماریات آصف باجوہ کے ہمراہ اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا، کامران مائیکل نے کہا کہ سی سی آئی آئینی فورم ہےجو صوبوں کے معاملات طےکرتا ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ بتایا جائے کہ مردم شماری میں سندھ کی سیاسی جماعتوں کو کس چیز پر اعتراض ہے، وہ اپنی شکایات مشترکہ مفادات کونسل میں پیش کریں، سی سی آئی میں معاملات خوش اسلوبی سےحل کیے جاتے ہیں، سی سی آئی جو ہدایت دے گی اس پر عمل کریں گے۔

    انہوں نے کہا کہ آئندہ الیکشن اور این ایف سی ایوارڈ کا تعین ان ہی نتائج کی بنیاد پرہوگا۔ کامران مائیکل کا مزید کہنا تھا کہ پاک فوج سے مل کر مردم شماری کی گئی، نتائج بھی سامنے لائے، ایک گھر میں اگر تین چولہے جلتےہیں تو مردم شماری میں انہیں تین خاندان ظاہرکیا گیا ہے۔

    وزیرشماریات کا مزید کہنا تھا کہ پارلیمنٹ موجود ہے،احتجاج یاریلیاں نکال کراداروں کو بدنام نہ کیا جائے۔ اس موقع پر سیکریٹری شماریات آصف باجوہ نے کہا کہ نئے رولز کے معاملات کو بھی دیکھ رہے ہیں اس کو تکنیکی کمیٹی کے پاس لے کرجائیں گے۔


    مزید پڑھیں: سندھ کی جماعتوں نے مردم شماری کے نتائج مسترد کردیئے


    واضح رہے کہ اراکین پارلیمنٹیرین کی اکثریت نے مردم شماری کے نتائج مسترد کرتے ہوئے دوبارہ گنتی کا مطالبہ کیا ہے۔ اس حوالے سے شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ جلد بازی کے بجائے تفصیلی رپورٹ کا انتظار کیا جانا چاہیئے۔

    علاوہ ازیں پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر ایم کیوایم پاکستان نے مردم شماری کے خلاف احتجاج کیا، ایم کیوایم پاکستان کے ارکین پارلیمنٹ نےنعرے لگائے۔


    مزید پڑھیں: خواجہ سراؤں نے بھی مردم شماری کے نتائج مسترد کردیئے 


    مظاہرین کا کہنا تھا کہ سندھ کے شہریوں کی آبادی کم کرنا منظور نہیں، ایم کیوایم نے مردم شماری کے نتائج کیخلاف قرارداد بھی جمع کرادی جس میں کہا گیا ہے کہ مردم شماری کےنتائج پرسندھ کی عوام میں تشویش ہے۔


    مزید پڑھیں: ایم کیوایم پاکستان مردم شماری کے خلاف ریلی نکالےگی


    ان کا کہنا تھا کہ نتائج میں دھاندلی کی گئی جسے سندھ کی تمام سیاسی جماعتوں نےمسترد کیا، نتائج پرشکوک و شبہات ہیں اسےاسمبلی میں بحث کے لیے لیا جانا چاہئیے۔ آبادی کو کم دکھا کر وسائل کی تقسیم کے خطرناک نتائج برآمد ہوں گے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پر شیئر کریں۔

  • سندھ کی جماعتوں نے مردم شماری کے نتائج مسترد کردیئے

    سندھ کی جماعتوں نے مردم شماری کے نتائج مسترد کردیئے

    کراچی : سندھ کی جماعتوں نے مردم شماری کے نتائج مسترد کردیئے، پی پی، ایم کیوایم، پی ایس پی اور قوم پرست جماعتیں یک زبان ہوگئیں۔ رہنماؤں کا کہنا ہے کہ اعداد وشمارغلط ہیں، دوبارہ مردم شماری کرائی جائے۔

    تفصیلات کے مطابق ملک میں دو دہائیوں کے بعد ہونے والی مردم شماری کے نتائج پر پاکستان پیپلزپارٹی ایم کیو ایم پی ایس پی اور دیگر قوم پرست جماعتوں نے اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ نتائج پر یقین نہیں کیا جاسکتا۔

    اس حوالے سے پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما نثارکھوڑو نے کہا کہ مردم شماری کے درست ہونے کا کوئی ثبوت نہیں، ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار کا کہنا ہے کہ کراچی کی آبادی تین کروڑسے کم نہیں ہے۔

    انہوں نے دعویٰ کیا کہ مردم شماری میں کراچی اور سندھ کی آبادی کم کرکے دکھائی گئی، کراچی میں برمی، افغانی، ویت نامی سب ہی رہتے ہیں۔

    چئیرمین مہاجر قومی موومنٹ آفاق احمد نے بھی اعداد و شمار کی رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ سندھ خصوصاً کراچی کی عوام کے ساتھ زیادتی کی گئی ہے۔

    پاک سرزمین پارٹی کے رہنما انیس ایڈوکیٹ نے بھی رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ دیہی اور شہری سندھ کی آبادی کے اعداد و شمار پر وسائل کی تقسیم متنازعہ بنے گی۔


    مزید پڑھیں: ملکی آبادی 20 کروڑ 77 لاکھ ہوگئی، مردم شماری کے نتائج 


     سندھ کے قوم پرست رہنما ایاز لطیف پلیجو کا کہنا ہے کہ اس طرح کے اعداد و شمار سندھ کے وسائل پر ڈاکہ مارنے کے مترادف ہیں۔

    ایاز لطیف پلیجو سمیت تمام جماعتوں نے مطالبہ کیا ہے رپورٹ کو کالعدم قرار دے کر سندھ سمیت ملک بھر میں نئے سرے سے شفاف اور غیر جانبدارانہ مردم شماری کروائی جائے۔