Tag: مرد

  • مردوں کا عالمی دن: مردوں کو رول ماڈل بننے کی ضرورت

    مردوں کا عالمی دن: مردوں کو رول ماڈل بننے کی ضرورت

    دنیا بھر میں آج مردوں کا دن منایا جا رہا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد معاشرے میں مردوں کے مثبت کردار اور ان کو لاحق مسائل کا ادراک کرنا ہے۔

    مردوں کا دن پہلی بار 19 نومبر 1999 کو منایا گیا، بہت کم لوگوں کو اس دن کے بارے میں علم ہے۔

    رواں برس اس دن کا مرکزی خیال ہے مردوں کے مثبت رول ماڈلز۔ یہ دن اس بات پر زور دیتا ہے کہ مرد خود اور اپنے زیر تربیت نوجوانوں کو مرد ہونے کی حیثیت سے ان کی ذمہ داریاں، مثبت کردار اور اقدار کے بارے میں سکھائیں۔

    مزید پڑھیں: مردانہ لباس میں ان غلطیوں سے بچیں

    مردوں کے عالمی دن پر اس بات پر بھی گفتگو کی جاتی ہے کہ مردوں کو بھی ذہنی مسائل لاحق ہوسکتے ہیں جس کی وجہ خودکشی کا رجحان فروغ پا رہا ہے۔

    ایک اندازے کے مطابق 45 سال سے کم عمر مردوں کی موت کی سب سے بڑی وجہ خودکشی ہے۔ اس دن مردوں کو اس بات کی بھی ترغیب دی جاتی ہے کہ وہ اپنے جذبات کو چھپانے کے بجائے ان کا اظہار کریں تاکہ ان کے ذہنی مسائل میں کمی آسکے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ 5 بیماریاں ایسی ہیں جو خواتین کی نسبت مردوں کا اپنا زیادہ شکار بناتی ہیں۔ ان میں ہائی بلڈ پریشر، ہارٹ اٹیک، پھیپھڑوں کے امراض، منہ کا کینسر اور پروسٹیٹ کینسر شامل ہیں۔

    ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے ارد گرد موجود مردوں کی ضروریات اور ان کے احساسات کا خیال کریں اور ان سے بات چیت کر کے انہیں قائل کریں کہ بحیثیت مرد ضروری نہیں ہے کہ وہ اپنے جذبات چھپائے رکھیں اور حالات کا جبر تنہا جھیلتے رہیں، اپنی پریشانیاں اپنے اہل خانہ کے ساتھ شیئر کریں اور ان کے اہل خانہ ان کو ان پریشانیوں سے نبرد آزما ہونے میں بھرپور مدد کریں۔

  • قیامت کی نشانی: مرد بچے پیدا کریں گے

    قیامت کی نشانی: مرد بچے پیدا کریں گے

    جدید سائنس نے جہاں ہر شعبے میں بے تحاشہ ترقی کی اور بے شمار تبدیلیاں رونما ہوئیں وہیں اب ہزاروں سال سے  قدرت کے وضع کردہ طریقۂ حمل میں مداخلت کرتے ہوئے بچے جنم دینے کے عمل کا دائرہ کار بھی مردوں تک پھیلا نے کی کوشش شروع کردی ہے۔

    برطانوی اخبار ’دی انڈپنڈنٹ‘ کی جانب سے شائع کردہ رپورٹ کے مطابق دنیا کے چوٹی کے طبی ماہرین کے مطابق رحم کی منتقلی کے ذریعے مرد بھی نئی زندگی کو جنم دے سکتے ہیں۔

    امریکن سوسائٹی فار ری پروڈکٹو میڈیسن کے صدر ڈاکٹر رچرڈ پالسن کا کہنا ہے کہ سائنس کی ترقی کے ساتھ یہ عمل بھی ممکن اور نہایت آسان بن چکا ہے۔

    ان کے مطابق وہ افراد جو جنس کی تبدیلی کے عمل سے گزرے ہوں وہ بھی اس طریقہ کار کے ذریعے نئی زندگی کو جنم دے سکتے ہیں۔

    ڈاکٹر رچرڈ کے مطابق گو کے مرد و خواتین کے اعضا کی ساخت مختلف ہوتی ہے تاہم ان کے جسم کے اندر رحم اور اس کے اندر ایک نئی زندگی کے نمو پانے کے لیے جگہ موجود ہوتی ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر اس طریقہ کار کو واقعی عمل میں لایا جائے تو پھر ان ہارمونز کی منتقلی بھی کرنی ہوگی جو خواتین کے جسم میں حمل کے دوران فعال ہوتے ہیں۔

    علاوہ ازیں مردوں اور خواجہ سراؤں کے یہاں جنم دینے کا عمل سیزیرین آپریشن کے ذریعے ممکن ہوسکے گا۔

    دوسری جانب کچھ ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ حمل اور بچے کی پیدائش خواتین کی صحت کے لیے فائدہ مند ہے اور انہیں بے شمار مسائل سے بچاتا ہے، لہٰذا فی الحال اس طریقہ کار کو قابل عمل بنانے میں بہت سی پیچیدگیاں درپیش ہیں۔

    خیال رہے کہ آج سے 1400 سال قبل کے اسلامی ماخذوں میں قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی’مردوں کا بچے پیدا کرنے کا تذکرہ بھی ملتا ہے ‘ جس میں کہا گیا ہے کہ آخری زمانوں میں مرد بھی بچے پیدا کریں گے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • شادی خواتین سے زیادہ مردوں کے لیے فائدہ مند

    شادی خواتین سے زیادہ مردوں کے لیے فائدہ مند

    یوں تو تنہا زندگی گزارنے کی نسبت ازدواجی رشتے میں بندھنا بہت سے طبی مسائل اور ذہنی و نفسیاتی پیچیدگیوں سے چھٹکارہ دلا سکتا ہے، تاہم حال ہی میں ایک تحقیق میں انکشاف ہوا کہ شادی خواتین کی نسبت مردوں کے لیے زیادہ فائدہ مند ہے۔

    یونیورسٹی کالج لندن میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق غیر شادی شدہ مرد، غیر شادی شدہ خواتین کی نسبت زیادہ طبی مسائل کا شکار ہوسکتے ہیں۔

    couple-2

    اس تحقیق کے لیے انگلینڈ، اسکاٹ لینڈ اور ویلز کے 10 ہزار سے زائد افراد کا تجزیہ کیا گیا۔ ماہرین نے دیکھا کہ غیر شادی شدہ یا طلاق یافتہ مرد دل کے امراض کا زیادہ شکار بنے۔ اس کی نسبت سنگل خواتین میں یہ شرح بہت کم دیکھی گئی۔

    ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ دونوں کے رویوں اور مزاج کا فرق ہے۔

    خواتین عموماً دوست بناتی ہیں اور ان سے گفت وشنید کرتی رہتی ہیں۔ وہ اپنی زندگی میں موجود تمام مسائل اور محرومیوں کا تذکرہ ایک دوسرے سے کرتی رہتی ہیں جس کے باعث وہ دماغی طور پر پرسکون رہتی ہیں۔

    مزید پڑھیں: خوش و خرم جوڑوں کی کچھ عادات

    مزید پڑھیں: ناخوشگوار ازدواجی زندگی بیویوں میں بیماریوں کا سبب

    اس کے برعکس مرد حضرات کم دوست بناتے ہیں، یا وہ دوستوں سے اپنی ذاتی باتیں اور خیالات و احساسات شیئر نہیں کرتے جس کی وجہ سے وہ مختلف طبی امراض اور ذہنی مسائل کا شکار ہوجاتے ہیں۔

    اس سے قبل بھی کئی تحقیقوں میں ثابت کیا جا چکا ہے کہ ایک خوشگوار ازدواجی تعلق نہ صرف ذہنی و نفسیاتی الجھنوں سے بچاتا ہے بلکہ صحت پر بھی مفید اثرات مرتب کرتا ہے۔

    couple-3

    یونیورسٹی آف یارک کے ماہرین کی ایک تحقیق سے پتہ چلا تھا کہ معاشرے میں تنہا رہنے والے افراد میں امراض قلب اور فالج کے خطرے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا تھا کہ غیر متحرک زندگی اور ذہنی تناؤ سے لوگوں میں فالج اور دل کی بیماریوں کا امکان بڑھ جاتا ہے لیکن سماجی تنہائی لوگوں کے لیے جان لیوا ثابت ہوسکتی ہے۔

  • خواتین ڈاکٹرز مرد ڈاکٹروں سے بہتر؟

    خواتین ڈاکٹرز مرد ڈاکٹروں سے بہتر؟

    آپ جب بھی کسی بیماری کا علاج کروانے جاتے ہیں تو خواتین ڈاکٹرز کو ترجیح دیتے ہیں یا مرد ڈاکٹرز کو؟ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ مرد ڈاکٹرز آپ کا زیادہ بہتر علاج کر سکیں گے تو آپ کو فوراً اس غلط فہمی کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔

    امریکا کی ہارورڈ یونیورسٹی میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق خواتین ڈاکٹرز مرد ڈاکٹرز کی نسبت مریضوں کی زیادہ بہتر نگہداشت اور خیال کر سکتی ہیں۔

    تحقیق میں دیکھا گیا کہ خواتین ڈاکٹرز خصوصاً مریض بزرگوں کا نہ صرف بہتر علاج کرتی ہیں بلکہ ان کا خیال بھی رکھتی ہیں۔

    خواتین ڈاکٹرز کے زیر علاج رہنے والے بزرگ افراد کے مرنے کی شرح کم دیکھی گئی جبکہ ان کے دوبارہ اسی بیماری کی وجہ سے پلٹ کر آنے کا امکان بھی کم ریکارڈ کیا گیا۔

    doctor-2

    یہ تحقیق دراصل طب کے شعبے میں مرد اور خواتین ڈاکٹرز کی تنخواہوں اور دیگر سہولیات کا فرق دیکھنے کے لیے کی گئی۔ تحقیق میں دیکھا گیا ترقی یافتہ ممالک میں خواتین ڈاکٹرز کی تنخواہیں و مراعات مرد ڈاکٹرز کے مقابلے میں کم ہیں۔

    امریکا میں کیے جانے والے تحقیقی سروے میں مرد و خواتین کو ملنے والی سہولیات کا جائزہ بھی لیا گیا جن کی مقدار برابر تھی البتہ تنخواہ میں 50 ہزار ڈالر کا فرق دیکھا گیا۔

    تحقیق کے سربراہ ڈاکٹر اشیش جھا کا کہنا ہے کہ طب کے شعبہ میں خواتین ڈاکٹرز کی کم تنخواہیں طب کے معیار کو داؤ پر لگانے کے مترادف ہے۔

    ان کے مطابق حالیہ تحقیق ثابت کرتی ہے کہ کسی ملک کی صحت کی سہولیات کو بہترین بنانے کے لیے ضروری ہے کہ اس شعبے میں زیادہ سے زیادہ خواتین کی شمولیت کو یقینی بنایا جائے۔

    ہارورڈ میڈیکل اسکول کے ایک اور پروفیسر انوپم جینا نے اس بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’سروے کے بعد اس بات کی ضرورت ہے کہ طبی شعبہ میں شفافیت کو یقینی بنایا جائے اور مرد و خواتین کے درمیان تفریق کو ختم کیا جائے‘۔

  • خواتین کی یادداشت مردوں سے بہتر

    خواتین کی یادداشت مردوں سے بہتر

    کیا آپ کو لگتا ہے کہ مرد عورتوں کی نسبت زیادہ ذہین، چالاک اور سمجھدار ہوتے ہیں؟ ایک عام خیال ہے کہ خواتین کی عقل ’آدھی‘ ہوتی ہے اور زیادہ تر افراد اپنے فیصلوں میں خواتین کی شمولیت سے پرہیز کرتے ہیں۔

    اگر آپ کا شمار بھی ایسے ہی افراد میں ہوتا ہے تو ہو سکتا ہے یہ جان کر آپ کو شدید دھچکہ لگے کہ سائنس نے آپ کی اس غلط فہمی کو دور کردیا ہے۔

    امریکا میں کی جانے والی ایک ریسرچ سے ثابت ہوا کہ خواتین مردوں کے مقابلے میں بہترین یادداشت کی حامل ہوتی ہیں۔ تحقیق کے لیے کیے جانے یادداشت سے متعلق ٹیسٹوں میں خواتین نے تمام مردوں کو بری طرح فیل کردیا۔

    مزید پڑھیں: یادداشت میں بہتری لانے کے لیے یہ اشیا کھائیں

    نارتھ امریکن مینوپاز سوسائٹی کے جرنل میں شائع ہونے والی اس تحقیق کے مطابق خواتین مینوپاز کی عمر یعنی تقریباً 50 سال کی عمر سے قبل بہترین یادداشت کی حامل ہوتی ہیں۔ وہ تمام چیزوں کو مردوں کے مقابلے میں زیادہ یاد رکھتی ہیں اور کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے ماضی کے واقعات کو مدنظر رکھتی ہیں۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ خواتین کی یادداشت میں بھی خرابی واقع ہوتی جاتی ہے۔ اس خرابی کا آغاز 45 سال کی عمر کے بعد سے شروع ہوتا ہے۔

    مزید پڑھیں: چہل قدمی بہترین یادداشت کا سبب

    طبی ماہرین کے مطابق بڑھتی عمر کے ساتھ خواتین میں یادداشت سے متعلق امراض جیسے ڈیمینشیا وغیرہ کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے۔ خواتین میں ڈیمینشیا اور یادداشت کی خرابی میں مبتلا ہونے کا امکان مردوں سے زیادہ ہوتا ہے۔

    اعداد و شمار کے مطابق بڑھاپے میں ہر 6 میں سے 1 خاتون ڈیمینشیا یا الزائمر کا شکار ہوسکتی ہے جبکہ مردوں میں یہ شرح 11 میں سے صرف ایک شخص کی ہے۔

  • خواتین کو مردوں کی نسبت زیادہ نیند کی ضرورت

    خواتین کو مردوں کی نسبت زیادہ نیند کی ضرورت

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ہر شخص کے بارے میں یہ سوچنا کہ اس کے لیے 8 گھنٹوں کی نیند کافی ہے، ایک نہایت غلط تصور ہے۔ خواتین کو مردوں کی نسبت زیادہ نیند کی ضرورت ہوتی ہے۔

    حال ہی میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق خواتین کو مردوں کے سونے کی مدت سے 20 منٹ زیادہ نیند کی ضرورت ہوتی ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ خواتین کے دماغ کی ساخت اور اس کے بیک وقت سر انجام دیے جانے والے مختلف افعال ہیں۔

    مزید پڑھیں: خواتین بے چینی کا شکار کیوں ہوتی ہیں؟

    انہوں نے بتایا کہ خواتین کے دماغ کو مردوں کے دماغ کی نسبت زیادہ محنت کرنی پڑتی ہے۔ ان کے دماغ کا ہر حصہ ایک ہی وقت میں مختلف کام سر انجام دے رہا ہوتا ہے۔ یہ ایک عام اصول ہے کہ جو چیز زیادہ استعمال میں ہو اور سخت محنت کرے اسے آرام کی ضرورت بھی زیادہ ہوتی ہے۔

    آپ نے اپنے گھر میں موجود خواتین خانہ کو بھی دیکھا ہوگا کہ وہ ایک وقت میں کئی کام کر رہی ہوتی ہیں اور ان کا دماغ مختلف جگہوں پر منسلک ہوتا ہے۔ گھر میں موجود تمام افراد کی مختلف ضروریات کو پورا کرنا، کچن کے کام، گھر کے دیگر حصوں کے کام، گھر میں آنے والے مختلف افراد جیسے کام والی، دودھ والے اور سبزی والے سے نمٹنا یہ سب کام وہ ایک وقت میں انجام دے رہی ہوتی ہیں۔

    women-2

    یہ صورتحال اس وقت مزید پیچیدہ ہوجاتی ہے جب خاتون خانہ ملازمت پیشہ بھی ہوں۔ ایسے میں وہ گھر اور دفتر کے دس جھمیلوں سے بیک وقت برسر پیکار ہوتی ہیں۔

    دوسری جانب مرد ایک وقت میں ایک ہی کام کرنے کے عادی ہوتے ہیں۔ سائنسی تحقیق میں یہ بات ثابت کی جاچکی ہے کہ مردوں کے دماغ میں اتنی صلاحیت نہیں ہوتی کہ وہ بیک وقت کئی میدانوں میں اتر سکیں۔ وہ ایک وقت میں کسی ایک چیز یا کسی ایک ہی کام پر توجہ مرکوز رکھ سکتے ہیں۔

    مزید پڑھیں: مثبت سوچ کی حامل خواتین کی عمر لمبی

    اسی طرح خواتین کے دماغ میں جمع ہونے والی معلومات کی مقدار بھی مردوں کے مقابلے میں 5 گنا زیادہ ہے۔ یعنی ایک مرد اگر ایک چیز کو یاد رکھ سکتا ہے تو اسی وقت میں ایک خاتون 5 چیزوں کو یاد رکھ سکتی ہے۔

    یہی وجہ ہے کہ دن کے اختتام پر خواتین کا دماغ اتنے بہت سے کام کر کے تھک جاتا ہے اور اسے مردوں کے مقابلے میں زیادہ آرام کی ضرورت ہوتی ہے۔

  • ہجرت اور جدائی کا دکھ

    ہجرت اور جدائی کا دکھ

    جان بچانے کے لیے ہجرت کرنا تو ایک معلوم عمل ہے، یا روزگار میں اضافے کے لیے دوسرے شہروں میں جانا بھی ایک معمولی بات ہے۔ لیکن ایسی ہجرت کہ اپنے پیاروں کو پیچھے چھوڑ دیا جائے اور پلٹ کر ان کی خبر نہ لی جائے، ایک انسانی المیہ ہی کہلائے گا۔

    ایسے ہی ایک انسانی المیے کا شکار وسطی ایشیا کا ملک تاجکستان بھی ہے جہاں لاکھوں خواتین اپنے شوہروں کے ہوتے ہوئے بھی بے سہارا ہیں اور بے بسی و پسماندگی کی زندگی گزار رہی ہیں۔

    مہاجر کیمپ کی خواتین کا معاشی خوشحالی کا سفر *

    وسط ایشیا کا سب سے چھوٹا ملک تاجکستان سوویت یونین سے علیحدگی کے بعد سے ہی غربت کا شکار اور بلند ترین بے روزگاری کی شرح والا ملک ہے۔

    صرف 8 لاکھ اور 74 ہزار سے کچھ ہی زائد آبادی والے اس ملک کی بیشتر آبادی تاجکستان سے باہر رہائش پذیر ہے۔ مختلف ممالک میں رہنے اور کام کرنے والے یہ افراد مجموعی طور پر ایک کثیر رقم ملک میں بھیجتے ہیں جو تاجکستان کی جی ڈی پی کا 47 فیصد حصہ بنتا ہے۔

    tajik-5

    اس وقت دنیا بھر میں آباد تاجکوں کی 90 فیصد آبادی روس میں مقیم ہے۔ پوری دنیا میں موجود تاجک، تاجکستان کی کل مرادنہ آبادی کا ایک تہائی فیصد ہیں اور ان کی عمریں 20 سے 39 سال کے قریب ہیں۔

    گویا تاجکستان میں اب صرف خواتین ہیں، بچے اور بوڑھے جو اگر اس قابل نہیں کہ اپنی زندگی کی گاڑی کھینچ سکیں تو نہایت ہی قابل رحم زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

    دنیا بھر میں چونکہ تاجک مزدوروں کی خدمات نہایت ارزاں ہیں لہٰذا بیرون ملک ان کا بری طرح استحصال کیا جاتا ہے۔ ان کی تنخواہ اس قابل نہیں ہوتی کہ یہ اسے گھر والوں کو بھیج سکیں، یا اگر بھیجتے بھی ہیں تو وہ نہایت قلیل ہوتی ہے۔

    چھٹی لے کر گھر آنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا، چنانچہ ان مزدوروں کے اہلخانہ خاص طور پر بیوی اور بچے باپ اور شوہر کے ہوتے ہوئے بھی بے سہارا اور تنہا زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

    دیہی خواتین کی زندگی میں آنے والی انقلابی تبدیلی *

    انہی میں سے ایک خاتون تشبکووا بھی ہیں جن کا شوہر انہیں چھوڑ کر روس جاچکا ہے، اور انہیں قطعی اس کی امید نہیں کہ وہ اسے دوبارہ دیکھ بھی سکیں گی۔

    وہ بتاتی ہیں، ’10 سال قبل ہم نے محبت کی شادی کی تھی۔ صرف ایک سال بعد میرا شوہر مجھے چھوڑ کر انجانے سفر پر روانہ ہوگیا جس کے بعد سے وہ اب تک پلٹ کر نہیں آیا‘۔

    تشبکووا نے یہ عرصہ نہایت پریشانی میں گزارا۔ زندگی گزارنے کا کوئی آسرا ان کے پاس نہیں تھا۔ اس پر شوہر کی جدائی کا غم اور دوبارہ نہ ملنے کی اذیت بقول ان کے، انہیں کھا رہی تھی۔

    خواتین بے چینی کا شکار کیوں ہوتی ہیں؟ *

    تشبکووا شدید ڈپریشن کا شکار تھیں اور زیادہ تر وقت اپنے گھر میں ہی گزارتیں جہاں کئی کئی وقت کا فاقہ ان کے ساتھ ہوتا۔

    اور صرف ایک تشبکووا ہی نہیں، ان جیسی لاکھوں خواتین تھیں جو اسی صورتحال کا شکار تھیں۔ عالمی اداروں کے مطابق ڈھائی لاکھ کے قریب خاندان اور خواتین اپنے مردوں کے باہر جانے کے بعد بے سہارا تھیں اور خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہی تھیں۔

    عورت کے اندرونی کرب کے عکاس فن پارے *

    پھر ان خواتین کے لیے اقوام متحدہ کی مدد غیبی امداد کی صورت آئی۔

    اقوام متحدہ کے ذیلی ادارہ برائے خواتین یو این وومین نے، جو دنیا بھر میں مشکلات کا شکار خواتین کو آسانیاں فراہم کرنے کے لیے کوشاں ہے، ان تاجک خواتین کو ان کے پاؤں پر کھڑا کرنے کا بیڑا اٹھایا۔

    تاجکستان کی روایات کی بدولت یہ خواتین نہ تو زیادہ خواندہ تھیں، نہ ہی ہنر مند اور نہ ہی اس قدر بااعتماد کہ باہر جا کر حالات کا مقابلہ کرسکتیں۔ یو این وومین نے تاجک معاشروں کی روایات کو مدنظر رکھتے ہوئے ان خواتین کو ہنرمند بنانے کا کام شروع کیا۔

    سنہ 2014 میں شروع کیے گئے بحالی پروگرام کے تحت خواتین کو روایتی تاجک دستکاری کا کام سکھایا گیا۔ آہستہ آہستہ خواتین کی نفسیاتی کیفیات میں بھی تبدیلی آتی گئی اور انہوں نے زندگی سے لڑنے کا حوصلہ پیدا کر ہی لیا۔

    tajik-2

    tajik-4

    یو این وومین کی معاونت سے ان ہنر مند خواتین نے اپنے تیار شدہ ملبوسات، کھلونوِں، کمبلوں، میز پوش، اور دیگر اشیا کو قریبی شہروں اور قصبوں میں لے جا کر بیچنا شروع کیا۔

    ان اشیا کے خریدار زیادہ تر مختلف ممالک سے آئے سیاح ہوتے ہیں جو روایتی تاجک کڑھائی کے ان نمونوں کو بصد شوق خریدتے ہیں اور بطور یادگار اپنے ساتھ لے کر جاتے ہیں۔

    گہرے رنگوں سے سجے جنگی ہتھیار *

    یو این وومین کی جانب سے تاجکستان میں تعینات معاونت کار زرینہ یوروکوا نے بتایا کہ تاجک حکومت کو علم ہی نہیں تھا کہ روزگار کے لیے ہجرت کرنے والوں کے خاندان بدترین حالات کا شکار ہیں۔ ’جب ہم نے اس طرف ان کی توجہ دلائی تو حکومت نے بھی ان کے لیے کام شروع کیا اور اب ہجرت کرنے والوں کے خاندانوں کو مفت طبی، قانونی اور دیگر سماجی سہولیات فراہم ہیں‘۔

    تشبکووا اور ان جیسی لاکھوں خواتین اب ایک نارمل اور باعزت زندگی گزار رہی ہیں۔ وہ نہ صرف اپنے لیے کماتی ہیں بلکہ دیگر خواتین کا ہمت اور حوصلہ بھی بڑھاتی ہیں تاکہ وہ بھی زندگی کی دوڑ میں آگے بڑھ سکیں۔

    tajik-3

    تشبکووا بتاتی ہیں، ’یہ ماضی کی باتیں ہیں جب ہم تنہائی اور ڈپریشن کا شکار تھے۔ اب ہم اپنے معاشرے کا نہایت کارآمد حصہ ہیں اور حکومت سمیت کسی پر بوجھ نہیں‘۔

  • مرد جھوٹ بول کر اپنی خامیاں چھپاتے ہیں، تحقیق

    مرد جھوٹ بول کر اپنی خامیاں چھپاتے ہیں، تحقیق

    لندن : ایک نئی تحقیق کے مطابق مرد حضرات خواتین کے سامنے اپنے ایسے کارناموں کی شیخی بگھیرتے ہیں، جن کا ان پر کوئی اثر نہیں ہوتا، مرد اکثر اپنی خامیوں کو چھپانے کے لئے جھوٹ کا  سہارا لیتے ہیں۔

    نئی تحقیق کے مطابق ایک سروے کے دوران یہ حقائق سامنے آئے کہ 70 فیصد مرد اپنی قابلیت کو بڑھا چڑھا کر بیان کرتے ہیں جبکہ 50 فیصد مردوں نے یہ اعتراف کیا کہ وہ ایسے شعبوں میں بھی مہارت رکھنے کا دعوی کرتے ہیں، جن کے بارے میں انہیں معلوم ہی نہیں ہوتا۔

    مردوں میں  بات کو بڑھا چڑھا کر بیان کرنے کی عادت اس ضرورت سے جنم لیتی ہے، جو ان کے اعتماد میں اضافہ کرتی ہے جبکہ ایک فیصد مردوں کا کہنا ہے کہ وہ شیخی اس لئے بگھورتے ہیں تاکہ دوسرے ان کی عزت کریں۔

    لنکاشائر یونیورسٹی میں ماہر نفسیات پروفیسر کیری کوپر کا کہنا ہے کہ مرد کیونکہ خود کو خواتین سے برتر سمجھتے ہیں، لہذا انہیں دوسروں کو متاثر کرنے کی زیادہ ضرورت محسوس ہوتی ہے، مردوں کے شیخی بگھورنے کی وجہ معاشرے میں مرد کی خواتین پر برتری کا روایتی طرز عمل بھی ہے۔ مردوں کا شیخی بگھورنے کا مقصد جنس مخالف کی قربت کا حصول بھی ہوتا ہے۔

    سروے کے دوران 50فیصد مردوں نے خود اعتمادی میں اضافہ کے لئے اپنے چھوٹے چھوٹے کارناموں کو بڑھ چڑھ کر بیان کرنے کو وجہ قرار دیا جبکہ 42 فیصد مردوں کا کہنا تھا کہ وہ دوسروں کی نظر میں اچھا بننے کے لئے جھوٹ بولتے ہیں۔

    دوسری جانب سروے کے مطابق 37 فیصد خواتین شیخی بگھورنے والے مردوں کے جھانسے میں آجاتی ہیں جبکہ 54 فیصد مردوں کے شیخی بگھورنے کے باوجود ان سے متاثر نہیں ہوتیں، تحقیق کے مطابق شیخی بگھورنے والے مردوں کی اکثریت نوجوانی سے تعلق رکھتی ہے۔