Tag: مرزا عظیم بیگ چغتائی

  • آٹھ طرح کے افسانہ نویس!

    آٹھ طرح کے افسانہ نویس!

    ایک نوخیز افسانہ نگار کو سب سے پہلے یہ معلوم ہونا چاہیے کہ آج کل افسانہ نگاروں کی قسمیں کتنی ہیں تاکہ وہ یہ طے کرسکے کہ مجھے کیا کرنا چاہیے۔

    میں نمبر وار گناتا ہوں۔
    (۱) پہلی قسم افسانہ نویسوں کی وہ ہے جنہوں نے محض اپنے افسانوں کی خوبی کی وجہ سے شہرت حاصل کی۔ اپنے اوریجنل افسانوں کی وجہ سے پبلک سے روشناس ہوئے۔ اوّل تو انہوں نے دوسری چیزیں مثلاً فکاہیہ مقالے، تواریخی مضامین، ترجمے اور دوسرے دل چسپ ادبی اور معاشرتی مضامین ویسے بھی کم لکھے اور اگر لکھے بھی تو ان کی بدولت ان کو مقبولیت کا تمغہ نہیں ملا۔ اصل کارنامہ ان کا افسانہ نگاری رہا۔ ایک نہیں ان کے درجنوں افسانے ہیں اور ایک سے ایک بڑھ کر، ایسے کہ جب کبھی بھی کسی رسالے میں ان کا افسانہ شائع ہوا تو نہ صرف افسانوں میں ان کا افسانہ بہترین قرار دیا گیا بلکہ رسالے کے تمام مضامین نظم و نثر سے وہ سبقت لے گیا۔ عموماً رسالہ ہاتھ میں آتے ہی لوگ یہ دیکھتے ہیں کہ ان کا افسانہ بھی ہے یا نہیں اور اگر ہوتا ہے تو سب سے پہلے وہی پڑھتے ہیں۔ مثال کے طور پر منشی پریم چند۔

    (۲) دوسری قسم افسانہ نگاروں کی وہ ہے جنہوں نے انتہائی قابلیت اور خوبی سے غیر ملکی زبانوں کے مشہور افسانہ نویسوں کی کاوشوں سے اردو کو مالا مال کر دیا اور انہوں نے دنیائے ادب میں اسی سے شہرت حاصل کی۔ بدقسمتی سے آج کل کی اصطلاح میں یہ بھی افسانہ نویس کہلاتے ہیں۔

    (۳) ایک اور قسم افسانہ نویسوں کی وہ ہے جنہوں نے غیرملکی افسانوں کو ملکی جامہ نہایت ہی خوبی سے پہنایا اور اپنا کمال اسی مخصوص کام میں دکھایا۔ بدقسمتی سے یہ بھی افسانہ نویس ہیں۔

    (۴) ایک قسم افسانہ نویسوں کی وہ ہے، جنہوں نے خود بھی اوریجنل افسانے لکھے، غیر ملکی افسانوں کو ملکی لباس بھی خوب پہنایا، دوسری زبانوں کے اچھے افسانوں کے ترجمے بھی خوب پیش کیے اور ان تمام کاموں کو مجموعی طور پر نہایت ہی خوبی سے انجام دیا اور جو کچھ بھی شہرت حاصل کی وہ ان تینوں کاموں سے حاصل کی مگر ان کا ہر کام علیحدہ کر کے دیکھا جائے تو ایسا نہیں جو ان کو مقبولیت کا وہ درجہ دے سکتا جو ان کو اب حاصل ہے۔ یہ بھی افسانہ نویس ہیں۔

    (۵) ایک قسم افسانہ نگاروں کی وہ ہے جنہوں نے محض اپنی مزاحیہ نگاری کی بدولت نام پیدا کیا۔ افسانے بھی لکھے اور اچھے لکھے مگر جو کچھ شہرت حاصل کی وہ محض اپنی مزاحیہ نگاری کی بدولت حاصل کی۔ بدقسمتی یا خوش قسمتی سے یہ بھی افسانہ نگار ہیں۔

    (۶) ایک قسم افسانہ نگاروں کی وہ ہے جو دراصل شاعر ہیں اور انہوں نے شاعری ہی میں نام اور کمال پیدا کیا اور اپنا ثانی نہیں رکھتے لیکن باوجود اس کے اوریجنل افسانے بھی لکھتے ہیں۔ اچھے افسانے مگر ایسے نہیں کہ وہ افسانے ان کو وہ شہرت دیتے جو ان کی اپنی شاعری کی بدولت حاصل ہے۔ یہ بھی افسانہ نویس ہیں۔

    (۷) ایک قسم افسانہ نویسوں کی وہ ہے جو تخلّص رکھتے ہیں اور ساتھ ہی دہلوی، جودھپوری وغیرہ کو تخلص کے ساتھ لازمی استعمال کرتے ہیں۔ محض اس نیت سے کہ اگر افسانے کے ساتھ نام شائع نہ ہوا تو لوگ بھول جائیں گے اور پبلک سے روشناس ہونے میں بڑی دیر لگے گی۔ یہ لوگ اپنے افسانوں سے نام پیدا نہیں کرتے بلکہ نام سے افسانہ پیدا کرتے ہیں۔ پڑھنے والوں کے دل پر بجائے افسانے کے نقش کے اپنے تخلص یا قلمی نام کا نقش کھود چکے ہیں۔ ہر قسم کے مضمون، ترجمے، ادب لطیف وغیرہ وغیرہ کے مریض ہیں۔ لوگوں کے ذہن نے اور حافظے نے کام نہ دیا۔ نتیجہ یہ پبلک کو سوائے ان کے تخلص کے اور کچھ یاد نہیں رہا کہ انہوں نے کب افسانے لکھے اور ان میں کیا لکھا تھا، مگر ہاں یہ قطعی فیصلہ کیا جا سکتا ہے کہ مشہور افسانہ نویس ہیں، جو کچھ بھی انہوں نے نام پیدا کیا وہ تخلص کے زور سے کیا اور فطرت انسانی کا صحیح مطالعہ کر کے اپنے نام کو مخفف کر کے اس سے پورا فائدہ اٹھایا۔ یہ بھی افسانہ نویس ہیں۔

    (۸) ایک قسم افسانہ نویسوں کی وہ ہے جو آئے دن اس فکر میں رہتے ہیں کہ کسی طرح کسی رسالے کے آنریری ایڈیٹر یعنی مدیر اعزازی بن جائیں۔ اس سے یہ آسانی ہوتی ہے کہ اگر اپنا افسانہ کسی رسالہ کو چھپنے بھیجتے تو وہ اشتہارات کا نرخ پیش کرتا، اب مفت چھپ جائے گا۔ یہ لوگ اڈیٹر کو خط لکھتے ہیں تو عموماً کسی آنریری مجسٹریٹ کے خط سے مسودہ تیار کرتے ہیں جو کمشنر کو لکھا گیا ہو۔ یہ افسانہ نویس سرکار ادب کے آنریری مجسٹریٹ ہیں۔ مدیر اعزازی ہوتے ہی رسالہ ان کا ہو جاتا ہے، خود ایڈیٹر صاحب اس بات پر زور دیا کرتے ہیں کہ اپنے رسالے کا خیال رکھیے، ان کے ہر قسم کے مضامین رسالے میں شائع ہوتے ہیں۔ کسی کے نیچے کبھی ’ٹیگور‘ لکھنا بھول گئے، کبھی ’منقول‘ لکھنے سے رہ گیا۔

    جس طرح آنریری مجسٹریٹ سرکار اور پبلک کی خاطر اپنا خرچ کرتا ہے، اسی طرح یہ بھی سرکار ادب اور رعایائے ادب کی خاطر اپنا بیش قیمت وقت اور ڈاک خرچہ صرف کرتے ہیں۔ کبھی کبھار آنکھ بچا کر ایک آدھ اوریجنل افسانہ بھی رسالے میں شائع کر دیتے ہیں۔ ایڈیٹر بھی چشم پوشی سے کام لیتے ہیں کہ چلو رہنے بھی دو۔ روز یہ بدعت تھوڑے ہی ہوگی۔ جس طرح آنریری مجسٹریٹ تساہلی کرے تو اس کے اختیارات ضبط ہو جاتے ہیں، اسی طرح یہ بھی اگر ٹھیک کام نہ کریں اور توسیع اشاعت میں کوشاں نہ رہیں تو ان کے اختیارات بھی ضبط ہو جاتے ہیں اور پھر یہ اپنی تقرری کے لیے دوسرے پر گنے کی تلاش میں لگ جاتے ہیں۔ آنریری مجسٹریٹ کا اور ان دونوں کا منتہائے نظر اور مقصد اوّلین خطاب حاصل کرنا ہوتا ہے۔ ایک دن وہ آتا ہے کہ دونوں کو خطاب مل جاتا ہے۔ ایک کو بادشاہ کی سالگرہ پر دوسرے کو رسالے کی سالگرہ پر۔ اس کے بعد ایک کو خان بہادر کہتے ہیں اور ایک کو افسانہ نویس! چنانچہ مدیران اعزازی بھی افسانہ نویس ہیں۔

    قصہ مختصر آج کل ہر مضمون نگار، نامہ نگار، فکاہیہ نگار، مزاحیہ نگار، شاعر، مترجم، وغیرہ وغیرہ افسانہ نگار یا افسانہ نویس کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔ مجھے اس سے کچھ بحث نہیں کہ ایسا کیوں کیا جاتا ہے یا یہ کہ کارروائی کہاں تک صحیح اور درست ہے۔ مجھے تو ایک مبتدی کی توجہ صرف اس بات کی طرف مبذول کرنا ہے کہ وہ محض افسانہ نویسی کے نام کے پیچھے نہ دوڑے، ورنہ کوشش رائیگاں جائے گی۔ اس کو یہ کوشش کبھی نہ کرنا چاہیے کہ کسی نہ کسی طرح لفظ ’’افسانہ نویس‘‘ کا اس پر اطلاق ہوجانا ہی کافی ہے۔ خوب اچھی طرح ایک مبتدی کو سمجھ لینا چاہیے کہ ان آٹھ طرح کے افسانہ نویسوں میں سے کوئی بھی صحیح معنی میں افسانہ نویس نہیں۔ سوائے قسم اوّل کے اور مبتدی کو طے کرلینا چاہیے کہ اس کو سوائے پہلی قسم کے اور کسی طرح کا افسانہ نگار بننا کسی طرح بھی منظور نہیں۔

    (یہ تحریر مرزا عظیم بیگ چغتائی کی ہے، وہ ممتاز طنز و مزاح نگار، اور ادبی مضمون نویس تھے)

  • "چودھری صاحب سے میری پہلی ملاقات!”

    "چودھری صاحب سے میری پہلی ملاقات!”

    چودھری صاحب سے میری پہلی ملاقات تو جب ہوئی جب میں دوسری جماعت میں داخل ہوا۔ جس وقت میں درجہ اوّل میں آیا تو دیکھا کہ چودھری صاحب مرغا بنے ہوئے ہیں۔ اس مبارک پرند کی وضع قطع چودھری صاحب کو مجبوراً تھوڑی دیر کے لیے اختیار کرنا پڑتی تھی۔

    وہ میرے پاس آکر بیٹھے اور سبق یاد کرنے کے وجوہ اور اس کے خطرناک نتائج پر گفتگو رہی کہ ماسٹر صاحب کے ڈنڈے نے یہ عارضی صحبت درہم برہم کر دی۔ میں تو گرفتار تھا اس لیے بچ گیا۔ اور چودھری صاحب الگ بٹھائے گئے۔ یہ تو گویا پہلی ملاقات تھی۔ اس کے بعد کالج تک ساتھ رہا۔

    بی۔اے میں چودھری صاحب عازمِ بیت اللہ ہوئے۔ حج کرنے میں سب سے زیادہ خطرہ اس بات کا تھا کہ حاضریاں کم ہوجائیں گی اور امتحان میں شرکت کی اجازت نہ ملے گی۔ چنانچہ یہی ہوا کہ حج سے جو واپس ہوئے تو اپنا نام کالج کے نوٹس بورڈ پر آویزاں پایا۔ ان لڑکوں کی فہرست میں جو کالج سے غیر حاضر رہنے کی پاداش میں امتحان سے روکے جانے والے تھے۔

    ‘‘ذرا غور تو کیجیے’’ چودھری صاحب بولے۔ ‘‘یہ ستم نہیں تو اور کیا ہے۔ اگر کرکٹ کی ٹیم مہینے بھر کے لیے باہر جائے تو سب کو حاضریاں ملیں۔ اگر لڑکے چتوڑ کا قلعہ اور دہلی کے کھنڈر دیکھنے جائیں تو شعبٔہ تاریخ کے پروفیسر صاحب اس سیر سپاٹے کو حصۂ تعلیمی سمجھ کر حاضریاں پوری کروائیں۔ آخر تکمیلِ دینیات کے سلسلے میں اگر کوئی حرمین شریف جائے تواس کو کس بنا پر پوری حاضریاں نہ ملیں؟ جیسے اور مضامین مثلاً اقتصادیات و تواریخ ہیں ویسے دینیات بھی لازمی مضمون ہے۔’’

    ان کی کوششیں رائیگاں نہ گئیں اور محکمۂ دینیات کے پروفیسروں نے چودھری صاحب کی پوری حاضریاں دلوائیں اور امتحان میں شرکت کی اجازت مل گئی۔

    حج سے پہلے وہ چودھری صاحب تھے اور حج کے بعد‘‘الحاج الشذری الہندی۔’’

    بہت غور وخوض کے بعد تمام عربی قواعد کو ملحوظ رکھتے ہوئے حجاز میں پہنچ کر لفظ‘‘چودھری’’معرب ہو کر‘‘الشذری ’’ہو گیا تھا۔ اور یہ ارتقائی نشو و نما چودھری صاحب کی ذات شریف میں اس قدر حلول کر گئی تھی کہ خالص عرب کا باشندہ تو کوٹ پتلون بھی پہن سکتا ہے، مگر ‘‘الشذری’’ اس سے مجبور تھے۔ اور عربی جبہ وقبہ پسند کرنے لگے تھے، لیکن باوجود مختصر ڈاڑھی اور عربی لبادہ اور انتہائی کوشش کے وہ کسی طرف سے عرب معلوم نہ ہوتے تھے۔

    میں نے اور انھوں نے تعلیم ساتھ پائی تھی۔ دونوں کی عربی دانی کی قابلیت بھی برابر تھی۔ اگر وہ روانی کے ساتھ قرآن مجید پڑھ سکتے تھے تو اٹک اٹک کر میں بھی پڑھ سکتا تھا۔ رہ گیا سوال معنیٰ کا تو یہ کبھی طے نہ ہوسکا کہ میں اس میں ان پر فوقیت رکھتا ہوں یا وہ مجھ پر۔ لیکن حج سے واپس آنے کے بعد ان کو بہت سی چیزوں کی عربی معلوم ہوگئی تھی اوراس کا میرے پاس کوئی علاج نہ تھا۔

    (اردو کے ممتاز طنز و مزاح نگار مرزا عظیم بیگ چغتائی کی شگفتہ تحریر سے اقتباس)